Thursday 23 May 2019

سہرا کسی کا ، نام کسی کے ۔ کلائنٹ کے قصے ۔ مزے مزے کے ۔آرٹیکل # 28


Article # 28


کلائنٹ کے قصے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے (قسط نمبر 5)

کلائنٹ کے بیٹے کی شادی
سہرا کسی کا ، نام کسی  !




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

ایڈورٹائزنگ کی دنیا کے لوگ بالخصوص جن کا تعلق کریٹیو ڈیپارٹمنٹ سے ہوتا ہے کبھی کبھی عجیب صورت حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تحریر کے معاملہ میں آپ کو ہر فن مولا تصور کیا جاتا ہے۔ چار و ناچار آپ کو کرنا ہی ہوتا  ہے ورنہ مینجمنٹ آپ سے کبیدہ خاطر بھی ہو سکتی۔ میٹنگ میں جائیں تو  وارم اپ کے لئے کلائنٹ آپ سے کسی بھی ملکی اور بین الاقوامی موضوع پر گفتگو کا آغاز کر سکتا ہے۔ موسم کے حال سے لے کر منڈی کے بھاو  تک کچھ بھی زیر بحث آسکتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک وہ دنیا کے تقریبا ہر موضوع پر اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے بے لاگ تجزیوں میں ٹانگ اڑانے کا کوئی حق حاصل نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہوتا کہ سرکار دنیا کے بڑے  دانشور ، ٹجزیہ نگار آپ کے آگے کچھ بھی نہیں بیچتے بلکہ دکان  ہی بڑھا گئے ہیں۔ ہمیں ان کی ہر بات پر داد و تحسین کے ڈونگے انڈیلنے ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی نکتہ جو آپ نے نکالا ہے اور وہ ان کے تجزیے سے مختلف ہوا تو آپ کو کہنا پڑتا ہے " ویسے آپ کا نکتہ زیادہ قابل وزن ہے اور اس میں جو نکات آپ نے اٹھائے وہ ایک اس گھمبیر مسئلے کے حل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ۔ خوشامد و چاپلوسی کی بارہ دری میں انہیں سیر کرائی جاتی  ہے ۔ بھائی سیدھی سیدھی بات یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا کام کلائنٹ کے غلط کو دلیل کے ساتھ صحیح ثابت کرنا ہوتا جس کا ہماری تنخواہ سے دور پرے کا کوئی تعلق نہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس میں کچھ کلائنٹ واقعتا پڑھے لکھے اور موضوع پر حقیقی گرفت رکھتے ہیں ان سے بات کر کے واقعی بہت مزہ آتا ہے 

میں اکثر اوقات یہ بات کہہ چکا ہوں کہ شاعر اور ادیب عام طور پر اس شعبہ میں نام نہیں کما پاتے اور رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے بطور کریٹیو اس فیلڈ میں آنکھ کھولی ہو کلائنٹ کی بریف کے بغیر کام ہی نہیں کر سکتے ۔ یہ مکمل طور پر کمرشل رائٹنگ کی فیلڈ ہے جہاں کلائنٹ کی منظوری کے بغیر آپ کا بہترین کام جھاڑو سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہماری تربیت کا بنیادی نکتہ ہی کلائنٹ کی ہاں ناں سے جڑا ہوتا ہے اس لئے بار بار تخلیقی کاموں میں تبدیلی کرانے کے باوجود ہم  اپنے کام میں جتے رہتے ہیں۔ہماری ذاتی پسند اور نا پسند کوئی معنی نہیں۔

کبھی کبھی کچھ ایسی فرمائشیں آجاتی ہیں کہ آپ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں مگر پھر بھی کوئی راہ نکالنا پڑتی ہے۔ مینجمنٹ سے کہو تو وہ ایک ہی بات کہتی ہے "کرنا تو پڑے گا۔ باہر سے کروالو ۔ویسے ایک بات سنو۔ایک ٹرائی مار کر دیکھ لو"۔ ہم نے بےشمار پریس ایڈز لکھے۔ ٹی وی کمرشلز کے کانسپٹس لکھے۔ جنگلز لکھے جو زبان زد عام ہوئے۔ ٹی وی پر ان کی پیروڈی بھی بنی۔ اس کے باوجود ہم نے پوری زندگی میں چار پانچ شعر کہے ( اللہ جانتا ہے وزن میں بھی تھے کہ نہیں )۔

