Thursday 4 July 2019

روح تو گیٹ سے اندر نہیں آتی مگر ایک ماں نہیں مانتی۔آرٹیکل # 32


Article # 32



جنازے گیٹ سے نکلتے ہیں
روح تو گیٹ سے اندر نہیں آتی
 مگر ایک ماں نہیں مانتی


مختصر مختصر

تحریر :اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں) 





یہ وقت بھی عجیب ہے ۔ کہیں خوشیوں کے میلوں میں کھنکھناتی ہنسی ہوتی تو کہیں غموں کی صف ماتم میں نوحہ کناں چیخیں اور  دل چیر دینے والی سسکیاں روح تک کو جھنجوڑ دیتی ہیں ۔ وقت وہ کچھ کر گذرتا ہے کہ ہم سوچیں تو سانس رکی کی رکی رہ جائے مگر جب گذرتی ہے تو سانس چلتی رہتی ہے۔ یہی کارخانہ قدرت کی حکمت ہے۔

میری ایک عزیزہ ہیں ۔ بیوہ ہیں ۔ پہلے جوان بیٹا دو بیٹے چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سویا ہے اور دو تین سال میں باپ نے اسی قبرستان کی ایک قبر کو آباد کردیا۔ 

جب بیٹے کا انتقال ہوا تو  ہماری یہ عزیزہ ہر جمعرات مغرب کے وقت گھر کے بڑے گیٹ کا چھوٹا پٹ ہلکا سا کھول کے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ ممکن ہے اب ابھی ایسا کرتی ہوں۔ ایک دن  میں اسی وقت ان کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے بے پردگی کے خیال  سے گیٹ کا پٹ بھیڑنا چاھا تو بولیں "نہ بیٹا یہ بند نہ کر وہ آتا ہوگا"۔ میں نے کہا آئے گا تو دروازہ کھٹ کھٹا لے گا " بولیں "اب دروازہ کہاں کھٹ کھٹاتا ہے" میرا خیال تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی بات کر رہی ہوں گی جس کے آفس سے آنے کا وقت ہو چلا تھا ۔چند لمحے خاموش رہ کر بولیں "آج جمعرات ہے۔ دیکھ میں نے بیڈ والا کمرہ بھی صاف ستھرا کردیا ہے "۔

میں نے کہا کس کی بات کر رہی ہیں۔ چھوٹا بیٹا تو اوپر رہتا ہے"۔ بولیں "آج جمعرات ہے۔ اس (بڑے بیٹے) کی روح آئے گی۔ میں ہر جمعرات کو اسی طرح گیٹ کا پٹ کھلا رکھتی ہوں ۔ دروازہ بند دیکھ کر کہیں چلی نہ جائے اور دیکھ اس کا بیڈ روم بھی صاف ستھرا کر کے رکھدیا ہے۔ آئے تو کچھ دیر آرام کر لے"۔میں نے کہا کہ آپ اندر ہی بیٹھ جایا کریں۔بولیں "نہیں میں چاھتی ہوں کہ جب وہ گیٹ سے اندر آئے تو سب سے پہلے مجھے دیکھے"۔ میں نے کہا کہ چلیں وہ دیکھ لیتا ہوگا مگر آپ کیسے دیکھتی ہوں گی ۔ بڑے یقین سے کہنے لگیں " وہ جیسے ہی آتا ہے مجھے پتہ چل جاتا ۔ ماں ہوں ، خوشبو آجاتی ہے ۔ چہرہ تو ہر وقت میری نگاہوں میں رہتا ہے ۔ آخری بار وہ اسی گیٹ سے تو باہر گیا تھا ۔ اب بتا میرے پاس نہیں آئے گا تو کہاں جائے گا "۔

 اب میں ان کو کیا بتاتا کہ جنازے گیٹ سے جایا کرتے ہیں ۔ روح کو کسی گیٹ / دروازے کئ کہاں ضرورت ہوتی ہے لیکن میں ایک ماں کی محبت گیٹ ہر روکنا نہیں چاھتا تھا۔ میرا صبر جواب دے رہا تھا ۔ اس لئے خاموشی سے اٹھ کر آگیا۔ جاتے جاتے بولیں " ارے رک ! کہاں جا رہا ہے۔ وہ آتا ہوگا ۔ تجھے بھی دیکھے گا تو بہت خوش ہوگا" ۔ انہوں نے اتنے پیار سے کہا کہ کچھ کہے بنا جانا بری بات تھی۔ میں نے بہانہ کیا کہ مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا۔ بولیں " دیکھ اب یہ جمعرات جائے گی تو اگلی جمعرات کی آس میں دن گنوں گی "۔

 میں چاھتے ہوئے بھی نہ رک سکا اور نم آنکھوں کے ساتھ گلی میں آ کھڑا ہوا اور سوچنے لگا کہ جن کے بیٹے ان کی آنکھوں کے سامنے ابدی رخت سفر باندھ لیں وہ زندہ کیسے رہتی ہیں ؟سانس کیسے لیتی ہیں ؟ جواب خود ہی آگیا ان کی یادوں کے سہارے جیتی اور سانس لیتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...