Monday 30 September 2019

قصہ ایک سیاسی پوسٹر کا جس نے ہمیں "شہر بدر" کردیا۔ آرٹیکل نمبر 40



Article # 40



قصہ ایک سیاسی پوسٹر کا 

جس نے ہمیں ’’شہر بدر‘‘ کر دیا



 اظہر عزمی

ایک اشتہاری کی باتیں


ہمارے کالج کے دن تھے اور دن رات ملک میں جنرل ضیا الحق کی حکمرانی تھی۔ سیاست پر پابندی اور “میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند” والے سیاست دان اور ورکرز پابند سلاسل تھے۔ پیپلز پارٹی حکومت کی خاص “مصلوب نظر ” تھی۔ ملک میں جو اصل جیالے تھے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ باقی خاموش تھے یا اندرون خانہ جنرل ضیا کے پیچھے تھے۔ ان میں کچھ اپنی حلف برداری کی شیروانیاں سلوانے کے لئے درزی ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ یہ درزی اقتدار کی غلام گردشوں میں ہر دور میں پائے جاتے ہیں۔
ابتلا کے اس دور میں بھٹو کے اصل جیالے جانوں کی پروا کئے بغیر حکومت کے سامنے سینہ سپر تھے۔ ان میں ایک نام کراچی کے مسرور احسن کا تھا۔ ہماری ان سے واقفیت تو دور کی بات کبھی دور کی سلام دعا بھی نہ رہی البتہ ان کے ایک رفیق اور پارٹی ورکر اسد نقوی ہمارے چھوٹے بھائی وجاہت عباس (بزمی) کے قریبی دوست تھے۔ اسد کو ہم بچپن سے دیکھ رہے تھے۔ سیدھا سادا لڑکا، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اسے سیاست آ لپٹے گی۔
مسرور احسن جیل چلے گئے۔ اسد ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مسرور بھائی کی رہائی کے لئے ایک پوسٹر لکھنا ہے۔ خیال رہے کہ ابھی ہم خود کالج میں پڑھ رہے ہیں۔ ۔ سیاست کا ہمیں بچپن سے شوق تھا مگر سیاست دانوں سے قربت یا سیاست میں عملی طور پر حصہ کبھی نہیں لیا۔ اسد نے کہا اور ہم نے پوسٹر لکھ دیا۔ ہمارا خیال تھا کہ اسد کا یہ جذباتی رویہ ہے جو کہ وقتی ہے اور نہ ہی پوسٹر نے چھپنا ہے۔ پوسٹر کے لئے پہلے رہا کرو کا روایتی نعرہ لکھا اور اس کے بعد دو شعر داغ دیئے جو اللہ جانے کس کے تھے:
جذبات کے اظہار پہ پہرے نہ بٹھاو
خاموش رہو گے تو گھٹن اور پڑھے گی
گو منزل مقصود ابھی دور ہے لیکن
رک جائے مسافر تو تھکن اور بڑھے گی
ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ یہ پوسٹر دیواروں پر چسپاں ہو چکا ہے۔ ہم تو ڈر گئے کہ یہ کیا ہوگیا ؟ والد صاحب کے علم میں اگر ہماری یہ کارروائی آگئی تو پہلے “چھترول” یہیں ہوجائے گی۔ وہ تو خیر جو ہونی تھی سو ہونی تھی (یہ بات کبھی والد صاحب کے علم میں ہی نہیں آئی)۔ اصل جان یہ نکلی جارہی تھی کہ اگر پوسٹر کی چھان بین ہوئی تو صاحب السطور کا نام بھی آئے گا۔ ہم کوئی حبیب جالب تو نہ تھے جو کہہ اٹھتے:
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
سوچا کیا کریں؟ پہلے اپنے آپ کو خوب ہی برا بھلا کہا کہ ضرورت کیا تھی یہ سب کرنے کی۔ محلے میں تعزیتی اشتہارات لکھ کر اپنا شوق پورا کر لیا کرو۔ علاقہ میں مختلف تنظیموں کے مجلے چھپتے رہتے ہیں وہاں اپنے فن کے جوہر دکھا دیا کرو۔ اتنا ڈرتے ہو تو پھر یہ سب لکھتے کیوں ہو۔ بڑا دماغ لڑایا۔ دوستوں نے بھی مشورہ دیا کہ کارزار سیاست کی تم دھوپ بھی نہیں سہہ سکتے چے جائیکہ کہ قید و بند۔ جن سے مشورہ لیا وہ ہم سے چار ہاتھ زیادہ ڈرپوک نکلے۔
ذہن میں میں آیا کہ خیر چاھتے ہو تو خیرپور چلو۔ والدہ کو کہا کہ بہت دنوں سے ماموں سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے۔ والدہ خوش ہوگئیں کہ پہلی دفعہ بھانجے کو ماموں کی یاد ستائی اور یوں ہمیں خیرپور میرس جانے کے لئے کرایہ و دیگر اخراجات کی مد میں چند روپے دے دیئے گئے۔ اب ہماری منزل مقصود ہمارے ماموں کا گھر خیرپور میرس تھا۔

