Thursday 23 May 2019

سہرا کسی کا ، نام کسی کے ۔ کلائنٹ کے قصے ۔ مزے مزے کے ۔آرٹیکل # 28


Article # 28


کلائنٹ کے قصے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے (قسط نمبر 5)

کلائنٹ کے بیٹے کی شادی
سہرا کسی کا ، نام کسی  !




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

ایڈورٹائزنگ کی دنیا کے لوگ بالخصوص جن کا تعلق کریٹیو ڈیپارٹمنٹ سے ہوتا ہے کبھی کبھی عجیب صورت حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تحریر کے معاملہ میں آپ کو ہر فن مولا تصور کیا جاتا ہے۔ چار و ناچار آپ کو کرنا ہی ہوتا  ہے ورنہ مینجمنٹ آپ سے کبیدہ خاطر بھی ہو سکتی۔ میٹنگ میں جائیں تو  وارم اپ کے لئے کلائنٹ آپ سے کسی بھی ملکی اور بین الاقوامی موضوع پر گفتگو کا آغاز کر سکتا ہے۔ موسم کے حال سے لے کر منڈی کے بھاو  تک کچھ بھی زیر بحث آسکتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک وہ دنیا کے تقریبا ہر موضوع پر اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہوتی ہے کہ ان کے بے لاگ تجزیوں میں ٹانگ اڑانے کا کوئی حق حاصل نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہوتا کہ سرکار دنیا کے بڑے  دانشور ، ٹجزیہ نگار آپ کے آگے کچھ بھی نہیں بیچتے بلکہ دکان  ہی بڑھا گئے ہیں۔ ہمیں ان کی ہر بات پر داد و تحسین کے ڈونگے انڈیلنے ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی نکتہ جو آپ نے نکالا ہے اور وہ ان کے تجزیے سے مختلف ہوا تو آپ کو کہنا پڑتا ہے " ویسے آپ کا نکتہ زیادہ قابل وزن ہے اور اس میں جو نکات آپ نے اٹھائے وہ ایک اس گھمبیر مسئلے کے حل کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ۔ خوشامد و چاپلوسی کی بارہ دری میں انہیں سیر کرائی جاتی  ہے ۔ بھائی سیدھی سیدھی بات یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا کام کلائنٹ کے غلط کو دلیل کے ساتھ صحیح ثابت کرنا ہوتا جس کا ہماری تنخواہ سے دور پرے کا کوئی تعلق نہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس میں کچھ کلائنٹ واقعتا پڑھے لکھے اور موضوع پر حقیقی گرفت رکھتے ہیں ان سے بات کر کے واقعی بہت مزہ آتا ہے 

میں اکثر اوقات یہ بات کہہ چکا ہوں کہ شاعر اور ادیب عام طور پر اس شعبہ میں نام نہیں کما پاتے اور رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے بطور کریٹیو اس فیلڈ میں آنکھ کھولی ہو کلائنٹ کی بریف کے بغیر کام ہی نہیں کر سکتے ۔ یہ مکمل طور پر کمرشل رائٹنگ کی فیلڈ ہے جہاں کلائنٹ کی منظوری کے بغیر آپ کا بہترین کام جھاڑو سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہماری تربیت کا بنیادی نکتہ ہی کلائنٹ کی ہاں ناں سے جڑا ہوتا ہے اس لئے بار بار تخلیقی کاموں میں تبدیلی کرانے کے باوجود ہم  اپنے کام میں جتے رہتے ہیں۔ہماری ذاتی پسند اور نا پسند کوئی معنی نہیں۔

کبھی کبھی کچھ ایسی فرمائشیں آجاتی ہیں کہ آپ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں مگر پھر بھی کوئی راہ نکالنا پڑتی ہے۔ مینجمنٹ سے کہو تو وہ ایک ہی بات کہتی ہے "کرنا تو پڑے گا۔ باہر سے کروالو ۔ویسے ایک بات سنو۔ایک ٹرائی مار کر دیکھ لو"۔ ہم نے بےشمار پریس ایڈز لکھے۔ ٹی وی کمرشلز کے کانسپٹس لکھے۔ جنگلز لکھے جو زبان زد عام ہوئے۔ ٹی وی پر ان کی پیروڈی بھی بنی۔ اس کے باوجود ہم نے پوری زندگی میں چار پانچ شعر کہے ( اللہ جانتا ہے وزن میں بھی تھے کہ نہیں )۔

