Showing posts with label Creativity. Show all posts
Showing posts with label Creativity. Show all posts

Monday, 29 November 2021

ڈاکیا ڈاک لایا ۔۔۔ گزرے زمانے کے پوسٹ میں پر ایک دلچسپ تحرہر ۔ An article on Postman. Article # 90


Article # 90


ڈاکیا ڈاک لایا
ہمارے محلے کے ڈاکیا ۔۔۔ انصار بھائی

تحریر : اظہر عزمی


ہمارے بچپن کے کراچی میں بھی کیا کیا زمانے گزرے ہیں ۔ ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے جب لڑکی کے رشتے کے وقت لڑکے والے پوچھ لیا کرتے کہ لڑکی خط لکھ اور پڑھ لیتی ہے ۔ جواب ہاں میں ہوتا تو سمجھیں لڑکی پڑھی لکھی ہے ۔ اب جب خط کی بات ہو گئی تو ڈاکیا کا ذکر بھی آئے گا ۔

ڈاکیہ کو قاصد اور نامہ بر بھی کہا جاتا تھا اور اردو شاعری میں شاعروں نے کیا کیا مضمون نہ باندھے ۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مرزا غالب

مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
امیر مینائی

اردو ادب میں خطوط ایک صنف شمار ہوتی ہے ۔ خطوط غالب سے کون واقف نہیں ۔ اسی طرح صحرا نورد کے
خطوط ( میرزا ادیب ) ، مکاتیب اکبر ( اکبر الہ آبادی ) ، منٹو کے نادر خطوط وغیرہ وغیرہ۔
کہتے ہیں زمانہ قدیم میں اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے ڈاک ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچائی جاتی تھی۔ برصغیر پہلا ڈاک خانہ 1837 میں قائم ہوا اور یوں انگریزی کا پوسٹ میں ہمارے لیے ڈاکیا کہلایا ۔ زیادہ پیار آتا تو ڈاک بابو بھی کہہ دیا جاتا ۔

سہیل رعنا کے موسیقی کے پروگرام میں مونا سسٹرز کا گایا یہ گانا آج بھی بہت سے ذہنوں میں محفوظ ہوگا :
ڈاک بابو ، ڈاک بابو
میرا خط لے جاو
نانی اماں کو دے آو
پرسوں میری گڑیا کی سالگرہ ہے

ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہمارے لیے سب سے بڑا ڈاکا ڈاک اور ڈاکیے پر ڈالا ۔ یہ کردار معدوم ہوتا گیا اور اب تو ڈاکیے کو دیکھے دن گزر جاتے ہیں ورنہ اولڈ کراچی میں ڈاکیے کا روزانہ آنا لازم تھا ۔ ڈاکیا خط کے علاوہ ٹیلی گرام اور منی آرڈر بھی لاتا ۔ ٹیلی گرام کا بے وقت چلا آنا چہرے اتار دیا کرتا کہ اللہ جانے کیا خبر آئی ہے ۔ منی آرڈر آتا تو لوگوں کے چہرے کھل اٹھتے ۔ عید آتی تو عید کارڈ بھی اسی ذریعے سے ملتے ۔ غرض ڈاکیا زندگی میں لازم و ملزوم تھا ۔ گھر کے بڑے گھر آتے تو یہ ضرور پوچھا کرتے : کوئی خط تو نہیں آیا ۔

ہمارے محلے میں انصار بھائی ڈاکیا دوپہر میں ایک مخصوص وقت پر ڈاک لایا کرتے ۔ ہم اسکول سے آنے کے بعد اکثر گلی میں کھڑے ہوتے کہ انصار بھائی سائیکل کی ٹڑنگ تڑنگ کے ساتھ خاکی وردی میں ملبوس گلی میں داخل ہوتے ۔ ادھیڑ عمر کے میانہ قامت ، دبلے پتلے انصار بھائی کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی سنجیدگی ۔ بردباری اور خودداری لکھی تھی جسے میں لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔

انصار بھائی ایک مخصوص ٹھیلے میں ڈاک لاتے لیکن گلی کی ڈاک ان کے ہاتھ میں ہوتی ۔ شاید وہ ہر گلی میں آنے سے پہلے ڈاک نکال لیا کرتے تھے ۔ گرمیوں میں سائیکل پر آتے تو وردی اور چہرے پر پسینہ نمایاں ہوتا ۔ کبھی کسی سے ایک گلاس پانی کا نہ مانگا ۔ جس گھر جاتے ہلکے سے گیٹ کھٹکھٹاتے اور ڈاکیا کی آواز لگاتے ۔ عام طور پر جن کو اپنے خط کا انتظار ہوتا وہ پہلے سے گلی میں موجود ہوتے ۔ گلی کی وہ عورتیں جنہیں خط کا انتظار ہوتا ۔ دو تین بار گیٹ جھانکتیں اور پوچھ لیتیں : انصار بھائی تو نہیں آئے ۔

جس کسی کو اپنے انٹرویو لیٹر یا ملازمت کے پروانے کا انتظار ہوتا ۔ اس کی حالت دیدنی ہوتی ۔ پہلے سے گلی میں موجود ہوتا ۔ انصار بھائی اگر اس کے پوچھنے سے پہلے نہیں کا اشارہ کر دیتے تو اس کا منہ اتر جاتا اور اگر ہاں کہہ دیتے تو چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا ۔ ایسے موقع پر ڈاکیا حضرات " خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر " کے مصداق منہ میٹھا کرنے کے لئے رقم کا تقاضا کیا کرتے تھے مگر انصار بھائی نے کبھی ایسا نہ کیا ۔ اگر کچھ دے دیا تو خاموشی سے رکھ لیا مگر خود سے سے کوئی تقاضا نہ کیا ۔ برسوں سے انصار بھائی کا آنا جانا اتھا اس لئے گلی والے ایسے خطوط اور عید تہوار پر ان کا بڑا خیال کیا کرتے ۔
ڈاک سے عید کارڈ اور شادی کارڈ بھی آیا کرتے ۔ جب کسی کا بے وقت ٹیلی گرام لاتے تو انصار بھائی کے چہرے کی سنجیدگی اور بڑھ جاتی ۔ بیرنگ خطوط ( جس میں رقم کی ادائیگی جط وصول کرنے والے کو کرنا ہوتی ) کے معاملے میں انصار بھائی کا اصول بڑا پکا تھا ۔ رقم وصول کیے بنا خط نہ دیتے ۔

انصار بھائی سے متعلق ایک واقعہ پوری گلی میں مشہور تھا ۔ جب کبھی ہم اس کا تذکرہ کرتے تو مسکرا دیا کرتے ۔ بس ہم نے ان کے چہرے پر یہی ایک مسکراہٹ دیکھی تھی ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ انصار بھائی نئے نئے ہماری علاقے میں پوسٹ ہوئے ۔ ہماری پڑوسن جنہیں ہم سب خالہ کہا کرتے تھے ( یہ وہ زمانہ تھا جب محلے میں بڑوں کو خالہ خالو کہنے کا رواج تھا ۔ انکل آنٹی سے کوئی واقف نہ تھا ) کی آواز ذرا بھاری تھی ۔ انصار بھائی نے گیٹ کھٹکھٹایا اور ڈاکیہ کہا ۔ خالہ شاید دوسری طرف تھیں ۔ انصار بھائی نے دوبارہ گیٹ کھٹکھٹایا ۔ خالہ نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں پوچھا : کون ؟ ۔ انصار بھائی نے آواز سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا : خالو باہر تو آئیں ۔ خط آیا ہے ۔
انصار بھائی جو سب کو خط لا کر دیا کرتے تھے ۔ ایک دن بہت خاموشی سے ہماری زندگی سے نکل گئے ۔ ریٹائرڈ جو
ہو گئے تھے ۔ ان کی جگہ پھر ایک نوجوان ڈاکیا نے لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی جگہ کوئی نہ لے پایا ۔  

(تصویر بطور ریفرنس لگائی گئی ہے)

Monday, 6 September 2021

Karachi ki chowrangian aur nukar. Article 86

 

Article 86


کراچی کی چورنگیاں ، چوک اور نکڑ 
کہیں کھو گئے ، ہم بڑے یو گئے 

تحریر : اظہر عزمی 



کوئی مانے نہ مانے مگر میرا بچپن یہ کہتا یے کہ کراچی چورنگیوں کا شہر تھا ۔ کتنے بس اسٹاپ ان سے منسوب تھے ۔ ہر دو تین کلو میٹر کے فاصلے ہر سرسبز ، ماحول دوست چورنگیاں کراچی والوں کے لئے شام کو پارک ہوا کرتی تھیں ۔ والد صاحب یر دوسرے تیسرے روز ہمیں سر شام ناظم آباد پہلی چورنگی لے جایا کرتے جہاں ہم گھنٹوں کھیلتے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹریفک کے بے لگام گھوڑے نے ان چورنگیوں کو روندھ ڈالا ۔ پہلے چورنگیاں چھوٹی ہوئیں اور پھر چورنگی کراچی کی زندگی سے نکل گئیں ۔ اب جو چورنگیاں بچی ہیں وہاں کراچی والوں کے لئے ماضی کی یادیں رہ گئی ہیں ۔

چورنگی کے علاوہ بازاروں اور محلوں میں جہاں دو سڑکیں ایک دوسرے کو کراس کریں یا چار راستے آکر ملیں اسے چوک کہا جاتا ہے ۔ چوک ہر چھوٹا سا چبوترا بنا یو تو محلے کے بے فکرے یہاں بیٹھ جاتے ہیں ۔ گلی کے کونے کو نکڑ کہا جاتا ہے ۔  کچھ نکڑوں ہر دکان بھی ہوتی جہاں شام کو محلے کے بزرگ  بھی آکر کھڑے ہوجایا کرتے  ۔ دکان والا اپنی دو ایک کرسیاں باہر ڈال دیا کرتا جس میں ایک کرسی کے چوتھے پائے کو کیلیں  ٹھونک کر قابل بیٹھ بنایا جاتا جو بھی بیٹھتا اپنا وزن محفوظ حصے پر ڈالے رکھتا ۔ دوسری کرسی کی حالت بھی نا گفتہ با ہوتی   ایک نہ ایک کیل بیٹھنے والے کو احساس دلاتی رہتی کہ ذرا ادھر ادھر ہوئے تو ایسے چبھوں گی کہ کسی کو بتا بھی نہ پاو گے ۔ اب حالت و واقعات پر گفتگو بگھاری جاتی ۔
 پہلے کونے والے گھر پر ذرا سنجیدہ طبع اور لئے دیئے رہنے والے نکڑ ہر کرسیاں بچھا کر بھی بیٹھا کرتے تھے ۔ نکڑ تو آج بھی ہیں لیکن کچھ حالات اور کچھ اسٹیٹس کے باعث یہ نکڑ چند ایک علاقوں میں رہ گئے ہیں ۔ ان تمام نکڑوں کے کردار بھی بہت دلچسپ یوتے تھے 
ّّّّ__________________________________________________________________________
اگر آگے پڑھنا چاھیں تو ۔۔۔۔

نکڑ والے خالو اور منوں بھائی کی درخواست
 
یہ ہمارے بچپن کے دن تھے ۔ سکون کا زمانہ تھا لوگوں کو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جنون نہ تھا نہ یی ایک دوسرے سے حسد اور کینہ تھا ۔ سب اپنے اپنے حال میں خوش تھے اور کھا کما رہے تھے ۔ آپا دھاپی  نہ تھی ۔ پرانے محلے میں جب ھوش سنبھالا تو گلی کے ایک نکڑ کو سر شام آباد دیکھا ۔ پہلے گلی گلی سڑکیں نہ تھیں ۔ گلیاں کچی ہوا کرتی تھیں ۔ شام کو پہلے نکڑ پر ہلکی سی جھاڑو دینے کے بعد پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تو ایک سوندھی خوشبو فضا کو مہکا دیتی ۔

اس کے بعد لکڑی کی کھٹ کھٹ کر کے بند ہونے والی تین کرسیاں آتیں اور پھر ایک مخصوص وقت پر نکڑ والے خالو ہاتھ منہ دھو کر ، بیچ کی مانگ نکالے کرتے پائجامے میں آکر بیٹھتے اور کچھ دیر بعد گلی کے مصور میاں اور شکور پھوپھا ان دو کرسیوں پر براجمان ہوجاتے ۔ لیجئے ! نکڑ والے خالو ایک تین کرسی والا  دربار سج گیا ۔ دروازے ہر خس کی ٹٹی پڑی ہوتی جس پر ایک مخصوص وقت پر ٹرے میں سجے چائے کے تین کپ آجاتے ۔