کچھ دن وہاں رہے لیکن چھوٹے شہر میں تو دن کاٹے نہیں کٹتا۔ طبیعت بھر گئی۔ کراچی کا خیرپور میرس سے کوئی موازنہ ہی نہیں گو کہ یہاں کہ لوگ بہت مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔ ماموں کا گھر شہر کے بیچوں بیچ شاھئ بازار میں تھا۔ دو قدم بھرے اور شہر کے مرکز اور سب سے با رونق مقام پنج گلہ پہنچ گئے۔ بس یہی وجہ ہے کہ چھوٹے شہروں میں کوئی فاصلہ فاصلہ ہی نہیں ہوتا اسی لئے وقت رکا رہتا ہے۔ کراچی میں ہوں اور ایک چکر ٹاور کا بس میں لگا لیں۔ پھر دیکھیں وقت کیسے پر لگا کر اڑتا ہے اور آپ کہیں آنے جانے کے قابل نہیں رہتے۔
چلیں واپس چلتے ہیں اپنے مسئلے کی طرف، کراچی سے باہر نکلے تو ڈر کم ہوا اور یہ احساس ہوا کہ جتنا ڈر رہے ہیں۔ اس ڈر کے ساتھ کراچی میں بہ حفاظت رہ سکتے ہیں۔ اب خیرپور کاٹنے کو دوڑنے لگا۔ ہم پندرہ دن رہنے کے لئے گئے تھے جب ہم نے پانچویں دن صبح ناشتے پر رات سکھر ایکسپریس سے واپس کراچی جانے کا مژدہ سنایا تو ماموں ممانی منہ دیکھتے رہ گئے۔ ماموں کم گو تھے۔ بس اتنا ہی بولے:
’’کچھ دن اور رک جاتے تو اچھا تھا‘‘
ممانی بولیں:
’’اے بھیا، ہم نے تو سنا تھا ماموں کی محبت میں تڑپے جا رہے تھے۔ یہ پانچواں سورج کیا چڑھا۔ ماموں کی ساری محبت دھری کی دھری رہ گئی۔‘‘
اب کسی جذباتی تقریر کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ رات افضال رکشہ والے کے ساتھ اسٹیشن آئے اور اگلی صبح کراچی پہنچ کر اپنی خود ساختہ “شہر بدری” کے خاتمے کا اعلان کردیا۔

Friday 20 September 2019

ہم سب ثی بیگ ہی تو ہیں ۔ آرٹیکل نمبر 39

Article # 39



ہم سب ٹی بیگ ہی تو ہیں۔
تلخ تجربات ، مشکل حالات آپ کو بنا دیتے ہیں ۔

تحریر : اظہر عزمی 
(ایک اشتہاری کی باتیں)




کچھ عرصہ سے مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی ٹی بیگ والی چائے کا رواج چل پڑا ہے جسے عرف عام میں لوگ تعویز والی چائے بھی کہتے ہیں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا توٹبیگ والی چائے میرے سامنے رکھ دی گئی ۔ میے ٹی بیگ سے رنگ ،خوشبو اور ذائقہ کشید کرنے کے لئے اسے بار بار  گرم پانی میں ذبکیاں دینے لگا ۔ اس کا رنگ کھلتا چلا گیا اور خوشبو نے بھی اپنا رنگ جما دیا ۔ پہلے ہی گھونٹ میں ذائقہ بھی بہتر لگا ۔  ایک دم خیال آیا کہ ہم سب بھی تو ٹی بیگ ہی ہیں ۔ انگریزی میں Hot Water سے مراد مشکل حالات ہوتے ہیں ۔ اگر آپ  اردو میں اسی معنی کے ساتھ بات سمجھیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب تک آپ مشکل حالات کا سامنا نہیں کریں گے آپ خود کو پرکھ نہیں پائیں گے۔ اپنے آپ کو دریافت نہیں کر پائیں گے ۔ 