ایک  مرتبہ ایک ایسی فرمائش آگئی جس کا ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔ کلائنٹ کے بیٹے رشتہ ازدواج میں بندھ رہے تھے ۔ کسی نے ان سے کہا "بھائی لڑکے کا سہرا تو لکھواو "۔کلائنٹ نے سنا اور شام کو ایجنسی کو حکم نامہ آگیا کہ کل صبح سہرا چاہیئے تاکہ اسے پرسوں بارات میں چھپوا کر پڑھا اور تقیم کیا جاسکے۔ ہمیں بلایا گیا اور کہا گیا کہ سہرا لکھنا ہے۔ ہم نے کہا "یہ کام تو ہم نے کبھی نہیں کیا ۔ ہم شاعری کے اوزان سے ناواقف ہیں "۔ جواب آیا پرسوں شادی ہے کل  سہرا آئے گا ۔کتابت ہوگی ہھر چھپنے  جائے گا۔ اب چاھے شادی ہو نہ ہو مگر کو سہرا دینا ہے۔ ۔ہم نے لاکھ سمجھایا لیکن مینجمنٹ کی سمجھ میں ایک نہ آئی۔ حکم ملا کسی شاعر  کو پکڑو اور صبح سہرا ساتھ لیتے آنا آو۔ بہتیرا سمجھایا کہ اتنے کم وقت میں تو تین ہٹی سے ایک کیا جتنے سہرے کہیں مل جائیں گے۔ جوابا خوشی کا اظہار  کیا گیا اور کہا  گیا کہ پھر پریشانی کی کیا بات ہے ؟ میں نے کہا وہاں پھولوں کے سہرے ملتے ہیں ۔ ڈانٹ دیا گیا کہ یہ تفریح کا وقت نہیں ۔شعروں والا سہرا چاہیئے ۔ میں نے باس کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ  کوئی شاعر ایک رات میں 25-30 آشعار للھنے کی طرف راغب نہیں ہوگا۔ باس نے کہا پیسے  دو ۔ یک سے ایک بڑا شاعر راغب ہوگا۔آخری پتہ کے طور پر ہم نے کہا کہ دولہا کے والد ،والدہ ،بہن ،بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کے نام ہوں گے تو سہرا لکھا جائے گا۔  ہماری یہ ترکیب بھی کارگر نہ ہوئی اور ایک گھنٹے میں نام بھی آگئے۔ اب کہا گیا کہ آپ جائیں اور صبح سہرے لے آئیں ورنہ اپنی رخصتی پکی سمجھیں۔ ہم نے والد صاحب کےشاعر دوستوں سے رابطہ کیا مگر سب نے معذرت کر لی۔ والد صاحب مرحوم  (کوثر سلطان پوری ) سے درخواست کی کہ آپ لکھ دیں تو ڈپٹ کر بولے "میاں شاعری نہ ہوگی چھولے چاٹ کی دکان  ہوگئی۔ ساری چیزیں ملائیں اور چاٹ تیار "۔

اب دور دور تک کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ بات وہی کہ مسئلہ میں ہی مسئلہ کا حل چھپا ہوتا ۔آپ گھبراہٹ میں اسے تلاش نہیں کر پارہے ہوتے۔ بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ والد صاحب نے سہرے لکھے ہیں وہ کس دن کام آئیں گے۔ والدہ سے کہا کہ ابو کے لکھے سہرے نکال دیں۔ والدہ کو اصل بات پتہ تھی۔ صاف بولیں " نہیں بیٹا اپنے ابو سے پوچھ لو تو دے دوں گی۔ والد سے ایک انکار کے بعد کس میں پوچھنے کی ہمت تھی۔پہلے سنا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے مگر اب دل نے کہا محبت ، جنگ اور دوسرے کی شادی میں سب جائز ہے اور ذہن میں ایک گانا بجنے لگا۔

چہرے پہ سہراڈالےآجاو آنے والے
چاند سی بنو میری تیرے حوالے

جب سب سو گئے تو ہم نے بڑی تگ و دو کے بعد سہرا ڈھونڈ نکالے اور اس سہرے میں سے اپنے رشتہ داروں کو اٹھا کر ایک طرف کھڑا کردیا اور کلائنٹ کے رشتہ داروں کو بہ نفس نفیس بٹھا دیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ تھوڑی دیر میں کام ہو جائے گا مگر یہ نام بٹھاتے بٹھاتے فجر ہوگی۔

مقطع کو پڑھتے ہوئے  ایک بڑی دلچسپ بات یاد آئی کہ جب اصل  سہرے  کو  سالوں پہلے پہلی بار  پڑھا تو اس مقطع یعنی کہ :

صدقہ میں پنجتن پاک  کے پھر  آئے  بہار
ان کے بچوں کا بھی لکھے یونہی کوثر سہرا 

تو ہمارے جواں مرگ چچا زاد بھائی نے کہا کہ ابو (تایا) کو ان کے بچوں کی بڑی فکر ہے ۔اپنے گھر کے بچوں کا بھی کچھ سوچیں۔ اس وقت تک ہم سب تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔۔

صبح 9 بجے آفس پہنچے تو پہلا سوال سہرے کا تھا۔ ہم نے سہرے کی اہمیت جتانے کی خاطر بتایا کہ رات بھر ایک شاعر کے ساتھ بیٹھا رہا ہوں۔ تب کہیں جاکر سہرا لکھا گیا ہے۔ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ شاعر کو کچھ نذرانہ دینا ہوگا۔ باس نے کہا کتنے پیسے ہوئے۔ہم نے کہ  5 ہزار روپے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ پیسے زیادہ بتا دیئے ہیں مگر یہ کیا۔ باس نے کہا ابھی جا کر فنانس سے پیسے لے لو۔ ہم فنانس ڈیپارٹمنٹ کی طرف بھاگے کہ کہیں باس کا موڈ بریف کی طرح تبدیل نہ ہوجائے۔ اکاونٹنٹ سے کہا کہ باس کہہ رہے ہیں 5 ہزار روپے دے دو۔ اکاونٹنٹ نے بڑی معنی خیز نظروں سے کہا کہ کس سلسلہ میں ؟ ہم نے سلسلہ بتا دیا۔ اکاونٹنٹ نے باس کو انٹر کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ دے دو۔ کچھ دیر بعد  5 ہزار روپے ہمارے ہاتھوں میں تھے۔ سنا تھا کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانے مگر اب معاملہ کچھ یوں ہوگیا تھا کہ بیگانے کی شادی میں عبداللہ کے پیسے پورے ۔

