Thursday 18 February 2021

Mera purana mohulla ... kia kia yaad karon. Article 73



   میرا پرانا محلہ ۔۔۔ کیا کیا یاد کروں

تحریر  : اظہر عزمی

حصہ اول 


جون ایلیا نے کہا تھا 

دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی

تھا   آباد   محلہ   سارا ،  ہر   دروازہ   زندہ   تھا

پہلے صرف جون ہی کے نہیں بلکہ ہر محلے کا یہ حال تھا ۔ آپ جھوٹے منہ کوئی بات کہہ دیتے پھر دیکھیں آپ کے حکم کی تعمیل میں کیا کیا جتن نہ کئے جاتے ۔ وہ لڑکے بھئ جو گھر میں ہل کر پانی نہ پیتے وہ بھئ محلے میں کسی  کام کو منع نہ کرتے ۔

میں گیٹ باہر کھڑا ہوں ۔ سامنے سے ظفر موٹر سائیکل پر آرہا ہے ۔ صاف لگ رہا ہے کہ جلدی میں یے ۔ اس نے سر ہلا کر سلام کیا اور میں نے رکنے کا اشارہ کیا ۔ رک گیا : بولیں بھائئ ۔ میں نے پوچھا : کہاں جا رہے ہو ۔ بولا : اسٹاپ تک  ۔ میں نے پیسے ہاتھ میں تھماتے یوئے کہا :  پہلے آدھا کلو دھی دے جا ۔ اس نے بے چوں و چرا پیسے لئے اور چلا گیا ۔ 

رات کے دو ڈھائی بج رہے ہیں ۔ بقرعید والے دن اپنی اوقات اور پیٹ سے بڑھ کر مصالحے والے کچے پکے تکے کھا لئے ۔ رات کو دو ڈھائی بجے پیٹ نے فوڈ پوائزن کا بگل بجا دیا ۔ میں نے بھی گلی کا ایک گیٹ بجا دیا ۔ انتخاب رات کے سونے کے سرکاری لباس میں باہر نکل آیا یعنی پرانی سی شرٹ اور نیچے شلوار ۔  بتایا کہ ہیٹ میں درد ہے ۔ اسپتال لے چلو ۔ بغیر کسی وقفے کے ، کسی کو بتائے اور لباس تبدیل کئے بغیر نتخاب اپنی موٹر سائیکل ہر اسپتال لے گیا ۔ دوا دلائی ، انجیکشن لگوایا ۔ گلی میں آئے تو آدھی گلی مع عورتوں کے جاگی ہوئی تھی ۔ مجھے تو کچھ نہ کہا لیکن انتخاب کی کلاس ہو گئی : کم سے کم بتا کر تو جاتے ۔ ہوری گلی پریشانی ہے ۔ والد اور والدہ نے مجھ سے کہا کہ تم تو بتا کر جاتے ۔ گیٹ کھولا اور چل پڑے ۔ وہ تو بچہ ہے ۔ تم نے کہا اور وہ کسی کو بتائے بغیر نکل پڑا ۔ انتخاب کے والد نے کہا : ارے اس کی تو طبیعت خراب تھی ۔ اصل میں غلطی انتخاب کی ہے ۔

یہ تھا میرا پرانا محلہ ۔ کوئی پریشانی کوئی مشکل کوئی کام بس ایک آواز دیں ۔ شفقت  ، لحاظ ، رواداری ، آشک شوئی ، دلجوئی ، بے غرضی ،  تسلی ، دلاسا ، تڑپ میرے پاس الفاظ ممکن ہے کم پڑ جائیں مگر ان لوگوں کی تعریف نہ یو پائے ۔ چھوٹی سی چھوٹی بات پر حاضر ۔ کوئی بڑی بات ہو جائے تو آپ سے پہلے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ۔حال یہ تھا کہ روکنا پڑتا کہ بس اس سے آگے نہ جانا ۔ 

