Wednesday 3 April 2019

Shahid Hussain ... A remarkable personality


Article # 11


میرے منجھلے چچا

شاہد حسین
کہاں سے لاوں ایسے لوگ ؟

تحریر:اظہر عزمئ
یک اشتہاری کی باتیں)






آپ سوچ رہے ہوں گے۔ یہ کوئی لکھاری ، فلسفی ہوں گے تو ایسا بالکل بھی۔ آج کا یہ مضمون میرے مرحوم چچا (ڈیڈی) کے بارے میں ہے جو انتہائی عملیت پسند ، مردم شناس ، زمانہ آگاہ  اور بے خوف طبعیت کے مالک تھے۔ اوائل عمر سے نہایت عبادت گذار ہو گئے تھے۔سال میں تین ماہ کے روزدار تھے۔ ویسے نماز روزہ تو ہم نے شروع سے دیکھا ۔  میانہ قد، کھلتی رنگت ، چہرے پر سفید داڑھی خوب ہی جچتی ۔ ہر پریشانی ، دکھ اور بیماری کا پامردی سے مقابلہ کرنے والے ،کسی بھی مرحلہ پر مایوسی سے کوسوں دور رہنے والے شخص تھے ۔حوصلہ ہارنا ان کی سرشت میں نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ میرے رول ماڈل تھے اور رہیں گے۔

چچا کی چند باتیں کمال کی تھیں۔ دھوکہ کھاتے تھے نہ دیتے تھے۔بیوقوف بنتے نہ بناتے تھے۔لچھے دار باتوں سے بہت دور رہتے۔خوشامد پسند بالکل نہ تھے۔ اپنے مسلک پر سختی سے کار بند تھے مگر مزاج صلح جوئی کا تھا۔ ایماندار اتنے کہ آپ آنکھیں بھی بند کر لیں تو چونی ادھر سے ادھر نہ ہو۔ ہر وقت ایک ہی بات ذہن میں رہتی کہ کوئی لمحہ ،کوئی بات پروردگار عالم سے پوشیدہ نہیں۔

مستحکم معاشی حالات کے بعد معاشی ابتری ہوئی تو خدا کے حضور عبادتوں کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا گیا۔ بڑی بڑی مصیبتیں آئیں مگر حرف شکایت تو بہت دور کی بات چہرے کے تاثرات سے بھی شائبہ کی کوئی گنجائش نہ نکلتی۔ طبیعت میں حد درجہ قناعت تھی۔ معاشی طور پر آسودہ حال زندگی گذارنے کے بعد جب مالی مسائل کا سامنا ہوا تو اجھے وقتوں کی شاہ خرچی کی عادت مشکل سے جاتی ہے لیکن چچا نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔ برے وقتوں میں لوگ اپنے اچھے وقتوں کے ڈھول بہت پیٹتے ہیں مگر چچا نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ کبھی کوئی بات سے بات نکل آئے تو وہ الگ بات ہے۔

اخبار کا ایک حرف چاٹ لیتے۔ جب کاروبار تباہ ہوا تو دو چیزیں ہمیشہ اول وقت میں ادا کیں۔ ایک نماز اور دوسرے ابن صفی کے ناولز جو ان کا بڑا بیٹا اپنے پڑھنے کے لئے لایا کرتا تھا۔ ایک زمانہ میں پی ٹی وی کے ڈراموں اور گھر میں وی سی ار پر چلنے والی انڈین فلموں کے شوقین لیکن جیسے جیسے قربت پروردگار بڑھتی گئی پھر ساری توجہ مسجد اور سیاسی ٹاک شوز پر مرکوز ہو گئی۔

