Thursday 15 April 2021

Gano kay intekhab nay ruswa kiya mujhay. ۔Article # 79


Article # 79


" گانوں کے انتخاب نے رسوا کیا کسے "
عام افراد کے لئے گانا رومانس نہیں یاد رفتگاں ہوتا ہے

تحریر : اظہر عزمی

سوشل میڈیا پر کافی عرصے سے ایک پوسٹ دیکھ رہا ہوں ۔ ایک ادھیڑ ( جوانی اور بڑھاپے کے بیچ ) عمر شوہر ذی وقار پرانے گانے سن رہے تھے ۔ ادھیڑ ( ٹانکے کا توڑنا یا سلائی کا نکالنا ) مزاج بیوی قریب ہی کام کاج میں مصروف تھیں ۔ ( میں اردو کی اس سادہ مزاجی کے صدقے جاوں کہ ایک ہی لفظ کو کس طرح برتا یے ) شوہر سے تنک کر بولیں : کیا بات ہے آج بڑی جوانی یاد آرہی ہے ۔ کچھ دن بعد وہ نئے گانے سن رہے تھے کہ بیوی پھر بڑے طنز سے گویا ہوئیں : کیا بات ہے آج بڑی جوانی سوجھ رہی ہے ۔ کسی نے صحیح کہا ہے " جو لوگ شادی کے بعد گانا گاتے یا سنتے ہیں وہ اپنے کانوں میں رس نہیں گھولتے بلکہ اپنے بھید کھول کر زوجیت میں آئی جبری سماعت کا زیر گھولتے ہیں " ۔ مرزا غالب کے زمانے میں فلمیں تو تھیں نہیں ۔ اس لئے وہ کہہ گئے ۔۔


شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
آگر ہمارے زمانے میں یوتے تو کہتے ۔
گانوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے


یہ تمہید آغاز مضمون کے لئے باندھی گئی ہے وگرنہ اصل معاملہ تو بھولے بسرے گانوں کو یاد کرکے ماضی کی پگڈنڈیوں ہر نکلنے کا ہے ۔
آدمی مسافر ہے آتا ہے اور جاتا ہے
آتے جاتے رستوں پہ یادیں چھوڑ جاتا ہے

انسان کی پسند و نا پسند وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل رہتی ہے ۔ آج جو پسند ہے کل وہ کسی گنٹی میں نہیں ۔ پسند کا تعلق عمر ، مزاج ، حالات و واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی کیفیات سے یوتا ہے ۔ کبھی آپ کو کوئی رنگ ، کوئی کھانا ، کوئی لباس ہوتا ہے تو کبھی کوئی فلم یا کوئی گانا ۔ اگر عام فرد کوئی گانا سنے تو عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ رومینٹک ہورہا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی محبوب ہے جب کہ ایسا ہونا ضروری نہیں ۔ کوئی بھی خوشگوار یا ناخوشگوار بات ، موسم یا حالات آپ کو گانا سننے یا گنگنائے پر آمادہ کر سکتے ہیں ۔ ماضی کی یادیں گانوں سے جڑی ہوتی ہیں ۔ آپ اپنی عمر کے مختلف حصوں کو گانوں سے یاد کرتے ہیں ۔ کبھی موسیقی دل کو لبھاتی یے تو کبھی اس کے بول ہر دل کھنچا چلا جاتا ہے ۔
میں جب بہت چھوٹا تھا تو پہلی مرتبہ جو گانا میں نے سنا وہ آج بھی اسی طرح مقبول ہے ۔ اس وقت شاعری تو خیر کیا سمجھ میں آتی ۔ بس اس کی دھن اچھی لگی تھی ۔ گانا اچھا لگنے کی وجہ موسیقی اور میاں بیوی کی تکرار تھی ۔

