Friday 10 April 2020

Article # 50 میں اور میری لائبریریاں ۔۔۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے ۔


Article # 50

 میں اور میری لائبریریاں 

تحریر : اظہر عزمی 

(ایک اشتہاری کی باتیں) 



زمانے گذر گئے مگر کل کی بات لگتی ہے۔
آنکھ کھولی تو گھر میں اردو، سیارہ اور عالمی ڈائجسٹوں کو موجود پایا۔ گھر میں روزانہ اخبار آنے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے ایک عزیز کی پہلی چورنگی ناظم آباد پر کیفے ذائقہ کے سامنے روڈ کراس کر کے ایک عارضی دکان تھی جہاں سے ماہانہ یہ ڈائجسٹیں آیا کرتی تھی۔ والد صاحب کے لئے ان کا پڑھنا لازم تھا جس میں قضا کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ سلسلہ ہماری پیدائش سے پہلے سے جاری تھا اور ہمارے کمرے کا مچان ان ڈائخسٹوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پہلی چورنگی کے سامنے والی مارکیٹ نہ بنی تھی اور اسٹاپ کے سامنے مختلف اشیاء کی فروخت کے ٹھیئے ہوا کرتے تھے۔ چورنگی سرسبز و شاداب ہوا کرتی تھی۔ بچپن میں کتنی بار ہم گرمیوں کے موسم میں رات کے وقت والد صاحب کے ساتھ اس چورنگی پر چلے جایا کرتے۔ والد صاحب ایک جگہ بیٹھ جاتے اور ہم ٹھنڈی ہری گھاس پر ڈولتے پھرتے۔ ٹریفک بہت کم ہوا کرتا تھا۔ اس لئے آلودگی برائے نام تھی۔
یاد ماضی میں یہ بڑا مسئلہ ہے لکھنے کچھ بیٹھو اور ذہن کہیں اور جا نکلتا ہے۔ پر کیا کریں قلم کو بہت روکتے ہیں مگر یادیں ہیں کہ اپنی رنگینیوں میں کہیں کی کہیں لے جاتی ہیں۔ باکل عورتوں کی خریداری کی طرح۔ خریدنے کچھ نکلتی ہیں اور اصل دکان پر پہنچنے سے پہلے راہ چلتے کتنے ہی اسٹالز پر چھوٹی موٹی چیزیں دیکھ لیتی ہیں۔ جہاں پہنچنا ہوتا ہے وہاں پہنچتے پہنچتے کافی دیر ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ یادوں کی پٹاری اور عورتوں کی خریداری ایک ہی راستے کی مسافرہ ہیں۔
ابھی بات شروع ہی کی تھی لائبریریوں کی اور کہاں جا نکلا۔ چلیں واپس چلتے ہیں لائبریری کی یادوں پر۔ یہ مضمون ان لائبریریوں کے حوالے سے ہے کہ جہاں کتابیں کرائے پر پڑھنے کے لئے دستیاب ہوتیں۔ میری زندگی میں کل 5 لائبریریاں آئیں۔ میرا پہلا تعارف لائبریری سے اس وقت ہوا جب مجھے یہ پتہ بھی نہ تھا کہ کورس کے علاوہ بھی کتابیں ہوتی ہیں۔ گھر سے آگے ایک دو گلی چھوڑ کر ایک بڑی لائبریری تھی۔ ایک دن وہاں سے گذر رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ لائبریری کے سامنے ایک لڑکا سڑک پر بیٹھا ہے اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے ہیں۔ قریب گئے تو کچھ گفتگو یوں ہورہی تھی۔
“ابے سالے ہم کتابیں لا کر رکھیں اور تو چرا لے جائے”
“پولیس کے حوالے کرو اس کو۔ وہی اس کے دماغ ٹھکانے لگائے گی”
“ارے پولیس کو چھوڑو۔ میں کیا پولیس سے کم یوں۔ جہاں اس نے کتابیں بیچی ہیں وہیں اس کو ٹھکانے لگا کر آوں گا”
