Friday 22 May 2020

Article # 56 رام پور سے شادی کا ایک دلچسپ ، چٹخارے دار دعوت نامہ

Article # 56


رام پور سے شادی کا ایک دعوت نامہ
جسے لکھنا، پڑھنا ایک کارنامہ



تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب کپڑے بنانے کی ویوینگ مشینیں نہ آئیں تھیں اور کپڑے کا سارا کام جولاہوں کے ہاتھ میں تھا۔ قسم قسم کے کپڑے بنتے وہ بھی ایسی کاری گری سے کہ دیکھنے والا ششدر رہ جاتا۔ حوادثِ زمانہ کہیں یا ترقی، دنیا ہی بدل گئی۔ اسی لئے عید آتی تو ہمارے گھر کی بڑی بوڑھیاں کہیں نہ کہیں یہ محاورہ پٹک دیا کرتیں کہ بنِ جولاہے عید کہاں۔ ذرا بڑے ہوئے تو کچھ اور محاورے کانوں میں پڑے۔
عمر کم تھی لیکن اتنا سمجھ میں آگیا تھا کہ سوت اور کپاس سے کام جولاہوں کو ہوتا ہے۔ یہ ایک انتہائی محنتی، قابلِ تعظیم، سادہ مزاج اور اپنے پیشے سے مخلص برادری ہے۔ اپنے کام میں بہت عرق ریزی اور نفاست سے شب و روز مصروف رہتی ہے۔ کام ریشے سے ہے مگر ریشہ دوانی سے کام نہیں لیتے ہیں۔ ریاست رام پور ہندوستان بھر میں کپاس اور گنّے کی کاشت کے لئے مشہور تھی۔ اس لئے ان کا آب و دانہ یہاں لکھا ہونا لازمی تھا۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کے مسلم جولاہوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان آبسی۔ اب چاھے وہ یہاں ہوں کہ ہندوستان میں ان کے ہاں مرنے جینے، شادی بیاہ میں رسم و رواج کا چاند پوری آب و تاب سے ضوفشاں ہیں۔ یہ اسے کسی طور گہنانے نہیں دے رہے۔ موقع خوشی کا ہو تو پھر ان کا ہاتھ روکے سے نہیں رکتا۔ خرچ کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ کپڑے کی بُنت کے ماہر ہیں لیکن اس سے کہیں دلاآویز بُنت لفظوںسے کرتے ہیںاور عام بول چال میں ایسے ایسے ٹانکے لگاتے ہیں کہ پکڑائی نہیں دیتے۔ سوچیں! خوشی کے موقع پر یہ صلاحیت کس طرح عود کر بلکہ کود کر آتی ہو گی۔ مشہور شاعر گلزار ان کی اصل بُنت کے دیوانے ہیں اور ان سے یہ ہنر سیکھنا چاھتے ہیں:
مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جولاہے
اکثر تجھ کو دیکھا ہے تانا بنتے
جب بھی کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا
پھر سے باندھ کے
اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بننے لگتے ہو
تیرے اس تانے میں لیکن
کوئی بھی ایک گانٹھ گرہ بنتر کی
کوئی دیکھ نہیں سکتا ہے
میں نے تو ایک بار بنا تھا ایک ہی رشتہ
لیکن اس کی ساری گرہیں
صاف نظر آتی ہیں
میرے یار جولاہے
مجھ کو بھی ترکیب سکھا دے یار جولاہے
مجھے لڑکپن میں محلے میں ان کی ایک میں شادی میں جانے کا اتفاق ہوا۔ گرائونڈ میں بڑا سا ٹینٹ لگا۔ شادی دوپہر کی تھی، ہمارا لینا دینا شادی سے بس اتنا تھا کہ کھانے مزے کا مل جائے لیکن دعوتِ شیراز کا تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔ کوئی چار، پانچ سو مہمانان ِ گرامی قدر ٹینٹ میں جلوہ افروز تھے اور جہیز رونمائی کی تقریب جاری تھی۔ ایک ایک چیز دینے والے کے نام کے ساتھ ہاتھوں میں اٹھا کر دکھائی جا رہی تھی کہ کس نے کیا دیا۔ بڑی خوشی ہوئی کہ یہ آج بھی اپنی روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک ایسی ہی تقریب میں دولھا کو منہ دکھائی میں موٹر سائیکل دینے کا اعلان ہوا ۔ دلھن کا بھائی موٹر سائیکل ــ”جہیز گاہ” میں لارہا تھا ۔ موج میں آکرموٹر سائیکل کی رفتار تیز کی تو وہ ہوا سے باتیں کرتی لوگوں پر چڑھ دوڑی۔ وفورِ جذبات سے ساری خوشی کافور ہوگئی۔ کسی کی آئینتی دیکھی نہ پائینتی اور نہ ہی مقامات ِ وسط، جہاں جگہ دیکھی پہیہ گھوماتا چلا گیا۔ تقریب درہم برہم ہوگئی۔ دم بھر میں صورتِ حال ایسی ہوگئی کہ جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں بلّم بھی ہوتا ہے۔ اکثر نے تحمل و برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا لیکن جو تکلیف سہہ نہ پائے وہ ہاتھ چھوڑ (Freehand) ہوگئے اور جو ہاتھ میں آیا موٹر سائیکل والے لمڈے کی طرف لے کر لپکے۔ جس سے اٹھا نہ گیا اسے نے وہیں بیٹھے بیٹھے موٹر سائیکل والے لمڈے کی شان میں وہ وہ “بلوغتی” جملے کہے کہ برادری کے منچلے تو عش عش کر اٹھے لیکن باہر کے لوگ غش غش کر بیٹھے۔ زبان کی آتش فشانی اورشائستہ مزاجی کو جس طرح فی الفور ہاون دستہ میں کوٹا گیا، اس سے اندازہ ہوا کہ یہ “حکیم+انہ” گفتگو بہت کشت اٹھانے کے بعد واردِزبان ہوتی ہے تب کہیں جا کے محفل کشتہِ زعفران بنتی ہے۔
قریب تھا کہ سب تلچھٹ ہوجاتا۔ ایسے میں خاندان کے بڑوں نے لمڈے کو دفع کر کے معاملہ رفع دفع کیا۔ ایک بوڑھے نے ہاتھ گھما کر اپنے جسم کا درد زدہ حصہ سہلانے کی کوشش میں ناکام ہوتے ہوئے کہا کہ یہ لمڈاتو وہاں تک پہنچ گیا جہاں آج تک مارے اپنے ہاتھ نہ پہنچ پائے۔ ایک جناب نے اِن صاحب سے کہا اب کیا اب لمڈے کی جان لے گا۔ تیں نہیں پہنچا تو کیا ہوا ؟یہ لمڈا تو پہنچا۔ کوئی دوسرا پہنچے تو تجے اس پہ بھی ایتراج ہے۔
