Wednesday 16 October 2019

بڑا بھائی ۔۔۔ کچھ دکھ اس کے بھی ہیں ۔ آرٹیکل # 43


Article # 43


بڑا بھائی ۔۔۔ کچھ دکھ اس کے بھی ہیں


دیکھیں کہیں یہ آپ ہی تو نہیں

اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)
پہلے کم کم ملتا تھا۔ اب بار بار ملنے لگا ہے۔ کبھی دوستوں میں کھڑا باتیں کر رہا ہوتا ہے۔ مجھے دور سے آتا دیکھتا ہے تو خاموش ہو جاتا ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ میں اسے نہ دیکھوں۔ یہ اس کا حق ہے دوستوں سے ملے، ہنسی مذاق کرے۔ میں جانتا ہوں وہ ڈرتا ہے کہیں اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو میں اس کے والد سے کہہ دوں۔ اصل میں اس کے والد نے مجھ سے کہہ رکھا ہے کہ میں اس پر نظر رکھوں۔اب اسے یہ کون بتائے کہ میں اس پر پولیس والی تفتیشی نظر تھوڑی رکھتا ہوں۔ کبھی گھر کا سودا سلف لارہا ہوتا ہے تو نظروں ہی نظروں میں مودبانہ سلام کرتا ہے۔
ایک دن صبح آفس جاتے ہوئے بس اسٹاپ پر مل گیا۔ اسکول یونیفارم پہنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ اس نے آج اسکول کی چھٹی کر لی۔ دل چاھا ایک تھپڑ رسید کردوں۔ میں نے پوچھا تو بولا “دیر سے آنکھ کھلی۔ ساری بسیں بھری ہوئی آرہی تھیں۔ گیٹ پر لٹکنے کی بھی جگہ نہ تھی۔میں غصہ میں تھا،بولا:
جب دیر سے اٹھو گے تو یہی ہوگا؟
کہنے لگا : رات چھوٹے بھائی کو بخار تھا۔ میں بھی جاگتا رہا۔یہ کہہ کر وہ گھر کی جانب چل دیا۔
میں چاھتا ہوں کہ وہ مجھے نظر نہ آئے۔ کبھی غصہ آتا ہے تو کبھی بہت جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔ اس کی سنے بغیر خوب ہی سناتا ہوں۔ سوچتا ہوں ہر وقت کی ڈانٹ پھٹکار اچھی بات نہیں۔ کسی دن اس نے جواب دے دیا تو کیا عزت رہ جائے گی؟ مگر نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ وہ بدتمیزی نہیں کرے گا۔
گذری عید میں بھی دیر سے مسجد پہنچا۔ وہ مجھے مسجد کے باہر کھڑا نظر آگیا۔ اندر نمازِ عید ہو رہی تھی۔ مجھ سے نہ رہا گیا:
شرم کرو، عید کی نماز پڑھنے میں بھی جان جا رہی ہے کیا؟
کچھ دیر نظریں جھکائے خاموش کھڑا رہاپھر بولا: پاپا کو مت بتا دیجئے گا۔غصہ ہوں گے۔