بات تو دل کو لگی مگر پھر ذہن میں آیا کہ میرے اپنے پاس اس کے لئے کوئی حوالہ بھی ہے ۔ ذہن کو ٹٹولا۔ تو پھر وہی 1988 نکل کر سامنے آگیا ۔ پھر میں سوچنے لگا کہ اس سال نے میرے سوچ کے زاوئیے بدل دیئے ۔ زندگی کو بند گلی سے نکال کر عملیت پسندی کی شاہراہ کا مسافر بنا دیا۔ جذباتیت کی جگہ عملیت نے لے لی۔ عزت کے نام پر قائم نام نہاد خیالات  اپنی موت آپ مرنے لگے ۔ پھر اور بھی بہت کچھ سمجھ میں آنے لگا ۔ منافقت اور مصلحت ، سیاست اور حکمت ، قناعت اور کاہلی ، انا اور عزت نفس کے درمیان کا بال برابر کا فرق  شعور کے Magnifying Glass لگا کر بہت بڑا لگنے لگا۔

 آئیے ! ٹی بیگ کے حوالے کے لئے چلتے ہیں ایک ہفتے چلنے والی اپنی پہلی ملازمت کے بعد اپنی دوسری جائے ملازمت پر ۔ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ اس ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا سب سے بڑا کلائنٹ چلا گیا ۔ اب پتہ نہیں یہ ہمارے نیک قدموں کا کیا دھرا تھا یا ایجنسی کا برا وقت ہی شروع ہوچکا تھا۔ایک بڑے کلائنٹ پر چلنے والی ایجنسیز ایک دم ہی نیچے آتی ہیں ۔ کاسٹ کٹنگ کی باتیں شروع ہوتی ہیں ۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مشورہ وہ ملازمین دیتے ہیں کہ جو بڑی بڑی تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں ۔ چھری چلتی ہے تو کم تنخواہ والے نئے ملازمین یا نچلے درجے کے اسٹاف پر  جو کئی سالوں سے کم آمدن پر گھر کا راشن پورا کر رہے ہوتے ہیں ۔

دلچسپ بات یہ رہی کہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہم یہاں پہلے نمبر پر آگئے۔ تذلیل کا سنہرا موقع ہاتھ دکھانے کو تیار تھا ۔ مسئلہ یہ رہا کہ جو صاحب لائے تھے ان کی وجہ سے براہ راست تو کچھ نہ کہا گیا لیکن اوچھے ہتھکنڈے کا استعمال کیا گیا  یعنی کہ ہمیں گرمیوں کی تپتی دوپہر میں ٹین والی چھت کے استقبالیہ (ریسیپشن) پر  ریسیشنسٹ کم ٹیلی فون آپریٹر کی جگہ پر بیٹھنے کا کہہ دیا گیا گو کہ اس کام کے لئے پہلے سے خاتون  موجود تھیں  ۔ اب اللہ جانے اس خاتون کو حالات کا اندازہ ہوگیا تھا ۔اس نے تنخواہ لی اور پھر آفس کا منہ نہ دیکھا اور ہمیں اس عہدہ جلیلہ پر ہونق افروز کر دیا گیا ۔ مانا کہ ہم شعبہ تخلیق میں نووارد تھے مگر اس تکلیف کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ تخلیق کاری میں ہمارے لیے یہ تخریب کاری چھپی ہو گی کبھی نہ سوچا تھا ۔ سوچتے بھی کیسے ؟ ہمیں تو تخلیق میں سوچ کے نئے دروازے وا کرنے کے لئے رکھا گیا تھا ۔

اب تک تو لکھتے ہوئے مجھے بھی لطف آرہا ہے ۔ قلم اپنا ہی مذاق اڑاتے ہوئے بہت چہچہا رہا ہے لیکن اس کے بعد اذیت ، شرمندگی ، خجالت اور نہ جانے کون کون سے لفظوں نے دماغ کو ماوف کرنا شروع کردیا ۔ 8 گھنٹے کی ملازمت کیا تھی کوئے ملامت تھی ۔ اب افتخار عارف کا مصرعہ یاد آرہا ہے۔

رزق واجب ہے یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے

ہم محفل گریز ، تنہائی پسند اور اکھڑ پیدائشی ہیں اس لئے اس کام کے لئے  انتہائی ناموزوں تھے۔ آفس کے لوگ آتے جاتے عجیب نظروں سے دیکھتے تو خود سے بڑی شرمندگی ہوتی ۔ وزیٹرز کا آنا زہر لگتا ۔ بھائی جب ایجنسی میں کام نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے تو آتے کیوں ہو ؟ مگر ہماری سنتا کون؟

