Tuesday 28 July 2020

Article # 69 . کہیں وفات ، کہیں ولادت اور اسی بیچ رونا اور مسکرانا


 Article # 69

ایسے قصے کم کم ہوتے ہیں 
مگر جب ہوتے ہیں تو ہنسی روکے نہیں  رکتی !


                       
     تحریر : اظہر عزمی      

(ایک اشتہاری کی باتیں)

کبھی کبھی زندگی آپ کو ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے کہ آپ اندر سے انتہائی غمزدہ ہوتے ہیں لیکن کوئی بات ایسی بات ہوجاتی ہے کہ ہنسی روکے نہیں رکتی ۔ 

ہمارے ایک قریبی دوست کے والد انتقال ہوا ۔ تدفین کے دوسرے روز میں صبح ہی ناشتہ لے کر دوست کے گھر چلا گیا ۔ ہم تعزیت کے لئے آنے والے افراد کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ فضا انتہائی سوگوار تھی ۔ زنانے سے کبھی رونے اور ہچکیوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ تعزیت کرنے والے افراد جب چلے گئے تو دوست کی والدہ  نے کہا کہ محلے میں کل کے سوئم کا کہہ آو۔ دوست بوجھل قدموں سے اٹھے ۔ ہم بھی ساتھ ہو لئے ۔ 

محلے میں جس گھر جاتے ، لوگ تعزیت کرتے اور دوست ایک ہی جملہ کہتے جو اللہ تعالی کی مرضی ۔ ہوتے ہوتے ہم ایک گھر پہنچے ۔ گیٹ کھٹکھٹایا تو اندر سے دوست کے والد کے ہم عمر صاحب نکل آئے ۔ سنجیدہ طبع انسان لگ رہے تھے ۔ بزرگوار آئے ، ہاتھ ملایا اور بولے :

منیر (ان کا بیٹا) تو گھر پر نہیں ۔ بس دعا کریں سب ساتھ خیریت کے ہو جائے ۔ 

دوست نے کہا : بس جی یہی تو بتانے آئے ہیں کل شام میں ہے ۔

 وہ حیرت زدہ یو گئے اور ذرا لہجے میں سختی لا کر بولے  : یہ آپ سے کس نے کہا ؟ 

 میں بول پڑا : کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔ ہمیں کون بتائے گا ؟ ہمارے تو گھر کی بات ہے ۔

 بزرگوار کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر رہ گیا : اچھا تو یہ آپ کے گھر کی بات ہے ۔ ہمیں تو آج ہی پتہ چلا ۔

دوست غمزدہ ضرور تھا مگر اب اس کا صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا تھا : اگر میرے گھر کی بات نہ ہوتی تو پورے محلے میں کیوں کہتا ۔ 

بزرگوار چونک گئے : کیا کہا ؟ ذرا پھر سے کہیئے گا ۔ مطلب اب سب کو بتا آئے کہ کل شام میں ہے ۔ میں نے کہا : تو کیا آپ کے دستخط کرواتے پھر بتاتے۔ بزرگوار کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کریں ، بولے :  شریفوں کے محلے میں اس طرح کی باتیں ؟ 

میں بھی برہم ہوگیا: تو کیا شریف محلوں میں لوگ مرتے نہیں ہیں ۔ جو آیا ہے اس نے تو جانا ہے ۔ بولے : میاں ذرا ہوش کے ناخن لو ۔ ہم زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہیں اور تم مرنے کی باتیں کر رہے ہو ۔۔۔ کچھ تو خوف خدا کرو۔

میں نے اور دوست نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ہم دونوں ہی کی سمجھ میں بزرگوار نہیں آرہے تھے ۔ تصدیق کے لئے کرواہٹ بھرے نرم لہجے میں بولے :  یہ کل شام والی بات آپ تک پہنچی کیسے ؟ 

 دوست جل گیا : ہمیں کل شام کا کون بتائے گا ؟ ہم چاھتے تو پرسوں بھی کر سکتے تھے ۔ چلیں آپ کل شام تو آئیں  گے ناں !

 بولے : میاں تہذیب بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ میں اچھا لگوں گا اس عمر میں وہاں جاتا ہوا ؟

 اب میں نے کہا : نہیں اس عمر میں نہیں جائیں گے تو کب جائیں گے ۔ دیکھ لیں اگر آپ نہ آئے تو آپ کی باری پر کون آئے گا ۔ 

بزرگوار تقریبا چلا کر بولے : میاں اس عمر میں میری باری ؟ تمھیں شرم نہیں آرہی یہ کہتے ہوئے۔ اگر گھر میں کسی نے سن لیا تو کیا ہوگا ۔ اب آپ دونوں حضرات ایک لمحے بھی یہاں نہیں ٹھہریں گے ورنہ مجھے کچھ ہو جائے گا ۔

 اسی اثنا میں منیر بھی آگیا ۔ بزرگوار نے بیٹے کو دیکھتے ہی کہا : منیر میاں آپ نے تو کمال ہی کردیا ۔ یہ کل شام کا سب کو بتا آئے ۔ایک کام کریں مسجد میں اعلان  کروادیں ۔ منیر ہکا بکا ہم سب کو دیکھے جارہا تھا ۔ صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس نے پہلے تو والد کو اندر بھیجا پھر پوچھا کہ ہوا کیا ؟ دوست نے بتا دیا کہ کل والد صاحب کا سوئم ہے اس کی کہنے آئے تھے ۔ منیر نے اپنا سر پکڑ لیا ۔ 

ہم دونوں حیران و پریشان کے منیر کو کیا ہوا ؟ منیر نے بتایا کہ بابا دو تین دن سے بہت پریشان ہیں ۔ ہم نے ان کو تمھارے والد صاحب کے مرنے کا بھی نہیں بتایا ۔ دوست کو افسوس ہوا بولا : سوری منیر پتہ نہیں ہم لوگ نہ جانے کیا کیا کہہ گئے ۔ منیر نے بتایا کہ اصل میں اس کے ہاں پہلے بچے کی ولادت متوقع ہے ۔ اسپتال والے کل شام  آپریشن کا کہہ رہے ہیں ۔ بابا جب سے جاءنماز پر ہی ہیں ۔ دعائیں مانگے جا رہے ہیں ۔ بس جو ہو ساتھ خیریت کے ہوجائے ۔

اب نہ پوچھیں ہمارا کیا حال تھا ہنسی تھی کہ روکے نہیں رک رہی تھی ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...