Monday 8 March 2021

Maan baap bhi kitnay dilshasp hotay hain.Article 74

 ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں 

بات بات ہر تکرار مگر اسی میں سارا پیار

تحریر : اظہر عزمی 

والدین اولاد کے لئے ہوتے ہیں لیکن خود تو میاں بیوی ہوتے ہیں ۔ دنیا کا پہلا رشتہ جس کے بعد ہر رشتہ بنا ۔ جب اولاد جوان ہوجائے اور یہ ادھیڑ عمر یا بڑھاپے میں قدم رکھنے لگیں تو دیکھیں یہ بات بہ بات گزرے دنوں میں کیسے چپکے سے داخل ہو کر نہ جانے یادوں کی کس کس پگڈنڈی پر محو سفر ہوجاتے ہیں ۔ کہیں خوشیوں کی برکھارت تو کہیں چھوٹے موٹے اختلافات کی محبت آمیز دھوپ  ، کہیں بچوں کی پیدائش کے حسین لمحات یا پھر اپنا گھر بنانے کی مشکلات ۔ کسی نہ کسی بہانے نوک جھونک شروع کر دیتے ہیں اور اسی میں چہکار ، مہکار  ، انکار ، اقرار سب ہوتا ہے ۔ بہت معصوم لگتے ہیں چھوٹے بچوں کی طرح  ۔ جانتے یہ بھی ہیں جتنی بھی تکرار کر لیں جو گزر گیا سو گزر گیا 

اولاد ان کی باتیں سنکر اکثر بور یو جاتی یے لیکن وہ نہیں جانتی کہ یہی قصے اور باتیں ہی تو ان کی زندگی کا حسین ترین  سرمایہ ہیں ۔ کسی گزرے قصے پر آپ کو لگے گا کہ شاید صورت حال کشیدگی کی طرف بڑھ جائے گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں تھکتے نہیں ۔ بچے اگر بیچ میں صلح صفائی کے لئے بول پڑیں تو یہ بھی انہیں قبول نہیں کیونکہ گفتگو کا مزا جاتا رہتا ہے بلکہ الٹا ڈانٹ دیتے ہیں ۔ میاں آپ کون ہوتے ہیں ہمارے بیچ بولنے والے ۔ بہتر یہی ہوتا ہے جب یہ دونوں ماضی کے قصے  لے کر بیٹھ جائیں تو آپ وہاں سے اٹھ ہی جائیں 

رات کو نماز عشاء کے بعد ابو ڈائننگ ٹیبل ہر اکیلے کھانا کھا رہے ہیں ۔ امی ساتھ والی کرسی ہر بیٹھی ہیں ۔ کچھ بھی ہوجائے ابو جب تک کھانا نہ کھا لیں ۔ امی نہیں اٹھیں گی ۔ رات کے کھانے پر روز نہیں تو ہر تیسرے چوتھے روز کوئی نہ کوئی ایسی بات نکل آتی ہے جو یاد رفتگاں کی کسی پگڈنڈی پر لے جاتی ہے 

ابو :  ( پہلا نوالہ لیتے ہی ) اتنا عرصہ ہو گیا تمھیں کھانا پکانا نہ آیا ۔ بس کھانا تو ہماری اماں پکایا کرتی تھیں ۔ ایک سے دو روٹی زیادہ ہی کھا لیا کرتا تھا 

امی : تب ہی تو شادی پر اتنے موٹے تھے ۔ شیروانی کے بٹن ٹوٹے جا رہے تھے ۔  ویسے برا مت منائیے گا بالکل بابا ( سسر ) کی طرح بات کرنے لگے ہیں ۔ کچھ بھی پکا لو فی نکالے بنا تو آپ کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا 

ابو : فی نکالنے کی کیا بات ہے ۔ تم خود چکھ لو 

امی : (چڑ کر ) مجھے کوئی ضرورت نہیں چکھنے وکھنے کی 

ابو : 30 سال ہونے کو آئے مگر تمھاری تنک کر بات کرنے کی عادت گئی نہیں 

امی ؛ تو آپ کون سا لفظوں میں شہد گھولنے لگے ہیں 

ابو : ہاں تو یہ بات تو شادی سے پہلے دیکھنی تھی ناں 

امی : (ہلکا سا پلو سر پر لیتے ہوئے ) اللہ نہ کرے جو میں شادی سے پہلے آپ سے بات کرتی 

ابو : ہاں تو 2 سال منگنی رہی ۔ تمھاری اماں اور بہنا تو ہر  ہفتے آ ٹپکتی تھیں ۔ آنہوں نے نہیں بتایا 

امی  : کوئی نہیں ۔ ایسے گرے پڑے بھی نہیں تھے ۔ کوئی مرے نہیں جا رہے تھے ۔ دو رشتے اس وقت بھی آئے ہوئے تھے میرے ۔ آپ کی امی ہی پہلی دفعہ آئیں تھیں کالی چادر اوڑھے ہمارے ہاں 