نکڑ والے خالو کی ملازمت اس وقت ایک باہر کی کمپنی میں تھی ۔ کلرک سے اوپر کی ہوسٹ تھی ۔ آمدن نسبتا اچھی تھی ۔ گھر والے بتاتے ہیں ایک زمانے میں ٹائی کوٹ آور ہیٹ لگا کر سائیکل پر دفتر جایا کرتے تھے ۔ سائیکل کا ہونا اس وقت آج کی مہنگی گاڑی جیسا تھا ۔ پڑھے لکھے نفیس آدمی تھے لیکن تھے سیدھے اور اس پر غصے کے تیز ۔ انگریزی اس وقت تک صرف ان ہی کو آتی تھی ۔ کوئی تار آجائے تو نکڑ والے خالو کے آنے کا انتظار ۔۔۔ اور اس وقت تک جس گھر میں تار آیا ہوتا وہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوئے جاتے ، اللہ جانے کیا لکھا ہے ؟ سو سو طرح کے وسوسے آتے ۔ خاندان کے تمام بوڑھے بوڑھیوں کو بند آنکھوں کے ساتھ  کہیں جاتے دیکھا جاتا ۔ نکڑ والے خالو کے انتظار میں اس گھر کا ایک فرد پہلے ہی نکڑ پر کھڑا ہوتا ۔ ابھی خالو گھر میں بھی نہ گھستے  کہ تار سے خوشیوں کی جلترنگ یا غم کی شہنائی بجتی اٹھتی ۔

ہم بڑے ہوتے گئے اور خالو جوانی سے ادھیڑ عمری میں قدم رکھتے گئے ۔ خالو نکڑ والے سیاست کے رسیا تھے اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے ۔ اس زمانے میں ڈان اخبار پڑھا کرتے تھے ۔ روزانہ کی بنیاد ہر عالمی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد خالو کی سرکردگی میں قائم تین رکنی بہت دور رس فیصلے کرتی جس میں فیصلہ سازی کے لیے فیصلہ کن کردار خالو کا ہوتا ۔ اگر مصور میاں اور شکور پھوپھا کہیں اپنا پلڑا بھاری کرنا چاھتے تو خالو ڈان کی مار مارتے اور دوران گفتگو ایک دو لائنیں انگریزی کی بول کر بات کی ختم کر دیا کرتے ۔

سب سے دلچسپ مرحلہ اس وقت آتا جب محلے کا کوئی شخص ان سے انگریزی میں درخواست لکھوانے آتا ۔ جب کوئی درخواست لکھوانے آتا تو خالو کے چہرے پر تفاخر کا ایک ہی الگ ہی رنگ آتا ۔ پہلے  کسی بڑے وکیل کی طرح آنکھیں بند کر کے کیس سنتے پھر اس کے بھید جاننے کے لیے اعتراضات کے نکات اٹھاتے ۔ جب مکمل تسلی و تشفی ہو جاتی تو قلم چل پڑتا ۔ 

روشنائی (Ink) والے اپنے مخصوص پین سے درخواست لکھتے ۔ اس وقت ایسا سناٹا یوتا جیسے جج صاحب کسی قتل کے ملزم کا فیصلہ لکھ رہے ہوں ۔ سب کی نظریں پیپر پر ہوتیں ۔ خالو جب ان کی طرف دیکھتے تو سب پیچھے ہو جاتے ۔ خالو کو جب اردو کا مدعا انگریزی  میں لکھتے ہوئے صحیح الفاظ کے چناو میں دقت ( میرا خیال ہے ) پیش آتی تو وہ پین کو جھٹکتے جس کے چھینٹے دائیں جانب  بیٹھے درخواست گزار کے کپڑوں ہر آتے مگر اس وقت کس میں بولنے کی تاب تھی ۔
 
 خالو بڑی عرق ریزی سے پیپر ہرانگریزی اور درخواست گزار کے کپڑوں پرانک ریزی کے دریا بہا دیتے ۔ کوئی بھی زخص
 شخص کپڑوں ہر چھینٹے دیکھ کر با آسانی بتا سکتا تھا کہ درخواست کس قدر مشکل تھی جسے خالو نے لفظوں کے قالب میں ڈھال دیا ۔ جس طرح آج ڈاکٹر مہنگی لکھ دے تو مریض کو یقین آجاتا ہے اب علاج یقینی ہے ۔ اسی طرح لوگ کپڑوں پر چھینٹے دیکھ کر درخواست کی قبولیت کا اندازہ لگا لیا کرتے ۔ اگر درخواست گزار کے کپڑوں پر چھینٹے کم ہوتے تو لوگ کہتے تھے کہ خالو انگلیاں قلم کر کے لکھتے ہیں ۔ درخواست میں جھوٹ کا کھوٹ ہے بھائی ۔ دیکھ لینا اب اس کے چھینٹے بعد میں پڑیں گے ۔ یوں سمجھ لیں وہ درخواست نہ ہوتی درخواست گزار کا کریکٹر سرٹیفیکٹ ہوتا ۔

ہم نے اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد خالو کو ایک درخواست لکھتے دیکھا ۔ پہلے درخواست گزار منوں بھائی کی ہوری بپتا سنی ۔ اس میں چند قابل پکڑ باتیں پکڑیں ۔اس کے بعد درخواست لکھنا شروع کر دیا ۔ خالو نے درخواست لکھنے اور منوں بھائی کے کپڑوں پر پڑے چھینٹے دیکھنے کے بعد منوں بھائی سے نیچے دستخط کرنے کو کہا ۔ منوں بھائی ذرا حجتی قسم کے آدمی تھے ۔ آنکھیں پھاڑ کر ہونقوں کی طرح ہوچھ بیٹھے : کیا لکھا ہے ؟ ۔خالو نے بڑے اطمینان سے کہا : ریاض شاہد کی فلم زرقا دیکھی ہے ؟ منوں بھائی نے ناں میں سر ہلایا ۔ خالو بولے : وہ لکھی ہے ۔ منوں بھائی نے حیرت سے دیکھا ۔ خالو نے تنک کر کہا : میاں کیا ہو گیا ہے جو تم نے کہا وہی لکھدیا ہے ۔

منوں بھائی نے سکھ کا سانس لیا ، اصرار کیا : پھر بھی کچھ تو بتا دیں ۔ خالو نے لحاظ میں گنگنائے کے انداز میں ہوں ہوں کرتے انگریزی پڑھی اور پھر بتا دیا ۔ منوں بھائی نے کہا : میں نے یہ کب کہا تھا ؟ اب گویا آپ نے خالو چھیڑ دیا : نہیں اپنے گھر سے لایا یوں ۔ میرے دماغ میں کیڑا کلبلا رہا تھا ۔ اسے کاغذ پر منتقل کردیا ہے ۔ کہنے اور لکھنے میں فرق ہوتا ہے ۔ 
منوں بھائی چٹے ان پڑھ اور کوڑے مغز تھے : یہ تو کوئی نہ بات ہوئی ؟  خالو نے درخواست منوں بھائی کو تھمائی : یہ لو اور اب میرے پاس درخواست لکھوانے نہ آنا ۔
 
منوں بھائی نے درخواست لی اور چل دیئے ۔ ابھی دو قدم گئے تھے کہ خالو نے آواز دی : سنو ۔ ہم سمجھے کہ خالو درخواست میں تبدیلی کے لئے تیار ہو گئے ہیں ۔ منوں بھائی آئے تو ہین ان کی طرف بڑھایا : یہ ہیں اپنے ساتھ لے جاو  جب دماغ نام کرنے لگے تو اسی پیج ہر جہاں میں نے بتایا ہے وہاں دستخط کردینا ۔ کسی اور رنگ کے پین  سے دستخط کئے تو یہ اصول کے خلاف بات ہے ۔ منوں بھائی نے ہین لیا ۔ خیال تھا کہ وہ چلے جائیں گے لیکن نہ جانے ان کی عقل میں کیا آئی کہ انہوں نے وھیں دستخط کئے اور ہین واپس کر کے چل دیئے ۔ خالو سے ہاتھ ملاتے ہوئے منوں بھائی کی آنکھوں میں لکھی معذرت اور شکریہ دونوں صاف پڑھے جا رہے تھے ۔

Maan ko awal rakhein .Article 85

 

Article 85


ماں کو اول رکھیں ورنہ آپ نامکمل ہیں
" میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے "

تحریر : اظہر عزمی 



حج بیت اللہ اور عمرے میں سعی کا ذکر آئے تو مسلمانوں کے ذہنوں میں فورا دو چھوٹی پہاڑیوں "صفا" اور "مروہ" کا نام آتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیّدہ ہاجرہ اور ننھے اسماعیل کو کھانے پینے کی کچھ چیزوں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے ریگستان میں چھوڑ دیا تھا ۔

کچھ وقت کے بعد ماں بیٹے کے پاس موجود اشیاء ختم ہو گئیں ۔ ننھے اسماعیل کو بلا کی پیاس تھی ۔ اس پر سیدہ حاجرہ صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئیں کہ شاید اپنے اور اپنے بیٹے کو بھوک اور پیاس سے بچانے کے لیے کچھ مل جائے ۔ سیدہ ہاجرہ وہاں سے اُتریں اور پھر مروہ کی پہاڑی پر چڑھ دوڑیں ۔ اسی طرح سات مرتبہ کیا ۔ یہ ماں کی مامتا تھی جو پرودگار عالم کو اتنی پسند آئی کہ اسے حج اور عمرے کا رکن بنا دیا ۔۔   __________________________________________________________________________________
ماں تو اول و آخر ماں یے ۔ اولاد کے لیے سعی ( کوشش ) اس کی سرشت میں ہے ۔ ماں جیسا کوئی ہے نہ ہو سکتا ہے ۔ پروردگار عالم نے اپنے کتنے ہی اوصاف ماں کو عطا کر دیئے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ مخلوق سے اپنی محبت کا پیمانہ بھی ماں کو بنایا ہے ۔ پروردگار عالم ستر ماوں سے زیادہ ہم سے پیار کرتے ہیں ۔
 
انسان کے تمام اعمال کے نتیجے میں ملنے والے صلے " جنت " کو ماں کے پیروں تلے رکھ دیا ۔ وہ چاھتا تو پیروں کے اوہر رکھ دیتا ۔ ہاتھ یا ماتھے پر رکھ دیتا ۔  پرودگار نے اولاد کو ماں کا مقام بتا دیا ۔ وہ جنت جس کے لئے تم لاکھ جتن کرتے ہو ۔ وہ ماں کے پیروں کے نیچے ہے ۔ جنت حاصل کرنا کتنا مشکل تھا اگر ماں نہ ہوتی ۔

ماں پر بہت لکھا گیا ہے اور جتنا لکھا گیا ہے اتنا ہی کم لکھا گیا ہے ۔ ماں پر بڑھاپا آجائے تو اس کا مزاج بچوں جیسا ہو جاتا ہے ۔ ایک ایک بات کو بار بار دھرانا ۔ کسی ایک بات ہر بتائے بغیر خفا ہوجانا ۔ ہر بات میں جلدی کرنا ۔ بیٹھے بیٹھے اداس یا خوش ہوجانا ، اپنی کہی بات کہہ کر بھول جانا اور اس ہر یہ کہنا کہ میں بھولتی کچھ نہیں ، ہزار بار کے سنائے قصے سنانا ۔ خاندان اور محلے میں کسی کا انتقال یو جائے تو اس غمگین کیفیت کے ساتھ بتانا جیسے اللہ نہ کرے گھر میں کچھ ہو گیا ہو ۔ بڑھاپا جسم و دماغ پر آتا مگر یہ بھی کتنی عجیب ہے اس کی محبت کا جذبہ کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے ۔
کبھی کہیں نہ جانے پر اصرار اور کبھی ایسا کہ کسی کے ہاں جانا ہو تو وقت سے پہلے تیار ۔ ایک دن ماں کے پاس نہ بیٹھو اور اگر دور رہتے ہو اور ان سے ملنے نہ جاو تو رقت آمیز گلے شکوے ۔

ماں : بیٹا تم تو ہمیں بھول ہی گئے ۔ کب سے شکل نہیں دکھائی ۔ میں نے عدیل ( چھوٹا بیٹا ) سے کہا تھا ذرا فون تو کرو ۔ وہ
نہیں آتے نہ آئیں مگر ہم تو پوچھ لیں ۔۔۔ کیسے ہیں ؟ 

