Tuesday 28 July 2020

Article # 69 . کہیں وفات ، کہیں ولادت اور اسی بیچ رونا اور مسکرانا


 Article # 69

ایسے قصے کم کم ہوتے ہیں 
مگر جب ہوتے ہیں تو ہنسی روکے نہیں  رکتی !


                       
     تحریر : اظہر عزمی      

(ایک اشتہاری کی باتیں)

کبھی کبھی زندگی آپ کو ایسے مقام پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے کہ آپ اندر سے انتہائی غمزدہ ہوتے ہیں لیکن کوئی بات ایسی بات ہوجاتی ہے کہ ہنسی روکے نہیں رکتی ۔ 

ہمارے ایک قریبی دوست کے والد انتقال ہوا ۔ تدفین کے دوسرے روز میں صبح ہی ناشتہ لے کر دوست کے گھر چلا گیا ۔ ہم تعزیت کے لئے آنے والے افراد کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ فضا انتہائی سوگوار تھی ۔ زنانے سے کبھی رونے اور ہچکیوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔ تعزیت کرنے والے افراد جب چلے گئے تو دوست کی والدہ  نے کہا کہ محلے میں کل کے سوئم کا کہہ آو۔ دوست بوجھل قدموں سے اٹھے ۔ ہم بھی ساتھ ہو لئے ۔ 

محلے میں جس گھر جاتے ، لوگ تعزیت کرتے اور دوست ایک ہی جملہ کہتے جو اللہ تعالی کی مرضی ۔ ہوتے ہوتے ہم ایک گھر پہنچے ۔ گیٹ کھٹکھٹایا تو اندر سے دوست کے والد کے ہم عمر صاحب نکل آئے ۔ سنجیدہ طبع انسان لگ رہے تھے ۔ بزرگوار آئے ، ہاتھ ملایا اور بولے :

منیر (ان کا بیٹا) تو گھر پر نہیں ۔ بس دعا کریں سب ساتھ خیریت کے ہو جائے ۔ 

دوست نے کہا : بس جی یہی تو بتانے آئے ہیں کل شام میں ہے ۔

 وہ حیرت زدہ یو گئے اور ذرا لہجے میں سختی لا کر بولے  : یہ آپ سے کس نے کہا ؟ 

 میں بول پڑا : کیسی باتیں کر رہے ہیں ۔ ہمیں کون بتائے گا ؟ ہمارے تو گھر کی بات ہے ۔

 بزرگوار کے چہرے پر ایک رنگ سا آکر رہ گیا : اچھا تو یہ آپ کے گھر کی بات ہے ۔ ہمیں تو آج ہی پتہ چلا ۔

دوست غمزدہ ضرور تھا مگر اب اس کا صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو رہا تھا : اگر میرے گھر کی بات نہ ہوتی تو پورے محلے میں کیوں کہتا ۔ 

بزرگوار چونک گئے : کیا کہا ؟ ذرا پھر سے کہیئے گا ۔ مطلب اب سب کو بتا آئے کہ کل شام میں ہے ۔ میں نے کہا : تو کیا آپ کے دستخط کرواتے پھر بتاتے۔ بزرگوار کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کریں ، بولے :  شریفوں کے محلے میں اس طرح کی باتیں ؟ 

میں بھی برہم ہوگیا: تو کیا شریف محلوں میں لوگ مرتے نہیں ہیں ۔ جو آیا ہے اس نے تو جانا ہے ۔ بولے : میاں ذرا ہوش کے ناخن لو ۔ ہم زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہیں اور تم مرنے کی باتیں کر رہے ہو ۔۔۔ کچھ تو خوف خدا کرو۔

میں نے اور دوست نے ایک دوسرے کو دیکھا ۔ہم دونوں ہی کی سمجھ میں بزرگوار نہیں آرہے تھے ۔ تصدیق کے لئے کرواہٹ بھرے نرم لہجے میں بولے :  یہ کل شام والی بات آپ تک پہنچی کیسے ؟ 

 دوست جل گیا : ہمیں کل شام کا کون بتائے گا ؟ ہم چاھتے تو پرسوں بھی کر سکتے تھے ۔ چلیں آپ کل شام تو آئیں  گے ناں !

 بولے : میاں تہذیب بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ میں اچھا لگوں گا اس عمر میں وہاں جاتا ہوا ؟

 اب میں نے کہا : نہیں اس عمر میں نہیں جائیں گے تو کب جائیں گے ۔ دیکھ لیں اگر آپ نہ آئے تو آپ کی باری پر کون آئے گا ۔ 

بزرگوار تقریبا چلا کر بولے : میاں اس عمر میں میری باری ؟ تمھیں شرم نہیں آرہی یہ کہتے ہوئے۔ اگر گھر میں کسی نے سن لیا تو کیا ہوگا ۔ اب آپ دونوں حضرات ایک لمحے بھی یہاں نہیں ٹھہریں گے ورنہ مجھے کچھ ہو جائے گا ۔

 اسی اثنا میں منیر بھی آگیا ۔ بزرگوار نے بیٹے کو دیکھتے ہی کہا : منیر میاں آپ نے تو کمال ہی کردیا ۔ یہ کل شام کا سب کو بتا آئے ۔ایک کام کریں مسجد میں اعلان  کروادیں ۔ منیر ہکا بکا ہم سب کو دیکھے جارہا تھا ۔ صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس نے پہلے تو والد کو اندر بھیجا پھر پوچھا کہ ہوا کیا ؟ دوست نے بتا دیا کہ کل والد صاحب کا سوئم ہے اس کی کہنے آئے تھے ۔ منیر نے اپنا سر پکڑ لیا ۔ 

ہم دونوں حیران و پریشان کے منیر کو کیا ہوا ؟ منیر نے بتایا کہ بابا دو تین دن سے بہت پریشان ہیں ۔ ہم نے ان کو تمھارے والد صاحب کے مرنے کا بھی نہیں بتایا ۔ دوست کو افسوس ہوا بولا : سوری منیر پتہ نہیں ہم لوگ نہ جانے کیا کیا کہہ گئے ۔ منیر نے بتایا کہ اصل میں اس کے ہاں پہلے بچے کی ولادت متوقع ہے ۔ اسپتال والے کل شام  آپریشن کا کہہ رہے ہیں ۔ بابا جب سے جاءنماز پر ہی ہیں ۔ دعائیں مانگے جا رہے ہیں ۔ بس جو ہو ساتھ خیریت کے ہوجائے ۔

اب نہ پوچھیں ہمارا کیا حال تھا ہنسی تھی کہ روکے نہیں رک رہی تھی ۔

Thursday 16 July 2020

Article # 68 ایک بچے کی ای میل ، اللہ میاں کے نام ! لوگ مجھے آپ سے ڈراتے کیوں ہیں ؟


