Saturday 20 June 2020

Article # 62 مجھے بچپن میں اپنے والد میں خدا نظر آتا تھا ۔ فاردز ذر پر ایک غیر روایتی تحرئر




Article # 62


مجھےبچپن میں 
اپنے والد میں خدا نظر آتا تھا !

(فادرز ڈے کے موقع پر ایک غیر روایتی تحریر)



تحریر: اظہر عزمی

جب میں بہت چھوٹا اتنا چھوٹا کہ بس خدا کا نام سنا تھا ۔ میری معصوم سوچوں کو نہ جانے کیوں اس وقت اپنے والد (سید شہزاد حسین المتخلص کوثر سلطان پوری) میں خدا نظر آتا تھا ۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ سوچنا کیسا ہے ؟ جیسے جیسے بچپن سے لڑکپن کی طرف آیا ۔ والد صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے گئے۔ 

میں یہ سب کہہ کیوں رہا ہوں ؟

 کبھی کوئی غلطی کرتا تو لگتا کہ آج خیر نہیں ۔ جب تک وہ نہ آجاتے ڈرا سہما رہتا ۔ غلطی بڑی ہے سزا بھی بڑی ملے گئ ۔امی بھئ یہ کہتیں کہ تمھارے ابو آج بہت غصے ہوں گے لیکن سب الٹا ہو جاتا ۔ پوری بات سنتے اور اچھا برا سمجھاتے ۔ میں سوچتا یہ کیا ہوا ؟

کبھی کبھی کوئی بہت چھوٹی سی غلطی جس پر میرے خیال سے دھیان کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔ انتہائی اہمیت دیتے ۔ امی کہتیں بھی کہ بچہ ہے ایسا کیا کردیا ۔ وہ کہتے کہ یہ بڑی بات ہے اگر ابھی نہیں سمجھایا تو کرتا رہے گا ۔ یہاں روک ٹوک لازمی ہے ۔ 

کبھی کبھی کسی غلطی یا کوتاہی ہر بہت سرزنش کرتے ۔ میں سوچتا اب بات نہیں کریں گے لیکن یہ کیا کچھ دیر یا بہت سے بہت ایک دن بعد پھر وہی محبت و عنایات ۔ سب کے سامنے ڈانٹنے یہاں تک ٹوکنے سے بھی حتی الامکان گریز کرتے ۔ اگر والدہ کبھی ایسا کرتیں تو منع کرتے ۔ کہتے سمجھانا ضروری ہے مگر عزت نفس کو مجروح مت کریں ۔ اکیلے میں سمجھائیں تاکہ آئندہ ایسا کرے تو آپ کا چہرہ سامنے آجائے جس میں آپ کے عزت و احترام کا خیال ہو ، خوف نہیں ۔

میں کوئی ضد کرتا تو کبھی فورا پوری کر دیتے ۔ کبھی تو کسی چیز ہر میری طلب بھری نگاہوں کو پہچان لیتے اور وہ چیز لے آتے ۔ کبھی کہنے ہر بھی سال یا اس سے بھی زیادہ لگا دیتے ۔ میں نے دو پہیوں والی سائیکل کی ضد کی ۔ بڑا رویا دھویا ۔ امی نے بھئ کہا دلا دیں مگر وہ خاموشی ہی اختیار کرتے رہے ۔ پھر جب میں نے ذرا قد نکالا  تو کیا دیکھتا ہوں گھر میں نئی چمچماتی سائیکل کھڑی ہے ۔ میں تو اپنی ضد کبھی کی بھول چکا تھا ۔ میں  نے امی سے پوچھا کہ یہ ابو کا کس کے لئے لائے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تمھارے ابو اندر بیٹھے ہیں ۔ خود جا کر پوچھا لو ۔ میں نے کمرے میں جا کر پوچھا کہ یہ سائیکل آپ کس کے لئے لائے ہیں ؟ تو بولے تمھارے لئے ۔ میں ہکا بکا کھڑا تھا ۔ خوشی ایسی کہ چھپائے نہ چھپے ۔ کمرے سے باہر آئے ، کہا سائیکل پر بیٹھو ۔ میں بیٹھا تو سب سے پہلے یہ چیک کیا کہ میرے پیر پیڈل تک با آسانی پہنچ رہے ہیں کہ نہیں  ۔ بولے بس میں اسی کا انتظار کر رہا تھا کہ تم اتنے بڑے ہو جاو۔ سائیکل صرف شام میں چلاو گے اور بڑے روڈ پر نہیں جاو گے۔  

راستے میں اگر کوئی فقیر مل جاتا تو پیسے جیب سے نکال کر مجھے دیتے اور کہتے کہ تم اپنے ہاتھ سے دو ۔ دینے کی عادت ڈالو ۔ پروردگار بہت دے گا ۔

عید آتی تو دو یتیم بچے ہمارے ہاں ضرور آتے ۔ ہماری مالی حالت بھی مستحکم نہ تھی مگر ان کے لئے عید کے کپڑوں اور پیسوں کا انتظام ضرور کرتے ۔ مجھے ساتھ بٹھاتے ( میں شرمندہ ہوں کہ میں اس طرح نہ کر سکا) ۔

