Sunday 19 April 2020

Article # 52 بیوی ہے جس کا نام ۔۔۔ اسی کے نام ، ایک گدگداتی، کسمساتی تحریر


Article # 52

بیوی ہے جس کا نام ۔۔۔ اسی بیوی کے نام
ایک گدگداتی اور کسمساتی تحریر




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

عقد مسنونہ کے بعد جو منکوحہ آپ کے پلے بندھ جاتی ہیں انہیں بیوی کے علاوہ زوجہ ، جورو ، اہلیہ، گھر والی ، لگائی ، کد بانو ، رفیقہ حیات ، شریک حیات، گھرنئ وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے ۔ مجھ جیسے کچھ کج فہم بیوی کی عدم موجودگی میں اسے وجہ مشکلات بھی کہتے ہیں ۔ یہ سب نام ایک طرف مگر ہندی بھاشا میں استری کا نام سن کر بے ساختہ دل  داد دینے کو چاھا۔ استری جیسا با معنی نام سن کر جیسے دکھے دل کو قرار آگیا ۔ یہ استری شوہر کے سارے کس بل نکال کر سیدھا کر دیتی ہے اور شوہر ساری زندگی فلیٹ ہوجاتا ہے۔ شادی سے پہلے بد دماغی کے باعث شوہر کے ماتھے پر بات بہ بات پڑنے والی  قابل فخر شکنوں کو چشم زدن میں ایک پھیرے میں ہی دور کر دیتی ہے ۔ کہتے ہیں استری جتنی بھاری الوزن  اور گرم المزاج ہو اتنا ہی بے شکن کام کرتی ہے ۔ 

برسوں پہلے کلیم عاجز کی ایک غزل سنی تھی ۔ اللہ جانے مجھ عاجز کو اس کا ایک مصرعہ ثانی ایک لفظ کی تبدیلی کے ساتھ کیوں یاد آرہا ہے ۔

تم "استری" کرو ہو کہ کرامات  کرو ہو

میں سمجھ رہا تھا کہ مصرعہ ثانی میں "قتل" کی جگہ "استری" لگا کر میرا کام چل جائے گا مگر جب غزل دیکھی تو شوہر کئ آپ بیتی لگی۔

میرے ہی لہو پر گذر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کئ طرح بات کرو ہو

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم بات کرو ہو

یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو 
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو یو

بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے بکے
دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو


کلیم عاجز کے نام تک میں عاجز آتا ہے لیکن ذرا سقراط کا سوچیں اور بیوی کے ہاتھوں اس کے ساتھ کیا ہوا کتنا عاجز رہا ہوگا ۔ ایک دن شاگردوں کو لئے بیٹھا تھا ۔ علم و حکمت کے دریا بہا رہا تھا ۔ شاگرد ہمہ تن گوش تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سقراط کی بیوی پانی کا گھڑا لئے چلی آرہی ہے ۔ آتے ہی اس نے پہلے تو سقراط کو جلی کٹی سنائیں اور گھڑے کا پورا پانی اس پر بہا ڈالا جب اس سے بھی طبیعت سیر نہ ہوئی تو پورا گھڑا سقراط کے سر ہر دے مارا ۔ ممکن ہے سقراط پر گھڑوں پانی پڑ گیا ہو ۔ کوئی دوسرا ہوتا تو بیوی بتاتا کہ تو نے جتنا پانی انڈیلنا تھا انڈیل دیا ۔ اب میں بتاتا ہوں کہ  میں کتنے پانی میں ہوں ۔ 

 شاگرد سمجھے کہ اب سقراط کے صبر کا پیمانہ جواب دے جائے گا ۔ سقراط جہاں بیٹھا تھا ، ٹس سے مس نہ ہوا ۔ سر گیلا تھا ۔پانی چہرے سے ٹبک رہا تھا ۔خدا ہی جانے کہ اس میں اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو بھی تھے کہ نہیں ۔ سقراط نے واقعہ کو ابر رحمت سے تعبیر کرتے ہوئے شاگردوں سے کہا :  پیارے بچو ! فکر نہ کرو ، بادل آیا ، گرجا ، برسا اور چلا گیا 

کہتے ہیں کہ سقراط نے جان بوجھ کر سب سے بد مزاج اور بد زبان عورت کو شرف زوجیت بخشا تھا ۔ کسی نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا ؟ تو جواب یہی ملا کہ صبر و ہمت کی دولت حاصل کرنے کے لئے ۔ سقراط نے زہر کا پیالہ یوں ہی نہیں پی لیا تھا ۔ اس نے زہر پینے کے لئے پہلے ریاضت کی تھی کیونکہ جو زہر اسے روزانہ کانوں اور آنکھوں سے پینا پڑتا تھا اس سے کہیں آسان زہر کا پیالہ پینا تھا اور ویسے بھی سقراط جتنا بیوی گزیدہ تھا اس پر زہر تو اس کے لئے امرت تھا۔ بے کار ہم سقراط کے قتل کو مذہب کے ٹھیکیداروں اور حکومت کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ۔ بلاشبہ اس کی ان مذہبی ٹھیکیداروں اور حکومت  سے ان بن تھی مگر یہ بھی تو غور کریں کہ گھر پر اس کا کیا حال تھا ایسے میں تو بندہ باہر مرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے ۔

اس معاملے میں ارسطو خاصا ہوشیار رہا ۔ اس نے بیوی کے ساتھ بڑی آسودہ اور مزے کی زندگی گذاری لیکن ایک جگہ کہہ گیا : قدرت جب کسی کو مرد بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اسے عورت بنا دیتی ہے۔ الامان ، الحفیظ یہ بیان وہ بیوی کی زندگی میں تو نہیں دے سکتا تھا ورنہ بہت "آنسودہ" اور "مرنے کی زندگی" گذارتا ۔ اس بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ارسطو بیوی کے بعد پیوند خاک ہوا ورنہ وہ اسے پھینٹ کر اس کا خاکینہ بنا دیتی ۔


کرشن چندر نے کہا تھا ک عورتوں نے ہمیشہ گدھوں سے عشق کیا ہے ، عقل مند آدمی کو تو وہ پسند ہی نہیں کرتی ہیں ۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ عورت کمزوری کا نام ہے ۔ آب یہ وہ کمزوری تو نہیں جس کے معالج دیواروں کو کالا کر کے نوید مسرت سناتے ہیں۔ مشہور مصنف بیکن نے کہا تھا کہ جو شادی کر لیتے ہیں ان کی قسمت یرغمال ہو جاتی ہے ۔ بیکن نے ذاتی تجربے کو کلیہ بنا کر پیش کیا یے ۔اسے پتہ ہی نہیں  ہمارے یہاں قسمت نہیں پورا کا پورا بندہ تا وقت سانس آخر یرغمال رہتا ہے ویسے کچھ بیویاں شوہر کو مال مفت دل بے رحم کے "کھانے" میں رکھتی ہیں۔

بیوی کی عظمت و جلالت اور ھیبت و دھشت  کی گواہی ایسے ایسے شوہروں نے دی ہے کہ جن کا طوطی جگہ جگہ بولتا تھا  لیکن گھر آکر طوطے کی اپنی آواز نہ نکلتی تھی ۔  کہتے ہیں سانپ اپنے بل میں سیدھا ہو کر جاتا ہے تو صاحبو اس میں کمال سانپ کا نہیں اس بل کا ہے  ورنہ سانپ کے مزاج میں سیدھا چلنا ہی کہاں ہے ۔ اسی طرح شیر کی دھاڑ سارے چنگل کو خوف زدہ کر دیتی ہے مگر یہ بات بھی سب جانتے ہیں شیرنی شیر کو صرف گھور کر دیکھتی ہے اور وہ بھیگی بلی بن جاتا  ہے ۔

تو صاحبو ! جب جنگل کے بادشاہ کا یہ حال ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہمارے ایک دوست  نے آج تک شادی نہیں کی ۔ جب بھئ کہا کہ یار یہ بھی کر لو تو کہتا ہے کہ کنوارے رہنے کے اتنے فائدے ہیں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے ویسے بھی اب تم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہو ۔ میں نے کہا کہ بھائی شوہر کو سرتاج کہتے ہیں ،  قہقہہ مار کر بولا : تو مجھے محتاج ہی رہنے دے۔ تاج دونوں ہی میں آتا ہے ویسے یہ ایک محتاجی بڑی سے بڑی بادشاہت سے بہتر ہے۔ پھر اس نے اپنا چمچماتا موبائل فون دکھاتے ہوئے کہا : یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا: موبائل ہے۔ اس نے نفی میں سر ہلایا: میرے لئے موبائل اور تمھارے لئے پولیس موبائل ۔ابھی گھر سے کال آئے گی اور تم بغیر بریک کے دوڑ پڑو گے ۔۔۔ اور سنو یہ جو موبائل ہے ناں اس سے میں کبھی کوئی میسج ڈیلیٹ نہیں کرتا اور نہ ہی نجمہ کو نجم کے نام سے save کرتا ہوں ۔ میں اس کی باتیں سن کر بور ہوگیا تو بولا تجھے پتہ ہے ایک سیانے سے کسی نے پوچھا کہ لمبی عمر کے لئے کیا کرنا چاھیئے؟

سیانے نے کہا : شادی !

