Monday 6 September 2021

Karachi ki chowrangian aur nukar. Article 86

 

Article 86


کراچی کی چورنگیاں ، چوک اور نکڑ 
کہیں کھو گئے ، ہم بڑے یو گئے 

تحریر : اظہر عزمی 



کوئی مانے نہ مانے مگر میرا بچپن یہ کہتا یے کہ کراچی چورنگیوں کا شہر تھا ۔ کتنے بس اسٹاپ ان سے منسوب تھے ۔ ہر دو تین کلو میٹر کے فاصلے ہر سرسبز ، ماحول دوست چورنگیاں کراچی والوں کے لئے شام کو پارک ہوا کرتی تھیں ۔ والد صاحب یر دوسرے تیسرے روز ہمیں سر شام ناظم آباد پہلی چورنگی لے جایا کرتے جہاں ہم گھنٹوں کھیلتے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹریفک کے بے لگام گھوڑے نے ان چورنگیوں کو روندھ ڈالا ۔ پہلے چورنگیاں چھوٹی ہوئیں اور پھر چورنگی کراچی کی زندگی سے نکل گئیں ۔ اب جو چورنگیاں بچی ہیں وہاں کراچی والوں کے لئے ماضی کی یادیں رہ گئی ہیں ۔

چورنگی کے علاوہ بازاروں اور محلوں میں جہاں دو سڑکیں ایک دوسرے کو کراس کریں یا چار راستے آکر ملیں اسے چوک کہا جاتا ہے ۔ چوک ہر چھوٹا سا چبوترا بنا یو تو محلے کے بے فکرے یہاں بیٹھ جاتے ہیں ۔ گلی کے کونے کو نکڑ کہا جاتا ہے ۔  کچھ نکڑوں ہر دکان بھی ہوتی جہاں شام کو محلے کے بزرگ  بھی آکر کھڑے ہوجایا کرتے  ۔ دکان والا اپنی دو ایک کرسیاں باہر ڈال دیا کرتا جس میں ایک کرسی کے چوتھے پائے کو کیلیں  ٹھونک کر قابل بیٹھ بنایا جاتا جو بھی بیٹھتا اپنا وزن محفوظ حصے پر ڈالے رکھتا ۔ دوسری کرسی کی حالت بھی نا گفتہ با ہوتی   ایک نہ ایک کیل بیٹھنے والے کو احساس دلاتی رہتی کہ ذرا ادھر ادھر ہوئے تو ایسے چبھوں گی کہ کسی کو بتا بھی نہ پاو گے ۔ اب حالت و واقعات پر گفتگو بگھاری جاتی ۔
 پہلے کونے والے گھر پر ذرا سنجیدہ طبع اور لئے دیئے رہنے والے نکڑ ہر کرسیاں بچھا کر بھی بیٹھا کرتے تھے ۔ نکڑ تو آج بھی ہیں لیکن کچھ حالات اور کچھ اسٹیٹس کے باعث یہ نکڑ چند ایک علاقوں میں رہ گئے ہیں ۔ ان تمام نکڑوں کے کردار بھی بہت دلچسپ یوتے تھے 
ّّّّ__________________________________________________________________________
اگر آگے پڑھنا چاھیں تو ۔۔۔۔

نکڑ والے خالو اور منوں بھائی کی درخواست
 
یہ ہمارے بچپن کے دن تھے ۔ سکون کا زمانہ تھا لوگوں کو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جنون نہ تھا نہ یی ایک دوسرے سے حسد اور کینہ تھا ۔ سب اپنے اپنے حال میں خوش تھے اور کھا کما رہے تھے ۔ آپا دھاپی  نہ تھی ۔ پرانے محلے میں جب ھوش سنبھالا تو گلی کے ایک نکڑ کو سر شام آباد دیکھا ۔ پہلے گلی گلی سڑکیں نہ تھیں ۔ گلیاں کچی ہوا کرتی تھیں ۔ شام کو پہلے نکڑ پر ہلکی سی جھاڑو دینے کے بعد پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تو ایک سوندھی خوشبو فضا کو مہکا دیتی ۔