جب یہ بات چلی تو مجھے ملتان کے روہتکی صاحبان یاد آگئے۔ ہمارے ایک دوست ملتان کے ہیں۔ جب بھی آتے ہیں سوہن حلوے کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا توشہ ِ خاص لے آتے ہیں کہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے زیادہ مزہ کس میں ہے۔ توشہِ خاص میں عموماً ملتان کی روہتکی حضرات کی کوئی نہ کوئی گفتنی ہوتی ہے جو اکثر مجمع عام میں ناگفتنی کے خانے میں آتی ہے ۔ کیاکیف آوراور پُر تاثیر گفتگو کرتے ہیں کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ سادہ جملہ بھی اس طرح ادا کرتے ہیں کہ ہم جیسامردم بیزار بھی زندگی آثارہو جاتا ہے ۔ یہ تو زندوں کی بات ہورہی ہے ان کو تو چھوڑیں اگر مردے بھی ان کی گفتگوسن لیں توقبر پھاڑ کر قہقہہ لگا تے اٹھ بیٹھیں۔ روہتک ہر یانہ بھارت میں واقع ہے ۔ ہجرت کے بعد وہاں کی مسلم آبادی پاکستان آبسی۔ ملتان کے بازار میں ان کی کئی دکانیں ہیںجہاں یہ مختلف کاروبارکرتے ہیں۔ جتنا دم باتوں میں ہے اس سے کہیں زیادہ ہاتھوں اور لاتوں میں ہے۔ اگر Viva میں نمبر کم آنے کا خدشہ ہو تو یہ Practical میں پورے نمبر لے اُچکتے ہیں۔ شیریں سخنی اور ملنساری ان پر ختم ہے لیکن اگر خلاف ِ مزاج بات کی تو پھر بہت کچھ ختم ہے۔ مہربان اور قہربان والا معاملہ ہے۔ نظر کرم کو نظر گرم ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ان کا ایکا مشہور ہے ۔ آپ کسی ایک سے گرمی کھایئے، یہ آ پ سمیت پورے ماحول کو گرما دیں گے۔ وہ آئو بھگت کریں گے کہ جوڑ جوڑ بے جوڑ ہو کر گواہی دے گا۔
ایک مرتبہ ایک کاروباری روہتکی بھائی کو شاعری کا شوق چرا آیا۔ مشاعرے کا اہتمام کیا اور یہی کہا کہ کلام ِآخر انہی کا ہوگا ۔ شعراء آگئے یا پکڑ کر لائے گئے۔ آخر میں صاحبِ صدر کی آمد پر پنڈال جھوم اٹھا۔ ابھی وہ جیب میں غزل ٹٹول ہی رہے تھے کہ شرکاء کھڑے ہوگئے اورمثلِ غزال واہ واہ کی چوکڑیاں بھرنے لگے۔ وہ شعراء جنہوں نے کسی کے بھی شعر کو قابلِ داد نہ سمجھا تھا، سنبھل کر بیٹھ گئے کہ اگر داد نہ دی تو کوئی داد رسی کو نہ آئے گا اور طبیعت گھر تک سنبھالے نہ سنبھلے گی۔ بس آپ ایک شعر سن لیجئے تاکہ آپ کو بقیہ اشعار کا ادراک ہو سکے۔
بھر بھر کے جام ساقی سب کو پلا ریا تھا
اور من نے کہ ریا تھا تیں بار جا کے پی لے
رام پور (بھارت) کے شادی کے جس دعوت نامے نے لکھنے کی تحریک دی، اب چلتے ہیں اس کی طرف، دعوت نامہ کیا ہے؟ اپنائیت، خلوص اور شگفتہ بیانی کے سطر در سطر بے بہا موتی بہادیئے گئے ہیں۔ شادی کایہ دعوت نامہ 1951کا ہے مگر آج بھی ترو تازہ اور تبسم آمد ہے۔ خاصے کی چیز یہ ہے دعوت نامے میں حفظ ِمراتب کا باکمال اور شریک نہ ہونے والوں کابڑا “با عجت” خیال رکھا گیا ہے۔ لفظ بہ لفظ نقل کیا جارہا ہے۔
دعوت نامہ
شروع اللہ کے نام سے، جس نے یہ دن دکھلایا
ہمارے پیارے بھائی نسیر عرف پیٹ جلے اور سرسوں بھابھی کے بڑے لمڈے بسارت نسیر عرف بچھو میاں کا بیاہ
بھائی متین میاں عرف جلے کٹے اور انگارن بھابھی کی لمڈیا
نگینہ بی عرف منی ناگن سے تے پایا ہے۔
برات جمعرات کی سباہ فجر کی نماج کے باد بھائی پیٹ جلے کے گھر سے نکلے گی
اور حجرت ہرے بھرے ساہب کی درگاہ سے سلام کر کے دوپہر پے لے بھائی جلے کٹے کی ڈیوڑھی چڑے گی۔
ساری برادری کو تار روٹی کی داوت ہے۔
بھائی جلے کٹے لمڈیا کی شادی میں اپنا بیل کاٹ کر کھلا ریا ہے۔
مریجوں اور بڈھوں کے لئے بکری کا گوس بھی ہے۔
دولے کی سلامی سوا روپے رکھی ہے۔ برادری والے بھی سلامی لاویں جو ایک آنے سے کم نہ ہو۔ اپنی عجت کی بات ہے
جو برادری والے نہ آویں اور اینٹھ جاویں، وے دو روٹی جیادہ کھاویں اپنے گھر
ہم بھی نہ جاویں گے وِن کے بیاہ میت میں، بھول نہ جانا تار روٹی کھانے آنا
دھاگا گلی، بنیہ محلہ، رام پور
دعوت نامے کا اصل مزہ اونچی آواز میں پڑھنے سے آئے گا۔ سارے سین اور شین ٹھکانے لگ جائیں گے۔ میرے ایک جاننے والے رام پور کے ہیں ۔ ان کو یہ دعوت نامہ دکھایا تو بولے کہ آپ جتنا زور لگا کر پڑھ لیںاس چار آنے کے برابر بھی نہیں جو لکھنے والوں کی زبانی سن کر آئے گا کیونکہ اس میں پڑھنے والا کچھ جگہوں پر بڑے با معنیٰ وقفے لے گا اور آپ تاڑ جائیں گے کہ اس وقفے میں چہرے کے تاثرات اورلبوں کی پھڑپھڑاہٹ کے ذریعے کیا پیغا م دیا گیاہے۔ آپ کہہ اٹھیں گے کہ میں نے یہ جانا کہ یہ بھی تیرے دل میں ہے۔ کہنے لگے کہ اس دعوت نامے کو رقم طراز کر نے کے لئے برادری کے بڑے ایک جگہ نیم دراز ہوئے ہوں گے اور اس دوران “نفس ِ مضمون” پر جو تباہ آزمائی ہوئی ہوگی۔ اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے کہ جو رام پور یا ہو۔ اس شہ پارے کی تخلیق کے دوران جو باہمی گفت و شنید ہوئی ہو گی اور سطور کاٹتے ہوئے جو “مستور حجاب” جملوں کاتبادلہ ہوا ہوگا، دعوت نامہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ کہنے لگے دعوت نامے میںجن کو آنا ہے ان کو عزت و تکریم کے ساتھ سلامی کی رقم بھی بتا دی گئی ہے تاکہ بعد میں کوئی ٹنٹا کھڑا نہ ہو۔ جو نہیں آرہے ان کے لئے بھی بہت ممدوحانہ اور مشفقانہ انداز اختیار کیا گیا ہے اور لفظوں کے استعمال میں بڑی مشقتانہ احتیاط برتی گئی ہے۔ سوچیں! جب دعوت نامہ لذائذ لفظی سے بھرپور تھا تو شادی میں لذت کام و دہن کا کیا اہتمام ہوا ہوگا۔ (یہ مضمون زبان کی لطافت کے زمرے میں تحریر کیا گیا ہے)۔