ایک دن اس کی والدہ کے پاس گیا تو بولیں:
میں نے کہاکہ ہاں تم عید کی نمازنہ پڑھو اور وہ کچھ بھی نہ کہیں۔ بتانے لگا کہ وہ میرا کرتا چھوٹا تھا۔ صبح پہنا تو پتہ چلا۔ میں بھی تلا بیٹھا تھا “تمہاری کاہلی کی عادت جائے گی نہیں؟”۔ ایک دن امتحان کے دنوں میں ملا، گھبرایا لگا، بولا کہ کل انگلش کا پیپر ہے، پڑھا دیں گے۔ اب جو میں لے کر بیٹھا تو اسے تو Tenses تک نہ آتے تھے۔ Essay اور Active Passive تو بہت دور کی بات ہے۔جب میں نے اس کی کلاس لی تو بولا “اتنا تو کردیں کہ پاس ہو جائوں”۔ وہ اوسط درجے کا ذہین ہے مگر گھبرایا گھبرایا رہتا ہے۔ احساسَ کمتری کا شکار لگتا ہے۔دیکھنے میں بھی ذرا عجیب سا ہے۔ قد لمبا ہے اوراس پر دُبلا بھی ہے۔بولتا بھی تیز تیز ہے۔لوگ شارٹ ہینڈ میں لکھتے ہیں۔یہ شارٹ ہینڈ میں بولتا ہے۔
ذرا اسے سمجھائو۔ ہر وقت گھر میں چھوٹے بھائیوں سے ہنسی مذاق کرتا رہتا ہے۔ بڑا بھائی ہے، باپ کی جگہ ہے۔
میں اُن کی بات سن کر تو آگیا مگر سوچنے لگا کیا سمجھائوں اس کو۔ ابھی تو وہ خود اتنا چھوٹا ہے۔ باپ کی جگہ والی بات کہوں گا تو کہے گاـ:
کیا ہو گیا آپ کو۔۔۔ابھی سے میں پاپا کے برابر کہاں سے ہوگیا؟
اب میں اسے کیا بتائوں کہ ہمارے معاشرے میں پہلا بیٹا پیدا ہی باپ جتنا ہوتا ہے اور پھر ساری زندگی اسی میں گذار دیتا ہے۔بچپن میں ہی بزرگی کی چادر پہنا کر بچپن چھین لیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس کے لئے اس نے کوئی محنت نہیں کی ہوتی ہے۔پیدا ہوتے ہی یہ اعزاز اس کی گردن میں ڈال دیا جاتا ہے جو وہ چاھے بھی تو نہیں اتار سکتا۔ باپ کی یہ وراثت مرتے دم تک اس سے کوئی نہیں چھین سکتا اور نہ ہی کوئی اس کا دعویٰ دار سامنے آتا ہے۔ہر قربانی کے جواب میں صرف ایک جملہ سنائی دیتا ہے”تو کیا ہوا۔بڑا بھائی ہے۔ باپ کی جگہ ہے، کوئی احسان تھوڑی کیا ہے؟”۔ بچپن میں بھی اس کی اپنی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ چھوٹوں کا حق اس کی ہر چیز پر ہوتا ہے۔جب اسے دنیا سے اپنا حق لینے کی تربیت دینی چاہیئے۔ ہم اسے قربانی کے نام پر پیچھے ہٹنے کا عظیم درس دے رہے ہوتے ہیں۔ آپ اس کچے ذہن سے بنیادی طور پر آگے بڑھنے کی طلب بھی تو چھین رہے ہیں۔ ہم اسے اپنی خواہشات میں ڈھال کرچھوٹوں کے لئے سیکیورٹی چاھتے ہیں لیکن دوسری جانب ہم ایک انسان کو قربان گاہ میں لے آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آنا تو ہر ایک کی ذمہ داری ہے لیکن کسی ایک کو اس پوسٹ پر “ملازمت” دے دینا کہاں کا انصاف ہے؟
ایک دن وہ مجھے کرکٹ کھیلتے بچوں سے الگ تھلگ بیٹھا ملا، اداس تھا۔ میں خود ہی اس کے پاس چلا گیا۔ مجھے دیکھ کر وہ احترام میں اٹھ جایا کرتا تھا لیکن آج ایسا نہیں ہوا۔ میں نے بھی برا نہیں مانا اور خود ہی بات شروع کردی “امتحان ہونے والے ہیں۔ تیاری نہیں کی ہوگی؟”۔ بولا “اس میں میرا کیا قصور؟”۔ میں نے کہا “سارا قصور تمہارا ہے”۔ اس نے پہلی بار مجھے غصہ سے دیکھا “آپ کو بھی ناں، بس میں ہی نظر آتا ہوں۔ اس میں میری کیا غلطی ہے۔ مجھ سے پوچھتے تو صاف صاف منع کر دیتا”۔ مجھ سے بھی رہا نہ گیا، کہہ دیا”پڑھو گئے نہیں تو بڑے آدمی کیسے بنو گے؟”۔ آج وہ ہر بات کا جواب دینے کو تیار بیٹھا تھا “میں نے کوئی بڑا آدمی نہیں بننا۔ بڑا آدمی بن کر کیا کروں گا؟ سب کہتے ہیں تم پاپا کی جگہ ہو۔ پاپا کا کیا ہے اتنی محنت کرتے ہیں۔ ہم ہیں پھر اس کے بعد ہمارے چاچا ہیں، پھوپھی ہیں۔ سب کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پاپا کے اپنے پاس کیا ہے دو پینٹوں اور شرٹوں کے علاوہ؟”۔ میں نے اسے بتانے کی کوشش کی کہ تمہارے پاپا بہت اچھے ہیں۔ سب کے کام آنے والے انسان ہیں۔ تمھیں ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ نقشِ قدم کا مطلب نہیں سمجھے گا لیکن ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ بولا “چھوڑیں، نقشِ قدم کیا بننے ہیں۔ ایک ہی شوز ہیں ان کے پاس جو نیچے سے دو مرتبہ اتنا گھس چکے ہیں کہ پاپا کی جرابیں پھٹ جاتی ہیں۔ موچی نے بھی کہہ دیا کہ اپنے ابا کو بولو، نیا خرید لے۔ اب یہ لے کر مت آنا”۔ آج تو وہ مجھے حیران کئے جارہا تھا۔ میں نے اسے سمجھانا چاھا مگر وہ میری سننے کے موڈ میں ہی نہ تھا۔ کہنے لگا “آپ گھر میں سب سے بڑے ہوتے تو آپ کو پتہ چلتا۔۔۔ بڑا بھائی ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے”۔
میں خاموشی سے اٹھ کر چلا آیا۔ اب اسے کیا بتاتا کہ میں بھی گھر میں سب سے بڑا ہوں۔