Article # 68

ایک بچے کی ای میل ، اللہ تعالی کے نام
میرے پیارے اللہ  
لوگ مجھے آپ سے ڈراتے کیوں ہیں


تحریر : اظہر عزمی 
(ایک اشتہاری کی باتیں)
میرا نام مصطفی حسن ہے۔ فورتھ کلاس میں پڑھتا ہوں۔ پڑھنے میں بس ٹھیک ہی یوں۔ پاس ہوجاتا ہوں۔ میری ایک چھوٹی بہن بھی ہے جو بہت ہی تیز ہے۔ میری ہر چیز لے لیتی ہے۔ اس کی کسی چیز کو ہاتھ لگا لوں تو خوب شور کرتی ہے اور پھر مجھے سب ہی ڈانٹتے ہیں۔ ہاں میں کبھی کبھی شرارت کرتا ہوں لیکن اگر میں اب شرارت نہیں کروں گا تو کب کروں گا؟ بس اسی وجہ سے میں یہ میل لکھ رہا ہوں۔
میرے پیارے اللہ میاں، مجھے سب تو نہیں لیکن بہت سارے لوگ آپ سے ڈراتے ہیں۔ کچھ بہت ڈراتے ہیں، بہت confuse ہوں۔ ایک دن میں نے بہن کی پینسل لے لی۔ اس نے شور کردیا۔ میں نے کوئی چوری تھوڑی کئ تھی۔ وہ بھی تو میری چیزیں لے لیتی ہے۔ میں کچھ کہوں تو کہتے ہیں کہ چھوٹی بہن ہے۔ تو کیا میں چھوٹا نہیں؟ اچھا آپ کو پوری بات تو بتا دوں اصل میں میری پینسل sharp نہیں تھی۔ Sharpner مل نہیں رہا تھا۔ پینسل سامنے ہی تو رکھی تھی۔ اٹھا لی۔ مجھے سب نے کہا یہ بری بات ہے۔ پوچھ کر لیتے۔ ایسا کرنے سے اللہ میاں ناراض ہو جاتے ہیں۔ ارے میں نے پینسل چوری تھوڑی کی تھی۔ سمجھا دیتے۔ میں بھی اصل بات بتا دیتا۔ کسی نے میری سنی ہی نہیں۔ بس آپ سے ڈرانا شروع کر دیا۔ اللہ میاں آپ کو تو سب پتہ ہوتا ہے کہ کسی دل تک میں کیا ہے۔
ایک دن میں کرکٹ کھیلنے گیا۔ نماز پڑھنے میں دیر ہو گئی۔ چاچی جان نے کہا نماز پڑھو ورنہ جو نماز نہیں پڑھتا اس کی قبر میں بچھو ( مجھے پتہ نہیں یہ کیا ہے) اور سانپ آتے ہیں۔ پتہ ہے اللہ میاں، میں ڈر گیا۔ رات کو بابا سے لپٹ کر سویا۔ میں نے نماز پڑھنے سے کب منع کیا ہے لیکن ڈرا ڈرا کر نماز کیوں پڑھوا رہے ہیں۔ بہت دنوں تک تو نماز پڑھتے پڑھتے بچھو اور سانپ کا خیال آجاتا۔
ایک مرتبہ میرے کزن نے مجھے مارا۔ مجھے بھی غصہ آگیا۔ سب نے کہا وہ چھوٹا ہے۔ ایسی باتوں سے گناہ ملتا ہے، اللہ میاں سزا دیتے ہیں۔ سمجھا پاتے نہیں ہیں بس آپ سے ڈرانا شروع کردیتے ہیں۔ اللہ میاں پہلے سوری کرنے کے بعد بتا رہا ہو ایک دن میں نے کہہ دیا اللہ میاں کیا ہر وقت غصے میں رہتے ہیں، ناراض رہتے ہیں؟ دیکھیں اللہ میاں میں نے بتانے سے پہلے سوری کر لی۔ امی نے خوب ہی ڈانٹا۔ میں نے بھی توبہ کی۔ آپ بتائیں میرا کیا قصور؟ سب یہی کہتے رہتے ہیں۔ اب میں تو یہی سوچوں گا ناں ؟
بس میرا ایک دوست ہے وہ کہتا ہے میرے اللہ میاں بہت پیارے ہیں سب سے پیار کرتے ہیں۔ میں جانتا یوں ہم سب کے اللہ میاں آپ ہی ہیں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی امی نے بتایا کہ جس طرح میں تمھارا خیال کرتی ہوں اور پیار کرتی ہوں۔ دنیا میں مجھ سے بھی اچھی امیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح کی 70 امیوں سے بھی زیادہ اللہ میاں اپنے بندوں سے پیار کرتے ہیں اور بچوں سے تو بہت ہی زیادہ پیار کرتے ہیں کیونکہ وہ دل سے جو سچے ہوتے ہیں۔ سب لوگ بچوں سے بچوں کی طرح کیوں بات نہیں کرتے۔ وہ ہمیں اپنے برابر کا سمجھ کر کیوں سمجھاتے ہیں۔
میں چھوٹا ہوں مگر اتنا چھوٹا بھی نہیں۔ کتنی بار کوئی گھر کی بیل بجائے تو مجھ سے کہا جاتا ہے کہ جاو کہہ دو گھر پر نہیں۔ موبائل کی بیل بجتی یے تو کہہ دیتے ہیں کہ میں تو وہاں ہوں جب کہ گھر پر ہوتے ہیں۔ کیا یہ جھوٹ بولنا نہیں۔ مجھ سے کہتے ہیں اللہ کے بندوں سے محبت کرو اللہ میاں خوش ہوتے ہیں تو ان سے کہیں یہ خوشی وہ خود کیوں نہیں لیتے۔ غریبوں کا خیال رکھو۔ یہ اللہ کے بہت قریب ہوتے ہیں تو پھر ان غریب لوگوں کے خود قریب کیوں نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں اللہ کے لئے سب برابر ہیں لیکن اگر کوئی غریب پانی مانگ لے تو گھر کا سب سے پرانا گلاس کیوں ڈھونڈتے ہیں اور بھر بعد میں اس کو دھوتے ہیں یا پھر اسے کونے میں رکھ دیتے ہیں۔
اللہ میاں بڑے ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔ انہیں پتہ نہیں کہ جسے وہ ڈرا کر سمجھا رہے ہیں وہ دیکھ بھی رہا ہے۔ ۔ ۔ اور ہاں اللہ میاں یہ بھی بہت کہتے ہیں اللہ میاں دیکھ رہے ہیں تو کیا آپ ان کو نہیں دیکھ رہے؟ کیا سارے کیمرے بچوں پر ہی لگے ہوئے ہیں؟
گھر آکر لوگوں کی برائیاں کرتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں برائی کرنا بری بات ہے۔ آپ مجھے بتائیں خود غلط ہو کر مجھے صحیح کا بتانا بری بات نہیں ہے کیا؟ ہم بچے بات کہنے سے نہیں دیکھنے سے سیکھتے ہیں۔ اچھی بات کہنے کے لئے اچھائی خود میں بھی تو ہونی چاھیئے۔ میں بار بار ڈر لکھ رہا ہوں لیکن میں آپ کو ایک بات بتاوں۔ مجھے معلوم ہے آپ اپنے بندوں خاص طور پر بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اسی لئے تو میں اپنی ساری باتیں آپ سے کر رہا ہوں۔ اللہ میاں جیسا آپ چاھتے ہیں میں ویسا ہی بننا چاھتا ہوں لیکن خوشی خوشی، کسی ڈر کے بغیر۔
آخر میں میں سوچ رہا تھا کہ کس ای میل ایڈریس پر یہ میل کروں۔ سب کچھ ہی تو آپ کا ہے۔ آپ کہاں نہیں۔ سوچا آپ کے کسی بھی گھر پر پرنٹ آوٹ رکھ آتا ہوں لیکن اللہ میاں یہ مسجدیں تو لوگوں نے بانٹ لی ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے دادا کے مکان کو بانٹ لیا گیا ہے۔ سوری اللہ میاں میں یہ کہنا نہیں چاہ رہا تھا