Friday 8 May 2020

Article # 55 ککو بھائی : شادی شہداء کا ایک تاریک ساز کردار

Article # 55


ککو بھائی 
شادی شہداء کا ایک تاریک ساز کردار

تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

ہمارے ایک غیر شادی شدہ دوست جو محلہ چھوڑ کر جا چکے ہیں مگر مہینے میں ایک آدھ چکر لگا لیتے ہیں ، شوہروں کو "شادی شہداء " کہتے ہیں ۔ جب بھئ آتے ہیں ایک ہی بات کہتے ہیں : شوہروں کی "قبر گیری" کے لئے آتا  ہوں ۔ فرماتے ہیں 

شادی شوہر کا ایک ایسا " فاتحہ + انہ " اقدام ہے جس کا کھانا سب خوشی خوشی تناول فرماتے ہیں اور جاتے جاتے برے وقتوں کے لئے ایک لفافہ بھی ہاتھ میں دھر جاتے ہیں کہ اب اس سے آگے تم جانو اور جو مقامات شدیدہ آئیں گے وہ تمھارا نصیب ، ہمارے طرف سے یہ کیشی امداد ہی زاد راہ ہے ۔

میں اس معاملے میں ذرا ہلکا ہاتھ رکھتا ہوں کیونکہ ایک عدد  بیوی رکھتا ہوں ۔ میرا شوہرانہ عقیدہ ہے کہ شوہر ہر صورت میں پیارا ہوجاتا ہے ۔ کچھ اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں اور بچے کچھے بیویوں کو ۔ کہتے ہیں کہ جب موت آئے تو بہتر ہے کہ آپ زندہ یوں ۔ دوست کہتا ہے کہ شوہروں سے یہ توقع عبث ہے ۔ 

ایک بار آئے تو بولے  

آج کل "شادی شہداء" کے تاریک ساز کردار کے کیا حال ہیں ؟ 

میں نے کہا : کس کی بات کر رہے ہیں ۔ 

بولے:  ککو بھائی کا ذکر خیر کر رہا ہوں ۔ میں نے کہا کہ ہنوز زندگی کی قید میں ہیں ۔ جوابا بولے : بیویاں کھا گئیں شوہراں کیسے کیسے ۔ 

دوست تو کچھ دیر بعد چلتے بنے مگر ککو بھائی کو میرے ذہن میں چپکا گئے ۔ ککو بھائی ایک عرصے سے مجھ سے سماجی فاصلے ہر یقین رکھتے ہیں ۔ میں چاھتا ہوں کہ یہ خلیج پاٹ دوں مگر وہ رستہ کاٹ جاتے ہیں  ۔ وجہ بڑی سیدھی سی ہے کہ ایک زمانے میں ، میں نے سماج کی دیوار بننے کی اپنی سی کوشش کی تھی لیکن چند اینٹیں ہی رکھی تھیں کہ پیچھے ہٹ گئے۔ چلیں ! ملتے ہیں ککو بھائی جیسے سادہ مزاج انسان سے جس کی محبت کی داستان ایک عرصے تک موضوع سخن رہی اور اس زمانے کے نئے عشاق کو یہ یقین دلاتی رہی کہ مایوسی عاشقوں کے لئے زہر قاتل ہے اور یہ ثابت کردیا کہ جوڑے بنتے اوپر ہیں لیکن سلتے نیچے ہیں۔  

ککو بھائی نے زبدگی میں ایک محبت کی اور محبوبہ ان کی جھولی میں آگریں ۔بقول احمد فراز  ککو بھائی نے یہ ثابت کر دکھایا:

ہم محبت بھی توحید کے قائل ہیں فراز
ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا

 یہ قصہ اس زمانے کا ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے تفریح کی تلاش میں "گلی گرداں" رہتے تھے۔  جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ککو بھائی اپنے سے کم از کم  پانچ ایک سال بڑا پایا اور ان کی یہ بڑائی آج بھی قائم ہے جس میں ککو بھائی نے کچھ کیا نہ دھرا اس لئے کسی صورت ذمہ داری کے زمرے میں نہیں آتے ۔ ککو بھائی سے متعلق ان کی والدہ کے بقول ککو کبھی بڑا نہیں ہوگا ۔ اکثر ککو بھائی سے کہتیں کہ تو مجھے بس یہ بتا دے جب عقل بٹ رہی تھی تو اس وقت کہاں گیا تھا ۔ بیٹے کے لئے ماں کے کمنٹس پر میں نے ہمیشہ " نو کمنٹس" کا بورڈ لگا رکھا ہے ۔ ککو بھائی درمیانہ قامت کے پست ہمت شخص ہیں ۔ رنگت ضرور کھلتی ہے اور اگر کبھئ لڑائی جھگڑا ہوجائے تو سب سے پہلے رنگٹ  اڑتی ہے ۔ ککو بھائی کا انداز گفتگو جاسوسانہ ہے ۔ ہلکی ہلکی آواز میں بلاوجہ ادھر ادھر دیکھ کر بات کرتے ہیں ۔ بہت زیادہ جذباتی ہو جائیں تو بات کرنے والے کی کلائی پکڑ لیتے ہیں کہ کہیں بھاگ ہی نہ جائے ۔ ایک جملے میں کم از کم  دو سے تین بار ہیں ہیں کی تکرار کرتے ہیں ۔

ککو بھائی کو ابتدا سے ادھر سے ادھر ٹائم ضائع کرتے دیکھا ۔ ککو بھائئ کا اپنا جغرافیہ صحیح نہیں تھا لیکن انہیں دنیا بھر کے جغرافیہ کی خبر تھی ۔ کون سا ملک کس کے  کولہوں اور گھٹنوں سے لگا بیٹھا اور کون کس کی گود میں بیٹھ کر کس کی داڑھی سے تنکے نکال رہا ہے ۔ سب پتہ تھا ۔ ہماری معلومات کیونکہ محدود تھی اس لئے اکثر اوقات ملکوں کی سرحدیں تبدیل کردیا کرتے ۔ کسی ایک ملک کو براعظم بدر کرنے ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ۔کھڑے کھڑے دنیا کا نقشہ تہہ و بالا کر دیتے ۔ میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ عالمی نقشے میں جتنی تبدیلیاں ککو بھائی نے کی ہیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکا تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ عقلی صلاحیت والدہ نے بتا دی ۔ جغرافیائی اتھل پتھل آپ نے پڑھ لی۔  تعلیمی قابلیت سے متعلق قرائن یہی بتاتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ایک دو بار ان کے ہاتھ میں کتاب دیکھی تھی ۔اب یہ نہیں معلوم کہ کتاب نصابانہ تھی کہ بے حجابانہ ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ککو بھائی نے اپنی تعلیم سے متعلق کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ بولتے بھی کیسے ؟ کبھی اس موضوع پر گفتگو ہی نہیں ہوئی ۔ 


ککو بھائئ قبول صورت ، معقول سیرت اور نامعقول عادات کا ملغوبہ تھے ۔ (تھے سے یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ ککو بھائی عالم بالا میں بالا نشیں ہیں۔ ماشاء اللہ بقید حیات ہیں ۔ ککو بھائی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں تھے لکھنے میں کوئی تردود نہیں ہوتا ۔بالآخر سب کو تھے ہوجانا ہے ) ۔ ککو بھائی نے تعلیم کی طرف اور تعلیم نے ان کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ نقصان دونوں کا ہوا ۔میرا خیال ہے زیادہ نقصان تعلیم کا ہوا ۔ امید یہی تھی کہ ککو بھائی میٹرک کرنے کے بعد NASA میں ملازمت اختیار کر لیتے تو ستاروں ہر کمند ڈالتے نہ ڈالتے مگر کوئی نہ کوئی گند ضرور ڈال آتے ۔