آپ  : امی پرسوں رات ہی تو آیا تھا ۔ 

ماں : ہاں تم گئے ہو اور رات ایسی طبیعت خراب ہوئی ہے کہ پوچھو مت ۔ وہی ٹانگوں کا درد ۔ جب سے بستر پر پڑی ہوں اور اٹھی نہیں ۔

آپ : دوا تو کھا رہی ہیں آپ ؟

ماں : ارے یہ دوا شوا اب کسی کام کی نہیں ۔ بس تم آجایا کرو ۔ میں سمجھوں گی دوا کھا لی ۔

آپ : وہ اصل میں کل آجاتا ۔ شاہ زیب کو رات سے بہت تیز بخار ہے ۔ دفتر سے آٹے ہی اسے ڈاکٹر کے لے گیا تھا ۔ 

ماں : میرے شزو کو بخار یے اور مجھے پتہ ہی نہیں ۔ بہو نے بھی فون نہ کیا ۔ ذرا میری بات کراو ۔
آپ کال ملا کر دیتے ہیں ۔

ماں : ہللو ۔۔۔ میں بات کر رہی ہوں ۔ ہاں وہ شزو کیسا ہے ؟ بخار آ گیا ہے ۔ تم نے بتایا ہی نہیں ۔

بہو : وہ امی ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ بس گلا ٹھسا ہوا یے ۔ ہورے سینے میں جکڑن ہے اسی لیے بخار آگیا ۔ ڈاکٹر کو دکھا دیا ہے ۔

ماں : اچھا ذرا میری اس سے بات تو کراو ۔

ماں : ہللو ۔۔۔ میرے شزو کو بخار آگیا ۔
 
ہوتا : دددا ۔۔۔ امی مجھے ناں ۔ کھانا نہیں دے رہی ہیں ۔ آپ آجائیں ۔

ماں : بخار میں کھانا نہیں کھاتے ۔ جب بخار اترے گا تو جو کہے گا کھا لینا ۔ میں تجھے خود بنا کر دوں گی ۔

پوتا : نہیں ناں ۔ مجھے ابھی کھانا ہے ۔۔۔ زنگر برگر

ماں : یہ نگوڑ مارا زنگر ٹنگر نہ نکلے تیرے دماغ سے
 
پوتا : دددا آپ آجائیں ناں ۔
 
ماں : بس سمجھ میں ابھی آئی پر زنگر ٹنگر نہ دینے کی 

موبائل بیٹے کو دیتے ہی دوسری بہو کو آواز دی جاتی ہے : ارے  شہناز ذرا میری چادر تو لے آئے ۔

آپ : ( حیرت سے ) چادر کیوں ؟
 
ماں : تیرے ساتھ تیرے گھر جو چل رہی ہوں ۔

آپ : کیا ہو گیا ہے ؟ چلا آپ سے جا نہیں رہا ۔ دوسری منزل تک سیڑھیاں کیسے چڑھیں گی ۔

شہناز چادر لے آتی ہے ۔ بیٹھے بیٹھے چادر اوڑھتی ہیں ۔ شہناز بھی حیران ہے اور جیٹھ سے پوچھتی ہے  : بھائی امی کہاں جارہی ہیں ۔ ان سے تو واش روم جانا دوبھر ہے ۔

آپ : ارے میں نے کب کہا ۔ بس انہوں نے شاہ زیب سے بات کی ہے ۔ ہلکا سا بخار ہے ۔ گھر جانے کا کہہ رہی ہیں ۔

ماں کا رعب سامنے آ گیا : ارے تیرے کہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ اب تو مجھے بتائے گا کہ مجھے شزو کے پاس جانا ہے کہ نہیں ۔

آپ : امی ۔۔۔ وہ ۔۔۔ آپ ۔۔۔ سمجھ نہیں رہی ہیں ۔

ماں : سب سمجھ رہی ہوں ۔ چڑھ جاوں گی تیری سیڑھیاں ۔ کیا پہلے نہیں چڑھی ۔۔۔ چل!
اور کسی ایک نہ چلی ۔ ماں چل دی ۔

ماں یونہی تو ماں نہیں ہوتی ۔ وہ اس عمر میں پوتے کی ایک آواز پر جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ کوئی معمولی سا کام پڑ جائے تو سوچتے ہیں ماں سے کل مل لیں گے ۔ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ وہ آپ کے آنے کے وقت سے بہت پہلے آپ کا انتظار شروع کر دیتی ہے ۔ آپ نہیں آتے تو اس پر کیا گزرتی ہے ۔ ماں کو اول رکھیں کیونکہ اس کے بغیر آپ نہ مکمل ہیں ۔ 

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی یے 
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی یے   ( منور رانا)

اور جب ماں دنیا میں نہیں ہوتی یے تو آپ سب کے ہوتے ہوئے بھی اکیلے ہوتے ہیں ۔ ایک ایسا اکیلا پن جس کو رات کی تنہا سسکیاں اور آنکھوں میں نوحہ کناں نمی محسوس کرتی ہے ۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے نظروں سے صدقے اتارتی اور زیر لب دعائیں کرتی ماں کا حصار نہ جانے دن بھر آپ کو کتنی مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچاتا ہے ۔

ماں  تیرے  بعد  بتا ، کون  لبوں  سے  اپنے 
وقت رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا

حضرت موسی علیہ السلام کلیم اللہ تھے ۔ کوہ طور پر خدائے بزرگ و برتر سے ہم کلام یوتے تھے ۔ جب آپ والدہ کی رحلت کے بعد کوہ طور گئے تو غیب سے آواز آئی : اے موسی ( علیہ السلام ) ذرا سنبھل کر اب تمھارے لیے دعا کرنے والے لب خاموش ہوچکے ہیں ۔

" ماں سے ملیں کیونکہ ماں دوبارہ نہیں ملے گی "

Thursday, 17 June 2021

Real Story " The Fighting Train " .Article 82





سچے واقعے ہر مبنی " دی فائٹنگ ٹرین "
دو باراتیں آمنے سامنے اور میں بطور مہمان اداکار


تحریر : اظہر عزمی


دی برننگ ٹرین فلم ہمارے زمانے کی ایک مشہور فلم تھی لیکن یہ خبر نہ تھی ک دی فائٹنگ ٹرین بھی بنے گی جس میں ، ہم بھی بطور مہمان اداکار شریک ہوں گے ۔ فلم کی شوٹنگ کسی سیٹ پر نہیں بلکہ اصل ٹرین میں ایک رات میں بغیر کسی ری ٹیک کے مکمل ہو جائے گی ۔ فلم کی اسٹوری خود بخود بنے گی اور وہ وہ ٹرننگ پوائنٹ آئیں گے کہ بڑے سے بڑے اسٹوری رائٹر کا ذہن بھی ان بلندیوں ، باریکیوں اور تاریکیوں کو چھو نہ سکے گا ۔ برجستہ ڈائیلاگ اور ان کی بے ساختہ ادائیگی کسی ڈائریکٹر کی محتاج نہ ہو گی ۔ فائٹنگ سین مکمل اوریجنل

ہوں گے اور بیک گراونڈ سے ڈھشوں ڈھشوں کی آواز نہ آئے گی ۔

میں اتنی کہانیاں کیوں کر رہا ہوں ۔ سیدھے سیدھے فلم کے اسکرپٹ پر کیوں نہیں آجاتا ۔
فلم کا ایک مہمان اداکار اظہر عزمی ایک چہلم میں شرکت کے لئے رات کی ٹرین سکھر ایکسپریس سے خیرپور میرس جا رہا ہے ۔ دسمبر کی کڑکتی سردی ہے ۔ کمپارٹمنٹ کھچا کھچ بھرا ہے ۔ گیٹ کے ساتھ ایک دیگ رکھی یے ۔ کمپارٹمنٹ میں ایک بارات بھی جا رہی یے ۔ ٹرین وقت مقررہ سے آدھے گھنٹے لیٹ چلتی ہے ۔ کمپارٹمنٹ کے مسافروں کو سردی نے خاموش کردیا ہے ۔ بس بارات کے لڑکوں کی چہکتی آوازیں ٹرین میں زندگی کا احساس دلا رہی ہیں ۔ سیٹوں والے سیٹوں پر باقی ٹرین کے فرش ہر لپیٹے لپاٹے پڑے ہیں ۔

ابھی جنگ شاھی آیا تھا کہ ٹرین میں کچھ گہما گہمی محسوس ہوئی ۔ یہ سوچ کر کہ ٹرین رکنے والی ہو گی مگر نہیں ٹرین تو پٹریوں پر زناٹے کے ساتھ ہوا کا سینہ چیرتی رواں دواں یے ۔ آوازیں بڑھ رہی ہیں جن میں گالیوں کی گرماہٹ محسوس ہورہی ہے ۔ نیچے کے مسافر ایک دم ہڑبھڑا کر اٹھ بیٹھے جیسے کوئی کتا ان کے برابر آکر لیٹ گیا ہو ۔ میں ( مہمان اداکار ) بھی برتھ سے ٹرین کی ارتھ پر آگیا ۔ اندازہ ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے فائٹنگ سین ہوا ہے اور جو مار نہ پایا اب وہ گالیوں کی مار دے رہا ہے ۔ کمپارٹمنٹ میں ہر طرف سراسیمگی ہے ۔ آدھ کھلی آنکھوں کے مسافر حیران و پریشان ہیں ۔ اتنی دیر میں ایک لڑکے کی آواز آتی : چھوڑنا نہیں کسی کو ۔ جانتے نہیں ہیں کن سے پنگا لیا ہے ۔

میں نے ساتھ کھڑے ایک نامعلوم نوجوان مسافر سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ہمارے کمپارٹمنٹ کی بارات سکھر جا رہی ہے اور دوسرے کمپارٹمنٹ کی بارات کراچی سے لڑکی وداع کر کے سکھر واپس جا رہی ہے ۔ نامعلوم نوجوان مسافر بھی سکھر کا ہے ۔ اس نے بتایا کہ اس بارات کے لڑکے ٹرین میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے ۔ برابر والے کمپارٹمنٹ سے گزرے تو برتھ پر سوئی لڑکی سے ایک دو بار کاندھا لگ گیا ۔ کمپارٹمنٹ کے لڑکوں کو یہ کاندھے بازی اچھی نہ لگی اور ہمارے کمپارٹمنٹ کی بارات کے لڑکوں کو کوٹ دیا بلکہ اچھا خاصا دھو دیا ۔

واقعے کی گرمی نے سردی کو موٹا لحاف آوڑھا دیا تھا ۔ شدت کم ہوگئی تھی ابھی جھگڑا تھما نہیں تھا ۔ میں دوسرے کمپارٹمنٹ گیا تو عجب تماشا دیکھا ۔ ایک بزرگ ایک نوجوان لڑکے کو دھبا دھب مار رہے تھے اور اسے مارتے مارتے ہمارے کمپارٹمنٹ میں لے آئے ۔ پتہ چلا کہ یہ ہمارے کمپارٹمنٹ کا دولھا ہے ۔ " دولھگی " کے جوش میں لڑنے گیا تھا ابھی لڑکوں نے سلامی دینا شروع کی تھی کہ باپ نے وہاں آکر دھنائی کر دی ۔ لڑکے پیچھے ہٹ گئے کہ جب گھر کا آدمی یہ کام کر رہا ہے تو ہم اپنے ہاتھ کیوں گندے کریں ۔ ویسے بھی اس سے قبل دوسرے کمپارٹمنٹ والے ہمارے لڑکوں کی توقع سے زیادہ منہ تک خاطر و مدارت کر چکے تھے ۔ اس لئے ہمارے لڑکوں کے سینوں میں انتقام کے شعلے دھک رہے تھے ۔ دولھا کا سوکھا سڑا بھائی آپے سے باھر ہورہا تھا ۔ بلیوں اچھل رہا تھا ۔ جب بھی چھوڑو تو سیدھا کھڑا ہو جاتا ۔ میں نے دولھا کی حالت دیکھی تو کہا :
سہرا باندھے بنا سالوں سے سلامی لینا اچھا شگون نہیں ۔ جو منہ کی حالت ہے آر سی مصحف ہوا تو بیوی نے چیخ مار کر اٹھ جانا یے ۔

تازہ تازہ پٹے دولھا کی چوٹوں کا درد ابھی ٹھاٹے مار رہا تھا۔ اس لئے میری بات کو چھوٹی سی لہر سمجھ کر محسوس ہی نہ کر پایا ۔

