Saturday 30 March 2019

Ep-2, Advertising mein aana kaisay hoa? (An autobiography of a Creative)





ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟

قسط دوئم

Article # 9

اشتہارات ہیں زمانہ کے 


محلہ کی عورتین اور ہم پر رحم بھری نظریں

پہلی بار کسی لڑکی نے پیار سے لیا ہمارا پورا نام



تحریر : اظہر عزمی


(ایک اشتہاری کی باتیں)

 گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔

بخاری صاحب کی اس غیر متوقع تعریف سے ہم ساتویں آسمان پر پہبچ چکے تھے ۔ مرزا صاحب نے بخاری صاحب سے کہا " نظر چاہیئے تخلیق کار ڈھونڈ نے کے لئے " ۔ اپنے لئے تخلیق کار کا لفظ سنا تو حیرت ہوئی کہ کیا یہ ہم ہیں؟ اپنی حرکتوں کے باعث یم تو تکلیف کار مشہور تھے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ کہ ہمیں کرنا کیا ہوگا ؟بخاری صاحب نے جاتے جاتے ہمیں دو تین اخباری اشتہار (پریس ایڈ) تھمائے اور کہا کہ ان اشتہاروں میں جو متن (کاپی) ہے اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا کیپشن ،باڈی کاپی اور پنچ لائن لکھکر لاو۔ انگریزی کی یہ اصطلاحات پہلی بار کانوں میں پڑی تھیں۔ مرزا صاحب اور میں ساتھ کمرے سے نکلے ۔

 میں نے جانے کے لئے ان سے ہاتھ ملایا۔دو قدم چلا ہوں گا کہ مرزا صاحب کی بھاری بھرکم آواز آئی "رکو"۔ ہم رک گئے۔مرزاصاحب اپنے ہاتھوں ہماری دریافت سے بہت خوش تھے۔ واپس پلٹے تو بولے "چلو تمھیں کیف بنارسی سے بھی ملوا دیتا ہوں۔ مجھے لے کر کیف بنارسی کے پاس پہنچے ۔ کیف بنارسی مشہور شاعر تھے اور غالبا کریٹیو ڈیپارٹمنٹ کے انچارج تھے۔

خیر مرزا صاحب نے بخاری صاحب والا پورا قصہ سنا دیا۔ کیف بنارسی صاحب بڑی شفقت سے ملے اور بولے کہ ہمیں ٹرینی کاپی رائٹرز کی ضرورت ہے۔ ایک دو ہفتے میں اخبار میں ویکینسی کا ایڈ آجائے گا۔ اب ہمیں پتہ چلا کہ جو کام ہمیں کرنے کے لئے دیا گیا ہے ۔اس کے کرنے والے کو کاپی رائٹر کہا جاتا ہے۔ شاہراہ فیصل سے U4 پکڑی اور ٹکر ٹکر چلتی ویگن میں گھر کے لئے سوار ہوگئے۔ راستہ بھر بخاری صاحب کے دیئے ایڈ دیکھتے رہے۔ ویگن تو خیر کیا چلنی تھی لیکن اب ہمارا دماغ قینچی کی طرح چل رہا تھا ( جو افراد اس شعبہ سے منسلک ہیں وہ جانتے ہیں کہ سوچتے وقت ایک ایڈیٹنگ مشین قینچی کی طرح ذہن میں چلتی رہتی ہے)