عجب مزاج پایا تھا ۔ باہر موسلادھار تیز بارش یو رہی ہے ۔ سب نہا رہے ہیں اور ککو بھائی کھڑکی میں چائے کا کپ لئے کھڑے ہیں ۔ مجال ہے جو کبھی کسی بارش میں پاوں بھی گیلے کئے ہوں ۔ اصل میں دل تو ان کا بھی بہت چاھتا تھا مگر وہ جانتے تھے کہ بارش میں باہر نکلتے ہی ان کو ایک خاص نام سے پکارا جائے گا ۔ ککو بھائی اصل میں اپنی دونوں ایڑیاں اوپر اٹھا کر چلا کرتے تھے ۔ بالکل ایسے جیسے لوگ بارش کے پانی سے بچنے کے لئے چلتے ہیں ۔ کسی نے منچلے نے ککو  بھائی کو " بارش کی پیدائش " کہہ دیا تھا ۔ بس یہ بات ککو بھائی کے دل کو لگ گئی ۔ لاکھ مینہ برسا مگر وہ گھر سے نہ نکلے۔ اور نکلے بھی تو کب ؟ شدید گرمیوں میں تپتی دوپہر میں ہمارے گھر کے سامنے سے ۔۔۔ شو مئی قسمت دیکھیئے ! ہم نے دیکھ لیا کہ اکیلی گلی میں ککو بھائی ہیں اور اس سے 15 سے 20 قدم پر ایک خوش شکل اسکول ٹیچر جو ذرا آگے رہا کرتی تھی ، وہ جا رہی ہے۔ پہلے دن تو ہم نے اسے اتفاق کے خانے میں رکھ کر ککو بھائی کو شک کا فائدہ دے دیا کیونکہ ککو بھائی چہرے سے ہی لڑکیوں کے پیدائشی بھائی لگتے تھے مگر لگاتار دو روز یہی ہوا تو پھر شک کا فائدہ دے کر ملزم کو شہ دینا تھی ۔

محلے میں اس مرض کے طبیب لڑکوں نے تفتیش کر کے ککو بھائی کو عشق کا مرض تشخیص کیا ۔ جب تفصیل سے حال کہا تو طبیبوں نے عندیہ دے دیا کہ اتنی شدید گرمی میں سرسام کا سرعام خطرہ ہے اور اگر دو تین ہفتے ککو بھائی اسی طرح اسکول سے گھر تک جاتے رہے تو ایک دن گھر نہیں جا پائیں گے بلکہ چارپائی پر نہلا دھلا کر سفر آخرت پر روانہ ہو جائیں گے کہ جس کے رستے میں کوئی کوچہ عاشقاں نہیں آتا کہ جہاں عشاق اپنی جان حزیں کو آلودہ خاک کر ابدی نیند سو جائیں ۔ ایک طبیب نے تو یہ بھی کہا کہ جس شدت سے یہ مرض ککو بھائی کو لگا ہے گرمیاں نکل جائیں تو بڑی بات ہے ۔ خطرہ یہ ہے کہ خود نکل جائیں گے اور قبر کے کتبے پر " مریض عشق پر رحمت خدا کی " لکھوانا پڑے گا ۔ خبر افسوس ناک تھی مگر کس سے کہتے  ۔ چوتھے دن جب ککو بھائی  اسکول ٹیچر سے کچھ دور جاتے نظر آئے تو ہم بھی کچھ فاصلے سے دبے قدموں ان کے پیچھے ہو لئے ۔ ہمارا خیال تھا کہ راستے میں کہیں کوئی خط شط دیں گے ۔ کچھ نہیں تو ہلکی سئ کھنکار کی جھنکار سنا دیں گے مگر نہیں صاحب ککو بھائی تو فل سنتوش کمار چل رہے تھے ۔ گلی کے نکڑ پر رک گئے ۔وہ اسکول ٹیچر انہیں دیکھے بغیر گیٹ سے اندر چلی گئی اور بقول آثم پیرزادہ :  

ٹھیک سے دیدار بھی کرنے نہیں دیتی ہے وہ
کھول کر گیٹ ہمیشہ بند کر لیتی ہے وہ

اب سمجھ میں آیا اس پاک و پاکیزہ عشق میں عاشق صاحب اسکول سے گھر تک چھوڑنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں باقی راوی چین لکھتا ہے ۔ گلی کے نکڑ پر ککو بھائی کے پیچھے ہم تھے  ۔ اب آپ ہی بتایئے اگر ایسے موقع پر کوئی گانا "کنکنالوں" تو اس میں برائی ہی کیا ہے ۔ ماحول ذرا رومانٹیک ہوجائے گا ۔ میں شروع ہوگیا :

چپ چپ کھڑے ہو ضرور کوئی بات 
کونسی ملاقات ہے جی ، کونسی ملاقات ہے

ہمیں قطعا اندازہ نہیں تھا کہ تپٹی دوپہر میں  ہماری آواز سر سنگیت کے وہ دریا بہا دے گی کہ ککو بھائی جیسا میوزک نا شناس بھئ ہمارے پیچھے دوڑ پڑے گا ۔ ککو بھائئ کو ایک دو بار تو ہم نے ڈاج دیا لیکن ایک "مرتبہ ہماری گدی ان کے ہاتھ لگ گئی اور "گدی نشین ہو گئے جسے انہوں نے پیار سے دبوچ  کر جسم سے 90 ڈگری پر کر دیا ۔

ککو بھائی نے گردن پکڑ کر سمجھتا کی گردان لگا دی :

 تو سمجھتا کیا ہے ؟ میں سمجھتا نہیں ہوں کیا ؟ " 

میں نے ٹیڑھی گردن کے ساتھ  بمشکل  آواز نکالی : 

دیکھو ککو بھائئ  ایسا کرو گے تو کون پیچھے آئے گا ؟ "۔ 

ککو بھائی نے اپنے پسینہ زدہ ہاتھوں سے گردن کو اور بھی کس دیا : 

یہاں سے جائے گا تو آئے گا " ۔ 

گلی میں مکمل سناٹا تھا کوئی بچانے والا نہیں تھا ۔ بس ایک ترکیب ذہن میں آگئی : 

دیکھو ککو بھائی بتا رہا ہوں گردن چھوڑ دو ورنہ اس کے بھائی کو سب بتا دوں گا ۔

بھائی پر وہ چونکے ضرور مگر گردان نہ چھوڑی ۔ اکڑ کر بولے : 

کیا سمجھتا ہے ڈر جاوں گا کون ہے وہ ؟ 

میری گردن اب اکڑ چکی تھی ۔ میں نے سیدھا سیدھا اس کا نام بتا دیا ۔ ادھر نام بتایا اور ادھر ککو بھائی کا ہاتھ ہلکا پڑتا چلا گیا ۔ چہرے پر خوف کے سائے نمودار ہو چکے تھے ۔ بات بڑی سیدھی تھی اسکول ٹیچر کا چھوٹا بھائی باڈی بلڈر تھا ۔ اس زمانے میں اسلحہ کلچر نہیں آیا تھا ۔ بہت سے بہت چاقو چلتا تھا اور دس گلیوں تک بات پھیل جاتی تھی۔ پچھلے ہی دنوں اسکول ٹیچر کے بھائی کا جھگڑا ہوا ۔سامنے والے نے گراری والا چاقو کھولا تو اس نے وہ چاقو ہی چھین لیا اور اس کی خوب آو بھگت کردی ۔ اب وہ محلے میں رابن ہڈ کریکٹر بن گیا تھا۔

عشق و عاشقی میں عدم تشدد کے حامی ککو بھائی نے خاموشی سے گھر کا رستہ لیا ۔ اگلے دن پھر دوپہر آئی مگر ککو بھائی نہ آئے ۔ ایک بھپکی میں نشہ ہرن ہو گیا بلکہ چوکڑی بھر کر گھر میں قید ہوگیا ۔ وہ سمجھے کہ کھیل ختم مگر کھیل تو اب شروع ہوا تھا ۔ ہمارے ہاتھ تو نئی کہانی آگئی تھی ۔ اپنے ایک اور تفریح باز دوست کو شامل کیا ۔ وہ ہم سے بڑا کھلاڑی تھا ۔ وہ ککو بھائی کے پاس گیا اور باتوں باتوں میں ان کو بتایا کہ وہ باڈی بلڈر ہے ناں جو آگے رہتا ہے وہ آپ کا پوچھ رہا تھا ۔ ککو بھائی کی تو سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی ۔ رہی سہی محبت وحشت میں تبدیل ہو گئی اور ککو بھائی شکل سے  "وحشت گرد " نظر آنے لگے ۔ اس کے ساتھ یی دوست نے مزید خوف دلا دیا اور باڈی بلڈر کی دو ایک  لڑائیوں اور مخالفین کی درگت کے وہ قصے سنائے کہ ککو بھائی کا حلق خشک ہو چلا۔ پھر ایک دم انہیں خیال آیا کہ کہیں انہیں بے وقوف تو نہیں بنایا جارہا ۔ تنک کر بولے : 