میں امتحان میں پاس ہوتا تو کہتے تعلیم اگر انسان سازی نہ کر سکے تو پھر یہ نمبروں کا کھیل ہے ۔ نمبروں کی دوڑ انسان کو تھکا مارتی ہے ۔ میں آپ کو دلچسپ بات بتاوں ۔ میں بڑے بڑے گھر اور لمبی لمبی گاڑیاں دیکھ کر گھبرا جاتا ہوں ۔ سوچتا ہوں کہ کیا ان کو جانا نہیں ہے ۔ یہ بھی میرے والد کی تربیت کا اثر ہے ۔ مجھے میرے والد نے یہی سکھایا کہ پڑھے لکھوں کی صحبت میں رہو کیونکہ یہی امیر لوگ ہیں ۔ان کے پاس علم کی دولت ہے ۔ آج بھی یہ صورت حال  ہے کہ پیسے والوں سے مل کر خوشی نہیں ہوتی ۔ چاھتا ہوں کہ جلد ملاقات ختم ہو ۔ وہ گفتگو میں کہیں نہ کہیں اپنے دام  میں پھنسانے لگ جاتے ہیں اور مجھ جیسوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دام  میں پھنسے نہیں اور کسی دام بکتے نہیں ۔

کبھی کمرے میں اکیلے کے کر بیٹھ جاتے اور اپنے بچپن کے قصے ، قیام پاکستان کے بعد ملازمت کی تگ و دو کا بتاتے ۔ کہنے لگے جب میں پہلی ملازمت کے انٹرویو کے لئے گیا تو میری قمیض کاندھے سے پھٹی ہوئی تھی ۔ میں نے اس ہر رومال رکھا ۔ خیال تھا کہ نوکری نہیں ملے گی مگر سامنے والا صاحب نظر تھا ملازمت دے دی ۔ کہنے لگے انسان کو لباس سے کبھی مت پرکھنا اس میں دھوکا ہی دھوکا ہے ۔ 

کبھی گھر میں کسی کی بات ہوتی اور اس کی غیبت کا کوئی پہلو نکلتا تو فورا ٹوک دیتے ۔ چھوڑو " میاں کوئی اور بات کرو "۔ جب کوئی کہتا کہ نہیں یہ جھوٹ نہیں ۔ تو کہتے کہ ہہی تو غیبت ہے ۔ اگر اس سے کوئی غلط یا جھوٹی بات منسوب کرو گے تو وہ تو بہتان ہو جائے گا ۔ 

میں نے کبھی کسی کی برائی کرتے ہوئے نہیں سنا ۔  راسخ العقیدہ تھے لیکن متعصب بالکل بھی نہیں ۔ مزاج صلح کل تھا ۔ کہتے تھے میاں اس کے بندوں کی پردہ پوشی کرو ، وہ تمھاری پردہ پوشی کرے گا ۔

لڑائی جھگڑے سے کوسوں دور رہتے یہاں تک اپنا حق بھی چھوڑ دیتے۔ کوئی کچھ کہتا تو کہتے  " پروردگار  بہتری کی کوئی اور سبیل نکالے گا ۔ وہ مسبب الاسباب ہے " ۔ گفتگو بہت مختصر کرتے ۔ اس میں بھی احتیاط کے پہلو کو مد نظر رکھتے کہ مبادا کہیں کوئی دل آزادی کا پہلو نہ نکل آئے ۔ اگر میں ان کے لیے کسی کام میں کبھی تاخیر کردیتا تو غصے کے اظہار کے لئے صرف اتنا کہتے " میاں آپ بہت منتشر الخیال قسم کے آدمی ہیں ۔ آپ کو اتنی سی بات یاد نہیں رہتی "  ۔  اب بتائیں کون ہے جو مجھے اس طرح مخاطب کرے گا ؟

آپ صرف ایک واقعہ سے ان کی شرافت اور کورٹ کچہری سے دوری دیکھئے ۔ ایک مرتبہ کسی کلائنٹ کا بطور پارٹ ٹائم اکاؤنٹنٹ کام کیا ۔ ایک مشہور وکیل نے آپ کو وہاں بھیجا تھا ۔ دو سال تک بغیر معاوضے کے کام کیا ۔ کلائنٹ پیسوں میں بہانے بازی کرتا رہا ۔ ایک دن  وکیل صاحب کو پتہ چلا تو کہا اب آپ وہاں نہیں جائیں گے ۔ آپ میرے حوالے سے گئے تھے پیسے دلوانا میری ذمہ داری ہے ۔ وکیل صاحب نے کیس کردیا ۔ والد صاحب انتہائی پریشان ہو گئے ۔ والدہ نے مجھے بتایا ۔ میں نے والد سے پوچھا کہ آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ۔ کلائنٹ نے آپ کے پیسے کھائے ہیں اور آپ نے کون سا کیس کیا ہے ۔ پیسے کھائے ہیں اس نے آپ کے ۔ بولے " میرے لئے یہی پریشانی بہت ہے کہ کورٹ میں پیشی کے لئے میرا نام پکارا جائے " ۔

یہ تذکرہ میرے والد کا نہیں ۔ ہم  میں سے ہر ایک کے والد کا ہے  ۔ پڑھتے پڑھتے آپ کو اپنے والد ضرور یاد آئے ہوں گے ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...