پوچھنے والا جل گیا : عقل کے ناخن لو بھائی ۔۔۔ شادی کے بعد کس کی زندگی لمبی ہوئی ہے ؟ 

 سیانے نے مسکرا کر کہا : زندگی لمبی نہیں ہوتی ۔اذیت میں رہ کر لمبی محسوس ہونے لگتی ہے

لطیفوں کے معاملے میں ہمارے پٹھان اور سکھ حضرات سب سے زیادہ لطف دیتے ہیں لیکن یہ میرا یقین ہے کہ جتنے لطیفے ایک اکیلی بیوی کے ہیں ۔سب مل کر بھی معیار تو دور کی بات گنتی بھی پوری نہیں کر سکتے ۔

ہمارے ایک دوست بیوی کے سامنے ذرا بول لیتے ہیں ۔ ایک دن صبح کے وقت اخبار کا فلمی صفحہ پڑھ رہے تھے۔ بیوی نے چائے لاتے ہوئے شوہر کی اس دیدہ دلیری اور دریدہ ذہنی  کو شدید ناپسند کیا ۔ چائے رکھتے ہی اخبار پر جھپٹا مارا اور بولیں : کاش میں بھی صبح کا اخبار ہوتی ۔آپ کی نظروں کے سامنے دیر تک رہتی ۔ آپ مجھے دیکھتے رہتے۔

شوہر نے تیزی سے دوبارہ اخبار کو اپنے قبضے میں لیتے ہوئے کہا : سوچ لو ، اخبار روز نیا آتا ہے اور تصویریں بھی نئی ہوتی ہیں۔ 

اگلے دن بیوی نے حساب چکتا کر دیا۔ اول تو سالن میں نمک ہی نہیں ڈالا اوپر سے اس کو جلا بھی دیا ۔ایک دو لقموں کے بعد شوہر کا حوصلہ جواب دے گیا اور بولا : ایک تو تم نے سالن جلا دیا ۔ شوہر سے نمک بھی نہیں ڈالا ۔ بیوی مسکراتے ہوئے کہا : سالن کا تو مجھے معلوم ہے کہ جل گیا مگر میں جلے پر نمک نہیں ڈالتی۔

بیوی کو یہ برداشت ہی نہیں کہ اس کا شوہر زندہ عورت تو درکنار کسی عورت کی تصویر کو بھی زیادہ دیر تک دیکھے ۔ ایک مرتبہ میاں بیوی کسی بڑے مصور کی تصاویر کی نمائش دیکھنے گئے ۔ شوہر پتوں سے ڈھکی ایک لڑکی کی تصویر دیکھنے میں محو ہو گیا ۔ بیوی سے برداشت نہ ہوا ، بولی : اب چلو بھی ۔۔۔ کیا آندھی چلنے کا انتظار کر رہے ہو ؟

اچھا اب ایسا نہیں کہ تمام شوہر رونا گانا ہی کرتے رہتے ہیں ۔ اس ظلم کے باوجود کچھ کی حس مزاح قیامت کی ہوتی  ہے ۔ ہمارے ایک نکتہ ور ، جہاندیدہ اور اہلیہ شناس دوست بیوی کے شک ہرستانہ مزاج کو اپنی جوانی کی کنجی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرما تے ہیں کہ جب تک آپ کی بیوی آپ پر شک کر رہی ہے ۔ آپ یقین رکھیں کہ آپ جوان ہیں۔  اسی طرح ان کا ایک فرمان ہر قبرستان کے میں گیٹ پر جلی حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ مرتے وقت کم از کم ایک بیوہ چھوڑ کر جائیں چاھے اس کے لئے زندگی میں کتنا ہی کشت کیوں نہ جھیلنا پڑے ۔ وہ کہتے ہیں مجھے خوشی ہے کہ شوہر حضرات اس سلسلے میں اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بیوہ عورتوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ حوالے اور دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ آپ کسی خاندان کی تقریب میں چلے جائیں ، بیوائیں تو چہکتی ، مہکتی نظر آئیں گی مگر رنڈوا ڈھونڈے سے نہ ملے گا اور اگر مل بھی گیا تو زندگی بیزار ۔

ہمارے انہی دوست نے ایک اور پتے کی بات بتائی ، بولے جس سے شادی ہو اس سے آپ کا خونی رشتہ نہیں ہونا چاھیئے ورنہ شادی کے بعد وہ آپ کا خون کیسے پیئے گی۔ خون کے معاملے میں ان کی ایک اور دلچسپ تحقیق بھی سامنے آئی ہے جو کہ  چشم کشا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو شادی بظاہر کامیاب نظر آتی ہے اس میں شوہر کا بلڈ گروپ بی پازیٹیو اور بیوی کا آو نیگیٹیو نکلتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ ماہرین نفسیات اور حیاتیات (Entomologist)  باہم اس موضوع پر کام کریں تاکہ آئندہ طویل عرصے تک چلنے والی شادیوں  کے لئے تھلیسیمیا کے ساتھ اس طرف بھی توجہ دی جا سکے۔ ایک دن یہ جہاندیدہ دوست بس میں مل گئے ۔تپاک سے ملے ، گھڑی دیکھی، رات کے آٹھ بج رہے تھے ، بولے : کیا روز کا یہی روٹین ہے ؟ میں نے کہا : ہاں روز روز دس سے بارہ گھنٹے گھر سے دور رہنا پڑتا ہے ۔ بولے : زندگی سے قریب رہنے کا اس سے آسان اور سستا نسخہ کوئی نہیں ۔ میں نے کہا : کیسی باتیں کرتے ہیں ؟  بولے : تم جیسے جذباتی  شوہر اپنے پیروں پر خود کلھاڑی مارتے ہیں ۔ بیوی سے روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے دور رہنا زندگی کے لئے ضروری ہے ۔ حکما کہتے ہیں کہ بیوی اسی وقت قابل برداشت ہوتی ہے جب اسے آٹھ سے دس گھنٹے بعد دیکھا جائے ۔

بات میں وزن ہے تو دل خود بخود سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ بس سے اتر کر گھر جانے لگا تو  سوچا صحیح بات ہے ۔ابھی گھر جاوں گا اور دو سوال ایسے پوچھیں گی کہ" آثار لڑا دید " ہویدا ہو جائیں گے۔ کھانے کا پہلا نوالہ لوں گا اور بوچھ بیٹھیں گی کہ کھانا کیسا پکا ہے ؟  آب آپ بتائیں یہ لڑائی شروع کرنے والی بات نہیں تو کیا ہے ۔ تھوڑی دیر بعد پھر ایک اور سوال "سنیں امی کے چلیں گے ؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی والدہ کے ہاں جانے کو ہر وقت تیار اور اگر ہمارے خاندان میں کسی قریبی عزیز کی فوتگی بھی ہو جائے تو اول تو نہ جانے کے سو بہانے اور اگر راضی بھی ہو جائیں تو کم از کم دو شرائط ۔۔۔۔ زیادہ  دیر رکنا نہیں اور آپ بھی قبرستان نہیں جائیں گے ۔ ایک مرتبہ میں نے کہہ ہی دیا میت گاڑی میں لیٹ کر نہیں بیٹھ کر جاوں گا ۔واپسی ہو جائے گی۔ جواب میں مسکرا کر بولیں : آپ کی مذاق کی عادت جائے گی نہیں ۔ جنازے میں جائیں ۔ نماز جنازہ پڑھ کر فارغ ہوں تو موبائل کی گھنٹی بج جاتی ہے جو کہ ایک بیل کے بعد کال کاٹ دی جاتی ہے جس کا واضح مطلب تھا کہ جو گیا سو گیا تم تو گھر چلو ۔  بیوی کی باتیں کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں ۔ اکثر عافیت نااندیش شوہر بیوی کی خاموشی کو دل سے لگا لیتے ہیں ۔اگر بیوی خاموش ہے تو کسی طبیب کو دکھانے کی  چنداں ضرورت نہیں ، اسے ایک نعمت تصور کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھیئے ، شکر ادا کیجئے کیونکہ اوپر والا سب کی سنتا ہے۔