اسی دوران میرا نامعلوم نوجوان مسافر میرے پاس آیا اور بولا : ابھی دیکھو اتنی رات ہو گئی ۔ سارے غریب مسافر جاگ گئے ہیں ۔ ان کو بھوک لگی ہوگی ۔ یہ سب لوگ پھڈے میں لگے ہیں ۔ اتنی مار کھانے کے بعد کھانا کیا کھائیں گے ۔ آپ کو بولو تو یہ بریانی مسافروں میں بانٹ دوں ۔ میں نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا : تو کیا مجھے دولھا کا چاچا سمجھ رہا ہے ۔ بول : آپ سمجھدار لگ رہے یو ۔ اس لئے پوچھ لیا ۔ میں نے کہا : تیری مرضی ۔ بڑا ہوشیار تھا ، بولا: اصل میں مجھے دیگ چاھیئے ۔ خالی ہو گی تو اٹھانے میں آسانی ہو گی ۔ میں اسے دیکھتا رہ گیا ۔ ہنسا ، کہنے لگا : یہ فائٹ سکھر تک جائے گی اور میں دیگ لے کر فلائٹ ہو جاوں گا ۔
سکھر والی بارات اس لئے بھی بھاری تھی کہ وہ اپنے شہر جا رہی تھی ۔ دوسرا یہ کہ ان کے بقول بدتمیزی کا قرض مع سود اتارنا لازم تھا ۔ بزرگ ان کے ساتھ نہیں تھے ۔ اس لیے انہیں اوپن گراونڈ ملا ہوا تھا ۔ انہوں نے اپنا حساب تو چکتا کر دیا تھا لیکن پھر بھی دل بھرا نہیں تھا ۔ ہمارے کمپارٹمنٹ والے تو خوردہ ریٹ پر زخم خوردہ تھے ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ٹرین میں ریسلنگ کی جگہ بالکل بھی نہ تھی اور اکثر لاتیں گھونسے ان کو پڑے جو کسی بارات میں شامل ہی نہیں تھے ۔ بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانے تو سنا تھا مگر بیگانے کی لڑائی میں عبد اللہ مار کھائے پہلی بار دیکھا تھا ۔ لوگ ٹکٹ لے کر تماشا دیکھتے ہیں مگر انہوں نے تو ٹکٹ دے کر مار کھائی تھی ۔
جانے کا جرم کی کھائی ہیں لاتیں یاد نہیں

اب صورت حال یہ بنی کہ جب رات کی خاموشی کو توڑتی سیٹی بجاتی ٹرین کسی اسٹیشن پر رکتی تو دونوں گروپ نیچے اترتے تاکہ باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہو سکے ۔ ابھی گریبانوں تک ہاتھ پہنچے ہوتے کہ سیٹی بج جاتی اور متحارب گروپ سوار ہو جاتے ۔ ہم اپنے کمپارٹمنٹ تھے لیکن برابر والے کمپارٹمنٹ کی طرف بھی آ جا رہے تھے ( ہمیں تو اپنی رات گزارنی تھی ) ۔ غیر جانبدار مسافروں نے حالات کی سنگینی اور لڑائی کے بعد ہونے والی رنگینی کو دیکھتے ہوئے دونوں گروپس کو یہ صائب مشورہ دیا کہ لڑائی آپ کا پیدائشی حق ہے مگر ٹرین کی کم وسعتی اس کار خیر کو انجام دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے فی الوقت کوئی بیچ کی راہ نکل لی جائے ۔
دونوں گروپوں سے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی مصالحتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ہم بھی شامل تھے ۔ دونوں طرف سے نمائندہ افراد کو طلب کیا گیا لیکن یہاں بھی کشیدگی برقرار رہی ۔ بارہا ایسا لگا کہ مذکرات کا ڈول ڈالا نہ جا سکے گا ۔ الزامات اور جوابی الزامات لگائے جاتے رہے ۔ کچھ گفتگو آپ بھی سن لیں ۔
سکھر : ایک باری کاندھا مارا ۔ برداشت کر لیا ۔ ناں اشٹاپ تو نہیں چلتا ناں ۔
کراچی: ہاں تو اس کے پیر برتھ سے باہر کیوں جا رہے تھے
سکھر : ابے تو کیا تیری بہن کی بارات جا رہی تھی جو تم لوگ بار بار چکر کاٹ رہے تھے ۔۔۔ ہیں
کراچی : اوئے بہن تک نہ پہنچیو ۔ یہیں گاڑ دوں گا ۔
سکھر : تو گاڑے گا ۔۔۔ تو ۔۔۔ شکل دیکھ آئینے ۔ دیکھ تیرا حلیہ کیسے ٹائٹ کر دیا ہے ۔ سکھر پہنچ پھر تیری مرہم بٹی کا خرچہ اور بڑھاتا ہوں ۔
مصالحتی کمیٹی کے ایک صاحب نے دوسرے گروپ سے کہا :
بھائی یہ آپ کے شہر مہمان ہو کر جارہے ہیں ۔ آپ کے شہر کی لڑکی ان کی بہو بنے گی ۔ کیا اچھا لگے کہ آپ مہمانوں کے ساتھ یہ برتاو کریں ۔ گفتگو اثر کر گئی لیکن ایک لڑکا آگ ٹھنڈی کرنے کے موڈ میں نہیں تھا :
چچا کیا ایسے لوگوں کو منہ لگا لیں ۔ ہم تو اپنے شہر کی لڑکی ایسوں کو تو مر کر نہ دیں ۔ چھچھورے ہیں سارے کے سارے
دولھا کا سوکھا سڑا بھائی اکڑ گیا : چھچھورا ہو گا تو
وہ لڑکا بھی اکڑ کر کھڑا ہو گیا ، بولا : ویسے تو سب چھچھورے ہیں لیکن تو چھیچھڑا ہے ۔
دوسرا بولا : یہ تو چھیچھڑے کا بھی چھیچھڑا ہےب۔ اسے تو کوئی بلی بھی منہ نہ لگائے ۔

سب زیر لب مسکرا دیئے ۔ دونوں گروپ پھر منہ ڈر منہ آگئے ۔ بات پھر بگڑ رہی تھی ۔ صاف لگا کہ دونوں پارٹیاں صلح کے موڈ میں نہیں ۔ بہرحال اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ مقابلہ سکھر میں ہو گا ۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کے کمپارٹمنٹ میں نہ آئیں گے ۔

جب وقتی سیز فائر ہوا تو کمپارٹمنٹ کے باراتیوں کو بھوک لگی ۔ اب جو دیگ کھولی تو آدھی دیگ خالی تھی اور ایک بھی بوٹی نہ تھی ۔ ایک آواز آئی : ابا آدھی بریانی گئی ۔
میں چپ چاپ بیٹھا رہا ۔ نامعلوم نوجوان سافر مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ سکھر پر پوری دیگ بھی غائب ہو سکتی ہے ۔ میں تو صبح سات بجے خیر سے خیرپور میرس اتر گیا ۔ اب پتہ نہیں سکھر کس طرح باراتیں اتری ہوں گی اور کس کس کے کاندھے اترے ہوں گے ۔

( یہ تصویر بطور ریفرنس لگائی ہے ) 

Parwardigar mareez ko khwaten se bacha .Article 81



پروردگار مریض کو خواتین سے بچا

تحریر :اظہر عزمی

بیماری دکھی زندگی کے ساتھ یے ۔ بس دعا کریں کہ مریض کی کہانی عورتوں کے ہاتھ نہ لگے ۔ بہتر ہے کہ مریض غسال اور گورکن کے ہاتھ لگ جائے ۔ ایک بار کا غسل و کفن ہی تو ہوگا ۔ جہاں کہانی عورتوں کے ہاتھ لگی سمجھیں گھر ، خاندان یا آس پڑوس کی کوئی نہ کوئی طبیبہ علاج کے نام پر وہ قبر کشاں قصے اور عدم صحت یابی کے نقصے ( نسخے ) تجویز کرتی ہیں کہ مریض کہہ اٹھے ۔
جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا
ہمارے ایک جوان رشتے دار کو پیٹ کے معمولی درد اور اینٹھن نے آلیا ۔ صبح آفس جانے کی ہمت نہ ہوئی چھٹی کر لی ۔ بیوی اور ماں نے دوپہر بھر میں یہ بات آگ کی طرح پھیلا دی ۔ ماں نے پڑوسن خالہ کو بتا دیا :
رات بھر میرا ارشد مچھلی کی طرح تڑپا ہے ۔ بیوی کو تو رتی برابر خیال نہیں ۔ سکون سے پڑی سوتی رہیں ۔
بیوی نے حسب عادت میکے فون کیا اور بپتا سنا دی : امی ارشد کی طبیعت رات کو بہت خراب رہی ۔ رات ان کی امی نے چھولے کا سالن بنایا تھا ۔ وہ کھایا اور پھر رات بھر وہ ڈکاریں آئی ہیں ۔ گیس اتنی تھی کہ پوچھیں ناں ۔
ماں نے بھی جل کر کہا : تمھاری ساس کو کھانا پکانا ہی کہاں آتا ہے ۔ بیگار ٹالتی ہیں تب ہی تو بیمار ڈالتی ہیں ۔
میں آ جاتی مگر رات سے طبعیت اچھی نہیں ۔ میں ممانی جان کو بھیجتی ہوں طبیعت کا پوچھنے کے لئے ۔ ڈاکٹر کو تو دکھا دیا ہے ناں ؟
بیوی : نہیں اب طبیعت پہلے سے بہتر ہے ۔ شام کو دکھا دیں گے ۔ لیجئے صاحب مریض کی موت آثار طبیبائیں آیا چاھتی ہیں ۔سب سے پہلے برابر والی خالہ آئیں ۔ ان خالہ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان کی پوٹلی میں ہر بیماری سے مرنے والوں کے وہ تازہ تازہ کفن سوز و دفن خراش واقعات ہوتے ہیں کہ مریض " موت کے بعد کا منظر " جیسی کتاب پڑھ کر سانسیں گننے بیٹھ جائے اور گھر کی گھنٹی بجنے کو بھی موت کی دستک سمجھے ۔ خالہ نے آتے ہی ارشد کے رونگھٹے کھڑے کر دیئے : جیسے تم بتا رہے ہو ناں کہ پیٹ میں ہلکا سا درد اور اینٹھن ہوئی ۔ بس ہمارے ماموں صغیر کے داماد کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا ۔ ( دونوں ہاتھ پھیلا کر ) کیا کڑیل جوان تھا ۔ رات بیوی سے بولا کہ پیٹ میں درد ہے ۔ اس نے اسپغول گھول کر پلا دیا ۔ کچھ دیر کے بعد جو طبیعت بگڑی پھر تو وہ ہاتھوں سے نکلا جائے ۔ اسپتال لئے گئے ۔ اللہ جانے کہاں کا انجیکشن کہاں گھونپا ۔ ایسا لیٹا کہ پھر اٹھ نہ پایا ۔ راشد کے تو پسینے چھوٹ گئے گھبرا کر کہا : خالہ بھلا چھولوں سے بھی کہیں ایسا ممکن ہے ۔ خالہ : نہیں تو ماموں صغیر کے داماد نے کوئی بم۔کا گولا کھا یا تھا ۔ گھر کا پکا ہی کچھ کھایا ہو گا ۔۔۔ اور یہ بھی بتا دوں یہ چھولے اولے تو موت کا بہانہ ہیں ۔ جس کی آئی ہے ، آئی ہے ۔ ماں سے بھی برداشت نہ ہوا : اے خالہ تم عیادت کو آئی ہو ۔ میرے منہ خاک کیا تعزیت کرنے کو ۔ خالہ نے برقع سر پر رکھتے ہوئے کہا : ہم تو سمجھانے آئے تھے ۔ سنا ہے قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جوان زیادہ مریں گے ۔ خالہ تو چلی گئیں مگر ارشد کو لگا کہ پیٹ کا درد گلے تک لہنچا ہے ۔ عیادت رسم دنیا تھی " نہیں آتے تو کیا جاتا "
تمھارے پوچھ لینے سے نہ جی جاتے نہ مر جاتے شام سے پہلے ممانی جان بھی آدھمکیں ۔۔ لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کو کسی کی بیماری کی بھنک نہ پڑے مگر ان کا بیمار تلاش ریڈار نہ جانے کتنا جدید و شدید ہے کہ مریض نکال لاتا ہے مگر آج تو یہ باضابطہ دعوت پر آئیں تھیں ۔ یہ طبیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ وکیلانہ مزاج بھی رکھتی ہیں ۔ مرض کی تشخیص کو جرم کے خانے میں رکھ کر تفتیش بہ انداز تشویش و تشکیک پر یقین کامل رکھتی ہیں اور کسی طور مریض کو شک کا فائدہ دے کر صحت یاب ہونے کی کوئی آس نہیں دلاتیں ۔ مریض سے وہ جرح کرتی ہیں کہ مریض جراعت کو زیادہ آبرومندانہ سمجھے ۔ سوالات در سوالات سے مریض کو اپنے مرض سے زیادہ اپنے کردار پر شک ہونے لگتا ہے ۔ ان طبیبہ کی ایک افضلیت یہ بھی ہے کہ ان کے مرحوم سسر دیواری حکیم تھے جو امراض خبیثہ کے ناکام علاج کے کامیاب معالج تسلیم کئے جاتے تھے ۔ جب وہ دیکھتی ہیں کہ مریض کسی طرح ان کے ہاتھ نہیں آرہا تو ہاتھ پکڑ کر نبض پر ہاتھ رکھ دیتی ہیں : نبض تو مریل گھوڑے کی لنگڑی چال چل رہی ہے ۔ راشد : ممانی جان نبض میں گھوڑا کہاں سے آگیا ؟ توبیبہ : ( طنزیہ مسکراہٹ سے ) نبض کا نو مرتبہ چلنا دیکھا جاتا ہے ۔ پہلی تین سر سے سینے تک ، دوسری تیں پیٹ تک اور آخری تین نیچے کی ۔۔۔ کچھ سمجھے کہ نہیں ۔ تمھاری بیچ کی تین چالیں ٹھیک نہیں ۔ راشد شرمندہ سا ہو گیا : کیا ہو گیا ممانی جان ؟ نبضوں کا بھی چال چلن ہوتا ہے ۔ ممانی جان : حکمت کے یہی تو راز ہیں جو ڈاکٹری بھی نہیں سمجھ سکتی ۔ تم تبخیر معدہ کا شکار ہو ۔ ہمارے سسر کہا کرتے تھے تخیر معدہ ہو تو تسخیر مرض میں تاخیر تقصیر سے کم نہیں ۔ دوا اکسیر تب یی یے جب وقت پر دی جائے ۔ لاکھ دوا پھانکے جاو تاثیر میں تدبیر کی کوئی صورت نکلتی نہیں ۔ پیٹ کے مرض کو تو ویسے بھی ام الامراض کہا جاتا ہے ۔ راشد کی ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا : یہ کیا آپ اول فول بک رہی ہیں ؟ ممانی جان : اول فول بکنے میری جوتی ۔ تم دیکھ لینا اس کو ہرنیا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ جگر میں سوزش نے بھی آلیا ہو ۔ تین چار امراض کا یک دم ورد جسم سنکر ارشد کے پیٹ میں گڑ گڑ شروع ہوگئی ۔ لاکھ کوشش کے بعد وہ گڑ گڑ باہر آگئی اور فضا میں ایک بو پھیل گئی ۔ ممانی جان نے جو ناک کے نتھنے پھیلا پھیلا کر بو سونگھی تو پورے یقین سے کہا : رات جو چھولے کھلائے وہ کچے اور تین چار فصل ہرانے تھے ۔ بو بتا رہی ہے کہ اس کے جگر میں سوزش کے ساتھ ساتھ گردے میں پتھری بھی ہے ۔ ایک آنت میں پھپوند بھی لگ گئی ہے ۔ ممانی جان ۔۔۔ پہلی عالمی ریاح شناس طبیبہ ممانی جان کے یہ انکشافات سننے کے بعد مغرب کے بڑے بڑے تحقیقی اداروں کی ناکوں میں نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ٹن تنہا عورت جس نے کبھی کسی میڈیکل کالج کا منہ نہ دیکھا ہو ۔ ریاح شناسی کے ذریعے کھایا پیا بتانا اور امراض کی تشخیص کرنا ممانی جان کی ایک ایسی خوبی ہے جس پر ہم پاکستانی جتنے بھی اپنے نتھنے پھلائیں وہ کم ہے ۔ بس عزت داروں کے لئے ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ ممانی جان کے سامنے رہا خارج نہ کی جائے ورنہ ان کی جانب سے سب کچھ کھول دینا خارج از امکان نہیں ۔
ماحول میں امراض کے امکانات بڑھتے دیکھکر بیوی نے ممانی جان کو چلتا کیا ۔ ارشد نے ماں اور بیوی کی طرف دیکھ کر کہا : اب میں مر بھی جاؤں تو خالہ اور ممانی جان کو نہ بلانا ۔ اب ارشد صاحب کو کون بتائے کہ مرنے کے بعد جنازے پر پٹس ڈالنے والی خواتین بالکل الگ ہوتی ہے ۔ وہ رونا پیٹنا مچاتی ہیں کہ گھر والے خود کہہ اٹھیں : اب رہنے بھی دو ۔ 
ماحول میں امراض کے امکانات بڑھتے دیکھکر بیوی نے ممانی جان کو چلتا کیا ۔ ارشد نے ماں اور بیوی کی طرف دیکھ کر کہا : اب میں مر بھی جاؤں تو خالہ اور ممانی جان کو نہ بلانا ۔ اب ارشد صاحب کو کون بتائے کہ مرنے کے بعد جنازے پر پٹس ڈالنے والی خواتین بالکل الگ ہوتی ہے ۔ وہ رونا پیٹنا مچاتی ہیں کہ گھر والے خود کہہ اٹھیں : اب رہنے بھی دو ۔ 
#AzharHAzmi 

