Monday 8 July 2019

آصف رضا میر نے دی ڈاکیومینٹری اور ہم نے چلادی قینچی ۔ آرٹیکل # 33


Article # 33


آصف رضا میر نے دی ایک ڈاکیومینٹری
اور ہم نے چلا دی آڈیو پر قینچی



تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

کچھ لوگ اس انداز سے بات کرتے ہیں کہ سامنے والا ان سے مرعوب یا متاثر ہوجاتا ہے ۔ ہمارے اپنے ساتھ ایک بڑی برائی یہ رہی کہ ذرا سی بھی معلومات اگر بغیر کسی اضافت کے بھی بتائیں تو یہ تاثر آنے لگتا ہے کہ ہم آگے کی چیز ہیں ۔  لوگ چاھتے ہیں کہ یہ خوبی ان میں آجائے مگر ہم تو یہ ساتھ لے کر دنیا  میں آئے ہیں۔ اپنی اس خوبی یا خامی کو آپ جو بھی کہہ لیں ۔ کبھی کبھی بڑے برے پھنستے بھی ہیں اور کبھی کبھی تعریفوں کے پل بھی باندھے جاتے ہیں  اورکبھی بڑے بڑے جاں گسل پلوں سے بھی گذرنا پڑتا ہے ۔ اگر گر جائیں تو کوئی اٹھانے بھی نہیں آتا ۔ واقعہ میں سنا دیتا ہوں ، فیصلہ آپ سنا دیجئے گا۔

1991-2 کی بات ہے ۔ ایجنسی بلیزون ایڈورٹائزنگ ہے اور علاقہ ڈیفنس فیز II ایکسٹینشن ہے ۔  دوپہر کا وقت ہے ۔ میں کسی کام ( کھانے کے بعد پان ہی لینے گیا تھا) سے گراونڈ فلور پر ہی تھا کہ ریسیپشنسٹ شہناز محمد علی کی آواز آئی " اے تجھ سے آصف صاحب بات کریں گے" اور یہ کہہ کر کریڈل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔  وہ وہاں سے گویا ہوئے "آپ کو معلوم تو ہوگا کہ کل کلائنٹ کی نئی گاڑی کی لانچنگ سیریمنی ہے "۔ میں کہا کہ جی معلوم ہے۔ بولے " ایمرجنسی ہوگئی ہے ۔کل کی تقریب میں ایک ڈاکیومینٹری بھی دکھائی جانی ہے   وہ ہے تو انگلش میں مگر اب اس کی آڈیو اردو میں ہوگی" ۔ میں نے سوچا کہ اتنے کم وقت میں اردو ترجمہ ، آڈیو ریکارڈنگ اور پھر اس ڈاکیومینٹری پر اس کو بٹھانے (ایڈیٹنگ) میں تو بہت وقت لگ جائے گا۔ میں کہا کہ آصف صاحب وقت کم ہے تو بولے تقریب تو وقت پر ہوگی اور اسے دکھایا جانا بھی ہے۔ اب آپ دیکھ لیں ۔ لہجہ بتا رہا تھا کہ دا گنجائش نشتہ۔اگر آپ نے نہیں دیکھا تو پھر ہم آپ کو دیکھ لیں گے ۔ دوسری بات یہ کہ یہ جاب اکیلے آپ کو ہی کرنی ہے۔ کوئی اس میں شریک نہیں ہوگا ( اور شریک ہو کر بھی کیا کرے گا ۔آصف صاحب سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ کام ہمارے بائیں ہاتھ کا ہے )۔ مطلب بہت واضح تھا کہ فورا نوکری بچاو  تحریک کے رکن بن جائیں ۔

 ہمارا مسئلہ یہ آرہا تھا کہ ڈاکیومینٹری پر ہم نے بھی پہلے کام نہیں کیا تھا ۔ ٹی وی کمرشل کی ایڈنٹنگ پر ضرور بیٹھے تھے مگر ڈائریکٹر کی ناک میں دم کرنے کے لئے۔ حالات کسی طرح بھی سازگار نہ تھے ۔ سب سے پہلے تو مشہور وائس اوور آرٹست حسن شہید مرزا مرحوم سے بات کی ۔ یہ اپنے وقتوں میں ریڈیو پاکستان اور ٹی وی اشتہارات کی سب سے جانی پہچانی آواز تھی۔ ان ہی کا اپنا ریکارڈنگ اسٹوڈیو بھی تھا۔ 

