Friday 29 March 2019

Paan hamari zindagi mein laya kon? An informative article


29 March 2019

Article # 8


خاندان تھے تو پاندان تھے
پان ہماری زندگیوں میں لایا کون؟
حصہ دوئم




تحریر :  اظہرعزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


بغیر کسی قطع و برید کے پاندان پر لکھ دیا ۔ لوگوں نے پسند کیا تو سوچا اتنے عرصے سے پان کھارہا ہوں تو کیوں نہ حق پان ادا کردوں۔پان کی تاریخ پیکوں سے بھری پڑی ہے۔پہلے پان دان کے ساتھ پیک دان لازم تھا ۔یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب پان کھانے والے Peak پر ہوا کرتے تھے۔ راجہ۔ مہاراجہ۔ نوابین۔ روساء کے ایک اشارے پر ملازم پیک دان لئے بھاگتے مبادا کہیں وہ کسی کے منہ یا اپنے لباس پر ہی نہ تھوک دیں۔
ہندوستان میں پان کی ابتدا کیسے ہوئئ تو صاحبو ۔ ہندو تاریخ بتاتی ہے کہ پان تو کرشنا جی بھی کھایا کرتے تھے لیکن پان کے اجزائے ترکیبی کیا تھے ؟ اس کا سراغ نہ مل سکا۔ کیا صرف پان کا پتہ چبایا کرتے تھے؟ تاریخ خاموش ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جو پان ہم کھا رہے ہیں اس کی وجہ پیدائش اور کبھی نہ ختم ہونے والی لالی عمریا کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟
مغل بادشاہوں کی سرشت میں عورت اور حکومت سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک مغل بادشاہ تھے جہانگیر ۔ان کی ایک اہلیہ تھیں نورجہاں ۔ ان کے پہلے شوہر شیر افگن کو جہانگیر نے ادھر ادھر کیا اور بن بیٹھے نور جہاں کے کل جہاں۔ ہر بات پر مشورہ ۔ہر بات پر رائے۔ سمجھ لیں بادشاہ سلامت نورجہاں کے کولھے سے لگے بیٹھے رہتے۔امور حکومت میں سارے فیصلے نورجہاں کے ہاتھوں انجام پاتے۔ نورجہاں کے فیصلوں میں عقل ودانش جھلکتی اور باتوں سے پھول جھڑتے مگر ہائے قدرت کی ستم ظریفی۔ ذہین۔حسین مگر منہ سے بدبو آیا کرتی تھی۔ جہانگیر کی سمجھ میں کچھ نہ آتا ۔گھنٹوں گزارنے ہیں نور جہاں کے ساتھ ۔اب بغیر ک منہ کی عورت بھی بھلا کس کامکی۔ جتنی بھی ذھین ہو بات تو منہ سے کرے گی اور منہ سے آتی ہے بدبو۔
ایک دن بادشاہ کا سونگھنے والا پارہ جواب دے گیا۔ کہا بلائو سارے حکیموں کو تاکہ تدبیر کریں اس بد بو کی۔ بادشاہ کا حکم سر آنکھوں پر ( سر آنکھوں پر نہ ہو تو سر ہاتھوں میں نہ آجائے)۔ باشادہ نے مسئلہ بتایا اور کہا کہ حل مجھے ہر حال میں درکار ہے۔ تم نے بہت کشتے۔ خمیرے۔ دوائیں ۔آلائیں ۔بلائیں بنا لیں ۔ اب دافع بدبو بناو ورنہ دفع ہو جاو۔ حکیموں کی لگ گئیں دوڑیں ۔جنگل جنگل اور نہ جانے کہاں کہاں مارے مارے پھرے ایک حکیم نسخہ لے ہی آیا۔حکیم جو نسخہ لایا اس میں مرکزی حیثیت پان کے پتے کی تھی یعنی سب کچھ اس کے اوپر ہی رکھ دیا جاتا۔ پہلے پتے پر چونے کی تہہ لگائی جاتی پھر کتھے کی اس کے بعد کتری ہوئی چھالیہ کے چند دانے اور بھر ہوتی لونگ۔ چھوٹی الائچی۔ سونف۔ ناریل وغیرہ ۔ یہ تمام اجزائے ترکیبی بد بو دور کرنے کے ساتھ ساتھ مقوی دماغ و ہاضمہ تھے۔نسخہ کامیاب رہا اور نورجہاں سر سے منہ کو ہوتی ہوئی پوری کی پوری جہانگیر کے من میں سما گئی ۔اب اس کے مشورے اور بھی سر چڑھ کر بولنے لگے۔
اب نقلم نقلئ یہ پان اودھ اور حیدرآباد دکن جا پہنچا اور تہذیب کا حصہ بن گیا۔ نوابین اودھ اور حیدرآباد دکن نے تو اس میں چاندی کے ورق لگا کر ساتویں آسمان پر بٹھا دیا۔ خوشی کا کوئی موقع اس کے بغیر نامکمل تھا۔ رشتہ سے لیکر شادی تک دلہن دولہا کے بعد کوئی اہم ہوا ۔ حیدرآباد دکن نے تو اس سے رشتوں کی پہچان کرانی شروع کردی۔ شادی کے دوسرے روز دلہن کے سامنے پاندان رکھ دیا جاتا ۔ دلہن باری باری سب کو گھونگھٹ کاڑھ کر پان دیتی تو سسرال کے لوگوں کا تعارف اور رشتہ بتایا جاتا۔ دلہن سے جو رشتے میں چھوٹا ہوتا وہ خود دلہن کو آداب کرتا ۔نام بتاتا اور پان لے کر الٹے پیروں واپس ہوجاتا ۔رشتے اور عمر میں بڑے لوگوں کے پاس دولہا کہ بہنیں دلہن کو لے جاتیں۔ دلہن پان پیش کرتی اور تعارف حاصل کرتی۔
پان پیش کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے تھے۔ خوب صورت چمکتی نقش ونگار والی طشتری میں پان پیش کئے جاتے جس سے مہمان کے لئے عزت و احترام کا اظہار ہوتا ہے۔ مردانے میں پان بھجوانے ہوں تو کسی بچے کو سر کے بالوں سے لےکر پیر کی جوتی تک دیکھا جاتا۔ بتا دیا جاتا کہ طشتری سیدھے ہاتھ میں رکھنا۔ زیادہ تبڑ تبڑ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک باوا یا دادا نہ کہیں چپکے کھڑے رہنا۔
پان کھانے کے بھی آداب ہوا کرتے تھے ۔ چھوٹے کا بڑوں کے سامنے پان کھانا بد تہذیبی مانا جاتا۔ سیدھے ہاتھ سے پان کھائیں اور الٹا ہاتھ منہ پر رکھیں۔ کھلا منہ نظر آجانا اخلاقیات کے خلاف تھا۔جن کو یہ آداب نہیں آتے لوگ تاڑ جاتے کہ آدمی خاندانی نہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے کبھی کبھی گھر کے مرد ٹچے کا لفظ بطور طنز استعمال کر لیا کرتے۔ بغیر اجازت پاندان کو ہاتھ لگانا کسی طور جائز نہ
   تھا۔
گذرے وقتوں میں پان کا پیشہ تنبولن کیا کرتی تھی۔ پھر پان نے بازار کا رخ کیا۔ جا بہ جا دکانیں کھل گئیں۔ اب کہاں کے پان اور کہاں کی تنبولن ۔ تنبولن کا لفظ اب لغت میں ہی رہ گیا ہے۔
طوائفوں نے پان کو شہرت دوام بخشی اور کوٹھے پر آنے والوں کے لئے عزت و احترام کا پیمانہ بنا دیا۔ جس کو جتنی عزت دینا مقصود ہوتی پان اتنی ہی انداز دلربائی سے نذر کیا جاتا۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...