اس کے بعد لکڑی کی کھٹ کھٹ کر کے بند ہونے والی تین کرسیاں آتیں اور پھر ایک مخصوص وقت پر نکڑ والے خالو ہاتھ منہ دھو کر ، بیچ کی مانگ نکالے کرتے پائجامے میں آکر بیٹھتے اور کچھ دیر بعد گلی کے مصور میاں اور شکور پھوپھا ان دو کرسیوں پر براجمان ہوجاتے ۔ لیجئے ! نکڑ والے خالو ایک تین کرسی والا  دربار سج گیا ۔ دروازے ہر خس کی ٹٹی پڑی ہوتی جس پر ایک مخصوص وقت پر ٹرے میں سجے چائے کے تین کپ آجاتے ۔

نکڑ والے خالو کی ملازمت اس وقت ایک باہر کی کمپنی میں تھی ۔ کلرک سے اوپر کی ہوسٹ تھی ۔ آمدن نسبتا اچھی تھی ۔ گھر والے بتاتے ہیں ایک زمانے میں ٹائی کوٹ آور ہیٹ لگا کر سائیکل پر دفتر جایا کرتے تھے ۔ سائیکل کا ہونا اس وقت آج کی مہنگی گاڑی جیسا تھا ۔ پڑھے لکھے نفیس آدمی تھے لیکن تھے سیدھے اور اس پر غصے کے تیز ۔ انگریزی اس وقت تک صرف ان ہی کو آتی تھی ۔ کوئی تار آجائے تو نکڑ والے خالو کے آنے کا انتظار ۔۔۔ اور اس وقت تک جس گھر میں تار آیا ہوتا وہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوئے جاتے ، اللہ جانے کیا لکھا ہے ؟ سو سو طرح کے وسوسے آتے ۔ خاندان کے تمام بوڑھے بوڑھیوں کو بند آنکھوں کے ساتھ  کہیں جاتے دیکھا جاتا ۔ نکڑ والے خالو کے انتظار میں اس گھر کا ایک فرد پہلے ہی نکڑ پر کھڑا ہوتا ۔ ابھی خالو گھر میں بھی نہ گھستے  کہ تار سے خوشیوں کی جلترنگ یا غم کی شہنائی بجتی اٹھتی ۔

ہم بڑے ہوتے گئے اور خالو جوانی سے ادھیڑ عمری میں قدم رکھتے گئے ۔ خالو نکڑ والے سیاست کے رسیا تھے اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے ۔ اس زمانے میں ڈان اخبار پڑھا کرتے تھے ۔ روزانہ کی بنیاد ہر عالمی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد خالو کی سرکردگی میں قائم تین رکنی بہت دور رس فیصلے کرتی جس میں فیصلہ سازی کے لیے فیصلہ کن کردار خالو کا ہوتا ۔ اگر مصور میاں اور شکور پھوپھا کہیں اپنا پلڑا بھاری کرنا چاھتے تو خالو ڈان کی مار مارتے اور دوران گفتگو ایک دو لائنیں انگریزی کی بول کر بات کی ختم کر دیا کرتے ۔

سب سے دلچسپ مرحلہ اس وقت آتا جب محلے کا کوئی شخص ان سے انگریزی میں درخواست لکھوانے آتا ۔ جب کوئی درخواست لکھوانے آتا تو خالو کے چہرے پر تفاخر کا ایک ہی الگ ہی رنگ آتا ۔ پہلے  کسی بڑے وکیل کی طرح آنکھیں بند کر کے کیس سنتے پھر اس کے بھید جاننے کے لیے اعتراضات کے نکات اٹھاتے ۔ جب مکمل تسلی و تشفی ہو جاتی تو قلم چل پڑتا ۔ 

روشنائی (Ink) والے اپنے مخصوص پین سے درخواست لکھتے ۔ اس وقت ایسا سناٹا یوتا جیسے جج صاحب کسی قتل کے ملزم کا فیصلہ لکھ رہے ہوں ۔ سب کی نظریں پیپر پر ہوتیں ۔ خالو جب ان کی طرف دیکھتے تو سب پیچھے ہو جاتے ۔ خالو کو جب اردو کا مدعا انگریزی  میں لکھتے ہوئے صحیح الفاظ کے چناو میں دقت ( میرا خیال ہے ) پیش آتی تو وہ پین کو جھٹکتے جس کے چھینٹے دائیں جانب  بیٹھے درخواست گزار کے کپڑوں ہر آتے مگر اس وقت کس میں بولنے کی تاب تھی ۔
 
