Monday 8 June 2020

Article # 58 آدھی رات کا تیل جلانا ۔۔۔۔ پھر آنا ۔ کلائنٹ کے قصے ، مزے مزے کے(5)

Article # 58

کلائنٹس کے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے (5)

آدھی رات کا تیل جلانا ۔۔۔۔ پھر آنا !


تحریر : اظہر عزمی 
(ایک اشتہاری کی باتیں)

 پوری زندگی کلائنٹ کلائنٹ کھیلتے کھیلتے گذری ہے ۔ مختلف الخیال و کھال لوگ ملے ۔ کچھ بالغ النظر ہوتے ہیں تو کچھ غالب المزاج ۔ کچھ ایڈورٹائزنگ کو سمجھتے ہیں اور کچھ آپ کو سمجھا دیتے ہیں ۔ایڈورٹائزنگ میں آگر آپ کا تعلق شعبہ تخلیق سے ہے تو یہ سوچ کر آئیں کہ یہ پھولوں کئ سیج نہیں ۔ تعمیل ارشاد میں آپ کو وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جس کی فرمائش کی جا رہی ہو ۔ 

میٹنگ میں اگر تخلیق کار مراد کاپی رائٹر / کانسپٹ رائٹر خود بریف لے رہا ہے تو میں اسے فرسٹ ہینڈ بریف کہتا ہوں  اور یہ بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچا لیتی ہے ۔ وجہ بہت سادہ سی ہے ۔ بریف میں الفاظ کے ساتھ ساتھ کلائنٹ کا بتانا اور مخصوص انداز سے کسی بات پر زور دینا ہمارے لئے بڑا معاون ہوتا ہے ۔ چہرے کے تاثرات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ دوران گفتگو کلائنٹ اپنی سوچ بھی بتا دیتا ہے ۔ کچھ تو آپ کو بنیادی کانسپٹ بھی بتا دیتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے کہا کہ کچھ غالب المزاج بھی ہوتے ہیں ۔ اگر تخلیق کار اس وقت پوری طرح تازہ ذہن کے ساتھ ہو تو دوران بریف ہی کانسپٹس کا ابتدائی خاکہ بننا شروع ہوجاتا ہے ۔ 

سالوں پہلے ایک کلائنٹ  سے براہ راست بریف لیتے ہوئے ذہن میں خیال / خیالات  آدھمکے۔ آفس آئے تو انہیں سینہ قرطاس پر منتقل کر دیا ۔ دو فون بعد کلائنٹ کے پاس پہنچے ۔خیال تھا کہ وہ مسرور و شاداں ہوں گے ۔ مگر جناب ان کا تو موڈ ہی آف ہوگیا ۔ بولے آپ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ میں نے آپ کو اپنے فلیگ شپ برانڈ کی بریف دی ہے اور آپ اسے روٹین کا کام سمجھ رہے ہیں ۔ جائیے ! دس بارہ دن دماغ لڑائیے پھر آئیے ۔ اگلی میٹنگ کے لئے دن اور وقت کا تعین ہوا اور ہم  نے واپسی کی راہ لی ۔ آفس آتے ہی رائٹنگ پیڈ ایک کونے پر رکھا اور دوسروں کاموں میں لگ گئے ۔ وہ دن بھی آگیا ۔ پوچھا گیا کچھ کیا ۔ہم نے کہا ہاں سوچ رہے ہیں ۔ ہوتے ہوتے دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا ۔ 3 بجے کی میٹنگ تھی ۔ میں اور کلائنٹ سروس مینجر ساتھ نکلے ۔ اس نے پھر کہا کہ بھائئ کچھ لکھ لیا ہے ۔ ہم نے کہا تم گاڑی چلاو ۔ میں دماغ چلاتا ہوں ۔ راستہ کوئی 15 سے 20 منٹ کا ہوگا ۔

راستے میں کانسپٹس  لکھنا شروع کئے ۔ آپ کو تو پتہ ہے دوپہر کے کھانے کے بعد طبیعت سستی کی طرف مائل ہوتی ہے ۔ ایک کانسپٹ راستے میں لکھ مارا ۔ اس دوران کلائنٹ کا دفتر آگیا ۔ میں نے کلائنٹ سروس مینجر سے کہا کہ تم کلائنٹ کے دفتر پہنچو  ۔ میں اس دوران گاڑی میں بیٹھ کر ہی دوسرا کانسپٹ لکھ لیتا ہوں ۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا ۔ میں نے کہا ہاں کلائنٹ وقت کا پابند ہے اور ہم وعدے کے ۔ میں نے کہا گاڑی کی چابی مجھے دو ، بس میں ابھی آیا ۔ کہنے لگا کلائنٹ گیا تو تم وجہ ہو گے۔ میں نے ایک اور کانسپٹ جیسے تیسے لکھا اور وقت مقررہ پر اوپر پہنچ گیا ۔ پہلے تو کلائنٹ سے ایک تقریر دلپذیر کی اور اس بات کی تائید کی کہ مستند تھا آپ کا فرمایا ہوا ۔ اس کے بعد دونوں کانسپٹس سنا دیئے ۔ اب کلائنٹ کے رسپانس کا انتظار تھا ۔

 یہ وقت بڑا جاں کنی کا ہوتا  ہے ۔ سمجھیں میٹرک کا رزلٹ آگیا ہے اور آپ اپنا نمبر ڈھونڈ رہے ہیں ۔ کچھ کلائنٹ تو کانسپٹ سناتے ہی رائے زن ہو جاتے ہیں ۔کچھ ذرا تحمل مزاجی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ نتیجے کا انتظار تھا ۔ کلائنٹ سروس مینجر مجھے ٹانگ مارے کہ اب دیکھو کیا ہوتا ہے ۔ پھر کچھ ایسا ہوا جو کم کم ہی ہوتا ہے ۔ کلائنٹ اٹھا ، لگا کہ کمرے سے گیٹ آوٹ کا مژدہ سنائے گا لیکن یہ کیا ؟ اس نے تالی بجانا شروع کردی ۔ تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ کہنے لگا  دیکھیں انہیں کہتے ہیں کانسپٹس ، اس دن تو بس آپ خانہ پری کر لائے تھے ۔ اب انہیں کیا بتاتے کہ آج کھانا پری کر کے آئے ۔

 بہت خوش تھے ۔انگریزی میں گویا ہوئے :

You had to burn midnight night for creating such out of the box concepts and you did it.

اب انہیں کون بتاتا کہ آپ آدھی رات  کے تیل جلانے کی بات کر رہے ہیں ۔ اس بار تو تلوں میں تیل تھا ہی نہیں ۔ جو تھا وہ پہلے ہی گوش گذار کر دیا تھا ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...