Thursday 4 April 2019

Safdar Mirza ... My dearest n nearest


Article # 12

صفدر مرزا

جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے



تحریر: اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)



80 کی پورئ دھائی اور 90 کے ابتدائی سالوں میں ، میں اس کے کونے کے مکان کی پتلی گلی کے لوھے کے گیٹ کے پاس جا کر اونچی آواز میں کہتا "صفدر"۔کچھ لمحوں میں جواب آتا "آرہا ہوں"۔ کچھ دیر میں وہ آجاتا اور پھر وھیں گھنٹے گھنٹے کھڑے ہو کر دنیا جہان کی باتیں ہوتیں۔زیادہ میں ہی بولتا وہ اچھا سامع تھا اور ہے۔

یہ گفتگو اس وقت ڈرامائی رخ اختیار کر لیتی جب ہم ان سے رات کیفے گلستان (جو اب للی میرج بیبکوئٹ بن گیا ہے) واٹرپمپ جا کر نہاری کھلانے کی فرمائش کرتے ۔ پہلے تو صاف انکار پھر ہماری غربت کا طعنہ حالانکہ وہ جانتے تھا کہ یہ طعنہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کافی دیر ہم بھی ملتجیانہ اور کبھی دوستانہ انداز میں اصرار کرتے رہتے۔ اکثر اوقات صفدر  مان جاتا۔  مئی یا جون 1988 تک ہماری بے روزگاری کا زمانہ تھا جبکہ صفدر مرزا میکینیکل میں ڈبلومہ کرنے کے بعد شپ یارڈ میں سرکاری ملازمت کر رہے تھے۔ بعد ازاں آپ نے بی ٹیک بھی کر لیا۔

صفدر سے ہماری دوستی کب ہوئی یہ تو یاد نہیں لیکن کب ختم ہوگی ؟ یہ تو زندگی کے خاتمے پر ہی ممکن ہے۔ صفدر کا لغوی مطلب ہے صف میں در آنے والا۔ صفوں کی صفیں الٹ دینے والا۔ بہادر۔ جری۔نڈر ۔دلیر۔ جھوٹ نہیں بولوں گا میں نے صفدر کو بظاہر صف الٹتے نہیں دیکھا البتہ نماز کی صف میں رکوع و سجود میں دیکھا۔ نماز کی باقاعد
گی سے ادائیگی آپ کے معمولات میں شروع سے شامل ہے۔

صفدر مرزا کے خد و خال کچھ یوں ہیں۔ درمیانہ قد۔ متناسب جسم۔ گندمی رنگت۔ گول چہرہ۔ ہلکی داڑھی اور نظر کے چشمے کی پیچھے جھانکتی  زندگی سے بھرپور آنکھیں۔ گفتگو کرتے ہوئے لفظوں کی ادائیگی  میں اٹکن  یہ سب مل کر بنتی ہے صفدر مرزا کی لکھنوی شخصیت۔ بچپن میں صفدر مرزا کرتا پاجامہ پہنتے ہوں گے تو لکھنو کے بانکے ہی لگتے ہوں گے۔

صفدر مرزا ذات کے مغل ہیں۔ ان کے ابا و اجداد کب وارد ہندوستان ہوئے؟ تاریخ کے اوراق کچھ بتائیں تو بتائیں صفدر مرزا نے اس موضوع پر لب کشائی نہیں کی۔میں اتنا تو ضرور کہہ سکتا ہوں کہ صفدر مرزا کھانے میں گائے،بکرے اور مرغی کی چیر پھاڑ کے عادی ہوں تو ہوں لیکن اپنے جد اعلی چنگیز خان کی طرح فتح پرستی میں انسانوں کے ساتھ اس عمل کے سخت مخالف ہیں۔

