Monday 6 July 2020

Article # 66 میں اسے روکتا رہ گیا پر وہ رکا نہیں ۔ اسے جانے کی جلدی تھی ۔


Article # 66

میں اسے روکتا رہ گیا پر وہ رکا نہیں 
اسے جانے کی جلدی تھی  !


تحریر: اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں) 

میری اس سے پہلی ملاقات فروری 1991 میں ایک تقریب میں ہوئی تھی ۔ ایک موقع ہر ہم ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔ واپسی پر بھی ساتھ ہی ہولئے ۔ ہماری دوستی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی ۔ دوستی تھی اچھا برا وقت ساتھ دیکھا ۔ لگا ہم ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہیں ۔ ذہنی تال میل ایسا کہ نظر کا کہا سمجھ جائیں ۔ویسے اس میں زیادہ کمال اس کا تھا کیونکہ زیادہ تر اسے ہی سمجھنا پڑتا تھا ۔ عجیب دوستی رہی نہ اس نے کبھی کسی سے میری کوئی شکایت کی اور نہ ہی میں کبھی حرف شکایت زبان پر لایا ۔ اگر کبھی کوئی اختلاف ہو بھی جاتا تو آپس میں بیٹھ کر حل کر لیتے ۔ حل بھی کیا کر لیتے جس کو احساس ہوتا کہ وہ غلطی پر ہے ۔وہ کال کر لیتا ہے جس میں کوئی معذرت یا معافی تلافی نہ ہوتی بلکہ وہ بات ہی نہ ہوتی ۔ ادھر ادھر کی بات کرتے اور بات ختم ہوجاتی ۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کی عزت نفس بہت عزیز تھی ۔ اس لئے معذرت یا سوری جیسے الفاظ سے نا آشنا تھے ۔

اس تعلق میں جو چیز میں نے اس سے سیکھی وہ صبر تھا ۔ میں مزاجا جلد باز ہوں ، تند خو یوں یا تھا ۔ میں بہت صبر سے صبر  سیکھتا چلا گیا ۔ میں اس سے گھنٹوں باتیں کرتا رہتا ۔ اپنے قصے لے کر بیٹھ جاتا اور وہ سنتا رہتا ۔ اکثر اپنے پرانے قصے دھراتا تو وہ اتنی ہی دلچسپی سے سنتا جیسے میں پہلی بار سنا رہا ہوں ۔ وہ خاموش طبع تھا اور میری زبان اس کے سامنے تالو سے نہ لگتی وگرنہ سب کے سامنے تو میں بھی بڑی مشکل سے کھلتا ہوں۔ وہ مکمل غیر سیاسی تھا ۔ اپنے دل کی بات بڑی مشکل سے کہتا تھا ۔ وہ بھی میری طرح کبھی کسی کا دل سے برا نہیں چاھتا تھا ۔ میں تو اگر کسی سے ناراض ہوتا تو بک جھک لیا کرتا تھا وہ تو یہ بھی نہ کرتا تھا ۔ کینہ ، بغض ،عداوت ، حسد اور لالچ کا ہم دونوں کو عارضہ نہ تھا ۔ یہ اور بہت سی ایسی خوبیاں تھیں کہ جن کی وجہ سے میں اس کا احترام کرتا تھا ۔

اکثر یہی کہتا کہ لوگ برے ہوتے ہیں لیکن اچھا نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپ رحم دل ہو مصنف مزاج ہو لیکن برا نظر آنے کے لئے ہر جتن کرتے ہو ۔ لباس سے لے کر گفتگو تک کوئی اچھا تاثر چھوڑنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اگر یہ احساس یو جائے کہ Postive Image بن رہا ہے تو کم از کم چہرے کے تاثرات سے ہی اسے Negative کر دیتے ہو ۔ میں جواب میں یہی کہتا کہ اگر سامنے والا ایک حد سے زیادہ میٹھا بولنے لگے تو مجھے کڑواہٹ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ مجھے شروع سے کھرے لیکن سچے لوگ پسند ہیں ۔ میرے جواب پر صرف ہلکی سی مسکراہٹ آتی ۔  

سب ٹھیک چل رہا تھا  ہماری دوستی کے 25 سال مکمل ہونے  میں 15 دن رہ گئے تھے  کہ جنوری 2016  میں اس نے چلنے کا کہہ دیا۔ میں تو ہکا بکا رہ گیا ۔ پیروں سے زمین نکل گئی۔ کبھی یہ سب تو سوچا ہی نہیں تھا ۔

