Monday 22 July 2019

سردار فضل عباس انقلابی ۔ ایسے انقلابی روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔ آرٹیکل # 34


Article # 34


اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی


سردار فضل عباس انقلابی


ایسے انقلابی روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔


تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)



نام سنکر پہلی بات یہی ذہن میں آتی ہے کہ وطن عزیز میں یہ کون سا سردار ہے جو انقلابی ہے۔ چلیں بالفرض محال سردار کو ایک طرف رکھدیں تو لگے گا کہ یہ کوئی بہت بڑے سوشلسٹ یا کمیونسٹ رہنما ہیں  جنہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں ۔ ممکن ہے کسی پارٹی کے صوبائی رہنما کا تاثر ملے ۔ چلیں یہ تو لگے گا ہی کہ نئی نسل میں سوشلزم اور کمیونزم کے حوالے سے آپ کی فکری نشستیں کتنے نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکی ہوں گی ۔ صبح و شام میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب رہا ہو گا ۔

شخصیت کا تعارف خاصا مشکل مرحلہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مضمون کہاں سے باندھوں کہ ان کے شایان شان ہوسکے۔ چلیں ، غیر منقسم ہندوستان کے شہر علی گڑھ  کے قصبہ جلالی چلتے ہیں کہ جہاں آپ کے دادا سید اعجاز محمد تھانیدار ہوا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جہاں وہ نہ پہنچ پاتے وہاں ان کا بید لے جایا جاتا اور کام بن جاتا ۔ اس طرح آپ کو سردار فضل عباس انقلابی کے خاندانی جاہ و حشم کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا اور اس طرح آپ کو استبدادی نظام کے خلاف ان کی شخصیت کی جامعیت کا ادراک ہو سکے گا۔ جلالی کے حوالے سے تو اردو ادب میں استاد قمر جلالوی اور شکیب جلالی سے کون واقف نہ ہوگا۔ افتاد زمانہ کہہ لیں کہ سردار شہرت کے اس منصب پر فائز نہ ہوسکے۔

قیام پاکستان کے بعد سردار کے والد ۔ایک چچا اور پھوپھی سندھ کے شہر خیرپور میرس کے ایک قصبہ بنگلہ میں قیام پذیر ہوئے۔ کچھ عرصہ قیام کے بعد یہ خاندان خیرپور میرس آگیا۔ یہیں سردار کی ولادت باسعادت ہوئی۔ یہ 60 کے عشرے کے ابتدائی سال ہونگے ۔ والد نے فضل عباس نام رکھا۔  ہماری خوش نصیبی کہ ہم ان کے پھوپھی زاد بھائی کے اعزاز سے سرفراز ہوئے اور ہم عصر کہلائے۔

 ضمنا عرض کردوں کہ بچپن میں ہر سال جون جولائی میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ساحل پر آباد شہر کراچی سے آگ برساتے خیرپور روتے دھوتے جاتے اور جب تک وہاں رہتے یہی حال رہتا ۔ ماموں بہت خیال رکھتے ۔ہر خواہش جھوٹے منہ بھی کہہ دیتے تو پوری ہوجاتی ۔ فضل عباس بھی ہمارے دل بہلانے میں لگے رہتے ۔ شہر میں دو سینما تالپور ٹاکیز اور جاوید ٹاکیز تھے۔ جہاں روئے سینما ہال بٹھا دیئے گئے ۔ میں ان فلموں کو فلمیں دیکھنا نہیں کہتا ۔ بس سمجھ لیں رونے کا وقفہ کہہ سکتا ہوں ۔ دو فلموں کے نام ذہن میں رہ گئے ہیں ۔ خیبر میل ( اسلم پرویز) اور پتر پنج دریا واں دا (لالہ سدھیر) ۔

