Saturday 29 June 2019

چغتائی اسکول آف آرٹ کے نمائندہ مصور دلاور مرزا ۔ آرٹیکل # 31


آرٹیکل # 30

چغتائی اسکول آف آرٹ کے نمائندہ مصور 
دلاور مرزا
میرے مربی ، میرے محسن


تحریر :اظہر عزمی
(اشتہاری کی باتیں)



کہتے ہیں قدیم زمانہ میں رام کے بھائی لکشمن نے دریا گومتی کے کنارے پر ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ اس لئے ابتدا میں یہ شہر لکشمن پور کہلایا اور پھر وقت وقت کے ساتھ مختلف ناموں سے پکارے جانے کے بعد لکھنو کہلایا ۔

18 ویں صدی میں یہ شہر قابل ذکر قرار ہایا۔ 1720 میں مغلوں نے اودھ صوبہ کے نظم و نسق کو بہ احسن و خوبی انجام دینے کے لئے نوابین کی تقرری کا عمل شروع کیا۔ 1732 میں محمد امیر سعادت  خان کو یہ ذمہ داری دے دی گئی۔ اب یہاں فنون لطیفہ جس میں شاعری ، موسیقی ، رقص ، مصوری وغیرہ  کی ہر شاخ تناور درخت بنتی گئی اور بالاخر اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ اختر کے بعد یہ دور اپنے اختتام کو پہنچا لیکن سینہ تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔

کہتے ہیں کہ والیان ریاست جس  فن کے قدر داں ہوں اس کی بو باس ایک عرصہ تک وہاں کے رہنے والوں کےمزاج میں رہتی ہے اور یہ جاتے جاتے زمانہ لگ جاتے ہیں۔ 

1918  میں لکھنو میں منے مرزا کے ہاں دلاور مرزا متولد ہوئے۔ ذرا بڑے ہوئے تو کوئلہ ،چاک جو مل جائے اس سے  دیواروں پر تصویر کشی شروع کردی۔ پڑھائی سے دور پرے کا کوئی واسطہ نہ تھا ۔ والدہ جب بہت جزبز ہوجاتیں تو پھونکنی ( چولھے میں آگ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتی تھی) سے دلاور مرزا کی آو بھگت کرتیں مگر اس تمام تر تواضع کے بعد بھی والدہ شوق اس بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا نہ کر پائیں۔  دلاور مرزا روز صبح اسکول کے لئے نکلتے مگر ایک ہندو تھیٹر کمپنی کے باہر دو زانو ہو کر بیٹھ جایا کرتے ہندو پینٹر ان سے لاکھ کہتا "بالک کاھے اپنا جروری وقت ضائع کرے ہے ۔جا ماتا نے پڑھنے بھیجا ہے تو پڑھ" مگر دلاور مرزا کہاں ٹلنے والے تھے۔

 سب نے بہت سمجھایا مگر سب بے سود ۔ ایک دن تھک ہار آکر ماں نے ڈرائنگ ٹیچر کے حوالے کر دیا اور کہا "اب تم جانو اور یہ ۔ ہڈی ہماری کھال تمھاری"۔ماسٹر نے ماں کی بات کو ذہن میں بٹھا لیا اور بنا لیا اپنا خاص الخاص شاگرد رشید۔ طے یہ ہوا کہ اب یہ ہفتہ میں ایک بار گھر آیا کریں۔  کام سیکھانا شروع کیا اور سختیاں بھی ساتھ ساتھ شروع کردیں۔ ماسٹر کے برتن بھی دھو اور گھر کے کام کاج بھی کرو۔ لڑکے نے سوچا یہ سب کیا ہے ایک دو بار راہ فرار کی کوشش کی مگر بے سود رہیں۔ ماسٹر کے شاگرد پھر پکڑ لاتے۔ اللہ اللہ کر کے یہ دن گذرے اور لکھنو اسکول آف آرٹس میں تین سالہ ڈپلومہ میں داخلہ لیا۔

ڈپلومہ مکمل ہوا تو ہہلی ملازمت لکھنو ریلوے کے آرٹ اینڈ ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ میں کی۔  1943 میں بمبئی کی راہ لی۔ وہاں رہے اس کے بعد تلاش معاش میں ڈرامہ کمپنیز کے ساتھ بطور پینٹر لکھنو کے علاوہ آگرہ اور کان پور میں بھی قیام پذیر رہے۔

دوسری جنگ عظیم میں آپ برٹش فوج میں ملازم ہو گئے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں آپ کا کام فوجی گاڑیوں کو کیموفلاج کرنے کا تھا۔1945 میں جنگ ختم ہوئئ تو آپ نے اپنی پینٹر شاپ کھول لی۔

پاکستان بنا توکراچی ہجرت کی اور بطور ڈیزائنر کام کرتے رہے۔1951 یا 1952 کی بات ہوگی کہ ماما پارسی اسکول میں عبدالرحمن چغتائئ کی پینٹنگز کی نمائش ہوئی ۔اس زمانے میں آپ مالک صاحب کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔وہ آپ کو وہاں لے گئے۔یہاں چغتائئ صاحب کے 400 سے 500 فن پارے نمائش کے لئے رکھے گئے تھے۔یہی وہ موقع تھا کہ دلاور مرزا نے چغتائئ کے انداز مصوری کو مکمل طور پر اپنانے ک دور رس فیصلہ کیا اور پھر اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ پاکستان ائیر فورس کے مقبول رب نے آپ کے لائن ورک کو دیکھتے ہوئے ائیر فورس میس کے لئے عمر خیام  کو پینٹ کرنے کے لئے کمیشن کرلیا۔آپ نے پاکستان آئیر فورس کے لئے 5 سال کام کیا۔اس کے بعد دلاور مرزا نے  اورینٹ ایڈورٹائزنگ میں ملازمت اختیار کی ۔آرٹ ڈائریکٹر ہوئے اور پھر یہیں سے ملازمتی زندگی کا اختتام کیا۔