Sunday 13 October 2019

آئیں ! افواہ پھیلانا سیکھیں ۔ آرٹیکل # 42

Article # 42 


آئیں ! افواہ پھیلانا سیکھیں 

تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)



یہ میڈیا کا زمانہ ہے۔ کوئی بات پھیلانا منٹوں کی بات ہے۔ جتنی انسانی تاریخ پرانی ہے ، افواہ کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے ۔ افواہ کا مقصد ،تعین ، تانا بانا ، پھیلانے کا طریقہ کار اور ذرائع کااستعمال ۔افواہ ا نفرادی ہے یا اجتماعی ، ملکی نوعیت کی ہے یا عالمی ۔اس سب کی ایک سائنس ہے۔ 

افواہ عربی کا لفظ ہے ۔یہ عربی میں مذکر اور اردو میں مونث ہے۔ ہم اس کو خواتین سے معذرت کے ساتھ  مونث ہی لے لیتے ہیں۔ ہماری ہاں افواہ اڑائی جاتی ہے ۔ اردو میں اسے ہوائی بھی کہا جاتا ہے۔ شعر عرض ہے :

کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی
یہ ہوائی  کسی  دشمن  نے  اڑائی  ہوگی 

آج کی مہذب دنیا افواہ کو پروپیگنڈا  کا نام بھی دیتی ہے۔ جسے سیاسی جماعتیں اور حکومتیں بھرپور طریقہ سے استعمال کرتی ہیں ۔ عالمی سیاست میں پروپیگنڈا جنگوں سے زیادہ کار گر ہتھیار ہے جس پر بے تحاشا پیسہ لگایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ پروپیگنڈے کے ہتھیار کو سب سے پہلے دوسری جنگ عظیم میں استعمال کیا گیا اور وہیں سے اس کی افادیت اور حاکمیت کا اندازہ ہوا۔

