Thursday 23 September 2021

Karachi kay aalmi mushairay , Hamara tehzibi wirsa . Article 88

Article 88

کراچی کے عالمی مشاعرے ، ہمارا تہذیبی ورثہ

ان میں شرکت زندگی کی حسین تریں یادیں ہیں



تحریر : اظہر عزمی

والد صاحب ( کوثر سلطان پوری ) شاعر تھے اس لئے شعر کہنے کا نہ سہی لیکن شعری ذوق مجھ میں شروع سے تھا ۔ عمر کے لحاظ سے شعر سمجھ میں آتے گئے اور ہمارا شعری ذوق پروان چڑھتا گیا ۔ ایک زمانے میں مجھے یہ شعر جو فی الوقت ذہن میں آ رہے ہیں ، بہت پسند تھے ۔
تم اپنے دل کا حال نہ سب سے کہا کرو


ہمدردیوں کی بھیک سی دینے لگے ہیں لوگ
یہ کون ہیں جو میری وحشتوں پہ ہنسٹے ہیں
کہاں گئے مجھے آکر سنبھالنے والے
تعوہذ کیا کروں گا کہ ان بازوں کو ہے
اژدر شکار قوت حیدر ع کی آرزو

اسکول میں تھے تو جنرل ضیاء کا مار ۔۔۔ شل ۔۔۔ لا تھا ۔ سیاسی اجتماعات پر پابندی تھی ۔ کالج میں تھے کہ

انیسو تیراسی میں انجمن سادات امروہہ نے اپنے امروہہ مرکز ، فیڈرل بی ایریا میں پہلا پاک وہند مشاعرہ کا انعقاد ہوا ۔ میں کئی دن سے خوش تھے کہ مشاعرے میں شرکت کی سعادت نصیب ہو گی ۔ ہم بھی کسی نہ کسی طرح پاس لے کر اپنے دوستوں کے ہمراہ جا پہنچے ۔ یہاں پہنچے تو دنیا ہی بدلی ہوئی پائی ۔ سب خواتین و حضرات خوش مزاجی و خوش لباسی کا منبع بنے ہوئے تھے ۔ ہم پہلی بار مشاعرے میں گئے تھے اس لئے آداب محفل کا خیال کرتے ہوئے ڈرائی کلینرز سے دھلا سفید ململ کا کرتا شلوار پہن گئے تھے ۔ کچھ سامعین تو شیروانیوں میں ملبوس تھے ۔ کچھ بالکل لکھنوی بانکے بنے ہوئے تھے ۔ لگتا تھا شاعروں کی برات اترنے والی ہے اور ہم سب براتی ۔ زندگی میں پہلی بار اتنے سارے لوگوں کو ساتھ خوش دیکھا تھا ۔ یہ ایک بدلا کراچی تھا اور ہم اس بدلے کراچی میں نووارد تھے ۔ اس لئے نہ جانے کیوں شرما بھی رہے تھے ۔ یہ ہماری شروع کی عادت لوگ زیادہ ہوں تو بغیر کسی وجہ کہ شرمائے لجائے ایک کونے میں جا لگتے ہیں ۔


سادات امروہہ کے مشاعرے کی صدارت اس وقت کے وزیر دفاع میر علی احمد خان تالپور نے کی ۔ مجھے یاد ہے کہ صہبا اختر جب پڑھنے آئے تو پی ایس ایف کے لڑکوں نے خاصی نعرے بازی کی ۔ سیاسی حبس اور گھٹن کی فضا میں یہ مشاعرہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا ۔ سادات امروہہ کے مشاعروں کے بعد 1989 میں کراچی میں عالمی مشاعروں کا دور شروع ہو گیا جس میں اکناف عالم سے شعراء آنے لگے ۔ ان تمام مرکزی پاک و ہند / عالمی مشاعروں کے بعد شہر میں دیگر مقامات پر بھی مشاعرے ہوتے ۔ ساکنان شہر قائد کے عالمی مشاعرے یوم پاکستان کی مناسبت سے ہوتے اور خاصے بڑے پیمانے پر ہوتے ۔ لگتا کہ شہر کی ساری فضا ادبی ہو گئی ہے ۔ اخبارات بھی مشاعروں کی تفصیلات پر صفحے شائع کیا کرتے ۔ ٹی وی چینلز کوریج کرتے ۔ دو ایک چینلز براہ راست بھی نشر کرتے ۔ غرض یہ مشاعرے کراچی میں سال کا بڑا ایونٹ تھے ۔ ہزاروں میں سامعین ہوتے ۔ مشاعرے کے قریب میی چائے و دیگر کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ کتابوں کے اسٹالز لگ جاتے مگر اب کچھ سالوں سے عالمی مشاعرے منعقد نہیں ہو رہے ہیں ۔

