Saturday 4 May 2019

قسط نمبر 3 ۔ ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟ Article # 25


Article # 25




قسط نمبر 3 ۔
ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟

ایک ہفتہ میں ملازمت (انٹرنشپ) سے فارغ




اشتہارات ہیں زمانہ کے ہ
گذشتہ سے پیوستہ
تحریر:اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)




میں نے حواس درست کرتے ہوئے کہا "جی"۔ ٹیلی فون آپریٹر نے خلاف توقع بتایا کہ وہ ایک کورئیر سروس سے بات کر رہی ہے ۔ آپ نے درخواست دی تھی (اللہ جانے اس زمانہ میں تو کلاسیفائیڈ اور ڈسپلے کسی بھی ایڈ میں تعلیمی قابلیت گریجویٹ لکھی ہوتی تو ہم درخواست روانہ کردیا کرتے تھے ) ۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ کورئیر سروس کمپنیز میں زیادہ تر ملازمتیں رائیڈرز (موٹر سائیکل چلانے والے) کی ہوتی ہیں اور ہم نے زندگی میں کبھی اس"گھوڑا سواری" کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا۔ اس کمپنی کا آفس زینب مارکیٹ سے قریب بلڈنگ میں تھا ۔ ہم یہ سوچ کر کہ شاید کوئی آفس جاب ہو انٹرویو کے لئے پہنچ گئے۔ کوئی بہت اوسط درجہ کی کورئیر سروس تھی۔ انٹرویو کیا ہی ہونا تھا۔ان کو رائیڈر چاھیئے تھا اور قسمت ہمیں کاپی رائٹر بنانے پر تلی بیٹھی تھی۔ یہاں سے باہر نکلے تو MAZ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا آفس نظر آگیا۔ یہ زعم کہ کاپی رائٹرنگ کی ابجد سے واقف ہیں ،گھس گئے۔ یہ ایجنسی مختار آعظمی کی تھی جو اس زمانہ میں اور اس کے بعد بھی پاکستان ایڈورٹئزنگ ایسوسی ایشن کے سرکردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہاں عباس آعظمی اور ذوالفقار آعظمی سے ملا (یقینا انہیں یاد بھی نہیں ہوگا)۔ انہوں نے "ٹرائی" کے لئے کہا کہ یو ایس ایڈ پر کچھ لکھ لائیں۔ اب یہ یاد نہیں کے وہاں دوبارہ گئے کہ نہیں لیکن اس وقت کا لکھا ایک سلوگن یاد ہے:
یو ایس ایڈ کا منصوبہ
تعمیر و ترقی صوبہ صوبہ
مارے مارے پھر رہے تھے۔ محلہ میں ایک آغا ڈرائی کلینرز تھی جہاں دن میں ہم وقت گذادی کے لئے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ یہ پہلے مارٹن روڈ پر رہا کرتے تھے۔ ان کے والد ریڈیو پاکستان میں ملازم تھے۔ انہیں ہم اپنی بپتا سنایا کرتے تھے۔ ایک دن بولے کہ مارٹن روڈ پر ہمارے والد کے صحافی دوست رہتے ہیں وہ کسی میگزین میں ہوتے ہیں۔ آپ وہاں اپلائی کر دیں۔نام یاد نہیں البتہ یہ یاد ہے کہ بنگالی تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اہلیہ چونکہ کراچی کی تھیں اس لئے رک گئے۔ بہت شریف آدمی تھے۔ انہوں نے بھی اپنی سی کوشش کی مگر سب بے سود ۔ ایک دن انہوں نے مجھے موجودہ سب میرین چورنگی کے پاس یونائیٹڈ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے اکاونٹس ڈیپارٹمنٹ میں ابا علی صاحب کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے تو چھوٹے ہی کہہ دیا جب کہیں کاپی رائٹر کی جاب ہی نہیں کی تو ملازمت کہاں سے دے دیں۔ہم منہ لٹکائے واپس آگئے ۔اس دوران IAL بھی رشید احمد رشید سے بھی ملاقات ہوئی ۔انتہائی نستعلیق انسان ہیں۔ کافی عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ کبھی کبھی شبیر رعنا ( اداکار) کے ذریعے خیریت مل جاتی ہے۔