آپ کا مصطفی حسن 
کلاس فورتھ ، سیکشن سی 
(توجہ : یہ ایک بچے کے حقیقی خیالات ہیں جنہیں پوری احتیاط کے ساتھ اسی کے انداز میں تحریر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بچے اب اردو نہیں لکھ پا رہے ہیں بہرحال اس کی باتیں قابل توجہ ہیں۔)

Thursday 9 July 2020

Article # 67 برسات میں لالو کھیت کی چائے ، سموسے اور واٹرپمپ کے پکوڑے

Article # 67

برسات میں لالو کھیت کی چائے ، 
  سموسے اور واٹرپمپ کے  پکوڑے
 ایک دوست کا ساتھ اور نیت کی بات !



تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


بارش کی ٹپ ٹپ ہو تو گذرے دنوں کی منڈیر پر یادوں کے پرندے آ بیٹھتے ہیں ۔

جب انٹر میں تھے تو اسی وقت دو دعائیں مانگ لی تھیں ۔ پہلی یہ کہ کبھی موٹر سائیکل نہیں لوں گا اور کبھی کلرکی نہیں کروں گا ۔ آج تک موٹر سائیکل خریدی نہ کبھی چلائی ۔ کلرکئ کا بھئ بتا دوں ۔ اس سے مراد تضحیک یا ملازمت کو کم ترین ثابت کرنا نہیں بلکہ اصل بات ( جو شاید ہنسنے کی ہی ہے) یہ ہے کہ مجھے اسٹیپل کر کے پیپر فائل کرنا آج تک نہیں آتا ۔ جب تک آس پاس کاغذ نہ بکھرے ہوں کام میں مزہ نہیں آتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ جب کام کا کاغذ ڈھونڈنا ہو تو وہ مل کر نہیں دیتا اور آج بھی خود کو خوب سناٹا ہوں ۔

پہلے بھی کہہ چکا ہوں ماضی لکھنے بیٹھو تو قلم قابو میں نہیں رہتا ۔ ذہن جہاں چاھتا ہے اس کو لئے پھرتا ہے ۔  ملازمت کا زیادہ تر عرصہ ڈیفینس اور کلفٹن کے علاقوں میں گذرا ہے ۔ ابھی دو تین سال ہی ہوئے تھے ۔ سارا سفر بسوں اور ویگنوں میں تھا ۔ دفتری اوقات میں جہاں گھنیرے بادل آئے ۔ ہم جھوم اٹھے ۔ بادل گرجے اور برسے تو موسم نے انگڑائی لی ۔ ساری خوشی اپنی جگہ موسم حسین ہے لیکن ڈیفینس یا کلفٹن سے اس طوفانی بارش میں گھر کیسے جائیں گے ۔ 

لیجئے یادوں میں آفس کے نمبر پر اس کی کال آگئی یے ۔

 وہ :کیسے گھر جائے گا ؟ 

میں : ٹاور سے یہاں ڈیفینس آئے گا ، سیدھا گھر نکل جائے میں کسی طرح آہی جاوں گا ۔

وہ : زیادہ ڈرامے نہیں کر ۔ باہر نکل کے دیکھ کتنی تیز بارش ہے ؟  تیرے پاس کون سی سواری ہے  کنجوس ۔ ایک موٹر سائیکل لے لے ۔

 مجھے غصہ سا آجاتا یہ تو ہمیشہ میری موٹر سائیکل  کو ہی کیوں لے کر بیٹھ جاتا ہے ۔ غصے میں دیکھتا تو کہتا اچھا اپنی تقریر چھوڑ ۔ میں تیری طرف آرہا ہوں ۔ کبھی کبھی تو میرا کہا مان جاتا اور نہ آتا لیکن کبھی میری ایک نہ سنتا ۔ موٹر سائیکل پر بھیگتا چلا آرہا ہے ۔ میں آفس کے گیٹ پر ہی ہوتا ۔ موٹر سائیکل بند نہ کرتا ۔ اشارے سے کہتا آ جا ۔

 سچی بات یہ ہے تیز بارش میں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بڑا مزہ آتا ۔ کالج کے دن یاد آجاتے ۔ ہم دونوں خوب ہی انجوائے کرتے۔ راستے میں اگر کوئی گاڑی تیز گذرتی اور پانی کے چھینٹوں کی سلامی دیتی تو پھر جو صلواتیں سناتا کہ آس پاس میں کوئی سن لیتا تو ہنس کر رہ جاتا  جو اس کے منہ میں آتا بکتا چلا جاتا ۔ 

 سالے ! گاڑی چلانا سیکھ لی ۔ تمیز بھئ سیکھ لیتا ۔ جیب میں پیسہ ہو تو تمیز دماغ میں کہاں رہتی ہے