Har pata batanay wala . Naseer Chameea.Article 80


 

ہر پتہ بتانے والے ۔۔۔۔ نصیر جھمیا
ایسا پتہ بتایا کہ سب کو پتہ چل گیا

تحریر : اظہر عزمی

آج کل ایک اشتہار کی ٹیگ لائن ہے " ہر پتہ ہمیں پتہ ہے " ۔ میں جب بھی یہ دیکھتا ہوں تو بے ساختہ نصیر جھمیا کا چہرہ نظروں کے سامنے آکر رونے لگتا ہے ۔ پہلے تو یہ بتا دوں کہ جھمیا ان کی عرفیت تھی جو ان کی چڑ بھی تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے طور ہر تو چ بولتے تھے لیکن آپ جتنا کان ، دماغ لگا کر سن لیں ۔ سننے میں ج ہی آتا تھا ۔ تھوڑا سا لہرا کر چلتے تھے اس لئے ان کے ہم عمر دوستوں نے ان کا نام چھمیا رکھ دیا لیکن ایک دوست کے کہنے پر چ کا حرف ادا نہ ہونے پر نصیر جھمیا کہلائے ۔ نصیر جھمیا بڑے بڑبتو تھے ۔

نصیر جھمیا ہم سے عمر میں بڑے تھے ۔ دبلے پتلے ، لجلجے اور اس پر عجیب رنگوں کی شرٹ پہن لیا کرتے ۔ اس پر شخصیت اور سہ آتشہ ہو جاتی ۔ ہم آٹھویں میں تھے اور وہ نئے نئے کالج گئے تھے ۔ نصیر جمھیا کا اپنے دوستوں میں بہت مذاق اڑتا تھا ۔ اس لئے وہ ہمارے گروپ میں بیٹھتے اور کالج اور اس کے سامنے گرلز کالج کے ہوشربا قصے سناتے جس سے یہ محسوس ہوتا کہ گرلز کالج کی ہر لڑکی نے کالج میں داخلہ صرف دیدار نصیر کے لئے لیا ہے ۔
قصہ ہوشربا ہونے کے ساتھ دلربا بھی ہو تو دائیں آنکھ بند کر لیتے اور ہونٹوں پر ہلکی زبان پھیرتے جاتے ۔ ہمارے لئے بھی اس زمانے میں کالج ایک خواب ہی تھا اور نصیر جھمیا ہم دوستوں کو روزانہ پری نگری کی فری سیر کرا دیتے ۔ نصیر جھمیا کی شخصیت اتنی متنوع اور دلچسپ تھی کہ ہوری کتاب سپرد قلم کی جا سکتی ہے ۔ ہہاں صرف ان کا ایک وصف بیان کرنا مقصود ہے جو اب مفقود ہوتا جارہا ہے اور وہ ہے پتہ بتانے کا شوق ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ راستے بھر باتیں کرنے کا موقع جو مل جاتا ۔

سہ پہر کا وقت ہے ہم چار پانچ لڑکے بھائی مختار کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں ۔ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر کے صاحب اپنی برقع پوش اہلیہ کے ساتھ ہمارے پاس آکر رکتے ہیں : کیا آپ سے ایک پتہ پوچھ سکتا ہوں ؟ نصیر جھمیا نے ہم میں اپنی طویل العمری اور قلیل العقلی کے ناطے پوچھا : بوجھیں خالو ؟ ( ہمارے زمانے میں ماں باپ کی عمر کے سب لوگ خالہ خالو ہوا کرتے تھے ) وہ صاحب پوچھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے بوجھیں ۔ میں نے ان صاحب کہا : نصیر بھائی کہہ رہے ہیں پوچھیں ۔ ( نصیر جھمیا کو ان کی موجودگی میں ہمیشہ نصیر بھائی کہا ) ۔

نصیر بھائی سیڑھی سے اٹھے ، جینز کی پینٹ جھاڑی ۔ اس کا مطلب ہے کہ پتہ کوئی بھی ہو وہ بوجھ نکالیں گے : خالو دو مشتاق صاحب رہتے ہیں ۔ صاحب نصیر جھمیا کی پوچھ کو بوجھ چکے تھے ۔ ایک نظر ااپنی برقع ہوش اہلیہ کو دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ کون سے والے مشتاق ؟ انہوں نے برقعے میں ہونے کے باوجود انتہائی جھلائے ہوئے انداز میں سر ہلا کر کہا : میں کیا شجرے ساتھ لے کر پھرے ہوں ؟ ایسا زناٹے دار جواب تھا کہ ہم سناٹے میں آگئے ۔

نصیر جھمیا نے کیس کو مکمل ہاتھ میں لے لیا : تو اس میں کیا مسئلہ ہے دونوں مشتاقوں کے ہاں لئے جلتا ہوں باری باری ۔ یہ کہہ کر ایک قدم چلے اور مجھ سے بولے : تو بھی آ جا ۔ میں نہ چاھتے ہوئے بھی ساتھ ہو لیا ۔ میں جانتا تھا کہ اب صرف نصیر جھمیا بولیں گے ۔
ہم ساتھ ہو لئے ۔ نصیر جھمیا نے سلسلہ کلام جاری رکھا ۔ چلیں پہلے چلتے ہیں بھائی مشتاق کے ہاں ۔
خالو : جہاں پہلے لے چلو ۔ ہم تو پہلی بار آئے ہیں ۔
نصیر : پہلی بار آئے ہیں ۔ شکل دیکھی ہے ان کی ؟
خالو نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
نصیر : وہ تو خیر میں بتا ہی دوں گا ۔ بس آپ ایک باری ان کا حلیہ بتا دو ۔
خالہ : ( جھلا کر ) تجھے سمجھ نہیں آتی ۔ ملے نہیں تو حلیہ کیسے بتا دیں ۔ کوئی خوابوں میں آئے تھے کیا ؟
میں نے نصیر جھمیا کا ہاتھ دبایا کہ ذرا ہلکا ہو جائیں مگر وہ کہاں ماننے والا تھا ۔
اب نصیر جھمیا نے دونوں مشتاقوں کی کہانیاں کھولنا شروع کیں : منے میاں مشتاق پہلے بالکل فٹ فاٹ تھے مگر جب سے شوگر ہوئی ہے ڈھیلے پڑ گئے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔ تو جب پرہیز نہیں کرینگے تو یہی ہوگا ۔ نکڑ پر رئیس حلوائی کی دکان سے یہ شیرہ بھرے رس گلے کھاتے ہیں ۔ اتنا سمجھایا مگر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔

خالو : دوسرے والے کون سے ہیں ؟
نصیر : بھائی مشتاق ۔۔۔ وہ ایک دم سیٹ ہیں لیکن ان کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی ۔ شروع میں انہوں نے بھی بڑی زیادتی کی ۔ بیوی کو میکے ہی نہیں جانے دیتے تھے مگر زیادتی تو زیادتی ہوتی ہے ۔ ( کچھ لمحے خالہ کی طرف دیکھ کر دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا اور ہلکے سے خالو کے کان میں) بیوی کا انتقام بڑا زوروں کا ہوتا ہے خالو ۔ ہورے گھر سے جھٹوادیا ہے ۔ آپ کو تو اندازہ ہوگا ۔ خالو نے اشارے سے نصیر جھمیا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا کہیں برقع ہوش اہلیہ نہ سن لیں ۔ نصیر جھمیا اپنے جملے کے نشے سے اور لہرا گئے ۔

چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد پھر بولے : خالو بتایا نہیں آنا کیسے ہوا ؟
اب خالہ سے برداشت نہ ہوا : تیرا ریڈوا بند ہو تو ہم بھی کچھ بولیں ۔ چپکا نہیں چل سکتا ذرا دیری ۔
خالو نے برقع کے اندر خالہ کا ہاتھ دبایا ۔ خالہ نے ہاتھ رکھتے ہی شوہر کو جھڑک دیا : ارے ہٹو بھی ۔ کیا ہاتھ کی چوڑیاں توڑ ڈالو گے ۔ نصیر جھمیا اور مجھے خالہ کی آتش سخنی کا بجوبی اندازہ ہو چلا تھا
اب سب خاموشی سے چل رہے تھے ۔ چلتے چلتے خالہ نے نصیر جھمیا سے پوچھا : کیا حیدر آباد لے جائے گا ؟
نصیر : مذاق کر رہی ہو خالہ ۔ آئے ہیں تو گھر کے دروازے تک تو جھوڑ کر آئیں ۔
خالہ ہوشیار تھیں ۔ نصیر جھمیا ان پر منکشف ہو چکے تھے ۔ اب خالہ نصیر جھمیا کی ہر نو بال پر جملوں کے ہرفیکٹ شاٹس کھیل رہی تھیں مگر نصیر جھمیا کا بڑ بتو پن رک نہیں رہا تھا ۔

خالہ : پہلے تو اپنا ج چ تو صحیح کر لے ۔ بڑا آیا چھوڑنے والا ۔
نصیر جھمیا نے یہ بات سنی ان سنی کردی : ابھی آگے مرزا خالو کی گلی آئے گی وہاں سے الٹے ہاتھ کو مڑیں گے تو حاجی سائیکل والا بیٹھا یوگا ۔
خالہ : تو کیا وہاں سے سائیکل پر جائیں گے ؟
نصیر : اب اتنی دور بھی نہیں ۔ وہاں سے ڈاکٹر صابر کا کلینک آئے گا بس اس سے ذرا آگے بھائی مشتاق کا گھر ہے ۔ (خالو سے) ایک بات کہوں اگر وہی مشتاق نکلیں تو ان کو کہنا رشید بھائی سے جو پھڈا ہوا اس کو بھول جائیں ۔ محلے داری میں کوئی اتنی ناراضگی تھوڑی جلتی ہے ۔
خالہ : تیری زبان بڑی قینچی کی طرح چلے ہے ۔ ہم ان سے ملنے آئے کہ صلح صفائی کرانے آئے ہیں ۔ بس یہیں سے پتہ بتا دے ۔ پوچھتے پاچھتے چلے ہی جائیں گے ۔
نصیر : ایسے کیسے بوجھتے باجھتے جلے جائیں گے ۔ ہمارے محلے آئے ہو ۔ گھر تک جھوڑنا تو ہمارا فرض بنتا ہے ۔
خالو : ابھی کتنی دور چلنا ہے ؟
نصیر : خالو ابھی سے تھک گئے ۔ کہو تو حاجی کی سائیکل لے آوں ۔ ہینڈل پر بیٹھ جانا ۔
خالہ : ( غصہ آگیا ) اپنی اور ان کی عمر دیکھ ۔ ہینڈل ہر بٹھائے گا ؟ ہینڈل کے بدلے سینڈل آئے گی ۔۔۔ سمجھا ۔
نصیر : (کھسیانے ہو گئے) میں تو خالو کی آسانی کے لئے کہہ رہا تھا ۔ ویسے اب گھر زیادہ دور نہیں ۔ اجھا ۔۔۔ ہاں خالو میں کہہ رہا تھا رشید بھائی والی بات ضرور کر لینا ۔ اب اگر ان کی لڑکی کو سعید پسند ہے تو ہونے دو ۔ کہیں تو اس کی شادی ہونی ہے ۔ اجھی بات ہے محلے کی لڑکی محلے میں رہے ۔
خالہ : اچھا کیا نام ہے ان کی لڑکی کا ؟
نصیر : ثریا ۔۔۔ پورے محلے کو پتہ ہے اس چکر کا
میں نے نصیر جھمیا کا ہاتھ دبایا چاھا تو غصے ہوگئے : ابے تو کیا میرا ہاتھ دبانے کے لئے آیا ہے ؟
خالہ نے ہلکے سے خالو کے کان میں کہا : یہ وہی بھائی مشتاق ہیں جہاں ہمیں جانا ۔

نصیر جھمیا چوڑے ہو گئے : کہا تھا ناں ۔ ہمیں ہر پتہ پتہ ہے گھر تک چھوڑ کر آتے ہیں ۔ اس دوران بھائی مشتاق کا گھر آگیا اور نصیر جھمیا نے ان کی بیل بجا دی ۔ مشتاق بھائی مشتاقانہ باہر نکلے اور خالو سے سوالیہ انداز میں لہک کر کہا : آپ دلشاد بھائی ؟ خالہ خالو اندر چلے گئے اور ہم دوبارہ بھائی مختار کی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ گئے ۔
شام کی چائے کا وقت ہوا تو میں گھر چلا گیا ۔ باہر سے شور کی آواز آئی ۔ باہر آیا تو عجب تماشا دیکھا ۔ مشتاق بھائی کے لڑکے کے ہاتھ میں نصیر جھمیا کا گریبان اور پٹاخ پٹاخ کی بارش ۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ نصیر جھمیا تو ان کے مہمانوں کو گھر تک چھوڑ کر آئے اور اس کا صلہ چانٹوں سے ۔ نصیر جھمیا نے عجب امدادنہ نظروں سے مجھے دیکھا ۔ میں آگے بڑھنے والا تھا کہ ایک دوست نے روک دیا : تم بیچ میں نہ پڑو ۔ وہ خالہ خالو مشتاق بھائی کی لڑکی کے رشتے کے لئے آئے تھے ۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا اور پھر نصیر جھمیا کی وہ Olala ہوئی کہ بہت کچھ لال یو گیا ۔

Thursday, 11 March 2021

Qalam kar Azhar Azmi se ek interview .

 

اظہر عزمی سے ایک تفصیلی انٹرویو

روما رضوی




" ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔۔
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا "

ٹی وی ، اخبار ہو یا ریڈیو اشتہارات کے بغیر ان عوامی اداروں کا چلانا آسان نہیں اشتہار کسی بھی چیز ، فرد یا ادارے کو متعارف کروانے میں ایک ذریعہ ہیں ۔

چند لمحوں میں سمٹ سمٹا کر چند سطور پر مشتمل اشتہار نہ صرف ایک مکمل پیغام پہنچا رہا ہوتا ہے بلکہ دیکھنے والے کو بھی کامیابی سے قائل کرلیتا ہے کہ یہ پروڈکٹ زندگی میں کتنی اہمیت اور راحت کا باعث بن سکتی ہے ۔ پانچ سے ساٹھ سیکنڈز کے درمیان ہر وہ بات کہہ ، دکھا اور سنا دی جاتی ہے جس سے کچھ نہیں تو ناظر ، سامع اس چیز کو دیکھ کر یا اس بات کو سن اور پڑھ کر ایک لمحہ کے لئے سہی اس طرف سوچتا ضرور ہے یا توجہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔

پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی خاص ترجیحات و مقاصد ہوتے ہیں اور اشتہار ان مقاصد کو حاصل کرنے میں معاون و مددگار کی حثیت رکھتا ہے ۔ یوں سمجھئے کہ پروڈکٹ اور صارف کے درمیان رشتے قائم کرتا ہے ۔ اشتہارات پسند کیے جاتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہی اشتہار لوگوں کی توجہ کا باعث بنتے ہیں جو معیاری طرز معاشرت کی نمائندگی کرتے ہیں یا جن میں کوئی مثبت پیغام ہو . اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ مختلف اور نت نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ۔ اس کم دورانیہ کی پیشکش کے پیچھے کتنے ذہین لوگ اور کتنے قلم کار مصروف ہوتے ہیں ایک عام ناظر اس بات کو کبھی نہیں جان سکتا ۔

آج کی نشست میں ہمارے مہمان اظہر عزمی صاحب ہیں جو عرصے سے اس شعبے سے منسلک ہیں ۔ بہت معروف اداروں میں ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور ان کے لکھے دلچسپ مضامین اردو پڑھنے والوں میں نہایت سراہے جاتے ہیں ۔
خوش آمدید اظہر صاحب ۔

سوال نمبر 1_
سب کے ذہن میں پہلا سوال یہی آتا ہے کب سے لکھ رہے ہیں؟ اور سب سے پہلے کس موضوع پر قلم اٹھایا ؟
جواب ۔ لکھنا میری سرشت میں شامل یے ۔ مجھے اپنے والد سے ودیعت ہوا یے ۔ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے پہلی بار کب لکھا ۔ جب میں ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھا تو میرے والد صاحب نے اپنی ڈائری دکھائی جس کے ایک صفحے پر میں نے پینسل سے ایک منقبت لکھی تھی ۔ اس وقت تو مجھے شاعری کا پتہ بھی نہیں تھا ۔ اس میں ردیف قافیہ کچھ بھی نہیں تھا لیکن میں نے وہ منقبت لکھی تھی ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ میں شاعر نہ بن سکا گو کہ میرے والد کوثر سلطان پوری شاعر تھے مگر مجھ میں نثر کے جراثیم آئے ۔

سوال2۔ آپ نے اپنے بچپن کی بات سے آغاز کیا کہ آپ کے زمانے میں نوجوانوں میں بیشمار سرگرمیاں جاری رہتی تھیں مگر فی الزمانہ نوجوانوں نسل میں مایوسی بوریت جیسے تاثرات زیادہ نظر آتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟
جواب ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ حساسیت کا ہونا اچھی بات ہے لیکن ہمارے معاشرے میں آج کے نوجوان حساسیت میں ، اضطراب اور جذباتیت کا زیادہ شکار ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم تربیت یافتہ نہ ہونا ہے ۔ ہم تعلیم یافتہ ہو گئے مگر تربیت کے شدید فقدان کا شکار ہیں ۔ مجھے یاد ہے میرے اسکول کے زمانے میں والد صاحب مجھے لے کر بیٹھتے اور میری عمر کے لحاظ سے کسی بھی مسئلے کو ڈسکس کرتے ۔ اس کے مثبت اور منفی پہلو بتاتے ۔ تحمل ، مستقل مزاجی ، رواداری ، صلہ رحمی کا بتاتے ۔ اس وقت میں یہ الفاظ جانتا بھی نہیں تھا لیکن آج مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے جس طرح میری تربیت کی ۔ اسی طرح اسکول کے اساتذہ کا بھی اس ضمن میں اہم کردار رہا ۔

سوال نمبر 3 _
آپ کے شعبے تخلیق میں آنے کے لئے نوجوانوں کو کیا کچھ پہلے جاننا ضروری ہے ؟
جواب _ مجھ سے پوچھیں تو اس کام میں آپ اپنی صلاحیتیں کسی کو مستعار دے دیتے ہیں ۔ صلاحیت کے بعد جو سب سے اہم بات ہے وہ ہے آپ کا عوام کے ہر طبقے کی نفسیات سے واقف ہونا ۔ آپ کی قوت مشاہدہ اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت عام افراد سے کئی گنا زیادہ ہونی چاھیئے ۔ یہی معاملہ یادداشت کے حوالے سے یے ۔ آپ نے کب کون سی کام کی بات سنی تھی ۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن کلائنٹ کی جانب سے آپ کی تخلیقی کام کو رد کئے جانے ہر برداشت اور اسی کام پر نئے عزم و حوصلے سے مصروف ہوجانا ہے ۔ یہ وہ خوبی ہے جو آپ کو اس شعبے میں کامیاب بناتی ہے ۔ تخلیق ، مشاہدہ ، یاداشت ، برداشت یہ سب ان شعبے کے بنیادی عناصر ہیں ۔ آئیے ! ایڈورٹائزنگ آپ کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہے ۔

سوال 4
آپ کی تحریر و شخصیت کو کس نے زیادہ متاثر کیا ؟ اور پہلی تحریر کہاں شائع ہوئی ؟
جواب_ میرے والد کا میری زندگی ہر بہت گہرا اثر رہا ہے ۔ میری شخصیت سازی میں ان کا کردار کلیدی رہا ہے ۔ میری پہلی تحریر بچوں کے ایک رسالے " غنچہ" میں "استاد شرارت" کے نام سے شائع ہوئی ۔ والد صاحب نے بہت سراھا اور اس مرحلے پر کوئی تنقید نہ کی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ چھوٹی عمر سے لکھنے والوں کو کچھ تحریروں کے لئے آزاد چھوڑ دینا چاھیئے تاکہ ابتدا میں وہ حوصلہ شکنی کا شکار نہ ہوں ۔ جب وہ تنقید کو سمجھنے اور اس سے استفادہ کرنے کے قابل ہو جائیں تو ان سے ضرور بات کی جائے ۔

