Thursday 15 April 2021

.Ek ishiqya khat ki roudad jo hamara na tha. Article 78

 Article # 78

ایک عشقیہ خط کی روداد

جو ہمارا نہ تھا

تحریر : اظہر عزمی

کہتے ہیں اصل دوست اسکول کالج کے زمانے کے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ قصہ 80 کی دھائی کا ہے جب ہمارے کالج کے ایک دوست کچھ عرصے کے لئے بطور کرائے دار ہمارے ہم محلہ بھی رہے ۔ دل نواز اور عاشق مزاج تھے ۔ ایک دن کہنے لگے : تجھے پتہ ہے میں لڑکیوں کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں ۔ میں نے کہا : آپ گوشہ نہیں ہورا ایک
گوشوارہ رکھتے ہیں جس کا حتمی آڈٹ آپ کی اہلیہ ہی کریں گی ۔

ہمارے یہ دوست "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے " کے لئے کہاں کہاں نہیں پہنچے ۔ ایک دن گلی میں اکیلے مل گئے ، بولے : تیرے بھائی کو محبت ہو گئی ہے ۔ میں نے کہا : کتنے دن کے لئے ؟ بولے : یہ آخری ہے بس وہ مان جائے ۔ یہی میرا ارمان ہے ۔ ہم نے موقع کی مناسبت سے شعر داغ دیا ۔

جو دل کی دل میں رہ جائے تمنا اس کو کہتے ہیں
جو مر کر بھی نہ ہورا ہوتا ہو اسے ارمان کہتے ہیں

جھلا کر رہ گئے اور لگے شاعروں کو سنانے ۔ کہنے لگے بھائی یہ سارے شاعر واعر ناکام عاشق تھے ۔ میں نے کہا تو آپ نے کون سا عاشق کا ماونٹ ایورسٹ سر کر لیا ہے ۔ محبت کے سارے فلاپ شوز کے ہیرو آپ ہی رہے ہیں ۔ بحث کے موڈ میں نہیں تھے ، خاموش ہوگئے ۔ ہمارے دوست کا فلسفہ محبت بہت مختلف تھا ۔ کہتے تھے جس سے محبت کی جائے ، اس سے شادی کی جائے جبکہ میں کہتا تھا کہ جس سے شادی ہوجائے ، اس سے محبت کی جائے ۔ خیر انہوں نے بتایا کہ محبت کا سلسلہ تیسری گلی کے کونے والے مکان ہر جا کر رک گیا ہے ۔ لڑکی کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے اس لئے گلی کے نکڑ پر کھڑے ہو کر محبت کے تار چھیڑ نے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ خط کو حال دل کہنے کا ذریعہ بنانا ہوگا ۔ میں سمجھ گیا کہ محبت کی یہ منشی گیری مجھے کرنی ہوگی ۔

خط لکھنے بیٹھے ۔ میں نے آغاز تحریر کیا ۔
جان سے پیاری حسینہ ( فرضی نام )
بولے : اسٹارٹنگ میں یہ زیادہ نہیں ہو جائے گا ؟
میں نے کہا کہ شروع میں ہی بتا دو کہ میں تمھارے لئے ابھی سے جان دے سکتا ہوں ۔ راضی یو گئے ۔

اب خط آگے بڑھا ۔
جب سے تمھیں غور سے دیکھا ہے دل مرغ بسمل اور ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا ہے ۔ بے قراری سی بے قراری ہے ۔ جان جانے کی تیاری ہے ۔

قلم پر ہاتھ رکھ دیا : یہ تو مجھے ابھی سے مرغا بنا رہا ہے اور یہ جان وان میں بالکل بھی دینے کا نہیں ۔
میں نے کہا : آپ نے کہا لڑکی کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے تو پھر محبت کو با ادب ہی رہنے دیں ۔ محبت میں بے ادبیاں قاتلانہ ہوتی ہیں ۔ یہ تراکیب عاشقانہ و جان نثارانہ بڑی بار آور ثابت ہوں گی ، دیکھ لینا ۔
مزید رقم طراز ہوا : تمھاری ناگن جیسی سیاہ ذلفیں ، بلوری آنکھیں ، پنکھڑیوں جیسے تراشیدہ ہونٹ ، صراحی دار گردن ۔۔۔ اس سے آگے لکھنے والا تھا کہ چلا کر بولے : اب اس سے نیچے نہ آنا ۔ میں چونک گیا ۔ بولے : اس سے خراب اردو میں نے آج تک نہیں پڑھی ۔ بھائی کوئی انسانوں والی بات بھی لکھ دو ۔
میں نے کہا : سیدھا سیدھا آئی لو یو لکھ دوں ۔ محبت نامہ تو ایسے ہی لکھا جاتا ہے ۔ بولے : سمجھ جائے گی ۔ میں نے کہا : خط پڑھتے ہی دیوانہ وار تمھارا انتظار کرے گی اور خط ہاتھ میں کے کر گائے گی ۔