سہرے کی کتابت ہوئی اور چھپنے کے لئے بھیج دیا گیا ۔ہم نے سوچا ہماری جان چھوٹی اور پیسے الگ ہاتھ لگے لیکن ابھی بات ختم نہ ہوئی تھی۔ پورے آفس کو 5 ہزارکی ہوا لگ چکی تھی۔ کچھ کو شک تھا کہ ہم  کچھ کر  کرا کر نے لائے ہیں۔ پہلے کھانا کھلانے کا کہا گیا ۔ہم نے صاف انکار کردیا کہ یہ پیسے دینے کے ہیں۔ انکار کیا ہم سے تفریح شروع ہو گئی۔ کسی نے کہا کہ اب کسی بھی کلائنٹ کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی تو اظہر عقیقے اور مسلمانی کے انتظامات پر مامور ہوں گے۔ ایک آواز آئی کہ دولہا کے لئے بارات کا گھوڑا بھی لے آئیں گے۔ جملہ پہ جملہ اور حملہ پہ حملہ تھا۔ کسی نے گرہ لگائی کہ گھوڑے کو لانے کی کیا ضرورت ہے ۔اظہر خود کیا کم ہیں۔ پھر ایک آواز سنائی دی کہ (طنز ہماری طویل القامتی پر تھا ) ان کا قد گھوڑے سے بھی آگے نکلتا ہوا ہے۔ کوئی بات نہیں سیڑھی لگا دیں گے اور دیکھیں گے کس کروٹ بیٹھتے ہیں ؟ غرض ہر ایک ثواب لوٹنے میں لگا تھا ۔ایک ڈیزائنر تو ہمارا پوسٹر بھی بنا لایا جس میں ہم بارات میں ڈھول بجا رہے ہیں۔

 شام میں کلائنٹ کا فون آیا کہ سہرے کو نکاح کے بعد پڑھنا ہوگا ۔جس نے سہرا لکھا ہے اس کو کل بارات میں لے آئیں۔ جب یہ ناگہانی ہمیں سنائی گئی تو لگا کہ پیسے نہیں سانپ پھنکار رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ بھائی جن سے سہرا لکھوایا ہے وہ تو کل مشاعرہ پڑھنے میرپورخاص جا رہے ہیں۔ باس نے کہا یار جہاں 5  دیئے ہیں۔ پانچ اور دے دیں گئے۔ مشاعرے میں پیسے ہی کتنے ملتے ہیں ؟ اب سمجھ میں کچھ نہ آئے ۔ہم نے کہا وہ بہت بڑے شاعر ہیں ۔انہیں میرپورخاص میں مشاعرے کی صدارت کرنی اور ویسے بھی ان کا شمار  پائے کے شعرا میں ہوتا۔ آپ جتنے بھی پیسے دے دیں۔وہ نہیں پڑھیں  گے۔ وھیں کھڑے ہمارے کولیگ بولے " سر اس میں کیا مسئلہ ہے۔ اظہر کی اپنی آواز اتنی اچھی ہے ۔یہ پڑھ دیں گے"۔ میں بیچ میں پھنس چکا تھا  باس نے میرے کاندھے پر برادرانہ ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے باسانہ لہجے میں کہا " میں جانتا ہوں تم اس شاعر سے کہیں اچھا پڑھو گے"۔میں سر ہلا کر رہ گیا۔ سوچنے لگا کس اوکھلی میں سر دے دیا۔

تیسرا دن آیا۔ آج بارات ہے اور ہمیں سہرا پڑھنا ہے۔ آفس گئے تو وہی ہنسی مذاق شروع ہوگیا۔ ہم کبھی سیریس ہونے کی کوشش کرتے تو مزید ریکارڈ لگایا جاتا۔ شام ہوئی تو حکم صادر ہوا کہ جلدی گھر جاو اور تیار ہو کر آجاو۔ عجب کوفت تھی ۔ آفس سے نکلا۔ آفس کے قریب ہی روڈ کراس کے کے بس کا اسٹاپ تھا۔ روڈ کراس کرنا چاہ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک پیون کی آواز آئی "اظہر صاحب"۔میں رک گیا۔ پیون نے کہا کہ آپ کو صاحب بلا رہے ہیں۔ میں نے سوچا اب کوئی نئی افتاد پڑنے والی ہے۔ ممکن ہے سہرا گا کر سنانے کی فرمائش نہ آجائے۔ ڈرتے ڈرتے آفس پہنچا ،باس کے کمرے میں گیا۔باس کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ خوب لہک لہک کر باتیں کررہے تھے اور کرسی میں دھنستے چلے جا رہے تھے۔ بات ختم کر کے بولے " وہ میں نے تمھیں اس لئے بلایا تھا" ، ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دوبارہ فون کی گھنٹی بج گئی اور ہم پھر انتظار کی صلیب پر لٹکا دیئے گئے۔

فون پر بات تمام ہوئی تو گویا ہوئے وہ آج تمھیں سہرا پڑھنا یاد تو ہوگا؟۔میں نے کہا " ہاں میں گھر ہی جاریا تھا ۔ تیار ہونے کے لئے " ۔ بولے " اب تم مت جاو کلائنٹ کا فون آیا تھا کہ ان کی فیملی کے ایک صاحب سہرا پڑھ دیں گئے " ۔ یہ سنا تو ہم نے بڑے اعتماد سے کہا "نہیں سر کوئی مسئلہ ہی نہیں میں پڑھ دوں گا "۔باس نے کہا  کیوں بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانے بنتے ہو۔ اب ہمارا دل گھر پہنچ کر 5 ہزار کے نوٹوں کی خوشبو سونگھنا چاہتا تھا ۔

 کیوں نا مضمون کا اختتام مرزا غالب کے شہرہ آفاق اس شعر پر کروں

ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
 دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا 

Sunday 5 May 2019

کلائنٹ کے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے (قسط # 4) آرٹیکل # 26


Article # 26

کلائنٹ کے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے . قسط نمبر 4
کسی اور کو منہ نہ لگائیں
جس کا نمک کھائیں ، اسی کے گن گائیں


تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)