ابو : ہاں تو پھر سب سے اچھے تو ہم تھے ناں 

امی  : بس ٹھیک ہی تھے ۔ اب ایسے کوئی کوہ  قاف کے شہزادے بھی نہ تھے  

ابو : تو شہزادی تو تم بھی نہ تھیں 

امی : میں نے ایسا کب کہا ۔ بیکار کی باتیں مت کریں ۔ لڑنے کا ویسے ہی دل چاہ رہا ہے تو بتادیں

ابو : لڑنے والے ہوتے تھے تو تمھارے ساتھ 30 سال نہ گزار لیتے خاموشی سے 

امی : خوف خدا کریں ۔ خاموش رہنے والے ایسے ہوتے ہیں 

ابو : ہماری اماں تو یہی کہتے کہتے دنیا سے گزر گئیں بارات والے دن جو ارشد نے رومال منہ ہر رکھا پھر بولتے ہوئے نہ دیکھا  

امی : بس میرا منہ نہ کھلوائیں ۔ میرے سامنے تو کبھی نہ کہا

ابو : ابھی ذرا کھانا کھا لوں پھر تمھیں بارات والی تصویر دکھاتا ہوں رومال والی 

امی : اپنی عمر دیکھیں اور شادی کی تصویریں ۔۔۔ اونہہ 

ابو : شادی تھوڑی کر رہے ہیں ۔ شادی کی تصویریں ہی تو دیکھ رہے ہیں ۔ بچے بھی دیکھ لیں گے کہ باپ کتنا اسمارٹ تھا 

امی : کئی بار دیکھ چکے ہیں وہ اور معاف کیجئے گا آپ کے لئے تو بچوں نے کبھی تعریف کا ایک لفظ بھی نہیں کہا   

ابو : ارے وہ تمھارے لحاظ میں خاموش رہتے ہیں ۔ یاد نہیں مسعود بچپن میں مجھ سے کیا کہا کرتا تھا " ابو آپ نے امی سے ہی شادی کیوں کر لی ؟

امی : ہاں تو آپ نے تو بچوں کو کبھی ہاتھ لگایا نہیں ۔ جو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرے گا بچے تو اسی کے گن گائیں گے 

ابو : گن تو ایک زمانے میں سب ہی گایا کرتے تھے ۔ پرانے محلے کی برابر والی تو اپنی بھانجی کا کہتی رہ گئیں میرے لئے مگر ہماری اماں نہ مانیں ورنہ تم نہ ہوتیں ۔ 

امی :  تو کس نے روکا تھا کر لیتے 

ابو : (چھیڑتے ہوئے) کیسے کر لیتے ؟ غریبوں کی دعائیں بھی تو لینی تھیں 

امی : اوہو ! ذرا امیروں کو تو دیکھیں ۔ یہ بتائیں یہ آپ کی چچی نے تو ہمارا رشتہ توڑنے کی ہر ترکیب آزما لی تھی ۔ وہ تو ہماری اماں نے کہا  جب ہاں کہہ دی تو کہہ دی ۔ اب آگے لڑکی کا نصیب ۔

ابو : منع ہی کردیتیں تو اچھا تھا ۔ کم ازکم یہ سیٹھا سیٹھا بد مزا  کھانا تو نہ ملتا 

امی : اتنی عمر ہو گئی ہے چھوڑ دیں یہ شکرا پن ۔ کل کلاں کو بہو ، داماد آئیں گے تو کیا ان کے سامنے بھی یہ دکھڑا روئیں گے ؟ اور ایک بات بتائیں دنیا جہان کی باتیں کر لیں گے مگر تان کھانے ہر ہی آکر ٹوٹتی ہے  

ابو : ( پلیٹ کا سالن ختم ہوچکا ۔ پلیٹ آگے بڑھاتے ہوئے) 

تھوڑا سالن ذرا اور لا دو ۔

امی : ( ہنستے ہوئے ) اچھا سیٹھے سالن پر یہ حال ہے

ابو  : سنو تھوڑا  نمک بھی ڈالتی لانا 

امی : کوئی نہیں ۔ پھر رات بھر وہم کرتے پھریں گے کہ بلڈ پریشر ہو گیا ۔ بچوں کو سوتے سے جاگنا مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا 

ابو : (پیار سے دوبارہ نمک ہر اصرار کرتے ہیں ) 

بس  ۔۔ بہت تھوڑا سا

امی : کوئی نہیں ، ایک ذرہ بھی نہیں ۔۔۔ دوا کھائیں گے نہیں ۔ نمک بھر بھر کر دیئے جاو ۔ اسی لئے تو کھانے پر ساتھ بیٹھتی ہوں اور اتنا سنتی ہوں 

انہیں ان کی یادوں میں جینے دیں ۔ گزرے دن ہی تو ان کا سرمایہ ہیں ۔ اب یہ دن لوٹ کر نہ آئیں گے لیکن ان کو یاد کر  خوشی سے سرشار تو ہوا جا سکتا ہے 

ماں باپ کی یہ باتیں شاید ابھی اچھی نہ لگیں لیکن بعد میں بہت یاد آئیں گی جب آپ ان کی عمروں کو پہنچ جائیں گے ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...