Tuesday 14 April 2020

Article # 51 کراچی کا 77 کا کرفیو ، لیڈیز پالیٹکس اور ایک موچی شوہر


Article # 51

کراچی میں 77 کا کرفیو  
محلے کی لیڈیز پالیٹکس اور ایک موچی شوہر 




تحریر:اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

آج کل دنیا میں ہر طرف کورونا کا رونا چل رہا ہے۔ اس کے بارے میں بہت ساری سازشی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ پہلے امریکا کو اس وائرس کو تیار کر کے ووھان (چین) میں چھوڑنے کا کہا گیا ۔ جارجیا کی کسی لیبارٹری میں اس مصنوعی وائرس کی تیاری کا سننے میں آیا ۔ غرض جتنے ماسک سے ڈھنپے منہ اتنی باتیں۔ جب چین نے کورونا کو چلتا کیا تو لوگ بڑی دور کی کوڑی لائے اور کہا کہ یہ تو چین نے خود بنایا تھا۔ اب پوری دنیا کی معیشت پیٹھ جائے گی اور اب ہر طرف چائنا کا مال ہی مال ہوگا ۔ اس کورونا کی مصیبت نے سب کو عالمی معیشت کا تجزیہ کار بنا دیا ۔ خواتین کی گفتگو سنیں تو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے ۔واقعی جس مسئلہ میں خواتین کود جائیں وہاں پھر مسئلہ نہیں رہتا بلکہ وہاں مسئلے کے لاکھوں حلوں میں سے کسی ایک حل پر متفق ہونا مسئلہ کو جنم دیتا ہے ۔ سب مستحقین تک راشن پہنچانےکی کوششیں کر رہے ہیں لیکن جس طرح گھروں میں شوہروں پر راشن پانی لے کر چڑھا جارہا ہے ۔ بس یہی کہنے کو دل چاہ رہا ہے :

قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا گھر میں رہنا۔ 

ہم نے زندگی میں پہلا کرفیو 1977 میں بھٹو مخالف تحریک کے دوران دیکھا۔کراچی میں کرفیو لگا تو سختی ان علاقوں میں ہوئی کہ جو شورش زدہ تھے ۔ چلیں ملکی  سیاست سے دور ذرا اپنی خواتین کی محلاتی سیاست میں چلتے ہیں ۔ ہمارا محلہ ہنگاموں سے محفوظ تھا اس لئے سختی میں شدت کم تھی ۔ کبھی کبھار فوجی گاڑی آجاتی تو گلی کے کانوں پر کھڑے لوگ جلدی جلدی ادھر ادھر ہوجاتے ۔ شام کو جب کرفیو ختم ہونے کا وقت ہوتا تو فوج کی گاڑی ضرور ایک چکر لگایا کرتی ۔

ہمارا بلاک ہنگاموں میں قطعا دلچسپی نہ رکھتا تھا بلکہ عمومی خیال یہ تھا کہ ہم بھٹو نواز ہیں یا ان کے لئے دل میں ہمدردی رکھتے ہیں۔ شروع شروع میں جب کرفیو لگا تو لگا مزے آگئے مگر یہ سارے مزے دو دن میں ہی ہوا ہو گئے جب فراغت کے عذاب کا اندازہ ہوا ۔ ہم تو خیر لڑکوں میں آتے تھے اس لئے گلی میں جس کے گھر کے باہر سیڑھی بنی ہوتی یا تھوڑی سی بھی بیٹھنے کئ جگہ ہوتی تو ہم خود کو بھسار لیتے ۔ اصل مسئلہ  آفس کام کرنے  والے شادی شدہ افراد کا تھا کہ جائیں تو جائیں کہاں ۔ کنوارے ملازمین  تو پرانے دوستوں سے جا ملے تھے۔ ابتدائی ہفتہ تو بڑا اچھا گذرا ۔یہ لوگ کسی ایک گھر میں صبح ناشتے کے بعد بیٹھ جاتے اور دوپہر کے کھانے پر گھر کی راہ لیتے ۔ جس گھر جاتے وہاں چائے بھی آتی اور صاحب خانہ بھی ذرا نئے نئے گھر میں بیٹھے تھے اس لئے کمرے میں کچھ منگانا ہو تو اونچی آواز میں منگا لیا کرتے ۔ شروع شروع میں تو شوہر صاحب کا اثر رہا لیکن ہر دن بیٹھک کا جمنا ، بیوی کو ایک آنکھ نہ بھاتا ۔ آئیں آپ کو ایک محلے دار ریاض صاجب پر جو گذری ہے وہ سناتے ہیں ۔

 یہاں سے جو کچھ تحریر کیا جا رہا ہے اس کی( تیاری میں ہماری کھوجی اور تفریح پسند طبیعت کے ساتھ نسرین باجی اور اس وقت ریاض صاحب کے کرائے دار کے بیٹے منیر کی رپورٹنگ کا بڑا عمل دخل ہئ ۔ منیر محلہ جبکہ نسرین باجی دنیا چھوڑ کر چکی ہیں )

ریاض صاحب ایک معزز  و متمول شوہر تھے جس کی معترف پوری گلی تھی ۔ آمدن اچھی تھی اس لئے اس وقت کے لحاظ سے گھر میں ضرورت سے زیادہ چیزیں تھیں ۔ گھر پر کار ،  ٹی وی،  فریج ، ٹیپ ریکارڈر سب تھا ۔ ہفتے کے ہفتے گھر پر وی سی آر کرائے پر لیکر انڈین فلمیں بھی چلا کرتی تھیں۔ کرفیو لگا تو لوگوں نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کی گھر پر چلتی ہے اس لئے ان ہی کے گھر چلتے ہیں ۔ کب تک چلتا یہ سلسلہ ؟ بالآخر روز روز کی بیٹھک سے اہلیہ رضیہ عاجز آگئی اور ایک دن پھٹ پڑی :  

 آپ تو بیوقوف ہیں ۔یہ سب آپ کو" وہ " بناتے ہیں۔

ریاض صاحب  نے" وہ " کا وہ مطلب نکال لیا یکن پھر بھی صفائی میں بولے :

 ارے ایسی کوئی بات نہیں رضیہ ۔ دن میں ایک بار بیٹھک جمتی ہے ۔ کرفیو نہ لگتا تو کون یہاں آتا۔ 

اب رضیہ نے ہلکا سا پینترا بدلا اور بولیں :

اچھا ۔۔۔ یہ کرفیو صرف ہمارے لئے لگا ہے۔ برابر والے سرفراز بھائی کے ہاں تو آپ کبھی نہیں گئے ۔ وہ تو ہمارے ہاں روز ہی موجود ہوتے ہیں 

شوہر  نے سرفراز صاحب کی مجبوری کا ذکر کیا:

ارے تم کو تو معلوم یے ان کی وائف کو جوڑوں کا مسئلہ یے ۔ گٹھیا ہے ۔

رضیہ تنک کر بولیں :

بس اسی بات پر میری جان جاتی ہے ۔ پورے محلے میں ۔۔۔ اور وہ جو عالیہ رہتی ہے دوسری منزل پر ۔ اس کے ہاں تو نسرین  روز پہنچ جاتی ہے ۔ بس کوئی ان کے گھر نہ جائے ، گٹھیا جو ہے ان کو ، گھٹیا حرکتیں نہیں چھوڑے گی ۔  

ریاض صاحب کو صورت حال کا اندازہ ہوگیا تھا اور ویسے بھی گھر میں لگاتار ایک ہفتے دن رات رہنے کے بعد شوہر کو عقل آچکی ہوتی ہے کہ اگر  عزت کرانی ہے تو دن میں آٹھ دس گھنٹے ملازمت پر رہنا ضروری ہے ورنہ ملازمت کے بیچ میں سے" ز " نکال کر ملامت ہی رہ جاتی یے۔ بیوی کے تھیکے تیور دیکھ کر بڑے  پھیکے  انداز میں کہا : 

ارے کچھ دن کی تو بات ہے ۔ بس کرفیو ہٹا تو پھر وہی جاب پر چلے جائیں گے۔ کیوں؟ 

بیوی تو آج کسی اور پروگرام سے بیٹھی تھیں :

سنیں ! یہ کرفیو ابھی نہیں اٹھنے کا ۔ یہ جو سب آٹھ بجے بی بی سی کی خبریں سنتے ہیں ناں آپ ۔ اس کی آواز میرے کانوں میں صاف آتی ہے ۔ یہ کم بخت مارا مارک ٹیلی تو دن بدن آگ ہی لگا رہا ہے۔

ریاض صاحب نے یوی کی معلومات دیکھیں تو مارک ٹیلی کو رگید دیا : 

ارے مارک ٹیلی کو چھوڑو ۔ آدھی تحریک تو وہ اکیلا چلا رہا ہے  ۔ وہ تو بس یونہی پھینکتا ہے 

بیوی کے تو گویا آگ ہی لگ گئ : 

اچھا وہ پھینکتا ہے اور سب ریڈیو کے گرد باراتی بن کر اسی لئے بیٹھتے ہیں اور پھر جو سیربین کے بعد آپ لوگ جو سیاست بھگارتے ہیں ۔اس میں تو صاف لگتا کہ یہ بھٹو کو ہٹائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے

ریاض صاحب نے سمجھایا چاھا : ارے تم سکون سے بیٹھو تمھارا کیا لینا دینا اس سے

رضیہ کا جواب شوہر کو لاجواب کر گیا :

اچھا میں چین سے بیٹھی رہوں اور تم (اب آپ سے تم  تک سفر شروع ہوچکا ہوتا )  روز پانچ دس محلے والے لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھے رہو۔۔۔۔اور وہ جو صغیر صاحب ہیں پورے کمرے کو سگریٹ سے دھواں دھواں کر جاتے ہیں ۔

اب ریاض صاحب نے خاموشی کو بہتر جاننا اور رضیہ نے اپنا آخری تیر ترکش سے چلا ہی دیا :

بس اب کل سے ہمارے ہاں کوئی نہیں آئے گا ۔ 

ریاض صاحب نے ہلکے سے کہا :

ہلکے بولو کہیں بچے نہ سن لیں حالانکہ بچے سب سن رہے تھے بلکہ برابر والی نسرین جو پیچھے گلی میں کوڑا رکھنے باہر آئی تھی  وہ تو شروع سے ہی خاموشی سے کان لگائے سب کچھ سن رہی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اگر کسی کی بات چپکے سے سنو اور کوئی بات سننے سے رہ جائے تو گناہ ملتا ہے ۔

ریاض صاحب نے پہلی بار گھر میں اپنی بے چارگی اور نام نہاد رعب کی کشتی ڈولتے دیکھ کر  صرف اتنا کہتا :

تم سمجھ نہیں رہی ہو ۔وہ۔۔۔ وہ لوگ  !!!

رضیہ  فیصلہ لے چکی تھیں۔ ویسے آپس کی بات یہ ہے کہ شوہر کے اتنی جلدی پیچھے ہٹنے کا اسے خود بھی یقین نہ ہوتا ۔ بیوی یہ جانتی ہے کہ جب تک شوہر  ڈر رہا ہے آپ شیر بنی رہیں۔ رضیہ نے فیصلہ سنا دیا :

کرفیو ہٹے یا لگا رہے ۔میں بتائے  دے رہی ہوں۔ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا ۔ غضب خدا کا وہ جو تمھارے شیر بھائی ہیں ۔گھر میں تو آواز نکلتی نہیں ۔یہاں آکر خوب قہقہے مارتے ہیں ۔ اچھے خاصے چھچھورے ہیں ۔اچھا کیا جو آمنہ بھابھی نے ان کے منہ پر ٹیپ لگایا ہوا ہے ۔ کہیں بیٹھنے کے قابل نہیں تمھارے شیر بھائی ۔

اب ذرا سنیں ریاض صاحب  تو چپ کے چاپ رہ گئے مگر وہ جو نسرین کان لگائے کھڑی تھی تو کیا وہ اس کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑانے کے لئے اتنا کشت جھیل رہی تھی ۔ وہ موقع ملتے ہی آمنہ باجی کے ہاں پہنچی اور چنگاری لگا کر آگئی۔ شروع  بھی اس طرح کیا  کہ تن بدن میں آگ لگ جائے :

آمنہ بھابھی شیر بھائی کے منہ پر کان سا ٹیپ لگایا ہے ؟

آمنہ چونک گئی: 

اللہ نہ کرے جو میں ان کے منہ پر ٹیپ لگاوں اور تم نے کون سا ان کے منہ پر ٹیپ لگا دیکھ لیا ۔

نسرین نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا :

اللہ نہ کرے جو میں نے کبھی انہیں ٹیپ لگا دیکھا ہو ۔ ہاں البتہ ایک ٹیپ ریکارڈر ہے محلے میں ۔وہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھیں اور پھر اپنے طور پر رضیہ کی نقل اتارتے ہوئے بتایا : 

غضب خدا کا وہ جو تمھارے شیر بھائی ہیں ناں۔ ہمارے ہاں آکر تو ان کی زبان خوب چلتی ہے  گھر میں بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔

آمنہ یہ سنتے ہی  آپے سے باہر ہوگئی : 

اچھا ۔۔۔ یہ رضیہ ہوگی  اور وہ جو ان کے گیگلے میاں ہیں  ۔ شیر بتا رہے تھے بیوی کے آگے تو آگے پیچھے بھی دم نہیں مارتے ۔ ۔۔۔ اور خود جو صبح شام چار پھولوں میں تلتی ہیں ۔ ہم کے پانی تو پیٹی نہیں ہیں ۔ایک ماسی کیا رکھ لی  ہے ۔دماغ ہی نہیں ملتے۔ 

نسرین تیر چلا چکی تھی ۔ اب رضیہ کے ہاں پہنچی ۔ رضیہ نسرین کو دیکھ کر چل جاتی تھی لیکن اخلاقی بیگم بن کر پوچھ لیا : 

نسرین کہاں ہو ؟ اب ایسا بھی کیا کرفیو کہ پڑوس میں نہ آسکو 

نسرین  نے جواب میں کام ہی کی بات کی :

بھابھی یہ محلہ رہنے جیسا نہیں رہا ہے ۔ نہ جانے پر ہزاروں باتیں بنتی ہیں ۔ آپ کو تو پتہ ہے میری ادھر سے ادھر کرنے کی عادت تو ہے نہیں

رضیہ دل ہی دل میں کہتی کہ تو اور ادھر سے ادھر نہ کرے ۔ محلے کی سب سے بڑی آگ لگاوا تو تو ہی ہے ، نسرین کو خوش کرنے کے لیے بولیں :

ہاں یہ تو تم سولہ آنے صحیح کہہ رہی ہو ۔ تم جیسا رازدار تو پورے محلے میں نہیں 

نسرین یہ جملہ سن کر بالکل بھی خوش نہ ہوئی بلکہ بات کو آگے بڑھایا :

بھابھی ایک بات بتا دوں کوئی آپ کی برائی کرے تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔ مجھ سے نہیں ہوتا برداشت ،  ہاں نہیں تو!

رضیہ نہ چاھتے ہوئے بھی اس کی سننے کو تیار ہو گئی مگر اس طرح کے کوئی خاص دلچسپی نہ ہو:

ارے نسرین ۔ دنیا کا کیا ہے ۔ اسے چین کہاں ہے ۔ چھوڑ میرے تو گناہ ہی دھل رہے ہیں ۔۔ جو جس کے جی میں آئے کہے ۔  

نسرین نے اور چکنے چپڑے انداز میں کہا :

بھابھی آپ کا دل تو بہت بڑا ہے ۔ پورا محلہ یہی کہتا ہے ۔ بس یہ آمنہ باجی کو آپ سے خدا واسطے کا بیر ہے ، کہہ رہی تھیں یہ رضیہ خود تو صبح شام چار پھولوں میں تلتی ہے اور میاں کو لگا رکھا ہے گھر کے کاموں میں۔ماسی الگ آتی ہے 

نسرین کا بیر ترکش سے نکل کر رضیہ کے سینے میں اتر گیا:

اچھا ۔۔۔۔ یہ تم سے کہا آمنہ نے ؟ اور یہ کس نے کہا کہ میں ان سے گھر کے کام کراتی ہوں

نسرین گڑبڑا جاتی ہے لیکن پھر اس کا آگ لگاوا ذہن کام کرتا ہے:

ارے بھابھی کہنا کس نے ہے ۔  ریاض بھائی نے خود گلی کے مردوں کو بتایا ہے۔

نسرین تو چلی اپنا فرض انجام دے کر چلی گئی  مگر اب ریاض صاحب کو صبر کی ریاضت کرنی تھی۔ ریاض صاحب گلی سے گھر میں داخل ہوئے تو رضیہ بڑے جلے بھنے انداز میں پولیں :

اور آج کیا بتا آئے محلے والوں کو ؟

ریاض صاحب  نے آنے والے حالات سے بے خبر ہو کر بڑی معصومیت سے پوچھا :

میں نے کیا بتانا ہے  محلے والوں کو؟

رضیہ زیادہ سوال جواب کے موڈ میں نہیں تھی:

یہی کہ آج کیا پکایا؟ کتنے کپڑے دھوئے؟

ریاض صاحب غیر متوقع سوال پر حیرانگی سے سینے پر ہاتھ رکھ کر نولے:

میں؟ کھانا اور کپڑے ؟ کوئی اور کام نہیں رہ گیا 

رضیہ کا دوسرا سوال پہلے سے بالکل مختلف تھا:

اچھا یہ تو بتائیں روزانہ صبح شام آپ میرے لئے پھول کہاں سے لے کر آتے ہیں تولنے کے لیے ؟

ریاض صاحب  پھر صفر ہو گئے:

مجھے کیا کسی کتے نے کاٹا ہے کہ صبح شام آپ کے لئے چار پھول لے کر آوں تولنے کے لئے  ۔۔۔ ہاں البتہ ڈالنے کے لئے لا سکتا ہوں ۔ آگے جو میرا پروردگار چاھے۔

رضیہ بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی:

