Thursday 17 June 2021

Real Story " The Fighting Train " .Article 82





سچے واقعے ہر مبنی " دی فائٹنگ ٹرین "
دو باراتیں آمنے سامنے اور میں بطور مہمان اداکار


تحریر : اظہر عزمی


دی برننگ ٹرین فلم ہمارے زمانے کی ایک مشہور فلم تھی لیکن یہ خبر نہ تھی ک دی فائٹنگ ٹرین بھی بنے گی جس میں ، ہم بھی بطور مہمان اداکار شریک ہوں گے ۔ فلم کی شوٹنگ کسی سیٹ پر نہیں بلکہ اصل ٹرین میں ایک رات میں بغیر کسی ری ٹیک کے مکمل ہو جائے گی ۔ فلم کی اسٹوری خود بخود بنے گی اور وہ وہ ٹرننگ پوائنٹ آئیں گے کہ بڑے سے بڑے اسٹوری رائٹر کا ذہن بھی ان بلندیوں ، باریکیوں اور تاریکیوں کو چھو نہ سکے گا ۔ برجستہ ڈائیلاگ اور ان کی بے ساختہ ادائیگی کسی ڈائریکٹر کی محتاج نہ ہو گی ۔ فائٹنگ سین مکمل اوریجنل

ہوں گے اور بیک گراونڈ سے ڈھشوں ڈھشوں کی آواز نہ آئے گی ۔

میں اتنی کہانیاں کیوں کر رہا ہوں ۔ سیدھے سیدھے فلم کے اسکرپٹ پر کیوں نہیں آجاتا ۔
فلم کا ایک مہمان اداکار اظہر عزمی ایک چہلم میں شرکت کے لئے رات کی ٹرین سکھر ایکسپریس سے خیرپور میرس جا رہا ہے ۔ دسمبر کی کڑکتی سردی ہے ۔ کمپارٹمنٹ کھچا کھچ بھرا ہے ۔ گیٹ کے ساتھ ایک دیگ رکھی یے ۔ کمپارٹمنٹ میں ایک بارات بھی جا رہی یے ۔ ٹرین وقت مقررہ سے آدھے گھنٹے لیٹ چلتی ہے ۔ کمپارٹمنٹ کے مسافروں کو سردی نے خاموش کردیا ہے ۔ بس بارات کے لڑکوں کی چہکتی آوازیں ٹرین میں زندگی کا احساس دلا رہی ہیں ۔ سیٹوں والے سیٹوں پر باقی ٹرین کے فرش ہر لپیٹے لپاٹے پڑے ہیں ۔

ابھی جنگ شاھی آیا تھا کہ ٹرین میں کچھ گہما گہمی محسوس ہوئی ۔ یہ سوچ کر کہ ٹرین رکنے والی ہو گی مگر نہیں ٹرین تو پٹریوں پر زناٹے کے ساتھ ہوا کا سینہ چیرتی رواں دواں یے ۔ آوازیں بڑھ رہی ہیں جن میں گالیوں کی گرماہٹ محسوس ہورہی ہے ۔ نیچے کے مسافر ایک دم ہڑبھڑا کر اٹھ بیٹھے جیسے کوئی کتا ان کے برابر آکر لیٹ گیا ہو ۔ میں ( مہمان اداکار ) بھی برتھ سے ٹرین کی ارتھ پر آگیا ۔ اندازہ ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے فائٹنگ سین ہوا ہے اور جو مار نہ پایا اب وہ گالیوں کی مار دے رہا ہے ۔ کمپارٹمنٹ میں ہر طرف سراسیمگی ہے ۔ آدھ کھلی آنکھوں کے مسافر حیران و پریشان ہیں ۔ اتنی دیر میں ایک لڑکے کی آواز آتی : چھوڑنا نہیں کسی کو ۔ جانتے نہیں ہیں کن سے پنگا لیا ہے ۔

میں نے ساتھ کھڑے ایک نامعلوم نوجوان مسافر سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ہمارے کمپارٹمنٹ کی بارات سکھر جا رہی ہے اور دوسرے کمپارٹمنٹ کی بارات کراچی سے لڑکی وداع کر کے سکھر واپس جا رہی ہے ۔ نامعلوم نوجوان مسافر بھی سکھر کا ہے ۔ اس نے بتایا کہ اس بارات کے لڑکے ٹرین میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے ۔ برابر والے کمپارٹمنٹ سے گزرے تو برتھ پر سوئی لڑکی سے ایک دو بار کاندھا لگ گیا ۔ کمپارٹمنٹ کے لڑکوں کو یہ کاندھے بازی اچھی نہ لگی اور ہمارے کمپارٹمنٹ کی بارات کے لڑکوں کو کوٹ دیا بلکہ اچھا خاصا دھو دیا ۔