سادات امروہہ کے پاک و ہند مشاعرے ہمارے لئے ایک حسین تحفہ ثابت ہوئے ۔ پہلی بار نامی گرامی شعراء کو سنا ۔ زندگی میں پہلی بار شستہ و شائستہ ہوٹنگ دیکھی ۔ کیا کیا برجستہ اور پر مزاح جملے آتے کہ آپ ہنس ہنس کر آدھ موئے ہو جائیں ۔ بھارت کے شعرا ء نے کیا کیا رنگ نہ باندھے اور اس پر ترنم کی چاشنی نے کانوں میں رس ہی گھول دیا ۔ وہ عمر بھی ایسی تھی کہ طبعیت شعر سے مائل بہ رومان ہوجایا کرتی تھی ۔ اب تو طبیعت اچھے شعر کو سنتی ہے ابھی اس کے کیف و سرور میں ہوتی ہے کہ کوئی مسئلہ ذہن میں آکر کہتا ہے : میاں کہاں چلے ۔ وہ دن ہوا ۔

عالمی مشاعروں میں کس کس کو نہ سنا ۔ بیکل انسانی ، کیفی آعظمی ، علی سردار جعفری ، کمال امروہوی ، شہریار ، خمار بارہ بنکوی ، معراج فیض آبادی ، ساغر خیامی ، کرشن بہاری نور ، بشیر بدر ، وسیم بریلوی ، راحت اندوری، منظر بھوپالی ، عادل لکھنوی ، پاپولر میرٹھی وغیرہ ۔ پاکستانی شعراء کی تو ایک طویل فہرست ہے ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہمیں ہندوستانی شعراء میں ترنم سے پڑھنے والے شعراء بہت پسند تھے ۔ ان کے کلام و آواز میں ایک عجب رومانوی کشش تھی جو ہمیں عمر کے اس مخصوص حصے میں بہت بھایا کرتا تھی ۔ جیسے یہ مترنم غزل (انجم رہبر) :

ملنا تھا اتفاق ، بچھڑنا نصیب تھا
وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا
دفنا دیا گیا مجھے چاندی کی قبر میں
میں جس کو چاھتی تھی وہ لڑکا غریب تھا

اسی طرح کی یہ غزل (حنا تیموری) :
سجدہ تجھے کروں گی تو کافر کہیں گے لوگ
یہ کون سوچتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
کہتے ہیں تجھ کو لوگ مسیحا مگر یہاں
اہک شخص مر گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
سجدہ کروں کہ نقش قدم چومتی رہوں
گھر کعبہ بن گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
ہم آ کے تیرے شہر سے واپس نہ جائیں گے
یہ فیصلہ کیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

اسی طرح یہ دل آفرین غزل (ریحانہ نواب) :
کسی سے بات کرنا بولنا اچھا نہیں لگتا
تجھے دیکھا جب سے دوسرا اچھا نہیں لگتا
تیرے بارے میں دن بھر سوچتا رہتی ہوں میں لیکن
تیرے بارے میں سب سے پوچھنا اچھا نہیں لگتا