روزمرہ زبان میں اسے بے پر کی اڑانا بھی کہتے ہیں ۔ آپ لاکھ کہیں کہ میں کبھی کسی افواہ ، ہوائی یا بے پر کا حصہ نہیں بنا تو صاحب جس معاشرے میں قیام پذیر ہیں یہاں اگر یہ سب نہ تو زندگی میں مزہ ہی کیا ہے۔ ہمارے ہاں تو لوگ سچ کو چھپانے اور افواہ کو سچ ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ شعور کا نہ ہونا اور وقت کی فراوانی افواہوں کی سب سے زرخیز زمین ہے۔ میں نے بڑے بڑے معقول لوگوں کو افواہ جیسے سستے شغل سے لطف اندوز ہوتے اور اسے یقین سے آگے بڑھاتے دیکھا ہے۔ افواہ سازی اور افواہ فروغی ہمارا قومی مزاج کا حصہ ہے ۔ 

افواہوں سے ہماری  تاریخ کا چہرہ بڑی طرح مسخ ہے۔ کوئی تردید و تصدیق کا پیمانہ نہیں ۔ شخصیت پرستی کے عذاب میں افواہیں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں جس پر ہمارے کج فہم لوگ مرنے مارنے پر تیار ہوتے ہیں ۔ بادشاہوں تو خیر کرائے کے مورخوں سے نہ جانے کیا کیا کچھ لکھواتے رہے ہیں۔  ادب کافی حد تک اس سے محفوظ رہا ہے۔

ادب   کا  مظلوموں  کا  سرمایہ  ہے
اور تاریخ شہنشاہوں نے لکھوائی ہے

افواہ سازی اب ہمارے ملک میں منافع بخش  انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی ہے جس میں زیر زبر پیش کے ساتھ ٹی وی چینلز ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ افواہ ساز بھی ہیں اور اپنے ہروگرامز کی ریٹنگ بڑھانے اور اس سے ٹی وی اشتہارات لینے کے لئے افواہ فروشی ہی کرتے  ییں۔
  
پہلے جب میں میڈیا اس حد طاقتور  نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ تھا ہی نہیں تو یہ افواہیں سینہ بہ سینہ پھیلتیں جو کہ سینہ گزٹ بھی کہلاتیں ۔آئیں میں آپ  کو اپنے لڑکپن کے زمانے میں لے چلتا ہوں جب پہلی مرتبہ مجھے ایک افواہ ساز سے ملنے کا انتخاب ہوا۔  یہ کوئی اور نہیں میرا اسکول کا ہم جماعت تھا۔ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا ۔ ایک دن وہ اور میں مارکیٹ گوشت لینے گئے۔ قصائی کے پاس بہت رش تھا۔ ہم دونوں ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ وہ مجھ سے باتیں کرتے ہوئے بولا:

 بھائی لالو کھیت (لیاقت آباد) میں ہنگامہ شروع ہو چکا ہے۔ پولس شیلنگ کر رہی ہے۔ 

 میں حیران کہ یہ اسے کیا ہوا ؟ میں نے حیرت کا اظہار کیا اور قویب تھا کہ کچھ بولتا ۔ اس نے میرا ہاتھ دبا دیا ۔ میں نے محسوس کیا کہ دکان پر کھڑے افراد اور قصائی بظاہر میرے دوست کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن سب کے کان اسی طرف لگے ہیں ۔ دوست نے ہنگامہ سے متعلق زیادہ تفصیلی گفتگو نہیں کی۔ 

اب ذرا تماشا دیکھیں ۔ ایک خاتون جو گوشت لینے میں بہت مین میخ کر رہی تھیں :