واقعے کی گرمی نے سردی کو موٹا لحاف آوڑھا دیا تھا ۔ شدت کم ہوگئی تھی ابھی جھگڑا تھما نہیں تھا ۔ میں دوسرے کمپارٹمنٹ گیا تو عجب تماشا دیکھا ۔ ایک بزرگ ایک نوجوان لڑکے کو دھبا دھب مار رہے تھے اور اسے مارتے مارتے ہمارے کمپارٹمنٹ میں لے آئے ۔ پتہ چلا کہ یہ ہمارے کمپارٹمنٹ کا دولھا ہے ۔ " دولھگی " کے جوش میں لڑنے گیا تھا ابھی لڑکوں نے سلامی دینا شروع کی تھی کہ باپ نے وہاں آکر دھنائی کر دی ۔ لڑکے پیچھے ہٹ گئے کہ جب گھر کا آدمی یہ کام کر رہا ہے تو ہم اپنے ہاتھ کیوں گندے کریں ۔ ویسے بھی اس سے قبل دوسرے کمپارٹمنٹ والے ہمارے لڑکوں کی توقع سے زیادہ منہ تک خاطر و مدارت کر چکے تھے ۔ اس لئے ہمارے لڑکوں کے سینوں میں انتقام کے شعلے دھک رہے تھے ۔ دولھا کا سوکھا سڑا بھائی آپے سے باھر ہورہا تھا ۔ بلیوں اچھل رہا تھا ۔ جب بھی چھوڑو تو سیدھا کھڑا ہو جاتا ۔ میں نے دولھا کی حالت دیکھی تو کہا :
سہرا باندھے بنا سالوں سے سلامی لینا اچھا شگون نہیں ۔ جو منہ کی حالت ہے آر سی مصحف ہوا تو بیوی نے چیخ مار کر اٹھ جانا یے ۔

تازہ تازہ پٹے دولھا کی چوٹوں کا درد ابھی ٹھاٹے مار رہا تھا۔ اس لئے میری بات کو چھوٹی سی لہر سمجھ کر محسوس ہی نہ کر پایا ۔

اسی دوران میرا نامعلوم نوجوان مسافر میرے پاس آیا اور بولا : ابھی دیکھو اتنی رات ہو گئی ۔ سارے غریب مسافر جاگ گئے ہیں ۔ ان کو بھوک لگی ہوگی ۔ یہ سب لوگ پھڈے میں لگے ہیں ۔ اتنی مار کھانے کے بعد کھانا کیا کھائیں گے ۔ آپ کو بولو تو یہ بریانی مسافروں میں بانٹ دوں ۔ میں نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا : تو کیا مجھے دولھا کا چاچا سمجھ رہا ہے ۔ بول : آپ سمجھدار لگ رہے یو ۔ اس لئے پوچھ لیا ۔ میں نے کہا : تیری مرضی ۔ بڑا ہوشیار تھا ، بولا: اصل میں مجھے دیگ چاھیئے ۔ خالی ہو گی تو اٹھانے میں آسانی ہو گی ۔ میں اسے دیکھتا رہ گیا ۔ ہنسا ، کہنے لگا : یہ فائٹ سکھر تک جائے گی اور میں دیگ لے کر فلائٹ ہو جاوں گا ۔
سکھر والی بارات اس لئے بھی بھاری تھی کہ وہ اپنے شہر جا رہی تھی ۔ دوسرا یہ کہ ان کے بقول بدتمیزی کا قرض مع سود اتارنا لازم تھا ۔ بزرگ ان کے ساتھ نہیں تھے ۔ اس لیے انہیں اوپن گراونڈ ملا ہوا تھا ۔ انہوں نے اپنا حساب تو چکتا کر دیا تھا لیکن پھر بھی دل بھرا نہیں تھا ۔ ہمارے کمپارٹمنٹ والے تو خوردہ ریٹ پر زخم خوردہ تھے ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ٹرین میں ریسلنگ کی جگہ بالکل بھی نہ تھی اور اکثر لاتیں گھونسے ان کو پڑے جو کسی بارات میں شامل ہی نہیں تھے ۔ بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانے تو سنا تھا مگر بیگانے کی لڑائی میں عبد اللہ مار کھائے پہلی بار دیکھا تھا ۔ لوگ ٹکٹ لے کر تماشا دیکھتے ہیں مگر انہوں نے تو ٹکٹ دے کر مار کھائی تھی ۔
جانے کا جرم کی کھائی ہیں لاتیں یاد نہیں

