Sunday 24 November 2019

یااللہ ، یا رسول ۔۔۔۔۔ بے نظیر بے قصور ، یہ نعرہ ہے کسں کا ؟ آرٹیکل # 45


Article # 45

یا اللہ ، یا رسول ۔۔۔ بے نظیر بے قصور

یہ دعائیہ نعرہ پہلی دفعہ کس کے لئے لگایا گیا؟



تحریر: اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)
پاکستانی سیاست نعروں سے بھری ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کہ جہاں سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ اس لئے عموما نعروں میں شخصیات ہی نمایاں ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر انتخابات کے موقع پر ایک حکمت عملی وضع کرنے کے بعد سلوگنز (نعرے) دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب کسی حد تک اس طرف دھیان دیا جا رہا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔
ہمارے نعروں میں معنویت سے زیادہ عوامیت کا پہلو ہوتا ہے اور اسی لئے اکثر نعرے بہت زیادہ بامعنی نہیں ہوتے ہیں مگر عوامی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں نعروں کی بھی اپنی ایک پوری تاریخ ہے جس کا احاطہ اس مضمون میں ممکن نہیں۔ میں چند ایک چنیدہ چنئدہ نعروں کے بعد نفس مضمون پر آجاوں گا جو کہ اس مضمون کی سرخی سے آشکار ہے۔
نعرے کبھی کبھی خود ہی بن جاتے ہیں، زبان زد عام ہو جاتے ہیں۔ عوامیت کسی بھی نعرے کا حسن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے عوام کے دل کو چھو جاتے ہیں، دلوں کو گرما جاتے ہیں۔ کبھی نظم کا کوئی مصرعہ نعرہ بن جاتا ہے تو کبھی روانی میں کسی کے منہ سے نکلی کوئی بات۔ حبیب جالب کے کتنے مصرعے نعروں کے قالب میں ڈھل چکے ہیں جیسے:
ایسے دستور کو صبح بے نور
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو
گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طبقہ کے خلاف انہوں نے لکھا آج وہی اشعار اور نعرے ان کی مائیک توڑ تقریروں کا لازمی جزو ہیں۔
جس طرح فلم میں کبھی گانے ہی کامیابی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی سیاست میں نعرے گانوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے لیڈر ایک اچھے نعرے کو ترستے ہیں۔ بڑی کوششیں ہوتی ہیں جیسے کہ میاں نواز شریف کو اپنی پوری زندگی میں عوامی مقبولیت کا صرف ایک نعرہ مل سکا:
قدم بڑھاو! نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں
جس پر میاں صاحب نے ایک بار ازراہ تفنن کہا تھا کہ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نعرے کا مخالفین کی طرف سے جوابی نعرہ بھی آیا۔ رقم لگاو! نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ خیر سیاست میں یہ چھیڑ چھاڑ کوئی نئی نہیں۔
1970 میں پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو پر اس نعرے میں بھپتی کسی تھی:
تھک گئی گردن کٹ گیا بازو، ہائے ترازو ہائے ترازو
جس پر جماعت اسلامی نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا تھا:
لاو ترازو تول کے دیکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے۔