آپ 80 کی دھائئ میں کینیڈا تشریف لے گئے چہاں پہلی مرتبہ شاعر مشرق علامہ کے اشعار پر آپ کی پینٹنگز کی نمائش کی گئئ جسے وہاں اہل نظر نے خوب سراھا۔پاکستان میں آپ نے میر تقی میر اور مرزا غالب کے اشعار پر پینٹنگز  کی نمائش کی  جسے بے حد پذیرائئ حاصل ہوئئ۔ کراچی آرٹس کونسل  میں ہونے والی  نمائش میں شریک ہو کر مجھے آپ کے فن  قدردانی دیکھ کر کھڑکی کا ایک پٹ کھول کر خاموشی سے مصوری کرنے والے خالو کی حیثیت کا اندازہ ہوا۔ اشعار پر مبنی پینٹنگز کو عام کرنے میں آپ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے رنگوں اور برش سے دلاوری کے جوہر دکھائے مگر افسوس زمانہ جوہر شناس نہ تھا۔

دلاور مرزا ایک طرف مجسم مصور تھے تو دوسری طرف اپنے اہل خانہ کے سرپراہ کے طور پر اپنی فرائض پوری تندہی سے ادا کرتے۔ آندھی آئے یا طوفان۔ ہڑتال ہو یا کوئئ اور چھٹی کا امکان۔ مرزا صاحب ایسے تمام امکانات کی رد پر عملی طور پر کار بند رہا کرتے تھے۔ صبح 8 بجے ویسپا موٹر سائیکل نکلتی اور مرزا صاحب ایک مخصوص انداز سے اس پر بیٹھ کر عازم دفتر ہو جایا کرتے۔

مجھے یہ بات کہنے میں کوئئ عار نہیں کہ لابنگ کے ذریعے شہرت پانے والے بیماری مرزا صاحب کو لاحق نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ وہ شہرت کی بلندیاں نہ چڑھ سکے مگر فن کی جس مقام پر آپ تھے اس پر آج کے بڑے مصور نہیں پہنچ سکتے۔ بات بہت سیدھی سی ہے جن کو فن سے دلی نسبت ہوتی ہے وہ اپنے کام میں اتنے مطمئن اور مگن ہوتے ہیں کہ شہرت کی سیڑھیاں ان کا مطمح نظر ہی نہیں ہوتیں۔ جب انسان اندر سے اپنے کام سے مطمئن ہوجاتا ہے تو پھر باہر بناوٹی اور لابنگ سے حاصل شدہ شہرت اسے بہت معمولی اور وقتی لگنے لگتی ہے۔

دلاور مرزا کا فنی حوالہ تو آرٹ ہی ہے۔ آپ شکیل عادل زادہ کی ادارت میں شائع ہونے والے سب رنگ ڈائجسٹ کے لئے اسکیچیز کیا کرتے تھے۔ ذرا سوچیں !شکیل عادل زادہ جیسے پرفیکشنسٹ دلاور مرزا کے ممدوح رہے۔ میرا خیال ہے کہ دلاور مرزا کی فنی شخصیت کا اگر کوئئ احاطہ کر سکتا ہے تو اس کے لئے شکیل عادل زادہ سے بہتر کوئئ اور نہیں۔

بلند قامت و کردار رکھنے والے دلاور مرزا پابند شرع تھے۔تعصب نام کی کوئئ چیز مزاج میں تھی۔ صلح جو طبیعت پائئ تھی۔ربط سب سے رہا کرتا تھا۔ مولانا کوکب نورانی آپ کے پاس کتابوں کے سرورق بنوانے تشریف لایا کرتے تھے۔

 ایک بات ضمنا عرض کردوں کہ آپ کے ہاں سال بھر نذر و نیاز کا اہتمام ہوتا جس میں ہم نیازمندانہ شریک ہوتے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ لوکی اور شکرقندی کی کھیر آپ کے ہاں ہی کھائی اور اس کے بعد ایسی  کھیر  کہیں نہیں کھائی ۔ سال بھر ان دو کھیروں کا انتظار رہتا ۔ اب تو دلاور مرزا کے دونوں صاحبزادے عباس مرزا اور صفدر مرزا (ہمارے ہر دل و دم عزیز دوست) کینیڈا میں رہتے ہیں اس لئے امکانات کم کم ہیں مگر صاحب کیا کیجئے امید پر دنیا قائم ہے۔

 میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ گھروالوں نے نام دلاور رکھا تھا مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ وہ رنگوں پر دل آور ہوں گے۔ ابتدا سے اس فن کے دل آگاہ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ مصوری سے دل چسپی ، دل پذیری اور دل بستگی رکھی۔ کبھی اس ہنر سے دل گرفتہ نہیں ہوئے ۔ کام میں دل کشائی اور دل شگفتگی رہی۔ ایک سے ایک فن پارے تخلیق کئے ۔لوگ ان پر دل فریفتہ ہوئے ۔ تعریفوں کی راگنیاں گائی گئیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ لابنگ کے فن سے ناواقف ہونے کی وجہ سے انہیں وہ مقام نہ دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔

1918 میں وارد دنیا ہونے والے دلاور مرزا  2014 میں 96 سال کی عمر میں دل کے عارضہ کے باعث راہی ملک عدم ہوئے۔ دلاور مرزا میرے لئے ان لوگوں میں سے ہیں جو کچھ دیر کے لئے کسی کی زندگی میں آتے ہیں اور زندگی بنا کر چلا جاتے ہیں۔ جب میں اپنے ذاتی گھر میں منتقل ہوا تو خاص طور پر ایک پینٹنگ دی جو آج بھی گھر لگی ہے ۔مجھے جب بھی دلاور مرزا کو دیکھنا ہوتا ہے ۔اس پینٹنگ کو دیکھ لیتا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ مصور اپنے فن میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔آپ مجھے ایڈورٹائزنگ میں لے کر آئے ورنہ میں بھی کہیں اکتا دینے والی چھوٹی موٹی ملازمت کر رہا ہوتا ۔آپ کے لئے مرحوم لکھتا ہوں تو دل مغموم ہوجاتا ہے ۔کیا کروں ایک دلاور کا غم جو ہے؟

دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کے آئے تھے
سورج بھی تھا ملول ، زمیں پر جھکا ہوا

Saturday 15 June 2019

Actor Asif Raza Mir's wedding and I recited humorus sehra on valima day.Article # 30

Article # 30

اداکار آصف رضا میر کی شادی
اور ہمارا تک بندی والا مزاحیہ سہرا 
جو پڑھا ولیمے کے دن !

تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

یہ 1991-2 کی بات ہے ۔ میں بلیزون ایڈورٹائزنگ واقع ڈیفینس فیز 2 ایکسٹینشن کمرشل ایریا میں ملازمت کیا کرتا تھا۔ بلیزون تین افراد کی پارٹنر شپ میں تھی ۔ (اداکار) آصف رضا میر ، (اداکارہ) عظمی گیلانی اور حبیب ہاشمانی ۔ شہرت اس وقت اصف رضا میر اور عظمی گیلانی گھر کی لونڈی تھی۔ آصف رضا میر اس وقت مشہور کنوارے تھے اس پر ان کا جاذب نظر ، خوش گفتار ہونا سونے پر سہاگہ تھا ۔  پریس بھی ان کے  قصے کہانیاں بھی مرچ مصالحے لگا کر پیش کرتا سو آصف صاحب بھی  اس صورت حال  پر مسکرا کر رہ جاتے ہوں گے۔

میرا آصف صاحب سے تعلق آجر اوراجیر کا تھا اس لئے سب کچھ ان پر منحصر ہوتا کبھی مجھے قبلہ کہتے تو کبھی مولانا اور جب سیریس ہوتے تو سیدھا سیدھا اظہر کہتے ۔ میری ساتھ یہ مسئلہ رہا کہ کسی ایجنسی میں مجھے اظہر کہہ کر بلایا جاتا تو کبھی عزمی ۔  ذیل میں ایک مختصر واقعہ درج کئے دیتا ہوان۔ میری ملازمت کے بعد جب مسز گیلانی (افس میں کوئی عظمی گیلانی نہ کہتا ) پہلی مرتبہ کراچی آفس آئیں تو میراتعارف کرایا گیا۔ بہت تپاک سے ملیں اور اپنی کتاب " ع سے عورت اور م سے مرد " اپنے دستخط کے ساتھ دی۔ میں نے شکریہ کے ساتھ وصول کی۔ کریٹیو ڈیپارٹمنت دوسری منزل پر تھا۔ منجمنٹ ہم سے ایک منزل نیچے تھی۔ کتاب وصول کرنے کے کچھ دیر بعد مسز گیلانی کو مجھ سے کوئی کام پڑ گیا۔ اوپر انٹر کام کیا اور میرے ساتھ بیٹھے زیب ڈیل سے میرا پوچھا۔ زیب نے کہا کہ آپ اظہر عزمی کا پوچھ رہی ہیں؟ تو بولیں کہ آفس میں انہیں کیا کہتے ہیں تو زیب نے کہا کہ سب اظہر کہتے لیکن ان کے پیار کا نام عزمی ہے۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ابھی وہ ہمیں اتنے پیارے نہیں ہوئے ہیں۔میں تو انہیں اظہر ہئ کہوں گی۔ زیب نے یہ بات مجھے بتائی تو ہم نے گھسا پٹا جواب دیدیا۔ "خوشبو کو جس نام سے پکارو ۔ رہے گی خوشبو ہی ۔

خیر یہ بات ضمنا نکل آئی ۔ واپس آتے ہیں آصف صاحب کی طرف ۔ایک دن میں کام میں مصروف تھا کہ آصف صاحب نے انٹر کام کیا اور پوچھا کہ کیا کررہے ہو؟ ۔میری رگ ظرافت پھڑکئ۔ میں نے کہا کہ نوک قلم سے سینہ قرطاس پر خامہ فرسائی کررہا ہوں ۔  سینہ ہی یاد رہا ، بولے " کیا کر رہے ہو ۔کیا گوشت کی دکان کھول لی ہے؟"۔

ایک مرتبہ ان کے کمرے  میں مسز گیلانی اور مسز حسن ( کریٹیو ڈائریکٹر) کے ساتھ بیٹھا تھا۔ انڈس موٹرز (ٹویوٹا) کی پہلی فور وہیل گاڑی کی لانچ تھی۔ آصف صاحب کو شبہ ہوا کہ مجھے فور وہیل کا مطلب نہیں پتہ اور حقیقت بھی یہی تھی۔ آصف نے ایک مثال دی جو حضرات کے لئے زیادہ قابل سماعت تھی۔ ہم نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ مسز گیلانی چونک گئیں۔میری طرف دیکھ کر بولیں کہ یہ کیا گفتگو ہورہی ہے؟ ۔میں نے کہا کہ بات آصف صاحب نے شروع کی ہے۔ میں نے صرف جواب دیا ہے۔ آصف صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا "  یہ اچھا نہیں کیا تم نے۔حساب ضرور برابر کیا جائے گا اور ہم دوبارہ کام کی باتوں پر آگئے۔