فضل عباس کا پیار کا نام دنی ہے (د پر پیش لگا کر پڑھیں)۔ پروردگار چھوٹے شہروں کی مہمان نوازی سے بچائے۔ مہمان اپنے میزبان کی مرضی کے بغیر کہیں جانا تو دور کی بات میزبان کی مرضی کے بغیر بات بھی نہیں کرسکتا ۔ یہی حال فضل عباس کا تھا ۔ بہت چھوٹے تھے مگر چھوٹے شہر کے بڑے مہمان نواز تھے۔ ویسے بھی ہمارے ننھیال کا غصہ اور ازخود روٹھ جانا مشہور ہے۔ آپ وجہ ہی تلاش کرتے رہ جائیں کہ وجہ کیا ہے۔ سو ننھیال کی یہ خوبی ان میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔

عمر کا پہیہ گھومتا رہا۔ اسکول سے کالج آئے۔ فضل عباس کا داخلہ خیرپور کے پولی ٹیکنک میں ہوگیا ۔ طبیعت سیلانی، خیرپور کا مخصوص ماحول اور کراچی میں پڑھنے کی چاہ انہیں کراچی کھینچ لائی اور ہمارے گھر قیام پذیر ہوئے۔  یہاں ان کی شخصیت کے پرت اور ہماری تفریح کی عادت نے تاریخی واقعات کو رقم کیا ۔ ہماری تین افراد کی تکون تھی ۔ فضل عباس ، نجمی مرحوم اور میں ۔ کوئی نہ کوئی تفریح لازمی تھی ۔

 کوئی دن جاتا کہ کوئی واقعہ نہ ہوتا ۔ جیب میں نہیں دھیلا ، دیکھنے چلے ہیں میلہ ۔ ایک مرتبہ بابرہ شریف کی فلم مس ٹینا عرشی سینما میں لگی ۔ ایک نیا آئیڈیا آیا۔ کتابوں کی دکان سے ایک روپے کی چندے کی چھوٹی رسید لی اور نکل پڑے ۔سب سے پہلے پہنچے راجہ طاہر کے پیٹرول پمپ اور کہا کہ صابری برادران کی قوالی کا پر وگرام میدان میں رکھا ہے ۔چندہ برائے فلم شروع ہوگیا۔ ایک جگہ پھنس گئے۔ چندہ دینے والے نے پروگرام میں شرکت کا اظہار کیا ۔ وہ اصل صابری برادران سمجھ رہا تھا ۔ ہم نے صابری برادران کورنگی والے کہہ کر جان چھڑائی۔ پیسے جمع ہوئے اور سکون سے فل ریفریشمنٹ کے ساتھ فلم دیکھ کر آئے ۔ دنی کی اس وقت کی صحت کے بارے میں  بالامبالغہ یہ کہا کہا جا سکتا ہے کہ مزید دبلا ہونے کی گنجائش نہ تھی اس پر طرہ یہ کہ چست قمیض شلوار کے ساتھ پہنا کرتے تھے۔

چست قمیض پر یاد آیا ۔ ہمارے کالج کے دنوں میں کیری پیکر نے دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ میچوں کا آغاز کیا ۔ ہم نے بھی محلے میں ایک ٹورنامنٹ  شروع کردیا ۔ اتفاق سے ٹیمیں بھی آگئیں اور ٹورنامنٹ جم گیا۔ ٹورنامنٹ کا فائنل ہورہا تھا اور مقامی کیری پیکر (دنی) انتظامات کے سلسلہ میں مصروف تھے کہ ان کے لباس کو دیکھکر ایک لڑکے نے اونچی آواز میں کہہ دیا " سنا ہے کمریہ نہیں ہوتی ان کے ، نہ جانے پاجمیہ (پائجامہ) کدھر باندھتے ہیں" بس بھائی آگئے جلال میں بولے ابھی لاتا ہوں کلھاڑی۔ میں نے کہا کہ یہ میچ کھلاڑیوں کا کلھاڑیوں کا نہیں ۔
فائنل کے بعد جو ٹرافی دی گئی وہ پرانی قلعی کرائی گئی تھی اور قلعی بھی اتنی خراب تھی کہ فائنل والے دن ہی اتر گئی جس ٹیم نے میچ جیتا وہ فٹبال کی طرح کک لگا کر ٹرافی لے گئی اور پاجمیہ پاجمیہ کے نعرے فضا میں گونجتے رہے لیکن اب دنی صاحب پودینے کا پانی پیئےگھر میں بیٹھے تھے۔ اصل میں جو رقم بچی تھی اسے نہاری وغیرہ کھا کر خرچ کرنا تھی۔