1965 کے انتخابات میں جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا انتخابی نشان لا لٹین اور ایوب خان کا پھول تھا تو ان دنوں دیواروں پر یہ لکھا دیکھا گیا:
ایک شمع جلی جل جانے کو ، ایک پھول کھلا مر جانے کو
ایوب خان کے لئے یہ نعرے لگایا گیا۔
ملت کا محبوب، ایوب ایوب —– صدر ہوگا کون ؟ ایوب ایوب
1977 کے انتخابات میں نعرے ذاتیات پر اتر آئے:
گنجے کے سر پر ہم چلے گا —– گنجا سر کے بل چلے گا
خیر اس سے پہلے ایوب خان کی روانگی کے وقت بھی ایک چارلفظی نعرہ بہت مشہور ہوا تھا جس کے آخری دو لفظ ہائے ہائے تھے۔
جنرل ضیا کے لئے مرد مومن، مرد حق کا نعرہ آیا۔ جب جنرل ضیا الحق نے بھٹو صاحب کو فارع کیا تو ان کی تلوار کٹ مونچھوں کو دیکھتے ہوئے یہ نعرہ بھی سنا گیا:
ہل آیا نہ آئی تلوار —– آگئی مونچھوں والی سرکار
جنرل ضیا کی امریکا نواز پا لیسیوں پر یہ نعرہ مقبول ہوا
امریکا کا جو یار ہے۔ ۔ غدار ہے غدار ہے۔
اس کے علاوہ جنرل ضیا الحق کو سرمہ والی سرکار اور بینڈ ماسٹر بھی کہا گیا۔ ان ہی کے زمانے میں ایک ملی نغمہ کو سیاسی کارکنوں نے تبدیل کردیا:
تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے —- یہ اس کا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے
پیپلز پارٹی نے ضیا دور میں اپنی سیاسی بقا کے لئے طویل جد و جہد کی اور نہایت جذباتی نعروں کی فراوانی ہوئی۔ ان میں ایک نے بہت شہرت پائی:
تیرے قاتل زندہ ہیں —- بھٹو ہم شرمندہ ہیں
جب تک بھٹو کے قاتل زندہ رہے تو یہ نعرہ سنائی نہ دیا:
کل بھی بھٹو زندہ تھا —- آج بھی بھٹو زندہ ہے
بھٹو کے قاتل نہ رہے تو پیپلز پارٹی نے آج اور کل میں بھٹو کے زندہ ہونے کا نعرہ لگا دیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتی کارکردگی نے پیپلز پارٹی کی ساکھ کو جو نقصان پہنچایا ہو وہ اپنی جگہ لیکن مخالفین نے بالخصوص سوشل میڈیا پر جس طرح اس نعرے کو بطور طنز استعمال کیا ہے، وہ خود اس نعرے پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔
جنرل ضیا الحق نے انتخابات نہ کرانے کے لئے سو سو بہانے تراشے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ دیا جاتا اور قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا۔ ایک زمانے میں پہلے “احتساب پھر انتخاب” کی پھلجڑی چھوڑی گئی۔ ان کا نام تو ضیا تھا مگر ان کا دور جمہوریت کا تاریک ترین دور تھا۔ اس دور میں پیپلز پارٹی نے وہ کچھ سہا کہ تپ کر کندن بن گئی مگر افسوس کہ بعد میں یہ کندن صرف اقتدار کی غلام گردشوں میں اقتدار طلبی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا اور دام بھی انہوں نے وصولے جو اس وقت شریک سفر نہ تھے اور یوں ذوالفقار علی بھٹو کے تمام نعرے زمیں بوس کر دئیے گئے۔
1988 میں مسلم لیگ نواز نے پہلی بار اعلانیہ صوبائیت کا نعرہ دیا:
جاگ پنجابی جاگ
تیری پگ نوں لگ گئی آگ