ایک دوسرے کے گھروں سے کھانے پینے کی چیزوں کا تبادلہ روز کا معمول تھا ۔ دوپہر کو پڑوس کا لڑکا  پیالے میں ڈھکا سالن لئے چلا آ رہا ہے : خالہ وہ ابو آج دوپہر کو آ گئے ہیں ۔ امی نے آلو بینگن پکائے تھے دوپہر میں  ۔ امی کہہ رہی ہیں کہ یہ سالن لے لیں اور جو آپ کے پکایا ہے وہ دے دیں ۔ ہماری امی پلنگ سے اٹھ کر باورچی خانے کی طرف جاتے کہتیں :  رک ذرا دیکھ تو لوں ہنڈیا  میں کچھ بچا بھی ہے کہ نہیں ۔ ہنڈیا دیکھ کر لڑکے سے کہتیں ۔ سالن زیادہ نہیں مگر اتنا ہے کہ ایک جن آرام سے کھا لے گا ۔ سالن پلیٹ میں دیتیں تو لڑکا اپنے آلو بینگن آگے بڑھاتا ۔ امی ہاتھ کے اشارے سے کہتیں : نا بیٹا تیری اماں کے ہاتھ کی سبزی میری سمجھ میں نہ آتی ۔ واپسی لے جا اور سن ( دو انڈے سالن کی پیالے پر رکھی پلیٹ پر رکھ کر کہتیں : یہ بھی لے جا ، اگر سالن سمجھ میں نہ آئے تو ماں سے کہیو ۔ یہ انڈے تل کے دے دے تیرے باوا کو ۔

اسی طرح ماچس ، چائے کی پتی ، پسی مرچیں ، ہلدی  ، گرم مصالحہ وغیرہ مانگنا عام سی بات تھی ۔ بس ایک نمک دیتے ہوئے امی چڑ جایا کرتی تھیں : اے زبیدہ ، کتی بار سمجھایا ہے نمک مت مانگا کر کسی کے گھر سے ۔ رزق کم ہو جاتا ہے دینے والے گھر کا ۔ مانگنے والی پڑوسن کہتی : خالہ وہ بس ذہن میں نہیں رہا ۔ ہنڈیا چڑھی ہے تو نمک کے نہ ہونے کا خیال آیا ۔ امی تڑاخ سے کہتیں : تیرا ذہن ہے یہ نائی کی دکان ۔جب تک گراھک آئے نا ، نائی استرے کو ہاتھ لگائے نا ۔ باورچی خانہ تو عورت کا سب کچھ ہوتا ہے  تو کیسی ہے جسے باورچی خانے کا پتہ ہی نہیں ۔ امی بے نقاط سناتیں مگر مجال ہے جو ماتھے پر شکن آجائے اور زبیدہ خالہ اپنی چیز لے کر ہی ٹلتیں .

محلہ کیا تھا ایک خاندان ہوا کرتا تھا ۔ دکھ سکھ ، غمی خوشی سب سانجھا ہوتا ۔ لیجئے محلے کی ایک لڑکی ثمینہ کا رشتہ آرہا ہے ۔ آج پہلی بار لڑکے کے گھر سے چند عورتیں لڑکی دیکھنے آرہی ہیں ۔ رشتے کی بات بھی محلہ کی ایک خاتون رضیہ باجی نے اپنے دور پرے کے رشتے داروں میں چلائی ہے ۔ محلے کی ساری عورتوں کو اس رشتے کا پتہ ہے ۔ لڑکی کی ماں ثریا نے ثمینہ کی ایک چچی رخسانہ اور اپنی شادی شدہ بھانجی شمو کو بھی بلا رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ محلے کی ایک جہاں دیدہ آپا صغری کو بھی خصوصی دعوت پر آئی ہیں کہ ان کی نظر بہت تیز ہے اور وہ بیٹھی چڑیا کے پر گن لیتی ہیں  ۔ محلے کی جن خاتون رضیہ باجی نے رشتے کی بات چلائی ہے ان کا آنا تو ہر صورت میں بنتا ہے ۔ وہ اس رشتے کی ماڈریٹر ہیں جن کا کام لڑکی ثمینہ اور لڑکے کے گن گن کے گن بتانا ہیں ۔ 