سوال 5 _
اپنی فطرت سے قریب ہوکر لکھتے ہیں یا فی الزمانہ رائج موضوعات و انداز کو اپناتے ہیں ؟
جواب _ کوئی بھی لکھنے والا اگر اپنے مزاج و فطرت کے قریب ہوکر نہیں لکھے گا تو اس کا اصل کیسے باہر آئے گا ۔ ہر لکھاری کو اپنا قاری بنانا ہوتا ہے ۔ قاری کی ذہن سازی بھی آپ ہی کا کام ہے ۔ یہ بھی بات بھی طے ہے کہ جس طرح ہر پروڈکٹ ہر صارف کے لئے نہیں ہوتی ۔ اسی طرح ہر تحریر ہر قاری کے لئے نہیں ہوتی ۔ میرا ذاتی خیال بلکہ اب تو عقیدہ ہے کہ آپ کا قاری آپ کو ڈھونڈ نکالتا ہے ۔ میں نے جب سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کیا تو ابتدا میں پچاس پڑھنے والے بھی نہ ہوں گے ۔ اب یہ تعداد ہزار تک جا پہنچی ہے ۔ ہاں اس میں ایک بات قابل دھیان ضرور ہے کہ ٹحریر کو سادہ و سلیس رکھیں ۔ اپنی قابلیت کا رعب مت جھاڑیں ۔ بس آپ کو بات کہنے کا ہنر آنا چاھیئے ۔ میں ویسے تو تمام موضوعات پر لکھتا ہوں لیکن یاد رفتگاں اور خاکہ نگاری میرا خاص موضوع ہے جس میں مزاح کا پہلو سب سے اہم ہوتا ہے ۔ اب زمانے بدل رہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب قاری زیادہ ذہنی مشقت تو تیار نہیں ہے اس لئے تحریر کو گفتگو کے انداز میں لکھیں تو وہ طویل مضمون بھی ہنسی خوشی اور اطمینان سے پڑھ لے گا ۔

سوال 6_
آپکا مخصوص شعبہ کیا رہا ؟ صرف کمرشل ہی کیئے یا اور بھی تحریریں عوام کے سامنے آتی رہیں ؟
جواب ۔ میرا تعلق ایڈورٹائزنگ کے شعبے تخلیق سے ہے ۔ دفتری مصروفیات کے باعث میں زیادہ تر کمرشل کام پر ہی متوجہ ریا ۔ 1988 سے 1994 تک ملک کے بڑے اخبارات میں سیاست و دیگر موضوعات پر لکھا ۔ اس کے بعد پی ٹی وی کے لئے ڈرامہ سیریل " آگے آگے دیکھئے " لکھا ۔ این ٹی ایم کے لئے بقرعید کا پلے " قربان جایئے " لکھا ۔ اس کے بعد ایک لمبا گیپ آگیا ۔ 2012 میں دوبارہ ٹی وی کی طرف آیا ۔ سٹ کام " بھابھی سنبھال چابی " اور دو عید پلے تحریر کئے ۔2017 سے سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کیا ۔ بس تب سے اب تک روزانہ ہی کچھ نہ کچھ لکھتا ہوں ۔ میں نے ابتدا میں وقت گزاری کے لئے لکھنا شروع کیا تھا ۔ مجھے قطعا اندازہ نہیں تھا کہ ان سالوں میں صورت حال اس حد تک حوصلہ افزا ہو گی ۔

سوال 7
کیا قارئین کے ردعمل پر لکھنے والے کو اپنا انداز تبدیل کرنا چاہیئے گو کہ یہ غیر فطری ہوگا مگر عوام کی پسند کے لئے کیا بہتر سمجھتے ہیں ؟
جواب ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ لکھنے والے کو بہادر ہونا چاھیئے ۔ لکھنا لکھانا ڈر جانے والوں کا کام نہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب جارح مزاج اور ضدی ہو جائیں ۔ چلیں پہلے بہادری کو ہی سمجھ لیں ۔ بہادری میں دلیری کے ساتھ تحمل مزاجی ، معاملہ فہمی اور ذہنی کشادگی نہ ہو تو یہ حماقت کہلاتی ہے ۔ قاری کا ردعمل بنیادی طور پر اس کی ذہنی استعداد کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ آپ اس کی تنقید سے بہ خوبی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے ۔ اگر اس کی رائے ، تبصرہ اور تنقید مثبت ہے تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاھیئے ۔ ویسے بھی اچھی بات تو کوئی بھی کر سکتا ہے ۔ ایک اچھا لکھاری ہر وقت سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہی تحریر میں نکھار آتا ہے ۔

سوال 8_ معیاری ادب کو کس طرح شناخت کریں گے ؟
جواب _ اگر آپ کا یہ سوال قاری کے نقطہ نظر سے ہے تو وہی بہتر جواب دے سکتا ہے ۔ لیکن اتنی تحریروں کے بعد میرا خیال ہے کہ آج کا قاری بہت ہوشیار ہے ۔ وہ پہلے پیراگراف سے ہی آپ کے رنگ ڈھنگ سمجھ جاتا ہے اور آپ کو معیار کے مخصوص خانے میں بند کر دیتا ہے ۔ اچھا چلیں معیار سے پہلے ایک بات اور طے کر لیں کہ آپ اس کو اپنی راہ پر لگاتے کیسے ہیں ۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں ۔ میں کبھی کسی مضمون کی تمہید نہیں باندھتا ۔ سیدھے سیدھے کام کی بات پر آتا ہو ۔ یہ ہنر یا ٹیکنیک میں نے ایڈورٹائزنگ سے سیکھی ہے اگر آپ کسی ٹی وی کمرشل پر ویور کو 5 سکینڈ کے لئے روک لیں تو پھر وہ کہیں نہیں جاتا ۔ میں اپنے مضامین میں بھی یہی کارگر ہتھیار استعمال کرتا ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ اگر پند و نصاح کرنا ہے تو اس کے لئے بڑی ذہانت و مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آپ بہت ساری باتیں بین السطور میں بھی کہہ سکتے ہیں ۔ آپ قاری کو بے وقوف نہ سمجھیں ۔ سمجھتا وہ سب ہے بس آپ کو سمجھانے کا طریقہ آنا چاھیئے ۔ میں نے اپنے کسی مضمون میں کبھی میاں نصیحت بننے کی کوشش نہیں کی لیکن جو پیغام دینا چاھتا ہوں وہ ضرور دیتا ہوں ۔ کچھ قاری صاحب نظر ہوتے ہیں تو وہ اپنے تبصرے میں اس کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں ۔
سوال 9_
دوستوں یا نوجوانوں کو کن کتابوں کے مطالعے کا مشورہ دیتے ہیں؟ اور خود کن موضوعات پر پڑھنا پسند کرتے ہیں ؟
جواب ۔ مطالعہ کے لئے کن کتابوں کو منتخب کرنا چاھیئے ۔ آس کا دارو مدار آپ کی میلان پر ہے ۔ مجھے آپ بیتی پڑھنا بہت پسند ہے ۔ اچھی شاعری ملٹی وٹامنز کا کام کرتی ہے ۔ اچھا شعر سن یا پڑھ لوں تو پورے پورے دن اس کے اثر میں رہتا ہوں ۔
میرے ساتھ اصل میں ایک اچھا معاملہ یہ رہا کہ بچپن سے گھر میں عالمی ، سیارہ اور اردو ڈائجسٹ دیکھے ۔ ہمارے گھر کا پورا مچان ان ڈائجسٹوں سے اٹا پڑا تھا ۔ اس لئے سیاست کے ساتھ تمام ہی ملکی اور عالمی موضوعات پر پڑھنے کا چسکا لگ گیا ۔ بہترین افسانے اور شاعری بھی پڑھنے کو اس طرح میسر آئی کہ والد صاحب یہ کتابیں لے آتے تھے ۔ کتابیں زندگی میں بہت کم خریدی ہیں ۔ کالج میں تھا تو وہاں کلاس سے زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا ۔ سب سے دلچسپ بات بتاوں ۔ مجھے آج بھی نونہال اور بچوں کے میگزین پڑھ کے زیادہ مزہ آتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے بچوں کی نفسیات سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ ہاں میں نے خواتین ڈائجسٹ اور جاسوسی ناولز کبھی نہیں پڑھے ۔

سوال 10 _ آپ نے خود کن مصنفین کی کتابیں شوق سے پڑھیں ؟ اور کون سی کتابیں اب تک آپکی دانست میں ہر دور کی نمائندگی کرتی ہیں؟
جواب _ کتابوں میں آپ بیتیوں کے علاوہ محمد حسین ہیکل ، سبط حسن ، میکسم گورکی ، کارل مارکس ، پاولو کولہو ، ڈپٹی نذیر احمد، عبداللہ حسین ، عصمت چغتائی ،فرائیڈ وغیرہ کو پڑھا ہے ۔ مثنوی مولوی معنوی کا اردو ترجمہ اس وقت پڑھا کہ جب میٹرک میں تھا ۔ شاعری میں میر تقی میر ، غالب ، میر انیس ، دبیر ، علامہ اقبال ، جوش ، قمر جلالوی ، فیض ، فراز یہ فہرست بہت طویل ہے جو جو ملتا گیا پڑھتے گئے ۔ نثر سے زیادہ شاعری پڑھنے میں لطف آتا ہے ۔ آج کے دور میں عارف امام اور توقیر تقی کی شاعری اچھی لگتی یے ۔

سوال 11 اچھی نثر بھی پابند قافیہ اور ردیف لگتی ہے کیا اسے نثری شاعری کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے؟
جواب ۔ جو میں لکھتا ہوں اسے آپ کسی حد تک نثری شاعری کے خانے میں رکھ سکتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ تعلق ایڈورٹائزنگ سے ہے تو وہاں کمرشل کام میں رائمنگ زیادہ پسند کی جاتی ہے اس لئے ایسا لکھنا مزاج بنتا گیا ۔ متعدد ٹی وی جنگلز لکھے جو زبان زد عام ہوئے لیکن بہر حال اسے آپ باقاعدہ شاعری نہیں کہہ سکتے ۔ اس کی ضروریات شاعری کی بحر اوزان وغیرہ کی پروا نہیں کرتی ہیں ۔

سوال 12_
نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہے مگر پیشہ منتخب کرنے میں پریشانی کا شکار نظر آتی ہے شاید اسی لئے ان کا منفی ردعمل سامنے زیادہ آتا ہے اور بزگوں کو ان سے شکایت پیدا ہوتی ہے اس سلسلے میں آپ کیا کہیں گے ؟
جواب ۔ آج کی ترقی کے عمل نے ہم سب کو مادہ پرستی کی طرف راغب کر دیا ہے ۔ اسٹیٹس کے شکار معاشرے علمی اور فکری طور پر اسٹیٹس کو کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ تعلیم برائے روزگار نے ہم سے زندگی کی حقیقی اقدار چھین لی ہیں ۔ پہلے "تعلیم و تربیت" کہا جاتا تھا ۔ اس لئے ہم معاشرے کو انسان دوست اور ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے والے افراد دے رہے تھے ۔ اب "تعلیم و روزگار " نے گھر ، گاڑی اور دیگر تعیشات کو حاصل زندگی قرار دے دیا ۔ یہ معاملہ ذات کی حد تک محدود ہوا تو انسانی رشتے ناطے انتہائی غیر اہم ہو گئے ۔ دولت کی بنیاد پر خانہ بندی نے اجتماعی طور پر یاسیت کو فروغ دیا ۔ جس نے صلاحیتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حسب خواہش نہ پایا اس کو یاسیت نے آگھیرا جس کا سب سے زیادہ شکار آج کے نوجوان ہیں کیونکہ معاشی کامیابیاں ان کی سرخروئی کی " زندہ دلیل " گردانی جاتی ہیں ۔ دیکھیئے آپ تعلیم یافتہ نہ ہو کر بھی اگر تربیت و تہذیب یافتہ ہیں تو معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ میں آپ کو تربیت کے حوالے سے ایک بہت اہم بات بتاتا ہوں ۔ میرے والد صاحب نے مجھے بچپن سے یہی بتایا کہ پڑھا لکھا شخص ہی امیر ہوتا ہے ۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا ۔ ہمیشہ پڑھے لکھے شخص کی عزت کی چاھے وہ معاشی طور پر کتنا ہی نا آسودہ حال کیوں نہ ہو ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ دولت والوں سے متاثر ہونے اور انہیں دیکھ کر کبھی احساس کمتری نہ ہوئی ۔