فضل عباس خیرپوریئے ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی سے وابستہ نہیں رہے۔ فضل عباس کا سیاسی فلاسفہ تعلقات کے اردگرد گھومتا تھا ۔ یہ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا۔ خیرپور میرس سے تعلق رکھنے والے غوث علی شاہ وزیر اعلی سندھ تھے۔ اس لئے ان کی سیاسی قربت  وہیں نکلتی تھی۔ فضل عباس کے سیاسی تجزئیے آج بھی گزرے دنوں کی طرح بے راگ ہیں ۔ ایک زمانے میں ان کا سیاست سے اخباری تعلق بھی رہا ۔ ہم نے اخبارات میں نام چھپانے کی غرض سے ایک کاغذی تنظیم بنا ڈالی ۔ یاد رہے کہ زمانہ جنرل ضیا کا تھا ۔ جنرل سیکریٹری کے لئے آپ کا نام نامی ذہن میں آیا ۔ نام میں کوئی سیاسی تپش نہ تھی اور بغاوت کی بو نہیں آرہی تھی اس لئے فضل عباس انقلابی نام تجویز کیا گیا اور یوں آپ انقلابی کہلائے۔ سردار کب لگا یہ بھی بتا دیا جائے گا تاکہ نام مکمل ہوسکے۔

ایک دن امن اخبار ایک بیان لے کر گئے۔ وہاں موجود ایک صاحب نے بیان لیا اور اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر کہا کہ آپ میں سے انقلابی کون ہے؟ ہم نے فضل عباس کی طرف اشارہ کردیا ۔فضل عباس کا ڈیل ڈول دیکھکر ان صاحب نے بڑا تاریخی جملہ کہا " اگر آپ انقلابی ہیں تو جنرل ضیا کو یقین ہوجانا چاھیئے کہ اس ملک میں دس سال تک کوئی انقلاب نہیں آسکتا "۔

طالب علمی کے زمانے میں جب آپ کا قیام ہمارے گھر تھا تو کالج کے بعد  زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرتا ۔اس زمانے میں ایک لڑکئ آتے جاتے محلہ کے لڑکوں سے تفریح لیا کرتی۔ اب سوچیں اگر لڑکی چلبلی مزاج کی ہو تو اس کی کہی ہر بات آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ فضل عباس  کی صحت ظالمہ کو دیکھتے ہوئے اس لڑکی نے ان کا نام موریناگا رکھدیا ۔ یہ اپنے وقتوں کے شیر خوار بچوں کا مقبول ترین دودھ تھا۔ اس لڑکی نے نام رکھا تو رکھا مگر مشتہر کرنے کا ایک نیا طریقہ بھی وضع کرلیا ۔ اس زمانے میں پی ٹی وی آیا کرتا تھا جس کے لئے چھت پر لمبا بانس لے کر اینٹینا لگا دیا جاتا ۔لڑکئ نے اینٹینے کے ساتھ ہی موریناگا کا ڈبہ لٹکا دیا ۔ اب دنی صاحب کی شہرت گلی گلی پھیل گئی ۔ بظاہر لاتعلقی  کا اظہار کرتے لیکن بات وہی تھی کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

