Saturday 23 March 2019

Client kay qissay ... Mazay mazay kay (2)


Article # 3

(کلائنٹ کے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے (2

شیمپو کا ٹی وی اشتہار
اور فیمیل ماڈل کے بال نہ دارد ۔۔۔ بال بال بچ گئے 

تحریر :اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں ہماری بھی جان پر بن آتی ہے اور اس وقت امداد غیبی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایڈورٹائزنگ سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ کلائنٹ سے کانسپت منظور کرانا کبھی کبھی سوہان روح بن جاتا ہے۔ اگر بریف Focussed اور To the point نہ ہو یا کلائنٹ خود کلیئر نہ ہو تو کریٹیو کی زندگی عذاب میں آجاتی ہے۔ ویسے کلائنٹ سروس کی سکینڈ ہینڈ بریف (میں جسے لنڈا بریف کہتا ہوں) جس میں وہ اپنی ذاتی Creativity کو کلائنٹ کی بنا کر پیش کرتا ہے وہ بھی کام کو ٹریک سے ہٹا دیتی ہے۔
ٹی وی اشتہار کو دیکھنے والے ایک ہی بار میں اشتہار کو پسندیدگی اور نا پسندیدگی کے خانہ میں رکھ دیتے ہیں جو ان کا حق ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک اشتہار کے پیچھے کتنے ہفتے یا مہینے لگے ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے اسٹریٹیجئ آئیڈیئے ،کانسپٹ اور پھر اسٹوری بورڈ ان تمام مراحل کے Pre -Production Meeting جس میں تمام جزئیات یعنی لوکیشن ،ماڈلز کا انتخاب ، ان کا لباس و میک اپ ۔ ماڈلز کا انتخاب کبھی کبھی خون پی جاتا ہے۔ خاص طور پر فیمیل ماڈلز کا انتخاب مشکل ترین ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ شوٹنگ میں کیا کیا مصیبتیں ہمارے استقبال کے لئے فرش راہ ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی تو پکڑے جاتے ہیں اور کبھی جیسا کہ پہلے کہا امداد غیبی ہو جاتی ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے (جو کہ کئی دفعہ کا ذکر ہے) ایک شیمپو کا کانسپٹ کلائنٹ نے منظور کر لیا ۔ اب بات چلی شوٹنگ کی جس کے لئے لاہور کے ایک اسٹوڈیو میں کانسپٹ کی مناسبت سے دیو ہیکل دروازے والی کھلی جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ آدھا اشتہار پرانے دور اور آدھا نئے دور پر مبنی تھا۔ پرانے دور کے لئے اسٹوڈیو کا انتخاب کیا گیا تھا۔ شوٹنگ میں دو روز رہ گئے تھے مگر پرانے دور کے لئے فیمیل ماڈل فائنل نہیں ہو پارہی تھی۔ ایک دن پہلے میں نے دوپہر میں لاہور ہی کی ایک لمبے بال والی ماڈل منظور کرائی اور شام کی فلائٹ سے عازم لاہور ہوگیا۔
رات میں ڈائریکٹر صاحب کو بتایا کہ یہ ماڈل منظور ہوئی ہے۔ ڈائریکٹر نے Arranger کو لڑکی کا نام بتایا اور کہا کہ صبح شوٹ ہے۔اب دوسری طرف سے Arranger نے بم پھاڑ دیا۔ پتہ چلا کہ تصویر 6 ماہ پرانی ہے اور اب اس لڑکی کے بال بہت چھوٹے ہیں۔ہمارے تو پسینہ چھوٹ چھاٹ گئے۔صبح شوٹنگ اور فیمیل ماڈل کے سر پر بال نہ دارد ۔ طرفہ تماشا جو ہونے والا ہے وہ یہ کہ صبح کلائنٹ شوٹنگ پر تشریف لانے والے ہیں۔ ہم سب کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ ڈائریکٹر نے کہا فکر نہ کریں۔ وگ پہنا دیں گے ۔ کمپیوٹر پر ایسی کاریگری کریں گے کوئی پکڑ بھی نہیں پائے گا ۔ میں نے کہا "کلائنٹ شوٹ پر موجود ہوگا اس کی آنکھوں میں دھول کیسے جھنکیں گے؟ "۔ ڈائیریکٹر صاحب نے بڑے سکون سے کہا کہ شوٹنگ آگے بڑھا دیں ۔ ایجنسی یہاں پھنس جاتی ہے۔ شوٹنگ بہانہ کر کے ملتوی کر دیتے اگر کلائنٹ نہ آرہا ہوتا ۔ فیصلہ وگ کے ساتھ شوٹنگ کرنے کا ہوا۔ رات سوچتے سوچتے کٹ گئی۔ ذہن ماڈلز کی زلفوں پر اٹکا رہا ۔ میں آخر تھا تو ملازم ہی بقول جوشش عظیم آبادی:
اے زلف یار تجھ سے بھی آشفتہ تر ہوں میں
مجھ سا نہ کوئی ہو گا پریشان روزگار
صبح ہوئی۔ شوٹنگ میں جگہ جگہ نا گہانی لکھی تھی ۔ ڈائریکٹر صاحب بلا کے ٹھنڈ پروگرام تھے۔ بادشاہوں کے دور کا بازار دکھانا تھا۔انہوں نے رسیاں باندھ کر چادریں لٹکا دیں اور اپنے طور پر بازار سجا دیا۔ جان جل کر رہ گئی لیکن عین وقت پر کوئی بڑی تبدیل ممکن نہیں تھی۔ بازار کے ماسٹر شاٹ کو تبدیل کرنے کا ارادہ کر لیا۔
شوٹنگ سے پہلے کیا دیکھتے ہیں کہ خواتین برقع اوڑھے پھر رہی ہیں۔ میں حیران کہ ان کا یہاں کیا کام ؟ ڈائریکٹر کے اسسٹنٹ سے پوچھا کہ یہ عورتیں یہاں کیوں مٹر گشتی کر رہی ہیں ؟ تو اس نے مٹر گشتی پر ایک نامعقول لطیفہ سنا کر دوستی کرنے کی کوشش کی ۔ میں نے کہا کہ مغلوں کے زمانے تک برقع نہیں آیا تھا۔ پالکی میں خواتین آیا جایا کرتی تھیں۔ اسسٹنٹ نے کہا یہ عورتیں تو خاص طور شوٹنگ کے لئےHire کی گئی ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کے برقع اتارو۔اب جو برقع اتارے تو اندر سے مرد برآمد ہوئے۔تو تو میں میں ہو گئی اس غلط بیانی پر لیکن معاملہ رفع دفع ہو گیا۔
مجھے اپنی ہی بات سے یاد آیا کہ بازار تو ادھورا ہے ، پالکی دکھا کر اس زمانے کا تاثر قائم ہوسکتا ہے۔ کوئی بندہ پالکی لانے کو تیار نہیں۔ ڈائریکٹر کی نوابیت قائم و دائم تھی اور ہمارے ہوش وحواس اڑے ہوئے تھے ۔ہم جانتے تھے کہ ڈائریکٹر تو کمرشل دے کر چلا جائے گا اور اگر کلائنٹ نے اس میں تبدیلی کا کچھ کہہ دیا یا یہ کہہ دیا کہ آپ نے جو کچھ کانسپٹ سناتے وقت بتایا تھا اس میں وہ سب کچھ اس میں نہیں تو ایجنسی کو تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
کسی نے بتایا کہ اسٹوڈیو کی ایک طرف اداکارہ ریما کے گھر کے قریب پالکیاں شوٹنگ کے لئے کرائے پر ملتی ہیں۔ ہم پہنچے تو وہاں بنا دلہن کے پالکیاں ہی پالکیاں تھیں جو پسند آئی اس کا کرایہ 5 ہزار روپے اور لےجانا لانا ہماری ذمہ داری ۔ اب سوچیں لگ رہا تھا یہ شوٹنگ نہیں ہم شادی کرا رہے ہیں۔ سوزوکی میں پالکی لائی گئی۔
جس سے پالکی لینے گئے وہ بھی پر مزاح شخص تھا۔ میں نے کہا کہ 5 ہزار زیادہ ہیں تو مسکرا کر بولا " 5 ہزار میں ایک 0 بڑھا دین تو دلہن بھی ساتھ دے دیں گے"۔میں نے چڑ کر کہا اور اگر میں 5 ہزار میں ایک 0 کم کردوں تو فورا بولا کہ 2 بندے ساتھ کردوں گا جہاں سے اٹھانا چاھیں اٹھا لیں۔ تھانہ کا خرچہ پانی آپ کی ذمہ واری ۔ میں ایک غیر مانوس شخض سے اس کی حاضر جوابی اور زندہ دلی پر مسکرا کر رہ گیا۔خیر پالکی آگئی یوں سمجھیں کہ پلکی پلکوں پر رکھ کر لایا تھا کیونکہ پالکی والے نے کہہ دیا تھا ٹوٹ پھوٹ آپ کی ذمہ واری ہوگی۔
