Monday 29 November 2021

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91


Article # 91


رنج و مزاح 

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں 

تحریر : اظہر عزمی


ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و تفنن برقرار رکھتے ہیں ۔ ایک دن کال کی تو بولے : ایک محترمہ نے آ لیا ہے ۔ یہ ایسے کولھے سے لگ کر بیٹھی ہیں کہ ہلنے نہیں دیتیں ۔ کہتی ہیں جوانی میں بڑی بڑی چھلانگ لگاتے تھے ۔ اب ذرا سا پھلانگ کر دکھاو ۔ میں حیران ہو گیا : جب اتنی دعوی ِ دار محبت ہے تو عقد ثانی فرمالیں ۔ مسکرائے : ایک مرتبہ اہلیہ سے کہا تھا تو انہوں نے لا کو کافی کھینچنے کے بعد ثانی کہا تھا : عقد لا ۔۔۔ ثانی ، بہت ہو جائے گی پریشانی ۔ ویسے بھی بھائی اب عمر کی نقدی ختم پر ہے ۔ اب تو صورتحال _ بے حال یہ ہو گئی یے :

یہ نقد جاں ہے اسے سود پر نہیں دیتے
جسے ہو شوق وہ ہم سے مضاربہ کر لے

کیا مضاربے پر بھابھی مان جائیں گی ؟ زور کا قہقہہ لگایا : ارے کہاں ؟ وہ تو بے چاری سر توڑ کوشش کر رہی ہے کہ اس محترمہ سے جان چھوٹ جائے ۔ یہ خاتون میرے پاس پہلے بھی آتی رہی ہیں ۔ تانکا جھانکی چلتی رہتی تھی مگر میں خود ہی خاموشی سے نمٹ لیا کرتا تھا ۔ اب تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ۔ اس کا دیا درد ایسا ہے کہ چیخیں نکل جاتی ہیں ۔ جی چاھتا اپنا یا پھر اس کا گلا ہی گھونٹ دوں ۔ بیٹھنے ہی نہیں دیتی ۔ صورت حال اتنی دلخراش دیکھی تو مجھ سے رہا نہ گیا : اکڑوں بیٹھ جایا کریں ۔ جھلا گئے : ابے بھائی اکڑوں بیٹھوں تو ککڑوں کوں کی آوازیں نکالنے لگتا ہوں ۔ ایک مرتبہ بیوی نے کہا : یہ اچھی آئی ہے تمھیں مرغا بھی نہیں بننے دیتی ۔ اس سے اچھی تو میں یوں ۔ بتاو کبھی مرغا بننے یا اس کی آواز نکالنے سے روکا ؟ ۔

اب مجھ سے برداشت نہ ہوا ، پوچھ بیٹھا : نام کیا ہے ؟ بولے : بوجھو تو جانیں ۔ میں چڑ گیا : جان آپ کی نکال رہی ہے ، بوجھوں میں ۔ جواب آیا : نسا آتا ہے نام میں ۔ میں نےفورا کہا : خیر النسا ۔ بولے : خیر کی خبر کہاں ؟ محترمہ کا نام عرق النسا ہے ۔ میں سر پیٹ کر رہ گیا : آپ کی مذاق کرنے کی عادت جائے گی نہیں ۔ اب بڑا کڑک جواب آیا : مذاق ؟ دو دن جھیل کر تو دیکھو ۔

( تصویر بطور ریفرنس لگائی گئی ہے )

ڈاکیا ڈاک لایا ۔۔۔ گزرے زمانے کے پوسٹ میں پر ایک دلچسپ تحرہر ۔ An article on Postman. Article # 90


Article # 90


ڈاکیا ڈاک لایا
ہمارے محلے کے ڈاکیا ۔۔۔ انصار بھائی

تحریر : اظہر عزمی


ہمارے بچپن کے کراچی میں بھی کیا کیا زمانے گزرے ہیں ۔ ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے جب لڑکی کے رشتے کے وقت لڑکے والے پوچھ لیا کرتے کہ لڑکی خط لکھ اور پڑھ لیتی ہے ۔ جواب ہاں میں ہوتا تو سمجھیں لڑکی پڑھی لکھی ہے ۔ اب جب خط کی بات ہو گئی تو ڈاکیا کا ذکر بھی آئے گا ۔