یہ سارے قصے تو مجھے ہی کیوں سنا رہا ہے؟ میرا اس سے کیا جھگڑا؟ 

دوست نے کہا : 
ککو بھائی کسی سے دل لگانے میں بڑئ تکلیف یوتئ ہے  اور اگر اس کے بھائی سے پہنچے تو زیادہ  ہوتی ہے ۔ 

ککو بھائی نے  ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا : کیا بگاڑ لے گا وہ میرا ۔

 دوست دو ہاتھ آگے تھا ۔ اپنے بازو کو سہلاتے ہوئے بولا : 

میرا کام بتانا تھا  ۔وہ باڈی بلڈر صرف پوچھتا ہی اس کا جس سے اسے دو دو ہاتھ کرنے ہوں ۔ 

دوست تو یہ کہہ کر چلا آیا ۔ اب فلم مغل اعظم کا گانا مارکیٹ میں آگیا ۔ سارے دوستوں سے کہہ دیا گیا کہ جہاں ککو بھائی آس پاس نظر آئیں تو ایک ہی گانا گانا ۔ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا ، پیار کیا کوئی چوری نہیں  ، بھائی سے اس کے ڈرنا کیا

ہمارا ایک دوست نے تو انتہا ہی کر دی  ۔ اس کی باڈی بلڈر سے اچھی سلام دعا تھی ۔ ایک دن شام کے وقت جب ہم لوگ گراونڈ میں فٹبال کھیل رہے تھے ۔کسی بہانے سے وہ اسے لے آیا ۔ ککو بھائی  فٹبال کے اچھے کھلاڑی تھے ۔ باڈی بلڈر کو دیکھ تو لیا مگر کھیل میں مگن رہے ۔ مغرب کی نماز پر کھیل ختم ہوا تو ہم سب کونے والے گھر کے باہر کھڑے ہو گئے۔ دوست نے باری باری باڈی بلڈر کا سب سے تعارف کرایا جب ککو بھائئ کی باری آئی تو اس سے کہا کہ یہ ہیں ککو بھائی ۔ باڈی بلڈر کو اللہ جانے دوست نے کیا پٹی پڑھائی تھی ۔اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے زور سے ککو بھائی کے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہا کہ اچھا تو یہ ہیں ککو بھائی ۔ اب ان کا چہرہ دیکھنے والا تھا ۔کاٹو تو خون نہیں ۔

ککو بھائی اس وقت تو جیسے تیسے چلے گئے ۔ ہم بھی اپنی ٹھٹھول  بازی میں لگ گئے۔ میں رات گھر آگیا ۔ رات کوئی 10 بجے خلاف توقع ککو بھائی نے گیٹ پر بیل دی ۔ میں نکلا تو ان کو سامنے پایا ۔ ہونق چہرہ دیکھ کر میں گھبرا گیا ۔ ہاتھ ملایا تو ہاتھ ٹھنڈے ۔ بولے : 

تو میری جان لے لے گا ۔ 

میں تفریح میں آگیا : ارے ہم آپ کی جان کہاں سے لے لیں گے ۔ آپ تو انہیں اسکول سے گھر اپنے پہرے  میں لے کر جاتے ہیں ۔ 

میرا موڈ کسی اور طرف دیکھا  تو بہت ملتجیانہ اندا سے بولے : 

دیکھ میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے ۔ صاف صاف بتا تو نے اس کے بھائی کو کیا بتایا ہے ۔ وہ مجھے چھوڑے گا نہیں "۔ 

مجھے احساس ہو چلا تھا کہ اب ان کے لئے سب کچبرداشت کے قابل نہیں ۔ اعصاب ہر بھائی کا آسیب پر سوار ہے  ۔ میں نے انہیں تسلی دی اور یہی کہا :

 آپ مت گھبرائیں وہ آپ کو کچھ نہیں کہے گا ۔ آپ نے کون سا محبت نامہ اس کی بہن کے ہاتھ میں پکڑا دیا ہے ۔

جھلا کر بولے " وہ میرا  رنگین خبرنامہ نکال دے گا ۔ وہ جما جما کر سرخی جمائے گا میرے منہ پر کہ سب پڑھ لیں گے ، بھرکس نکال دے گا تو نے اس کے ہاتھ دیکھیں ۔ایک پڑ گیا تو سانس رک جائے گی ۔

پھر مجھے بالآخر ان کو سب کچھ بتانا پڑ گیا کہ اس بے چارے کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ۔ آپ نے کون سا اس کی بہن سے کبھی کوئی بات کی ہے ۔ دو چار دن گھر تک چھوڑنے ہی گئے ہیں ۔ گھر تھوڑی گئے ہیں ۔ کچھ مطمئن ہوئے ، مجھے بے نقاط سنائیں اور تیز تیز قدموں سے گھر کی راہ لی ۔ جاتے جاتے ادھر ادھر دیکھتے جاتے کہ کہیں اس کا بھائی نہ آجائے ۔

بات آئی گئی ہو گئی ۔  ککو بھائی کو پھر کبھی دوپہر کو کیا دن کو نہیں دیکھا ۔ککو بھائی کی اسٹوری بہت جلد ختم ہو گئی ۔ ہم محلے میں کسی اور تفریح کی تلاش میں لگ گئے۔ ایک دن ہمارے اس دوست نے جو باڈی بلڈر کا بھی دوست تھا ، بتایا کہ اس کی بہن کی شادی ہے ۔ ہم کو بھی بلایا ہے ۔ یہ زبانی دعوت نامہ ہمارے لئے کافی تھی ۔ اس زمانے میں شادی کا کھانا ہماری عمر کے لڑکے بالکل بھی نہ چھوڑتے تھے بلکہ لڑکوں کے گروپ بن بلائے شادیوں میں پہنچ جایا کرتے ۔یہ الگ بات ہے کہ کبھی کھانے کے بیچ میں اگر کوئی ان کو تاڑ لیتا تو بڑے بے آبرو ہو کر تیری شادی سے ہم نکلے کی تصویر بن جاتے۔ 

خیر ہم تین دوست زبانی دعوت نامہ پر ٹینٹ لگی شادی ( ابھی شادی ہال اور بینکوئٹ کی کوئی کہانی نہیں تھی) میں پہنچ گئے۔ دولھا آیا تو محلے کے ایک دو لوگ اور نظر آئے ۔ہم نے سوچا ان کو بھی بلایا ہی ہوگا ۔ نکاح ہوا اور جناب جب دولھا نے سہرا اٹھایا تو ککو بھائی کا چہرہ نظر آیا ۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دولھا کو دیکھیں کہ آسمان کو ۔ عقل وقل سب جواب دے گئئ۔ اسٹیج پر گلے ملنے گئے، مبارکباد دی تو خوشی کے مارے ہکلانے لگے ۔

ہکلا گیا جو شادی میں دولھا تو کیا ہوا
زیادہ خوشی میں سانس اٹکتی ضرور ہے 
خوش ہورہا تھا دولھا تو قاضی نے یوں کہا 
" بجھنے سے پہلے شمع بھڑکتی ضرور ہے "

خیر ککو  بھائی کی شادی پر ہم اتنے غمزدہ بھی نہیں تھے کہ کھانے میں کم زدہ ہوجاتے خوب ہی ڈٹ کے کھایا بلکہ ہر نوالے کو ڈانٹ کے کھایا۔ جب کھانا منہ تک آگیا تو دماغ نے کام۔کرنا شروع کیا کہ یہ معجزہ کیسے ہوا ؟ ککو بھائی نے پیچھے پیچھے کیا گیم کیا ؟ بڑے بڑوں کو مات دے دی۔