کچھ ماہ گذرے ہوں گے کہ آصف صاحب کے بینڈ بجنے کی خبر آگئی اور پھر بارات کا دن آگیا ۔ آفس میں کام برائے نام تھا۔  دوپہر کو بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ آج میرے باس کی شادی ہے کیوں نہ کوئی تک بندی والا مزاحیہ سہرا ہو جائے ۔ خاموشی سے لکھتے رہے۔ زیب ڈیل کو سنایا۔ اس نے کریٹیو میں گا دیا ۔ سب کے خوب قہقہے نکلے ۔ کسی نے کہا کہ آصف صاحب کو بتاتے ،ہیں ۔میں نے کہا "کیوں ملازمت سے رخصتی کراو گے"۔ مگر صاحب لڑکوں کو تفریح سوجھی ہوئی تھی۔ کسی نے جا کر آصف کے گوش گذار کردیا کہ اظہر نے آپ کا سہرا لکھا۔ کچھ دیر میں انٹرکام ہوا " جی مولانا سنا ہے آپ نے ہمارا سہرا لکھا ہے ؟ میں مکر گیا ۔ بولے " جھوٹ نہ بولو مولانا ۔سب خبر ہے۔آپ کی خیریت اسی میں ہے کہ مع سہرا نیچے برآمد ہوجائیں"۔ اب اپنی غلطی کا احساس ہوا کیونکہ کچھ باتیں انہیں یقینا پسند نہ آتیں۔ سہرا اٹھایا اور پہنچ گئے ان کے کمرے میں ۔ بولے"تشریف رکھئے "۔ حالات کو ناموافق پاتے ہوئے عرض کی کہ یہ تو بس ایسے ہی لکھ دیا تھا ۔ بولے تو پھر ایسے ہی سنا دیجئے۔ ہمت کر کے سہرا سنایا تو  ہہلے ہی مصرعہ پر مسکرانے لگے۔طنزیہ اشعار پر زیادہ واہ واہ کے ڈونگرے برسائے ۔ بولے"مولانا مذاق ہی مذاق میں بہت کچھ کہہ گئے۔ اچھا نہیں کیا" ۔ میں نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں۔ کہنے لگے " اتنی جسارت کی ہے تو اب سزا کے لئے بھی تیار ہو جاو " ۔ میں نے کہا کہ سر تسلیم خم ہے جو مزاج باس میں آئے  بولے کہ خم تو خیر میں اتنا دوں گا کہ کمر کم پڑجائے گی۔

 عزیز قریشی کیلی گرافر کو بلایا اور کہا کہ سہرے کو بیل بوٹوں کے ساتھ بڑے کارڈ پر لکھو۔ میں نے سہرا عزیز قریشی کے حوالے کر دیا۔ بولے اب آپ اپنی سیٹ پر رخت سفر باندھیئے۔ ہم نے سوچا جان چھوٹی سو لاکھوں پائے ،لوٹ کے بدھو سیٹ پر آئے۔

آصف صاحب کا ولیمہ ڈیفینس لائبریری کے عقب میں واقع لان میں ہوا ۔ جب سب کھانا کھا چکے تو کسی نے آکر کہا کہ تمھیں آصف صاحب بلا رہے ہیں۔ ہم اسٹیج کے پاس پہنچے تو گویا ہوئے "قبلہ تیار ہو جائیں سزا کے لئے " ۔ میں نے کہا کہ آصف اتنے لوگوں کے سامنے سزا دیں گے جبکہ ہماری اور ہم آپ کی بات تو کمرے تک محدود تھی۔کچھ عجیب سا نہیں لگے گا۔ ابھی یہ بات میں کہہ ہی رہا تھا کہ ایک کولیگ دوڑتا ہوا آیا۔ اس کے ہاتھ میں عزیز بھائی کا کتابت کردہ سہرا تھا۔ آصف صاحب نے وہ سہرا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ قبلہ اب آپ اسٹیج پرجا کریہ سہرا سب کو سنائیں ۔میں نے عرض کئ کہ یہ سہرا اس قابل نہیں۔ خالصتا دفترانہ ہے مگر وہ نہ مانے ہم حکم حاکم مرگ مفاجات کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ۔اسٹیج پر چڑھے۔ایک طرف دلہن کا گھونگھٹ تو دوسری طرف ستاروں کا جھرمٹ ہم نے سوچا آج درگت بنی ہی بنی ۔ لیجئے صاحب ہم اسٹیج پر چڑھے تو ایک سے ایک فنکار نیچے نظر آیا ۔سب کی نظریں ہم پر مرکوز تھیں ۔اس طرح لائم لائٹ پر آئیں گے ۔یہ کبھی نہ سوچا تھا ۔ کسی ری ٹیک کی گنجائش نہ تھی سب کچھ لائیو جانا تھا۔ مائیک پکڑا لگا تو لگا کہ آواز حلق سے نیچے یی کہیں رک گئی۔ آواز کو آواز دی۔

آواز نکل کہاں ہے ، سوکھا پڑا گلا ہے

ہنت مرداں مدد خدا ۔ پیشہ ورانہ کاری گری نے دامن تھاما ۔کانسپٹ والا تجربہ کام آیا اور اللہ کا نام لے کر ہم شروع ہوگئے۔ ابتدا ہی سے مزاح والی واہ واہ شروع ہو گئی جو آخر تک رہی۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں کیا عنقا سہرا جو تحریر نہیں کررہا ہوں  ۔ یہ بات بتادوں کہ یہ تک بندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔(شعراء سے معذرت کے ساتھ) ۔ اس وقت جو ذہن میں آرہا ہے وہ لکھ رہا ہوں۔

سنتے ہیں ہورہی ہے بلیزون میں ایک شادی
یعنی کہ ایم ڈی کی عمر قید کی تیاری

اس قید میں قیدی بھی ہے کتنا خوش وخرم
اس نیک نصیبہ کے آجائیں گے جو قدم
گھر خوشیوں سے مہکے گا بڑھ جائے گی آبادی
سنتے ہیں ہو رہی ہے بلیزون میں ایک شادی

شہناز کو پتہ ہے اب ہوگئی ہے فرصت
دل پھینک لڑکیوں کے سب فون ہوئے رخصت
کیا ان کے ارمانوں کو لسی ہے پلا دی
سنتے ہیں ہورہی ہے بلیزون میں ایک شادی