یہ کہہ کر لائبریری کے مالک نے سڑک پر آدھے لیٹے اور آدھے بیٹھے لڑکے کے ایک چماٹ اور جڑ دیا اور لڑکا اللہ اللہ کر کے منہ سہلاتا رہ گیا۔ ایک صاحب جو مجمع میں خاصی دیر سے خاموش تھے، بولے:
بیٹا ہیرو نے تو فلم کے آخر میں ولن کو ایسی ہی کٹاس لگائی ہوگی لیکن وہاں آواز ڈھشوں کی آئی ہوگی اور یہاں پٹاخ کی”۔
عقدہ کھل ہی گیا کہ لڑکے ے رات شٹر کھول کر کتابیں چوری کیں، بیچیں اور فلم دیکھ آیا۔ اب سوچتا ہوں کتنا آرٹ کا دلدارہ چور تھا۔ کتابیں چوری بھی کیں تو فلم دیکھنے کے لئے۔ بہرحال یہ تو تھا ہمارا لائبریری سے پہلا تعارف جسے کسی طرح بھی ادب دوستی کے خانے میں رکھا نہیں جا سکتا بلکہ مار کھانے کے خانے میں ضرور رکھا جا سکتا تھا۔ ہمیں اتنا یاد ہے کہ میرے سامنے اختتامی لات پڑھتے ہوئے یہی کہا گیا کہ آئندہ فلم اب اپنے پیسوں سے دیکھیو ورنہ اب جو تو نے کوئی فلم چوری کے پیسوں سے دیکھی تو اس کا نام ہوگا “تیری موت میرے ہاتھ”۔
اکثر لوگ مجھے بچپن سے ہی کتاب دوست کہتے ہیں۔ صاف صاف بتا رہا ہوں ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ جس محلے میں میرا بچپن گذرا وہاں کتاب پڑھنا پاگل پن سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ کسی کو پیچھے سے چھیڑنے کے لئے آواز دینا، جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھے تو انجان بن جانا۔ محلے کے کسی ہلکے سے باولے کو اس وقت تک تنگ کرنا جب تک کہ وہ ماں بہن تک نہ آجائے۔ اب آپ بتائیں ایسے لڑکوں میں میں کہاں چلنے والا تھا۔ عافیت اسی میں تھی کہ گھر میں رہا جائے۔ کورس کی کتابوں سے خدا واسطے کا بیر تھا اب لے دے کے اردو، سیارہ اور عالمی ڈائجسٹیں ہی وقت گذاری کے لئے بچ گئیں۔ پہلے مجبوری میں پڑھا پھر لت لگ گئی۔
جب کچھ بڑے ہوئے اور قدم گھر سے باہر نکلے تو وہ فلم والی لائبریری تو بند ہوچکی تھی البتہ کسی نے آگے روڈ پر زینے کے نیچے چھ سات فٹ لمبی سرنگ نما لائبریری کھول لی تھی جہاں رات میں 60 واٹ کا ایک پیلا بلب جلتا جس کی اداسی مجھے آج بھی یاد ہے۔ یہاں سے ہم نے بچوں کی کتابیں پڑھیں شروع کیں۔ اس زمانے میں اشتیاق احمد مرحوم کے ناولز آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ نونہال اور تعلیم و تربیت کے علاوہ بچوں کا ایک مزاحیہ رسالہ بھی آیا کرتا تھا۔ نونہال ہمدرد پاکستان کے زیر انتظام نکلتا جو آج بھی نکلتا ہے۔ تعلیم و تربیت لاہور سے شائع ہوتا۔ ہم اس لائبریری کے مستقل گراھک ہوگئے۔ والد صاحب نے بس ایک شرط رکھی کہ بچوں کے رسالوں کے علاوہ کچھ ہاتھ میں نظر آیا تو خیر نہیں۔
