Monday 29 November 2021

ڈاکیا ڈاک لایا ۔۔۔ گزرے زمانے کے پوسٹ میں پر ایک دلچسپ تحرہر ۔ An article on Postman. Article # 90


Article # 90


ڈاکیا ڈاک لایا
ہمارے محلے کے ڈاکیا ۔۔۔ انصار بھائی

تحریر : اظہر عزمی


ہمارے بچپن کے کراچی میں بھی کیا کیا زمانے گزرے ہیں ۔ ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے جب لڑکی کے رشتے کے وقت لڑکے والے پوچھ لیا کرتے کہ لڑکی خط لکھ اور پڑھ لیتی ہے ۔ جواب ہاں میں ہوتا تو سمجھیں لڑکی پڑھی لکھی ہے ۔ اب جب خط کی بات ہو گئی تو ڈاکیا کا ذکر بھی آئے گا ۔

ڈاکیہ کو قاصد اور نامہ بر بھی کہا جاتا تھا اور اردو شاعری میں شاعروں نے کیا کیا مضمون نہ باندھے ۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مرزا غالب

مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
امیر مینائی

اردو ادب میں خطوط ایک صنف شمار ہوتی ہے ۔ خطوط غالب سے کون واقف نہیں ۔ اسی طرح صحرا نورد کے
خطوط ( میرزا ادیب ) ، مکاتیب اکبر ( اکبر الہ آبادی ) ، منٹو کے نادر خطوط وغیرہ وغیرہ۔
کہتے ہیں زمانہ قدیم میں اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے ڈاک ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچائی جاتی تھی۔ برصغیر پہلا ڈاک خانہ 1837 میں قائم ہوا اور یوں انگریزی کا پوسٹ میں ہمارے لیے ڈاکیا کہلایا ۔ زیادہ پیار آتا تو ڈاک بابو بھی کہہ دیا جاتا ۔

سہیل رعنا کے موسیقی کے پروگرام میں مونا سسٹرز کا گایا یہ گانا آج بھی بہت سے ذہنوں میں محفوظ ہوگا :
ڈاک بابو ، ڈاک بابو
میرا خط لے جاو
نانی اماں کو دے آو
پرسوں میری گڑیا کی سالگرہ ہے

ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہمارے لیے سب سے بڑا ڈاکا ڈاک اور ڈاکیے پر ڈالا ۔ یہ کردار معدوم ہوتا گیا اور اب تو ڈاکیے کو دیکھے دن گزر جاتے ہیں ورنہ اولڈ کراچی میں ڈاکیے کا روزانہ آنا لازم تھا ۔ ڈاکیا خط کے علاوہ ٹیلی گرام اور منی آرڈر بھی لاتا ۔ ٹیلی گرام کا بے وقت چلا آنا چہرے اتار دیا کرتا کہ اللہ جانے کیا خبر آئی ہے ۔ منی آرڈر آتا تو لوگوں کے چہرے کھل اٹھتے ۔ عید آتی تو عید کارڈ بھی اسی ذریعے سے ملتے ۔ غرض ڈاکیا زندگی میں لازم و ملزوم تھا ۔ گھر کے بڑے گھر آتے تو یہ ضرور پوچھا کرتے : کوئی خط تو نہیں آیا ۔

ہمارے محلے میں انصار بھائی ڈاکیا دوپہر میں ایک مخصوص وقت پر ڈاک لایا کرتے ۔ ہم اسکول سے آنے کے بعد اکثر گلی میں کھڑے ہوتے کہ انصار بھائی سائیکل کی ٹڑنگ تڑنگ کے ساتھ خاکی وردی میں ملبوس گلی میں داخل ہوتے ۔ ادھیڑ عمر کے میانہ قامت ، دبلے پتلے انصار بھائی کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی سنجیدگی ۔ بردباری اور خودداری لکھی تھی جسے میں لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔

انصار بھائی ایک مخصوص ٹھیلے میں ڈاک لاتے لیکن گلی کی ڈاک ان کے ہاتھ میں ہوتی ۔ شاید وہ ہر گلی میں آنے سے پہلے ڈاک نکال لیا کرتے تھے ۔ گرمیوں میں سائیکل پر آتے تو وردی اور چہرے پر پسینہ نمایاں ہوتا ۔ کبھی کسی سے ایک گلاس پانی کا نہ مانگا ۔ جس گھر جاتے ہلکے سے گیٹ کھٹکھٹاتے اور ڈاکیا کی آواز لگاتے ۔ عام طور پر جن کو اپنے خط کا انتظار ہوتا وہ پہلے سے گلی میں موجود ہوتے ۔ گلی کی وہ عورتیں جنہیں خط کا انتظار ہوتا ۔ دو تین بار گیٹ جھانکتیں اور پوچھ لیتیں : انصار بھائی تو نہیں آئے ۔

جس کسی کو اپنے انٹرویو لیٹر یا ملازمت کے پروانے کا انتظار ہوتا ۔ اس کی حالت دیدنی ہوتی ۔ پہلے سے گلی میں موجود ہوتا ۔ انصار بھائی اگر اس کے پوچھنے سے پہلے نہیں کا اشارہ کر دیتے تو اس کا منہ اتر جاتا اور اگر ہاں کہہ دیتے تو چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا ۔ ایسے موقع پر ڈاکیا حضرات " خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر " کے مصداق منہ میٹھا کرنے کے لئے رقم کا تقاضا کیا کرتے تھے مگر انصار بھائی نے کبھی ایسا نہ کیا ۔ اگر کچھ دے دیا تو خاموشی سے رکھ لیا مگر خود سے سے کوئی تقاضا نہ کیا ۔ برسوں سے انصار بھائی کا آنا جانا اتھا اس لئے گلی والے ایسے خطوط اور عید تہوار پر ان کا بڑا خیال کیا کرتے ۔
ڈاک سے عید کارڈ اور شادی کارڈ بھی آیا کرتے ۔ جب کسی کا بے وقت ٹیلی گرام لاتے تو انصار بھائی کے چہرے کی سنجیدگی اور بڑھ جاتی ۔ بیرنگ خطوط ( جس میں رقم کی ادائیگی جط وصول کرنے والے کو کرنا ہوتی ) کے معاملے میں انصار بھائی کا اصول بڑا پکا تھا ۔ رقم وصول کیے بنا خط نہ دیتے ۔

انصار بھائی سے متعلق ایک واقعہ پوری گلی میں مشہور تھا ۔ جب کبھی ہم اس کا تذکرہ کرتے تو مسکرا دیا کرتے ۔ بس ہم نے ان کے چہرے پر یہی ایک مسکراہٹ دیکھی تھی ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ انصار بھائی نئے نئے ہماری علاقے میں پوسٹ ہوئے ۔ ہماری پڑوسن جنہیں ہم سب خالہ کہا کرتے تھے ( یہ وہ زمانہ تھا جب محلے میں بڑوں کو خالہ خالو کہنے کا رواج تھا ۔ انکل آنٹی سے کوئی واقف نہ تھا ) کی آواز ذرا بھاری تھی ۔ انصار بھائی نے گیٹ کھٹکھٹایا اور ڈاکیہ کہا ۔ خالہ شاید دوسری طرف تھیں ۔ انصار بھائی نے دوبارہ گیٹ کھٹکھٹایا ۔ خالہ نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں پوچھا : کون ؟ ۔ انصار بھائی نے آواز سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا : خالو باہر تو آئیں ۔ خط آیا ہے ۔
انصار بھائی جو سب کو خط لا کر دیا کرتے تھے ۔ ایک دن بہت خاموشی سے ہماری زندگی سے نکل گئے ۔ ریٹائرڈ جو
ہو گئے تھے ۔ ان کی جگہ پھر ایک نوجوان ڈاکیا نے لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی جگہ کوئی نہ لے پایا ۔  

(تصویر بطور ریفرنس لگائی گئی ہے)

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...