Tuesday 16 April 2019

Khalid Naseem ... The guilty of simplicity in hypocrites society


Article # 18


خالد نسیم

ریا کار معاشرے میں سادگی کا مجرم



تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


یہ غالبا 2001-2 کی بات ہے۔ کراچی میں انتھریکس نامی خطرناک کیمیکل مختلف لوگوں کو بذریعہ پارسل موصول ہورہا تھا۔ کہتے تھے جو اس کو چھو لے اس کی زندگی کے لئے خطرہ ہے۔ اللہ جانے اس میں کتنی صداقت تھی۔ ایک دن  آفس میں بیٹھے پیون کو آواز دی اور کہا کہ سفید لفافہ اور نمک لے آو۔ وہ لایا تو پہلے اس پر آفس کے ایک صاحب کا نام اور آفس ایڈریس لکھکر اس بند کیا اور پیون سے کہا کہ اس کو لے جاو۔ جب وہ صاحب میرے پاس بیٹھے ہوں تو یہ لفافہ ان صاحب کو دینا اور کہنا کہ کوریئر سے کوئی نام دے گیا ہے۔ میں نے ان صاحب کو بلایا ،وہ آئے،کچھ دیر پیون لفافہ دے کر چلا گیا۔ ان صاحب نے لفافہ کھولا۔ کاغذ نہ نکلا تو اس کو الٹا کر کے جھاڑا۔ نمک نکلا جو ان کے انگھوٹھے پر لگ گیا۔ میں نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ تو انتھریکس لگ رہا ہے۔ بس پھر کیا تھا پورے آفس میں شور مچ گیا ۔ دوڑو بھاگو کی آوازیں لگ گئیں۔ ان صاحب نے اپنا انگھوٹا پکڑا اور چہرہ سفید پڑ گیا۔

آرٹ ڈائریکٹر ایاز سے کہا گاڑی نکالو ۔اسی وقت اسپتال چلتے ہیں۔ایاز نے گاڑی نکالی ۔ میں اور ایاز متاثرہ شخص کو لے کر چلے۔ انگھوٹا ان کے ایک ہاتھ میں ہے۔ پریشانی چہرے پر ایسی کہ اب گئے ۔ گاڑی اسٹارٹ کی تو اس میں گانا چل رہا تھا۔ کچھ دور گئے تو مجھے اس کا احساس ہوا ۔میں نے ایاز کو ڈانٹ کر کہا ۔یہ وقت تو سورہ یاسین کا ہے اور تم نے یہ کیا لگا دیا۔ یہ کہکر میں ہنسنے لگا اور کہا کہ گاڑی آفس کی طرف موڑ لو۔ وہ صاحب نہ مانے ۔جب میں نے کہا کہ مذاق کیا ہے تو پھر ان کا غصہ دیکھنے والا تھا۔ آفس آکر بھی آگ بگولا ۔کسی طرح قابو میں ہی نہیں آرہے تھے۔ بولے "اب دیکھئے میں کیا کرتا ہوں آپ کے ساتھ۔ " میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی مگر کیونکہ ان کی گھبراہٹ پر کافی مذاق بن رہا تھا اس لئے کوئی معافی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ میں بیکری گیا، کیک لیا، اس پر Sorry Khalid Naseem لکھوا کر لایا تب کہیں جا کر غصہ ٹھنڈا ہوا۔

یہ ہیں میرے مجسم شرافت ، رواداری کی علامت، سادگی کا پیکر ، امن و آشتی کے خوگر خالد نسیم ۔ خوش نصیب ہوں کہ ایسا یار بے بدل ملا۔ میں اپنی پروفیشنل لائف میں بہت لوگوں سے ملا ہوں۔ نامی گرامیوں سے بھی اور کم نامیوں سے بھی ۔ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ایڈورٹائزنگ میں Stretegy  کے حوالے سے اتنا جینوئن آدمی نہیں دیکھا۔ ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں کسی بھی Campaign کی ابتدا Strategy Department سے ہوتی ہے جس کی بنیاد پر Creativity "تخلیق " کا عمل شروع ہوتا ہے۔ گویا یہ  ڈیپارٹمنٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور خالد نسیم اس ڈیپارٹمنٹ  کے سرخیل ہیں۔شعبہ بھی Stretegy کا چنا ہے اور اپنے کیریئر اور زندگی میں Straightegy  پر ہقین رکھتے ہیں۔