گھر پہنچے تو والدہ نے پوچھا "لگ گئی ملازمت؟" ہم  تخلیق کار کہنے پر جاب ملنے سے زیادہ خوش تھے۔اپنی ہوا میں تھے۔بولے "امی ، جاب تو ہاتھ میں رکھی ہے ۔" ہماری والدہ بھی ہماری والدہ ہیں بولیں "اچھا ذرا ابنا ہاتھ تو دکھا" ۔ پھر بولیں" زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں مگر اتنا جانتی ہوں۔جب تک لڑکی کا نکاح نہ ہو جائے اور لڑکے کو ملازمت کا رقعہ نہ مل جائے سمجھو دونوں گھر ہی میں ہیں "۔ ہم چڑ گئے اور بولے "آپ کو نہیں پتہ ، بس ایک ہفتہ کی بات ہے"۔ ماں نے یقین دیکھا تو بے روزگار کی ماں نے جھولی پھیلائی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا "آمین"۔ادھر امی نے آمین کہا اور ہم چڑھ دوڑے اپنی دو چھتی پر اور بیٹھ گئے اشتہار لکھنے ۔  بمشکل ایک گھنٹہ لگا ہوگا اور ہم نے کام تمام کردیا ۔لگا یہ تو سب سے پرلطف اور آسان ترین کام ہے۔ دل چاھا کہ پر لگیں اور بخاری صاحب کے پاس ابھی پہنچ جائیں مگر انہوں نے تو دوچار روز میں آنے کا کہا تھا۔

شام کو والد صاحب کو روداد سنائی ۔بہت خوش ہوئے۔مغرب سے پہلے صفدر مرزا کے پاس پہنچ گئے اور اپنی تعریفوں کا ایفل ٹاور کھڑا کردیا۔آج سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے لیکن میں آپ کو بتاوں ایسئ موقعوں پر ایسا ہی کرنا چاہیئے۔کام کچا ہو تو ہو بندہ دھن کا پکا ہونا چاہیئے۔

اب دن کاٹے نہیں کٹ رہے تھے بلکہ اب تو کاٹنے کو دوڑ رہے تھے ۔لیجئے ہفتہ گذر گیا۔ہمت جواب دے گئئ۔ جنگ اور ڈان چھانتے رہ گئے مگر اشتہار کا دور دور تک پتہ نہیں ۔پھر پہنچ گئے صفدر مرزا کے پاس اور غصہ سے بولے "بھائی وہ اشتہار تو نہیں آیا"۔صفدر مرزا بھی تفریح کے موڈ میں تھے بولے " چلو اخبار کے دفتر چلتے ہیں۔ شاید چھپنے سے رہ گیا ہو" صفدر کا یہ روزگارانہ مذاق ایک آنکھ نہ بھایا ۔ موڈ آف دیکھکر بولا " ایسی جلدی کیا اگلے ہفتے آجائے گا "۔میں نے کہا خالو سے پوچھو تو بولا ابو کیا اہم ڈی لگے ہیں۔ کل آفس جائیں گے تو پتہ چلے گا۔

میں نے آپ سے کہا تھا کہ ابھی دلدر دور نہ ہوئے تھے۔ ٹھوکریں باقی تھیں۔ خالو سے تو روز ایک بات پوچھئ نہ جاسکتی تھی۔ صفدر مرزا کی روز شام میں جان کھاتے کہ خالو سے پوچھو۔ وہ یہی کہتا کہ ابو کہہ رہے ہیں کہ ایڈ غالبا کسی وجہ سے رک گیا ہے اور ویسے بھی عزمی کے نہ ہونے سے ایجنسی کے کام رک گئے ہیں ، صبر کریں جب بھئ ایڈ آیا انہی ہی کو رکھیں گے ۔ بات تو قابل اطمینان تھی  مگر ہم اپنے بے صبرے پن کا کیا کریں ۔ بہرحال ہم کو نشہ لگ چکا تھا ۔ اخبار/میگزین کا کوئی اشتہار ہو ہم دوبارہ اپنا کیپشن اور کاپی لکھنے بیٹھ جایا کرتے ۔ والد بھی کبھی کبھئ پوچھ لیتے " ہاں میاں مرزا صاحب کیا کہہ رہے ہیں " ۔ہم بتا دیتے ۔دوسرا ہفتہ آیا ، تیسرا آیا مگر ہماری ملازمت کا سندیسہ اب اندیشوں میں گھرتا چلا جا رہا تھا۔ دو چھتی والی کمرے میں اللہ تعالی سے گفتگو کا سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہتھا  ھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ایک دن خالو نے ہم سے براہ راست گفتگو کی اور بتایا کہ وہاں اندورنی سیاست چل رہی ہے۔ آنا کانی سے کام لیا جا رہا ہے۔ تمھاری ملازمت مشکل ہے اور یہ کہ ٹرینی کاپی رائٹر کا ایڈ بھی نہیں آئے گا۔ مرزا صاحب گفتگو بہت محتاط کیا کرتے تھے۔ 