ایڈورٹائزنگ سے وابستہ کریٹیوز اس تلخ حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ کسی کلائنٹ کو 3 کانسپٹس پریزنٹ کئے جاتے ہیں۔ دو کانسپٹ وہ ہوتے ہیں جو آپ کے خیال سے زبردست ہوتے ہیں لیکن پوری پیشہ ورانہ زندگی کا حاصل یہ رہا کہ وہ کانسپٹ جسے آپ گنتی پوری کرنے کے لئے لکھتے ہیں وہی انہیں سب سے زیادہ پسند آتا ہے۔ یقینا وہ ان کی مارکیٹنگ کے لحاظ سے بہتر ہوتا ہوگا لیکن ہمیشہ ایسا نیں ہوتا ۔کبھی ذاتی پسند و ناپسند اور تخلیق کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت بھی آڑے آجاتی ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی اچھا ایڈ دیکھیں تو آدھا کریڈٹ اس شخص کودیں جس نے وہ کانسپٹ approve کیا ہے۔ ہم تو کانسپٹ کی Tailor made دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ خریدار کی مرضی ہے جو مال اٹھا لے 
جائے۔
میں اپنے بارے میں کم از کم یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرا "اصل مال" فائلوں میں پڑا
 سڑ رہا ہے (میرے ایک دوست کا خیال ہے کہ میرے پوتا پوتی ایک دن اس کے کاعذی جہاز بنا کر اڑا رہے ہوں گے)۔
ایک مرتبہ ایک کلائنٹ نے اپنا نمک لانچ کیا۔ بڑی لمبی بریف دی اور کہا : We want something out of the box۔ ہم نے اپنے دماغ کو پکانا شروع کیا اور اللہ تعالی سے دعا کی کہ کچھ نیا ذہن میں آجائے۔ دفترمیں ہوں یا گھر میں یا آفس آ جا رہے ہوں ایک ہی بات ذہن میں سمائی تھی کہ کچھ مختلف آجائے۔ ہم نے دو کانسپٹ سوچے تھے۔

1۔ کسی اور کو منہ نہ لگائیں
2۔ جس کا نمک کھائیں ، اسی کی گن گائیں

اس کے علاوہ تیسرا ایک روٹین کا کانسپٹ سوچ لیا ۔ بڑے اعتماد سےکلائنٹ کے پاس پہنچے۔ کانسپٹس پریزنٹ کئے۔ کانسپٹس سنکر کلائنٹ صاحب پہلے کچھ دیر خاموش رہے۔ ( یہ مرحلہ کریٹیوز کے لئے جاں سوز ہوتا ہے۔ لگتا ہے میٹرک کا رزلٹ آنے والا ہے )۔پھر گویا ہوئے اور چشم زدن میں دونوں کانسپٹس کو ردی کی ٹوکری میں اور تیسرے کانسپٹ کی شان میں رطب اللسان ہو گئے۔ ہم ان تجربات سے پہلے گذر چکے تھے۔ سوچا کہ یہ بھی روٹین کلائنٹ ہے۔ زیادہ دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں۔

عام طور پر لوگ ایڈورٹائزنگ کی دنیا کو گلمیرائزڈ ورلڈ سمجھتے ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ۔یہ بڑی دل سوز جگہ ہے۔ جہاں دماغ کا بہت سارا گلوکوز جلانا پڑتا ہے۔ سوچ کے پاتال میں اترنا پڑتا ہے ۔ تب کہیں اوریجنل کانسپٹ وارد ہوتا ہے۔ یہ کیفیت ایک دو منٹ ہی کی ہوتی ہے۔ جب آپ پر کانسپٹ نازل ہوتا ہے۔اس کے بعد جو ذہنی تھکان ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہوتی ہے۔ اب تو خیر انٹرنیٹ کی بدولت آپ جس پروڈکٹ پر کام کرنا چاھیں تو بہت کچھ چھاپ لیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے اسٹوری بورڈ میں اسی کے فریمز ڈال دیتے ہیں۔

تخلیقی نقطہ نظر سے inspire ہونا بہت اچھی بات ہے لیکن انٹرنیٹ کی آمد کے بعد مجھے لگتا ہے کہ ہم expire ہورہے ہیں۔ جہاں جہاں Original Creativity ہوگئی وہ ضرور سراھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے پرانے ایڈز اور ان کے جنگلز پرانے گانوں کی طرح آج بھی تر و تازہ ہیں۔

Saturday 4 May 2019

قسط نمبر 3 ۔ ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟ Article # 25


Article # 25




قسط نمبر 3 ۔
ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟

ایک ہفتہ میں ملازمت (انٹرنشپ) سے فارغ




اشتہارات ہیں زمانہ کے ہ
گذشتہ سے پیوستہ
تحریر:اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)