ہیں خوش حبیب صاحب  فائل تو اوپر آئی
کچھ دیر سے سہی پر امید تو بر آئی
کرنا ولیمہ لیکن ، ہے پیسے کی بربادی
سنتے ہیں ہورہی ہے بلیزون میں ایک شادی

اب رات گئے تک وہ دفتر میں نہ بیٹھیں گے
شادی شدہ اسٹاف کے مسئلے کو بھی سمجھیں گے
سیٹر ڈائے کے لیکچر سے بھی مل جائے گی آزادی
سنتے ہیں ہو رہی ہے بلیزون میں ایک شادی

عزمی نے لکھا ہے کس چاہ سے یہ سہرا 
پھولے پھلے دنیا میں شان سے یہ جوڑا
آصف سے ہے شہزادہ اور ثمرہ سی شہزادی
سنتے ہیں ہو رہی ہے بلیزون میں ایک شادی

میری اب بھی آصف صاحب سے ملاقات رہتی ہے۔ کچھ 
پروجیکٹس پر کام بھی ہوا مگر ابھی اس نے ٹی وی کا منہ نہیں دیکھا ۔  2010 میں دوبارہ ڈرامہ لکھنے کی تحریک آپ ہی نے دی ورنہ میں90 کی دھائی میں این ٹی ایم کے لئے بقر عید کا خصوصی کھیل " قربان جایئے " اور پی ٹی وی کے لئے قسط وار ڈرامہ " آگے آگے دیکھئے " لکھنے کے بعد ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ 2011 میں  150 سے زائد قسطوں پر مشتمل  میرا تحریر کردہ سٹک کام "بھابھی سنبھال چابی " آپ ہی کے اے اینڈ بی پروڈکشن نے تیار کیا جو اردو ون پر آن ایئر ہوا۔  اس دوران اقساط دینے کونٹینٹ ڈیپارٹمنٹ جاتا تو بغیر ٹائم لئے ان سے بھی ملنے چلا جاتا ۔کبھی فورا بلا لیتے اور کبھی کچھ دیر بعد اور ہمیشہ یہی کہتے " مولانا آپ بغیر ٹائم لئے آتے ہیں ( واقعی بہت مصروف ہوتے )۔ اکثر میں ان کے پاس کافی دیر بیٹھا رہتا۔ اس دوران وہ اپنا کام بھی کرتے رہتے اور ماضی کی باتیں بھی ہوتیں ۔ یہ ان کا بڑا پن تھا کہ اکثر مجھے کمرے سے باہر چھوڑے آتے  (ممکن ہے ان کو شبہ ہو کہ کہیں میں واپس نہ آجاوں۔ ایک دن میں نے کہا بھی تو ذومعنی انداز میں بولے کہ ہم ہر ایک کو دروازے تک ہی چھوڑ کر آتے ہیں)۔

 کچھ عرصہ پہلے آپ کے آفس گرین چللیز  جانا ہوا تو میٹنگ  میں آپ  کی اہلیہ ثمرہ رضا میر بھی موجود تھیں۔ شادی ہر لکھے سہرے کا تذکرہ لازمی تھا ۔پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ نے سہرا بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ اپنے بڑے صاحبزادے اداکار احد رضا میر سے بھی تعارف کرایا۔

یہ حقیقت ہے آصف صاحب جیسا باس پھر مجھے ملا ہی نہیں ۔ آپ مزاح کے مزاج داں ہیں ۔ کرتے بھی ہیں اور سنکر لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ میں اب ایسے لوگوں کو ترس گیا ہوں ۔اگر آپ کے جانے والوں میں کوئی آصف صاحب جیسا وسیع القلب شخص ہو تو مجھے ضرور بتایئے گا۔



Thursday 6 June 2019

پرانے وقتوں میں شادی کی ویڈیو دیکھنے میں کیا کیا تماشے ہوتے ۔آرٹیکل # 29

Article # 29


پرانے وقتوں میں شادی کی ویڈیو

دیکھنے میں کیا کیا تماشے ہوتے ۔
قسط اول




تحریر :اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)


اب تو خیر وہ زمانہ لد گئے ہیں جب 80 اور 90 کے عشروں میں شادی کی سب سے اہم اٹریکشن شادی کی ویڈیو ہوا کرتی تھی ۔ آج کل اسمارٹ فون کا زمانہ ہے۔ ہاتھ کے ہاتھ وڈیو اور سیلفی جس طرح چاھیں بنائیں ۔ جو چاھیں ڈیلیٹ کردیں۔ پہلے تو یہ تھا یہاں شادی ختم ہوئی سب کی طرف سے بالخصوص لڑکیوں کی طرف سے مطالبہ شروع ہو جاتا کہ ویڈیو کب آئے گی ۔دل تو خیر سب کا چاہ رہا ہوتا لیکن اصرار لڑکیاں ہی کرتیں۔ جس لڑکے نے ویڈیو والے سے بات کی ہوتی آتے جاتے اس کی جان مصیبت میں رہتی ۔ نئی نویلی دلہن سے کہا جاتا " اللہ اچھی چچی ( نئے دولہا اچھے چچا کی نسبت سے ) آپ سراج ( بیچ کی مانگ نکالے ، امیتابھ بچن بنتے ) سے کہہ دیں جلدی ویڈیو لے آئے۔ قسم سے بہت دل چاہ رہا آپ کو ویڈیو میں دیکھنے کا " یہ سب غلط ہوتا سب کو اپنے آپ کو دیکھنے کی بے تابی ہوتیں۔نو بیاہی دلہن کہتی کہ میں سراج سے کہہ دوں گی لیکن لڑکیاں بضد رہتیں کہ ہمارے سامنے کہیں۔