سب سے پہلے مرحلہ تھا انگلش اسکرپٹ کا اردو ترجمہ کرنے کا ۔ تو صاحب ہم اس کام میں  جت گئے ۔ 4 بجے تک کام مکمل کیا ۔ رکشہ پکڑی اور  طارق روڈ لبرٹی چوک کے قریب واقع ڈوپٹہ گلی میں پہلے الٹے ہاتھ پر مڑ کر رکشہ کو رکوایا اور پہلی یا دوسری منزل پر حسن شہید مرزا مرحوم کے اسٹوڈیو جا پہنچے۔ حسن صاحب اپنے کام کے ماہر تھے۔ اسکرپٹ میں ایک دو لفظوں کی تصحیح کی اور ساونڈ پروف کمرے میں جا پہنچے۔ ہیلو ہیلو کر کے بولے " ہاں اظہر ، آدیو کا ٹیمپو اور موڈ کیا رکھنا ہے ۔ پہلا پل آگیا تھا۔ بھائی ، ہم بالکل صفر تھے وجہ یہ تھی کہ ہم نے تو ڈاکیومینٹری دیکھی ہی نہیں تھی ۔ ٹیمپو اور موڈ کیا بتاتے ۔۔ خاک ؟ ابھی ہم اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وہ خود ہی بولے "میں اسکرپٹ کو دیکھتے ہوئے آڈیو کردیتا ہوں ۔ ہم نے ہاں میں ہی سر ہلانا تھا ۔ ایک گھنٹے میں وہاں سے فارغ ہوئے اور بلیزون جا پہنچے ۔ خیال تھا کہ اب آیڈیٹنگ شروع کردیں گے۔ پتہ چلا کہ ایڈیٹر پی ٹی وی کے کوئی شان حیدر جنہیں پیار سے شانے کہا جاتا ہے ۔ وہ ایڈیٹنگ کریں گے۔

رات کا کہہ تو دیا تھا مگر یہ پتہ نہیں تھا کہ کتنے بجے ؟ آفس میں کل کے میگا ایونٹ کی تیاریوں کی وجہ سے بڑی گہما گہمی تھی ۔ ہمارا دل بھی لگا ہوا تھا کہ چلو وقت تو پاس ہو رہا ہے ۔ آصف صاحب سے پوچھا کہ شان حیدر کب آئیں گے تو جواب آیا رات بارہ بجے تک ۔ مطلب رات بہر صورت کالی ہونی تھی اور ہاں یہ بھی بتا دیا گیا کہ اڈیٹنگ مشین کلفٹن میں ہے ۔ یہ کام وہاں ہوگا ۔شانے سیدھا وہاں پہنچے گا ۔ آفس ڈرائیور آپ کو فلیٹ رسید کر آئے گا۔ اللہ اللہ کر کے بارہ بجے ہم اس وسیع اور سجے سنورے فلیٹ پہنچے تو آنکھیں خیرہ ہو گئیں ۔ شانے یار دوست قسم کا انسان  نکلا ۔ یہ الگ بات ہے  کہ جب کچھ عرصہ بعد میں  نارتھ ناظم آباد بلاک ایل شفٹ ہوا تو سامنے والا گھر شانے کا تھا ۔

 کام کا آغاز ہوا پہلے انگلش آڈیو والی ڈاکیومینٹری  دیکھی پھر اردو آڈیو سنی تو شانے نے کہا کہ باس آڈیو بالکل ٹیمپو اور موڈ پر کرائی ہے ۔ ہم کو اطمینان ہوا۔ اسی دوران فلیٹ کا بنگالی خانساماں کھانا لے آیا جو دیکھا تو بینگن پکا لایا ۔ جان جل کر رہ گئی کہ کیا ان گھروں میں بھی یہ سرتاج  بینگن پکتے ہیں  مگر جناب جب گرم گرم روٹی کے ساتھ پہلا نوالہ لیا تو یقین جانیں اتنے لذیذ بینگن زندگی میں پھر کبھی نہیں کھایے۔