اب صورت حال یہ بنی کہ جب رات کی خاموشی کو توڑتی سیٹی بجاتی ٹرین کسی اسٹیشن پر رکتی تو دونوں گروپ نیچے اترتے تاکہ باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہو سکے ۔ ابھی گریبانوں تک ہاتھ پہنچے ہوتے کہ سیٹی بج جاتی اور متحارب گروپ سوار ہو جاتے ۔ ہم اپنے کمپارٹمنٹ تھے لیکن برابر والے کمپارٹمنٹ کی طرف بھی آ جا رہے تھے ( ہمیں تو اپنی رات گزارنی تھی ) ۔ غیر جانبدار مسافروں نے حالات کی سنگینی اور لڑائی کے بعد ہونے والی رنگینی کو دیکھتے ہوئے دونوں گروپس کو یہ صائب مشورہ دیا کہ لڑائی آپ کا پیدائشی حق ہے مگر ٹرین کی کم وسعتی اس کار خیر کو انجام دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے فی الوقت کوئی بیچ کی راہ نکل لی جائے ۔
دونوں گروپوں سے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی مصالحتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ہم بھی شامل تھے ۔ دونوں طرف سے نمائندہ افراد کو طلب کیا گیا لیکن یہاں بھی کشیدگی برقرار رہی ۔ بارہا ایسا لگا کہ مذکرات کا ڈول ڈالا نہ جا سکے گا ۔ الزامات اور جوابی الزامات لگائے جاتے رہے ۔ کچھ گفتگو آپ بھی سن لیں ۔
سکھر : ایک باری کاندھا مارا ۔ برداشت کر لیا ۔ ناں اشٹاپ تو نہیں چلتا ناں ۔
کراچی: ہاں تو اس کے پیر برتھ سے باہر کیوں جا رہے تھے
سکھر : ابے تو کیا تیری بہن کی بارات جا رہی تھی جو تم لوگ بار بار چکر کاٹ رہے تھے ۔۔۔ ہیں
کراچی : اوئے بہن تک نہ پہنچیو ۔ یہیں گاڑ دوں گا ۔
سکھر : تو گاڑے گا ۔۔۔ تو ۔۔۔ شکل دیکھ آئینے ۔ دیکھ تیرا حلیہ کیسے ٹائٹ کر دیا ہے ۔ سکھر پہنچ پھر تیری مرہم بٹی کا خرچہ اور بڑھاتا ہوں ۔
مصالحتی کمیٹی کے ایک صاحب نے دوسرے گروپ سے کہا :
بھائی یہ آپ کے شہر مہمان ہو کر جارہے ہیں ۔ آپ کے شہر کی لڑکی ان کی بہو بنے گی ۔ کیا اچھا لگے کہ آپ مہمانوں کے ساتھ یہ برتاو کریں ۔ گفتگو اثر کر گئی لیکن ایک لڑکا آگ ٹھنڈی کرنے کے موڈ میں نہیں تھا :
چچا کیا ایسے لوگوں کو منہ لگا لیں ۔ ہم تو اپنے شہر کی لڑکی ایسوں کو تو مر کر نہ دیں ۔ چھچھورے ہیں سارے کے سارے
دولھا کا سوکھا سڑا بھائی اکڑ گیا : چھچھورا ہو گا تو
وہ لڑکا بھی اکڑ کر کھڑا ہو گیا ، بولا : ویسے تو سب چھچھورے ہیں لیکن تو چھیچھڑا ہے ۔
دوسرا بولا : یہ تو چھیچھڑے کا بھی چھیچھڑا ہےب۔ اسے تو کوئی بلی بھی منہ نہ لگائے ۔

سب زیر لب مسکرا دیئے ۔ دونوں گروپ پھر منہ ڈر منہ آگئے ۔ بات پھر بگڑ رہی تھی ۔ صاف لگا کہ دونوں پارٹیاں صلح کے موڈ میں نہیں ۔ بہرحال اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ مقابلہ سکھر میں ہو گا ۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کے کمپارٹمنٹ میں نہ آئیں گے ۔

جب وقتی سیز فائر ہوا تو کمپارٹمنٹ کے باراتیوں کو بھوک لگی ۔ اب جو دیگ کھولی تو آدھی دیگ خالی تھی اور ایک بھی بوٹی نہ تھی ۔ ایک آواز آئی : ابا آدھی بریانی گئی ۔
میں چپ چاپ بیٹھا رہا ۔ نامعلوم نوجوان سافر مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ سکھر پر پوری دیگ بھی غائب ہو سکتی ہے ۔ میں تو صبح سات بجے خیر سے خیرپور میرس اتر گیا ۔ اب پتہ نہیں سکھر کس طرح باراتیں اتری ہوں گی اور کس کس کے کاندھے اترے ہوں گے ۔

( یہ تصویر بطور ریفرنس لگائی ہے ) 

