Saturday 23 March 2019

Advertising mein aana kaisay hoa? ep.1 (An autobiograpbhy of a Creative)


Article #1


ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟
اشتہارات ہیں زمانہ کے !
قسط اول



تحریر :اظہر عزمی

لکھنے کا مرض بچپن میں لگ گیا تھا۔ پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھے تو اس کی علامات ظاہر ہو گئیں۔ والد صاحب کوثر سلطان پوری ، رحمن برادرس میں دیگر اداروں کی طرح اکاونٹس کے معاملات دیکھا کرتے تھے ۔ ان کے یہاں سے بچوں کا ماہنامہ رسالہ غنچہ نکلا کرتا ہے۔ والد صاحب کو بغیر بتائے اپنے چچازاد بھائی اطہر نجمی (جو اب آسودہ خاک ہیں) کی شرارتوں پر ایک مضمون "استاد شرارت" لکھا ۔والد کو دکھایا اور وہ چھپ گیا۔ ایک دو اور مضمون لکھے تو طبعیت میں افاقہ ہوا اور اس مرض سے وقتی نجات ملی۔ یہ لکھائئ کا مرض بھی عجب ہے ۔ میرے ساتھ تو یہ ہے کہ لکھ لو تو طبیعت سنبھل جاتی ہے۔
وقتا فوقتا جہاں جس نے موقع دیا ہاتھ صاف کرتے رہے۔ کسی نے کوئی کتابچہ لکھوالیا،کچھ نہیں تو کسی کی سالگرہ پر چند لکیریں کھینچ دیں۔ کسی کا انتقال ہوا تو سوگوارن کے کہنے پر مرحوم کی روانگی کو سانحہ عظیم قرار دے دیا ۔ ہماری اخباری لکھت اور خبریں ترجمہ کرنے اور لکھنے کی ابتدا مولانا جواد الاصغر کی زیر ادارت نکلنے والے ہفت روزہ "ارشاد" سے ہوئی جو 80 کے اوائل میں خادم حسین کے زیر انتظام نکلا کرتا تھا بعد ازاں یہ ذمہ داری ان کے داماد جعفر امام نے سنبھال لی۔ ایک مرتبہ ایک سیاسی پوسٹر لکھنے کا موقع بھی ملا لیکن جب وہ پوسٹر دیواروں پر چسپاں ہوا تو ڈر گئے ۔ ہمارے چھوٹے بھائی وجاہت عباس (بزمی) کے ایک دوست اسد نقوی ضیا مخالف جماعت یقینا پیپلز پارٹی ہی تھی ،میں تھے۔ان کے ایک سیاسی رہنما پابند سلاسل تھے ہم سے ان کی رہائی کے لئے پوسٹر لکھنے کو کہا ۔ہمارا خیال تھا کہ چھپنا وپنا ہے نہیں لکھدیا ۔اس میں لکھے دو اشعار آج بھی ذہن میں ہیں۔اللہ جانے کس کے ہیں ؟
جذبات کے اظہار پہ پہرے نہ بٹھاو
خاموش رہو گے تو گھٹن اور بڑھے گی
گو منزل مقصود ابھی دور ہے لیکن
رک جائے مسافر تو تھکن اور بڑھے گی
اب آتے ہیں کہ یہ Passion ہمارا Profession کیسے بنا ؟ 1988 کے شروع کے مھینے ہیں۔ محلہ میں ایک کونے کے گھر میں اسحاق صاحب کی دکان تھی ۔اس کے ساتھ پیپل کے درخت کے نیچے بے روزگار People بیٹھتے ہیں۔ جن کا کام سیاسی صورت حال پر بے راگ تجزیئے کرنا ، ٹھٹول بازی کرنا (شائستگی کے دائرے میں) اور یہ خبر رکھنا کہ کون سا لڑکا چھٹی کے وقت کس لڑکی سے 20-25 قدم دور اپنے حصار میں لے کر اسے بغیر بتائے گھر تک بہ حفاظت چھوڑ کر آتا ہے ۔ یہ "ہمارے زمانے کے " شریفانہ عشق ہوا کرتے تھے جس میں پہلا فریضہ شیریں کی گھر تک بہ حفاظت سپردگی شیوہ عاشقاں تھی۔
ہماری زندگی 1982 سے ساڑھ ستی کا شکار تھی ۔یہ ہم نہیں ہمارے ایک دوست ہماری حالت دیکھکر کہا کرتے تھے۔ ہمیں خود بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ کیا بلا ہے۔ سمجھ لیں تعلیم ہو روزگار سب دروازے مقفل اور ہم آئے دن دو چھتی والے کمرے میں جا کر اللہ تعالی سے اپنی قسمت کے شکوے کیا کرتے ۔اکثر یہ شعر پڑھتے :
مجھ کو شکوہ تو نہیں کاتب تقدیر مگر
رو پڑے تو بھی اگر میرا مقدر دیکھے
صورت حال مرزا غالب کے اس مصرعہ تک پہنچ چکی تھی
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
ڈانٹ پھٹکار اور ناکارگی کے طعنے سنتے سنتے 1988 آگیا۔ ملک میں جنرل ضیاءالحق کا مارشل لا اور ہمارا آسٹرولوجیکل مارشل لا جاری تھا۔ 1977 کی بھٹو مخالف تحریک میں جب ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے لیکن سیاسی باخبری کی لت پڑوس میں رہنے والے حسن بھائی سے لگ چکی تھی۔ اس زمانے میں علاقائی سطح پر فملی انداز کے پی پئ پی کے رہنماوں کے اشتہار ت فوٹو کاپی کر کے چسپاں کر دیئے جاتے جو بالکل ایک نیا آئیڈیا تھا۔