سوال 13_ کیا لکھنے سے آپ سمجھتے ہیں معاشرتی مسائل کے سدھار میں مدد مل سکتی ہے ؟
جواب_ لکھنے سے معاشرے میں بالکل سدھار آ سکتا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اب کون لکھ رہا ہے ۔ کیا لکھ رہا ہے اور کیوں لکھ رہا ہے ؟ لکھنا لکھانا تخلیقی معاملہ ہے اس میں خواہش نہیں بلکہ خداداد صلاحیت ہی بنیاد ہوتی ہے جسے آپ وقت کے ساتھ نکھارتے رہتے ہیں ۔ آج وہ لوگ لکھ رہے ہیں جنہیں زبان ہی نہیں آتی ہے ۔ فکر و خیال تو بعد کی بات ہے ۔ پہلے ادیب ، شعراء اپنی نشست و برخاست اور قول و عمل سے لے کر اپنی تخلیق کو سینہ قرطاس تک منتقل کرتے اور اس کے بیان تک ادیب و شاعر ہی ہوتے تھے ۔ اب تو حال یہ ہے کہ آپ ان سے گفتگو کریں تو لگتا ہے کہ آپ کسی لکھاری سے زیادہ کسی ترکھان یا بیوپاری سے بات کر رہے ہیں ۔ ان کی تحریر پڑھیں تو اپنا سر پیٹنے سے زیادہ ان کا سر دیوار پر مارنے کو چاھتا ہے ۔اب لابنگ سسٹم کا دور دورہ ہے ۔ ہر ایک شہرت طلبی کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہے ۔ ایسے لکھنے والوں سے آپ معاشرے میں سدھار کی کیا توقع کر سکتے ہیں ۔

سوال 14 ۔ آپ کے دلچسپ مضامین کا تذکرہ ہوا پھر آپ نے کچھ ٹی وی ڈراموں کا نام لیا جن میں مزاح کا عنصر غالب تھا یعنی قارئین آپ کو بطور مزاح نگار جانتے ہیں آپ کا یہ تجربہ کیسا رہا ؟
جواب _پہلے تو میں ایک بات عرض کردوں کہ میں صرف مزاح نگار نہیں ۔ میں نے سنجیدہ موضوعات پر بھی لکھا ہے ۔ میں خاص طور پر اپنے دو مضامین "وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا یوئے " اور " مگر ایک ماں نہیں مانتی " پڑھیں تو میرے کہے کی تصدیق ہو جائے گی ۔ جہاں تک بات مزاح نگار کی بات رہی تو اس ضمن یہ عرض ہے کہ طنز و مزاح لکھنا ایک مشکل ترین کام ہے ۔ ہمارے ہاں نامور لکھنے والے کسی نہ کسی مقام پر ولگر ہوجاتے ہیں ۔ یہی وہ مقام ہوتا یے کہ جب لکھنے والے کو اپنی بات بھی پوری کہنی ہوتی ہے اور یہیں اس کی استادی نظر آتی ہے ۔ میرا اپنا ایک بڑا واضح اصول رہا ہے کہ جو میرے اہل خانہ پڑ سکتے ہیں میں وہی لکھتا ہوں ۔ اخلاقیات سے کبھی نیچے نہیں آتا ۔ بات سب کہتا ہوں مگر اس پیرائے میں کہ قاری سمجھ بھی جائے اور نا شائستگی سے دامن بھی بچا رہے ۔ ایک اہم بات یہ کہ لوگ طنز و مزاح لکھنے والے کو کامیڈین سمجھ لیتے ہیں ۔ میری چند ایک اپنے پڑھنے والوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے عامیانہ قسم کا طنز و مزاح شروع کردیا ۔ جب میں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا تو انہوں نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ کسی اور سے لکھوانا ہوں ۔ مجھ جیسے لوگ تو ویسے بھی گوشہ نشین قسم کے افراد ہوتے ہیں ۔ گفتگو میں احتیاط پسندی نمایاں ہوتی ہے ۔ مجھ سے گفتگو میں ذو معنی جملوں اور پھکڑ پن کی توقع فضول ہے ۔
سوال 15_ ۔کیا آپ کی تحریر محض مطالعہ کے زور پر ہوتی ہے یا تجربات بھی متن کا حصہ بن جاتے ہیں؟
جواب _ میں اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر لکھتا ہوں ۔ انگریزی و دیگر زبانوں سے کٹ اینڈ پیسٹ کا عادی نہیں ۔ میں نے پریم چند ، رتن ناتھ سرشار ، مشتاق احمد یوسفی ، شفیق الرحمن ، محمد خالد اختر ، سید محمد جعفری ، فرحت اللہ بیگ ، کرنل محمد خان ، پطرس بخاری ، ابن انشاء و دیگر کو پڑھا ہے لیکن اثر کسی کا قبول نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ تازہ اسٹاک قاری کے سپرد کرتا ہوں ۔ خاکہ نگاری میں ، میں نے اپنا ایک الگ اسلوب رکھا ۔ کبھی کسی مشہور شخص کا خاکہ نہیں لکھا ۔ ایسے لوگوں کو سامنے لایا ہوں جن سے پڑھنے والے واقف ہی نہیں تھے ۔

سوال 16_
:گذشتہ دنوں آپ کی کچھ ویڈیوز بھی دیکھیں۔
کیا براہ راست بھی سامعین کے درمیان مضامین پڑھتے رہے ہیں؟ اور لائیو سنانے کا تجربہ کیسا لگا ؟
جواب : ایڈورٹائزنگ میں آنے کے بعد ٹی وی کمرشلز کے لئے وائس اوور کی ریکارڈنگ میں آپ کو لفظوں کی ادائیگی کے بارے میں وائس اوور آرٹسٹ کو بتانا پڑتا ہے ۔ دو ایک بار بہ امر مجبوری مجھے اپنی وائس میں ریکارڈنگ کرانی پڑی ۔ جب میں نے اپنا آرٹیکل " خاندان تھے تو پاندان تھے " لکھا تو مجھے ایک فورم سے یہ پڑھنے کی دعوت دی گئی ۔ یہ تجربہ خوشگوار رہا اور پھر وقفے وقفے یہ سلسلہ جاری ہے ۔
" خاندان تھے تو پاندان تھے " سوشل میڈیا پر میری پہچان بنا ۔ حیرت اس وقت ہوئی جب بیرون ملک سے یہ آرٹیکل مجھے بھیجا گیا لیکن اس میں میرا نام نہیں تھا ۔

سوال 17_ آپ کے شعبے میں اگر نوجوان دلچسپی رکھتے ہوں تو ان کو کیا خاص باتیں بتانا چاہیں گے؟
جواب _نوجوان ضرور اس شعبے میں آئیں ۔ یہ شعبہ نئی توانا سوچ رکھنے والوں کے لئے بہترین جگہ ہے ۔ میرا تعلق شعبہ تخلیق سے ہے اس لئے یہی کہوں گا کہ بظاہر دور سے سب کچھ بہت glamourized نظر آتا ہے ۔ در حقیقت ایسا نہیں ہے ۔ جو نوجوان بالخصوص اس شعبے کی طرف آنا چاھیں تو یہ جان لیں کہ تخلیقی صلاحیتیں آپ کی ہوں گی لیکن کام کسی بریف کے تحت کرنا ہوگا ۔ مجھ سے پوچھیں تو اس کام میں آپ اپنی صلاحیتیں کسی کو مستعار دے دیتے ہیں ۔ صلاحیت کے بعد جو سب سے اہم بات ہے وہ ہے آپ کا عوام کے ہر طبقے کی نفسیات سے واقف ہونا ۔ آپ کی قوت مشاہدہ اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت عام افراد سے کئی گنا زیادہ ہونی چاھیئے ۔ یہی معاملہ یادداشت کے حوالے سے یے ۔ آپ نے کب کون سی کام کی بات سنی تھی ۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن کلائنٹ کی جانب سے خلیقی کام کو رد کئے جانے پر برداشت اور اسی کام پر نئے عزم و حوصلے سے مصروف ہوجانا یے ۔ یہ وہ خوبی ہے جو آپ کو اس شعبے میں کامیاب بناتی ہے ۔ تخلیق ، مشاہدہ ، یاداشت ، برداشت یہ سب ان شعبے کے بنیادی عناصر ہیں ۔ آئیے ! ایڈورٹائزنگ آپ کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہے۔
سوال 18 _ اس ادارے سے وابستہ اس طویل عرصے میں کن لوگوں سے متعارف ہوئے اور اب تک کن معروف ہستیوں کے رابطے میں ہیں ؟
جواب _انگریزی میں کہا جاتا ہے Colleagues are never freinds. واقعتا ایڈورٹائزنگ میں بھی ایسا ہے ۔ جب تک جس جگہ ملازمت میں رہے ، تعلق برقرار رہا ۔اس کے بعد کبھی کبھی کہیں مل لیئے تو مل لیئے ۔ کچھ لوگ پیشہ وارانہ زندگی میں ایسے بھی رہے کہ جن سے تعلق ہمیشہ برقرار رہا ۔ اس کی بنیادی وجہ تو بچپن میں والد کا یہ بتانا تھا کہ پڑھے لکھے اور ذھین لوگ ہی دولت مند اور خوبصورت ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی طرف میں خود کھنچا چلا جاتا ہوں ۔
یہ میری خوش نصیبی رہی کہ شعبہ تخلیق میں جتنے بھی میرے گروپ ہیڈز آئے ، انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی ، سکھایا ۔ پھر میں نے بھی یہی کیا ، نئے آنے والوں کو سکھایا ، سراہا ۔ کبھی ان کے کام کو اپنے نام سے پیش نہیں کیا ۔ یہ بنیادی طور پر اپنے اوپر اعتماد کی بہترین مثال ہے جو ایڈورٹائزنگ میں ، میں نے اپنے بڑوں سے سیکھی ۔ کچھ کریٹیو گروپ ہیڈز نے میرے لکھے پر تصحیح کی اور رہنمائی فرمائی ۔ ان میں فاروق پراچہ مرحوم ، اعظم شیخ ، مجاہدہ حسن منٹو ، فریڈرک بی۔ نزرتھ ، قیصر عالم اور شعیب میر مرحوم شامل ہیں ۔
عمومی طور ہر شخصیت جانچنے کا جہاں تک معاملہ ہے تو میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر آپ سچے اور کھرے آدمی ہیں تو دو نمبر آدمی آپ کے پاس بھی نہیں بھٹکے گا ۔ ویسے میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاوں ۔ دوست احباب کا یہی کہنا ہے کہ تمھارا چہرہ تمھارے نام اظہر کا غماز ہے ۔ لوگ تم سے خود سنبھل کر ملتے ہیں اس لئے ایسا ویسا تم سے رسم و راہ رکھتا ہی نہیں ۔
سوال19 _آپ نے اپنے مضامین یا تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کروایا یا ایسے ہی مطمئن ہیں ؟
جواب _ابھی انہیں کوئی کتابی شکل نہیں دی ہے ۔ کچھ پبلشرز سے بات ہوئی ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ آپ پیسے دیں اور اپنی کتاب چھپوا لیں ۔ میں نے کیونکہ زندگی بھر لکھنے سے اپنا رزق کمایا ہے ۔ اس لئے اہنے پلے سے رقم لگا کر کتاب چھاپنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ اگر کبھی شہرت اس مقام پر پہنچی کہ بغیر رقم لگائے کتاب چھپی تو سو بسم اللہ ۔
" آخر میں پڑھنے والوں کو کیا پیغام دیں گے _
پیغام یہی ہے کہ
" وقت ہی سب سے بڑا استاد یے ۔ اس کی قدر کیجئے"
اظہر عزمی صاحب الیکٹرانک میڈیا کا ایک معروف نام ہیں انہوں نے قیمتی وقت مرحمت فرمایا اور ہمیں عزت بخشی ۔ ان کے قیمتی کلمات کی اور سیر حاصل گفتگو کے لیئے عالمی اخبار کی جانب سے تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔ مستقبل میں مزید کامیابیوں کے لئے
نیک خواہشات
قبول کیجئے ۔
@Azhar Hussain Azmi

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...