 کچھ دیر تو اس کا پیچھا بھی کرتا ۔ میری جان نکل جاتی ۔ موٹر سائیکل ہلکی سی سلپ ہوئی تو دونوں ہی جائیں گے ۔ میں کہتا دیکھ یہ سب کرئے گا تو اتر جاوں گا ۔ قہقہہ لگاتا ۔ تو اور اترے گا ؟ یہ کہہ کر مجھے ڈرانے کے لئے ہلکی سی اسپیڈ بڑھا دیتا ۔ ڈیفینس سے پہلے ایف ٹی سی آتے ۔ سندھی مسلم پر رکتے ۔ میں پان لیتے اور وہ ایک یا دو سگریٹ ۔ کہتا اب سگریٹ پی کر چلیں گے ۔ میں کہتا چل یار راستے میں پیتے چلنا ۔ او بھائی ! یہ تیرا پان نہیں کہ منہ میں دبایا اور جہاں چاھا راستہ میں پیک مار دی ۔ راستہ بھر تفریح رہتی ۔ جیل چورنگی سے تین ہٹئ سے ہوتے لالو کھیت ڈاک خانے پہنچتے ۔ پانی بھرا ہوتا ۔ کہتا اب چائے پی کر چلیں گے ۔ میں کہتا پگلا گیا ہے ۔ گھر چل کر پی لیں گے ۔ کہتا ابے جاہل بارش انجوائے کر ۔۔۔۔ یہ کراچی میں ہوتی ہی کب ہے ؟ 

ڈاک خانے پر چائے پیتے تو کہتا سموسے کھائے گا ؟ میں وہاں کی گندگی دیکھ کر الجھ جاتا ۔ بالوں سے ٹپکتا پانی چائے میں گر رہا ہوتا اس پر پتہ نہیں کس تیل میں بنے سموسے لیکن وہ لے آتا ۔ گرم گرم سموسہ منہ میں رکھتے ہوئے کہتا ڈیفینس میں جاب کر کے تو بڑا برگر بنتا جا رہا ہے ۔۔۔ لے کھا کچھ نہیں ہوگا ۔

موٹر سائیکل تو وہ ایسے چلاتا جیسے ڈرائنگ روم میں بیٹھا کسی سے باتیں کر رہا ہے ۔ موڈ میں یوتا تو بارش کا کوئی گانا گنگنائے لگتا ۔ گانے سے وقت بچتا تو مجھ سے باتیں کرنے لگتا ۔ تیز بارش میں اس کی کوئی بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی ۔ میں اس کی ہر بات کے جواب میں دو تین مخصوص جواب دیتا ۔ اچھا ۔۔۔ ہاں یہ تو ہے۔۔۔ یہ تو تو ٹھیک کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ جب کسی بس ، ٹرک یا ویگن سے ملاکھڑے کا خدشہ ہوتا تو پھر میں چلا کر کہتا :

 دیکھ ویگن سے بچا۔ ٹرک کو تو دیکھ لے ۔

 وہ :  ابے سب دیکھ رہا ہوں اندھا تھوڑی ہوں ۔

 آپ اس کے موٹر سائیکل چلانے پر حرف زن ہوں تو وہ موٹر سائیکل کو اور زن کر دیا کرتا ۔ میرے خیال سے وہ rough چلاتا تھا لیکن اگر کوئی موٹر سائیکل والا فیملی کے ساتھ تیز جا رہا ہوتا تو کہتا تو ذرا اس کے بھرم دیکھ ۔ یہ نہیں دیکھ رہا کہ بیوی بچے ساتھ بیٹھے ہیں ۔ میں کہتا تو اپنی فکر کیوں نہیں کرتا تو زور سے قہقہہ لگاتا ارے اپنے کون سے بیوی بچے ہیں ۔ جب ہوں گے تب کی تب دیکھی جائے گی ۔

رحم دلی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ ایک مرتبہ جب کریم آباد کا نیا پل نہیں بنا تھا ۔ عین پل کے درمیان میں ایک لڑکا اور بزرگ کھڑے نظر آئے ۔ان کی موٹر سائیکل بارش کی وجہ سے بند ہوگئی تھی ، رک گیا ۔ تیز بارش تھی ۔ کافی دیر لڑکے کے ساتھ موٹر سائیکل کو اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ بھر ایک دم ساتھ کھڑے بزرگ کا خیال آیا ۔ لڑکے سے پوچھا یہ تیرے کون ہیں ؟ اس نے بتایا کہ دادا ہیں ۔ غصے میں آگیا، کہنے لگا اتنی کھٹارا موٹر سائیکل ہر دادا کو لے کر نکلا ہی کیوں ؟  لڑکا بھی ذرا ٹیڑھا تھا بولا تم کون ہوتے ہو مجھے سمجھانے والے ۔ تو تو میں میں شروع ہوگئی ۔ عجب تماشا تھا میں اور دادا بیچ بچاؤ کرا رہے تھے ۔ بارش نے تھمنا تھا نہ وہ تھمی ۔

 خیر طے یہ ہوا کہ پہلے وہ دادا کو کریم آباد  کے پل کے نیچے لے کر جا رہا ہے  ۔ وہ لڑکا اور میں موٹر سائیکل گھسیٹتے آئیں گے ۔ تیز بارش میں ہم دونوں  نیچے آئے ۔ اس دوران اس نے مکینک بھی ڈھونڈ لیا ۔ دادا کو مکینک کے پاس چھوڑا ۔ ہم دونوں موٹر سائیکل لے کر وہاں پہنچے ۔ موٹر سائیکل اسٹارٹ ہوئی وہ دونوں چلے گئے  پھر ہم نے گھر کی راہ لی ۔ میں نے کہا تو بیکار میں اس لڑکے سے اٹک رہا تھا ۔ بولا جاہل ہے سالا ۔  

واٹر پمپ پہنچتے پہنچتے کہتا یار تھوڑے پکوڑے ہو جائیں ۔ میں ہاتھ جوڑ لیتا تجھے خدا کا واسطہ گھر چل اور آئندہ سے نان تو مجھے بارش میں لینے نہ آنا لیکن وہ مجھ سے پوچھتا تھوڑی تھا بس بتاتا تھا کہ پکوڑے کھانے ہیں ۔

آج کل وہ امریکا میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا ہے ۔ اب تو بات کرنا بہت آسان ہوگئی ہے ۔ کل رات میں نے کہا سموسے اور پکوڑے کھائے گا ۔۔۔ آجا ۔ بولا ابے کیا لالو کھیت میں ایسے ہی پانی جمع ہوتا ہے بارش کا ۔ میں نے کہا کیوں کیا تو یہاں drainage system  لگوا گیا ہے ۔ بولا تم لوگ نہیں بدلو گے ۔ میں نے کہا تو بدل گیا ہے کیا ؟ بارش میں وہاں کوئی موٹر سائیکل والا ملتا ہے کیا ؟ سنجیدہ ہو گیا ۔ یار ترس گیا ہوں ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے لئے ۔  کہنے لگا دیکھ نیکی کرنے کا کوئی بھی موقع ملے کبھی ضائع نہ کر ۔ تو نہیں کرے گا تو اوپر والا وہ کام کسی اور کے سپرد کر دے گا۔ میں نے کہا تیری سوچ آج بھی اندر سے وہی ہے ۔ بولا  سوچ کیا ہے ؟  نیت ۔  بس نیٹ ٹھیک رکھ !!!