صفدر مرزا خود شہرت یافتہ نہیں ہیں مگر ان کے والد صاحب دلاور مرزا مرحوم چغتائی آرٹ کے مسلمہ مصور تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں آپ کے فن پاروں کی نمائش ہوئی۔ میر ،غالب اور اقبال کے اشعار پر آپ کی پینٹنگز یگانہ رہیں۔ دلاور مرزا اورینٹ ایڈورٹائزنگ میں سالوں آرٹ ڈائریکٹر رہے۔ میری زندگی پر تو ان کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہی مجھے ایڈورٹائزنگ میں لانے کی وجہ بنے۔

صفدر مرزا سے جب ہماری دوستی بڑھی تو ان کی مذھب کی طرف طبیعت پوری طرح سکہ بند مسلمان ہو چکی تھی۔ ہمارا یہ تھا کہ ہم سقہ بند(مطلب جتنا عام مسلمان ہونے کے لئے  علم کی پیاس ضروری ہے بس وہی کافی ہے) مسلمان تھے اور رہے۔ چھٹی کے دن (ہفتہ) ہم دونوں اردو بازار اور صدر کتابیں خریدنے جاتے۔ پتہ نہیں کون کون سی مذہبی یا مذھب سے قریب تر کتابیں تلاش کرتے پھرتے۔ ہم اس کوشش میں مصروف رہتے کہ مذھب سے ہٹ کر کوئئ ادبی کتاب مل جائے جسے ہم پڑھ سکیں۔ پیسے تو ہمارے پاس ہوتے نہ تھے۔ بڑی بڑی مشکل سے صفدر مرزا کو اپنے مطلب کی کتاب کے لئے گھیرتے اور یہ ثابت کرنے کی سعی حاصل کرتے کہ اس کتاب میں مذھب موجود ہے۔ صفدر مرزا سب جانتے ۔خوب سنانے کے بعد ایک کتاب ہماری مرضی کی لے لیتے مگر ایک شرط کے ساتھ کہ جو کتابیں میں لے رہا ہوں تم کو پڑھنی ہوں گی۔ ہم فورا راضی ہو جاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ دیتے کتاب پڑھنے کو دی جاتی۔ہم بھی خاص خاص حصے پرھتے اور  اظہار خیال کرتے۔صفدر مرزا کو اندازہ تھا کہ ہم کرتے کیا ہیں پھر انہوں نے کتاب کے خاص خاص حصوں پر  لائنیں لگا کر دینی شروع کردیں کہ کسی طرح ہم کتابوں میں ان کے ہم مزاج ہو جائیں۔

صفدر مرزا یہاں بھی ناکام رہے ہم نے ان لائنوں کے باوجود ان کی لائن نہ پکڑی۔ صفدر مرزا ابتدا سے روایتی مولویوں اور ذکروں سے کبیدہ خاطر رہے۔ اب ان کی حالیہ پوسٹیں دیکھ کر لگتا ہے بات کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ شروع شروع میں تو ہم نے کمنٹس کئے لیکن بعد میں خود پر نو کمنٹس کا بورڈ لگا دیا۔ صفدر مرزا سمجھ رہے ہوں گے کہ ادھیڑ عمری میں ہم ان کے ہم رکاب ہو جائیں گے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا۔

ایک مرتبہ ہم نے گلی والوں کے ساتھ ہاکس بے پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا۔ والد والدہ خیرپور گئے ہوئے تھے۔ شام ہو گئئ۔ صبح پکنک پر جانا ہے۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ پہنچ گئے صفدر مرزا کے پاس ۔نکالو ہماری پکنک کے پیسے۔ بے نقاط سنائیں۔ کیا کیا نہیں کہا۔ ہم بھی ڈھیٹ بنے سنتے رہے اور پیسے لے کر ہی گئے۔کبھی سوچنے بیٹھتا ہوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ کتنا یقین اور مان تھا صفدر پر کہ وہ مایوس نہیں کرے گا۔

