Article # 89
کاغذوں پر " تھے" لیکن دلوں میں ہمیشہ " ہیں" رہیں گے
عمر شریف
تحریر : اظہر عزمی
لیاقت آباد کراچی کی ایک چمکتی دمکتی بستی ہے ۔ یہاں کی گنجان آبادی کے افق سے گنجینہ صفت لوگ طلوع ہوئے جن کی تابناکی دنیا نے دیکھی ۔ سیاست ہو یا کھیل ، ادب ہو یا شوبز ایک سے ایک باکمال بے مثال رہا ۔ فنون لطیفہ کی دنیا میں جنہوں نے عالمی شہرت سمیٹی ان میں صابری برادران ، معین اختر ، عمر شریف اور امحد صابری شامل ہیں ۔ گزشتہ دنوں ان پانچ باکمالوں ، بے مثالوں میں سے عمر شریف نے بھی اس عارضی دنیا سے رخصت سفر باندھ لیا ۔
موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
عمر شریف کو میں نے بھی دیگر افراد کی طرح اسکرین پر ہی دیکھا ۔ اسٹیج ڈرامے بکرا قسطوں پر نے عمر شریف کو بغیر کسی قسط کے یکمشت شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیا ۔ ایک ایک جملہ زبان زد عام ہوا ۔ کیسٹس پر ان کی حکمرانی تھی اور ان کے مداح رعایا تھی ۔ عمر شریف ہمہ جہت شخصیت تھے ۔ ایک ذھین لکھاری اور کامیڈین تھے ۔ یہ امتزاج دنیا میں خال خال لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ۔
عمر شریف بطور لکھاری معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے ۔ طنز و مزاح میں بہت سادگی سے بڑی گہری بات کہہ جایا کرتے تھے ۔ ان کی تحریر کیونکہ حد درجہ عوامی ہوتی ۔ اس لئے اسے ادبی حلقوں میں قابل اعتنا سمجھا ہی نہیں گیا۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے کچھ جملے بڑے بڑے ادیبوں کی تحاریر پر بھاری تھے ۔ عمر شریف کو لکھنے کی جو صلاحیت ودیعت ہوئی تھی ۔ انہوں نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔
بطور کامیڈین ان کی سب سے بڑی خوبی جملوں کی ادائیگی میں برجستگی اور ٹائمنگ تھی ۔ عمر شریف کو چہرے کے بھرپور تاثر کے ساتھ جملوں کی ادائیگی میں ید طولی حاصل تھا ۔ حد یہ ہے کہ وہ اگر مسکرا بھی رہے ہوں تو دیکھنے والے کو ہنسی آ جائی ۔ عمر شریف نے ہدایت کار کے طور پر بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو منوایا ۔ شاعری سے بھی شغف تھا۔ اسٹیج اداکاری سے ہدایت کاری اور کمپیئرنگ تک وہ جہاں جہاں پہنچے ۔ اپنے قدم جمانے اور فتح کا پرچم لہراتے گئے ۔ عمر شریف ان خوش نصیب فنکاروں میں ہیں جنہیں عوامی سطح پر ان کی زندگی میں بھرپور پذیرائی ملی ۔
لوگ عام طور پر کامیڈین کو مسخرہ سمجھ لیتے ہیں اور ان سے عام زندگی میں بھی یہی سب کچھ توقع کرتے ہیں ۔ عمر شریف کے انٹرویوز کے کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ایک بالکل نئے عمر شریف سے ملاقات ہو گئی ۔ سنجیدہ ، متین ، حلیم، ۔۔۔ مزاج صوفیت کی طرف راغب تھا جس کا بنیادی وصف انسانیت ہوتا ہے ۔ کسی بھی تعصب سے پرے بس انسان کو مقدم جاننا ۔ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنا ان کا مشغلہ بھی تھا اور پیشہ بھی ۔ جب آپ کا مشغلہ ہی آپ کا پیشہ بن جائے تو تھکن کیسی ۔ عمر شریف کی حس نزاح ہمیشہ ٹر و تازہ رہی ۔ کتنے ہی فنکار ان کے زیر سایہ رہ کر فنکار بن گئے ۔ واقعی وہ اپنی ذات میں واقعی ایک ادارہ تھے ۔
عمر شریف بطور لکھاری اور کامیڈین اپنے طرز سخن کے بانی تھے ۔ صرف کاغذوں پر ہم " تھے " لکھیں گے لیکن دلوں میں وہ ہمیشہ " ہیں " رہیں گے ۔ ایک دردمند دل رکھنے والے عمر شریف ڈرامے کے اسٹیج پر سب کی دلجوئی کرتے جو اس دور میں کار ثواب ہے ۔
کچھ لوگ زمانے میں ایسے بھی تو ہوتے ہیں
محفل میں تو ہنستے ہیں ، تنہائی میں روتے ہیں
No comments:
Post a Comment