جھوٹ بولے کوا کاٹے ، کالے کوے سے ڈریو
میں میکے چلی جاوں گی تم دیکھتے رہیو
اسکول میں عید ہر سالانہ فنکشن ہوا تو میرے جماعت جمال جس کی آواز خاصی بھاری تھی تو اس نے میری گانائی معلومات کے لحاظ سے بالکل ایک نئے انداز کا گانا گایا ، بہت اچھا لگا ۔
تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی نظارے ہمیں کیا دیں گے
ابھی اسکول میں تھا تو فلم کٹی پتنگ کا ایک گانا بہت پسند آیا ۔


نہ کوئی امنگ ہے ، نہ کوئی ترنگ ہے
میری زندگی ہے کیا ، ایک کٹی پتنگ ہے
(لتا منگیشکر)


لتا منگیشکر سے ایک متعلق ایک جملہ آج تک میرے ذہن میں چپکا ہوا ہے ۔ سالوں پہلے میں ایک دکان والے سے سامان لیا کرتا تھا ۔ بلا کا حاضر جواب تھا ۔ میں بھی جملے بازی کے لئے اسے جان بوجھ کر چھیڑتا تھا ۔ کہیں کہیں وہ جملے میں حدود پار کر جایا کرتا تھا لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ ایک دن وہ لتا منگیشکر کا گانا گنگنا رہا تھا ۔ میں نے کہا : تمھیں لٹا بہت پسند ہے ۔ اس کے بعد جو اس نے جملہ کہا وہ حیران ہی کر گیا ۔ اتنی مکمل تعریف اتنے مختصر جملے میں کبھی لتا نے بھی نہ سنی ہوگی ۔ کہنے لگا :
لتا لتا ہے ۔ باقی سب خطا ہے
زمانے کا تعین مشکل ہورہا ہے لیکن مجھے یہ پاکستانی گانے بھی بہت پسند تھے ۔

چلے ہیں دل والے روڈ ٹو سوات
کیا ہے جو پیار تو نبھانا پڑے گا
میرے جوڑے میں گیندے کا پھول میں تجھے کیسے دیکھوں
یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو

ممکن ہے میری یادداشت میں زیادہ تر گانے انڈین ہی نکلیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1977 سے وی سی آر اور لیڈ سسٹم ( ہر ویک اینڈ پر رات سے صبح تین فلمیں ) اپنے پنجے گاڑھ چکا تھا ۔ ہماری کالج لائف میں درج ذیل گانا اس وقت کے تمام لڑکوں کو ضرور یاد ہوتا ہے ۔ اس گانے کو سنکر بڑے بڑے محبت گریز رومینٹک ہوجایا کرتے تھے تو ہم ایسے کون سے آسمان سے اترے تھے ۔


آنکھیوں کے جھروکے میں تجھے دیکھا جو جھانک کے
مجھے تم نظر آئے بڑی دور نظر آئے


کالج لائف میں تھے تو جگجیت چترا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔
سنا تھا کہ وہ آئیں گے انجمن میں
سنا تھا کہ ان سے ملاقات یو گی
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی ، وہ بارش کا پانی


1976 میں شعلے ریلیز یوئی مگر گھر والوں کی طرف سے ہرمیشن نہ تھی ۔ والد صاحب کو فلموں کا شوق نہ تھا ۔ شعلے کے گانے البتہ سن لئے تھے ۔ اس وقت سب ہی ہٹ تھے ۔

یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے
چھوڑیں گے ہم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے
کوئی حسینہ جب روٹھ جاتی یے
تو اور بھی حسین یو جاتی ہے