ابھی 90 کی دھائی کے ابتدائی سال ہوں گے کہ ہماری دفتری زندگی میں خوش شکل ، خوش گفتار و خوش لباس نوجوان عباس ظفر آگئے ۔ یہ اس وقت کی مینہیٹن پاکستان میں بطور کلائنٹ سروس ایگزیکٹیو آئے تھے اور یہ غالبا ان کی پہلی ملازمت تھی ۔ اب تو خیر وہ ایک بینک میں مارکیٹنگ ہیڈ کے عہدے پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور عباس کاظمی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ یہ وی سی آر کا زمانہ تھا ۔ پتہ چلا کہ عباس ظفر کے والد غالبا سعودی عرب میں ہیں اور انتہائی اعلی درجے کا شعری ذوق رکھتے ہیں ۔ عباس ظفر نے بتایا کہ ان کے والد کے پاس انڈیا کے بڑے بڑے مشاعرے وی سی آر کے کیسٹ میں موجود ہیں اور یہ کہ کچھ کیسٹ ان کے پاس کراچی میں بھی رکھے ہیں ۔ اندھا کیا چاھے دو آنکھیں ۔

انڈیا کے شعراء کا ہمیں چسکا پڑ چکا تھا ۔ اس زمانے دبئی میں سلیم جعفری مرحوم بھی پاک و ہند مشاعرے منعقد کیا کرتے تھے جس میں ہر سال کسی مشہور شاعر کے جشن کا نام دیا جاتا ۔ خیر جناب عباس ظفر کے وجہ سے ہمارے ہاتھ تو جیسے خزانہ آ گیا ۔ عباس ظفر نے کچھ کیسٹ تو واپس لئے اور دو ایک بھول گئے جو آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں ۔

ان کیسٹوں کے ذریعے خمار بارہ بنکوں کی شاعری کا سرور ہمارے سر ایسا چڑھا کہ سالوں اس کے اثر میں رہے بلکہ اب بھی ہیں ۔ ایک مرتبہ کنور مہندی سنگھ بیدی سحر نے خمار صاحب سے کہا تھا کہ سرور چڑھتے اور خمار اترتے نشے کو کہتے ہیں ۔ آپ کی شاعری میں سرور ہے ۔ آج بھی خمار صاحب کی کئی غزلیں کئی بار سننے کے بعد بھی پہلی بار جیسا سرور دیتی ہیں ۔ خمار صاحب جگر مراد آبادی اسکول آف تھاٹ کے آخری مسلمہ شاعر تھے ۔ پہلا مصرعہ پڑھتے اور سامعین ان کی گرفت میں ہوتے ۔
سنا ہے وہ ہم کو بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں
ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر میرے گھر میں آنے لگے ہیں
دو گناہ گار زہر کھا بیٹھے
ہم انہیں وہ ہمیں بھلا بیٹھے
ہم غریبوں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے
حشر کا دن ابھی ہے دور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے

میں نے کمال امروہوی کی مشہور غزل بہ زبان شاعر سنی جس وقت انہوں نے رات کے پچھلے پہر یہ غزل پڑھی تو ایک سماں باندھ گیا تھا ۔
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی باہوں میں پا کر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہوگی
اسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہو گی
اسی طرح احمد فراز کی مشہور زمانہ غزل بہ زبان شاعر سنی ۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

اسی طرح بیکل اتساہی کی دیہات سے جڑی شاعری کسی اور ہی کیفیت میں لے جاتی ۔ سہل ممتنع میں شاعری اور اس پر ان کا ترنم دیوانہ کئے دیتا تھا ۔
جب سے تم جوان ہو گئے
شہر بھر کی جان ہو گئے
ان دنوں وہ مدھ بھرے نیین
زہر کی دکان ہو گئے
اونچی اونچی بلڈنگیں بنیں
لوگ بے مکاں ہو گئے

اسی طرح کیفی آعظمی اور علی سردار جعفری کی ترقی پسند شاعری ۔ دیگر شعراء کا تذکرہ ابھی ذہن کے نہاں خانے میں ہے جسے سینہ قرطاس پر منتقل کرنے کو دل چاہتا ہے ۔ ممکن ہے آپ لوگ بور ہورہے ہوں یا تھگ گئے ہوں اس لئے پھر کبھی سہی ۔ 

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...