Parwardigar mareez ko khwaten se bacha .Article 81



پروردگار مریض کو خواتین سے بچا

تحریر :اظہر عزمی

بیماری دکھی زندگی کے ساتھ یے ۔ بس دعا کریں کہ مریض کی کہانی عورتوں کے ہاتھ نہ لگے ۔ بہتر ہے کہ مریض غسال اور گورکن کے ہاتھ لگ جائے ۔ ایک بار کا غسل و کفن ہی تو ہوگا ۔ جہاں کہانی عورتوں کے ہاتھ لگی سمجھیں گھر ، خاندان یا آس پڑوس کی کوئی نہ کوئی طبیبہ علاج کے نام پر وہ قبر کشاں قصے اور عدم صحت یابی کے نقصے ( نسخے ) تجویز کرتی ہیں کہ مریض کہہ اٹھے ۔
جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا
ہمارے ایک جوان رشتے دار کو پیٹ کے معمولی درد اور اینٹھن نے آلیا ۔ صبح آفس جانے کی ہمت نہ ہوئی چھٹی کر لی ۔ بیوی اور ماں نے دوپہر بھر میں یہ بات آگ کی طرح پھیلا دی ۔ ماں نے پڑوسن خالہ کو بتا دیا :
رات بھر میرا ارشد مچھلی کی طرح تڑپا ہے ۔ بیوی کو تو رتی برابر خیال نہیں ۔ سکون سے پڑی سوتی رہیں ۔
بیوی نے حسب عادت میکے فون کیا اور بپتا سنا دی : امی ارشد کی طبیعت رات کو بہت خراب رہی ۔ رات ان کی امی نے چھولے کا سالن بنایا تھا ۔ وہ کھایا اور پھر رات بھر وہ ڈکاریں آئی ہیں ۔ گیس اتنی تھی کہ پوچھیں ناں ۔
ماں نے بھی جل کر کہا : تمھاری ساس کو کھانا پکانا ہی کہاں آتا ہے ۔ بیگار ٹالتی ہیں تب ہی تو بیمار ڈالتی ہیں ۔
میں آ جاتی مگر رات سے طبعیت اچھی نہیں ۔ میں ممانی جان کو بھیجتی ہوں طبیعت کا پوچھنے کے لئے ۔ ڈاکٹر کو تو دکھا دیا ہے ناں ؟
بیوی : نہیں اب طبیعت پہلے سے بہتر ہے ۔ شام کو دکھا دیں گے ۔ لیجئے صاحب مریض کی موت آثار طبیبائیں آیا چاھتی ہیں ۔سب سے پہلے برابر والی خالہ آئیں ۔ ان خالہ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان کی پوٹلی میں ہر بیماری سے مرنے والوں کے وہ تازہ تازہ کفن سوز و دفن خراش واقعات ہوتے ہیں کہ مریض " موت کے بعد کا منظر " جیسی کتاب پڑھ کر سانسیں گننے بیٹھ جائے اور گھر کی گھنٹی بجنے کو بھی موت کی دستک سمجھے ۔ خالہ نے آتے ہی ارشد کے رونگھٹے کھڑے کر دیئے : جیسے تم بتا رہے ہو ناں کہ پیٹ میں ہلکا سا درد اور اینٹھن ہوئی ۔ بس ہمارے ماموں صغیر کے داماد کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا ۔ ( دونوں ہاتھ پھیلا کر ) کیا کڑیل جوان تھا ۔ رات بیوی سے بولا کہ پیٹ میں درد ہے ۔ اس نے اسپغول گھول کر پلا دیا ۔ کچھ دیر کے بعد جو طبیعت بگڑی پھر تو وہ ہاتھوں سے نکلا جائے ۔ اسپتال لئے گئے ۔ اللہ جانے کہاں کا انجیکشن کہاں گھونپا ۔ ایسا لیٹا کہ پھر اٹھ نہ پایا ۔ راشد کے تو پسینے چھوٹ گئے گھبرا کر کہا : خالہ بھلا چھولوں سے بھی کہیں ایسا ممکن ہے ۔ خالہ : نہیں تو ماموں صغیر کے داماد نے کوئی بم۔کا گولا کھا یا تھا ۔ گھر کا پکا ہی کچھ کھایا ہو گا ۔۔۔ اور یہ بھی بتا دوں یہ چھولے اولے تو موت کا بہانہ ہیں ۔ جس کی آئی ہے ، آئی ہے ۔ ماں سے بھی برداشت نہ ہوا : اے خالہ تم عیادت کو آئی ہو ۔ میرے منہ خاک کیا تعزیت کرنے کو ۔ خالہ نے برقع سر پر رکھتے ہوئے کہا : ہم تو سمجھانے آئے تھے ۔ سنا ہے قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جوان زیادہ مریں گے ۔ خالہ تو چلی گئیں مگر ارشد کو لگا کہ پیٹ کا درد گلے تک لہنچا ہے ۔ عیادت رسم دنیا تھی " نہیں آتے تو کیا جاتا "