خالو نے کہا کہ تم پریکٹس جاری رکھو۔ انہوں نے مجھے ایک اور تجربہ کار کاپی رائٹر درپن صاحب کے پاس بیھیج دیا۔ بولے میں انہیں فون کردوں گا۔تم ان سے ان کی جائے ملازمت پر ملتے رہو۔ درپن صاحب کا پورا نام سعید رضا درپن تھا۔ نہایت سادہ طبعیت  اور خاموش طبع شخص تھے۔ میرا خیال ہے بوجوہ عمر ان میں  ایک گوناں گوں اطمینان تھا ۔ ان کے پاس ہفتہ کے ہفتہ جایا کرتا تھا۔ درپن صاحب آدھا دن ایک ایجنسی میں اور آدھا دن دوسری ایجنسی میں ہوتے۔ مایوسی کے گہرے سائے پھر دل و دماغ پر چھائے جا رہے تھے۔ گھر میں جو تھوڑی سی عزت ملنا شروع ہوئی تھی۔ اس میں 
نظر یاتی کمی کے آثار  ظاہر ہونے شروع ہوگئے تھے ۔ والدہ نے روز پیسہ دیتے ہوئے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا تھا مگر ہم بھی اس ہنر میں یکتا تھے۔ روز کا سودا سلف لانا تو ہماری ذمہ داری تھی اور اس میں روزانہ بارہ آنے (75 پیسہ) یا روپیہ مارنا ہمارا لئے فرض لازم تھا۔ بات یہ تھی کہ النور اسپتال کے گیٹ سے ذرا ہٹ کر ایک چھولے والا کھڑا ہوتا تھا جو بارہ آنے کی چھولے کی پلیٹ اور اگر پاپڑی ڈلوائیں تو چار آنے اس کے۔ گویا ایک روپے کی عیاش!ی کے لئے گھر کے پیسوں سے ایک روپے کا کھانچہ تو جائز تھا۔بے روزگاری میں یہ گھریلو چوریاں سب کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ گھر کو گھر نہیں سمجھتے

اس کے بعد پیسے لینے میں ذرا مشکل ہوتی تو پریشانی کی کیا بات ہے۔ صفدر مرزا ہیں ناں ۔صفدر مرزا اودھ کے اجداد لکھنو (اودھ) سے تعلو رکھتے تھے جس کے ایک والی آصف الدولہ کے لئے مشہور تھا "جس کو نہ دے مولا ، اس کو دے آصف الدولہ " تو صاحبو ہمارے آصف الدولہ صفدر مرزا  یعنی کہ صفدر الدولہ تھے۔ روز روتے گاتے ڈانتے برا بھلا کہتے مگر کچھ نہ کھلا پلا دیتے۔ پیٹ بھرا رہتا مگر ذہن اندیشوں میں گھرا رہتا کہ اللہ جانے ملازمت کب ملے گی۔ یہ بات عقل میں آگئی تھی اگر اس شعبہ میں آئے تو چل جاوگے ۔اگر کہیں اور فٹ ہوئے تو زندگی بھر مس فٹ رہوں گے اور ہر ملازمت سے چل چلاو چلتا رہے گا ۔ ابھی ملازمت پر "چڑھے" بھی نہیں تھے مگر یہ خیال دماع پر چڑھ دوڑا تھا:
ا
کیا کروں گا جو ایڈورٹائزنگ میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