یہ بات 1988 تک ہمارے ذہن میں تھی ہمارے پڑوس میں ایک صاحب PQR (پاکستان قومی رضاکار) میں ہوا کرتے تھے۔ ان سے ہمارا ہنسی مذاق چلتا رہتا تھا۔ ایک دن کسی بہانے سے ان کی اور ایک دو اور لڑکوں کی پاسپورٹ سائز تصویریں لیں۔ اخبار جنگ کے فلمی صفحہ سے اداکار اور اداکاروں کی تصویر لیں، ان کے سر کاٹے ( تصویر سے ) اور جوڑ جاڑ کر ایک مزاحیہ فلمی اشتہار بنا دیا۔ اس کا ایک جملہ مجھے ابھی بھی یاد ہے : یہ اس وقت کی کہانی ہے جب پیاز مہنگی اور خون سستا تھا۔ لیجئے جناب اشتہار تیار ہوگیا۔ فوٹو کاپی ہوئی اور محلہ کی سب سے چلتی ہوئی اسحاق صاحب کی دکان پر لگا دیا۔ اشتہار کا واحد مقصد تفریح اور جن کی تصویریں اس اشتہار میں ہیں ان سے نہاری کھا کر اوریجنل اشتہار پھاڑ دینا ہونا تھا۔ اشتہار دوپہر میں لگا اور ہماری تقدیر کا فیصلہ ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے۔
اسحاق صاحب کی دکان کے بالکل سامنے ہمارے عزیز ترین دوست صفدر مرزا رہا کرتے تھے ۔ان کے والد جنہیں ہم خالو کہا کرتے تھے (ہمارے زمانہ میں کسی سے بھی آنٹی انکل والی رشتہ داری کا رواج قائم نہ ہوا تھا ۔ننھیالی رشتہ داری باعث تعظیم تھی ) چغتائی آرٹ کے مصور تھے اور کسی جگہ ملازمت کیا کرتے تھے۔ اس سے زیادہ ہمیں کسی معلومات کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ جب کبھی صفدر مرزا کو بلاتے اور اگر وہ نکل آتے تو سلام کے بعد کہتے " خالو صفدر کو بھیج دیں۔ صفدر مرزا کے والد کا نام دلاور مرزا تھا۔ مرزاصاحب کا یہ تھا کہ شام کو دفتر سے آکر اپنے بڑے بیٹے کے بچوں یعنی پوتوں کے لئے بسکٹس وغیرہ لینے آتے۔اس دن بھی آئے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ وہ ہمیں لینے آئے تھے۔ دکان پر آئے ایک نظر ہمارے اشتہار کو دیکھا اور اسحاق صاحب سے پوچھا کہ یہ کس نے بنایا ہے۔ اسحاق صاحب ہماری اس حرکت پر خوش نہ تھے لیکن محلہ کی دکانداری کی وجہ سے خاموش تھے ،بولے "ارے مرزا صاحب یہ وہی عزمی ہے۔ایسی حرکتیں اس کے علاوہ کون کرتا ہے "۔مرزا صاحب نے جاتے جاتے کہا کہ وہ آئے تو میرے پاس بیھجنا ۔
ہم دکان پر پہنچے تو اسحاق صاحب نے بڑے طنز بھرے لہجہ میں کہا "جاو ،مرزا صاحب بلا رہے ہیں "۔انہوں نے اشتہار کا ذکر نہیں کیا۔ ہم سمجھے کہ ہماری کوئی شکایت ہوگی۔ ہم صفدر مرزا کے پاس گئے اور پوچھا "او ۔۔۔ بھائی خالو نے بلایا ہے ۔میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا "۔ صفدر مرزا نے کہا کہ ابو تو اندر بیٹھے چائے پی رہے ہیں مجھ سے تو انہی نے تمہارا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ خالو خود باہر آگئے۔ہم ڈر گئے۔ سلام کیا اور سوچا کہ اب کچھ ہوا۔خالو نے دکان پر لگے اشتہار کی طرف اشارہ کر کے پوچھا "یہ تم نے بنایا ہے ؟"۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ہاں میں سر ہلایا۔ بولے " کل صبح ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے میرے ساتھ میرے آفس چلنا "۔ ہم نے جانا کہ ملازمت کے آثار ہویدا ہوئے ۔
یہ بات سنکر گھر دوڑے گئے تو گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔صبح کی تیاری رات کو ہی شروع ہو گئی۔ عید پر سلی پینٹ اور شرٹ نکالی گئی۔ استری ہوئی۔ امی نے دس بجے ہی یہ کہکر حوالہ بستر کردیا کہ تم تو شروع کے نیستی مارے ہو کہیں صبح سوتے ہی نہ رہ جانا۔ والد صاحب نے کہا "صاحبزادے آپ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں ۔جلدی سو جائیں"