ایک  مرتبہ ایک ایسی فرمائش آگئی جس کا ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔ کلائنٹ کے بیٹے رشتہ ازدواج میں بندھ رہے تھے ۔ کسی نے ان سے کہا "بھائی لڑکے کا سہرا تو لکھواو "۔کلائنٹ نے سنا اور شام کو ایجنسی کو حکم نامہ آگیا کہ کل صبح سہرا چاہیئے تاکہ اسے پرسوں بارات میں چھپوا کر پڑھا اور تقیم کیا جاسکے۔ ہمیں بلایا گیا اور کہا گیا کہ سہرا لکھنا ہے۔ ہم نے کہا "یہ کام تو ہم نے کبھی نہیں کیا ۔ ہم شاعری کے اوزان سے ناواقف ہیں "۔ جواب آیا پرسوں شادی ہے کل  سہرا آئے گا ۔کتابت ہوگی ہھر چھپنے  جائے گا۔ اب چاھے شادی ہو نہ ہو مگر کو سہرا دینا ہے۔ ۔ہم نے لاکھ سمجھایا لیکن مینجمنٹ کی سمجھ میں ایک نہ آئی۔ حکم ملا کسی شاعر  کو پکڑو اور صبح سہرا ساتھ لیتے آنا آو۔ بہتیرا سمجھایا کہ اتنے کم وقت میں تو تین ہٹی سے ایک کیا جتنے سہرے کہیں مل جائیں گے۔ جوابا خوشی کا اظہار  کیا گیا اور کہا  گیا کہ پھر پریشانی کی کیا بات ہے ؟ میں نے کہا وہاں پھولوں کے سہرے ملتے ہیں ۔ ڈانٹ دیا گیا کہ یہ تفریح کا وقت نہیں ۔شعروں والا سہرا چاہیئے ۔ میں نے باس کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ  کوئی شاعر ایک رات میں 25-30 آشعار للھنے کی طرف راغب نہیں ہوگا۔ باس نے کہا پیسے  دو ۔ یک سے ایک بڑا شاعر راغب ہوگا۔آخری پتہ کے طور پر ہم نے کہا کہ دولہا کے والد ،والدہ ،بہن ،بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کے نام ہوں گے تو سہرا لکھا جائے گا۔  ہماری یہ ترکیب بھی کارگر نہ ہوئی اور ایک گھنٹے میں نام بھی آگئے۔ اب کہا گیا کہ آپ جائیں اور صبح سہرے لے آئیں ورنہ اپنی رخصتی پکی سمجھیں۔ ہم نے والد صاحب کےشاعر دوستوں سے رابطہ کیا مگر سب نے معذرت کر لی۔ والد صاحب مرحوم  (کوثر سلطان پوری ) سے درخواست کی کہ آپ لکھ دیں تو ڈپٹ کر بولے "میاں شاعری نہ ہوگی چھولے چاٹ کی دکان  ہوگئی۔ ساری چیزیں ملائیں اور چاٹ تیار "۔

اب دور دور تک کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ بات وہی کہ مسئلہ میں ہی مسئلہ کا حل چھپا ہوتا ۔آپ گھبراہٹ میں اسے تلاش نہیں کر پارہے ہوتے۔ بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ والد صاحب نے سہرے لکھے ہیں وہ کس دن کام آئیں گے۔ والدہ سے کہا کہ ابو کے لکھے سہرے نکال دیں۔ والدہ کو اصل بات پتہ تھی۔ صاف بولیں " نہیں بیٹا اپنے ابو سے پوچھ لو تو دے دوں گی۔ والد سے ایک انکار کے بعد کس میں پوچھنے کی ہمت تھی۔پہلے سنا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے مگر اب دل نے کہا محبت ، جنگ اور دوسرے کی شادی میں سب جائز ہے اور ذہن میں ایک گانا بجنے لگا۔