تمھارے پوچھ لینے سے نہ جی جاتے نہ مر جاتے شام سے پہلے ممانی جان بھی آدھمکیں ۔۔ لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کو کسی کی بیماری کی بھنک نہ پڑے مگر ان کا بیمار تلاش ریڈار نہ جانے کتنا جدید و شدید ہے کہ مریض نکال لاتا ہے مگر آج تو یہ باضابطہ دعوت پر آئیں تھیں ۔ یہ طبیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ وکیلانہ مزاج بھی رکھتی ہیں ۔ مرض کی تشخیص کو جرم کے خانے میں رکھ کر تفتیش بہ انداز تشویش و تشکیک پر یقین کامل رکھتی ہیں اور کسی طور مریض کو شک کا فائدہ دے کر صحت یاب ہونے کی کوئی آس نہیں دلاتیں ۔ مریض سے وہ جرح کرتی ہیں کہ مریض جراعت کو زیادہ آبرومندانہ سمجھے ۔ سوالات در سوالات سے مریض کو اپنے مرض سے زیادہ اپنے کردار پر شک ہونے لگتا ہے ۔ ان طبیبہ کی ایک افضلیت یہ بھی ہے کہ ان کے مرحوم سسر دیواری حکیم تھے جو امراض خبیثہ کے ناکام علاج کے کامیاب معالج تسلیم کئے جاتے تھے ۔ جب وہ دیکھتی ہیں کہ مریض کسی طرح ان کے ہاتھ نہیں آرہا تو ہاتھ پکڑ کر نبض پر ہاتھ رکھ دیتی ہیں : نبض تو مریل گھوڑے کی لنگڑی چال چل رہی ہے ۔ راشد : ممانی جان نبض میں گھوڑا کہاں سے آگیا ؟ توبیبہ : ( طنزیہ مسکراہٹ سے ) نبض کا نو مرتبہ چلنا دیکھا جاتا ہے ۔ پہلی تین سر سے سینے تک ، دوسری تیں پیٹ تک اور آخری تین نیچے کی ۔۔۔ کچھ سمجھے کہ نہیں ۔ تمھاری بیچ کی تین چالیں ٹھیک نہیں ۔ راشد شرمندہ سا ہو گیا : کیا ہو گیا ممانی جان ؟ نبضوں کا بھی چال چلن ہوتا ہے ۔ ممانی جان : حکمت کے یہی تو راز ہیں جو ڈاکٹری بھی نہیں سمجھ سکتی ۔ تم تبخیر معدہ کا شکار ہو ۔ ہمارے سسر کہا کرتے تھے تخیر معدہ ہو تو تسخیر مرض میں تاخیر تقصیر سے کم نہیں ۔ دوا اکسیر تب یی یے جب وقت پر دی جائے ۔ لاکھ دوا پھانکے جاو تاثیر میں تدبیر کی کوئی صورت نکلتی نہیں ۔ پیٹ کے مرض کو تو ویسے بھی ام الامراض کہا جاتا ہے ۔ راشد کی ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا : یہ کیا آپ اول فول بک رہی ہیں ؟ ممانی جان : اول فول بکنے میری جوتی ۔ تم دیکھ لینا اس کو ہرنیا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ جگر میں سوزش نے بھی آلیا ہو ۔ تین چار امراض کا یک دم ورد جسم سنکر ارشد کے پیٹ میں گڑ گڑ شروع ہوگئی ۔ لاکھ کوشش کے بعد وہ گڑ گڑ باہر آگئی اور فضا میں ایک بو پھیل گئی ۔ ممانی جان نے جو ناک کے نتھنے پھیلا پھیلا کر بو سونگھی تو پورے یقین سے کہا : رات جو چھولے کھلائے وہ کچے اور تین چار فصل ہرانے تھے ۔ بو بتا رہی ہے کہ اس کے جگر میں سوزش کے ساتھ ساتھ گردے میں پتھری بھی ہے ۔ ایک آنت میں پھپوند بھی لگ گئی ہے ۔ ممانی جان ۔۔۔ پہلی عالمی ریاح شناس طبیبہ ممانی جان کے یہ انکشافات سننے کے بعد مغرب کے بڑے بڑے تحقیقی اداروں کی ناکوں میں نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ٹن تنہا عورت جس نے کبھی کسی میڈیکل کالج کا منہ نہ دیکھا ہو ۔ ریاح شناسی کے ذریعے کھایا پیا بتانا اور امراض کی تشخیص کرنا ممانی جان کی ایک ایسی خوبی ہے جس پر ہم پاکستانی جتنے بھی اپنے نتھنے پھلائیں وہ کم ہے ۔ بس عزت داروں کے لئے ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ ممانی جان کے سامنے رہا خارج نہ کی جائے ورنہ ان کی جانب سے سب کچھ کھول دینا خارج از امکان نہیں ۔
ماحول میں امراض کے امکانات بڑھتے دیکھکر بیوی نے ممانی جان کو چلتا کیا ۔ ارشد نے ماں اور بیوی کی طرف دیکھ کر کہا : اب میں مر بھی جاؤں تو خالہ اور ممانی جان کو نہ بلانا ۔ اب ارشد صاحب کو کون بتائے کہ مرنے کے بعد جنازے پر پٹس ڈالنے والی خواتین بالکل الگ ہوتی ہے ۔ وہ رونا پیٹنا مچاتی ہیں کہ گھر والے خود کہہ اٹھیں : اب رہنے بھی دو ۔ 
ماحول میں امراض کے امکانات بڑھتے دیکھکر بیوی نے ممانی جان کو چلتا کیا ۔ ارشد نے ماں اور بیوی کی طرف دیکھ کر کہا : اب میں مر بھی جاؤں تو خالہ اور ممانی جان کو نہ بلانا ۔ اب ارشد صاحب کو کون بتائے کہ مرنے کے بعد جنازے پر پٹس ڈالنے والی خواتین بالکل الگ ہوتی ہے ۔ وہ رونا پیٹنا مچاتی ہیں کہ گھر والے خود کہہ اٹھیں : اب رہنے بھی دو ۔ 
#AzharHAzmi 