وہ تو خیر اوپر والا ہی جانتا ہے کہ کس پر پہلے پڑیں گے لیکن پھول ڈالنے سے پہلے بتائے دے رہی ہوں جو گھر سے باہر قدم نکالا  تو پھر مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا ۔ 

ریاض صاحب ہکا بکا رہ گئے :

کیوں بھئی میں نے ایسا ویسا کیا کردیا ؟

رضیہ ٹکا سا جواب دیتی:

یہ جو تم محلے کے مردوں سے اپنا رونا روتے ہو وہ پھر نمک مرچ لگا کر اپنی بیویوں کو سناتے ہیں اور پھر وہ خبروں کی امپورٹر آور ایکسپورٹر یہاں اوپر سے چار لگا کر سناتی ہے ۔

ریاض صاحب نے قسم تک کھانا چاھی :

جس کی چاھے قسم لے لو ۔ میں نے ایک لفظ جو کہا ہو اور ویسے بھی کتنے دنوں کے بعد سرفراز نے اپنی بیوی  نسرین سے اجازت لی ہے ۔ ابھی تھوڑی دیر بعد ہمارا وہاں تاش کھیلنے کا پروگرام ہے

رضیہ کا حکم آ گیا :

کوئی نہیں ۔۔۔ اب تمھارا گھر سے نکلنا بھی بند ۔ کرفیو میں چاھے وقفہ بھی ہو تم گھر سے نہیں نکلو گئے۔

اور یقین جانیں جب تک کرفیو رہا ۔ ریاض صاحب گھر کی جالیوں سے جھانک کر سب دیکھتے رہے ۔کوئی پوچھتا تو کہتے  :

وہ ذرا پیر میں موچ آگئی ہے ڈاکٹر نے گھر میں آرام کا کہا ہے 

شیر بھائی بلا کے پھکڑ تھے ۔  ریاض صاحب کا نام موچی شوہر رکھ دیا ۔  ریاض صاحب کو کرفیو ہٹنے  کے بعد کچھ روز تک موچ ثابت  کرنے کے لئے لنگڑا کر چلنا پڑا ۔ سیدھے آدمی تھے کبھی سیدھی ٹانگ سے تو کبھی الٹی ٹانگ سے لنگڑاتے ۔ کبھی کوئی اس طرف دھیان دلاتا تو کہتے :

آپ بیچ میں ٹانگ نہ اڑائیں ۔۔۔میری ٹانگیں ، میری مرضی !  

دعا یہی ہے کہ سب کورونا سے محفوظ رہیں اور جو شادی شدہ ہیں ان کے نام بھی کورونا کی وبا ختم  ہونے کے بعد کسی اضافت  کا شکار نہ ہوں ۔

Friday 10 April 2020

Article # 50 میں اور میری لائبریریاں ۔۔۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے ۔


Article # 50

 میں اور میری لائبریریاں 

تحریر : اظہر عزمی 

(ایک اشتہاری کی باتیں) 