میں نے حواس درست کرتے ہوئے کہا "جی"۔ ٹیلی فون آپریٹر نے خلاف توقع بتایا کہ وہ ایک کورئیر سروس سے بات کر رہی ہے ۔ آپ نے درخواست دی تھی (اللہ جانے اس زمانہ میں تو کلاسیفائیڈ اور ڈسپلے کسی بھی ایڈ میں تعلیمی قابلیت گریجویٹ لکھی ہوتی تو ہم درخواست روانہ کردیا کرتے تھے ) ۔ ایک بات ذہن میں رہے کہ کورئیر سروس کمپنیز میں زیادہ تر ملازمتیں رائیڈرز (موٹر سائیکل چلانے والے) کی ہوتی ہیں اور ہم نے زندگی میں کبھی اس"گھوڑا سواری" کو ہاتھ بھی نہ لگایا تھا۔ اس کمپنی کا آفس زینب مارکیٹ سے قریب بلڈنگ میں تھا ۔ ہم یہ سوچ کر کہ شاید کوئی آفس جاب ہو انٹرویو کے لئے پہنچ گئے۔ کوئی بہت اوسط درجہ کی کورئیر سروس تھی۔ انٹرویو کیا ہی ہونا تھا۔ان کو رائیڈر چاھیئے تھا اور قسمت ہمیں کاپی رائٹر بنانے پر تلی بیٹھی تھی۔ یہاں سے باہر نکلے تو MAZ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا آفس نظر آگیا۔ یہ زعم کہ کاپی رائٹرنگ کی ابجد سے واقف ہیں ،گھس گئے۔ یہ ایجنسی مختار آعظمی کی تھی جو اس زمانہ میں اور اس کے بعد بھی پاکستان ایڈورٹئزنگ ایسوسی ایشن کے سرکردہ لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہاں عباس آعظمی اور ذوالفقار آعظمی سے ملا (یقینا انہیں یاد بھی نہیں ہوگا)۔ انہوں نے "ٹرائی" کے لئے کہا کہ یو ایس ایڈ پر کچھ لکھ لائیں۔ اب یہ یاد نہیں کے وہاں دوبارہ گئے کہ نہیں لیکن اس وقت کا لکھا ایک سلوگن یاد ہے:
یو ایس ایڈ کا منصوبہ
تعمیر و ترقی صوبہ صوبہ
مارے مارے پھر رہے تھے۔ محلہ میں ایک آغا ڈرائی کلینرز تھی جہاں دن میں ہم وقت گذادی کے لئے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ یہ پہلے مارٹن روڈ پر رہا کرتے تھے۔ ان کے والد ریڈیو پاکستان میں ملازم تھے۔ انہیں ہم اپنی بپتا سنایا کرتے تھے۔ ایک دن بولے کہ مارٹن روڈ پر ہمارے والد کے صحافی دوست رہتے ہیں وہ کسی میگزین میں ہوتے ہیں۔ آپ وہاں اپلائی کر دیں۔نام یاد نہیں البتہ یہ یاد ہے کہ بنگالی تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اہلیہ چونکہ کراچی کی تھیں اس لئے رک گئے۔ بہت شریف آدمی تھے۔ انہوں نے بھی اپنی سی کوشش کی مگر سب بے سود ۔ ایک دن انہوں نے مجھے موجودہ سب میرین چورنگی کے پاس یونائیٹڈ ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے اکاونٹس ڈیپارٹمنٹ میں ابا علی صاحب کے پاس بھیج دیا۔ انہوں نے تو چھوٹے ہی کہہ دیا جب کہیں کاپی رائٹر کی جاب ہی نہیں کی تو ملازمت کہاں سے دے دیں۔ہم منہ لٹکائے واپس آگئے ۔اس دوران IAL بھی رشید احمد رشید سے بھی ملاقات ہوئی ۔انتہائی نستعلیق انسان ہیں۔ کافی عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی ۔ کبھی کبھی شبیر رعنا ( اداکار) کے ذریعے خیریت مل جاتی ہے۔
ایک مرتبہ نئئ کھلنے والی پریزم ایڈورٹائزنگ کا اشتہار آیا۔ یہ ایجنسی نفیس صدیقی ایڈوکیٹ نے بنائی تھی جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے اور یہ جماعت اس وقت برسر اقتدار تھی ۔ یہاں کسی عبداللہ صاحب نے میرا انٹرویو لیا لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔
حالات بے قابو ہوئے جارہے تھے مگر ہمارا کاپی رائٹر بننے کا جنون بڑھتا جا رہا تھا۔ سید صادق حسین کی غزل کا یہ شعر بار بار پڑھا کرتے۔(اکثر لوگ اس شعر کو علامہ اقبال کا خیال کرتے ہیں)
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
یہ سب کچھ بہت تیز تیز ہورہا تھا کیونکہ ہمیں جلدی ملازمت پر چڑھنا تھا۔ ایک دن پھر چچازاد بہن بھاگی بھاگی آئی اور بولی کہ ببا بھائی آپ کا فون آیا اور اس مرتبہ فون ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی تھا جہاں ہم نے ٹرینی کاپی رائٹر کے لئے اپلائی کیا تھا۔ یہ ایجنسی پنجاب کالونی کے اس وقت (1988) کے سگنل کے ایک جانب بنگلے میں واقع تھی اور نام تھا کورل ایڈورٹائزنگ ۔ ہم وقت مقررہ پر پہنچے۔مس یاسمین وہان کریٹیو ڈائریکٹر تھیں۔ انتہائی با اعتماد شخصیت کی حامل ۔ میرا کیونکہ گھر سے باہر پروفیشنل خواتین سے پہلی مرتبہ پالا پڑا تھا ۔اس لئے میں واقعی ان کے اعتماد سے متاثر بلکہ مرعوب ہوا۔ پہلے بھی بتا چکا ہوں ۔ ٹرینی کاپی رائٹر لگا یعنی کہ انٹرنشپ تھی۔ فوری طور پر آفس جانے کے لئے والد صاحب نے ہنگامی بنیادوں علی ٹیلرز سے دو قابل ملازمت پینٹیں سلوائی دیں۔