پھر لڑکیاں بہانہ سے سراج کو دلہن کے سامنے لا کھڑا کرتیں۔ سراج کہتا کہ اچھی چچی جس کی چاھیں قسم لے لیں ۔ میں روز ویڈیو والے سے کہتا ہوں۔ اس کے پاس کام کا رش زیادہ ہے۔ لڑکیاں چلاتیں " کوئی نہیں ۔اتنے دن تو ہوگئے"۔ ایک لڑکی لقمہ دیتی " میری دوست کی بہن کی شادی بھی اچھی چچی کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان کی ویڈیو تو کبھی کی آگئی۔ آج تمھیں اچھی چچی کے سامنے وعدہ کرنا ہوگا ۔ ویڈیو کب لاو گے" سراچ تنگ آکر کوئی دن بتا دیتا۔ لڑکیاں سراج کے پیچھے لگ جاتیں۔ دیکھو سراج اچھی چچی کے سامنے وعدہ کر رہے ہو ۔مکرنا نہیں ۔ورنہ پھر تمھیں نا مار پڑے گی۔

سراج چار ونا چار مان جاتا۔ اس کے جاتے ہی لڑکیاں " اللہ کتنا مزہ آئے گا" کہتیں۔ خدا خدا کر کے وہ دن آجاتا کہ ویڈیو آجاتی۔لڑکیوں کا بس نہ چلتا کہ وی سی آر میں کیسٹ ڈالیں اور دیکھنے بیٹھ جائیں۔ جن گھروں میں وی سی آر نہ ہوتا وہاں لڑکیاں گھر کے چھوٹے بچوں کو دوڑاتیں کہ دیکھ کر آو کہاں کرائے کا وی سی آر خالی ہے یا بھر کسی جانے والے کے پاس بھیجنے کی کوشش کی جاتی۔ ایسے میں ساس (دادی اماں) کی آواز گونجتی "کوئی ضرورت نہیں کسی سے وی سی آر مانگنے کی۔ ۔مانگا تو وہ بھی اپنی پلٹن کے ساتھ دیکھنے آجائئں گی۔ کرائے پر مانگا لیں گئے لیکن وی سی آر اس وقت لگے گا جب گھر کےسارے مرد آجائیں گے کوئی جذباتی لڑکی کہتی "دادی بہت دیر ہو جائے گی دادی (ساس ) کہتیں " کیا کوئی ویڈیو بھاگی جا رہی ہے "۔ سب لڑکیاں منہ بنا کر رہ جاتیں۔ بس کیسٹ کو ٹکرٹکر دیکھے جاتیں۔ وقت ہے کہ گذرنے کا نام نہیں لیتا ۔

اس رات کو وقت سے پہلے ہی کھانا تیار کرلیا جاتا ۔ کھانے کا یہ تھا کہ آخری نوالہ منہ میں جائے اور وی سی آر لگ جائے۔ ایسے موقعوں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد آفس سے لیٹ ہوجاتا۔ دادی پھر کہتیں کہ سب ساتھ دیکھیں گے۔ تھوڑا انتظار کرو " لڑکیوں کے دل پر چھریاں چل جاتیں ۔ دعائیں مانگتیں کہ وہ آخری فرد بھی آجائے ۔اس زمانے میں موبائل کی ڈائریکٹ ڈائلنگ کی سہولت تو نہ تھی۔ اس لئے اللہ میاں سے دعائیں مانگی جاتیں۔ لیجئے وہ آخری صاحب بھی آجاتے ۔ آتے ہی کوئی لڑکی کھانے ٹرے سجا کر لے لیتی۔ وہ کہتے "ذرا دم تو لے لو ۔چینج تو کر لوں "۔ یہ بیچ والے مشتاق چچا داستان گو مشہور ہوتے۔ آج تو لگتا کہ دن بھر کی رام لیلہ سنا کر ہی دم لیں۔ لڑکیاں چڑ رہی ہوتیں۔ ثمینہ کہتی " پاپا آج تو اپنے قصے کہانی رہنے دیں۔ زرینہ کہتی " قسم سے کل میں اکیلی ایک ایک بات سن لوں گی مشتاق چچا کی ۔ مگر صاحب اسٹوری رائٹر تھے۔ روز کے روز تازہ بہ تازہ قسط سناتے۔ اگر اگلے دن چھٹی ہوتی تو ری پیٹ ٹیلی کاسٹ کر دیتے۔ بیوی بھی ہلکے سے کہتی "سنیں جلدی کھا لیں۔ آپ کی وجہ سے ویڈیو نہیں چل رہی ہے "۔ وہ نوالہ چباتے ہوئے کہتے "اچھا تو میں وی سی آر کا بٹن ہوں۔ پہلے بتانا تھا" ۔

