Monday 8 April 2019

Hamari hazir jawabi aur mulazmat ki hathon hath paishkash


Article # 14


ہماری حاضر جوابی اور ملازمت کی ہاتھوں ہاتھ پیشکش

تحریر:  اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)



والد مرحوم کوثر سلطان پوری بتاتے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان بھارت میں ہی رہا لیکن گاندھی کے قتل کے بعد ہمارے خاندان کو ان کے آبائئ قصبہ میں جائے اماں نہ ملی۔ سو رات کے اندھیرے میں ایک ہندو ڈاکٹر نے اپنے گھر کے تہہ خانے میں پناہ دی اور علی الصبح اسٹیشن پہنچ کر عازم پاکستان ہوئے۔ کراچی میں لائنز ایریا پہلا مسکن ٹھہرا کیونکہ مہاجرین کی اکثریت پہلے یہیں آیا کرتی تھی۔ اس کے بعد پھر کہیں اور منتقل ہوتی۔
کراچی آئے تو بے سر و سامانی کا عالم تھا۔ گھرکے افراد نے ملازمت کی نہیں تھی لیکن اب خانداں غلاماں (یعنی ملازمت کرنے والے) میں شامل ہو چکے تھے۔
یہ تو ہوا ابتدائیہ ۔ خانداں غلاماں میں شامل ہو چکے تھے اس لئے سب لگ گئے چھوٹی موٹی ملازمتوں پر گو کہ بعد میں خانداں کے لوگوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی بھی کی۔ ملازمت کے حصول کے لئے ہمارا قصہ بڑا دلچسپ اور تلخ رہا۔ B.Sc کرنے کے بعد صبح شام والد اور چھوٹے چاچا کی جانب سے ہماری کلاس کا اہتمام ہوتا اور یہی کہا جاتا کہ ان کی عمر کے سب لڑکے ملازمت کر رہے ہیں اور صاحبزادے ہیں کہ گھر میں بیٹھے ہیں۔ ہمارا یہ تھا کہ کلرکی کرنی نہیں تھی اور معقول ملازمت مل نہیں رہی تھی۔
کسی نے کہا گھر میں عورتوں کو بلا کر سورہ مزمل پڑھو ۔ غیب سے ملازمت کا انتظام ہو جائے گا۔ امی ہماری روز روز کی کلاس سے تنگ آگئیں تھیں۔ سو بھیا انہوں نے محلے کی عورتوں کو بلا کرفوری طور پر سورہ مزمل شروع کردی۔ ہم بھی عجیب اذیت میں تھے۔ دو چھتی پر جا کر روز ہی اللہ سے گلے شکوے ہوتے۔ اس زمانے میں ہم نے بڑا تاریخی جملہ کہا تھا " جوان لڑکی کا رشتہ نہ آنا اور جوان لڑکے کو ملازمت نہ ملنا برابر کے دکھ ہیں "۔
قصہ مختصر ہمیں ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں جاب مل گئئ مگر طبیعت شروع سے سیلانی رہی ہے اس لئے اس ایجنسی سے دل جلد ہی بھر گیا ۔سوچا بڑی ایجنسی میں جائیں گے تو نام بھی ہوگا اور دام بھی اچھے ملیں گے۔ بڑی تگ و دو کے بعد ایک ریفرینس نکال کر ایک بڑی ایجنسی میں انٹرویو کے لئے صبح 9 بجے بلا ہی لیا گیا۔ ہماری ظاہری صورت حال یہ کہ 6 فٹ سے نکلتا قد اور جسم پر گوشت کی قلیل مقدار اور اس پر چہرے پر 120 گز میں رہنے والوں کی چھاپ۔ شیو کرنے کے ہم شروع سے چور ۔اب آپ خود سمجھ لیں ۔ہم کیسے لگتے ہوں گے؟ (ویسے صورت حال آج بھی بہت زیادہ مختلف نہیں)۔ اب یہ بھی مت سمجھ لیجے گا کہ ہم باکل ہی ناکارہ تھے۔ اس زمانے میں ہم حاضری جواب بلکہ صحیح بتاوں مسخرے زیادہ تھے۔
صبح سویرے سب سے اچھی پینٹ شرٹ نکالی۔ ایک دو دن کا شیو تھا ۔ پہنچ گئے انٹرویو دینے ٹھیک 9 بجے۔ اوقات ہی کیا تھی ؟ کاپی رائٹر ۔۔۔۔ تجربہ ، چند ماہ وہ بھی چھوٹی سی ایجنسی کا۔ صبح 9 بجے کے بیٹھے بیٹھے دوپہر ایک بجے کہا گیا کہ اپ آپ MD کے پاس انٹرویو کے لئے چلے جائیں۔ ہم عجیب گھبراہٹ اور پیٹ میں ہلکی ہلکی گڑ گڑ کے ساتھ MD صاحب کے کمرے کے باہر پہنچے۔ دروازہ Knock کیا۔ ?May I come sir کا روایتی جملہ بولا ۔اللہ جانے آواز اندر گئئ یا گلے میں ہی پھنسی رہ گئئ۔ جواب میں اندر سے بھاری بھرکم آواز آئئ۔ Come in. ہم نے دروازہ کھولا تو کمرہ AC کی وجہ سے یخ بستہ تھا۔ہم پہلے سے ٹھنڈے تھے کہ پتہ نہیں کیا سوال جواب ہو جائیں۔
کمرہ کیا تھا ؟ 60 گز کا گھر تھا بڑے بڑے ہردے۔ بڑی سے میز کہ سامنے والے سے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بھی نہ پہنچے۔ MD صاحب نے نہ تو ہم سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی بیٹھنے کو کہا۔ ایک نظر اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پوچھا "آپ انٹرویو کے لئے آئے ہیں؟" میں نے کہا "جی"۔MD صاحب نے ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائئ اور گویا ہوئے " انٹرویو کے لئے آئے ہیں بغیر شیو کئے۔"پتہ نہیں حاضری جوابی کی صلاحیت اس حالت میں کہاں سے عود کر بلکہ میرا خیال ہے کودکر آ گئ۔ میں نے بغیر کسی وقفہ کے جواب دیا "سر صبح 9 بجے میں شیو کر کے ہی آیا تھا"۔یہ جملہ سننا تھا کہ MD صاحب نے زور کا قہقہہ مارا۔انہیں معلوم تھا کہ میں 9 بجے سے انٹرویو کے لئے موجود تھا۔ اب سارا منظر نامہ تبدیل ہوچکا تھا۔ ہاتھ ملایا۔ کرسی پر بٹھایا۔ لہجہ قریب قریب دوستانہ تھا۔ بولے میں نے بہت انٹرویو کئے ہیں مگر اتنا برجستہ جواب وہ بھی تم جیسے New Comer سے نہیں سنا۔ Creative افراد کو ایسا ہی ہونا چاہیئے۔
وہ بھی ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پوچھنے لگے کہاں کے رہنے والے ہو ۔ میں نے کہا والد آگرہ کے پاس ایک قصبہ کے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنا بتایا کہ وہ کہاں کے ہیں۔
اپنے سکریٹری کو انٹرکام کر کے بلایا اور میں بغیر کسی ڈگری اور Experience Certificate طلب کئے۔ آدھے گھنٹے میں کریٹیو ڈیپارٹمنٹ کی ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ ملازمت کا انتظام ایک جملہ پر ہو چکا تھا۔ یہ الگ بات کہ میں نے اس وقت یہ ملازمت نہیں کی اور ایک دو گھنٹے بعد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ یہ قصہ پھر کبھی اور سہی۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...