Har pata batanay wala . Naseer Chameea.Article 80


 

ہر پتہ بتانے والے ۔۔۔۔ نصیر جھمیا
ایسا پتہ بتایا کہ سب کو پتہ چل گیا

تحریر : اظہر عزمی

آج کل ایک اشتہار کی ٹیگ لائن ہے " ہر پتہ ہمیں پتہ ہے " ۔ میں جب بھی یہ دیکھتا ہوں تو بے ساختہ نصیر جھمیا کا چہرہ نظروں کے سامنے آکر رونے لگتا ہے ۔ پہلے تو یہ بتا دوں کہ جھمیا ان کی عرفیت تھی جو ان کی چڑ بھی تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے طور ہر تو چ بولتے تھے لیکن آپ جتنا کان ، دماغ لگا کر سن لیں ۔ سننے میں ج ہی آتا تھا ۔ تھوڑا سا لہرا کر چلتے تھے اس لئے ان کے ہم عمر دوستوں نے ان کا نام چھمیا رکھ دیا لیکن ایک دوست کے کہنے پر چ کا حرف ادا نہ ہونے پر نصیر جھمیا کہلائے ۔ نصیر جھمیا بڑے بڑبتو تھے ۔

نصیر جھمیا ہم سے عمر میں بڑے تھے ۔ دبلے پتلے ، لجلجے اور اس پر عجیب رنگوں کی شرٹ پہن لیا کرتے ۔ اس پر شخصیت اور سہ آتشہ ہو جاتی ۔ ہم آٹھویں میں تھے اور وہ نئے نئے کالج گئے تھے ۔ نصیر جمھیا کا اپنے دوستوں میں بہت مذاق اڑتا تھا ۔ اس لئے وہ ہمارے گروپ میں بیٹھتے اور کالج اور اس کے سامنے گرلز کالج کے ہوشربا قصے سناتے جس سے یہ محسوس ہوتا کہ گرلز کالج کی ہر لڑکی نے کالج میں داخلہ صرف دیدار نصیر کے لئے لیا ہے ۔
قصہ ہوشربا ہونے کے ساتھ دلربا بھی ہو تو دائیں آنکھ بند کر لیتے اور ہونٹوں پر ہلکی زبان پھیرتے جاتے ۔ ہمارے لئے بھی اس زمانے میں کالج ایک خواب ہی تھا اور نصیر جھمیا ہم دوستوں کو روزانہ پری نگری کی فری سیر کرا دیتے ۔ نصیر جھمیا کی شخصیت اتنی متنوع اور دلچسپ تھی کہ ہوری کتاب سپرد قلم کی جا سکتی ہے ۔ ہہاں صرف ان کا ایک وصف بیان کرنا مقصود ہے جو اب مفقود ہوتا جارہا ہے اور وہ ہے پتہ بتانے کا شوق ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ راستے بھر باتیں کرنے کا موقع جو مل جاتا ۔

سہ پہر کا وقت ہے ہم چار پانچ لڑکے بھائی مختار کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں ۔ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر کے صاحب اپنی برقع پوش اہلیہ کے ساتھ ہمارے پاس آکر رکتے ہیں : کیا آپ سے ایک پتہ پوچھ سکتا ہوں ؟ نصیر جھمیا نے ہم میں اپنی طویل العمری اور قلیل العقلی کے ناطے پوچھا : بوجھیں خالو ؟ ( ہمارے زمانے میں ماں باپ کی عمر کے سب لوگ خالہ خالو ہوا کرتے تھے ) وہ صاحب پوچھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے بوجھیں ۔ میں نے ان صاحب کہا : نصیر بھائی کہہ رہے ہیں پوچھیں ۔ ( نصیر جھمیا کو ان کی موجودگی میں ہمیشہ نصیر بھائی کہا ) ۔