پیشہ ور زندگی کا آغاز بطور کلرک کیا اور پھر ترقی کرتے کرتے اسی بڑی سلک مل کے جنرل مینجر بن گئے۔ بہت اچھا وقت دیکھا ۔بچوں نے اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصک کی۔ چچا حاضر جواب اور حاضر دماغ تھے۔ امارات کے بعد خب تنگ دستی دیکھی تو میرا خیال ہے دنیا اور آخرت کی ساری کتھا سمجھ گئے تھے۔ ہمت و برداشت کے آدمی تھے۔ انتقال سے ایک ماہ پہلے جب پھیپھڑوں میں بہت پانی جمع ہو گیا تو پانی نکالنے کے لئے گائے بھینس کو لگائے جانے والےبڑے انجیکشن سے بغیر اینیستھیزیا لگوائے بستر پر بیٹھکر پانی نکلوایا۔ ڈاکٹرز اس عمر میں ان کی ہمت کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔

آخر وقت تک دماغ پوری طرح حاضر رہا ۔ وہ ابھی نہ مرتے اصل میں انہیں ان کے جوان بیٹے کی ناگہانی موت کا غم لے گیا۔ 

اولاد کا  ہونا  بھی  بڑی  بخشش  رب  ہے
یہ سچ ہے مگر داغ بھی بیٹے کا غضب ہے

 بیٹے کی تدفین کے وقت انہوں نے جس کمال صبر کا مظاہرہ کیا وہ دیکھکر سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مسلسل دعائیں پڑھتے رہے۔ بیٹے کے انتقال کے قریبا دو سال بعد ہی اسی قبرستان میں جا سوئے۔

میں نے پہلے بھی ایک جگہ لکھا کہ خوشیاں لے کر بیٹھتا ہوں اور غم آنکلتے ہیں۔ کیا کروں جن سے زندگی تھی وہ زیادہ تر زیر زمین ہیں۔ میرا قطعا ارادہ یہ سب باتیں کرنے کا نہیں تھا بلکہ ان کی حاضر جوابی کے قصے اور دلچسپ جملے آپ تک لہنچانے کا تھا۔

ایک مرتبہ ان کے چھوٹے صاحبزادے کو رات گئے کسی دوست کا فون آیا جن کے بیٹے کی موٹر سائیکل اور وہ تھانے میں تھا ۔چچا کے چھوٹے بیٹے کا کوئی جاننے والا اس تھانے میں تعینات تھا۔ اس خیال سے دوست نے اسے فون کیا۔  چچا کے بیٹے نے فون رکھ کر جانے کا ارادہ کیا تو چچا نے پوچھا کہ کہاں ۔بیٹے نے پوری بات بتائی تو چچا نے تاریخی جملہ کہا " آپ کے وہاں جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بس تھانہ کے باہر کھڑے لوگوں میں ایک اور فرد کا اضافہ ہو جائے گا "

ایک مرتبہ بقر عید کے موقع پر ان کے پوتے نے مسجد کی تعمیرکے لئے کھالیں جمع کیں۔ اس زمانہ میں کھالیں جمع کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ پوتے نے بالکل ساتھ والے پڑوسی کی قربانی کی کھال کی رسید پہلے ہی کاٹ دی مبادا کہیں کوئی اور نہ لے جائے۔ چچا اس معاملہ میں بہت سخت گیر تھے۔ اب سنیں جو مکالمہ پوتے سے ہوا۔

چچا: آپ نے وقت سے پہلے کھال کی رسید کاٹ دی ہے۔ بکرا ابھی تک آیا نہیں۔
پوتا : جی ذیڈی (چچا کو سب ڈیڈی کہتے تھے)
چچا: مگر ابھی تو بکرا آیا ہی نہیں
پوتا:  کوئی بات نہیں
چچا: اگر فرض کریں وہ بکرا نہ لا سکے ،رسید کٹ چکی ہے  تو کیا آپ اپنے کھال دیں  گے؟