زمانے گذر گئے مگر کل کی بات لگتی ہے۔
آنکھ کھولی تو گھر میں اردو، سیارہ اور عالمی ڈائجسٹوں کو موجود پایا۔ گھر میں روزانہ اخبار آنے کا رواج نہیں تھا۔ ہمارے ایک عزیز کی پہلی چورنگی ناظم آباد پر کیفے ذائقہ کے سامنے روڈ کراس کر کے ایک عارضی دکان تھی جہاں سے ماہانہ یہ ڈائجسٹیں آیا کرتی تھی۔ والد صاحب کے لئے ان کا پڑھنا لازم تھا جس میں قضا کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ سلسلہ ہماری پیدائش سے پہلے سے جاری تھا اور ہمارے کمرے کا مچان ان ڈائخسٹوں سے بھرا پڑا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پہلی چورنگی کے سامنے والی مارکیٹ نہ بنی تھی اور اسٹاپ کے سامنے مختلف اشیاء کی فروخت کے ٹھیئے ہوا کرتے تھے۔ چورنگی سرسبز و شاداب ہوا کرتی تھی۔ بچپن میں کتنی بار ہم گرمیوں کے موسم میں رات کے وقت والد صاحب کے ساتھ اس چورنگی پر چلے جایا کرتے۔ والد صاحب ایک جگہ بیٹھ جاتے اور ہم ٹھنڈی ہری گھاس پر ڈولتے پھرتے۔ ٹریفک بہت کم ہوا کرتا تھا۔ اس لئے آلودگی برائے نام تھی۔
یاد ماضی میں یہ بڑا مسئلہ ہے لکھنے کچھ بیٹھو اور ذہن کہیں اور جا نکلتا ہے۔ پر کیا کریں قلم کو بہت روکتے ہیں مگر یادیں ہیں کہ اپنی رنگینیوں میں کہیں کی کہیں لے جاتی ہیں۔ باکل عورتوں کی خریداری کی طرح۔ خریدنے کچھ نکلتی ہیں اور اصل دکان پر پہنچنے سے پہلے راہ چلتے کتنے ہی اسٹالز پر چھوٹی موٹی چیزیں دیکھ لیتی ہیں۔ جہاں پہنچنا ہوتا ہے وہاں پہنچتے پہنچتے کافی دیر ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ یادوں کی پٹاری اور عورتوں کی خریداری ایک ہی راستے کی مسافرہ ہیں۔
ابھی بات شروع ہی کی تھی لائبریریوں کی اور کہاں جا نکلا۔ چلیں واپس چلتے ہیں لائبریری کی یادوں پر۔ یہ مضمون ان لائبریریوں کے حوالے سے ہے کہ جہاں کتابیں کرائے پر پڑھنے کے لئے دستیاب ہوتیں۔ میری زندگی میں کل 5 لائبریریاں آئیں۔ میرا پہلا تعارف لائبریری سے اس وقت ہوا جب مجھے یہ پتہ بھی نہ تھا کہ کورس کے علاوہ بھی کتابیں ہوتی ہیں۔ گھر سے آگے ایک دو گلی چھوڑ کر ایک بڑی لائبریری تھی۔ ایک دن وہاں سے گذر رہے تھے کیا دیکھتے ہیں کہ لائبریری کے سامنے ایک لڑکا سڑک پر بیٹھا ہے اور لوگ اس کے اردگرد کھڑے ہیں۔ قریب گئے تو کچھ گفتگو یوں ہورہی تھی۔
“ابے سالے ہم کتابیں لا کر رکھیں اور تو چرا لے جائے”
“پولیس کے حوالے کرو اس کو۔ وہی اس کے دماغ ٹھکانے لگائے گی”
“ارے پولیس کو چھوڑو۔ میں کیا پولیس سے کم یوں۔ جہاں اس نے کتابیں بیچی ہیں وہیں اس کو ٹھکانے لگا کر آوں گا”
یہ کہہ کر لائبریری کے مالک نے سڑک پر آدھے لیٹے اور آدھے بیٹھے لڑکے کے ایک چماٹ اور جڑ دیا اور لڑکا اللہ اللہ کر کے منہ سہلاتا رہ گیا۔ ایک صاحب جو مجمع میں خاصی دیر سے خاموش تھے، بولے:
بیٹا ہیرو نے تو فلم کے آخر میں ولن کو ایسی ہی کٹاس لگائی ہوگی لیکن وہاں آواز ڈھشوں کی آئی ہوگی اور یہاں پٹاخ کی”۔
عقدہ کھل ہی گیا کہ لڑکے ے رات شٹر کھول کر کتابیں چوری کیں، بیچیں اور فلم دیکھ آیا۔ اب سوچتا ہوں کتنا آرٹ کا دلدارہ چور تھا۔ کتابیں چوری بھی کیں تو فلم دیکھنے کے لئے۔ بہرحال یہ تو تھا ہمارا لائبریری سے پہلا تعارف جسے کسی طرح بھی ادب دوستی کے خانے میں رکھا نہیں جا سکتا بلکہ مار کھانے کے خانے میں ضرور رکھا جا سکتا تھا۔ ہمیں اتنا یاد ہے کہ میرے سامنے اختتامی لات پڑھتے ہوئے یہی کہا گیا کہ آئندہ فلم اب اپنے پیسوں سے دیکھیو ورنہ اب جو تو نے کوئی فلم چوری کے پیسوں سے دیکھی تو اس کا نام ہوگا “تیری موت میرے ہاتھ”۔
اکثر لوگ مجھے بچپن سے ہی کتاب دوست کہتے ہیں۔ صاف صاف بتا رہا ہوں ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ جس محلے میں میرا بچپن گذرا وہاں کتاب پڑھنا پاگل پن سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ کسی کو پیچھے سے چھیڑنے کے لئے آواز دینا، جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھے تو انجان بن جانا۔ محلے کے کسی ہلکے سے باولے کو اس وقت تک تنگ کرنا جب تک کہ وہ ماں بہن تک نہ آجائے۔ اب آپ بتائیں ایسے لڑکوں میں میں کہاں چلنے والا تھا۔ عافیت اسی میں تھی کہ گھر میں رہا جائے۔ کورس کی کتابوں سے خدا واسطے کا بیر تھا اب لے دے کے اردو، سیارہ اور عالمی ڈائجسٹیں ہی وقت گذاری کے لئے بچ گئیں۔ پہلے مجبوری میں پڑھا پھر لت لگ گئی۔
جب کچھ بڑے ہوئے اور قدم گھر سے باہر نکلے تو وہ فلم والی لائبریری تو بند ہوچکی تھی البتہ کسی نے آگے روڈ پر زینے کے نیچے چھ سات فٹ لمبی سرنگ نما لائبریری کھول لی تھی جہاں رات میں 60 واٹ کا ایک پیلا بلب جلتا جس کی اداسی مجھے آج بھی یاد ہے۔ یہاں سے ہم نے بچوں کی کتابیں پڑھیں شروع کیں۔ اس زمانے میں اشتیاق احمد مرحوم کے ناولز آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ نونہال اور تعلیم و تربیت کے علاوہ بچوں کا ایک مزاحیہ رسالہ بھی آیا کرتا تھا۔ نونہال ہمدرد پاکستان کے زیر انتظام نکلتا جو آج بھی نکلتا ہے۔ تعلیم و تربیت لاہور سے شائع ہوتا۔ ہم اس لائبریری کے مستقل گراھک ہوگئے۔ والد صاحب نے بس ایک شرط رکھی کہ بچوں کے رسالوں کے علاوہ کچھ ہاتھ میں نظر آیا تو خیر نہیں۔
بچپن سے لائبریری سے دوستی نے لکھاری بھی بہت جلد بنا دیا۔ ابھی چھٹی ساتوں جماعت میں ہی ہونگے کہ بچوں رحمن برادرز کے زیر انتظام ایک رسالہ “غنچہ” میں ہماری کہانیاں شائع ہونا شروع ہوگئیں۔ غنچہ کراچی کے نمایاں بچوں کے رسالے میں ہوا کرتا تھا گو کہ اسے نونہال اور تعلیم و تربیت والی شہرت حاصل نہ تھی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کوئی پھول صاحب غنچہ کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ رحمان برادرس ایک زمانے میں کراچی کے بڑے اشاعتی اداروں میں ہوا کرتا تھا اور پاکستان چوک کے قریب ہی واقع تھا۔ رحمن برادرس کئ اردو سے انگریزی سکھانے کی کتاب بہت مشہور ہوا کرتی تھی۔ بہرحال غنچہ میں ہماری کہانیاں شائع ہوئیں جس میں لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے کے شوق نے کہانی نویسی کی طرف راغب کر دیا تھا۔ یہ ہماری زندگی کی دوسری لائبریری تھی لیکن کرائے پر رسالے لے کر پڑھنے کی پہلی لائبریری تھی۔
اس لائبریری سے رفاقت زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکی۔ لائبریری جلد ہی شٹر بند ہو گئی اور ہم بھی کچھ عرصہ بعد اس علاقے سے کوچ کر کے نئے علاقے میں آبسے۔ یہ علاقہ تھا فیڈرل بی ایریا جو نیا نیا آباد ہوا تھا۔ ہمارے گھر سے ذرا فاصلے پر مشہور گلوکار، شہنشاہ غزل مہدی حسن صاحب رہا کرتے تھے۔ ان کا قیام تو زیادہ تر لاہور میں رہا کرتا لیکن ان کی فیملی یہیں رہائش پذیر تھی جو اب بھی ہے۔ آصف مہدی حسن بھی یہیں رہتے تھے۔ مہدی حسن کے کسی عزیز یا جاننے والے نے یہاں ایک بڑی لائبریری کھولی تھی جو باقاعدہ لائبریری تھی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نئے شائع ہونے والے ناولز، رسالے، ناولز وغیرہ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اضافہ ہوتا رہے۔ یہ ہماری زندگی کئ تیسری لائبریری تھئ۔
اس لائبریری پر شام اور رات کے وقت خاصا رش ہوا کرتا تھا۔ یہاں ہم نے اپنے وقت کے بچوں کے تمام مشہور ناولز کرائے پر لے کر پڑھے۔ اس زمابے میں عجیب نشہ ہوا کرتا تھا۔ ناول ہاتھ میں لیا اور اتنا صبر نہ ہوتا کہ گھر جا کر پڑھ لیں۔ راستے میں ہی ناول پڑھتے پڑھتے گھر پہنچتے۔ کوئی ہوش نہ ہوتا۔ بس دنیا ناول کے صفحوں پر سمٹ آتی۔ والدہ کام کا کہتی رہ جاتیں مگر ہم ٹس سے مس نہ یوتے وہ تو جب خیال آتا کی ناول کے کرائے کے پیسے بھی تو والدہ سے لینے ہیں تو پھر ان کے آگے پیچھے ہوتے مگر اب والدہ کچھ منگوانے کو راضی نہ ہوتیں۔ بس یہی کہتیں کہ اب تمھارے ابو رات میں آئیں گے تو وہ ہی لے کر آئیں گے۔ ہماری جان اور نکل جاتی کہ پیسے تو کیا ہاتھ لگیں گے، مار کے ہاتھ الگ لگیں گے مطلب رات کو والد صاحب ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اماں ماں ہوتی ہے بالآخر ہمارے پیہم بلکہ بے ہنگم اصرار پر تنگ آکر سامان منگوا ہی لیا کرتیں۔ اب یہاں سے ہماری کارروائی کا آغاز ہوتا۔ سودے میں سے پہلے تو النور اسپتال کے ساتھ کھڑے چھوٹے والے سے چھولے کھانے اور اپنے ناول کے کرائے کے پیسے کھرے کرنے۔ کبھی کبھی زیادہ پیسے مار لیتے تو چھولوں میں چار آنے کی پاپڑی ڈلواکر فل عیاشی کر لیا کرتے۔ لو بھائی گھر آکر سامان دیا اور پھر وہی ناول ہمارے ہاتھ میں۔ ایک دن ہم عالی پر کیا گزری پڑھ رہے تھے کہ والدہ نے کتاب لے لی اور اتنا کہا کہ رات تمھارے ابو عزمی پر کیا گزری پڑھ کر سنائیں گے۔ ہمارے ہاتھ پیر پھر پھولے مگر بھلا ہو گلی میں رہنے والی حیدرآبادی خالہ کا کہ وہ آن ٹپکیں اور امی کو محلے کا خبرنامہ سنانے لگیں۔ باتیں کرتے کرتے امی نے عالی کو مسہری پر رکھا اور بھول گئیں۔ اب تو بیڈ کا رواج عام ہوگیا ہے۔ پورے گھر میں ایک یا دو مسہریاں ہوتی تھیں۔ گھروں میں پلنگوں کا ہی راج تھا۔ بڑے بڑے سے بڑا رشتے دار آجائے تو ہم گ پر بیٹھتا بس یہ خیال رکھا جاتا کہ پائینتی پر نہ بیٹھے کہ اس طرف بیٹھنے میں تکلیف ہوتی اور نہ نظر آ نے والے نشانات پڑنے کا امکان ہوتا۔ دیکھا می نے آپ سے کہا تھا ناں کہ بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے اور پھر وہی ہوا خیر ہم نے موقع غنیمت جانا۔ ناول دبایا اور دو چھتی پر تپتی دوپہر میں جا بیٹھے۔ پسینے میں شرابور مگر ناول کا نشہ سب پر حاوی تھا۔ پھر والدہ ہی آواز دیکر کہتیں “اب نیچے بھی آجا۔ کیا اٹوے پر ہی چڑھا رہے گا۔
ہماری پڑھنے کی رفتار خاصی تیز تھی اس لئے ایک بچوں کی ناول 24 گھنٹے سے پہلے چاٹ جایا کرتے۔ اس لائبریری پر جیسا کہ پہلے بتایا کہ جھمگٹا لگا رہتا تھا۔ ایک زمانے جو رش ویڈیو شاپ پر ہوا کرتا تھا کہ فلمیں کرائے پر لینے والوں کی لائنیں لگی ہوتیں وہی رش ہم نے اپنے بچپن میں لائبریری پر دیکھا ہے۔ کرائے پر کتابیں لینے والے کبھی کرایہ دینے میں آنا کانی کرتے یا کسی پر ادھار زیادہ چڑھ جاتا تو کبھی کبھی بات توتکار سے آگے بھی بڑھ جایا کرتی۔ اگر کوئی کہتا کہ تم پیسے زیادہ بتا رہے ہو تو ایسے موقع پر پہلے کرائے کی کتابوں کا رجسٹر بطور ثبوت دکھایا جاتا۔ اگر پھر بھی ادھار کا معاملہ نہ سدھرتا تو پھر اس کے لئے لائبریری کے مالک نے ایک موٹا ڈنڈا بھی رکھا ہوتا کیونکہ بقول شخصے جب دھندہ روڈ پر ہورہا ہو تو ڈنڈا بہت ضروری ہے۔ شریف گاہکوں کے ساتھ تمیز تہذیب سے پیش آیا جاتا۔ اگر کوئی مستقل گاہک ہوتا اور باقاعدگی سے پیسے دیتا تو بطور خیر سگالی دو دن کے کرائے کو ایک دن کا کردیا جاتا۔ اس زمانے میں اگر کبھی کوئی خاتون آجاتی تو لائبریری پر کھڑے لوگ ایک طرف ہو جاتے خیر کراچی میں یہ اخلاقیات تو آج بھی اسی طرح برقرار ہے۔ قصہ مختصر ہم نے اس لائبریری سے جی بھر بچوں کے ناولز اور رسالے پڑھے۔ کچھ عرصہ بعد یہ شوق بھی دم توڑ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ زندگی میں اخبار آگیا تھا۔ سیاسی خبروں اور معلومات کے ہم شروع سے رسیا تھے اس لئے برابر والی خالی کے ہاں اسکول اور کالج کے ابتدائی سالوں میں دوپہر کو اخبار پڑھے بغیر بقول والدہ کھانا ہضم نہ ہوتا۔
حسن بھائی خالہ کے بیٹے، ایک زمانے میں ہمیں میتھس بھی پڑھایا کرتے تھے۔ حسن بھائی کو ایک زمانے میں جاسوسی ناولز پڑھنے کا شوق ہو گیا۔ مین روڈ کے ایک گھر میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی جس کے مالک ملگچے بالوں اور منہ میں پان دبائے بیٹھے رہتے تھے۔ لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھنے والوں کی تعداد کم تھی۔ ہم حسن بھائی کے ساتھ ناول واپس کرنے اور لینے جایا کرتے تھے مگر کبھی کسی ناول کی طرف دھیان نہیں گیا۔ یہ چوتھی لائبریری ہمارے دکان سے زیادہ نہ تھی۔ لائبریری والے صاحب ایک صاحب بصیرت شخص تھے۔ ظاہری شکل و صورت سے جو تاثر ملتا گفتگو سے بالکل زائل ہوجاتا ہے۔ صاف لگتا کہ لائبریری کا پیسے سے دور پرے کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ چوتھی لائبریری قائم تو کافی دن رہی مگر ہم اس وقت جاتے رہے جب تک حسن بھائی کو ناول پڑھنے کی چاٹ لگی رہی۔
یہ بات شاید حیران کن ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں (معذرت کے ساتھ ) کبھی کوئی جاسوسی ناول۔ تو پھر خواتین کا ناول نہیں پڑھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں میٹرک کے دنوں میں ہی لڑکوں کو جاسوسی ناولز پڑھنے کا چسکہ لگ جاتا مگر میں نہ جانے کیوں اس تعمت کی طرف راغب نہ ہو سکا۔ ابن صفی اور پھر ان کے دیگر ہم نام اور مظہر کلیم اس وقت کے مشہور ناول لکھنے والے ہوا کرتے تھے مگر ابن صفی کا کوئی ہم سر نہیں تھا۔
ابن صفی صاحب کو میں نے اسکول کے زمانے میں دیکھا تھا۔ آپ کی رہائش فردوس کالونی میں تھی۔ ہمارے اسکول کے عقب میں آپ کا گھر تھا۔ ہم ریسس کے وقت جب کبھی موقع ملتا تو پیچھے کے چھوٹے گیٹ سے کچھ دیر کے لئے باہر نکل آتے۔ ایسے میں کبھی ان کو گھر کے سامنے چہل قدمی کرتے دیکھا۔
اب آتے ہیں پانچویں اور آخری لائبریری کی طرف۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ جب ابن صفی کا نیا ناول آتا تو لائبریری پر رش لگ جاتا۔ ہمارے محلے میں بعد میں کھلنے والی لائبریری کا مالک بہت ہوشیار تھا۔ وہ ایک ناول کے دو حصے کر کے انہیں کرائے پر چلاتا ہے۔ میرے ہم عمر چچا زاد بھائی ابن صفی کے دیوانے تھے۔ اگر وہ دستاب نہ ہوں تو مظہر کلیم، نجمہ صفی اور اللہ جانے کس کس کو پڑھ لیا کرتے۔ سب سے مزے کی صورت حال اس وقت پیش آتی کہ جب چچا زاد بھائی ناول لے کر گھر آتا تو چچا پہلے ہی اس پر قبضہ کر لیتے اور وہ منہ دیکھتا رہ جاتا۔ چچا زاد کا نام نجمی تھا اس لئے پھر میں اسے ایک عرصے تک نجمی صفی کہتا رہا۔ اب قدریں بدل گئی ہیں۔ پہلے ہر محلے میں دوچار لائبریریاں ضرور ہوتیں۔ اب لائبریری تو دور کی بات کتابوں کی دکانیں ڈھونڈنی مشکل ہیں۔ اگر کسی سے کتابوں کی دکان کا پوچھو تو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے ہم کسی اور سیارے سے آئے ہیں۔ اب کسی کو کیا پتہ کہ ہم بچپن میں سیارہ ڈائجسٹ پڑھ کر آئے ہیں۔