صبح پہلے 4H سے ایمپریس مارکیٹ آتے اور اس طویل القامتی کے ساتھ بالعموم کھڑے ہو کر Z2 ویگن میں پیٹھ کر پنجاب کالونی کے سگنل پر اتر کر سامنے بنگلہ میں واقع کورل پہنچتے۔ نئے نیے اے سی وہ بھی یخ بستہ میں بیٹھے تو جسم ہی ٹھنڈا پڑ گیا۔ پیروں تک میں ٹھنڈ سرایت کر گئی۔ نئے نئے تھے مس یاسمین نے پرانے انگریزی ایڈ کے مجلد کتابیں پکڑا دیں اور کہا کہ آپ ابھی صرف ایڈ دیکھیں۔ کمپنی کے مالک شہریار کو ہم نے بس آتے جاتے دیکھا۔ خوش شکل اور خوش لباس شخص تھے ۔ سنا ہے کہ پہلے کسی ائیر لائن میں جہاز پر ہوا کرتے تھے۔ دوپہر کو کھانا کھانے خاموشی سے دھلی کالونی چلے جایا کرتے۔ مطمئن تھے کہ زندگی کسی ڈگر پر آئی ۔ محلہ اور خاندان میں بچوں کی ماڈلنگ کی فرمائش آنا شروع ہو گئیں ۔اب ہم انہیں کیا بتاتے ہم وہاں تین میں ہیں نہ تیرا میں۔لیکن ہم نے یہی ظاہر کیا کہ کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔ ایک دن اس زمانہ کے مشہور ڈریس ڈیزائنر تنویر جمشید (TJs) سے ایک میٹنگ ہوئی تو گنتی پوری کرنے کے لئے ہمیں بھی بٹھا دیا گیا۔ پوری میٹنگ میں سہمے سہمے بیٹھے رہے۔
ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا کہ بم پھٹ گیا۔ شہریار نے تین چار لوگوں کو فارغ کردیا۔ ہمارے لئے وجہ یہ بتائی گئی کہ ہم اس جاب (کاپی رائٹر) کے اہل نہیں۔ ہم سنتوش کمار (ہر گھر کا سب سے پہلا لڑکا ) سے اجڑی سہاگن میں تبدیل ہوگئے۔ ہمیں یقین سا تھا کہ واقعتا ہم اہل ہی نہیں لیکن سلام کرتا ہوں مس یاسمین کہ انہوں نے میری ہمت بندھائی اور کہا کہ تم ایسا بالکل نہ سوچو۔ شہریار نے کوئی مہنگا آرٹ ڈائریکٹر رکھ لیا ہے۔اس کی تنخواہ پوری کرنے کے لئے وہ لوگوں کو فارغ کر رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ابھی تم نے کون سا ایڈ لکھا جو صلاحیتوں کا امتحان ہو۔ مس یاسمیں نے کہا تم آج سے یہاں سے فارغ ہو مگر صبح آفس آو۔ میں تمھیں ایک اور ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھیج دوں گی ۔ ویاں ویکینسی ہے۔ ہم کو 265 روپے شاید دیئے گئے۔ Z2 میں بیٹھے۔ ایمپریس مارکیٹ آئے۔ وہاں جہانگیر پارک کے ساتھ دکانوں میں پوری مصالحہ لگی مچھلیاں دیکھ کر بڑا جی للچاتا تھا۔ ہم نے سوچا نوکری گئی تو گئئ اپنی مچھلیوں والی خواہش تو پوری کر لیں۔ 50 یا 60 جو 1988 میں بڑی رقم تھی ۔خوب دل بھر فرائی مچھلی کھائی۔ بس پکڑی، گھر آئے اور یہ روح فرسا خبر سنا دی مگر ساتھ یہ بھی نوید سنا دی کہ کل ایک دوسری جگہ بلایا گیا ہے۔
دوسرے دن ہم کورل ایڈورٹائزنگ پہنچے تو مس یاسمین نے کہا کہ آپ ندیم فاروق پراچہ کے پاس ونگز کمیو نیکیشنز چلے جائیں جو کہ ڈیفنس فیز 2 میں اگفا لیبارٹریز کے عقب میں ہے۔ اس زمانہ میں پنجاب کالونی سے وہاں تو کوئی بس ویگن نہیں جاتی تھی۔ شدید گرمی میں ہم کوئی ایک بجے پنجاب کالونی سے نکلے اور سیدھے پیدل چلتے ہوئے ڈھونڈ ڈھانڈ کر ونگز پہنچے ۔ ندیم فاروق پراچہ سے ملے ۔خیال تھا کہ ملازمت مل جائے گی مگر ندیم فاروق پراچہ نے کہا کہ فی الوقت تو کوئی جگہ خالی نہیں ۔ امید کے دیئے پھر بجھتے نظر آئے۔
ندیم فاروق پراچہ نے جواب تو ٹکا سا دیا لیکن ایک امید بندھا دی اور کہا کہ آپ میرے والد فاروق پراچہ کے پاس کل چلے جائیں وہاں ویکینسی ہے۔ میں ان سے آپ کا بتا دوں گا۔ ہم پھر گھر کو لوٹ چلے۔ دوسرے دن لال کوٹھی ،شارع فیصل کے اسٹاپ پر اترے اور میں روڈ پر واقع بانڈ ایڈورٹائزنگ کے آفس جا پہنچے۔ فاروق پراچہ سے ملاقات ہوئی۔ یقین تھا کہ جاب ہو جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ندیم نے آپ کا ڈکر تو کیا تھا مگر ابھی کاپی رائٹر کی جگہ خالی نہیں۔ امیدوں کا سلسلہ ٹوٹا نہیں تھا ۔ فاروق پراچہ نے کہا کہ آپ میکسم ایڈورٹائزنگ چلے جائیں۔ وہاں ویکینسی ہے۔ میں فون بھی کئے دیتا ہوں۔
میکسم اس زمانہ میں عبد القدوس صاحب کی ہوا کرتی تھی اور عائشہ باوانی کالج کے سامنے ڈپوپلیکس اپارٹمنٹ میں تھی۔ ہم اسی وقت لال کوٹھی سے میکسم پہنچ گئے۔ عبدالقدوس صاحب نے بھی ٹکا سا جواب دیا۔ پچھلے والوں کی طرح انہوں نے امید کا کوئی دیا بھی نہیں دیا اور ہم بے روزگار دکھے دل کے ساتھ گھر چل دیئے۔ اداسی تھی۔ گھر پہنچے ۔ چاچا کے ہاں سے ونگز ندیم پراچہ کو فون کیا۔ ساری روداد سنائی۔ ندیم نے پھر میری ہمت بندھائئ اور کہا کہ میں آج پھر والد صاحب سے بات کروں گا۔ آپ کل مجھے صبح میں فون کر لیں۔ صورت حال کو د یکھتے ہوئے کوئی خوشگوار خبر ملنا مشکل لگ رہا تھا۔ اب ایک طرف مشکل یہ بھی تھی کہ ہم گھر میں کیا جواب دیں۔ بس والد صاحب یہی پوچھتے "ہاں میاں کیا رہا ؟" جواب کہیں سے بھی ہاں کا نہیں آرہا تھا۔
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
جواب سوچ کر ہم آج بھی نہیں آئے