بیگن کھا کر پان منہ میں رکھا اور ٹائم لائن پر اردو آڈیو بٹھانے بیٹھ گئے۔ ایک دو جملے تو بالکل صحیح بیٹھے مگر یہ کیا ابھی ایک سین کی اردو آڈیو مکمل بھی نہ ہوتی کہ دوسرا سین آجاتا  اور پرانے سین کی اردو نئے سین پر چڑھ دوڑتی ۔ جو لوگ انگلش سے اردو میں ترجمہ کرتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ اگر لفظوں اور دورانیہ کی بات کی جائے تو وہ انگلش سے اردو کرنے پر بڑھ جاتے ہیں ۔ جانتے تو یہ بات ہم بھی تھے مگر کام کی جلدی بہت تھی اور ترجمہ کرتے وقت  انگلش ڈاکیومینٹری کا صرف اسکرپٹ ہمارے پاس تھا ۔ اب ذر اگھبراہٹ نے دل میں ڈیرے ڈالے۔ شانے نے کہا کہ باس اس آڈیو کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بات سنکر ہمارے لئے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔ کس سے پوچھیں کہ اردو آڈیو سے کیا نکالیں ؟ بتانے والا کوئی نہ تھا ۔ ہم ہی سولی تھے اور ہم  ہی رام ۔ پہلے سوچا کہ جیسا ہے ویسا چھوڑ کر گھر کی راہ لیتے ہیں ۔پھر سوچا کہ اگر صبح یہ ڈاکیومینٹری نہ دی تو صبح جو ہمارے ساتھ ہوگا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔

کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے پھر یہ فیصلہ کیا کہ کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔ اب سین کی مناسبت سے جہاں سے چاھیں آڈیو پر قینچی چلا دیں ۔ وجہ بہت سادہ سی تھی کہ اگر کام ادھورا چھوڑتے ہیں تو بھی نکالے جائیں گے  اور اگر کام کر لیا اور آصف صاحب کی سمجھ میں نہیں آیا تو نکالے تو پھر بھی جائیں گے مگر کم از کم یہ تو ہوگا کہ اپنی پوری سی کوشش کی۔ اب ہم نے خدا کا نام لیا اور شانے سے کہا کہ اب جو میں کہوں کرتا جا ۔ شانے نے کہا کہ میں ذمہ دار نہ ہوں گا ۔ میں نے کہا کہ بھائی تو فری لانسر ہے تیرا کیا ہونا ہے ؟ جب قینچی ہم چلا رہے ہیں  تو چھری بھی ہماری گردن پر چلے گی۔ 

اب جناب ہم نے ملازمت چلے جانے کا خوف دل سے نکالا اور جہاں تک عقل و تجربہ نے کام کیا ایڈیٹنگ کراتے چلے گئے۔ شانے بھی خوش تھا کہ کام جلدی ختم ہو جائے گا۔ ساتھ ساتھ ہماری تعریفیں بھی کرتا جاتا ۔ فجر تک ڈاکیومینٹری نمٹائی جاچکی تھی۔ کیسٹ لیا ۔ شانے کی اپنی گاڑی تھی۔ آفس آئے ۔ پیون کو کیسٹ دی کہ صبح ہوتے ہی یہ آصف صاحب کے حوالے کر دینا۔گھر آئے اور یہ سوچ کر ملازمت گئی ، سو گئے۔ تقریب میں شریک نہ ہوئے۔ سہ پہر میں آفس پہنچے تو خیال تھا کہ کسی وقت بھی بے عزتی کا بگل بج جائے گا مگر ہم نے دیکھا کہ کوئی ہماری طرف دیکھ ہی نہیں رہا ۔ ہم نے سوچا معاملہ خاصا گھمبیر ہو چکا ہے ۔اس لئے حتمی گفتگو آصف صاحب ہی فرمائیں گے۔

کچھ دیر بعد آصف صاحب طلوع ہوئے اور ہم نے جانا کہ ہمارے غروب ہونے کا وقت آگیا۔ پاس آئے، کچھ لمحے دیکھتے رہے اور بولے " جواب نہیں ۔ بہت زبردست آڈیو بٹھائی ۔لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ پہلے انگلش میں لکھی گئی تھی ۔ ہم نے سکون کا سانس لیا۔ جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔
اچھا اب آپ کو میں سب سے مزے کی بات بتاوں ۔میں بیکار میں گھبرا رہا تھا ۔جب کسی کو انگلش آڈیو کا پتہ ہی نہیں تو مجھے پکڑتا کون ؟ مگر یہ بات اس وقت ذہن میں آئی جب مسئلہ ہی حل ہوچکا تھا۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...