اگر راہ چلتے کوئی اتفاق سے 5 سکینڈ بھی دیکھ لے تو ہاتھ سے لعنت دکھا کر پوچھتے " بھیڑاں دیکھتا کیا ہے ؟ "۔ کبھی کبھی معاملہ دب جاتا اور کبھی دب دبا دب ہوجاتی ۔ بس ساتھ چلتے ہوئے یہ پتہ نہ ہوتا کہ کون کتنا سلامت باقی آتا ہے۔ سینما ہال جب بھی گئے فلم کا ٹکٹ لیتے ہوئے یہی دعا رہی کہ ٹکٹ بہ حفاظت کٹ جائیں ۔ ایک دفعہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ لائن لگنے پر اکڑ گئے۔ اس زمانے میں ہمارے لمبے تڑنگے شیدی بھائی سینما میں مالکان کی جانب سے امن و امان قائم رکھنے کے لئے رکھے جاتے۔ان کی شخصیت اور انداز گفتگو ایسا ہوتا ہے کہ آپ میں شرافت کی آخری رمق تک جاگ اٹھتی۔ ایک دن ہماری خاطر تواضع کردی گئی مگر سردار کے خراش تک نہ آئی ان کا حصہ بھی ہمارے حصہ میں آیا۔

فضل عباس انقلابی کا ایک اور نام جو ہم نے رکھا وہ سردار تھا۔ انقلابی نام کی لو کچھ کم ہوئی تو یہ نام ضو دینے لگا۔ اب پرانے جاننے والے انہیں سردار ہی کہتے ہیں۔ فضل عباس ڈپلومہ کے دوران ہی کراچی سے واپس خیرپور منتقل ہوگئے جہاں سے انہوں نے تعلیم مکمل کی اور واپڈا خیرپور میں ملازم ہوگئے یہاں  سے ان کے شاندار مالیاتی دور کا آغاز ہوا۔ کراچی آتے تو ٹیکسی سے کم بات نہ کرتے۔ صدر کوآپریٹیو مارکیٹ کی دکانوں سے ایک ساتھ دس دس کھدر کے سوٹ خرید لیتے ۔ہم ساتھ ساتھ ہوتے۔ باہر کھانا کھاتے۔ اس وقت کے وزیر اعلی سید غوث علی شاہ سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ کبھی کبھی وزیر اعلی ہاوس جانا ہوتا ۔ایک دو بار ہم نے بھی سائیں (فضل عباس یہی کہا کرتے تھے) سے ملاقات کی۔

ایک مرتبہ ایک عزیزہ کا انتقال ہوا تو بولے کہ دیکھو بھائی تدفین  اور سوئم تک تو میں نے سب سیٹ کرادیا ہے ۔ سیاسی لوگ آئے، وزراء آئے، پولیس کے اعلی افسران آئے۔ نیچے کے معاملات تو میں نے دیکھ لئے ۔ اب اوپر (عالم بالا) کے معاملات مرحومہ کو خود دیکھنے ہوں گے ۔میرے تعلقات کی پہنچ وہاں تک نہیں ۔