 لڑکے والیوں کو سہ پہر میں آنا ہے  ۔ گھر میں خوب گہما گہمی ہے ۔ گھر میں بلائی گئی عورتیں ہلکی سی لپ اسٹک اور تبت سنو کریم مل کر اور ساٹن کے چمکیلے جوڑے پہنے ثریا کے گھر پہلے سے آگئی ہیں ۔ لڑکی کی ماں ثریا ہی تیار نہیں ہوئی ہیں ۔ لڑکی کی چچی رخسانہ کہتی ہیں : لو بھیا کوئی لڑکی کی ماں کو دیکھے گا تو کیا کہے گا ۔ جھاڑ جھنکار بنی پھر رہی ہیں ۔  بھابھی آپ آپ جائیں اور تیار یو جائیں ۔ کوئی کام ہو تو بتا دیں ۔ آپا صغری کو اپنی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ ہے ۔ ثمینہ کو رشتے والیوں کے سامنے آنے ، بیٹھنے اور بات کرنے کے طور طریقے بتا رہی ہیں : ثمینہ سن ! یہ بھی نہ ہو کہ تو چپ کی بیٹھی رہے اور نہ ہی چبڑ چبڑ بولتی رہیو ۔ رضیی باجی آپا صغری کو بتاتی ہیں  : اے صغری آپا ، لڑکے کی چچی امی قیامت کی ہیں ۔ ان کی تالو سے زبان نہیں لگے ہے ۔ وہ بہت کریدا کریدی کریں گی ۔  آپا صغری تنک کر بولیں : وہ لڑکی سے اکیلے میں تھوڑی ملیں گی ۔ ہم بھی تو ہوں گے ۔ 

لڑکے والیاں آئیں تو لڑکی والیاں نے ان ہر اخلاقیات کے ٹوکرے برسا دیئے ۔ بڑھ بڑھ کر گلے ملیں ۔ آپ جناب کی وہ گردان ہوئی کہ اللہ کی پناہ ۔ آپا صغری چچی امی کو پہلے ہی تاڑ گئیں ۔ لڑکے والیاں ایک مٹھائی کا ڈبہ بطور شگن ساتھ لائی ہیں ۔ لڑکی کی ماں نے کہا : ارے اس کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔ لڑکے کی چچی امی نے پہلی باضابطہ انٹری دی : کیوں نہ لاتے ۔ کوئی اچھا تھوڑی لگے ہے خالی ہاتھ آنا ۔ آپا صغری نے کہا : یہ تو آپ صحیح کہہ رہی ہیں چچی امی ۔ چچی امی کہنے پر صورت حال میں ہلکا سا ٹوئسٹ آ گیا ۔ چچی امی کو یہ بات ناگوار گزری کیونکہ آپا صغری کسی طرح چچی امی سے چھوٹی نہیں ۔ رضیہ باجی نے صورت حال کو سنبھالا اور چچی امی سے بولیں : اصل میں آپا صغری کو آپ کا نام معلوم نہیں ۔ آپ کے آنے سے پہلے میں انہیں بتا رہی تھی کہ لڑکے کی چچی امی جب تک ہاں نہ کہہ دیں سمجھو بات پکی نہیں ہوئی ۔ آپا صغری نے بات کو مزید سنبھالا : اصل میں مجھے آپ کے نام کا پتہ نہیں تھا ۔ رضیہ نے چچی امی کا کہا اور وہی میرے منہ سے نکل گیا ۔ ویسے آپ کا نام کیا ہے ؟ چچی امی تو خاموش رہیں لیکن ساتھ آنے والی ایک خاتون نے کہا کہ انہیں نورجہاں کہتے ہیں ۔ آپا صغری نے فورا کہا : ماشاء اللہ اور تحسین آمیز خوشامدی نظروں سے انہیں دیکھا ۔ معاملہ قابو میں آ گیا ۔