میں دو تین دن میں ہی  اس صورت حال سے بہت کبیدہ خاطر ہو گیا ۔ ہمت جواب دینے لگی۔  ایک دن مصمم ارادہ کیا کہ بس آج آخری دن ہے ۔کل سے پھر گھر گھسنے ہوجائیں گے۔ میرے پاس ملازمت چھوڑنے کی بہت واضح وجہ موجود تھی ۔ گھر والوں کو بتاتا اور اپنی اور اپنے خاندان کی اعلی نسبی کا رونا روتا تو والدین کہتے کہ کل سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔یہ تو سیدھی سیدھی بے عزتی ہے ۔ سب کچھ میری موافقت میں تھا لیکن پھر ذہن نے پلٹ کھایا۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ جب میں نے حالات اور مستقبل کا دور رس جائزہ لیا اور یہ طے کیا کہ یہاں سے بھاگ جانا اس وقت فرار پسندی سے زیادہ کچھ نہیں ۔اگر میں آج بھاگ گیا تو زندگی بھر نامساعد حالات دیکھنے ہی راہ فرار اختیار کروں گا ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے زندگی بھر کے لئے تو ریسپشن کی سیٹ پر نہیں بٹھایا گیا ۔ یہ صورت حال وقتی ہے مگر یہی کل وقتی تجربہ بھی دے رہی ہے جو زندگی میں میرے بہت کام آئے گا ۔ اب میں اسی سیٹ پر ایک بالکل بدلا ہوا انسان تھا۔

میں نے طے کر لیا تھا کہ اس سیٹ پر نئی ملازمت تلاش کرنا آسان رہے گا ۔ اس زمانے میں (1988) میں ٹیلی فون ہی سب کچھ تھا ۔ کون تھا مجھے روکنے والا  اب میں  فارغ وقت میں ٹیلی فون ڈائریکٹری  میں سے مختلف ایڈورٹائزنگ ایجنسیز میں بے دھڑک فون ملا دیا کرتا اور وہاں  ملازمت سے متعلق پوچھتا ۔موقع ملتا تو وہاں کے کریٹیو ڈیپارٹمنٹ میں بھی کسی سے بات کر لیا کرتا ۔ ملازمت ملے نہ ملے مگر ان کے ذہن میں کہیں نہ کہیں میرا نام پڑا رہ جاتا ۔فریڈرک صاحب سے بھی رابطہ اسی طرح ہوا تھا۔ انڈسٹری میں کافی افراد ایسے ہیں جن سے بعد میں میری بہت اچھی رفاقت رہی اور آج بھی ہے لیکن انہیں یہ پتہ نہیں کہ میری ان سے پہلے بات ٹیلی فون پر ہوئی جب میں ملازمت کی تلاش میں تھا ۔ 

خیر ایک دن ندیم فاروق پراچہ کو  فون ملا دیا ۔ اس کہا کہ تم نے بڑے موقع سے فون کیا ۔ ہمارے ہاں جگہ خالی ہے ۔ کل سیکنڈ ہاف میں آباد ۔میں تمہارا انٹرویو کرا دیتا ہوں ۔ اندھا کیا چائے دو آنکھیں ۔ہم دوسرے دن وہاں پہنچے ، انٹرویو ہوا اور اسی وقت چھ سو روپے اوپر ملازمت کی پیشکش کر دی گئی مگر شرط یہ رکھی گئی کہ فورا آنا ہے ۔

انکار کی گنجائش کہاں سے ہوتی ۔پہلی والی ایجنسی میں تو ہمارے بیٹھنے کی جگہ نہیں بن رہی تھی ۔ انٹرویو 14 تاریخ کو ہوا اور 15 سے ہم نے نئی ایجنسی جوان کر لی ۔ پرانی ایجنسی سے 14 دن کی تنخواہ لینے بھی نہیں گئے ۔ نہ انہوں نے پلٹ کر پوچھا اور نہ ہی ہم نے کبھی کوئی رابطہ کیا ۔ 

اگر میں حالات کے زیر اثر آکر فرار اختیار کرتا تو ممکن ہے یہ سب نہ لکھ رہا ہوتا ۔ واقعی ہم سب ٹی بیگ ہیں جنہیں ایک نہ ایک دن زندگی کے گرم پانی میں ٹی بیگ کی طرح اتر کر ڈبکیاں کھانی ہوتی ہیں ۔ میرا ذاتی تجربہ یہی ہے کہ جو شخص زندگی میں برا وقت نہیں دیکھتا وہ اچھا وقت بھی نہیں دیکھتے ۔زندگی بس روٹین میں ہی چلتی رہتی ہے۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...