چہرے پہ سہراڈالےآجاو آنے والے
چاند سی بنو میری تیرے حوالے

جب سب سو گئے تو ہم نے بڑی تگ و دو کے بعد سہرا ڈھونڈ نکالے اور اس سہرے میں سے اپنے رشتہ داروں کو اٹھا کر ایک طرف کھڑا کردیا اور کلائنٹ کے رشتہ داروں کو بہ نفس نفیس بٹھا دیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ تھوڑی دیر میں کام ہو جائے گا مگر یہ نام بٹھاتے بٹھاتے فجر ہوگی۔

مقطع کو پڑھتے ہوئے  ایک بڑی دلچسپ بات یاد آئی کہ جب اصل  سہرے  کو  سالوں پہلے پہلی بار  پڑھا تو اس مقطع یعنی کہ :

صدقہ میں پنجتن پاک  کے پھر  آئے  بہار
ان کے بچوں کا بھی لکھے یونہی کوثر سہرا 

تو ہمارے جواں مرگ چچا زاد بھائی نے کہا کہ ابو (تایا) کو ان کے بچوں کی بڑی فکر ہے ۔اپنے گھر کے بچوں کا بھی کچھ سوچیں۔ اس وقت تک ہم سب تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔۔

صبح 9 بجے آفس پہنچے تو پہلا سوال سہرے کا تھا۔ ہم نے سہرے کی اہمیت جتانے کی خاطر بتایا کہ رات بھر ایک شاعر کے ساتھ بیٹھا رہا ہوں۔ تب کہیں جاکر سہرا لکھا گیا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ شاعر کو کچھ نذرانہ دینا ہوگا۔ باس نے کہا کتنے پیسے ہوئے۔ہم نے کہ  5 ہزار روپے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ پیسے زیادہ بتا دیئے ہیں مگر یہ کیا۔ باس نے کہا ابھی جا کر فنانس سے پیسے لے لو۔ ہم فنانس ڈیپارٹمنٹ کی طرف بھاگے کہ کہیں باس کا موڈ بریف کی طرح تبدیل نہ ہوجائے۔ اکاونٹنٹ سے کہا کہ باس کہہ رہے ہیں 5 ہزار روپے دے دو۔ اکاونٹنٹ نے بڑی معنی خیز نظروں سے کہا کہ کس سلسلہ میں ؟ ہم نے سلسلہ بتا دیا۔ اکاونٹنٹ نے باس کو انٹر کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ دے دو۔ کچھ دیر بعد  5 ہزار روپے ہمارے ہاتھوں میں تھے۔ سنا تھا کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانے مگر اب معاملہ کچھ یوں ہوگیا تھا کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ کے پیسے پورے ۔

سہرے کی کتابت ہوئی اور چھپنے کے لئے بھیج دیا گیا ۔ہم نے سوچا ہماری جان چھوٹی اور پیسے الگ ہاتھ لگے لیکن ابھی بات ختم نہ ہوئی تھی۔ پورے آفس کو 5 ہزارکی ہوا لگ چکی تھی۔ کچھ کو شک تھا کہ ہم  کچھ کر  کرا کر نے لائے ہیں۔ پہلے کھانا کھلانے کا کہا گیا ۔ہم نے صاف انکار کردیا کہ یہ پیسے دینے کے ہیں۔ انکار کیا ہم سے تفریح شروع ہو گئی۔ کسی نے کہا کہ اب کسی بھی کلائنٹ کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی تو اظہر عقیقے اور مسلمانی کے انتظامات پر مامور ہوں گے۔ ایک آواز آئی کہ دولہا کے لئے بارات کا گھوڑا بھی لے آئیں گے۔ جملہ پہ جملہ اور حملہ پہ حملہ تھا۔ کسی نے گرہ لگائی کہ گھوڑے کو لانے کی کیا ضرورت ہے ۔اظہر خود کیا کم ہیں۔ پھر ایک آواز سنائی دی کہ (طنز ہماری طویل القامتی پر تھا ) ان کا قد گھوڑے سے بھی آگے نکلتا ہوا ہے۔ کوئی بات نہیں سیڑھی لگا دیں گے اور دیکھیں گے کس کروٹ بیٹھتے ہیں ؟ غرض ہر ایک ثواب لوٹنے میں لگا تھا ۔ایک ڈیزائنر تو ہمارا پوسٹر بھی بنا لایا جس میں ہم بارات میں ڈھول بجا رہے ہیں۔