ثریا کبھی باورچی خانہ جائیں تو کبھی مہمانوں میں آکر بیٹھ جائیں ۔ جاتے جاتے کمرے میں اکیلی بیٹھی ثمینہ پر ایک اچٹتی نظر ڈالیں ۔ کچھ سمجھ میں نہ آئے تو اس کا دوپٹہ ہی صحیح کر دیں ۔ ثمینہ تنک کر رہ جائے ۔ مھمانوں میں آئیں تو آدھی بات سنتیں اور ہاں میں پورا منہ ہلائیں ۔ کچھ دیر بعد لڑکی کو بلایا گیا اور اس کے لئے گھر میں مھینوں سے استعمال نہ ہونے والی چائے کی ٹرالی کو استعمال میں لایا گیا جس کے ایک ٹوٹے پہیے سے مستقل کڑ کڑ کی آواز آرہی تھئ اور ثریا کا دم اٹکا تھا کہ کب یہ پہیہ ٹرالی سے رشتہ منقطع نہ کر لے ۔ ثمینہ پورا دوپٹہ سر پر لئے ٹرالی کے ساتھ اندر آئی تو لڑکے والیوں نے ایک نظر میں اس کا جائزہ لے لیا ۔ ثمینہ خاموشی سے ایک کونے ہر سمٹ کر بیٹھ گئی ۔ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد چچی امی نے ثمینہ کو چھیڑا : اب ہمیں چائے بنا کر بھی دو گی ۔ یہ ایسے ہی بیٹھی رہو گی ۔ سب نے فرمائشی قہقہہ لگایا ۔ آپا صغری ثمینہ سے بولیں : ارے بیٹا سب کو چائے بسکوٹ اور سموسے دو ۔ ثمینہ کے چائے بنانے کے دوران لڑکے والیوں کی نظروں سے اندازہ ہو گیا کہ لڑکی انہیں اچھی لگی ہے ۔ چائے بسکوٹ اور سموسے کھانے کے دوراں کچھ اور جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ لڑکے کی ماں ویسے تو خاموش ہی رہیں ۔ بس کہا تو اتنا کہ چائے تو بہت اچھی بنائی ہے ثمینہ نے ، ہمارے ابراہیم کو بھی ایسی ہی چائے پسند ہے ۔ سموسوں کا تو وہ دیوانہ ہے ۔ شمو  نے فورا کہا : یہ سموسے ثمینہ نے بنائے ہیں ۔ کھانا تو ایسا بناتی ہے کہ جو کھائے انگلیاں چاٹتا رہ جائے ۔

چلتے چلتے چچی امی اور لڑکے کی ماں نے بہت لہک کر ثمینہ کو گلے لگایا جس سے ثریا ، رضیہ باجی ، چچی رخسانہ ، شمو اور آپا صغری کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ لڑکے والے گئے تو رضیہ باجی نے آپا صغری سے کہا : آپا یہ کیا کیا ۔ انہیں چچی امی کہہ دیا ۔ دیکھا نہیں تھا چہرے پر کیسا رنگ آیا تھا ۔ آپا صغری نے معذرتانہ لہجے میں کہا : بس کیا کرتی منہ سے نکل گیا ۔ خیر چھوڑو ۔ بس اب تم دیکھنا ایک دو دن میں ہاں ہو جائے گی اور ایسا ہی ہوا تیسرے دن رضیہ باجی نے خبر دی کہ لڑکے والوں نے ہاں کردی ہے ۔ ثریا نے خبر لانے پر رضیہ باجی کو گلے سے چمٹا لیا ۔ محلے میں مٹھائی کیا بٹی ایک ایک عورت مبارکباد دینے آپہنچی ۔ خوشی ایسی کہ لگتا ہر گھر میں رشتہ ہوا ہے ۔ آپا صغری نے ثریا کے گھر آکر شکرانے کے نفل پڑھے اور ثمینہ کی خوب ہی بلائیں لیں اور بے اختیار خوشی سے آنکھیں نم ہو گئیں

ایسا تھا میرا پرانا محلہ !   

Wednesday 10 February 2021

ایک مریض کی زندہ درگور تعزیت ۔ آرٹیکل # 72

 ایک مریض کی زندہ در گور تعزیت

آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے

تحریر : اظہر عزمی

 

ہمارے ہاں کسی بیمار کی عیادت اور اس سے ہمدردی میں ، ہم  وہ کچھ کر جاتے ہیں کہ مریض کی رہی سہی جان بھی نکال دیتے ہیں ۔ گفتگو سے لگتا ہے کہ مزاج ہرسی کے بجائے پرسے کے لئے آئے ہیں ۔ مریض کو " قریب القبر " کی خبر دینے  کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتے ہیں ۔ اسے اس درجہ آمادہ موت کرتے ہیں کہ مرض سے نہ مرے تو کم از کم خودکشی کو  "خودخوشی" جانتے ہوئے ایک چانس تو لے ہی لے ۔ مریض کے کھانے کے لئے پھل ساتھ لاتے ہیں مگر سینے میں ا
یسے ایسے پھل اتار جاتے ہیں کہ وہ خود کہہ اٹھے ۔

آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے 

کل اسپتال میں داخل اپنے ایک دوست ریاض بھائی کی عیادت کو گیا تو اس دوران ان  کے سسرال کی دو خواتین اور ایک مرد آگئے ۔ میں نے اٹھنا چاھا تو ریاض بھائی نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور بولے : تم ہو گئے تو جلدی چلے جائیں گے ۔ میں نہ چاھتے ہوئے بھی کرسی کھسکا کر دیوار کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر بعد دو خواتین چادر اوڑھے اور ان کے ساتھ ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے ۔ دونوں خواتین جو کہ 50 کے پیٹے میں ہوں گی اور صاحب ان سے کچھ سال بڑے ہوں گے ۔ دونوں خواتیں نے میری موجودگی کو عیادت جیسی عبادت میں مخل ہونے  کا تاثر دیا بلکہ ریاض بھائی  کے ساتھ ذرا سا ترچھی کرسیوں کے ساتھ بیٹھیں بلکہ ایک نے تو اپنی چادر کا پلو دانت میں ہی دبا لیا تھا تاکہ میرے دیکھنے کے امکانات ہی ختم ہوجائیں ۔اب انہیں کوئی بتائے کہ ایسی صورت حال اور عمر کے اس حصے میں آواز سے بھی ایک تصویر بنتی یے جو کبھی دھوکا نہیں دیتی چاھے ظاہری شکل کیسی ہی کیوں نہ ہو ۔ وہ تو جب انہوں نے عیادتی جملے بولنے کے لئے زبان کھولی تو چادر دانتوں سے نکل بھاگی اور لگا جیسے مجھ سے کہہ رہی یو " آپ سے کیا پردہ " ۔ خیر پھر انہوں نے میرے ہونے نہ ہونے کو خاطر میں کہاں رکھا ۔  سیانوں کا کہنا ہے کہ موت سے پہلے عیادت کے نام پر سب سے زیادہ تعزیتی قبریں خواتین کھودتی ہیں ۔

خیر کمرے میں آتے ہی پہلے تو ایک خاتون نے پھلوں کا شاپر بیڈ کے ساتھ والی ادویات کے لئے مخصوص ٹیبل ہر رکھ دیا ۔ شاپر میں آج کل کے موسمی پھلوں کا  منہ تک قبضہ تھا ۔ شاپر میں جگہ جگہ پھوڑے نکلے ہوئے تھے ۔ کینووں کی بہتات نے کیلوں کی سانس روک کر انہیں آدھ موا کردیا تھا ۔ دو کیلے شاپر کی منڈیر پر جاں بلب تھے اور شاپر پھاڑ کر نکلنے کو تیار تھے ۔ امرود نظر تو آرہے تھے مگر صاف لگ رہا تھا امرود اپنی سخت مزاجی کے کینووں کی بالادستی بلکہ چیرہ دستی سے بہت تنگ ہیں ۔

۔دوسری خاتون نے دس روپے کے نوٹ سے ریاض بھائی کے  ہاتھوں ، ماتھے اور کاندھوں کو چھلانے کے بعد سر پر اس نوٹ کو گھما کر صدقہ نکالا اور کچھ پڑھ کر ان پر پھونکا ۔ کچھ دیر میں اندازہ ہوگیا کہ دونوں نند بھاوج ہیں اور ساتھ آنے 
والے نند کے بڑے بھائی اور بھاوج کے شوہر نامدار ہیں گو کہ انہوں نے اپنا نام نہیں بتایا ۔ ویسے نام کچھ بھی رکھ لیں شوہر سے زیادہ  بے ضرر اور ہضم کوئی اور نام نہیں ۔  آئیں ! ذرا عیادت کا حال بھی سن لیں ۔