آشفتہ چنگیزی

Friday 3 May 2019

Advertising mein aana kaisay hoa ? Ep # 3, Article # 25 (Roman Urdu)


Article # 25 (Roman Urdu)


Ep # 3


Advertising mein aana kaisay hoa ?



Aik hafta mein mulazmat ( Internship) se farigh !

Jahan bhi gaye wahan no vacancy ka board laga tha



Ishtiharaat hain zamana ke



Guzashta se paiwastah





Tehreer : Azhar Azmi



(Aik ishtihari ki baatein )


Mein ne hawaas durust karte hue kaha" jee ".Telephone opreater ne khilaaf tawaqqa bataya ke woh aik courier service se baat kar rahi hai. aap ne darkhwast di thi ( Allah jany is zamana mein to classified aur display kisi bhi ad mein taleemi qabliyat graduate likhi hoti to hum darkhwast rawana kardiya karte they ). Aik baat zehan mein rahay ke courier service companies mein ziyada tar mulaazmaten riders ( motorcycle chalanay walay ) ki hoti hain aur hum ne zindagi mein kabhi is" ghora sawari" ko haath bhi nah lagaya tha. is company ka office zainab market se qareeb building mein tha.Hum yeh soch kar ke shayad koi office job ho interview ke liye poanch gaye. Koi bohat ost darja ki koryir service thi. interview kya hi hona tha. un ko rider chahiye tha aur qismat hamein copy writer bananay par tali baithi thi. Yahan se bahar niklay to maz aydortayzng agency ka office nazar agaya. yeh zeam ke copywriting ki abjad se waaqif hain, ghis gaye. yeh agency Mukhtar Azmi ki thi jo is zamana mein aur is ke baad bhi Pakistan Advertising Association (PAA) ke sarkardah logon mein shumaar hotay they. wahan Abbas Azmi aur Zulfiqar Azmi se mila ( yaqeenan inhen yaad bhi nahi hoga ). unhon ne" try" ke liye kaha ke you s add par kuch likh layein. ab yeh yaad nahi ke wahan dobarah gaye ke nahi lekin is waqt ka likha aik slogan yaad hai :

U.S. Aid ka mansoobah
Taamer o taraqqi soobah soobah

Maaray maaray phir rahay they. Mohalla mein aik Agha Dry Cleaners thi jahan din mein hum waqt guzari ke liye baith jaya karte they. Yeh pehlay Martin Road par raha karte they. un ke waalid Radio Pakistan mein mulazim they. Inhen hum apni bipta sunaya karte they. aik din bolay ke Martin Road par hamaray waalid ke sahafi dost rehtay hain woh kisi magazine mein hotay hain. Aap wahan apply kar den.Naam yaad nahi Albata yeh yaad hai ke bangali they. soqot e dhaka ke baad ahliya chunkay Karachi ki theen is liye ruk gaye. bohat shareef aadmi they. Unhon ne bhi apni si koshish ki magar sab be sood. Aik din unhon ne mujhe mojooda sab marion chowrangi ke paas United Advertising Agency ke accounts department mein Abba Ali sahib ke paas bhaij diya.Unhon ne to chhootey hi keh diya jab kahin copywriter ki job hi nahi ki to mulazmat kahan se day den. hum mun latkaye ghar wapas aagaye.Is douran IAL bhi Rasheed Ahmed Rasheed se bhi mulaqaat hui. intahi nastaliq ensaan hain. kaafi arsay se mulaqaat nahi hui. kabhi kabhi Shabir Rana ( actor ) ke zariye kheriyat mil jati hai .

Aik martaba nai khilnay wali Prim Advertising ka ishtihar aaya. yeh agency Nafees Siddiqui advocate ne banai thi jo is waqt Pakistan Peoples Party mein they aur yeh jamaat is waqt barsar  e Iqtidaar thi. Yahan kisi Abdullah sahib ne mera interview liya lekin baat is se agay nah barh saki .

Halaat bay qaboo hue jarahay they magar hamara copywriter ban'nay ka junoon barhta ja raha tha. Syed Sadiq Hussain ki ghazal ka yeh shair baar baar parha karte. ( aksar log is shair ko a\Allama Iqbal ka khayaal karte hain )

Tundi baad mukhalif se nah ghabra ae uqaab
Yeh chalti hai tujhy ouncha urane ke liye

yeh sab kuch bohat taiz taiz ho raha tha kyunkay hamein jaldi mulazmat par charhna tha. aik din phir chacha zad behan bhagee bhagee aayi aur boli ke Babba bhai aap ka phone aaya aur is martaba phone aik advertising agency tha jahan hum ne trainee copywriter ke liye apply kya tha.Yeh agency Punjab Colony ke is waqt ( 1988 ) ke signal ke aik janib bunglow mein waqay thi aur naam tha Corl Adertising. Hum waqt muqarara par puhanche. Miss Yasmin wahan Creative Director theen. intahi ba aetmaad shakhsiyat ki haamil. mera kyunkay ghar se bahar professional khawateen se pehli martaba paala para tha. is liye mein waqai un ke aetmaad se mutasir balkay maroob hoa. pehlay bhi bta chuka hon. traineecopy writer laga yani kay Internship thi.Fori tor par office jany ke liye waalid sahib ne hungami bunyadon par Ali tilrz se do qabil mulazmat paintd silwa dein.