1986 میں شریف النفس اور جمہوریت پسند وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا الحق کی تمام تر چابک دستیوں کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی اجازت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کی یقین دہانی کرا دی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جونیجو کا یہ جرات مندانہ فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے رہنماوں کی قربانیوں سے کہیں زیادہ اہمیت اور دور رس نتائج کا حامل رہا۔ وجہ کچھ بھی ہو پیپلز پارٹی کی سیاست واپسی کی راہ جونیجو کے اس فیصلے سے جڑی ہے۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے لاہور میں قدم رکھا تو تاریخ بن گئی۔ شہر لاہور کیا پورا ملک اس نعرے سے گونج اٹھا۔
جب تک سورج چاند رہے گا —- بھٹو تیرا نام رہے گا
جنرل ضیا الحق ایک حادثے میں راہی ملک عدم ہوئے اور یکم دسمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن وہ عہدے پر مقررہ مدت تک فائز نہ رہ سکیں اور صدر غلام اسحق خان کے ایک دستخط سے جاری ہونے والے پروانے نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا اور پھر پاکستان کی تاریخ کا پہلا دعائیہ اور التجائیہ نعرہ سامنے آیا:
یا اللہ یا رسول، بے نظیر بے قصور
میں اب اس نعرے سے آگے جانا نہیں چاھوں گا کیونکہ یہ نعرہ ہی میرے حاصل مضمون ہے۔
یہ نعرہ سب سے پہلے کہاں اور کس کے لئے لگایا گیا؟
جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت آئی تو محترمہ اپنے آبائی شہر لاڑکانہ ایک تقریب میں شرکت کے لیے گئیں۔ اس وقت سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن دو حصوں میں تقسیم تھی جس میں ایک کی قیادت امیر بخش عمرانی کر رہے تھے۔ تقریب میں ان کے گروپ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس موقع پر امیر بخش عمرانی گروپ کے اسٹوڈنٹس اسٹیج پر چڑھ دوڑے اور انہوں نے یہ نعرہ لگایا:
یا اللہ یا رسول، عمرانی بے قصور
کسی کو کیا پتہ تھا کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت نہ رہے گی تو یہ پاکستانی کی سیاسی تاریخ کا پہلا نعرہ ہوگا جس میں خدا اور رسول (ص) سے فریاد، التجا اور انصاف کی دھائی دی جائے گی۔ محترمہ اسلام آباد سے گھر لوٹیں تو یہ نعرہ اب ایک نام کے رد و بدل سے دلوں میں گھر کرتا چلا گیا
یا اللہ یا رسول، بے نظیر بے قصور
نعرے میں عجیب پکار تھی جو اس سے پہلے کسی نعرے میں نظر آئی نہ محسوس ہوئی۔ پیپلز پارٹی پر ہونے والے تمام مظالم کی ترجمانی اس نعرے میں سمٹ آئی تھی۔
پہلی حکومت کی برطرفی کے بعد محترمہ عوامی رابطہ مہم ہر نکلیں اور اباڑو، رحیم یار خان سے ہوتی ہوئی ملتان پہنچیں جہاں ایک جلسہ میں مشہور شاعر محسن نقوی نے دعا کے نام سے اپنی ایک نظم پڑھی جس کا آخری شعر یہ نعرہ تھا۔
اے عظیم کبریا
سن غریب کی دعا
سازشوں میں گھر گئی
بنت ارض ایشیا
لشکر یزید میں
ایک کنیز کربلا
فیصلے کی منتظر
ایک یتیم، بے خطا
ٹال سب مصیبتیں
ہے دعا تیرے حضور
واسطہ حسین ع کا
توڑ ظلم کا غرور
یا اللہ – یا رسول
بے نظیر بے قصور
اب یہ نعرہ محض بے نظیر بھٹو کا ہی نہیں بلکہ بھٹو خاندان کی سیاست میں قربانیوں کا عکاس ہے۔