نند ریاض بھائی سے کسی قدر خفگی سے گویا ہوئیں اور بول               چلی گئیں 

ریاض بھائی ۔ حد ہوگئی غیریت کی ۔ کسی نے بتایا ہی نہیں کہ آپ اسپتال میں ہیں ۔ وہ تو کل ثریا سے بات ہوئی تو پتہ چلا ۔ میں تو ڈر گئی ۔ میں نے سوچ لیا تھا کل ضرور جاوں گی اسپتال ، ورنہ کل کلاں کو کچھ ہوگیا تو کہنے کو بات رہ جائے گی ۔ رات سے آپ کے لئے دعائیں کر رہی ہوں ۔ انہوں نے محلے کی مسجد میں بھی اعلان کرادیا یے ۔ ہر نماز میں آپ کے لیے دعائے صحت ہ
ورہی ہے ۔ 
اس کے بعد مریض کے چہرے ہر ایسی افسوسانہ اور قبرانہ نظر ڈالی کہ ریاض بھائی کو لگا کہ سامنے موت کا فرشتہ بیٹھا ہے ۔
بھاوج کہاں پیچھے رہنے والی تھیں ۔ رہی سہی کسر انہوں نے  ہوری کردی بلکہ دو ہاتھ آگے نکل گئیں : نہیں بھیا ، احتیاط بہت ضروری ہے ۔ 
نند کو مخاطب کرتے ہوئے  : وہ میں نے بتایا تھا ناں مشفق بھائی کا ۔ رات سوئے اور صبح آنکھ ہی نہیں کھلی ۔
پھر ریاض بھائی سے مخاطب ہوئیں : رات کو کوئی گھر والا رکتا یے کہ نہیں ؟
ریاض بھائی نے کہا : یہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ باھر بیٹھنا پڑتا ہے ۔
نند نے پھر آگے بڑھ کر ریاض بھائی کے اوسان خطا کرنے کی پوری کوشش کی : اے بھیا ، اب یہ اسپتال والے بتائیں گے کہ فائدہ نقصان کیا ہے ۔ یاد نہیں آپ کی شادی کے تورس سال صداقت خالو کا کیا ہوا تھا ۔ رات اسپتال سے بیوی بچے گئے ۔ رات کو ان کی طبیعت خراب ہوئی ۔ لونڈے لپاڑے ڈاکٹر تھے اسپتال میں ۔ سنبھالا ہی نہیں گیا ان سے ۔ چٹ ہوگئے صداقت خالو  ۔ صبح بڑا لڑکا آیا تو مرے باپ کی شکل دیکھی ۔ 
اسی دوران راونڈ پر ڈاکٹر آگیا ۔ اس کے ساتھ نازک اندام ، آنکھوں میں شرارت بھری نرس کمرے میں آگئی ۔ ڈاکٹر ہاوس جاب پر تھا ۔ دونوں خواتین نرس کو دیکھ کر جلی مری جا رہی تھیں ۔ چیک اپ کے بعد دونوں چلے گئے ۔ نند نے پھر گند گھولنے کی کوشش کی ۔ اب یہ جو اسپتال والے چھوکرے چھوکرے سے سستے سستے سے ڈاکٹر رکھ لیتے ہیں اوپر سے یہ چلبلی نرسیں ۔ مریض کو انہوں نے خاک دیکھنا ہے ۔ خاک ہی ڈالتے ہوں گے ۔ 
ریاض بھائی کو اب اپنی بیماری کی شدت اور موت سے قربت کا اندازہ ہو چلا تھا ۔ ڈاکٹر کا آپریشن ، صبح شام  کے وزٹ اور اس پر یہ یقین دلانا کہ آپ کچھ دن بعد گھر ہوں گے ۔ سب بیکار تھا ۔ ہفتوں کا علاج پر خرچہ ، اہل خانہ کی تیمارداری سب ان نند بھاوج کی دس منٹ کی عیادت سے ہلکے  نکلے  ۔ جاتے جاتے بھاوج بولیں : فکر نہ کرنا بھیا ، اللہ تنکے میں جان ڈالنے والا ہے لیکن لکھی کو کون ٹال سکتا ہے بھلا ۔ پریشان بالکل بھی نہ ہونا ، اللہ بہتر کرے گا ۔ اور ویسے بھی ایک بات بتا دوں بچے سب کے پل جاتے ہیں ۔ وہ سب کا پالن ہار ہے ۔ تم اس کی بالکل بھی فکر نہ کرنا ۔ 
اس پوری تیمارداری میں صاحب نے ایک لفظ نہ بولا ۔ بس آتے جاتے مصافحہ کیا ۔ جب عیادت گزار چلے گئے تو ریاض بھائی کی حالت قابل دید تھی ۔ میں نے پوچھا کیسی لگی عیادت ؟ بولے : عیادت کے نام ہر زندہ تعزیت وہ بھی اپنی ، آج دیکھی ہے ۔ مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ مریض کس درجہ موت آگاہ ہو چلا ہے ۔ میں نے جاتے جاتے کہا : بس تم دیکھنا کل صبح تمھیں اسپتال والے ڈسچارج کردیں گے ۔ ریاض بھائی نے کہا : دیکھیں ڈسچارج  کرانے کون آتا ہے ۔ گھر والے یا فرشتہ ! 
میں  نے حوصلہ دیا تو گنگنائے لگے 
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...