Saturday 20 June 2020

Article # 61 عزت نفس سے بڑ ھکر کچھ نہیں ۔ ہمدردی کی بھیک مت لیجئے !

Article # 61

عزت نفس سے بڑھ کر کچھ نہیں !




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


میں جسمانی طور ہر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک پر سکون گھر میں رہتا ہوں اور روحانی طور یقین کی چھت کے تلے عزت نفس کی محفوظ چار دیواری میں مطمئن اور آسودہ حال و خیال ہوں ۔ عزت نفس میرا سب سے بڑا اثاثہ و راز حیات ہے ۔ اس کی چار دیواری کی ایک ایک اینٹ میں نے اپنی سرشت اور تربیت کی بنیاد پر طے کردہ اصولوں اور ضابطوں ہر رکھی ہے ۔ میں یہاں مقید ( قید تو انا کی ہوتی ہے ) نہیں مقیم ہوں ۔ اسی لئے میں نے اس میں خود شناسی اور خود احتسابی کے روشن دان لگائے ہیں تاکہ خود پسندی کا حبس نہ ہو اور افکار و خیالات کی تازہ ہوا آتی رہے ۔ خود اعتمادی اور خود انحصاری کے دروازے پر تزکیہ نفس کے پاک و پاکیزہ خود دار دربان بٹھا رکھے ہیں ۔اس ہر طرہ یہ کہ ہر وقت میری سوچیں پہرہ زن رہتی ہیں اس لئے کسی کے نقب زن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ 

عزت نفس ۔۔۔ سب سے بڑی طاقت ، سب سے بڑی کمزوری

میں جانتا ہوں کہ میری عزت نفس کو باہر سے کوئی بمشکل ہی نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ یہ اندر سے بہت مضبوط ہے ۔ میں یہ بھی جانتا یوں کہ انسان کی طاقت ہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے ۔ یہ کمزوری اسی وقت آتی یے جب کوئئ اندر سے شکستہ ہوں ۔ حوصلہ ہار گیا ہو ۔

خود پر ترس کھانا ۔۔۔ عزت نفس کی سب سے  ذلت آمیز شکست 

یوں تو عزت نفس کی شکست کے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں لیکن جو سبب سب سے عام ہے ۔ میرے مشاہدے کے مطابق وہ خود پر ترس  کھانا (خود ترسی ) یے ۔ یہ بظاہر بہت ہی ضرر سی چیز معلوم دیتی ہے لیکن یہ عزت نفس کئ بنیادیں ہلا دیتی ہے ۔ لوگ اس کی طرف کم کم توجہ دیتے ہیں ۔

خود پر ترس کھانا عزت نفس کی سب سے ذلت آمیز شکست ہے کیونکہ اس میں کوئی دوسرا مد مقابل نہیں ہوتا ۔ خود سے خود ہی کی جنگ ہوتی ہے جس میں کسی صورت ہار سے نہیں بچا جا سکتا ۔

ہے کوئی جو مجھے ہمدردی کی بھیک دے !

عزت نفس کی اس ذلت آمیز شکست میں جو ہتھیار سب سے کارگر ہے اسے ہمدردی کہا جاتا ہے ۔ ہمدردی کے نام ہر عزت نفس کی مضبوط ترین عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ یہ ہتھیار ہم خود لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں اور چاھتے ہیں کہ اس کو ہم ہر آزمایا جاتا رہے  ۔ عزت نفس کئ زمیں بوس عمارت سے  نکلے شخص کی مثال اس فقیر کی سی ہے جو بازار کے کسی کونے میں ( اپنے طور ہر ) قناعت (فرار) کی چھوٹی سی چادر بچھائے سر جھکائے بیٹھا ہوتا ہے ۔ جب حسب ضرورت بھیک نہ ملے تو پھر یہ کشکول اٹھائے گھر گھر صدا لگاتا ہے ۔ ہے کوئی جو مجھے ہمدردی کی بھیک دے ۔

( جو لوگ اپنی عزت نفس کا سودا کرتے ہیں ۔ وہ یہاں مقصود بیان نہیں )

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...