بالکل روکھا گوشت دو۔ چھیچھڑے نہیں لوں گی 

جیسا کہ عام طور مین میخیے گاہک  کرتے ہیں۔ ایک دو بار تو قصائی نے اس کی فرمائش پوری کی۔ آخر چڑ کر بولا : اماں جیادہ نخرے نہ کر ۔ جلدی لے لے جو لینا ہے۔ لالو کھیت میں بڑی جوروں کا ہنگامہ چل ریا ہے"۔ اس پر ساتھ کھڑے گاھک نے جو اس عورت کے فرمائشوں سے تنگ تھا، بول پڑا  ۔ خاتون نے جو یہ ماحول دیکھا تو خاموشی سے گوشت لے کر چلی گئیں ۔ باقی گاہک بھی زیادہ بحث میں نہیں پڑے اور ہم بہت جلد گوشت لے کر وہاں سے آگئے۔ میں نے افواہ ساز دوست سے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ ۔بولا دکان پر رش دیکھا تھا ۔ اگر یہ سب نہ کرتا تو گھنٹہ تو لگنا ہی لگنا تھا ۔ میں نے کہا : 

کیا فرق پڑتا ؟ 

بولا : اب تم دیکھنا کیسا فرق پڑتا ہے۔ یہ قصائی ہر گاہک کو الٹا سیدھا گوشت دے گا اور کہے گا " بھیا جلدی جلدی گوشت لے لو ۔ پتہ نہیں شام تک ہنگامہ پھیل نہ جائے۔ اللہ جانے کل دکان کھلے بھی کہ نہیں "۔اسی طرح ہر گاہک گھر اور محلے میں یہ افواہ ایسے  سنائے گا کہ جیسے خود ہنگامہ دیکھ کر آرہا ہے۔"۔

جب ہم کالج پہنچے تو اس وقت بھی جنرل ضیا ملک پر مسلط تھے۔ سیاست پر پابندی تھی۔ اخبارات سخت سنسر شپ کا شکار تھے۔ آدھے اخبارات خالی شائع ہوا کرتے۔ حد تو یہ ہوئی کہ جب بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ان کی صاحبزادی صنم بھٹو کی شادی ہوئی تو اخبار میں سر شاہنواز بھٹو کی پوتی کی شادی کی مختصر سی خبر  شائع ہوئی۔

یہ بات تو خیر ضمننا آگئی۔ سیاسی جماعتیں جنرل ضیا زمانے میں بھی سینہ گزٹ خبروں اور افواہوں کے لئے عوامی مقامات استعمال کیا کرتے گو کہ اس میں بھی کافی خطرہ ہوتا ۔ ہمارے محلے میں ایک صاحب ہواکرتے تھے۔ عمر کوئی 60 سے اوپر ہوگی۔ ایک سیاسی جماعت کے سکہ بند کارکن تھے۔ ہمارے 2D سے کالج جانے اور ان کا کام پر جانے کا ایک ہی وقت تھا۔ بس سمجھ لیں جس کے ساتھ وہ بیٹھ گئے اس کی جان مصیبت میں ہوتی ۔پہلے برابر والے سے سلام دعا کرتے اور پھر اونچی آواز میں عوامی مسائل کا سہارا لے کر حکومت پر لعن طعن شروع کردیتے اور اس کے بعد جو افواہ اڑانا یا ان کی دانست میں پیغام دینا ہوتا دے دیتے۔ مسئلہ یہ تھا کہ ان کی کوئل جیسی آواز بہت اونچی تھی جو پوری بس میں گونجتی۔ یہ لوگ ان کو جانتے تھے ذرا ہٹ کر رہتے۔ میں تو جہاں ان کو دیکھتا بس کی دوسری طرف چلا جاتا ۔

افواہ پھیلانے اور اس کو سمجھنے کی بھی ایک سائنس ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اس باخبر ہوجائیں اور اب آپ کی مرضی کہ آپ اس کی تشہیر میں ملوث ہوں یا  نہ ہوں ۔

افواہ کیا ہے ؟ بازای خبر جس کا کوئی سر پیر نہہں ہوتا ۔ لوگوں کو ارادی یا غیر ارادی طور پر دھوکا دینے کے لئے جھوٹ بولنا۔ افواہ کی کئی اقسام ہیں اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی تعریف اور فوائد بھی بڑھتے جاتے ہیں۔  