نصیر بھائی سیڑھی سے اٹھے ، جینز کی پینٹ جھاڑی ۔ اس کا مطلب ہے کہ پتہ کوئی بھی ہو وہ بوجھ نکالیں گے : خالو دو مشتاق صاحب رہتے ہیں ۔ صاحب نصیر جھمیا کی پوچھ کو بوجھ چکے تھے ۔ ایک نظر ااپنی برقع ہوش اہلیہ کو دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ کون سے والے مشتاق ؟ انہوں نے برقعے میں ہونے کے باوجود انتہائی جھلائے ہوئے انداز میں سر ہلا کر کہا : میں کیا شجرے ساتھ لے کر پھرے ہوں ؟ ایسا زناٹے دار جواب تھا کہ ہم سناٹے میں آگئے ۔

نصیر جھمیا نے کیس کو مکمل ہاتھ میں لے لیا : تو اس میں کیا مسئلہ ہے دونوں مشتاقوں کے ہاں لئے جلتا ہوں باری باری ۔ یہ کہہ کر ایک قدم چلے اور مجھ سے بولے : تو بھی آ جا ۔ میں نہ چاھتے ہوئے بھی ساتھ ہو لیا ۔ میں جانتا تھا کہ اب صرف نصیر جھمیا بولیں گے ۔
ہم ساتھ ہو لئے ۔ نصیر جھمیا نے سلسلہ کلام جاری رکھا ۔ چلیں پہلے چلتے ہیں بھائی مشتاق کے ہاں ۔
خالو : جہاں پہلے لے چلو ۔ ہم تو پہلی بار آئے ہیں ۔
نصیر : پہلی بار آئے ہیں ۔ شکل دیکھی ہے ان کی ؟
خالو نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
نصیر : وہ تو خیر میں بتا ہی دوں گا ۔ بس آپ ایک باری ان کا حلیہ بتا دو ۔
خالہ : ( جھلا کر ) تجھے سمجھ نہیں آتی ۔ ملے نہیں تو حلیہ کیسے بتا دیں ۔ کوئی خوابوں میں آئے تھے کیا ؟
میں نے نصیر جھمیا کا ہاتھ دبایا کہ ذرا ہلکا ہو جائیں مگر وہ کہاں ماننے والا تھا ۔
اب نصیر جھمیا نے دونوں مشتاقوں کی کہانیاں کھولنا شروع کیں : منے میاں مشتاق پہلے بالکل فٹ فاٹ تھے مگر جب سے شوگر ہوئی ہے ڈھیلے پڑ گئے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔ تو جب پرہیز نہیں کرینگے تو یہی ہوگا ۔ نکڑ پر رئیس حلوائی کی دکان سے یہ شیرہ بھرے رس گلے کھاتے ہیں ۔ اتنا سمجھایا مگر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔

خالو : دوسرے والے کون سے ہیں ؟
نصیر : بھائی مشتاق ۔۔۔ وہ ایک دم سیٹ ہیں لیکن ان کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی ۔ شروع میں انہوں نے بھی بڑی زیادتی کی ۔ بیوی کو میکے ہی نہیں جانے دیتے تھے مگر زیادتی تو زیادتی ہوتی ہے ۔ ( کچھ لمحے خالہ کی طرف دیکھ کر دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا اور ہلکے سے خالو کے کان میں) بیوی کا انتقام بڑا زوروں کا ہوتا ہے خالو ۔ ہورے گھر سے جھٹوادیا ہے ۔ آپ کو تو اندازہ ہوگا ۔ خالو نے اشارے سے نصیر جھمیا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا کہیں برقع ہوش اہلیہ نہ سن لیں ۔ نصیر جھمیا اپنے جملے کے نشے سے اور لہرا گئے ۔

چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد پھر بولے : خالو بتایا نہیں آنا کیسے ہوا ؟
اب خالہ سے برداشت نہ ہوا : تیرا ریڈوا بند ہو تو ہم بھی کچھ بولیں ۔ چپکا نہیں چل سکتا ذرا دیری ۔
خالو نے برقع کے اندر خالہ کا ہاتھ دبایا ۔ خالہ نے ہاتھ رکھتے ہی شوہر کو جھڑک دیا : ارے ہٹو بھی ۔ کیا ہاتھ کی چوڑیاں توڑ ڈالو گے ۔ نصیر جھمیا اور مجھے خالہ کی آتش سخنی کا بجوبی اندازہ ہو چلا تھا
اب سب خاموشی سے چل رہے تھے ۔ چلتے چلتے خالہ نے نصیر جھمیا سے پوچھا : کیا حیدر آباد لے جائے گا ؟
نصیر : مذاق کر رہی ہو خالہ ۔ آئے ہیں تو گھر کے دروازے تک تو جھوڑ کر آئیں ۔
خالہ ہوشیار تھیں ۔ نصیر جھمیا ان پر منکشف ہو چکے تھے ۔ اب خالہ نصیر جھمیا کی ہر نو بال پر جملوں کے ہرفیکٹ شاٹس کھیل رہی تھیں مگر نصیر جھمیا کا بڑ بتو پن رک نہیں رہا تھا ۔