خالد نسیم کا تعلق پنجاب کے علاقہ کچھا کھوہ کے ایک گاوں سے ہے۔ نہایت ہی شریف النفس والدین کی اولاد ہیں جن کی تربیت کا مکمل اظہار خالد نسیم کی ذات میں ہوتا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کیا ۔ ملازمت کے لئے وارد کراچی ہوئے پھر کراچی کے ہی ہو لئے۔ کراچی میں جہاں میری رہائش ہے ۔وہیں ایک اپارٹمنٹ لیا۔ بعد ازاں بغرض ملازمت مع اہل خانہ قطر چلے گئے۔ اب کراچی واپس آگئے ہیں۔

خالد نسیم مرنجان مرنج قسم کے انسان ہیں۔ میری ملاقات ان سے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ہوئی (ظاہر ہے کسی ایجنسی میں ہی ہونی تھی) لیکن بہت دلگداز ہوئی ۔ہوا یہ کہ میں جہاں بیٹھتا تھا مجھے وہاں سے اٹھا کر انہیں بیٹھا دیا گیا۔ وہ ایک کمرہ تھا۔ نئی جگہ ایک کیوبیکل تھا۔ یہ بہت شرمندہ حالانکہ اس میں ان کا کیا قصور تھا۔ یہاں ان کے اوصاف حمیدہ مجھ پر ہویدا ہوئے۔ اس زمانے میں خالد صاحب دست شناسی اور متعلقہ علوم کی طرف دسترس رکھتے تھے۔ میرا بھی ہاتھ دیکھا اور کہا کہ آپ کے ہاتھ کی ایک لکیر ہلکی سی کٹی پٹی ہے جس دن یہ مل گئی ،آپ شہرت یافتہ ہو جائیں گے۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہم منتظر ہیں کہ کب یہ ملے مگر اب خالد صاحب اس طرف سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ ہاتھ دکھانے کی کوشش کرتا ہوں تو منہ پھیر لیتے ہیں۔

خالد صاحب کے القابات ہر زمانے میں مختلف رہے ہیں۔ میں انہیں پیار سے خالی صاحب ، ظالم الظالمین اور ظللام ( یہاں زیر، زبر ، پیش اور تشدید لگانے کی سہولت نہیں ) کہتا ہوں۔ خالد صاحب زمانے کی تمام ہوشیاریاں اور چیرہ دستیاں سمجھتے ہیں مگر بنیادی طور پر لحاظ کے آدمی ہیں۔ برائی کے جواب میں برائی کرنے کے بجائے وہ راستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جگہ ملازمت کی تو دو نمبر لوگوں نے بہت جلد ان کے خلاف محاذ بنا لیا اور آپ کو رخت سفر باندھنا پڑا ۔جدید ایڈورٹائزنگ کی جتنی سمجھ اور آگہی خالد صاحب کو ہے۔ ان کے مقابلے میں آج کے بڑے جغادری ان سے بہت پیچھے ہیں لیکن  بات وہی ہے کہ خالد صاحب خوشامد اور  ہاں میں ہاں ملانے کو جرم سمجھتے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں کئی بار نوکری ختم کرا چکے ہیں۔اب تو خیر وہ عادی مجرم ہوچکے ہیں۔

خالد صاحب اور میں نے متعدد پریزینٹیشنز ساتھ دی ہیں۔آپ اسٹریٹیجی والا پارٹ کرتے اور میں کریٹیو والا حصہ ۔ خالد صاحب کا ابتدا میں مجھ سے یہ جھگڑا (مبارک ہو) ہوتا کہ آپ میری اسٹریٹیجی پر Campaign کیوں نہیں بناتے ۔میں یہ کہتا کہ جو Campaign کر رہا ہوں، آپ اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنا لیں یعنی الٹا کام کرلیں۔ یہ میری کاہلی اور اپنی مرضی چلانے کی وجہ سے تھا۔ خالد صاحب بہت لحاظ کرتے تھے لیکن کہیں کہیں چڑ جاتے ۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ بالکل غلط بات (اکثر کرییٹیوز یہی کرتے ہیں) ہے۔ بعد میں نے ان کی بنائی ہوئی اسٹریٹیجی پر کام کیا تو واقعی کام بہت بہتر ہوا۔اب یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ممدوح ہیں اور ہم نے انجمن ستائش باہمی کھول لی ہے جسے آپ انگریزی میں Mutual  Appreciation Council  بھی کہہ سکتے ہیں۔

