Monday 8 March 2021

Social pages ko shehr ki diwarein na banaein.Article 76

 سوشل پیجز کی والز کو شہر کی دیواریں نہ بننے دیں 

تحریر : اظہر عزمی 

(میں کچھ عرصے سے مختلف سوشل پیجز پر اپنے مضامین  بھیج رہا ہوں ۔ وجہ بہت سیدھی سچی سی ہے کہ زیادہ لوگ پڑھیں اور ان کی رائے،  تبصرے اور تنقید سے تحریر میں بہتری کی صورت نکلے) ۔

میری ذہنی استعداد ، تعلیمی قابلیت اور مطالعہ اتنا نہیں کہ دقیق موضوعات ہر مضامین سپرد قلم کر سکوں ۔ اس لئے بہت عام سے موضوعات کا انتخاب کرتا ہوں ۔ کبھی کبھی وہ اتنے عام اور غیر اہم نظر آتے ہیں کہ اکثر لکھنے والے یہ سوچ کر کہ یہ بھی کوئی موضوع ہے قلم ہی نہیں اٹھاتے ۔ یہ گر میں نے ایڈورٹائزنگ سے سیکھا کہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھو بقول میر تقی میر " پر مجھے گفتگو عوام سے ہے " ۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف موضوعات پر ان گنت تراجم کئے ہیں لیکن اس طرف میرا دل لگا نہیں ورنہ ایک دقیق اور اختلافی موضوع پر دو چار مضامین کے تراجم سے ایک مضمون تیار کرنا آسان ترین اور بارعب کام ہے ۔ نیٹ پر سب دستاب ہے لیکن رونا آج بھی سارا Content کا ہی ہے جو کہ کمیاب ہے ۔ 

میں نے کتابوں سے زیادہ زندگی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے ۔ بہت قریب سے زندگی  کے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں ۔ لوگوں کے رویوں میں اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کیا ہے ۔ دنیاداری میں لتھڑے یوئے لوگ دیکھے ہیں ۔ عبادت گزاروں کو مشغول دعا پایا ہے ۔ دولت کے غرور کی پگڑیاں پہنے اکڑی گردنوں والے سر دیکھے ہیں ۔ غربت کا ان دیکھا تاج پہنے خود داروں سے ملا ہوں ۔ حقوق العباد سے دلوں کو آباد رکھنے والے لوگوں کو  قریب سے دیکھا اور جانا ہے ۔ 

میری تمام تحریریں انتہائی سادہ اور آسان ہوتی ہیں ۔ یاد رفتگاں ایک ایسا موضوع ہے جس میں ہر ایک کہیں نہ کہیں خود کو موجود پاتا ہے ۔ میں گفتگو کے انداز میں لکھتا ہوں  کبھی کوئی گنجلک جملہ کسی بڑے فلسفی یا دانشور کا حوالہ نہیں دیتا ۔ جو دیکھا ( اور پرکھا ) بس اسی کو تحریر کر دیتا ہوں ۔ خاکہ نگاری سے ایک خاص شغف ہے ۔ اس کے لئے ان بڑے لوگوں کا انتخاب کرتا ہوں جو مشہور نہیں ۔ میں جانتا ہوں آج کا پڑھنے والے کسی ذہنی مشقت کے لئے تیار نہیں ۔ نصیحت میاں اسے پسند نہیں ۔ تحریر کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ پہلے سمجھیں پھر سمجھائیں ۔ خود سمجھنے سے پہلے پڑھنے والے کو سمجھائیں گے تو وہ سمجھ جائے گا ۔

آج کل سوشل میڈیا ہر آن لائن لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی بات ذرا سی دیر میں ہر جگہ پہنچ جاتی ہے ۔ جس طرح تھیٹر کو اداکار فوری رسپونس کا ذریعہ کہتے ہیں اسی طرح یہ سوشل میڈیا لکھاریوں نے کے لئے ہے ۔ ممکن ہے ابھی بڑے لکھنے والے اس طرف توجہ نہ دے رہے ہوں لیکن مستقبل میں سب کو اس پر اپنی تخلیقات آپ کوڈ کرنا ہوں گی ۔ 