ایک وقت وہ بھی گذرا کہ صفدر ہماری تفریح بازی سے نالاں ہوئے اور ہمیں سب کے سامنے سنا دیں۔ ہم بھی اکڑ گئے۔ بات چیت بند۔ لوگ حیران کہ روز گھنٹوں بات کرنے والوں کو کیا ہوا۔ ہماری جاب لگ گئی تھی۔ ہمارے بھی پر لگ گئے تھے۔ ایک ماہ یا اس سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا۔ ایک دن دونوں شام کو آفس سے واپسی پر سہراب گوٹھ کے اسٹاپ پر ساتھ اترے۔ ریل کی پٹری کی طرح ساتھ چل رہے تھے مگر دونوں ہی خاموش یہاں صفدر مرزا پھر مجھ سے بازی لے گیا اور خود ہی آواز دے کر بات شروع کردی ۔ ناراضی کیا تھی محبت کا لاڈ تھا۔اس نے مجھے منا لیآ اور میں من گیا۔

صفدر مرزا باشرع ہیں۔ عزاداری کے بارے میں اپنا مخصوص نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ مذہبی احتجاج میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ ایسے موقعوں پر آپ خاص طور پر جاگرز پہن کر شریک مظاہرہ ہوتے مبادا کہیں مظاہرہ شکن قوتوں کے شکنجے میں نہ آجائیں۔ ایسے موقعوں پر آپ کا گھر سے نکلنا اور پھر دوستوں کی جملہ بازی خوب ہی مزہ دیتی لیکن صفدر مرزا مسکرا کر ہر جملے کو سہہ جاتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر پکڑے گئے تو مار نہیں سہہ پائیں گے۔

صفدر مرزا کی آبائئ انجمن ظفر الایمان ہے جو کبھی کبھی مجھے ان کے مذہبی خیالات سے کمپرومائز کرتی دکھائئ نہیں دیتی مگر تمام تر باتوں کے باوجود ان کے اندر کا انجمن باز زندہ تھا۔ کیا کیا جائے۔لاکھ عالم فاضل بن جایئے بچپن کی خو بو تھوڑی جاتی ہے۔ صفدر مرزا کے خاندان میں نوحہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے بچوں کا کھانا کھانا۔ والد،بھائئ چچیرے بھائئ سب اس فن میں طاق ہیں۔ انجمن نوحہ خوانی کر رہی ہو اور شبہ ہو کہ طرز ٹوٹ رہی ہے یا پڑھنے والے کی آواز میں دم ہلکا پڑ رہا ہے تو خاندان کا کوئئ بھی فرد کہیں بھی کھڑا ہو آواز میں آواز ملا دیتا تھا۔ صفدر مرزا  بھی خاندان کی اس روایت کے امین رہے ہیں۔اب قیام چونکہ کینیڈا میں ہے اس لئے اس امانت داری سے متعلق حتمی رائے دینے سے مکمل طور پر انکاری ہوں۔ صفدر مرزا کی آواز اس وقت تک بہت اچھی ہوتی کہ جب تک وہ ساتھ پڑھ رہے ہوں اور یہ پتہ نہ چلے کہ اس میں سے صفدر مرزا کی آواز کون سی ہے۔

صفدر مرزا بچپن میں خاصے گول مٹول رہے ہوں گے لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ ان پر بچپن آیا بھی تھا کہ نہیں ۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ وہ اس عمر کیا باتیں کیا کرتے ہوں گے؟ کس قسم کے بچکانہ مذاق کیا کرتے ہوں گے۔ ان باتوں سے یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ ان میں میں حس مزاح ہی نہیں۔ ہے اور بہت ہے مگر اوندھا سیدھا مذاق ان کا مزاج نہیں۔

صفدر مرزا کے لئے کہنے کو اور اس کے بعد ان سے سنے کو بہت کچھ ہے۔ بس اتنا کہہ دوں کہ فی زمانہ شرافت ان پر ختم ہے۔

بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن 
جو  میرا  دوست  ہے مجھ سے  بڑا  ہے

                                     (اطہر نفیس)

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...