" کیا ہوا ؟ کوئی بات بڑی لگ گئی ۔ میں نے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا " جواب میں اداسی بھری مسکراہٹ تھی ۔ 

" نہیں ایسا کچھ نہیں ، بس مجھے چلنا ہے "

میں نے بہت سمجھایا اس نے کہا "دل تو میرا بھی نہیں چاہ رہا مگر مجبوری ہے " 

میں رو پڑا ۔ اس نے کہا " رویا نہ کرو ۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے " ۔ میں نے آنسو پونچھ لئے مگر دل روتا رہا ۔

میں نے پہلی مرتبہ اپنے اور اس کے تعلق سے لوگوں سے بات کی ۔ اسے سمجھائیں جانے کی باتیں وہ بھئ تقریبا 25 سال بعد ۔ جانا  تھا تو پہلے جاتے ؟

میری کوششوں کا اتنا اثر ہوا کہ جانا رک گیا ۔ دسمبر 2016 میں اس نے کہا کہ اب جانا منسوخ کردیا گیا ہے ۔ میں نے سکھ کا سانس لیا لیکن یہ سب عارضی تھا ۔ اگست 2017 میں پھر اس کو جانے کی لگ گئی ۔ اب کہ مجھے بھی لگا کہ میرے روکے سے بھی نہ روکے گا ۔

میں پھر بھی اسے روکتا رہ گیا ۔ یر ایک کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا رہا کہ شاید کوئی کام آجائے مگر سب نے ہاتھ اٹھا لیا ۔ میں نے دعا کو ہاتھ اٹھا لئے ۔ میں نے کہا "

چلو میں بھی ساتھ چلتا ہوں ۔ جیسے بھی ہوگا مل بانٹ کر سفر کاٹ لیں گے "

اس نے کہا  " نہیں اگر دوستی ہے تو اب تم دوستی نبھاو ۔ میرے کچھ کام تمھارے ذمے ہیں وعدہ کرو ان سے کبھی دست بردار نہیں ہو گئے ۔ کبھی مجھے مایوس نہیں کرو گے ۔ کبھی غافل نہ ہو گے"

 پھر اکتوبر 2017 کو دوستی کا یہ رشتہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گیا ، اس نے ابدی آرام گاہ کو جا بسایا اور میں کچھ نہ کر سکا ۔ کر بھی کیا سکتا تھا ۔

اب یہ حال ہے کہ میں اسے صرف سوچتا ہوں اس کا ذکر کسی سے نہیں کرتا ۔ بقول حسن رضوی مرحوم ( شعر میں ترمیم کے ساتھ)

آنکھوں سے نہ پڑھ لے کوئی چہرے کی اداسی 
اس  ڈر  سے کبھی  ذکر  "ہم تیرا "  نہیں  کرتے

اگر کبھی کوئی اس کا تذکرہ کرتا بھی ہے تو چاھتا ہوں کہ زیادہ دیر نہ ہو یا کم از کم مجھے شریک نہ کیا جائے ورنہ میں رو پڑوں گا اور میں جانتا ہوں اسے میرا رونا بالکل بھی پسند نہیں آئے گا ۔

اسی لئے تو میں رویا نہیں بچھڑتے سمے 
تجھے  روانہ کیا ہے ،  جدا  نہیں  کیا  ہے      (علی زریون)

وہ جاتے جاتے دوستی کا حق ادا کر گیا ۔ مجھے صبر کرنا سکھا گیا ہے ۔ ملے گا تو بتاوں گا کہ تمھارے جانے کے بعد مجھے صبر کرنا آگیا ہے لیکن میرا خیال اسے اس کی خبر تو ہو گی ۔

میں کب سے اس دوستی پر لکھنے کا سوچ رہا تھا مگر کیا کروں ذہن سے پہلے آنکھیں نم ہو جاتیں ۔ یادوں میں گم ہو جاتیں ۔ لکھنے کو بیت کچھ ہے مگر میں اس سے زیادہ خود میں ہمت نہیں پاتا ۔ اس کے معاملے میں بہت کمزور ثابت ہوا  یوں ۔ رشتہ جتنا مضبوط ہو جائے آپ اتنی ہی کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...