بچپن سے لائبریری سے دوستی نے لکھاری بھی بہت جلد بنا دیا۔ ابھی چھٹی ساتوں جماعت میں ہی ہونگے کہ بچوں رحمن برادرز کے زیر انتظام ایک رسالہ “غنچہ” میں ہماری کہانیاں شائع ہونا شروع ہوگئیں۔ غنچہ کراچی کے نمایاں بچوں کے رسالے میں ہوا کرتا تھا گو کہ اسے نونہال اور تعلیم و تربیت والی شہرت حاصل نہ تھی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کوئی پھول صاحب غنچہ کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ رحمان برادرس ایک زمانے میں کراچی کے بڑے اشاعتی اداروں میں ہوا کرتا تھا اور پاکستان چوک کے قریب ہی واقع تھا۔ رحمن برادرس کئ اردو سے انگریزی سکھانے کی کتاب بہت مشہور ہوا کرتی تھی۔ بہرحال غنچہ میں ہماری کہانیاں شائع ہوئیں جس میں لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے کے شوق نے کہانی نویسی کی طرف راغب کر دیا تھا۔ یہ ہماری زندگی کی دوسری لائبریری تھی لیکن کرائے پر رسالے لے کر پڑھنے کی پہلی لائبریری تھی۔
اس لائبریری سے رفاقت زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی۔ لائبریری جلد ہی شٹر بند ہو گئی اور ہم بھی کچھ عرصہ بعد اس علاقے سے کوچ کر کے نئے علاقے میں آبسے۔ یہ علاقہ تھا فیڈرل بی ایریا جو نیا نیا آباد ہوا تھا۔ ہمارے گھر سے ذرا فاصلے پر مشہور گلوکار، شہنشاہ غزل مہدی حسن صاحب رہا کرتے تھے۔ ان کا قیام تو زیادہ تر لاہور میں رہا کرتا لیکن ان کی فیملی یہیں رہائش پذیر تھی جو اب بھی ہے۔ آصف مہدی حسن بھی یہیں رہتے تھے۔ مہدی حسن کے کسی عزیز یا جاننے والے نے یہاں ایک بڑی لائبریری کھولی تھی جو باقاعدہ لائبریری تھی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نئے شائع ہونے والے ناولز، رسالے، ناولز وغیرہ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اضافہ ہوتا رہے۔ یہ ہماری زندگی کئ تیسری لائبریری تھئ۔
اس لائبریری پر شام اور رات کے وقت خاصا رش ہوا کرتا تھا۔ یہاں ہم نے اپنے وقت کے بچوں کے تمام مشہور ناولز کرائے پر لے کر پڑھے۔ اس زمابے میں عجیب نشہ ہوا کرتا تھا۔ ناول ہاتھ میں لیا اور اتنا صبر نہ ہوتا کہ گھر جا کر پڑھ لیں۔ راستے میں ہی ناول پڑھتے پڑھتے گھر پہنچتے۔ کوئی ہوش نہ ہوتا۔ بس دنیا ناول کے صفحوں پر سمٹ آتی۔ والدہ کام کا کہتی رہ جاتیں مگر ہم ٹس سے مس نہ یوتے وہ تو جب خیال آتا کی ناول کے کرائے کے پیسے بھی تو والدہ سے لینے ہیں تو پھر ان کے آگے پیچھے ہوتے مگر اب والدہ کچھ منگوانے کو راضی نہ ہوتیں۔ بس یہی کہتیں کہ اب تمھارے ابو رات میں آئیں گے تو وہ ہی لے کر آئیں گے۔ ہماری جان اور نکل جاتی کہ پیسے تو کیا ہاتھ لگیں گے، مار کے ہاتھ الگ لگیں گے مطلب رات کو والد صاحب ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اماں ماں ہوتی ہے بالآخر ہمارے پیہم بلکہ بے ہنگم اصرار پر تنگ آکر سامان منگوا ہی لیا کرتیں۔ اب یہاں سے ہماری کارروائی کا آغاز ہوتا۔ سودے میں سے پہلے تو النور اسپتال کے ساتھ کھڑے چھوٹے والے سے چھولے کھانے اور اپنے ناول کے کرائے کے پیسے کھرے کرنے۔ کبھی کبھی زیادہ پیسے مار لیتے تو چھولوں میں چار آنے کی پاپڑی ڈلواکر فل عیاشی کر لیا کرتے۔ لو بھائی گھر آکر سامان دیا اور پھر وہی ناول ہمارے ہاتھ میں۔ ایک دن ہم عالی پر کیا گزری پڑھ رہے تھے کہ والدہ نے کتاب لے لی اور اتنا کہا کہ رات تمھارے ابو عزمی پر کیا گزری پڑھ کر سنائیں گے۔ ہمارے ہاتھ پیر پھر پھولے مگر بھلا ہو گلی میں رہنے والی حیدرآبادی خالہ کا کہ وہ آن ٹپکیں اور امی کو محلے کا خبرنامہ سنانے لگیں۔ باتیں کرتے کرتے امی نے عالی کو مسہری پر رکھا اور بھول گئیں۔ اب تو بیڈ کا رواج عام ہوگیا ہے۔ پورے گھر میں ایک یا دو مسہریاں ہوتی تھیں۔ گھروں میں پلنگوں کا ہی راج تھا۔ بڑے بڑے سے بڑا رشتے دار آجائے تو ہم گ پر بیٹھتا بس یہ خیال رکھا جاتا کہ پائینتی پر نہ بیٹھے کہ اس طرف بیٹھنے میں تکلیف ہوتی اور نہ نظر آ نے والے نشانات پڑنے کا امکان ہوتا۔ دیکھا می نے آپ سے کہا تھا ناں کہ بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے اور پھر وہی ہوا خیر ہم نے موقع غنیمت جانا۔ ناول دبایا اور دو چھتی پر تپتی دوپہر میں جا بیٹھے۔ پسینے میں شرابور مگر ناول کا نشہ سب پر حاوی تھا۔ پھر والدہ ہی آواز دیکر کہتیں “اب نیچے بھی آجا۔ کیا اٹوے پر ہی چڑھا رہے گا۔
ہماری پڑھنے کی رفتار خاصی تیز تھی اس لئے ایک بچوں کی ناول 24 گھنٹے سے پہلے چاٹ جایا کرتے۔ اس لائبریری پر جیسا کہ پہلے بتایا کہ جھمگٹا لگا رہتا تھا۔ ایک زمانے جو رش ویڈیو شاپ پر ہوا کرتا تھا کہ فلمیں کرائے پر لینے والوں کی لائنیں لگی ہوتیں وہی رش ہم نے اپنے بچپن میں لائبریری پر دیکھا ہے۔ کرائے پر کتابیں لینے والے کبھی کرایہ دینے میں آنا کانی کرتے یا کسی پر ادھار زیادہ چڑھ جاتا تو کبھی کبھی بات توتکار سے آگے بھی بڑھ جایا کرتی۔ اگر کوئی کہتا کہ تم پیسے زیادہ بتا رہے ہو تو ایسے موقع پر پہلے کرائے کی کتابوں کا رجسٹر بطور ثبوت دکھایا جاتا۔ اگر پھر بھی ادھار کا معاملہ نہ سدھرتا تو پھر اس کے لئے لائبریری کے مالک نے ایک موٹا ڈنڈا بھی رکھا ہوتا کیونکہ بقول شخصے جب دھندہ روڈ پر ہورہا ہو تو ڈنڈا بہت ضروری ہے۔ شریف گاہکوں کے ساتھ تمیز تہذیب سے پیش آیا جاتا۔ اگر کوئی مستقل گاہک ہوتا اور باقاعدگی سے پیسے دیتا تو بطور خیر سگالی دو دن کے کرائے کو ایک دن کا کردیا جاتا۔ اس زمانے میں اگر کبھی کوئی خاتون آجاتی تو لائبریری پر کھڑے لوگ ایک طرف ہو جاتے خیر کراچی میں یہ اخلاقیات تو آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔ قصہ مختصر ہم نے اس لائبریری سے جی بھر بچوں کے ناولز اور رسالے پڑھے۔ کچھ عرصہ بعد یہ شوق بھی دم توڑ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ زندگی میں اخبار آگیا تھا۔ سیاسی خبروں اور معلومات کے ہم شروع سے رسیا تھے اس لئے برابر والی خالی کے ہاں اسکول اور کالج کے ابتدائی سالوں میں دوپہر کو اخبار پڑھے بغیر بقول والدہ کھانا ہضم نہ ہوتا۔