مقصد اور ہدف کے تعین کے بعد افواہ ایسی ہو جو کہ سنسنی پھیلا دے اور سننے والا بلا سوال و جواب اور تصدیق آگے سنانے کے لئے دوڑ پڑے۔ افواہ عوامی امنگوں کی آئینہ دار ہونی چاہیئے ۔اس میں نفع نقصان  دونوں کا پہلو ہو سکتا ہے۔ ہماری عوام دونوں افواہوں کو ایک ہی انداز سے لیتی ہے۔ افواہ بہت زیادہ بے پر کہ نہیں ہونی چاہیئے اس میں کسی حد تک یقینیت ہونا امر ضروری ہے۔ افواہ کو کبھی تفصیل سے نہ بیان نہ کریں ۔ افواہ جتنی سادہ ہوگی اتنی ہی تیزی سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گی۔ زیادہ پھندنے بازی کی تو افواہ اپنی موت آپ کو جائے گی۔

افواہ پھیلانے کے لئے لوگوں کا انتخاب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بہت زیادہ  کھوجی اور پرتجسس لوگ افواہ سے متعلق سوال جواب شروع کردیتے ہیں جو کہ افواہ کے لئے زہر قاتل ہے۔ افواہ کے لئے ضروری ہے کہ ہر ایک تنہائی میں بتائی جائے اور تاکید کردی جائے کہ کسی کو ہرگز ہرگز نہ بتانا۔ افواہ کی برق رفتاری اور  یقینییت چیک کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس اپنے قریبی حلقہ احباب میں پھیلائیں اور دیکھیں یہ کب تک اور کتنی بدلی ہوئی شکل میں آپ تک پہنچتی ہے۔  افواہ میں جو اضافت ہو اس سے اندازہ لگا لیں کہ آپ نے عوامی خواہشات کا کتنا خیال نہیں رکھا۔ آئندہ  افواہ پر اس بات کا پوری طرح خیال رکھیں۔


Friday 4 October 2019

کیا ہم ردعمل کی قوم ہیں ؟ آرٹیکل # 41

Article # 41




کیا ہم ردِ عمل کی قوم ہیں؟ 


ہنری ایک سوال چھوڑ گیا ہے


اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


ایڈورٹائزنگ کی دنیا بھی عجیب ہے۔ آپ کو ملک و بیرون ملک سے بھانت بھانت کے لوگ ملتے ہیں۔ ان کے سوال آپ کو نئی راہ دکھاتے ہیں، متفکر کر دیتے ہیں۔ جن باتوں پر آپ کا دھیان بھی نہیں جاتا ہے وہ ان سے متعلق سوال پوچھ کرکچھ لمحوں کے لئے آپ کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ سوالوں کا جواب بن پڑتا ہے۔ کچھ کا آپ جواب تو دے دیتے ہیں۔ سوال کنندہ کو ممکن ہے مطمئن بھی کر دیتے ہوں مگر کہیں بے اطمینانی چھپی رہتی ہے۔