قصہ بہت ہی دلچسپ ہے ۔ ہوا یوں کہ اس ٹیچر کی شادی کہیں طے ہوئی ۔ کارڈ چھپ گئے ۔ شادی کی شام آگئی ۔ لڑکے والوں کی طرف سے فرمائش (ڈیمانڈر) کی ایک لسٹ آگئی ۔ لڑکی کے والد انتہائی با!صول  شخص تھے ۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ یہ بلیک میلنگ ہے ۔اگر ابھی ان کا یہ حال ہے تو بعد میں کیا کریں گے۔ والد نے ڈیمانڈز یکسر مسترد کردیں اور  لڑکے والوں نے بھی بارات لانے سے انکار کر دیا ۔ منع ہو گیا تو لڑکی کی والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی ۔ 3 سے 4 گھنٹے بعد بارات آنی تھی ۔ ٹینٹ لگ چکا تھا ، لائٹس مغرب کے بعد جلنے والی تھیں  ۔ کھانا پتلی گلی میں قورمہ پکنا شروع ہوچکا تھا۔ باورچی نے چاول بڑے ٹب میں بھگونے کے لئے نکال لئے تھے ۔ پیاز کٹ کے ایک کونے میں پڑی تھی مگر یہاں تو بڑی مشکل پڑی تھی ۔ دلھن موجود دولھا نادارد ۔  بارات نہ آئے تو بے عزتی  ایسے میں تو دولھا کرائے پر بھی نہیں ملتا کوئی رشتہ اور رستہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ 

بات گلی میں پھیل چکی تھی ۔ اسی گلی میں ککو بھائی کئ ایک رشتے دار رہا کرتی تھیں۔ ان کے ذہن میں ککو بھائی آئے ۔ لڑکی کی والدہ سے کہا ۔ اندھا کیا چاھے دو آنکھیں ۔ وہ خاتون پہلے خود ککو بھائی کی اماں کے پاس گئیں ۔ ککو بھائئ کی والدہ حیران و پریشان کہ یہ تو چٹ منگنی پٹ بیاہ سے بھی آگے کی کہانی ہے۔ صاف انکاری ہو گئیں اور صاف کہہ دیا اول درجے کا نکھٹو ہے ۔ لڑکی کو زندگی بھر حوالے بنا بنا کر کھلانا پڑیں گے ۔ وقت گذرا جا رہا تھا ۔ ککو بھائی اپنی قسمت  سے بے خبر گلیوں میں کہیں پھر رہے تھے یا کسی ملک کے جغرافیہ پر ہاتھ صاف کر رہے ہوں گے ۔ گھر آئے ، اماں نے بتایا کہ تیرا رشتہ آیا ہے ۔ رات میں بارات ہے ، شادی کرے گا ؟ ککو بھائئ نے کہا :

 ایسے ہی کوئی لوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے ۔ 

وہ تو جب اماں نے یہ بتایا کہ فلاں رشتے دار کی گلی میں لڑکی والے رہتے ہیں تو ککو بھائی کے کان کھڑے ہوئے۔ فورا گھر سے نکلے اور با پیادہ لیلی کی گلی جا پہنچے ۔ بایر ٹینٹ لگا دیکھا تو دل بلیوں اچھلنے لگا ۔ آسمان کی طرف دیکھ کر کہا : 

میں تو چھتر سمجھ رہا تھا مگر پروردگار تو چھپر  پھاڑ کر دینے کو تیار ہے ۔ کہاں تازیانہ تھا ۔ اب شادیانہ ہے   ۔ 

اب ککو بھائی نے اماں کو راضی کرنا شروع کیا ۔ اماں نے کہا کہ یہ تجھے کیا ہوگیا ہے ۔ اتنی جلدی تو گڈے گڑیا کی شادی نہیں ہوتی ۔ شام 7 بجے تک ککو بھائی کے والد صاحب بھی گھر آگئے۔ ان کو بتایا تو خوب ہی ہنسے ۔ آدمی جہاںدیدہ تھے ۔ بولے لڑکی کے والد اور والدہ کو لے آو۔ وہ آئے ۔ والد نے لڑکی والوں کو ککو بھائی کی اوقات بتا دی بلکہ کچھ زیادہ ہی بتا دی ۔ لڑکی کے والد نے ککو بھائی کی اوقات پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ بس یہی بولے کہ لڑکا شریف ہے اور روزی روٹی تو لڑکی کے نصیبوں سے ہوتی ہے ۔ لیجئے جناب ککو بھائی کے قریبی دستیاب رشتے دار بلا لیئے گئے اور وہ سہرا جو کسی اور کے سر پر سجنا تھا ککو بھائی کے سر بندھ گیا ۔ ککو بھائی کی شادی تو ہو گئی مگر بیوی نے تگنی کا ناچ  نچا دیا ۔ اماں نے وہ راگ چھیڑے کہ انگ انگ اللہ میری توبہ پکار اٹھا۔ بقول شاعر :

بیل کیا چیز ہے گدھا کیا ہے
بے وقوفی کی انتہا کیا ہے
عشق کر کو سمجھ میں آئے گا
"ابر کیا چیر ہے ہوا کیا ہے "

جیسے تیسے ککو بھائی نوکری چڑھ گئے اور عاشقی نے قید شریعت میں جلوہ کثرت اولاد کا آغاز کر دیا ۔ پہلے تین لڑکیاں ہوئیں تو اماں نے پوتے کی فرمائش شروع کردی ۔ ککو بھائی نے بہت سمجھایا ۔ اماں قدرت کے آگے کسی کی نہیں چلتی مگر اماں کے آگے ان کی ایک نہ چلی ۔ وہی تکرار  رہی ۔ ایک دن تنگ آکر بولے : اماں کیا میں بھئ اسی دھونس دھاندلی سے ہوا تھا ۔ اماں نے کہا چپل یہیں کھائے گا یہ بیوی 
سامنے ؟  بہت پریشان ہوئے تو کسی پہنچے ہوئے نےکہا کہ انجیر کھاو اور اماں کی مراد آئی ۔

خشک انجیر کے کھانے سے افاقہ ہوگا
میرے مرشد نے بتایا ہے کہ کاکا ہوگا

      اور بھائی پھر لگاتار تین بیٹے ہوئے ۔ 

  باقی یہ ہے کہ ککو بھائی اپنی بقیہ زندگی گذار رہے ہیں ۔ ککو بھائی کی محبت اپنے منطقی انجام کے ساتھ اپنے "مطلبی" انجام کو بھی پہنچ چکی ہے ۔ ان کے  6 بچے ہیں اور  تا حال خود ککو بھائی بچے ہیں ۔




Wednesday 6 May 2020

Article # 54 ذکر کچھ ایڈورٹائزنگ میں ترجمے کے مسائل کا + اوپر سے آنے والے لوگ


Article # 54
دو مختصر لیکن دلچسپ آرٹیکلز

کچھ ذکر ایڈورٹائزنگ میں ترجمے کے مسائل کا !
یہ چابک دماغی کا کھیل ہے 




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں) 


ابھی ہمارے محترم پروفیسر نجمی حسن بھائی نے Standard Opearting Procedure (SOPs) کا ترجمہ "معیاری ضابطہ کاری " کیا جو کہ اپنی معنویت اور عوام الناس کے لئے انتہائی سادہ ، آسان ، عام فہم اور بر محل ہے ۔ ترجمے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ دونوں زبانوں سے کماحقہ واقف ہوں ۔ 