Sunday 17 November 2019

مرتضی بھٹو کی جلاوطنی سے واپسی اور ایک پوسٹر ۔۔۔آرٹیکل # 44


Article # 44

 مرتضی بھٹو کی جلاوطنی سے واپسی
 اور ایک پوسٹر

متعلقہ تصویر
رات گئے شہر بھر میں پوسٹرز چسپاں کر دیئے گئ

تحریر:اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)
بڑے لوگوں کی زندگیاں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔ کتنے عام لوگ نہ چاھتے ہوئے بھی وقتی طور پر سہی ان کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور بڑے لوگوں کو اس کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔بلا وجہ کا خوف اورخطرات گھیرے رہتے ہیں۔ہم خود ایک رات اس طرح گذار چکے ہیں۔
یہ1993کی بات ہے۔تاریخ انٹرنیٹ پر تلاش کر نے باوجود ڈھونڈ نہ پایا۔میں اپنی کُل وقتی جائے ملازمت (ایڈورٹائزنگ ایجنسی) پر تھا۔ اس زمانے میں موبائل فون عام نہ تھے۔ ٹیلی فون آپریٹر نے بتایا کہ آپ کے لئے کال ہے۔ لائن ٹرانسفر ہوئی۔ دوسری طرف سے جو آواز آئی میں اس وقت اس کی قطعاً توقع نہیں کر رہا تھا۔ یہ کال اس ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے تھی کہ جہاں میں شام میں فری لانس کرنے جایا کرتا تھا۔ “کب تک آسکتے ہو؟”۔ میں نے جواباًکہا کہ شام میں۔ تاکید سے کہا گیا کہ وقت پرآجائیں۔ دیر نہ کریں، بہت ضروری کام ہے۔میں نے سوچا کوئی روٹین کا کام ہوگا اور کلائنٹ نے بے وجہ کی جلدی مچا دی ہوگی۔
شام آفس سے فارغ ہو کر میں سیدھا اپنی فری لانس والی ایجنسی پہنچا اور جاتے ہی کہا کہ بتائیں کیا کام ہے۔ کلائنٹ سروس کے بندے نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی کام نہیں لیکن باس کو بہت ضروری کام ہے۔ ایک دو بار تمہارا پوچھ چکے ہیں۔ کچھ دیر انتظار کے بعد میں باس کے کمرے میں داخل ہوا۔بولے بیٹھو، میں بیٹھ گیا۔ اس کے بعد وہ کمرے میں موجود آفس کے ایک صاحب سے باتوں میں مصروف ہوگئے جیسے انہوں نے میرے آنے کو کوئی اہمیت ہی نہ دی ہو۔ عجیب کوفت کا شکار تھا۔ سوچ رہا تھا کہ جب اتنی جلدی ہے تو کام کا بتا کیوں نہیں رہے؟ خاموش رہا کیونکہ ہر ماہ باقاعدگی سے ایک معقول رقم ملتی تھی جس کی اس زمانے میں مجھے اشد ضرورت تھی۔ کمرے سے جیسے ہی آفس کے صاحب نکلے۔ باس نے ان کے دروازہ بند کرتے ہی میری طرف توجہ کی اور بولے کہ آج تمھیں بہت اہم کام کرنا ہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ بتائیں؟ بولے لیکن اب صبح جائو گے۔ میں نے کہا کہ صبح کیوں؟ جیسے ہی کام ختم کروں گا۔ چلا جائوں گا۔ کہنے لگے کہ
یہ کام جو اب تمھیں کرنا ہے۔ یہ بہت رازداری کا کام ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اس کام کی کسی کو کانوں کان خبر ہو۔ میں چونک گیا کہ ایسا کون سا کام ہے کہ جس کی کسی خبر ہی نہ ہو۔میں نے کہا ہمارا کام تو اشتہار بنانا ہے تو اس کی خبر تو سب کو ہونی ہی ہے۔ اب جو انہوں نے مجھے کام کا بتایا تو کچھ دیر کے لئے میں اندر سے ڈرا سہما بیٹھا رہا۔ باس نے بتایا کہ کل صبح ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ زمانہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے اقتدار کا ہے اور اس زمانے میں عوامی طور پر یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ محترمہ نہیں چاہتیں کہ مرتضیٰ پاکستان آئیں۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی سیاست میں زمین آسمان کا فرق تھا اور اسی وجہ سے دونوں میں اختلاف رائے پایا جاتا تھا جس کا بعد میں کھل کر اظہار بھی ہوا۔ قصہ مختصر تفصیلات سننے کے بعد میں نے سوچا کہ اگر مرتضیٰ بھٹو کراچی ائیر پورٹ پر اترتے بھی ہیں تو عین ممکن ہے کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے۔ مرتضیٰ بھٹو قریباً 16سال بعد وطن لوٹ رہے تھے۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد الذوالفقار کے قیام اور پھر جہاز کے اغوا اور سیاسی قیدیوں کو چھڑانے جیسی کارروائیوں و دیگر پر مرتضیٰ بھٹو کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج تھی گو کہ یہ مقدمات جنرل ضیاء الحق کے زمانے کے تھے۔