 خالو بڑی عرق ریزی سے پیپر ہرانگریزی اور درخواست گزار کے کپڑوں پرانک ریزی کے دریا بہا دیتے ۔ کوئی بھی زخص
 شخص کپڑوں ہر چھینٹے دیکھ کر با آسانی بتا سکتا تھا کہ درخواست کس قدر مشکل تھی جسے خالو نے لفظوں کے قالب میں ڈھال دیا ۔ جس طرح آج ڈاکٹر مہنگی لکھ دے تو مریض کو یقین آجاتا ہے اب علاج یقینی ہے ۔ اسی طرح لوگ کپڑوں پر چھینٹے دیکھ کر درخواست کی قبولیت کا اندازہ لگا لیا کرتے ۔ اگر درخواست گزار کے کپڑوں پر چھینٹے کم ہوتے تو لوگ کہتے تھے کہ خالو انگلیاں قلم کر کے لکھتے ہیں ۔ درخواست میں جھوٹ کا کھوٹ ہے بھائی ۔ دیکھ لینا اب اس کے چھینٹے بعد میں پڑیں گے ۔ یوں سمجھ لیں وہ درخواست نہ ہوتی درخواست گزار کا کریکٹر سرٹیفیکٹ ہوتا ۔

ہم نے اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد خالو کو ایک درخواست لکھتے دیکھا ۔ پہلے درخواست گزار منوں بھائی کی ہوری بپتا سنی ۔ اس میں چند قابل پکڑ باتیں پکڑیں ۔اس کے بعد درخواست لکھنا شروع کر دیا ۔ خالو نے درخواست لکھنے اور منوں بھائی کے کپڑوں پر پڑے چھینٹے دیکھنے کے بعد منوں بھائی سے نیچے دستخط کرنے کو کہا ۔ منوں بھائی ذرا حجتی قسم کے آدمی تھے ۔ آنکھیں پھاڑ کر ہونقوں کی طرح ہوچھ بیٹھے : کیا لکھا ہے ؟ ۔خالو نے بڑے اطمینان سے کہا : ریاض شاہد کی فلم زرقا دیکھی ہے ؟ منوں بھائی نے ناں میں سر ہلایا ۔ خالو بولے : وہ لکھی ہے ۔ منوں بھائی نے حیرت سے دیکھا ۔ خالو نے تنک کر کہا : میاں کیا ہو گیا ہے جو تم نے کہا وہی لکھدیا ہے ۔

منوں بھائی نے سکھ کا سانس لیا ، اصرار کیا : پھر بھی کچھ تو بتا دیں ۔ خالو نے لحاظ میں گنگنائے کے انداز میں ہوں ہوں کرتے انگریزی پڑھی اور پھر بتا دیا ۔ منوں بھائی نے کہا : میں نے یہ کب کہا تھا ؟ اب گویا آپ نے خالو چھیڑ دیا : نہیں اپنے گھر سے لایا یوں ۔ میرے دماغ میں کیڑا کلبلا رہا تھا ۔ اسے کاغذ پر منتقل کردیا ہے ۔ کہنے اور لکھنے میں فرق ہوتا ہے ۔ 
منوں بھائی چٹے ان پڑھ اور کوڑے مغز تھے : یہ تو کوئی نہ بات ہوئی ؟  خالو نے درخواست منوں بھائی کو تھمائی : یہ لو اور اب میرے پاس درخواست لکھوانے نہ آنا ۔
 
منوں بھائی نے درخواست لی اور چل دیئے ۔ ابھی دو قدم گئے تھے کہ خالو نے آواز دی : سنو ۔ ہم سمجھے کہ خالو درخواست میں تبدیلی کے لئے تیار ہو گئے ہیں ۔ منوں بھائی آئے تو ہین ان کی طرف بڑھایا : یہ ہیں اپنے ساتھ لے جاو  جب دماغ نام کرنے لگے تو اسی پیج ہر جہاں میں نے بتایا ہے وہاں دستخط کردینا ۔ کسی اور رنگ کے پین  سے دستخط کئے تو یہ اصول کے خلاف بات ہے ۔ منوں بھائی نے ہین لیا ۔ خیال تھا کہ وہ چلے جائیں گے لیکن نہ جانے ان کی عقل میں کیا آئی کہ انہوں نے وھیں دستخط کئے اور ہین واپس کر کے چل دیئے ۔ خالو سے ہاتھ ملاتے ہوئے منوں بھائی کی آنکھوں میں لکھی معذرت اور شکریہ دونوں صاف پڑھے جا رہے تھے ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...