ہمارے چچا قیامت کے مزاج دان تھے ۔ بڑے بیٹے کا نویں جماعت کا نتیجہ آیا تو شام کو اپنی اہلیہ کے ساتھ کہیں سے گھر آرہے تھے۔ رزلٹ کا علم نہیں تھا ۔ اس زمانہ میں نویں کے 5 پیپرز ہوا کرتے تھے۔ راستہ میں اہلیہ سے بولے "اگر صاحب زادے 4 میں پاس ہوئے تو گھر پر اور اگر 3 میں ہوئے تو بھائی ( ہمارے والد کو بھائی کہا کرتے تھے۔ ہمارا اور ان کا گھر ایک ہی گلی میں ہے) کے ہاں ہوں گے۔صورتحال اس سے زیادہ خراب تھی۔ اس لیے فاصلے کا مزید بڑھنا ضروری تھا۔اب وہ ہمارے گھر نہ تھے بلکہ ہمارے چھوٹے چچا کے ساتھ بہانہ سے شادی میں شرکت کے لئے حیدر آباد جا چکے تھے۔ بارات تو وہ نمٹا آئے لیکن گھر پر چچا ان کے رزلٹ پر دعوت ولیمہ کا کھانا کھولنے ہی والے تھے کہ عین وقت پر ہمارے والد صاحب پہنچ گئے اور دعوت ولیمہ منسوخ کردی گئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ چچا کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی لیکن اپنے بڑے بھائی (میرے والد) کے آگے ان کی آواز بھی نہیں نکلتی تھی۔ کہاں سے لاوں ایسے لوگ؟

ایک مرتبہ گھر میں بہت کاٹھ کباڑ جمع تھا تو چچی نے کہا کہ گھر میں بہت کاٹھ کباڑ ہوگیا ہے ؟ تو بیوی کو مسکرا کر دیکھتے رہے۔ بات سمجھ میں آگئی تھی۔ اہلیہ سے دیوانہ وار محبت کرتے تھے۔ حج پر جانے لگے تو ڈبڈبائی آنکھوں سے صرف ایک بات سب سے کہی کہ اس (اہلیہ) کا خیال رکھنا۔ کوئی تکلیف نہ ہو ۔ اہلیہ کو اپنے ہاتھوں سے پابندی کے ساتھ دوا کھلاتے۔اپنے سے زیادہ ان کا خیال رکھتے۔

ایثار و قربانی کا یہ عالم تھا ۔انتہائی مالی پریشانیوں کے دن تھے۔ ایک مشترکہ مکان تینوں بھائیوں کا تھا۔ والد صاحب اور چچا دونوں چھوٹے بھائی کے حق میں دست بردار ہوچکے تھے۔ مکان بکا تو چھوٹے چچا نے  بھائی کی مالی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا حصہ لے لیں تو بولے جہاں مجھ پر اتنے تنکوں کا بوجھ ہے اس سے کیا فرق پڑے گا۔ تم اپنا مکان خریدو۔

سب سے مزے کا واقعہ جسے شاید میں بغیر آواز پوری طرح بیان نہ کر پاوں وہ بہت مزے کا ہے۔ چچا کے بڑے صاحبزادے (اب منوں مٹی تلے سو رہے ہیں) کا صبح آفس جانا ایک مرحلہ ہوا کرتا۔ پہلی آواز بہت پیار سے دیتے "نجمی بیٹا اٹھ جائیں"۔ دوسری آواز 5 منٹ بعد آتی ۔اب آواز میں ہلکی سی سختی ہوتی " میاں اٹھ جاو" نجمی صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہ آتا۔ اب جو آواز آخری اور حتمی ہوتی"او بھائی اٹھ جا۔ صاف بتادو آفس جانا ہے کہ نہیں" اس عزت افزائی کے بعد اٹھنا لازم تھا۔

میرا خیال ہے اب میرا قلم اٹھا لینا بھی ضروری ہوگیا ورنہ آپ لوگ بور ہوجائیں گے۔  ممکن آپ لوگ یہ خیال کریں کہ میں یہ آرٹیکلز شاید کسی تعریف و توصیف کے لیے کرتا ہوں ۔ میں دراصل ان بڑے لوگوں کو آپ کے سامنے لانا چاھتا ہوں جو مشہور نہیں ہیں لیکن سب کے لئے قابل مثال و تقلید ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی اپنے سادہ اور مشکل اصولوں کے تحت گذاری ہے۔

آئے ، ٹھہرے اور  روانہ ہو  گئے
زندگی کیا ہے؟ سفر کی بات ہے

حیدر علی جعفری

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...