ایڈورٹائزنگ انڈسٹرئ کے لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں ڈسکشن کے نام پر کراس کاشننگ بہت ہوتی ہے جس میں بسااوقات کام سے زیادہ بندے میں فی نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کلائنٹ سے میٹنگ ہو تو کلائنٹ تو کوئی بھی بے مقصد سوال پوچھنے کا لائسنس یافتہ ہوتا ہے۔ خالد صاحب اس صورت حال کے لئے بالکل بھی موزوں نہیں ہیں۔ یہاں  پروفیشنل ازم سے زیادہ مزید بے مقصد جواب دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو یقینا خالد صاحب کے تجربہ، تعلیم اور مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔بس یہی ایک ہنر ہے جو خالد صاحب کو نہ آتا ہے نہ آئے گا۔

خالد صاحب دراصل اس معاشرے میں مس فٹ ہیں۔ قطر سے واپس آئے تو بولے" بھائی ۔ باہر بھی سب کچھ یہی چل رہا ہے۔وہی دو نمبری وہی ایک نمبر کے خلاف Unsaid Alliance." میں نے کہا" وہی تلوار پھر چل گئی" بولے "بسمل وہی تھا بس قاتل بدلے تھے۔" خالد صاحب کا تعلق تو پنجاب سے ہے لیکن چہرے مہرے سے بالکل بھی نہیں لگتے بلکہ کہیں دور سے چائنیز ٹچ آتا ہے۔ قد اتنا کہہ لیں کہ چھوٹے قد سے بال بال بچے ہیں۔

بہت دیر سے صبر کررہا ہوں مگر اب نہیں ہورہا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کیسا صبر ؟ وہ صبر ہے خالد صاحب کے منبع تبسم واقعات جن کا سننا اور سنانا ہر ذی مزاح پر فرض ہے۔

ایک دفعہ ہمیں چار روز کے لئے ایک ورکشاپ میں اسلام آباد جانا تھا۔ فلائٹ شام کی تھی۔ دوپہر میں خالد صاحب کے گیٹ کے سامنے سے دن دھاڑے آفس کی کار چرالی گئی۔  خالد صاحب نے مجھے کال کر کے بتایا کہ چلیں تھانہ میں رپورٹ درج کر آئیں۔تھانہ گئے ۔ گاڑی چوری کا بتایا پھر مکان نمبر بتایا تو محرر ہنسے جائے ۔ہم حیران کیا ماجرا ہے ؟ اس نے بتایا کہ آج تو کمال ہی ہوگیا جو گاڑی چوری کی دفعہ ہے وہی مکان کا نمبر ہے۔ یہ کہہ کر وہ پھر ہنسا اور باقی رپورٹ لکھی۔

لانڈہی انڈسٹریل میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کر رہے تھے۔ شام کو مغرب کے بعد نکلے ۔کار کی لائٹ خراب تھی۔ سارجنٹ نے روکا اور مک مکا کر لیا۔ دوسرے دن سورج غروب ہونے پہلے نکلے پھر سارجنٹ نے روک لیا۔ خالد صاحب نے کہا "اب کیا ہوا ؟ " سارجنٹ نے کہا کہ لائٹس چیک کرائیں۔ خالد صاحب نے کہا ابھی اندھیرا کہاں ہوا ہے ؟ سارجنٹ نے کہا ابھی نہیں ، آگے تو ہو جائے گا۔اس لئے ابھی لائٹس چیک کرائیں۔ خالد صاحب نے لائٹس ٹھیک نہیں کرائیں تھیں پھر مک مکا کرنا پڑا۔

خالد صاحب اس ریا کار معاشرے میں سادگی کی زندہ مثال ہیں۔ میں ان سے اکثر کہتا ہوں " آپ دنیا میں دیر سے آئے ، مغلوں کے زمانے میں انگرکھا اور تنگ موری کا پائجامہ پہنتے تو چل جاتے " تو ہنستے ہیں ۔ شادی ہوئی ، اہلیہ کو پہلی مرتبہ لے کر نکل رہے تھے۔ گاڑی گھر سے باہر نکال رہے تھے کہ گلی میں آتی ایک گاڑی سے ٹکر ہوگئی ۔ جن کی گاڑی لگی ۔ انہوں نے رولا پا دیا ۔ بڑا سمجھایا وہ نہ مانے ، لگے بحث مباحثہ کرنے۔ غلطی خالد صاحب کی تھی۔ اسے کونے میں لے گئے۔ بتایا کہ ابھی شادی ہوئی ۔آج ہی پہلی بار اہلیہ کے ساتھ نکلا ہو۔ بعد میں معاملہ رفع دفع کرلیں گے ،سمجھ رہے ہیں ۔ وہ صاحب قہقہہ مار کر ہنسے اور بولے "جائیں "۔