کئی سال پہلے خیرپور میرس سے مستقل کراچی منتقل ہوئے۔ واپڈا سے ملازمت چھوٹی تو بینک میں ملازم ہو گئے۔ میں نے کہا کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئے ۔ایک دن کال کی تو بولے کہ اسکردو میں ہوں ۔ میں بڑا حیران ہوا کہ وہاں کیسے پہنچ گئے۔بولے مجھے خود پتہ نہیں چلا کہ کیسے پہنچ گیا ۔ میں حیران کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص اسکردو پہنچ جائے اور وہ کہے کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔اب ذرا سنیں انہوں نے تفصیلات کیسے بتائیں ۔ ممکن ہے کچھ الفاظ آگئے پیچھے ہوں مگر یہ سب انہی کی زبانی معلوم ہوا۔ بولے صبح اٹھے ۔بینک سے فون آیا کہ گاڑی لینے آرہی ہے اور یہ کہ جو کام آپ کو دیا گیا ہے۔اس کے کاغذات ساتھ ہی رکھ لیں ۔میں نے کاغذات لئے۔کام بہت ارجنٹ تھا۔ کسی طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ائیر پورٹ آگیا ۔ میں نے کہا چلو ائیرپورٹ تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ بورڈنگ کارڈ تو لیا ہوگا۔ بولے وہ ہمارا اسٹاف پہلے ہی لے چکا تھا ۔ میں نے کہا کہ ائیرپورٹ کی بلڈنگ اور آفس بلڈنگ کا فرق بھی آڑے نہ آیا ۔ بولے بھائی سر کھجانے  کی فرصت نہ تھی ۔ دو تین لوگ ساتھ بیٹھے تھے۔ باتیں کرتے کرتے میں جہاز کی سیٹ پر جا بیٹھا اور سمجھا کہ آفس سیٹ پر ہوں۔

میں اس تجاہل عارفانہ پر فدا ہوئے جارہا تھا مگر چاہ رہا تھا کہ اسکردو چھوڑ ہی آوں۔ میں نے کہا چلیں مان لیا لیکن اسلام آباد پر تو جہاز سے اترے ہوں گے۔ گویا ہوئے کہ بھائی کب جہاز سے اترے کب دوسرے میں بیٹھے کاموں نے اس کا موقع ہی نہ دیا ۔ وہ تو جب ہم اسکردو اترے اور ٹھنڈ لگی تو احساس ہوا کہ یہ کراچی تو نہیں ۔ تب پتہ چلا کہ ہم اسکردو میں ہیں۔ اب آپ مجھے خدا لگتی بٹائیں کہ کیا کسی میں اتنا جگرہ ہے کہ کراچی سے بہ ہوش و حواس اسکردو چلا جائے اور پتہ نہ چلے ۔ یہ سردار فضل عباس انقلابی کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ اس سے بہتر کوئی انقلاب برپا کر سکتا ہو تو بتائیں۔ کیا اپ اپنے نام کی عملی تفسیر نہیں۔

فضل عباس کو تعلقات بنانے کا ہنر آتا ہے۔ محفل پسند آدمی ہیں۔ ذرا سی دیر اپنی باتوں سے محفل کو اپنی جانب  کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ جس محفل میں وہ ہوں وہاں ان کے دلچسپ واقعات ہوتے ہیں اور ہر کوئی ہمہ تن گوش ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں ہنگامہ کوئی بھی ہو گولی ان کے کان کو چھو کر گزرتی ہے۔ قصوں سے مزاح کی پھجڑیاں چھوٹتی رہتی ہیں۔ اب ماشاءاللہ پنجہ وقتہ نمازی ہوگئے ہیں مگر زیب داستاں  کے لئے اب بھی مجمع دیکھکر پرانی ڈھب پر آجاتے ہیں۔

 مزاج میں کسی قدر تعویز پسندی کا غلبہ ہوتا جارہا ہے۔ سندھ کی ایک بڑی درگاہ کے سجادہ نشین سے علیک سلیک ہوچلی ہے۔ ہر سال کی کئی جنتریاں گھر میں موجود ہیں جس سے وہ اپنے ہاں آنے والوں کو نیک و بد بتائے دیتے ہیں۔ ستاروں کی چال سے بندے کا حال بتا دیتے ہیں۔ واٹس اپ کے ڈریعے دعائیہ کلمات اور اقوال بیھجنا معمولات میں شامل ہو چکا ہے۔علم جعفر سے بھی رغبت  ہوچکی ہے ۔ میری دعا ہے سردار فضل عباس انقلابی جب پرانے یاروں میں بیٹھیں تو پرانے والے سردار فضل عباس انقلابی رہیں ۔ دنیا بدل گئی ہے بس تم نہ بدلو۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...