Monday 6 July 2020

Article # 66 میں اسے روکتا رہ گیا پر وہ رکا نہیں ۔ اسے جانے کی جلدی تھی ۔


Article # 66

میں اسے روکتا رہ گیا پر وہ رکا نہیں 
اسے جانے کی جلدی تھی  !


تحریر: اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں) 

میری اس سے پہلی ملاقات فروری 1991 میں ایک تقریب میں ہوئی تھی ۔ ایک موقع ہر ہم ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔ واپسی پر بھی ساتھ ہی ہولئے ۔ ہماری دوستی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی ۔ دوستی تھی اچھا برا وقت ساتھ دیکھا ۔ لگا ہم ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہیں ۔ ذہنی تال میل ایسا کہ نظر کا کہا سمجھ جائیں ۔ویسے اس میں زیادہ کمال اس کا تھا کیونکہ زیادہ تر اسے ہی سمجھنا پڑتا تھا ۔ عجیب دوستی رہی نہ اس نے کبھی کسی سے میری کوئی شکایت کی اور نہ ہی میں کبھی حرف شکایت زبان پر لایا ۔ اگر کبھی کوئی اختلاف ہو بھی جاتا تو آپس میں بیٹھ کر حل کر لیتے ۔ حل بھی کیا کر لیتے جس کو احساس ہوتا کہ وہ غلطی پر ہے ۔وہ کال کر لیتا ہے جس میں کوئی معذرت یا معافی تلافی نہ ہوتی بلکہ وہ بات ہی نہ ہوتی ۔ ادھر ادھر کی بات کرتے اور بات ختم ہوجاتی ۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کی عزت نفس بہت عزیز تھی ۔ اس لئے معذرت یا سوری جیسے الفاظ سے نا آشنا تھے ۔

اس تعلق میں جو چیز میں نے اس سے سیکھی وہ صبر تھا ۔ میں مزاجا جلد باز ہوں ، تند خو یوں یا تھا ۔ میں بہت صبر سے صبر  سیکھتا چلا گیا ۔ میں اس سے گھنٹوں باتیں کرتا رہتا ۔ اپنے قصے لے کر بیٹھ جاتا اور وہ سنتا رہتا ۔ اکثر اپنے پرانے قصے دھراتا تو وہ اتنی ہی دلچسپی سے سنتا جیسے میں پہلی بار سنا رہا ہوں ۔ وہ خاموش طبع تھا اور میری زبان اس کے سامنے تالو سے نہ لگتی وگرنہ سب کے سامنے تو میں بھی بڑی مشکل سے کھلتا ہوں۔ وہ مکمل غیر سیاسی تھا ۔ اپنے دل کی بات بڑی مشکل سے کہتا تھا ۔ وہ بھی میری طرح کبھی کسی کا دل سے برا نہیں چاھتا تھا ۔ میں تو اگر کسی سے ناراض ہوتا تو بک جھک لیا کرتا تھا وہ تو یہ بھی نہ کرتا تھا ۔ کینہ ، بغض ،عداوت ، حسد اور لالچ کا ہم دونوں کو عارضہ نہ تھا ۔ یہ اور بہت سی ایسی خوبیاں تھیں کہ جن کی وجہ سے میں اس کا احترام کرتا تھا ۔

اکثر یہی کہتا کہ لوگ برے ہوتے ہیں لیکن اچھا نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپ رحم دل ہو مصنف مزاج ہو لیکن برا نظر آنے کے لئے ہر جتن کرتے ہو ۔ لباس سے لے کر گفتگو تک کوئی اچھا تاثر چھوڑنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اگر یہ احساس یو جائے کہ Postive Image بن رہا ہے تو کم از کم چہرے کے تاثرات سے ہی اسے Negative کر دیتے ہو ۔ میں جواب میں یہی کہتا کہ اگر سامنے والا ایک حد سے زیادہ میٹھا بولنے لگے تو مجھے کڑواہٹ محسوس ہونے لگتی ہے ۔ مجھے شروع سے کھرے لیکن سچے لوگ پسند ہیں ۔ میرے جواب پر صرف ہلکی سی مسکراہٹ آتی ۔  

سب ٹھیک چل رہا تھا  ہماری دوستی کے 25 سال مکمل ہونے  میں 15 دن رہ گئے تھے  کہ جنوری 2016  میں اس نے چلنے کا کہہ دیا۔ میں تو ہکا بکا رہ گیا ۔ پیروں سے زمین نکل گئی۔ کبھی یہ سب تو سوچا ہی نہیں تھا ۔

" کیا ہوا ؟ کوئی بات بڑی لگ گئی ۔ میں نے کچھ الٹا سیدھا کہہ دیا " جواب میں اداسی بھری مسکراہٹ تھی ۔ 

" نہیں ایسا کچھ نہیں ، بس مجھے چلنا ہے "

میں نے بہت سمجھایا اس نے کہا "دل تو میرا بھی نہیں چاہ رہا مگر مجبوری ہے " 

میں رو پڑا ۔ اس نے کہا " رویا نہ کرو ۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے " ۔ میں نے آنسو پونچھ لئے مگر دل روتا رہا ۔

میں نے پہلی مرتبہ اپنے اور اس کے تعلق سے لوگوں سے بات کی ۔ اسے سمجھائیں جانے کی باتیں وہ بھئ تقریبا 25 سال بعد ۔ جانا  تھا تو پہلے جاتے ؟

میری کوششوں کا اتنا اثر ہوا کہ جانا رک گیا ۔ دسمبر 2016 میں اس نے کہا کہ اب جانا منسوخ کردیا گیا ہے ۔ میں نے سکھ کا سانس لیا لیکن یہ سب عارضی تھا ۔ اگست 2017 میں پھر اس کو جانے کی لگ گئی ۔ اب کہ مجھے بھی لگا کہ میرے روکے سے بھی نہ روکے گا ۔

میں پھر بھی اسے روکتا رہ گیا ۔ یر ایک کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا رہا کہ شاید کوئی کام آجائے مگر سب نے ہاتھ اٹھا لیا ۔ میں نے دعا کو ہاتھ اٹھا لئے ۔ میں نے کہا "

چلو میں بھی ساتھ چلتا ہوں ۔ جیسے بھی ہوگا مل بانٹ کر سفر کاٹ لیں گے "

اس نے کہا  " نہیں اگر دوستی ہے تو اب تم دوستی نبھاو ۔ میرے کچھ کام تمھارے ذمے ہیں وعدہ کرو ان سے کبھی دست بردار نہیں ہو گئے ۔ کبھی مجھے مایوس نہیں کرو گے ۔ کبھی غافل نہ ہو گے"