ایک میٹنگ گوروں کے ساتھ  تھی۔ لنچ پر خالد صاحب میرے ساتھ کمرے میں آئے ، کتاب کھولی ،پورا پیراگراف پڑھا تاکہ لنچ کے بعد میٹنگ میں سنا سکیں لیکن یہ کیا ہوا ؟ ان سے پہلے وہ سب میں نے سنا دیا ۔تالیاں بج گئیں۔خالد صاحب غصہ اور حیرت میں مجھے دیکھتے رہے۔ ایک مرتبہ جب ایک سیاسی جماعت ہماری کلائنٹ تھی۔ ان کے تمام سرکردہ لوگ آئے ہوئے تھے۔ میں پریزیٹینشن  دے رہا تھا۔ میں نے ایک لائن اپنی مخصوص و پر سوز آواز  میں پڑھی "وہ دیکھ ہو گئی سحر" اور کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ سب کھڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔ ہم دونوں ساتھ واپس آرہے تھے۔کہنے لگے " کیا آپ یہ سب کچھ دل سے پڑھتے ہیں ؟"۔ میں نے مسکرا کر کہا "چھوڑیں خالد صاحب"۔ میری طرف دیکھنے لگے۔اسی دوران ایک گدھا گاڑی والا سامنے آگیا۔ میں نے گھبرا کر اور کسی قدر اونچی آواز میں کہا " خالد صاحب ، ذرا دیکھ کر "۔خالد صاحب چڑ گئے۔انہیں لگا کہ مجھے ان کی ڈرائیونگ پر اعتبار نہیں ،بولے "کیا آپ مجھے احمق سمجھتے ہیں "۔ میں نے بھی عجب ذو معنی انداز سے کہا " کبھی کہا ؟ "۔ بے ساختہ مسکرا کر رہ گئے۔ اب یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ صرف میں ہی میں ہوں۔ کبھی کبھی وہ میری ایسی  لوجیکل کلاس لیتے ہیں کہ میرے چودہ طبق روشن کردیتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ میں ان کی ایسی تمام کلاسیں بہت مودب اسٹوڈینٹ کی طرح اٹینڈ کرتا ہوں اور کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔آدمی ذھین ہیں بس ہیں بہت سادہ ، یہ ان کا جرم ہے اور یہ معاشرہ کسی طور ان کا یہ جرم معاف کرنے کو تیار نہیں۔

خالد نسیم کو ایک عجیب سا وہم ہے کہ وہ بے ہوش ہو جائیں گے اور لوگ انہیں سپرد زمین کردیں گے۔ مجھ سے اپنے اس وہم کا ذکر کیا تو میں نے آسان حل بتا دیا۔ ہم آپ کے منہ میں ایک پائپ لگا دیں گے تاکہ آپ کو سانس آتی رہے ۔دوسرے ایک موبائل فون ساتھ رکھ دیں گے ۔ ہوش میں آئیں تو کال کرلیں۔ خالد نسیم ہر لحاظ سے پسندیدہ شخصیت ہیں حتی کہ ڈاکووں کی بھی۔ ایک دفعہ رات کے وقت مین یونیورسٹی روڈ پر ایک سناٹے کی جگہ پر لوٹے گئے۔ کچھ دن بعد پھر اسی جگہ یہی واقعہ ہوا مگر اس بار اہل خانہ ساتھ تھے۔ لوٹنے والا بھی اکیلا  70 سی سی موٹر سائیکل پر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق دیکھیں جب دو بار لوٹنے کی روداد سنا رہے تھے تو سامنے سے وہی شخص اپنی موٹر سائیکل پر گذرا۔ بولے "ارے دیکھیں یہ تو وہی شخص ہے "۔میں نے کہا "دن کا وقت ہے۔ گاڑی تیز چلائیں ، دیکھوں تو کون ہے۔" میرا یہ کہنا تھا گاڑی slow کردی۔ بولے "نہیں یار وہ مجھے پہچان لے گا "۔ یہ ہیں میرے خالد نسیم ۔کوئی دوسرا ہو تو لائیں۔ زمانہ سے ایک ہی بات کہتے ہیں۔

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں

(مناسب سمجھیں تو یہ اور میرے دیگر آرٹیکلز شیئر کریں۔ Azhar Hussain Azmi facebook page وزٹ کریں۔)

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...