 مجھے خیال آیا کہ ایڈورٹائزنگ  میں کبھی کبھی ترجمے کے خاصے مسائل سامنے آتے ہیں ۔ آپ نے پروڈکٹس خاص طور پر ادویات پر Manufacturing Date اور :Expiry Date یا :Use before لکھا دیکھا ہوگا جس کے بعد تاریخ لکھی چھپی ہوتی  ہے ۔ ایک مرتبہ کلائنٹ کو شوق چرا آیا کہ Use before کا اردو ترجمہ کرایا جائے ۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے عموما الفاظ بڑھ جاتے ہیں ۔ Use before کے لئے بڑا دماغ مارا لیکن لائن بڑی ہورہی تھی ۔ کلائنٹ کا کہنا یہی تھا کہ لکھنے کی زیادہ جگہ نہیں ۔ دو الفاظ ، بہت سے بہت تین الفاظ ۔ پروردگار نے رحم فرمایا اور  Use before  کا سہ لفظی ترجمہ آہی گیا  اور وہ تھا ، استعمال قبل از : جس کے فورا بعد تاریخ آجاتی ہے ۔ 

چلیں ترجمے کی حد تک تو مسائل ہوں تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔ہمارے ہاں تو انگریزی لفظ اردو میں صحیح طرح لکھ نہیں پاتے ۔ جب پاکستان میں Sachet کا لفظ آیا تو لوگ اس کے تلفظ سے واقف نہ تھے  ۔ میں نے ایک Medicine پر Sachet کو اردو میں سیچٹ لکھا ہوا دیکھا ۔ تلفظ کے معاملے میں انگریزی کا بے ڈھنگا پن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ جب اس میں یونانی ، فرانسیسی یا دیگر یورپی زبانوں کے لفظ آجائیں۔ 

مجھے عزم بہزاد مرحوم نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ایک ملٹی  نیشنل کمپنی نے اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے  Packed by کا ترجمہ کرنے کو کہا ۔ ترجمہ یقینا کیا گیا ہوگا لیکن وہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ ہمارے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو ترجمہ کرا رہے ہوتے ہیں ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی تمام افراد اردو نہ آنے کو قابل فخر جانتے ہیں ۔ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے وہ مرحلہ جب آپ کو ان کی اردو دانی پر آنا ہوتا ہے ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ تمھاری ساری کمیونیکیشن اردو میں ہے اور تم انگریزی کے زعم سے باہر نہیں نکل رہے۔ یہ میرا ساری عمر کا رونا ہے ۔ خیر بالآخر ممتاز شاعر محترم نصیر ترابی نے اس کا ترجمہ " پیک کنندگان " کیا جو کہ کمپنی نے منظور کر لیا ۔ اب دیکھئے بات وہی ہے کہ یہاں  انگریزی Passive Voice میں ہے اور اس انداز سے کیا گیا ترجمہ کسی طور مناسب نہ ہوتا  ۔ ترجمہ میں مکھئ پر مکھی نہیں ماری جاتی ہے ۔ یہ "چابک دماغی"  کا کھیل ہے ۔ جس زبان میں ترجمہ 
کیا جارہا ہے آپ کو اس پر بھی دسترس ہونا چاھیئے۔



اوپر سے آنے والے لوگ

تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


زندگی میں نہ جانے کتنے لوگ ملتے ہیں ۔ کچھ سے مل کر بہت خوش ، کچھ سے مل کر صرف خوش اور کچھ سے مل کر آپ خشک ہوجاتے ہیں ۔ گفتگو ، مزاح سب کچھ خشک ہوجاتا ہے ۔ یہ بڑی معروضی (ممکن ہے موروثی بھی ہو) بات  ہے کہ ہر ایک کو ہر کوئی پسند نہیں آتا ۔ ہر   ایک کا حلقہ احباب مختلف ہوتا ہے ۔ ہر آدمی کی ہر آدمی سے کیمسٹری نہیں ملتی ہے ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ سب برداشت بس  مجھے اوپر سے آنے والے کبھی پسند نہیں آتے ۔ بات یہ ہے کہ اوپر سے تو فرشتے اترتے ہیں ۔ ہماری دنیا سے تو بندے نیچے سے اوپر جاتے ہیں ۔ ویسے بقول امید فاضلی :

آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں
وہ بھئ اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں

 آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کون سے اوپر سے آنے والوں کی بات کر رہا ہوں ؟

اوپر سے آنے والے لوگ کون ہیں ،؟  یہ اذئت ناک مخلوق وہ ہے جو دنیا کے کسی بھی موضوع ہر بات کر سکتی ہے ۔ بیچ میں ٹانگ اڑا کر اپنا شملہ اونچا کرے گی ۔ کسی بھی حقیقی عالم فاضل کے سامنے ڈٹ جائے گی ۔ گفتگو ایسے کرے گئ کہ اس موضوع پر اس سے بڑا عالم فاضل کوئی نہیں ۔ کچھ سیانے معلومات نہ ہونے کے باوجود اچھی گفتگو کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ اس لئے محض اس سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ احمق یہ نہیں جانتے کہ اگر علمیت نہ یو تو لفظ خالی ڈرم میں پتھروں کی طرح بہت شور مچاتے ہیں ۔ جب میں کسی اوپر سے آنے والے سے ملتا ہوں اور اس کی مہارت کے ایک دو پیس دیکھتا اور سنتا یوں ، یہ وقت مجھ پر جاں کنی کا ہوتا ہے ۔

آپ سوچ رہے ہوں گے ۔یہ مجھے بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا تو صاحبو ! بات یہ ہے کہ آج ایک اوپر سے آنے والے سے ملاقات ہوگئی ۔  میرے اپنے اوپر بری گذر رہی ہے ۔ کسی سے کہہ کر یا لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا تو کرنا تھا ۔ سو آپ حضرات سہی  ۔۔۔ صحیح !

Sunday 3 May 2020

Article # 53آئیے! انگریزی انگریزی کھیلیں ۔ ترجمے کئ مضحکہ خیزیاں اور روز مرہ کی تفریح


Article  # 53

آئیے ! انگریزی انگریزی کھیلیں ۔
ترجمے کی مضحکہ خیزیاں اور روزمرہ کی تفریح




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں )

کورونا کے باعث سوشل ڈسٹینسنگ  کا لفظ سامنے آیا تو اس کے اردو ترجمے کے لئے مختلف الفاظ ڈھونڈے گئے ۔ بالآخر سماجی فاصلہ زبان زد عام ہوا ۔ ویسے ہمارے ایک دوست نے سوشل ڈسٹینسنگ کا ترجمہ " تن دوری " بھئ کیا ہے جو کہ بر محل لگتا ہے ۔ ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا  کہ اس ترجمے سے شوہرانہ بو آتی ہے ۔

 مجھے اس موقع پر اپنا پہلی مرتبہ دبئی جانا یاد آگیا ۔ تعلق کیونکہ ایڈورٹائزنگ سے ہے اس لئے دکانوں کے سائن بورڈز اور ہورڈنگز دیکھنے کی بیماری ہے ۔ دبئی ائیر پورٹ سے  شارجہ کی جانب روانہ ہوئے تو شاپنگ سینٹرز سے گذرے ہوئے "خصم الخاص" جابجا لکھا ہوا دیکھا ۔  سوچ میں پڑ گیا  کی یہ کہاں آگیا ۔ ہمارے ہاں تو خصم شوہر کو کہا جاتا ہے تو کیا یہاں شاپنگ سینٹرز میں خاص شوہر بھی ملتے ہیں ۔  ذہن اسی ادھیڑ بن میں تھا ۔ چھوٹے بھائی سے یہ بات پوچھنا مناسب نہ لگا ۔ دوسرے دن جب اکیلا باہر نکلا تو عقدہ کھلا کہ یہاں انگریزی کے لفظوں اسپیشل ڈسکاونٹ کا ترجمہ " خصم الخاص" کیا گیا ہے ۔