آپ سوچ رہے ہوں گے جب گانے اس طرح یاد ہیں تو گائے بھی ہوں گے ۔ ایک واقعہ سن لیجئے تاکہ آپ کو ہماری آواز کی اثر و سرپذیری کا علم یو جائے ۔ ایک مرتبہ کالج کی کینٹین میں لڑکے گانے گا رہے تھے ۔ ہمارا نمبر آیا ۔ ہم نے ایک طربیہ گانے کے ابھی دو لفظ ہی ادا کئے یوں گے کہ واہ واہ کے ڈونگرے برسنے اور ہمارے رونگھٹے کھڑے ہونا شروع یو گئے ۔ کینٹین کے سارے لڑکے ہماری طرف متوجہ ہو گئے ۔ ہمارا ایک دوست بلا کا جملے باز تھا ، کہنے لگا : رونے دھونے والے گانے سنکر دل بھر آتا ہے ۔ درد محسوس ہوتا ہے مگر آج اظہر صاحب کی آواز سنکر یقین ہوگیا کہ سر درد بھی ایسے ہی گانوں سے ہوتا ہے ۔ ہم آٹھ کر جانے لگے تو پیچھے تالیاں سنائی دے رہی تھیں ۔ اس دن آگے اور پیچھے سے تالیاں بجنے کا فرق محسوس ہوا ۔ واقعی گلا گلے پڑ گیا تھا ۔


محمد علی شہکی ، نازیہ حسن ، عالمگیر ، وائٹل سائنز کو بھلا کون بھول سکتا ہے ۔ شہکی اور عالمگیر ہاکستان میں پاپ میوزک کے سرخیل تھے ۔ الن فقیر اور شہکی کا گانا " اللہ اللہ کر بھیا " کس کو یاد نہ یوگا ۔ عالمگیر کا گیت " میں نے تمھاری گاگر سے کبھی پانی پیا تھا " کتنے جوانوں کے دلوں میں جا گزیں تھا ۔ نازیہ نے انڈین فلم قربانی میں " آپ جیسا کوئی میری زندگی آئے " گایا اور پھر بالخصوص نوجوانوں کے دل میں آتی چلی گئیں ۔
ایک زمانے میں مسرت نذیر سالوں بعد کینیڈا سے واپس آئیں تو انہوں نے پی ٹی وی سے پنجابی فوک گیٹ گائے جن میں شادی بیاہ کے گیٹ بھی شامل تھے ۔ اب اللہ جانے یہ مسرت نذیر کی خوش شکلی تھی یا خوش گلوئی یا پھر ہماری خوش سماعتی تھے کہ طبیعت مائل بہ مسرت ہوگئی لیکن یہ اثر زیادہ دن برقرار نہ رہا ۔


ایک زمانے میں سلمی آغا کے گانے " دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے " نے بھی سماعتوں کو اپنی طرف بہائے رکھا ۔ عطا اللہ عیسی خیلوی نے " ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا " کیا گایا کہ کتنے لوگ ملک بھر میں گھر سے باہر اپنے ہاتھوں اور کاندھوں پر ٹیپ ریکارڈر اٹھائے نظر آئے ۔


اب تو پتہ نہیں کیا چل رہا ہے ۔ نہ میوزک سمجھ میں آتا ہے نہ شاعری ۔ کہتے ہیں روح کی غذا ہے لیکن میں جب گانے والوں کو گاتے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے یہ منہ کی غذا ہے ۔ کبھی پیزا تو کبھی بروسٹ ، کبھی کٹاکٹ تو کبھی برگر ، کبھی بریانی تو کڑاھی کا احساس ہوتا ہے جسے سنکر ہی میرا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے اور بقول شخصے آپ ذہنی قبض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ گانا گاتے ہوئے جو ان کے چہرے کے تاثرات ہوتے ہیں ۔ دل چاھتا ہے صاف صاف کہہ دوں :

تم مجھے یوں رلا نہ پاو گے
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مضمون کے بعد کون کون اپنے بھولے بسرے گانوں کی پٹاری کھولتا ہے ۔ ماضی کو یاد کرنے میں ذرا سا میوزک آجائے تو آج کل کی ٹینشن والی میوزیکل چیئر سے وقتی افاقہ ہو سکتا ہے ۔ مجھے تو ہوا آپ بھی آزما لیں ۔




No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...