ایک مرتبہ نئئ کھلنے والی پریزم ایڈورٹائزنگ کا اشتہار آیا۔ یہ ایجنسی نفیس صدیقی ایڈوکیٹ نے بنائی تھی جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے اور یہ جماعت اس وقت برسر اقتدار تھی ۔ یہاں کسی عبداللہ صاحب نے میرا انٹرویو لیا لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔
حالات بے قابو ہوئے جارہے تھے مگر ہمارا کاپی رائٹر بننے کا جنون بڑھتا جا رہا تھا۔ سید صادق حسین کی غزل کا یہ شعر بار بار پڑھا کرتے۔(اکثر لوگ اس شعر کو علامہ اقبال کا خیال کرتے ہیں)
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
یہ سب کچھ بہت تیز تیز ہورہا تھا کیونکہ ہمیں جلدی ملازمت پر چڑھنا تھا۔ ایک دن پھر چچازاد بہن بھاگی بھاگی آئی اور بولی کہ ببا بھائی آپ کا فون آیا اور اس مرتبہ فون ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی تھا جہاں ہم نے ٹرینی کاپی رائٹر کے لئے اپلائی کیا تھا۔ یہ ایجنسی پنجاب کالونی کے اس وقت (1988) کے سگنل کے ایک جانب بنگلے میں واقع تھی اور نام تھا کورل ایڈورٹائزنگ ۔ ہم وقت مقررہ پر پہنچے۔مس یاسمین وہان کریٹیو ڈائریکٹر تھیں۔ انتہائی با اعتماد شخصیت کی حامل ۔ میرا کیونکہ گھر سے باہر پروفیشنل خواتین سے پہلی مرتبہ پالا پڑا تھا ۔اس لئے میں واقعی ان کے اعتماد سے متاثر بلکہ مرعوب ہوا۔ پہلے بھی بتا چکا ہوں ۔ ٹرینی کاپی رائٹر لگا یعنی کہ انٹرنشپ تھی۔ فوری طور پر آفس جانے کے لئے والد صاحب نے ہنگامی بنیادوں علی ٹیلرز سے دو قابل ملازمت پینٹیں سلوائی دیں۔
صبح پہلے 4H سے ایمپریس مارکیٹ آتے اور اس طویل القامتی کے ساتھ بالعموم کھڑے ہو کر Z2 ویگن میں پیٹھ کر پنجاب کالونی کے سگنل پر اتر کر سامنے بنگلہ میں واقع کورل پہنچتے۔ نئے نیے اے سی وہ بھی یخ بستہ میں بیٹھے تو جسم ہی ٹھنڈا پڑ گیا۔ پیروں تک میں ٹھنڈ سرایت کر گئی۔ نئے نئے تھے مس یاسمین نے پرانے انگریزی ایڈ کے مجلد کتابیں پکڑا دیں اور کہا کہ آپ ابھی صرف ایڈ دیکھیں۔ کمپنی کے مالک شہریار کو ہم نے بس آتے جاتے دیکھا۔ خوش شکل اور خوش لباس شخص تھے ۔ سنا ہے کہ پہلے کسی ائیر لائن میں جہاز پر ہوا کرتے تھے۔ دوپہر کو کھانا کھانے خاموشی سے دھلی کالونی چلے جایا کرتے۔ مطمئن تھے کہ زندگی کسی ڈگر پر آئی ۔ محلہ اور خاندان میں بچوں کی ماڈلنگ کی فرمائش آنا شروع ہو گئیں ۔اب ہم انہیں کیا بتاتے ہم وہاں تین میں ہیں نہ تیرا میں۔لیکن ہم نے یہی ظاہر کیا کہ کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔ ایک دن اس زمانہ کے مشہور ڈریس ڈیزائنر تنویر جمشید (TJs) سے ایک میٹنگ ہوئی تو گنتی پوری کرنے کے لئے ہمیں بھی بٹھا دیا گیا۔ پوری میٹنگ میں سہمے سہمے بیٹھے رہے۔
ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا کہ بم پھٹ گیا۔ شہریار نے تین چار لوگوں کو فارغ کردیا۔ ہمارے لئے وجہ یہ بتائی گئی کہ ہم اس جاب (کاپی رائٹر) کے اہل نہیں۔ ہم سنتوش کمار (ہر گھر کا سب سے پہلا لڑکا ) سے اجڑی سہاگن میں تبدیل ہوگئے۔ ہمیں یقین سا تھا کہ واقعتا ہم اہل ہی نہیں لیکن سلام کرتا ہوں مس یاسمین کہ انہوں نے میری ہمت بندھائی اور کہا کہ تم ایسا بالکل نہ سوچو۔ شہریار نے کوئی مہنگا آرٹ ڈائریکٹر رکھ لیا ہے۔اس کی تنخواہ پوری کرنے کے لئے وہ لوگوں کو فارغ کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ابھی تم نے کون سا ایڈ لکھا جو صلاحیتوں کا امتحان ہو۔ مس یاسمیں نے کہا تم آج سے یہاں سے فارغ ہو مگر صبح آفس آو۔ میں تمھیں ایک اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھیج دوں گی ۔ ویاں ویکینسی ہے۔ ہم کو 265 روپے شاید دیئے گئے۔ Z2 میں بیٹھے۔ ایمپریس مارکیٹ آئے۔ وہاں جہانگیر پارک کے ساتھ دکانوں میں پوری مصالحہ لگی مچھلیاں دیکھ کر بڑا جی للچاتا تھا۔ ہم نے سوچا نوکری گئی تو گئئ اپنی مچھلیوں والی خواہش تو پوری کر لیں۔ 50 یا 60 جو 1988 میں بڑی رقم تھی ۔خوب دل بھر فرائی مچھلی کھائی۔ بس پکڑی، گھر آئے اور یہ روح فرسا خبر سنا دی مگر ساتھ یہ بھی نوید سنا دی کہ کل ایک دوسری جگہ بلایا گیا ہے۔
دوسرے دن ہم کورل ایڈورٹائزنگ پہنچے تو مس یاسمین نے کہا کہ آپ ندیم فاروق پراچہ کے پاس ونگز کمیو نیکیشنز چلے جائیں جو کہ ڈیفنس فیز 2 میں اگفا لیبارٹریز کے عقب میں ہے۔ اس زمانہ میں پنجاب کالونی سے وہاں تو کوئی بس ویگن نہیں جاتی تھی۔ شدید گرمی میں ہم کوئی ایک بجے پنجاب کالونی سے نکلے اور سیدھے پیدل چلتے ہوئے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ونگز پہنچے ۔ ندیم فاروق پراچہ سے ملے ۔خیال تھا کہ ملازمت مل جائے گی مگر ندیم فاروق پراچہ نے کہا کہ فی الوقت تو کوئی جگہ خالی نہیں ۔ امید کے دیئے پھر بجھتے نظر آئے۔
ندیم فاروق پراچہ نے جواب تو ٹکا سا دیا لیکن ایک امید بندھا دی اور کہا کہ آپ میرے والد فاروق پراچہ کے پاس کل چلے جائیں وہاں ویکینسی ہے۔ میں ان سے آپ کا بتا دوں گا۔ ہم پھر گھر کو لوٹ چلے۔ دوسرے دن لال کوٹھی ،شارع فیصل کے اسٹاپ پر اترے اور میں روڈ پر واقع بانڈ ایڈورٹائزنگ کے آفس جا پہنچے۔ فاروق پراچہ سے ملاقات ہوئی۔ یقین تھا کہ جاب ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ندیم نے آپ کا ڈکر تو کیا تھا مگر ابھی کاپی رائٹر کی جگہ خالی نہیں۔ امیدوں کا سلسلہ ٹوٹا نہیں تھا ۔ فاروق پراچہ نے کہا کہ آپ میکسم ایڈورٹائزنگ چلے جائیں۔ وہاں ویکینسی ہے۔ میں فون بھی کئے دیتا ہوں۔
میکسم اس زمانہ میں عبد القدوس صاحب کی ہوا کرتی تھی اور عائشہ باوانی کالج کے سامنے ڈپوپلیکس اپارٹمنٹ میں تھی۔ ہم اسی وقت لال کوٹھی سے میکسم پہنچ گئے۔ عبدالقدوس صاحب نے بھی ٹکا سا جواب دیا۔ پچھلے والوں کی طرح انہوں نے امید کا کوئی دیا بھی نہیں دیا اور ہم بے روزگار دکھے دل کے ساتھ گھر چل دیئے۔ اداسی تھی۔ گھر پہنچے ۔ چاچا کے ہاں سے ونگز ندیم پراچہ کو فون کیا۔ ساری روداد سنائی۔ ندیم نے پھر میری ہمت بندھائئ اور کہا کہ میں آج پھر والد صاحب سے بات کروں گا۔ آپ کل مجھے صبح میں فون کر لیں۔ صورت حال کو د یکھتے ہوئے کوئی خوشگوار خبر ملنا مشکل لگ رہا تھا۔ اب ایک طرف مشکل یہ بھی تھی کہ ہم گھر میں کیا جواب دیں۔ بس والد صاحب یہی پوچھتے "ہاں میاں کیا رہا ؟" جواب کہیں سے بھی ہاں کا نہیں آرہا تھا۔
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
جواب سوچ کر ہم آج بھی نہیں آئے

آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...