اسی طرح ایک اور لفظ نے خاصا مزاح پیدا کیا ۔ وہاں عوامی مقامات ہر مرد وزن کے لئے ٹوائلیٹ کا رواج بھی عام ہے ۔ خواتین ٹوائلیٹ کے کے لئے "حمام النسا" لکھا دیکھا تو فورا ایک خیال آیا کہ اگر کوئی گاوں ، دیہات کا پاکستانی یہاں آگیا تو بعید نہیں کہ وہ عربی زبان سے عقیدت کی بنا پر اپنی کسی بیٹی کا نام "حمام النسا" ہی نہ رکھ دے۔ 

چلیں بات ترجمے کی ہو تو لسانی مجبوریاں سے مزاح کی کیفیت پیدا ہو ہی جاتی ہے لیکن یہ جو ہمارے ملک میں اردو انگریزی کا بے دریغانہ ملاپ کیا جارہا ہے اس کا بھی کوئی علاج ہے کہ نہیں ۔ ہمارے ایک دوست نے گفتگو کرتے کرتے کہا " اب آپ کا یہ رویہ میرے لئے "ان برداشت ایبل "  ہو گیا ہے ۔انہوں نے یہ سب اتنے یقین اور روانی سے کہا کہ ایک دو سیکنڈ تو میں بھی محسوس نہ کر پایا ۔پھر خیال آیا کہ یہ کیا کہہ گئے ۔ 

ہماری ایک عزیزہ گھر والوں کے ساتھ کسی جگہ جا رہی تھیں ۔ پتہ معلوم نہ تھا ۔ تقریب میں پہنچنے کی جلدی تھی ۔ گھر مل نہیں پارہا تھا ۔ ایک جگہ پر شوہر نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ تم ٹیکسی روکا  ۔ میں سامنے دکان والے سے پوچھ کر آتا ہوں ۔ شوہر ضعیف العمر  ہونے کے ساتھ ساتھ جوانی سے ہی  کاہل الوجود بھی تھے ۔ خراماں خراماں دکان کی طرف جانے لگے ۔ بیوی سے برداشت نہ ہوا ۔جل کر بولیں کہ ان میں تو "ایکٹیوپنا" بالکل بھی نہیں ۔

سب سے دلچسپ واقع جو میری زندگی میں سب سے یادگار رہا ۔ اس کی تفصیل بھی سن لیجئے۔

ہمارے آفس میں ایک کشمیری لڑکا منظور حسین پیوئن ہوا کرتا تھا ۔ اسے انگریزی بولنے کا بہت شوق تھا ۔ لنچ ٹائم کے وقت وہ ریسیپشن پر بیٹھا کرتا تھا اور ضروری فون ملا کر کے دے دیا کرتا ۔ یار رہے کہ اس وقت تک موبائل فون نہیں آئے تھے اور ریسیپشن کے ذریعے ہی بات ہوا کرتی تھی ۔اتفاق دیکھیں کہ ایک دن لنچ ٹائم پر ایم ڈی صاحب کو کلائنٹ سے ضروی بات کرنی تھی ۔ منظور کو انٹرکام کر کے نمبر ملانے کو کہا ۔ منظور نے کلائنٹ کے ریسیپشن پر فون ملایا اور انگریزی جھاڑ دی ۔ 

May I talk to Mr. Jawed ?

دوسری طرف سے خاتوں کی انتہائی سحر انگیز آواز آئی ۔

May I know who is speaking ?

منظور اس ہوشربا جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا ۔ جواب تو کیا دیتا ، گھبرا کر بولا ۔

Sorry Madam ... I am Urdu speaking.

ہمارے ایک جاننے والی انگریزی بولنے کی طرف راغب نہ تھیں مگر کبھی کبھی کوئی چارہ بھی نہ رہتا ۔ ایک دن W 18 ویگن  سے کسی کے گھر گئیں ۔ پسینے سے بڑا حال تھا ۔ میزبان خاتون نے پوچھا کہ کیسے آئیں۔ بولیں  ذبلو ڈولا سے آئی ہوں ۔ ایک خاتوں کے شوہر کلیئرنگ اینڈ فارورڈنگ کمپنی میں ملازم تھے ۔ کسی خاتون  نے پوچھا کہ شوہر کیا کرتے ہیں ۔ انگریزی کا لفظ تو نہ بولا گیا  ، بڑے اطمینان سے بولیں فائر بریگیڈ میں کام کرتے ہیں ۔ بڑی حیران ہوئیں اور بولیں : آپ کے شوہر فائر بریگیڈ میں ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں ۔ 

ایک ہماری جاننے والی کو انگریزی سے انتہائی شغف ہے ۔ میں ان کے گھر گیا ۔ پوچھا کیا بات ہے گھر میں بہت سناٹا ہے ، بولیں : بھیا وہی کم بخت مارا کھانے گئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ کیا؟ بولیں سنگر برگر ( جبکہ اصل میں زنگر برگر ہے)  . ایک عزیز کی طبیعت خراب ہوئی ۔ اسپتال سے  گھر آکر بتایا کہ سارا مسئلہ سڈنی کا ہے ۔ سب حیران کہ مریض اسپتال میں اور سڈنی کہاں سے آگیا ۔ میں نے کہا کہ کیا علاج کے لئے سڈنی جانا ہوگا وہ تو بڑا مہنگا  پڑ جائے گا ؟ ۔ چڑ گئیں اور بڑے طنز سے بولیں "تم نرے جاھل کے جاھل رہنا ۔  اگر سڈنی باہر ہوتا تو وہ زندہ کیسے ہوتا ؟  تمھارے باوا سے کہوں گی ۔ اتنا پڑھایا مگر گدھے کی پیٹھ پر کتابیں ہی لادیں۔ جب انہوں نے مجھے گدھا کہا تو پھر مجھے ایک دم ان کی انگریزیت کی بلند پروازی کا خیال آیا اور سمجھ گیا کہ ان کی مراد کڈنی (گردے) سے ہے۔

محلے کی ایک خاتوں کی بیٹی شام کو پرائمری کلاس کے بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتی تھی ۔ایک دن وہ نہ تھی۔ یہ خاتون جن کی تعلیمی قابلیت بہت ہی واجب تھی ۔ بس اتنی کہ دھوبی کو دیئے جانے والے کپڑے لکھ لیا کرتی تھیں ۔وہ بھی اس طرح کے خود ہی پڑھ لیں ۔ خیر ایک بچہ آیا اور اس کو انگریزی میں گنتی پڑھنا شروع کی ۔ گنتی شروع کی 91 سے ۔ بولیں 91 92 93 94 95 96 97 98 99۔ بچہ بھی دھراتا رہا ۔ 99 کے بعد سمجھ میں نہ آیا کہ 100 کو  کیا کہیں۔ دوبارہ دہرایا 91 92 93 94 95 96 97 98 99 ۔کچھ دیر سوچا اور پھر ایک دم بولیں انگلینڈ۔

بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ شوہر انگریزی زبان کا لفظ ہے ۔میں نے کہا کیسے ؟ بولے انگریزی میں لکھ کر دیکھ لیں . لکھا تو Show her بنا۔

چلیں چلتے چلتے  ایک  انگریزی قوافی کے تین اشعار بھی سن لیں ۔ اللہ جانیں کس کے ہیں مگر ہمارے حافظے میں سالوں سے  ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی حافظے  کا ہاضمہ سلامت ہے ۔ 

جا تجھ سے محبت کا کنٹریکٹ نہیں ہوگا
جس پیکٹ کا سوچا تھا وہ پیکٹ نہیں ہوگا

یہ دل جو دھڑکتا ہے دائیں کہ کبھی بائیں
تم غور سے دیکھو تو ان ٹیکٹ نہیں ہوگا

یہ عشق ہے مجنوں کا اور تم ابھی بچے ہو

کرنے کو تو  کر لو گے  پرفیکٹ  نہیں ہو گا


عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...