حسن بھائی خالہ کے بیٹے، ایک زمانے میں ہمیں میتھس بھی پڑھایا کرتے تھے۔ حسن بھائی کو ایک زمانے میں جاسوسی ناولز پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ مین روڈ کے ایک گھر میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی جس کے مالک ملگچے بالوں اور منہ میں پان دبائے بیٹھے رہتے تھے۔ لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے والوں کی تعداد کم تھی۔ ہم حسن بھائی کے ساتھ ناول واپس کرنے اور لینے جایا کرتے تھے مگر کبھی کسی ناول کی طرف دھیان نہیں گیا۔ یہ چوتھی لائبریری ہمارے دکان سے زیادہ نہ تھی۔ لائبریری والے صاحب ایک صاحب بصیرت شخص تھے۔ ظاہری شکل و صورت سے جو تاثر ملتا گفتگو سے بالکل زائل ہوجاتا ہے۔ صاف لگتا کہ لائبریری کا پیسے سے دور پرے کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ چوتھی لائبریری قائم تو کافی دن رہی مگر ہم اس وقت جاتے رہے جب تک حسن بھائی کو ناول پڑھنے کی چاٹ لگی رہی۔
یہ بات شاید حیران کن ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں (معذرت کے ساتھ ) کبھی کوئی جاسوسی ناول۔ تو پھر خواتین کا ناول نہیں پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں میٹرک کے دنوں میں ہی لڑکوں کو جاسوسی ناولز پڑھنے کا چسکہ لگ جاتا مگر میں نہ جانے کیوں اس تعمت کی طرف راغب نہ ہو سکا۔ ابن صفی اور پھر ان کے دیگر ہم نام اور مظہر کلیم اس وقت کے مشہور ناول لکھنے والے ہوا کرتے تھے مگر ابن صفی کا کوئی ہم سر نہیں تھا۔
ابن صفی صاحب کو میں نے اسکول کے زمانے میں دیکھا تھا۔ آپ کی رہائش فردوس کالونی میں تھی۔ ہمارے اسکول کے عقب میں آپ کا گھر تھا۔ ہم ریسس کے وقت جب کبھی موقع ملتا تو پیچھے کے چھوٹے گیٹ سے کچھ دیر کے لئے باہر نکل آتے۔ ایسے میں کبھی ان کو گھر کے سامنے چہل قدمی کرتے دیکھا۔
اب آتے ہیں پانچویں اور آخری لائبریری کی طرف۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ جب ابن صفی کا نیا ناول آتا تو لائبریری پر رش لگ جاتا۔ ہمارے محلے میں بعد میں کھلنے والی لائبریری کا مالک بہت ہوشیار تھا۔ وہ ایک ناول کے دو حصے کر کے انہیں کرائے پر چلاتا ہے۔ میرے ہم عمر چچا زاد بھائی ابن صفی کے دیوانے تھے۔ اگر وہ دستاب نہ ہوں تو مظہر کلیم، نجمہ صفی اور اللہ جانے کس کس کو پڑھ لیا کرتے۔ سب سے مزے کی صورت حال اس وقت پیش آتی کہ جب چچا زاد بھائی ناول لے کر گھر آتا تو چچا پہلے ہی اس پر قبضہ کر لیتے اور وہ منہ دیکھتا رہ جاتا۔ چچا زاد کا نام نجمی تھا اس لئے پھر میں اسے ایک عرصے تک نجمی صفی کہتا رہا۔ اب قدریں بدل گئی ہیں۔ پہلے ہر محلے میں دوچار لائبریریاں ضرور ہوتیں۔ اب لائبریری تو دور کی بات کتابوں کی دکانیں ڈھونڈنی مشکل ہیں۔ اگر کسی سے کتابوں کی دکان کا پوچھو تو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے ہم کسی اور سیارے سے آئے ہیں۔ اب کسی کو کیا پتہ کہ ہم بچپن میں سیارہ ڈائجسٹ پڑھ کر آئے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...