میں نے 2-2001 میں یہی غلطی کی تھی ۔ ٹی وی چینلز آئے تو مجھے ایک دو بار ٹی وی چینل پر بلایا گیا ( ایک بار تو فائنل کر کے بھی نہ بلایا ) لیکن میں نے یہ جان کر کہ ایڈورٹائزنگ کی دنیا کا ان سے کیا مقابلہ ، موقع گنوادیا  لیکن اب مجھے اندازہ ہے کہ لکھنے والوں کو اسی جانب آنا ہوگا ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ابھی یہ ابتدائی دور ہے ۔ کچھ مسائل ہیں ۔ کبھی کبھی لکھنے والوں کو بے جا اور بے مقصد تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ۔ جی جلتا ہے لیکن بہت جلد اس کی بھی از خود حد بندی ہو جائے گی ۔ سوشل میڈیا ابھی ایک بھیڑ چال کا شکار ہے کسی کو خبر نہیں کہاں جانا ہے ؟ کیا پڑھنا ہے ؟ تبصرے ،تنقید اور رائے کا اظہار کیسے کرنا ہے ؟ راستہ یہیں سے نکلے گا ۔ میں کتاب اور رسائل کا انکاری نہیں مگر سوشل میڈیا کی اہمیت کا ہوری طرح اقراری ہوں ۔ 

لکھنے والوں میں بھی اچھے برے کی تمیز وقت کے ساتھ ساتھ ہوگی ۔ اچھا لکھا سب کو ہر دور میں اچھا  لگتا ہے ۔ اچھی تخلیق کو کسی سیلز مین شپ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد لکھاریوں پر بندر کے ہاتھ میں ناریل کی مثال صادق آتی ہے ۔ یہ لوگ شہرت طلبی کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ مواد ان کے پاس نام کو نہیں ۔ میرا اپنا تجربہ یہی رہا ہے کہ اگر آپ کی تحریر کو 100 لوگ پسند کر رہے ہیں تو بمشکل تمام 5 ہی لائک پر کلک کریں گے اور ان میں چار یا پورے پانچ وہ ہوں گے جو آپ کے جاننے والے ہوں گے ۔ آپ کی وال پر یہی صورت حال ہوتی ہے ۔ آپ اگر سوشل پیجز پر اپنی کوئی تحریر دیتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ جس مضمون کو پڑھنے کا دورانیہ 3 سے 4 منٹ ہے اس پر پہلے منٹ پر لائکس آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ یہ پڑھنے والوں کی کون سی قسم ہے اور ایسا کیوں کرتی ہے ۔ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ کمنٹس کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کبھی صورتحال بہت خوش کن اور کبھی ناگوار ہو جاتی ہے اور یہی لکھنے والے کا امتحان ہوتا ہے ۔ میرا تجربہ ہے کہ بے مقصد تنقید کرنے والے بہت جلد اپنی راہ لیتے ہیں ۔

سب سے دلچسپ اور خوشگوار صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب کوئی راہ چلتا آپ کا جاننے والے کچھ فاصلے سے ہاتھ ہلا کر کہتا ہے " فکر نہ کریں ۔ ایک ایک مضمون پڑھ رہا ہوں آپ کا ۔۔۔ زبردست " ۔ 

میرا خیال ہے اگر سوشل میڈیا پر اچھے لکھنے والے سامنے نہیں آئیں گے تو پھر سوشل میڈیا کی والز شہر کی ان دیواروں کی طرح ہوں گی جو عامیانہ اشتہاروں سے بھری ہوتی ہیں جن میں عامل باباوں اور دیرینہ امراض کے معالج  حکیموں کی بہتات ہوتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...