ادھر دلہن بے چاری دولہا کے پاس ہوتی ۔ دولہا میاں بظاہر تو ویڈیو سے دلچسپی کا اظہار نہ کرتے لیکن جلدی انہیں بھی ہوتی۔اس دوران دولہا میاں کمرے میں دلہن کو اپنے ماضی کے ناقابل فراموش قصہ سنانے لگتے یا پھر یہ کہ ان کے آفس میں وہ کتنے اہم ہیں۔ایک دو واقعات ایسے سناتے جس سے محسوس ہوتا جیسے کہ آفس میں مالک کے بعد سب سے اہم آدمی وہی ہیں۔ دلہن اگر کم گو ہوتی تو بس سر ہلا کر رہ جاتی اور اگر ہوشیار ہوتی اور صاحب کو سمجھ چکی ہوتی تو ان کو داد دیتی ۔اس پر صاحب خوش ہو کر کسی اور کے واقعات اپنے نام سے سنا دیتے۔
صد شکر الہی وہ ساعت آئی ! مشتاق چچا پیٹ کی آتما کو شانتی دے چکے ہیں۔اس دوران سراج میاں ہیرو بنے ادھر سے ادھر پھدک رہے ہوتے ، کیسٹ ان کے ہاتھ میں ہوتا ۔ بڑے فخر سے لڑکیوں کو بتاتے کہ وہ خود ایڈیٹنگ پر بیٹھے تھے ۔ایسے ٹائٹ گانے لگوائے ہیں کہ مزہ آجائے گا۔ دیکھو گی تو دیکھتی رہ جاو گی ۔بر لڑکی کو باری باری چھیڑتے "ارے ثمینہ تم اتنی بری آئی ہو۔ میں نے تو تمھارا کوئی کلوز اپ رکھا ہی نہیں "۔ ثمینہ چڑکر کہتی " کوئی نہیں ۔ سب میری اتنی تعریف کر رہے تھے۔ خالہ امی نے تو باقاعدہ میری بلائیں لیں تھیں"۔ سراج ذومعنی انداز میں کہتا " ہاں سب کو معلوم ہے یہ سب وہ کیوں کرتی ہیں ۔بتا دوں سب کو ؟ لڑکی کہتی " پھر میں بھی بتا دوں گی وہ شرارے والی لڑکی نے تم سے ولیمہ والے دن کیا کہا تھا ۔اب بولو بچو " سراج کھسیا جاتا ۔ لڑکیاں زور سے ہنستیں لیکن پھر گھر میں بڑوں کی موجودگی کو دیکھکر منہ پر ہاتھ رکھ لیتیں ۔سراج شیر ہوجاتا اور کسی قدر بلند آواز میں کہتا (اشارہ ثمینہ کی طرف ہوتا) "کیمرہ کسی کا رشتہ دار نہیں ہوتا بھائی۔کسی کو مسکہ پالش نہیں لگاتا ۔ اس کا کوئی کنوارا لڑکا نہیں ہوتا"۔

سراج اب دوسری لڑکی کی طرف متوجہ ہوتا "اور زرینہ تم یہ بتاو اس رنگ پر اتنا ڈارک کلر اور اس پر اتنا ہی ڈارک میک اپ۔ویڈیو والا کہہ رہا تھا۔ بھائی یہ تمھاری رشتہ دار ہے۔میں تو صاف مکر گیا۔ میں نے کہا کہ ہمارے گھر جو ماسی آتی ہے۔ اس کی بیٹی ہے۔ مستقل کام میں لگی ہوئی تھی اس لئے بارات میں لے آئے۔ ابھی یہ ٹھٹول بازی چل رہی ہوتی کہ آواز آتی "سراج اب ویڈیو لگا بھی دے ۔صبح سب کو آفس بھی جانا ہے۔ گھر میں خوشی کے مارے بجلی دوڑ جاتی۔ دولہا صاحب اور دلہنیا کمرے سے نکلنے لگتے تو دلہنیا پہلےکام والا بھاری سا ڈوپٹہ سر پر لیتیں ۔اٹھانے لگتیں تو دولہا میاں ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا ۔اب پیروں کی پازیب کی ہلکی ہلکی چھن چھن کے ساتھ وی سی آر والے کمرے میں آتے ۔ ارے یہ کمرے کا کیا ہوا؟ دو تین کرسیوں کے علاوہ سب باہر نکال دی گئیں۔ نیچے صاف چادر بچھی ہے ۔ بھائی اتنا اہتمام کیوں نہ ہو آج کی ویڈیو کا پریمیئر شو جو ہے۔

سسر (دادا) اور گھر کے ایک دو بڑی عمر کے لوگ کرسیوں پر بیٹھ جاتے۔ساس (دادی) عورتوں کے ساتھ نیچے بیٹھ جاتیں ۔کوئی کہتا بھی کہ دادی اماں اوپر بیٹھ جائیں تو وہ کہتیں " بھیا میں نیچے ہی بھلی" ۔ سسر کمرے پر اچٹتی نظر ڈالتے تو بڑی بہو کو کمرے میں نہ پا کر کہتے "ارے یہ بڑی والی کہاں ہے ؟"۔ ساس ہلکے سے مگر اتنے ہلکے سے سب سن لیں کہتیں " پتہ نہیں یہ کیوں جلی جا رہی ہیں۔ ہمارا لڑکا ہے جہاں چاھیں شادی کریں۔ اب اگر تمھارے خاندان میں کوئی دیکھ لی تو اسٹمپ پیپر پر لکھکر تو نہیں دے دیا تھا " خیر دو تین آوازوں کے بعد بڑی بہو آجاتیں اور کہتیں " منے کو صبح سے دست لگے ہوئے ہیں " ساس فورا بولتیں " دلہن صبح سے تو دست وست نہ آرہے تھے" ۔ بڑی بہو ان کی بات سنی ان سنی کرکے دوسری بہو کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتی ۔

لیجئے جناب انتظار کی گھڑیاں ختم ابھی سراج کیسٹ لگا ہی رہا ہوتا تو ساس کی آواز گونجتی "لڑکیوں ذرا گیٹ کو کنڈی لگا آو۔ کوئی بھی آئے تو پہلے تو کھٹ کھٹ کا جواب ہی نہ دینا۔ اور اگر بہت کھکھٹائے تو کہہ دینا دلہن کے گھر والے آئے ہوئے ہیں "۔ اس موقع پر کرسی پر بیٹھے گھر کے سربراہ (دادا) کہتے "کیوں بھی ۔اس میں چھپانے والی کیا بات ہے" ۔اس پر وہ کہتیں " آپ کو نہیں پتہ برابر والی کو کتنی ٹو لگی یے ویڈیو کی اور سیدھی سی بات ہے مجھے گھر کی ویڈیو کسی کو بھی دکھانا زہر لگتا ہے"۔ لڑکیوں میں سے ایک لڑکی اٹھتی اور زور سے کنڈی لگاتی تاکہ سب سن لیں۔ ساس کی زبان تالو سے نہ لگی ہوتی۔کہتیں کہ اس برابر والی نے پوری شادی میں بڑا دماغ کھایا ۔ ہر بات میں مشورہ بیگم بنی ہوتی۔ بھئی ہمارے گھرکی شادی ہے۔ ہمارے اپنے رسم و رواج ہیں جو چاھیں کریں ۔تیسری شادی کررہی ہوں ۔بچی تو نہیں اور تو کون ؟ کیا پھوپھی لگے ہے اشتیاق (دولہا) کی ؟" ۔ سسر کو یہ ریمارکس اچھے نہ لگتے ۔ وہ جانتے تھے کہ ایک تیر سے دو شکار کھیلے گئے ہیں۔ دل ہی دل میں کہتے "عجیب عورت ہے یہاں بھی نہیں چھوڑا میری اکلوتی بہن کو " پھر خود ہی کہتے "کوئی نیا تھوڑی ہے بھائی "۔