 پھر اکتوبر 2017 کو دوستی کا یہ رشتہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گیا ، اس نے ابدی آرام گاہ کو جا بسایا اور میں کچھ نہ کر سکا ۔ کر بھی کیا سکتا تھا ۔

اب یہ حال ہے کہ میں اسے صرف سوچتا ہوں اس کا ذکر کسی سے نہیں کرتا ۔ بقول حسن رضوی مرحوم ( شعر میں ترمیم کے ساتھ)

آنکھوں سے نہ پڑھ لے کوئی چہرے کی اداسی 
اس  ڈر  سے کبھی  ذکر  "ہم تیرا "  نہیں  کرتے

اگر کبھی کوئی اس کا تذکرہ کرتا بھی ہے تو چاھتا ہوں کہ زیادہ دیر نہ ہو یا کم از کم مجھے شریک نہ کیا جائے ورنہ میں رو پڑوں گا اور میں جانتا ہوں اسے میرا رونا بالکل بھی پسند نہیں آئے گا ۔

اسی لئے تو میں رویا نہیں بچھڑتے سمے 
تجھے  روانہ کیا ہے ،  جدا  نہیں  کیا  ہے      (علی زریون)

وہ جاتے جاتے دوستی کا حق ادا کر گیا ۔ مجھے صبر کرنا سکھا گیا ہے ۔ ملے گا تو بتاوں گا کہ تمھارے جانے کے بعد مجھے صبر کرنا آگیا ہے لیکن میرا خیال اسے اس کی خبر تو ہو گی ۔

میں کب سے اس دوستی پر لکھنے کا سوچ رہا تھا مگر کیا کروں ذہن سے پہلے آنکھیں نم ہو جاتیں ۔ یادوں میں گم ہو جاتیں ۔ لکھنے کو بیت کچھ ہے مگر میں اس سے زیادہ خود میں ہمت نہیں پاتا ۔ اس کے معاملے میں بہت کمزور ثابت ہوا  یوں ۔ رشتہ جتنا مضبوط ہو جائے آپ اتنی ہی کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

Saturday 4 July 2020

Article # 65 اردو کے ایک گمنام شاعر خستہ گلشن آبادی کا مختصر تعارف

 Article # 65 


اردو کے فصیح البیان اور نادر الکلام 
مگر گمنام شاعر خستہ گلشن آبادی مرحوم

ایک مختصر تعارف  



تحریر : اظہر عزمی 
(ایک اشتہاری کی باتیں)