اس زمانے میں یہ بات بھی بہت عام تھی کہ محترمہ نصرت بھٹو مرتضیٰ بھٹو کو قومی سیاست میںداخل کرنا چاھتی ہیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو ماضی کے واقعات یاکسی اور وجہ سے مرتضیٰ بھٹو کی سیاست میں انٹری نہیں چاہتی ہیں۔خیر میں نے پوچھا کہ مجھے کیا کام کرنا ہے۔ بولے کہ تمھیں پوسٹرکی کاپی لکھنی ہے۔ approval کے بعد اس کا ڈیزائن بنے گا۔ اس کے بعد یہ پوسٹر پرنٹ ہونے جائے گا اور پھر رات میں شہر بھر میں لگا دیا جائے گا۔ باس نے کہا کہ کیپشن catchy ہونا چاہیئے۔ اس زمانے میں ایک سیاسی حلقے کی جانب سے یہ بات موضوع بحث تھی کہ بھٹو کا وارث بھٹو ہی ہونا چاہیئے۔ یاد رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی آصف علی زرداری سے ہوچکی تھی۔ اس لئے ان دنوں محترمہ کے نام کے ساتھ زرداری لکھنے پر بھی اخبارات اور عوامی حلقوں میں اس موضوع پر دھواں دار بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا۔سندھ میں موروثیت کے حوالے سے پگ دار کا لفظ اس دنوں اخبارات میں بہت آیا کرتا تھا۔ باس نے کہا کہ کوئی ایسا کیپشن لکھو جس میں مرتضیٰ بھٹو کی کراچی آمد، تلوار (پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان) اور پگ دار کے الفاظ آجائیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے یہ کیپشن لکھا:
چمکی حیدر کی تلوار، آیا بھٹو کاپگ دار
اور پھر کراچی آمد کے حوالے سے مختصر سی باڈی کاپی اور غالباً نیچے پنچ لائن کے طور پر “بھٹو کا وارث بھٹوــ” لکھا۔ اب یہ میرے علم میں نہیں کہ اس کی approval لی گئی تو کس سے؟ بہرحال کاپی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور اس پر پوسٹر کی ڈیزائننگ کا کام شروع ہوا جس میں یقیناً دیر لگنی تھی۔ بڑی مشکلوں سے یہ یقین دلانے کے بعد کہ میں اس بارے میں کسی کو بھی کچھ نہیں بتائوں گا رات بارہ بجے کے بعدمیری گلو خلاصی ہوئی۔ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے راستے بھر مجھے ہلکا ہلکا سا خوف رہا۔ گھر آیا اور کسی کو ایک لفظ بتائے بغیر سو گیا۔
صبح پھر وہی وقت پر آفس پہنچنے کی جلدی تھی۔ کراچی میں نئی نئی کوچ سروس شروع ہوئی تھی۔ راستے میں تو میری نظر نہیں پڑی لیکن میں جیسے ہی اپنے آفس کے اسٹاپ پر اترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جگہ جگہ مرتضیٰ بھٹو کی آمد کے پوسٹر لگے ہوئے ہیں جن پر جلی حروف میں مرتضیٰ بھٹو کی پگ والی تصویر کے ساتھ “چمکی حیدر کی تلوار، آیا بھٹو کا پگ دار” لکھا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ کسی کو اب بھی بتائوں یا خاموش ہی رہوں۔ آفس آیا۔ حسبِ عادت میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں جا کر اخبارارت دیکھے تو کراچی کے سب سے کثیر الاشاعت اخبار ایک کالمی خبر چھپی ہوئی تھی کہ رات گئے کراچی میں مرتضیٰ بھٹو کی آمد پر خیر مقدمی پوسٹر لگا دیئے گئے۔ مرتضیٰ بھٹو تو خیر کراچی آگئے مگر ہمیں خوف نے کئی دنوں تک گھیرے رکھا۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...