Subah pehlay 4h se Empress Market atay aur is taweel ul qamti ke sath bil umoom kharay ho kar Z2 vagon mein Punjab colony ke signal par utar kar samnay bunglow mein waqay Coral pahunchte. naye naye AC say woh bhi yakh basta mein baithy to jism hi thanda par gaya. peeron taq mein thand sarayiat kar gayi. naye naye they miss Yasmin ne puranay Englis ad ke mujlad kitaaben pakra den aur kaha ke aap abhi sirf ad dekhen.Company ke maalik Shehryar ko hum ne bas atay jatay dekha. khush shakal aur khush libaas shakhs they. suna hai ke pehlay kisi air line mein jahaaz par hoa karte they. Dopehar ko khana khanay khamoshi se Dehli Colony chalay jaya karte. mutmaen they ke zindagi kisi dagar par aayi. mohallay aur khandan mein bachon ki modeling ki farmaaish aana shuru ho gayeen. ab hum inhen kiya batatay hum wahan teen mein hain nah tera mein. lekin hum ne yahi zahir kya ke kuch nah kuch hojaye ga. aik din is zamana ke mashhoor dress designer Tanveer Jamshed ( TJs ) se aik meeting hui to ginti poori karne ke liye hamein bhi bitha diya gaya. poori meeting mein sehmay sehmay baithy rahay .

Abhi aik hafta hoa tha ke bomb phatt gaya. Shehryar ne teen chaar logon ko farigh kardiya. hamaray liye wajah yeh batayi gayi ke hum is job ( copywriter ) ke ahal nahi. hum Santosh Kumar ( har ghar ka sab se pehla larka ) se ujri sohagan mein tabdeel hogaye. hamein yaqeen sa tha ke waqatan hum ahal hi nahi lekin salam karta hon Miss Yasmin ke unhon ne meri himmat bundhayi aur kaha ke tum aisa bilkul nah socho. Shehryar ne koi mehanga art director rakh liya hai. is ki salarypoori  karne ke liye woh logon ko farigh kar raha hai. doosri baat yeh ke abhi tum ne kon sa ad likha jo salahiyaton ka imthehaan ho. Miss Yasmeen ne kaha tum aaj se yahan se farigh ho magar subah office aao. mein tumhen aik aur advertising agency bhaij dun gi. Wahan vcancy hai. Hum ko 265 rupees shayad diye gaye. Z2 mein baithy. Empress Market aeye. wahan Jahangir Park ke sath dukanon mein poori masala lagi fish dekh kar bara jee lalchata tha. Hum ne socha nokari gayi to gyy apni fish wali khwahish to poori kar len. 50 ya 60 Rupees jo 1988 mein barri raqam thi. khoob dil bhar fry  fry fish khayi. bas pakri, ghar aeye aur yeh rooh farsaa khabar suna di magar sath yeh bhi Naveed suna di ke kal aik doosri jagah bulaya gaya hai .


osray din hum Coral Advertising  puhanche to Miss Yasmin ne kaha ke aap Nadeem Farooq Paracha ke paas Wings Communications chalay jayen jo ke defence phase 2 mein AGFA labortaries ke aqab mein hai. is zamana mein Punjab Colony se wahan to koi bas vagon nahi jati thi. shadeed garmi mein hum koi aik bujey Punjab Colony se niklay aur seedhay paidal chaltay hue dhoond dhand kar Wings puhanche. Nadeem Farooq Paracha se miley. khayaal tha ke mulazmat mil jaye gi magar Nadim Farooq paracha ne kaha ke fil-waqt to koi jagah khaali nahi. umeed ke diye phir bujhaty nazar aeye .

Nadeem Farooq Paracha ne jawab to tika sa diya lekin aik umeed bandha di aur kaha ke aap mere waalid Farooq paracha ke paas kal chalay jayen wahan vacancy hai. mein un se aap ka bata dun ga. hum phir ghar ko lout chalay. dosray din Lal kothi, Shara e Faisal ke stop par utre aur mein road par waqay Bond Advertising ke office ja puhanche. Farooq Paracha se mulaqaat hui. yaqeen tha ke job ho jaye gi. unhon ne bataya ke Nadeem ne aap ka zikr to kya tha magar abhi copywriter ki jagah khaali nahi. umeedon ka silsila toota nahi tha. Farooq Paracha ne kaha ke aap Maxim advertising chalay jayen. wahan vacancy hai. mein phone bhi kiye deta hon .

Maxin is zamana mein Abdul Quddos sahib ki hoa karti thi aur Aisha Bawani Gollege ke samnay duplex apartment mein thi. hum isi waqt Lal kothi se Maxim poanch gaye. Abdul Quddos sahib ne bhi tika sa jawab diya. Pichlle walon ki terhan unhon ne umeed ka koi diya bhi nahi diya aur hum be rozgaar dukhay dil ke sath ghar chal diye. udasi thi. ghar puhanche. chacha ke haan se Wings Nadeem Paracha ko phone kya. saari rudaad sunai. Nadeem ne phir meri himmat bandhai aur kaha ke mein aaj phir waalid sahib se baat karoon ga. Aap kal mujhe subah mein phone kar len. Iss soorat e haal mein koi ‫Khushgawar khabar milna mushkil lag raha tha. Ab aik taraf mushkil yeh bhi thi ke hum ghar mein kya jawab den. bas waalid sahib yahi puchtey  " haan mian kya raha ?" jawab kahin se bhi haan ka nahi araha tha .

sawal karti kayi ankhen muntazir hain yahan
Jawab soch kar hum aaj bhi nahi aeye

Aashufta Changezi

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...