کہتے ہیں صرف و نحو، عروض و بیان کے قواعد پر عمل کئے بغیر ایک مستحکم شعر نہیں کہا جا سکتا۔ نظم و شاعری چار نبیادی ستون یعنی لفظ، وزن، قافیہ اور معنی پر کھڑی ہے۔ اس کے ایک مسلم الثبوت اور قادر الکلام شاعر جناب خستہ گلشن آبادی بھی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی شہرت سے گریز طبیعت کے باوجود آپ نے مشکل قافیہ و ردیف کے ساتھ ا وزان اور معنیٰ پر مبنی طبع آزمائی کر کے مستحکم شاعری کی اور اہل دانش و ادب نواز حلقوں سے داد سمیٹی۔ ابتدا میں ہی کلام کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے:
سایہ ء گیسو سے چھپ جاتا ہے آئینہ کا رُخ
دیکھتے ہیں یاس سے اغیار پشت آئینہ
_____________________
تیری ہے مہ لقا مجھے اک اک ادا عزیز
عشوہ عزیز، ناز عزیز اور حیا عزیز
مسلک ہے صلح کُل میرا، سب ہیں نظر میں ایک
تخصیص کچھ نہیں ہے وہ ہوں غیر یا عزیز
خستہ سنائوں بھی تو کسے دل کی داستاں
ہم درد ہم سخن ہے نہ کوئی میرا عزیز
_______________________
اپنے بس میں ہے نہ اب اپنے نفس کے بس میں
زندگی آج کل اپنی ہے قفس کے بس میں
کیا سنے وہ بتِ طنّاز ہماری فریاد
ایک دو چار نہیں اب ہے وہ دس کے بس میں
کیوں نہ کم مایہ ہوں غربت کاشکار اے خستہ
اہلِ سرمایہ ہیں جب حرص و ہوس کے بس میں
خستہ گلشن آبادی کا اصل نام محمد علیم داد خان تھا۔ آپ 1901 میں سینٹرل انڈیا(اب ایم پی) کی ریاست جاورہ (مالوہ) میں پیدا ہوئے۔ عمر کا بیشتر عرصہ غیرمنقسم بھارت میں گذارا۔ حضرت بیدل اجمیری کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔عمر کا زیادہ تر حصہ بمبئی میں گذرا جہاں آپ ملٹری کے کنٹریکٹ سپلائر زتھے۔ بمبئی میں مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ آپ کے ادبی دوستوں میں درد کاکوروی اور نوح ناروی نمایاں رہے۔ قریبی تعلق ساغر اجمیری اور صادق اندوری سے تھا جن کی دعوت پر آپ اندور اور اجمیر مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ یہیں آپ کو “نادر الکلام اور فصیح البیان” کے القابات سے نوازا گیا۔
خستہ گلشن آبادی کے زمانے میں طرحی مشاعروں کا رواج عام تھا۔ آپ کو زود گوئی کی صلاحیت بھی عطا ہوئی تھی۔ ایک مصرعہ پر ایک ہی نشست میں کئی کئی اشعار کہہ لیا کرتے تھے۔ شاگردوں کی طویل فہرست تھی اس لئے طرحی مشاعرہ کے دن تک شاگرد اصلاح کلام کے لئے موجود ہوتے۔ آپ شاگردوں کے کلام کی فی الفور اصلاح کیا کرتے اور اس دوران جو آمد ہوتی وہ بھی انہیں دے دیا کرتے۔ دوست شعراء کہتے کہ ابھی یہ شاگرد مبتدی ہے۔ سامعین مشاعرہ سمجھ جائیں گے لیکن خستہ گلشن آبادی مسکرا کر رہ جاتے۔ آپ کے شاگردوں میں ادب گلشن آبادی نمایاں حیثیت کے حامل رہے۔ جاورہ اسٹیٹ کو ٹونک، دھار، گوالیار، رتلام، جبل پور اسٹیٹس وغیرہ سے مشاعروں کے جو دعوت نامے آتے۔ اسٹیٹ کی طرف سے وہ خستۃ گلشن آبادی کے حوالے کر دیئے جاتے پھر آپ جاورہ کے دیگر شعراء کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کیا کرتے۔ایسے موقعوں پر اکثر یہی دیکھنے میں آیا کہ آپ شاعری میں ندرتِ خیال،اسلوب ِ بیان، بحر میں نئے تجربات ا ور مشکل قافیہ و ردیف کے ساتھ اپنی سحر انگیز آواز سے سننے والوں کے لئے ایک مختلف انداز کا سماں باندھ دیا کرتے تھے۔
اسی دوران تقسیم برصغیر ہوئی تو کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ خستہ گلشن آبادی علم ِ عروض کے حوالے سے ایک معتبر حوالہ تھے۔ اپنے دور کے نامور شعراء اس سلسلے میں آپ سے رہنمائی لیا کرتے تھے۔ گفتگو اختصار کے ساتھ فرماتے مگر اس میں علم و فن کے موتی پرو دیتے۔ الفاظ کو نئے معانی اور زاویہ سے بیان کرتے۔صوفی منش تھے اس لئے نوآموز شعراء میں بیٹھتے تو اس بات کا قطعاً احساس نہ ہونے دیتے کہ وہ علم و فضل میں ان پر دسترس رکھتے ہیں۔ عام اشخاص میں ہوں تو بہت عام فہم انداز میں ذہنی تربیت کا فریضہ انجام دیتے۔ شائستگی اور متانت کے ساتھ محفل کو زعفرانِ زار بنانے سے بھی کما حقہ واقف تھے۔ یہی وجہ تھی شعراء اپنی شاعری استعداد اور عام افراد اپنی ذہنی تربیت کے لئے خستہ گلشن آبادی کی صحبت کو غنیمت جانتے۔
خستہ گلشن آبادی کراچی کے ادبی حلقوں میں مستند شاعر تسلیم کئے جانے لگے لیکن اب مشاعروں میں پہلے جیسی دلچسپی و شرکت نہ رہی تھی۔ اگر کبھی کہیں مشاعرے میں چلے جاتے تو تقدیم و تاخیرکو کبھی اہم نہیں گردانتے۔ کہتے تھے کہ شاعر کے اوّل و آخر پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ شعر وہ ہوتا ہے جو شاعر کے جانے کے بعد یاد رہ جائے اور خستہ گلشن آبادی کے اشعار سے ان کے کہے کی تصدیق ہوا کرتی تھی۔ وجہ بہت سادہ تھی خستہ گلشن آبادی جب تک ایک مصرعے، ایک ایک لفظ کو فن ِعروض کے سخت ترین اصولوں پر نہ پرکھ لیتے،مطمئن نہ ہوپاتے۔ کتنے ہی ایسے اشعار ہیں جو انہوں نے اصولوں کی پاسداری میں قلم زد کر دیئے۔ خستہ گلشن آبادی نے آسان قافیہ اور ردیف میں بھی غزلیں کہیں اور اہل ادب سے داد پائی۔ذیل کی غزل میں کس سادگی سے ۲(دو) کو بطور ردیف استعمال کیا ہے۔
اِک سینے میں، اِک آنکھوں میں رکھی ہیں تیری تصویریں دو
رہتی ہیں بہردم زیرِنظر اب حُسن کی یہ تفسیریں دو
پروانہء شمعِ حُسن بنے، دیوانہ ء عالم کہلائے
کیا خوبی ء قسمت سے اپنی الفت میں ہوئیں تشہیریں دو
جب تم ہی نہیں بنتے میرے، مجھ کو ہی بنا لو تم اپنا
لاریب پلٹتی ہے کایا، مل جاتی ہیں جب تقدیریں دو
دیوانگی آئی حصہ میں، صحرا میں حکومت اپنی ہوئی
اس عشق و محبت کے صدقے کیا خوب ملیں جاگیریں دو
اقرارِوفا، انکارِ جفا خستہ میں بالآخر میں کیا سمجھوں
مضموں سے نمایاں دو پہلو،نامہ تو ہے اک تحریریں دو
سہل ِ ممتنع میں ایک غزل ملاحظہ کیجئے۔ خیال کو لفظوں سے سجا کر کس طرح سینہء قرطاس پر منتقل کیا ہے۔
لمعہء آفتاب ہو، پرتوِ ماہتاب ہو
تحفہء حُسن ِ بے مثال شمس و قمر نے دیدیا
کس لئے غیر کا گذر ہو میری بزم ِخاص میں
مجھ کو وفاکا یہ صلہ رشکِ قمر نے دیدیا
ہمت و شوق ہم رکاب منزل، یار تک رہے
حضر کا کام راہ میںرختِ سفر نے دیدیا
ایک جفا شعار کو اہل، وفا سمجھ لیا
کتنا فریبِ بر محل خستہ نظر نے دیدیا
اِس طویل بحر میں سادگی، اثر آفرینی اور تازہ کاری نمایاں ہے۔ اردو شاعری میں یہ طمطراق خال خال نظر آتا ہے۔
اب آئے ہیں دن اہل عُسرت تمھارے، تمھاری یہ افسردگی چھین لونگا
امیروں کو دن دون گا عشرت کے بدلے، کسی دن میں ان کی خوشی چھین لونگا
میرا حالِ دیوانگی توبہ توبہ کہ ہنستا ہے گُل مسکراتا ہے غنچہ
جلادون گا میں آہء سوزاں سے گلشن، گلوںکے لبوں سے ہنسی چھین لونگا
غریبوں میں جاری رہے دور عُسرت، امیروں کو ہر دم ملے جامِ عشرت
نتیجہ کسی دن یہ ہے کشمکش کا، امیروں کی یہ زندگی چھین لونگا
یہ مستی یہ بیگانگی اللہ اللہ،نہ پروائے عقبیٰ نہ کچھ فکرِ دنیا
بہت جامِ غفلت پئے ہیں جہاں نے، زمانے کی سب بے خودی چھین لونگا
بہت ہم نے چاہا نہ پلٹی یہ کایا، وہی قلبِ مجروح وہی قلبِ خستہ
زمانے اگر تو نے کروٹ نہ بدلی تو تیری میں یہ دلبستگی چھین لونگا
خستہ گلشن آبادی فارسی میں بھی شاعری کیا کرے تھے مگر اکثر افراد اس سے ناواقف تھے۔کبھی کبھی بہت قریبی شعراء کواپنا فارسی کلام سنا دیا کرتے تھے مگر اس کی تشہیر نہ کرتے۔ایک فارسی غزل ملاحظہ کیجئے:
رسیدہ بر درِ جاناں چُناں رنجیدہ رنجیدہ
تپاں قلم بہ سینہ و قدم لرزیدہ لرزیدہ
بآلاخر کرد نظم وضبط عالم را تہہ و بالا
فرو آمدز عارض کا کُل پیچیدہ پیچیدہ
بیا تو بہرِ دیدن حالتِ بیمارِ ہجراں را
بہ یفکن جانِ جاناں یک نظر دزدیدہ دزدیدہ
اگر نازی بہ بیں در آئینہ حُسن دُجا میے را
مآل خویش بیں آخر مشور رنجیدہ رنجیدہ
بہردم گریہ و زاری بہ ہر لحظہ خفاں خستہ
غلامِ جانِ جاناں شُد دلِ گرویدہ گرویدہ
کراچی میںفردوس کالونی میں قیام کے دوران آپ کی ملاقاتیں مولانا ماہر القادری، محشر بدایونی، ایوب گونڈوی اور ڈاکٹر یاور عباس سے رہیں۔ تاہم باقاعدگی سے نشست و برخواست کا سلسلہ فیڈرل ـ’بی’ ایریا آنے کے بعد شروع ہوا۔ یہاں زینت آباد لائبریری آپ کی استاد قمر جلالوی سے مستقل ملاقاتیں رہا کرتیں۔ شاعر لکھنوی بھی کبھی کبھی آجایا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اطہر ضیائی،احمد حمید، جمیل نظر اور کوثر سلطان پوری سے بھی مسلسل رابطہ و ملاقاتیں رہتیں۔
خستہ گلشن آبادی نے مختلف اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی تاہم زیادہ تر غزل کو ہی طبیعت سے موزوں پایا۔ تضمین میں بھی آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔مومن خان مومن کی غزل کے مصرعہ “مومن اندیشئہ خدا کب تک” پر تضمین دیکھیئے:
خستہ کیوں صدمہ ء فراق سہیں
کس کو اُ مید اب جیئں کہ مریں
چل دلِ زار اب تو خود ہی چلیں
مر چلے اب تو اس صنم سے ملیں
مومن اندیشہء خدا کب تک
بیدل اجمیری کے مصر عہ “سراپا دردر کے تصویر ہوں حسرت بھرا دل ہوں” پر تضمین ملاحظہ کیجئے:
نگاہِ ناز کا کشتہ ادائوں کا میں بسمل ہوں
مجسم غم کی صورت حُسنِ دلکش پر میں مائل ہوں
غریقِ بحرِ درد و رنج ہوں گُم کردہ ساحل ہوں
ازل سے کشتہء تیغِ تغافل بائے قاتل ہوں
سراپا دردکی تصویر ہوں حسرت بھرا دل ہوں
آپ نے حمد، نعت، مناجات، منقبت اور سلام بھی کہے۔ ذیل میںآ پ کی مناجات کا ایک بند پیش ہے:
مجھ کو خطا پہ ناز ہے شان ہے تیری بے نیاز میں تو گناہگار ہوں اور ہے تو کرم نواز
تجھ سے چھپا ہوا ہے کب سارا عیاں ہے میرا راز خستہ و بے نوا ہوں میں تو ہے کریم و کارساز
شانِ کرم رہے خیال اپنے اُمیدوار کا
خستہ گلشن آبادی سیدالشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
جو بادہ کشانِ روزِ ازل مستِ مئے ِ عرفاں ہوتے ہیں
وہ کاشفِ یملہ،سرِ نہاں نے عالم ِامکاں ہوتے ہیں
شعلے غم ابن ِ حیدرؑ کے سینے میں جو پنہاں ہوتے ہیں
وہ داغ جگر میں بن بن کر گویا گل و ریحاں ہوتے ہیں
خود شانِ عباد ت نازاں ہے، سر شوقِ لقا میں جھکتا ہے
کس صبر سے پورے سرور ؑکے سب وعدہ و پیماں ہوتے ہیں
اس لذتِ غم کے جاں صدقے،اس درد فراواں کے قرباں
عشقِ غم شہؑ میں رس رس کر خود زخم نمک داں ہوتے ہیں
بیمار ِ غمِ آل ِ حیدرمنتِ کشِ عیسیٰ ؑ ہو کیونکر
بیمارِ محبت خود ان کے جب عیسیٰ ِ دوراں ہوتے ہیں
ہے جلوہ گہہ نورِ وحدت، یہ حضرتِ موسی ؑ طور نہیں
سو طور یہاں بن جاتے ہیں، سو موسیٰ ِعمراں ہوتے ہیں
پہنچا ہے نہ پہنچے گا اس تک، یہ دورِ خزاں تا روز ِ ابد
یہ باغ ِ علی ؑ کے غنچہ و گل صد رشکِ بہاراں ہوتے ہیں
کچھ فکر نہیں روزِ محشر خورشیدِ قیامت کی ان کو
ؑعاصی جو قیامت میں خستہ شہ ؑ کے تہہِ داماں ہوتے ہیں