میرے محبوب کا آیا ہے محبت نامہ
وہ خوشی دل کو ملی ہے کہ بتا بھی سکوں

اور اس دوران گھر کا سفید پردہ اڑ اڑ کر اس کے چہرے اور زلفوں سے اٹھکیلیاں کر رہا ہوگا ۔ بتا دوں یہ خط شرطیہ نئی کاپی ہے ۔ خوش ہو گئے ، بولے اب کوئی ملنے ملانے کی بات بھی تو کرو ۔ میں نے کہا : یہ لو ۔۔۔ حسینہ یہ دوری اب میرے لئے سوھان روح بن گئی ہے ۔ کیا ملاقات کی کوئی صورت تمھاری صورت دکھا سکتی ہے ۔ جلد مطلع کرنا کہیں میرے دل میں تم سے ملنے کی آس ہی نہ ٹوٹ جائے ۔ شام غم شب فرقت کی نوید نہ بن جائے اور نوید مسرت کے کارڈ دھرے کے دھرے نہ رہ جائیں ۔
تمھارے عشق کا مارا
سرفراز شکیل تمھارا

اس کے ساتھ ہی میں نے کاغذ ہر دل بنا کر اس میں ایک تیر گھونپ دیا اور جب وہ تیر دل کی دوسری جانب نکالا تو اس کی نوک ہر خون کے بہتے قطرے دکھا دیئے ۔ چاروں طرف چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے دل اور تارے بنا دیئے ۔ بہت خوش ہوئے ۔ میں نے کہا کہ دن میں تارے بنانا آسان نہیں ۔ میں تو خط دے کر چلا آیا اور بات آئی گئی ہوگی ۔
ایک دن شام میں گلی کے کونے پر بھیڑ لگی دیکھی ۔ تھوڑا دور سے قریب گیا تو کیا دیکھتا ہوں ؟ سرفراز کے گرد ایک جھمگٹا لگا ہے اور سرفراز بے سہرا ، سر جھکائے دولھا بنے بیچ میں بیٹھے ہیں ۔ ان کے گرد حلقہ کئے لوگ انہیں سلامی دے رہے ہیں ۔ حسینہ کے بھائی کا سلامی دینے سے دل ہی نہیں بھر رہا تھا ۔ میرے ہاتھ کا لکھا خط اس کے ہاتھ میں تھا : یہ بتا یہ خط لکھنے کی تیری ہمت کیسے ہوئی ؟ ۔ سرفراز نے روہانسی آواز میں کہا : ایمان سے میں نے نہیں لکھا ۔ میں نے جو یہ سنا تو لگا " اب اسے سے آگے ہمارا بھی نام آئے گا " اور چپکے سے گھر کی راہ لی ۔ بس کانوں میں سرفراز کی محبت خراش چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔

گھر کے باہر خاموشی سے آکر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد سرفراز گرد آلود ، خراش زدہ چہرے اور لنگڑاتی محبت کے ساتھ گلی میں داخل ہوئے ۔ میں نے اپنی بھونڈی آواز ( اس وقت اتنی درد انگیز آواز میری ہی ہو سکتی تھی ) گنگنائے لگا ۔

کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا
کبھی سوچا نہیں تھا ہم نے یوں مار کھانے کا
واقعی حسینہ کے بھائی نے " حق بھائیگی " ادا کردیا تھا ۔ ادائیگی کی تمام مہریں سرفراز کے چہرے پر ثبت کردیں تھیں جو وفور جذبات میں جسم کے دیگر حصوں تک بھی جا پہنچا تھیں ۔ سرفراز کراہ رہا تھا ، کہنے لگا : یار بہت للٹا للٹا کر مارا ہے ۔ میں نے حیرت سے کہا : بھائی یہ کون سی اردو ہے للٹا للٹا کر ۔ لٹا کر ہوتا ہے ۔ کہنے لگا : مار تو نے کھائی ہے یا میں نے ۔ اگر ایک بار مار مار کر لٹائیں تو لٹا کر ہوتا اور اس طرح بار بار لٹائیں تو للٹا للٹا کر ہوتا ہے ۔ میں نے کہا : زبردست یار تیری تو اردو مار کھا کر بالکل ہی جدید ہوگئی ہے ۔ اس عاجزانہ مرمت کے چرچے

جب گلی گلی ہوئے اور بات گھر والوں تک پہنچی تو علاقے سے ہجرت برائے ترک محبت کر لی گئی ۔
خیر سے سرفراز بھائی کی ایک جگہ ارینجڈ میرج ہوئی مگر زندگی بھر ان کو اس بات کا قلق رہا کہ شادی سے پہلے محبت کی بیل مونڈھے نہ چڑھ سکی البتہ کم از کم ایک کیس میں تو وہ لڑکی کے بھائی کے ہتھے چڑھ گئے ۔ بیٹے کی شادی میں مدعو کیا ۔ نکاح کے بعد مبارکباد دینے گیا تو بڑے گھک کر ملے ۔ کچھ دیر میرے ساتھ بیٹھا رہے ۔ میں نے ازراہ مذاق پوچھا : کیا ارادے ہیں ۔ طبیعت میں محبت کا تنبو ابھی تک لگا ہے یا اکھاڑ پھینکا ؟ بولے : تجھے پتہ ہے چھٹتی نہیں ہے منہ سے کافر لگی ہوئی ہے ۔ میں نے کہا : چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جانے ۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر دور کھڑی بیوی کی طرف اشارہ کر کے کہا : یار تھانیدار بہت سخت ملا ہے ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...