اگلے روز 7 بجے اٹھ گئے ۔ نہائے دھوئے ۔لکھتے لکھتے واصف علی واصف کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
نہ جانے کون سی منزل ہے واصف
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں
دلچسپ بات یہ ہے کہ جا تو رہے ہیں مگر یہ خبر نہیں کہ کام کیا کرنا پڑے گا۔ بھائی اتنی مصیبتیں گلے پڑ جکی تھیں کہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ بقول شخصے کسی موذی مرض کا شکار بخار کو صحت یابی سمجھتا ہے۔ قصہ الطویل خالو وقت مقررہ پر گھر سے برآمد ہوئے تو ہم ان کے گیٹ کے باہر موجود تھے۔ان کی ویسپا موٹر سائیکل پر بیٹھے اور شاہراہ فیصل پر موجودہ مہدی ٹاورز کے ساتھ پیٹرول پمپ کے پیچھے ایک بنگلے میں ویسپا پارک کر دی گئی ۔معلوم ہوا کہ یہ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی ہے اور خالو (یہاں مرزا صاحب) آرٹ ڈائریکٹر ہیں۔
مرزا صاحب کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے ایک کمرے میں پہنچے جہاں کوئی بخاری صاحب موجود تھے مرزا صاحب نے ان سے خاصی بے تکلفی سے بات کرتے ہوئے کہا "بخاری صاحب اس بچے سے ملو ،دل خوش ہو جائے گا۔ بہت کریٹیو ہے"۔اللہ جانتا ہے مجھے کریٹیو لفظ کا اس موقع پر استعمال بالکل پلے نہ پڑا ۔ مرزا چلے گئے اب ہم اور بخاری صاحب ۔کچھ گھر اورتعلیم کا پوچھا اور پھر ٹیبل سے ایک پن اٹھا کر ہاتھ میں دے دی اور بولے "اس پن کے الٹے سیدھے تمہارے ذہن میں جو بھی استعمال آئیں وہ لکھ دو۔ ہمارے تو دماغ میں پن چبھ گئی کہ یہ کہاں آگئے۔کیا یہ لوگ پنوں کا کاروبار کر رہے ہیں اور اسکی فروخت بڑھانے کے لئے ہمیں ملازم رکھ رہے ہیں۔ ہماری خاموشی دیکھکر بخاری صاحب بولے " میاں لکھ لو گئے۔مرزا صاحب تو بڑی تعریف کر گئے ہیں" ۔ مرزا صاحب پر حرف آتے دیکھا تو پھر ہم نے آو دیکھا نہ تاو۔وہ وہ استعمال لکھے کہ چند ایک تو یہاں لکھنے کے قابل بھی نہیں۔بخاری صاحب کو بہت مختصر وقت میں ایک طویل فہرست تھما دی گئی۔ بخاری صاحب نے فہرست پڑھی اور مسکرائے ۔مرزا صاحب کو بلایا ،ہاتھ ملایا اور کہا "مرزا صاحب یہ چلے گا نہیں دوڑے گا گھوڑے کی طرح " ہمیں ایک دم رات والی والد صاحب کی بات یاد آئی " صاحبزادے آپ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں " مگر ہمیں تو اب دوڑنے والا گھوڑا قرار دیا جا چکا تھا .نوکری ہھر بھی نہیں ملی ۔ابھی ٹھوکریں باقی تھیں۔ 

باقی قسط نمبر 2 میں پڑھیں جو اس بلاگ پر موجود ہے  تیسری قسط ابھی آنا باقی ہے۔۔باقیآئد

8 comments:

  1. اعلیٰ.. مزے کا... اگلی قسط کا انتظار ھے بھائی

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ اعجاز۔ہمارا تو یہ یے کہ
      یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
      جہاں بھی گئے داستاں لے کے آئے

      Delete
  2. Awaiting for next episode 😊

    ReplyDelete
    Replies
    1. جناب آرٹیکل کی بسندیدگی کا بہت شکریہ ۔اگلی قسط بہت جلد آپ کے درمیان ہوگی۔
      مناسب سمجھیں تو نام سے مطلع کریں۔ فولو کرتے رہیں آرٹیکلز کو ابھی بہت کچھ آنا ہے ۔

      Delete
  3. Great price of writing, very interesting. While reading I was trying to built a scatch to under stand the Mirza sahab's house.

    ReplyDelete
  4. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  5. Thanks for appreciation ,I really felt delighted having read ur comments. Recently new video added. Plz share this links to others.

    ReplyDelete

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...