ابھی مزید وہ کچھ بولنے والی ہوتیں لیکن سراج وی سی آر کے پلے کا بٹن دبا کر دادی اماں کے کلام کو منقطع کرتا۔ لیجئے جناب سب عبادت شادیہ میں باجماعت ٹی وی رو ہو کر بیٹھ گئے۔ کنھکھیوں سے دولہا نے لڑکیوں کے جھرمٹ میں بیٹھی دلہن کو دیکھا اور وہ شرما کر نظریں جھکا بیٹھی ۔ ایک لڑکی نے دوسری لڑکی کو کہنی ماری اور کان میں بولی "اچھے چچا بڑے رومانٹک چل رہے ہیں" ۔ کسی بڑے کی آواز گونجتی "اب کسی کی آواز نہ نکلے " (ہاں بھائی اول وقت کی عبادت ہے۔ ثواب کثیر جو سیمٹنا ہے ) ۔

کیسٹ وی سی آر میں لگی تو پہلے ویڈیو والے کی ایڈورٹائزنگ شروع ہوجاتی جس میں انگریزی اسپیلنگ کی قاتلانہ غلطیاں ہوتیں مگرجناب اس وقت یہ غلطیاں کون دیکھتا۔ اس کے بعد دلہن ( کسی اور کی) کے ہاتھ کا دل بنا ہوتا اور اس میں دولہا میاں کی نکاح کے بعد کی سر پر سہرا الٹی پسینہ زدہ تصویر آتی۔ اس کے بعد تصویر الٹتی دولہا میاں اسکرین سے آوٹ ہوتے تو نیچے سے اخبار کی طرح صفحہ آجاتا جس پر دلہن نکاح سے پہلے آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے۔ پھر باری باری سب گھر والوں کی تصویریں آتیں۔ دادا دادی کو ایک ساتھ دیکھکر لڑکیوں کی ہلکی ہلکی کھی کھی شروع ہو جاتی ۔ ثمینہ زرینہ کے کان میں کہتی " پہلی بار دادی کو خاموش دیکھا ۔اچھا نہیں لگ رہا ۔ دادی کو بھنک پڑ جاتی " اے لڑکی تیری زبان تالو سے نہیں لگتی ۔ کیا کہہ رہی ہے"۔ ثمینہ ڈرتے ڈرتے کہتی " دادی میں تو کہہ رہی تھی دادی آئیں تو ویڈیو میں جان آئی ۔ دادی کو یقین ہوتا کہ پوتی جھوٹ بول رہی ہے مگر پہلی دفعہ نئی دلہن کے لحاظ میں کچھ نہ کہتیں اور یوں ثمینہ کی جان میں جان آتی ۔س کے بعد فلم کا باقاعدہ آغاز ہوتا۔ آج دولہا کا مایوں ہے ۔ پہلا سین گھر پر لگی لائٹوں کا ہوتا ۔جھالریں جگمگا رہی ہوتیں ۔ بیچ میں ایک چرخہ جلتی بجھتی چھوٹی چھوٹی لائٹوں کے ساتھ گھوم رہا ہوتا ۔ اب کیمرہ گھر کے دروازے پر آتا اور گھر پر لگی تختی کا کلوز اپ بناتا اور اس کے ساتھ دوسرے شہر سے آئے مہمان بچے کرسیوں پر بیٹھنے کے لئے لڑ رہے ہوتے اور کمیرے کو دیکھ وکٹری کا نشان بنا رہے ہوتے ۔کوئی کیمرے کو سلامی دیتا ہوا گذر رہا ہے اور تو اور ایک بچہ ٹیڑیں پا پا کرتا پہیہ گھوماتا ہوا آجاتا۔ اب دادی کا صبر جواب دے جاتا "ارے سراج یہ تو سرکس کی ویڈیو اٹھا لایا ہے کیا۔ایک سے ایک نمونہ نظر آرہا ہے" ۔ دادییکچھ اس طرح سے کہتیں کہ دلہن بھی مسکرا دیتی ۔ لیجئے ابھی کیمرہ ان نمونوں  سے فارغ ہوتا تو شادی کے شیخ النمونہ (جنہیں خاندان کی عورتیں دولہا میاں بھائی جان کہا کرتیں ) کرسی پر بیٹھے نظر کا موٹا چشمہ لگائے ہونقوں کی طرح کیمرے کی طرف دیکھے چلے جا رہے ہوتے۔ دادی ان کے احترام میں فورا ڈوپٹہ سر پر لے لیتیں۔

ان صاحب نے اپنی بزرگی اور مہمان ہونے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بلا شرکت غیر ، شادی کے ناپسندیدہ ترین شخض کا اعزاز حاصل کیا۔ لڑکیاں خود سے پہلے انہیں اسکرین پر دیکھکر چڑ جاتیں اور ہلکے سے ایک دوسرے کے کان میں کہتیں " یہ جان نہیں چھوڑیں گے۔ سب سے پہلے انہیں ہی آنا تھا ویڈیو میں "۔ ایک لڑکی شرارت سے کہتی " کیسے جان چھوڑ دیں دولہا میاں بھائی جان جو ہیں "۔
باقی بہت جلد 

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...