ناصر علیم ابن خستہ گلشن آبادی اپنا کلام نذر سامعین کر رہے ہیں ۔
خستہ گلشن آبادی کے دو صاحبزادوں نے احسان علیم مرحوم اور ناصر علیم نے آپ کے شعری ورثے کو آگے بڑھایا۔ احسان علیم مرحوم کا مجموعہ کلام شائع ہوچکا ہے۔ خستہ گلشن آبادی کے تین شعری مجموعے ساغرِ حق،نذر ِ حیات اور نالہء غم کے نام سے طباعت کے مراحل میں ہیں۔ آپ نے اپنے انتقال سے قبل الوداع کی ردیف پر ایک غزل کہی۔
اب آگیا جدائی کا پیغام الوداع،
سونپا خدا کو اے سحر و شام الوداع
یہ غزل کہنے کے بعدایک دن حسبِ معمول اسکول گئے جہاں آپ محاسب کے عہدے پر فائز تھے۔جاتے ہوئے اہل ِخانہ سے کہہ گئے کہ آج میں روز روز اسکول جانے کا سلسلہ ختم کر کے ہی آئوں گا۔ منتظمین سے اپنی سبکدوشی کے لئے معاملہ فہمی کی۔ یک سو ہو کر نمازِ ظہر ادا کی اور چائے پینے کو بیٹھے۔ چائے کی پیالی ہاتھ میں تھی کہ دردِ دل نے آلیا اور پھر ایک ایسے سفر پر روانہ ہوگئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔

احسان علیم مرحوم فرزند خستہ گلشن آبادی اپنا کلام سناتے ہوئے ۔ ڈاکٹر یاور عباس بھی تصویر میں نمایاں ہیں۔
1972کو انتقال کرنے والے خستہ گلشن آبادی کراچی میں آسودہء خاک ہیں۔ خستہ گلشن آبادی کی یاد میں ایک شعری نشست ناصر علیم کی قیام گاہ پر زیر ِصدارت ڈاکٹر یاور عباس اور مولانا ماہر القادری منعقد ہوئی جس میں محشر بدایونی، پروفیسر اقبال عظیم، شاعر لکھنوی، ایوب گونڈوی، دلاور فگار،احمد حمید، اطہر ضیائی وغیرہ نے شرکت کی اور آپ کی شخصیت و فن کے بارے میں مضامین اور قطعات پیش کئے جس کی تفصیلات ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئیں۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...