Wednesday 1 April 2020

Article # 49کورونا سے تو لڑ لوں گا مگر ۔۔۔ ایک ماسک زدہ شوہر کا قصہ


Article # 49


کورونا سے تو لڑ لوں گا مگر ۔۔۔ 

ایک ماسک زدہ شوہر کی بپتا 


تحریر : اظہر عزمی 

(ایک اشتہاری کی باتیں) 






ہمارے ایک دوست ہیں بّبو میاں۔ ہیں تو بڑے احمق لیکن کبھی کبھی سادگی میں بڑے پتہ کی بات کر جاتے ہیں۔ کورونا کا نیا ہنگامہ شروع ہوا تو بولے: تم کچھ بھی کہو کوئی بھی بلا ہو یا وباء نام عورتوں والا ہی ہوتا ہے۔ چلیں میں آپ کو اس کی وجہ بھی بتا دوں۔ اصل لڑائی ان کی ایک عورت سے ہے لیکن وہ لپیٹ سب کو لیتے ہیں۔ وہ عورت کوئی اور نہیں ان کی شریک حیات ہیں جنہیں وہ وجہ مشکلات کہتے ہیں۔ شادی آنکھ لڑا کر کی تھی، اب ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
ابھی لاک ڈائون شروع نہ ہوا تھا۔ ایک دن ماسک لگائے گلی کے نکڑ پر آکھڑے ہوئے۔ میں نے کہا: آپ بھی؟ بولے کیا کروں۔ ویسے اس عمر میں منہ چھپانا بڑا عجیب سا لگتا ہے۔ زندگی بھر کھلے منہ سے جیئے ہیں۔ میں نے کہا: بس بّبو میاں بس۔ رہنے دیجئے کھلے منہ سے پھرے ضرور ہیں مگر گھر جا کر تو منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ صاف صاف کہیں گونگے کھلے منہ سے جیئے ہیں۔ بّبو میاں سے میری یہ زبان درازی برداشت نہ ہوئی مگر اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ بولے: شادی شدہ کی مجبوریاں تم کیا جانو۔ اس جملے میں جو کرب اور بے چارگی تھی وہ میں ان کے ماسک کی وجہ سے محسوس تو نہ کر پایا لیکن آنکھوں کی اداسی نے سب کہہ دیا۔ میں نے دل رکھنے کو کہا: دل کیوں چھوٹا کرتے ہیں پوری دنیا منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ آپ اکیلے تو نہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس تسلی کو تشفی کے خانے میں رکھیں گے مگر وہ تو ناراض ہوگئے: رونا تو اسی بات کا ہے، کھاپیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔ اور تم یہ منہ چھپانا بھی تو دیکھو۔ اس کم بخت مارے ماسک نے بڑے بڑوں کے کان پکڑا دیئے ہیں۔ ہم تو سمجھے تھے کہ کان بیوی کی سنی اس سنی کرنے اور چشمے کی کمانیں ٹکانے کے لئے ہوتے ہیں مگر یہاں تو یہ ماسک آگیا۔ یقین جانو بارات والے روز منہ پر رومال رکھا تھا اور اب یہ ماسک۔
میں نے سوچا کہ بات کا موضوع بدل دوں، پوچھا نکلنا کیسے ہوا؟ بولے: ہوا خوری کے لئے لیکن نکلتے نکلتے بیوی نے کہہ دیا کہ جا تو رہے ہو مگر میرا ماسکانہ مشورہ یہی ہے کہ ماسک پہن لو ورنہ گھر میں نہیں گھسنے دوں گی۔ مجھ سے بھی برداشت نہ ہوا بول ہی پڑا: کیوں کیا یہ گھر آپ کے والد صاحب نے جہیز میں دیا تھا۔ تنک کر بولیں جب بچے جوان ہوجائیں تو گھر بیوی کا ہی ہوتا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل پر لاکھ تمہارا نام لکھا ہو۔ میں نے سوچا مزید بحث فضول ہے۔ ماسک چڑھا کر باہر نکل آیا۔ یار تم کچھ بھی کہو یہ ٹکے ٹکے کے ماسک بڑے منہ چڑھے ہو گئے ہیں۔ میں نے کہا: بّبو میاں اگر زندہ رہنا ہے تو کسی اور کو منہ نہ لگائیں اور ویسے بھی اب یہ ٹکے ٹکے کے کہاں رہے ہیں۔ اگر یہ نہ پہنیں تو زندگی ٹکے جیسی ہو رہی ہے۔ خریدنے جائیں تو قیمت سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بّبو میاں نے سر کو ہاں میں ہلایا اور ایک دم ہلکے سے میرے کان میں بولے: ویسے ان ماسک کا ایک فائدہ ہوا اب کچھ بھی بڑبڑاتے رہو بیوی کو کچھ دکھتا ہی نہیں۔ پہلے تو بھائی ہلکا سا منہ ہلایا اور اس نے پکڑ لیا۔ وہ ہمارا سالا ہے ناں مستقیم، کل موبائل پر بات ہوئی تو کہہ رہا تھا دولہا بھائی میں تو سوچ رہا ہوں۔ وائرس چلا بھی جائے میں نے گھر میں ماسک ہی لگا کر رکھنا ہے۔ میں نے کہا سالے ماسک میں سانس رک کر آ تی ہے۔ کہنے لگا آتی تو ہے ورنہ دن میں کئی مرتبہ بیوی کی ڈانٹ سے تو بالکل ہی رک جاتی ہے۔