ماڈل آئی تو اس کے بال گھٹنوں سے نیچے جا رہے تھے۔ جی چاہ رہا تھا کہ نوچ کر پھینک دیئے جائیں۔ وگ تھی کسی وقت بھی پکڑے جا سکتے تھے لیکن کیا کرتے کوئی Option نہیں تھ۔ ساری Arrangements ہوچکی تھیں۔ شوٹنگ کینسل کریں تو خرچہ ڈبل ۔کلائنٹ کو بتائیں تو مصیبت کہے گا کیسے پروفیشنلز ہیں جس ماڈل نے بال کٹوا دیئے وہ approval کے لئے دی ہی کیوں ؟ ایک طرف گھاٹی ہے تو ایک طرف کھائی جوہونے والا ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔
کچھ دیر بعد کللائنٹ آگئے ان کے لئے کرسی میز اور کھانے پینے کا سامان سجا دیا گیا۔ جگہ کافی تھی انہیں شوٹنگ کی جگہ سے اتنا دور بٹھا دیا گیا کہ اصلی اور نقلی بالوں کا فرق پتہ نہ چل سکے۔ کچھ دیر بعد کلائنٹ نے کہا کہ ماڈل کے بال تو بہت گھنے اور بڑے ہیں ۔ ہم بھی تو دیکھیں۔یہ ایک عام سی بات ہے اگر کلائنٹ شوٹنگ پر آئے تو اس کی ڈائریکٹر اور تمام ماڈلز سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔ کلائنٹ گھنے لمبے بالوں والی ماڈل کے بال دیکھنا چاھے اور ہم بہانہ پر بہانہ کئے جائیں کہ شوٹ ہو جائے تو ملواتے ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ ہونے کیا والا ہے۔ اس روز لاہور کا موسم ہلکا یلکا ابر آلود تھا مگر ہمارا دھیان اس طرف کہاں تھا ۔ جو مینہ ہن پر برسنے والا تھا ہم تو اس کے لئے "جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹل تو " پڑھ رہے تھے۔
لائنٹ کا اصرار بڑھتا گیا۔ ہم نے دور سے اسسٹنٹ کو اشارہ کیا کہ ماڈلز کو بھیجو اور جل تو جلال تو پڑھنا شروع کردیا ۔ابھی ماڈلز ایک دو قدم ہی چلے تھے تو یقین جانیں بغیر کسی مبالغہ کے کہہ رہا ہوں کہ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ کھلی جگہ تھی سب اٹھکر بھاگے۔ پھر کہاں کے ماڈلز اور کہاں کی شوٹنگ۔ کلائنٹ نے پوچھا تو ہم نے کہا کہ بالوں والی ماڈل کے کپڑے اور بال بری طرح بھیگ گئےہیں۔ وہ میک اپ وین میں ہے ۔ بال سکھا رہی ہے۔ کلائنٹ بھی جلدی میں تھے ۔بولے " ٹھیک ہے ملنے کئ کوئی ضرورت نہیں ۔شوٹنگ بہت اچھی جا رہی ہے ۔خاص طور پر ماڈلز کے بال دیکھکر طبیعت خوش ہو گئی " ہم نے کہا "سر سلیکشن تو آپ ہی کی ہے"۔ دیکھا آپ نے کتنی ناگہانیاں ایک شوٹنگ میں آجاتی ہیں۔ ہم نے پروردگار کا شکر ادا کیا کہ بال بال بچ گئے۔ یہ کمرشل ٹی وی پر بہت چلا اور کوئی پکڑ نہیں پایا کہ بال اصلی تھے کہ نقلی ۔۔۔ واقعی جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ۔
لالہ مادھو رام جوہر کا یہ شعر پڑھنے کو بار بار دل چاہ رہے ہے۔ آپ بھی سن لیجئے۔
برسات کا مزہ ترے گیسو دکھا گئے
عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...