یہ 90 کی دھائی کا نصف تھا۔ ایک بڑے مشہور ملٹی نیشنل سگریٹ برانڈ کی کمرشل کی شوٹنگ کے لئے ڈائریکٹر ہنری کو آسٹریلیا سے اور کیمرہ مین اور اس سے متعلقہ افراد کو بنکاک سے بلایا گیا۔ ہنری مکمل طور پر ایک پروفیشنل ڈائریکٹر تھا۔ ٹی وی کمرشل کے اسکیچ کردہ فریمز اس کو پہلے پہنچا دیئے گئے تھے۔ صبح ہنری اور کیمرہ مین سے میٹنگ ہوئی۔ شام کو میوزک ڈائریکٹر کے پاس گئے تو ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ ٹی وی کمرشل کی پسِ پردہ موسیقی کے لئے گراف کے ذریعے بریف دی جاتی ہے جس میں ایک ایک سیکنڈ کا حساب ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہم لوگ میوزک ڈائریکٹر کو لوکل طریقے سے منہ زبانی بتا دیا کرتے تھے اور کام چل جاتا تھا۔
شوٹنگ پہلے کراچی اور پھر لاہور میں تھی۔ کراچی کے ایک مشہور کالج جو کہ قیام پاکستان سے قبل تعمیر ہوا تھا اس کے مین گیٹ کے سامنے پہلا سین تھا تاکہ پس منظر میں کالج کی پُرشکوہ عمارت نظر آسکے۔ پہلے ہی دن احساس ہو گیا کہ 45 سے 50 سال کی عمر کا حامل ہنری تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ایک محنتی ڈائریکٹر تھا۔ دوسری بات یہ کہ اسے کوئی بات پوچھنے میں کسی قسم کا عار نہیں تھا۔ ہنری کم گو ضرور تھا لیکن مشاہدے اور تجزیہ کی بھرپور صلاحیت رکھتا تھا۔ دراز قد ہونے کے ساتھ مضبوط جسامت رکھتا تھا۔
ٹی وی کمرشل تین حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصّہ میں باپ اپنے بیٹے کے اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر بہت خوش ہے۔ شوٹنگ فریمز کے مطابق جاری تھی لیکن وہ مطمئن نہیں ہورہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا کہ آپ کے کلچر میں باپ بیٹے سے اپنی انتہائی خوشی کا اظہار کس طرح کرتا ہے؟ آیا پیٹ تھپتھپاتا ہے، کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہے یا سینے سے لگا لیتا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں ایسا کچھ ہی کرتا ہے۔ بولا کہ یہ سب کچھ تو ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے۔ کوئی ایسا Gesture بتائو جو تمھارے کلچر می ںبے ساختگی کے ساتھ ہوتا ہو؟۔ اب اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔
کچھ دیر بعد میرے ذہن میں وہ خیال آہی گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ محبت کے اظہار کا انتہائی طریقہ یہ ہے کہ باپ وارفتگی کے ساتھ بیٹے کا ماتھا چوم لیتا ہے۔ یہ آئیڈیا اس کو اچھا لگا۔ کہنے لگا کہ تم مجھے پرفارم ر کے بتائو۔ میں نے کیا۔ اس کو بہت پسند آیا اور بولا کہ ہم یہ بھی شوٹ کریں گے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ لکیر کا فقیر نہ تھا۔ سوچتا تھا کہ بہتر سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔ ہم نے جس Company کو اس ٹی وی کرشل کے تمام تر انتظامات کے لئے Hire کیا تھا۔ ان کا بھی یہ پہلا بڑا کام تھا۔ تجربے کی کمی تھی اور کچھ مزاجاّ آنا کانی کی عادت تھی۔ شوٹنگ کے دوران شوٹنگ سے متعلق چیزیں، ڈائریکٹر کی شوٹنگ کے وقت کی ضروریات غرض کمپنی کو پوری شوٹنگ میں ایک پیر پر کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ کوئی بھی ایمرجنسی آسکتی ہے۔ نج سے تج سب کچھ انہیں کرنا ہوتا ہے جس کا انہیں بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے۔
کراچی کے بعد ہم لاہور پریس کلب اور پھر کینو کے باغات میں شوٹنگ کے لئے لاہور سے قریب ایک بڑے باغ لاہور میں شوٹنگ کرتے رہے۔ انتظامات سنبھالنے والی کمپنی کی جانب سے ہمیں ایک ہی روش کا سامنا رہا۔ ہم اکثر اوقات غصے میں آجاتے اور انہیں خوب ہی برا بھلا کہتے مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس سستی اور کاہلی کا اصل وصول کنندہ ہنری تھا مگر وہ خاموش رہتا جس پر ہم اس کے صبر کی داد دیتے اور کبھی اس صبر کو پرفیشنل ازم کے کھاتے میں ڈال دیتے۔ ہنری اپنے کام سے کام رکھنے والا آدمی تھا۔ لاہور میں شوٹنگ کے آخری دن اس نے یہ ثابت بھی کردیااور ہم سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے۔ سب ہوٹل آگئے لیکن ہنری نہ آیا۔ ہم سب پریشان کہ ہنری کہاں چلا گیا۔ کافی دیر بعد ہنری آیا تو اس کے ہاتھ میں لکڑی کے مختلف چھوٹے بڑے ٹکٹرے تھے۔ ہم حیران کہ یہ کیا اٹھا لایا۔ پوچھا تو بتایا کہ وہ فری لانس ڈائریکٹر ہے۔ سال میں ہر وقت تو کام ہوتا نہیں اس لئے اپنے فارغ وقت میں وہ فرنیچر ڈیزائن کر کے خود ہی بناتا اور فروخت کرتا ہے۔ اس لئے وہ ڈرائیور کو لے کر اکیلا ہی لاہور کی ٹمبر مارکیٹ گیا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ کچھ لکڑی پاکستان سے خرید بھی لے۔
ہم واپس کراچی آگئے۔ کراچی میں ایک اسپورٹس کمپلیکس میں شوٹنگ کا آخری دن تھا۔ اس نے انتظامات سنبھالنے والی کمپنی سے کسی آدمی سے کچھ لانے کو کہا۔ وہ نہ لایا۔ شوٹنگ رکی رہی۔ اب ہنری کا صبر جواب دے گیااور اس نے انگریزی کی بہت عام سے گالی بک ہی دی۔
اس کے بعد بہت دیر تک معذرت کرتا رہا۔ اب اسے کیا پتہ کہ شوٹنگ کے دوران کس طرح بے حساب مغلظات بکی گئی ہیں۔ اخلاقیات کے دریا بہائے گئے ہیں۔ زبانوں کو کس کس طرح پوتر کیا گیا ہے۔
شوٹنگ ختم ہوئی تو سب Relax کر گئے۔ شام ہوچلی تھی۔ گرم گرم چائے تھکن اتارنے میں مصروف تھی کہ ہنری نے ایک سوال داغ دیا:

initiate آپ لوگ کسی کام کو خود سے کیوں نہیں کرتے؟

میں نے کہا : کیا مطلب؟

کہنے لگا:
پوری شوٹ میں جب تک کہا نہ گیا کسی نے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ کب کس کام کی ضرورت ہے۔ جب بھی کوئی چیز مانگی گئی۔ پہلے تو کوئی آیا ہی نہیں اور جب کوئی ایک آیا تو اس کی دیکھا دیکھی دس لوگ دوڑ پڑے۔
میں خاموش رہا کیونکہ پوری شوٹ میں، میں خود اس کا گواہ تھا۔ ہنری نے کسی دانشور کی طرح میرے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں ایسی قوموں کو ردِ عمل کی قومیں کہا جاتا ہے۔ ایسی قومیں کبھی پہل نہیں کرتی ہیں۔ جو کچھ بھی کرتی ہیں کسی دوسرے کے عمل کے ردِ عمل میں کرتی ہیں۔ اس لئے ان کی ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے یا پھر ہوتی ہی نہیں۔
میں نے اپنے طور پر وہ تمام دلائل دیئے جو اس بات کو ثابت کرتے کہ ہم ردِ عمل کی قوم نہیں ہیں۔ ممکن ہے ہنری مطمئن ہوگیا ہو لیکن میں نہیں۔ ماضی کے جھرونکے میں جھانکوں تو لگتا ہے کہ اس نے صحیح کہا ہے لیکن پھر پاکستانی دل کہتا ہے کہ کسی بہکاوے میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ تم ایک بے مثال، باکمال قوم کے فرد ہو۔ مطمئن ہونے کی کوشش تو کرتا ہوں لیکن جب ملک کی حالت ِزار دیکھتا ہوں تو پھر ہنری کا سوال میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر کسی کے پاس کوئی واضح جواب ہے تو بتائے؟

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...