اب بّبو میاں کا دل ذرا مائل بہ مزاح ہو چلا تھا۔ کہنے لگے: اب تو راہ چلتے کسی کو دیکھنے کو دل بھی نہیں چاھتا۔ ناک نقشہ سمجھا میں ہی نہیں آتا۔ بس اندازے پر گذارا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ بقول شاعر تیری آنکھوں کے سوا چہرے پہ دکھتا کیا ہے۔ پہلے بڑی آ سانی تھی راہ چلتے اچٹتی نظر ڈالی اور آگے بڑھ گئے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ میں نے بّبو میاں کو چہکتے دیکھا تو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: پہلے زندگی معاشقانہ تھی اب ماسکانہ ہوگئی ہے۔ بولے: میاں ماسک منہ پر لگایا ہے نظر پر تو نہیں۔ بس اس ماسک کے بعداب نظر کے ساتھ دماغ کو بھی کام میں لگانا پڑتا ہے۔ بّبو میاں نے ماسک کو منہ سے ہٹایا۔ ایک ہلکی سی چھینک میرے منہ کی طرف روانہ کی اور گہری سانس لینے کے بعد بھر ماسک زدہ ہو گئے۔ میں نے کہا: یہ کیا کیا۔ بولے فلٹرڈ سانس لینا بھی بہت خطرناک ہے ورنہ پھیپھڑے سمجھیں گے کہ میں اٹلی یا فرافس میں رہ رہا ہوں۔ تم سن نہیں رہے ہو سب سے زیادہ اموات صاف ستھرے ملکوں میں ہو رہی ہیں۔ ملک الموت کا سارا دھیان ان ہی ملکوں کی طرف ہے۔۔۔ اور سنو !اب تو سننے والوں کو آواز یںبھی فلٹرڈ ہو کر جانے لگی ہے وہ بھی عمر کے لحاظ سے۔ کل کریانہ کی دکان پر گیا۔ اس سے کہا کہ چھالیہ ہے تو بولا دلیہ شام تک آئے گا شام کو آنا۔ میں نے کہا دلیہ سن لیا جو دکان پرتھا حالانکہ چھالیہ سے قریب ترین لفظ تو عالیہ ہے۔ دکاندار نے برا سا منہ بنا کر کہا چاچا یہ مسخری بعد میں کرنا ابھی دھندے کا ٹائم ہے۔
میں نے بّبو میان کو پٹری سے اترتے دیکھا تو کہا: آپ کے منہ سے ایسا عالیانہ کلام زیب نہیں دیتا۔ بّبو میاں نے برہم ہو کر کہا: میں نے ایسا کیا کہہ دیا۔ آپ کی سوچ میں فتور ہے۔ میں نے پھر مودبانہ عرض کی: یہ مت بھولیں کہ خدا نے آپ کا پردہ رکھا ہوا ہے۔ تنبیہہ ہے آپ کے لئے۔ 60 سال آپ کی عمر ہوچکی ہے، بہتر ہے اللہ کو یاد کریں ایسا نہ کہ اس وباء ہی میں اللہ آپ کو یاد کر لے۔ بّبو میاں کی آنکھوں میں خوف کے گہرے بادل نظر آئے۔ موت کا سن کر ذرا ہلکے ہوئے اور رخ وائرس کی علامات کی طرف موڑ دیا: 3 سے 4 والی علامات کی وجہ سے سب کچھ لاک ڈائون ہونے کی خبریں آرہی ہیں مگر بھائی ایک بات بتاو ہم جو سالوں سے ایک وائرس کی وجہ سے گھر میں ناک ڈائون رہتے ہیں۔ اس کانہ کوئی ہی علاج ہے اور نہ کوئی احتیاطی تدبیر۔ بس ایک بار لگ جائے تو جانے کا نام نہیں لیتا۔ جب کبھی چھٹکارے کی خواہش ہوتی ہے تو بس آسمان کی طرف غیبی امداد کا سوچ کر رہ جاتے ہیں۔
میں بّبو میا ں کی حسِ مزاح سے وقف تھا مگر سیریس ہی رہا۔ البتہ چھیڑنے کے لئے پوچھا بیٹھا: کیا اس وائرس میں بھی گھر پر بیٹھا جاتا ہے؟ بّبو میاں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا: سیانے کہتے ہیں بس اسٹاپ پر کھڑے ہو جائو ، کوئی ایمبولینس چلا لو۔ موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلا لو مگر گھر میں نہ بیٹھو۔ مرض کی شدت اور زندگی کم ہونے کا خطرہ ہے۔
بہرحال بّبو میاں نے بتایا کہ موجودہ وائرس جو دنیابھر میں پھیلا ہے اس میں خشک کھانسی، نزلہ زکام، بخار اور سانس لینے میں تکلیف شامل ہے لیکن جس وائرس کی میں بات کر رہا ہوں اس کے آگے دنیا کے کسی وائرس کی کوئی علامات کچھ نہیں بیچتی۔ دنیا کی ساری فارما کمپنیز سر کیا پیر بھی جوڑ کر بیٹھ جائیں تو اس کا علاج دریافت نہیں کر سکتی ہیں۔ میں نے کہا ایسا کیا ہے۔ بولے بابا آدم کے زمانے کا مرض ہے۔ میں نے پوچھا علامات تو بتا دیں۔ بولے: دیوار کی طرف منہ کر کے سونا، ساس کے آ نے پر سانس رک رک کر آنا، بات بات پر سالے کو چھوڑوں گا نہیں کی تکرار، حالات کے تبدیل نہ ہونے کا یقین، گھر آتے ہی زبان میں لڑکھڑاہٹ، مزاج میں جھنجھلاہٹ، ارے سنتے ہیں پر بہرہ بن جانا، نظر میں کمزوری، غائب دماغی، صدمے کی کیفیت ، طبیعت میں سستی ، خود سے باتیں وغیرہ وغیرہ۔ میں ہنسا اور بولا: یہ وائرس تو شادی کے بعد لگتا ہے۔ بہت خوش ہوئے بولے: شاباش، آدمی ذہین معلوم دیتے ہو۔ اب اس وائرس کا نام بھی سن لو۔ دنیا بھر میں الگ الگ نام ہیں پر پاکستان میں اسے “صبرونا” کہا جاتا ہے۔ میں نے کہا بس آ پ ایک ورد کرتے رہا کریں۔ بولے: وہ کیا؟ میں نے کہا: اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
کچھ دیر نہ جانے کیا سوچتے رہے۔ ایک گہری آہ بھری اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: تم خوش نصیب ہو۔ صبرونا کے مریضوں کے تجربے سے فائدہ اٹھائو۔ میں نے کہا: مشکل ہے۔ اگلے چند ماہ میں میری شادی ہے۔ بّبو میاں نے میرے کاندھے پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ جیسے اب کبھی نہیں ملیں گے اور مجھے خالد محمود شانی کا شعر یاد آنے لگا:

جس طرح آپ نے بیمار سے لی ہے رخصت
صاف لگتا ہے جنازے میں نہیں آئیں گے
———–
(پروردگار ہم سب کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھے۔ آ مین)

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...