خالہ : پہلے تو اپنا ج چ تو صحیح کر لے ۔ بڑا آیا چھوڑنے والا ۔
نصیر جھمیا نے یہ بات سنی ان سنی کردی : ابھی آگے مرزا خالو کی گلی آئے گی وہاں سے الٹے ہاتھ کو مڑیں گے تو حاجی سائیکل والا بیٹھا یوگا ۔
خالہ : تو کیا وہاں سے سائیکل پر جائیں گے ؟
نصیر : اب اتنی دور بھی نہیں ۔ وہاں سے ڈاکٹر صابر کا کلینک آئے گا بس اس سے ذرا آگے بھائی مشتاق کا گھر ہے ۔ (خالو سے) ایک بات کہوں اگر وہی مشتاق نکلیں تو ان کو کہنا رشید بھائی سے جو پھڈا ہوا اس کو بھول جائیں ۔ محلے داری میں کوئی اتنی ناراضگی تھوڑی جلتی ہے ۔
خالہ : تیری زبان بڑی قینچی کی طرح چلے ہے ۔ ہم ان سے ملنے آئے کہ صلح صفائی کرانے آئے ہیں ۔ بس یہیں سے پتہ بتا دے ۔ پوچھتے پاچھتے چلے ہی جائیں گے ۔
نصیر : ایسے کیسے بوجھتے باجھتے جلے جائیں گے ۔ ہمارے محلے آئے ہو ۔ گھر تک جھوڑنا تو ہمارا فرض بنتا ہے ۔
خالو : ابھی کتنی دور چلنا ہے ؟
نصیر : خالو ابھی سے تھک گئے ۔ کہو تو حاجی کی سائیکل لے آوں ۔ ہینڈل پر بیٹھ جانا ۔
خالہ : ( غصہ آگیا ) اپنی اور ان کی عمر دیکھ ۔ ہینڈل ہر بٹھائے گا ؟ ہینڈل کے بدلے سینڈل آئے گی ۔۔۔ سمجھا ۔
نصیر : (کھسیانے ہو گئے) میں تو خالو کی آسانی کے لئے کہہ رہا تھا ۔ ویسے اب گھر زیادہ دور نہیں ۔ اجھا ۔۔۔ ہاں خالو میں کہہ رہا تھا رشید بھائی والی بات ضرور کر لینا ۔ اب اگر ان کی لڑکی کو سعید پسند ہے تو ہونے دو ۔ کہیں تو اس کی شادی ہونی ہے ۔ اجھی بات ہے محلے کی لڑکی محلے میں رہے ۔
خالہ : اچھا کیا نام ہے ان کی لڑکی کا ؟
نصیر : ثریا ۔۔۔ پورے محلے کو پتہ ہے اس چکر کا
میں نے نصیر جھمیا کا ہاتھ دبایا چاھا تو غصے ہوگئے : ابے تو کیا میرا ہاتھ دبانے کے لئے آیا ہے ؟
خالہ نے ہلکے سے خالو کے کان میں کہا : یہ وہی بھائی مشتاق ہیں جہاں ہمیں جانا ۔

نصیر جھمیا چوڑے ہو گئے : کہا تھا ناں ۔ ہمیں ہر پتہ پتہ ہے گھر تک چھوڑ کر آتے ہیں ۔ اس دوران بھائی مشتاق کا گھر آگیا اور نصیر جھمیا نے ان کی بیل بجا دی ۔ مشتاق بھائی مشتاقانہ باہر نکلے اور خالو سے سوالیہ انداز میں لہک کر کہا : آپ دلشاد بھائی ؟ خالہ خالو اندر چلے گئے اور ہم دوبارہ بھائی مختار کی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ گئے ۔
شام کی چائے کا وقت ہوا تو میں گھر چلا گیا ۔ باہر سے شور کی آواز آئی ۔ باہر آیا تو عجب تماشا دیکھا ۔ مشتاق بھائی کے لڑکے کے ہاتھ میں نصیر جھمیا کا گریبان اور پٹاخ پٹاخ کی بارش ۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ نصیر جھمیا تو ان کے مہمانوں کو گھر تک چھوڑ کر آئے اور اس کا صلہ چانٹوں سے ۔ نصیر جھمیا نے عجب امدادنہ نظروں سے مجھے دیکھا ۔ میں آگے بڑھنے والا تھا کہ ایک دوست نے روک دیا : تم بیچ میں نہ پڑو ۔ وہ خالہ خالو مشتاق بھائی کی لڑکی کے رشتے کے لئے آئے تھے ۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا اور پھر نصیر جھمیا کی وہ Olala ہوئی کہ بہت کچھ لال یو گیا ۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...