اب بھائی دعائے مزمل برائے فراخی رزق چاچی کے کہنے ہر شروع ہوئی اور محلہ کی عورتیں وقت مقررہ ہر آ پہنچتیں مطلب ہماری بے روزگاری اب زبان زد عام تھی ۔ کہیں سے گذرتے تو عورتیں رحم بھری نظروں سے دیکھتیں ۔کچھ تو راہ چلتے گیٹ پر بلا لیتیں اوز اضافی وظیفہ بتانے لگ جاتیں۔ ہم سب سنتے اور آسمان کی طرف دیکھ کر رہ جاتے ۔ دو ایک تو ایسی تھے جن کے اپنے لڑکے ہم سے عمر میں بڑے تھے اور جوتیاں چٹخاتے پھر رہے تھے ۔ وہ وہ آزمودہ اور روزگار آمد چلے بتاتیں جیسے ان کے لڑکے کہیں کے ایم ڈی لگے ہوئے ہیں۔

کچھ خواتین نے تو حد ہی کردی بولی "اللہ جانے کب نوکری لگے ،کب شادی اور بچے ہوں گے؟" ذرا سوچیں ایک نوکری کی بات کس طرح گلی گلی گئی۔یہاں بے روزگاری سے چہرہ مرجھایا جا رہا تھا اور ادھر نہ صرف سہرے کے بھول بلکہ بچوں کے برتھ ڈے ہار ڈسکس ہونا شروع ہوگئے تھے۔

 بعد میں جب ہم برسرروزگار ہو گئے اور شادی کے بندھن میں باندھ دیئے گئے تو پتہ چلا کہ ہاں محلہ کی ایک خاتون یہی منصوبہ بندی کئے بیٹھی تھیں۔ ہمارے ساتھ پوری زندگی ایک قباحت رہی ۔کسی لڑکی نہ ہمیں آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا البتہ ہمارا چہرہ مہرے اور خاندانی حماقت نے ہمیں "آئیڈیل داماد" کے طور پر ہمیشہ پروموٹ کیا ۔وہ تو شادی کے بعد کھلا کہ آئیڈیل شوہر تو ثابت ہوئے مگر عورتیں جتنا احمق سمجھ رہی تھیں ایسا بالکل بھی نہیں تھا میں سمجھتا ہوں کہ گائے کےگوشت کا گلنا اور داماد کا قابو میں رہنا اپنے وقت پر ہی پتہ چلتا ہے۔ قصائی اور گھر والوں کی تعریف میں کچھ نہیں رکھا

فدرت کو ایک دن رحم آہی گیا، ابر رحمت جوش میں آہی گیا۔ ہنارے چچا بھی ہمارئ گلی میں رہتے ہیں۔ایک دن ہم گھر میں تھے کہ ہماری چھوٹی چچازاد بہن دوڑی دوڑی آئی اور بولی "ببا بھائی آپ کا فون آیا ہے"۔ (یہ وہ زمانہ تھا کہ جب  گھر میں فون لگوانا ناممکن تھا)۔ اندھا کیا چاھے دو آنکھیں ۔ہم نے بستر سے مثل ہرن چوکڑی بھری اور پہنچ گئے چچا کے ۔ ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ کال مرزا صاحب کی ایجنسی سے ہوگی ۔کریڈل اٹھایا ۔ دوسری طرف سے ایک لڑکی کی آواز تھی "اظہر حسین عزمی بات کر رہے ہیں ؟" کسی لڑکی کے منہ سے پہلی بار اتنے پیار سے اپنا نام لیتے سنا تھا۔ ہم پہلے تو اپنا نام سنکر شرما سا گئے لیکن پھر حواس درست کرتے ہوئے کہا "جی"

اب اس سے آگئے تمہارا بھی ذکر آئے گا۔ا
  
باقی آئندہ

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...