 شام میں کلائنٹ کا فون آیا کہ سہرے کو نکاح کے بعد پڑھنا ہوگا ۔جس نے سہرا لکھا ہے اس کو کل بارات میں لے آئیں۔ جب یہ ناگہانی ہمیں سنائی گئی تو لگا کہ پیسے نہیں سانپ پھنکار رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ بھائی جن سے سہرا لکھوایا ہے وہ تو کل مشاعرہ پڑھنے میرپورخاص جا رہے ہیں۔ باس نے کہا یار جہاں 5  دیئے ہیں۔ پانچ اور دے دیں گئے۔ مشاعرے میں پیسے ہی کتنے ملتے ہیں ؟ اب سمجھ میں کچھ نہ آئے ۔ہم نے کہا وہ بہت بڑے شاعر ہیں ۔انہیں میرپورخاص میں مشاعرے کی صدارت کرنی اور ویسے بھی ان کا شمار  پائے کے شعرا میں ہوتا۔ آپ جتنے بھی پیسے دے دیں۔وہ نہیں پڑھیں  گے۔ وھیں کھڑے ہمارے کولیگ بولے " سر اس میں کیا مسئلہ ہے۔ اظہر کی اپنی آواز اتنی اچھی ہے ۔یہ پڑھ دیں گے"۔ میں بیچ میں پھنس چکا تھا  باس نے میرے کاندھے پر برادرانہ ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے باسانہ لہجے میں کہا " میں جانتا ہوں تم اس شاعر سے کہیں اچھا پڑھو گے"۔میں سر ہلا کر رہ گیا۔ سوچنے لگا کس اوکھلی میں سر دے دیا۔

تیسرا دن آیا۔ آج بارات ہے اور ہمیں سہرا پڑھنا ہے۔ آفس گئے تو وہی ہنسی مذاق شروع ہوگیا۔ ہم کبھی سیریس ہونے کی کوشش کرتے تو مزید ریکارڈ لگایا جاتا۔ شام ہوئی تو حکم صادر ہوا کہ جلدی گھر جاو اور تیار ہو کر آجاو۔ عجب کوفت تھی ۔ آفس سے نکلا۔ آفس کے قریب ہی روڈ کراس کے کے بس کا اسٹاپ تھا۔ روڈ کراس کرنا چاہ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک پیون کی آواز آئی "اظہر صاحب"۔میں رک گیا۔ پیون نے کہا کہ آپ کو صاحب بلا رہے ہیں۔ میں نے سوچا اب کوئی نئی افتاد پڑنے والی ہے۔ ممکن ہے سہرا گا کر سنانے کی فرمائش نہ آجائے۔ ڈرتے ڈرتے آفس پہنچا ،باس کے کمرے میں گیا۔باس کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ خوب لہک لہک کر باتیں کررہے تھے اور کرسی میں دھنستے چلے جا رہے تھے۔ بات ختم کر کے بولے " وہ میں نے تمھیں اس لئے بلایا تھا" ، ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دوبارہ فون کی گھنٹی بج گئی اور ہم پھر انتظار کی صلیب پر لٹکا دیئے گئے۔

فون پر بات تمام ہوئی تو گویا ہوئے وہ آج تمھیں سہرا پڑھنا یاد تو ہوگا؟۔میں نے کہا " ہاں میں گھر ہی جاریا تھا ۔ تیار ہونے کے لئے " ۔ بولے " اب تم مت جاو کلائنٹ کا فون آیا تھا کہ ان کی فیملی کے ایک صاحب سہرا پڑھ دیں گئے " ۔ یہ سنا تو ہم نے بڑے اعتماد سے کہا "نہیں سر کوئی مسئلہ ہی نہیں میں پڑھ دوں گا "۔باس نے کہا  کیوں بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانے بنتے ہو۔ اب ہمارا دل گھر پہنچ کر 5 ہزار کے نوٹوں کی خوشبو سونگھنا چاہتا تھا ۔

 کیوں نا مضمون کا اختتام مرزا غالب کے شہرہ آفاق اس شعر پر کروں

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
 دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا 

2 comments:

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...