ڈاکیہ کو قاصد اور نامہ بر بھی کہا جاتا تھا اور اردو شاعری میں شاعروں نے کیا کیا مضمون نہ باندھے ۔
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
مرزا غالب

مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں
امیر مینائی

اردو ادب میں خطوط ایک صنف شمار ہوتی ہے ۔ خطوط غالب سے کون واقف نہیں ۔ اسی طرح صحرا نورد کے
خطوط ( میرزا ادیب ) ، مکاتیب اکبر ( اکبر الہ آبادی ) ، منٹو کے نادر خطوط وغیرہ وغیرہ۔
کہتے ہیں زمانہ قدیم میں اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے ڈاک ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچائی جاتی تھی۔ برصغیر پہلا ڈاک خانہ 1837 میں قائم ہوا اور یوں انگریزی کا پوسٹ میں ہمارے لیے ڈاکیا کہلایا ۔ زیادہ پیار آتا تو ڈاک بابو بھی کہہ دیا جاتا ۔

سہیل رعنا کے موسیقی کے پروگرام میں مونا سسٹرز کا گایا یہ گانا آج بھی بہت سے ذہنوں میں محفوظ ہوگا :
ڈاک بابو ، ڈاک بابو
میرا خط لے جاو
نانی اماں کو دے آو
پرسوں میری گڑیا کی سالگرہ ہے

ٹیکنالوجی کی ترقی نے ہمارے لیے سب سے بڑا ڈاکا ڈاک اور ڈاکیے پر ڈالا ۔ یہ کردار معدوم ہوتا گیا اور اب تو ڈاکیے کو دیکھے دن گزر جاتے ہیں ورنہ اولڈ کراچی میں ڈاکیے کا روزانہ آنا لازم تھا ۔ ڈاکیا خط کے علاوہ ٹیلی گرام اور منی آرڈر بھی لاتا ۔ ٹیلی گرام کا بے وقت چلا آنا چہرے اتار دیا کرتا کہ اللہ جانے کیا خبر آئی ہے ۔ منی آرڈر آتا تو لوگوں کے چہرے کھل اٹھتے ۔ عید آتی تو عید کارڈ بھی اسی ذریعے سے ملتے ۔ غرض ڈاکیا زندگی میں لازم و ملزوم تھا ۔ گھر کے بڑے گھر آتے تو یہ ضرور پوچھا کرتے : کوئی خط تو نہیں آیا ۔

ہمارے محلے میں انصار بھائی ڈاکیا دوپہر میں ایک مخصوص وقت پر ڈاک لایا کرتے ۔ ہم اسکول سے آنے کے بعد اکثر گلی میں کھڑے ہوتے کہ انصار بھائی سائیکل کی ٹڑنگ تڑنگ کے ساتھ خاکی وردی میں ملبوس گلی میں داخل ہوتے ۔ ادھیڑ عمر کے میانہ قامت ، دبلے پتلے انصار بھائی کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی سنجیدگی ۔ بردباری اور خودداری لکھی تھی جسے میں لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔

انصار بھائی ایک مخصوص ٹھیلے میں ڈاک لاتے لیکن گلی کی ڈاک ان کے ہاتھ میں ہوتی ۔ شاید وہ ہر گلی میں آنے سے پہلے ڈاک نکال لیا کرتے تھے ۔ گرمیوں میں سائیکل پر آتے تو وردی اور چہرے پر پسینہ نمایاں ہوتا ۔ کبھی کسی سے ایک گلاس پانی کا نہ مانگا ۔ جس گھر جاتے ہلکے سے گیٹ کھٹکھٹاتے اور ڈاکیا کی آواز لگاتے ۔ عام طور پر جن کو اپنے خط کا انتظار ہوتا وہ پہلے سے گلی میں موجود ہوتے ۔ گلی کی وہ عورتیں جنہیں خط کا انتظار ہوتا ۔ دو تین بار گیٹ جھانکتیں اور پوچھ لیتیں : انصار بھائی تو نہیں آئے ۔

جس کسی کو اپنے انٹرویو لیٹر یا ملازمت کے پروانے کا انتظار ہوتا ۔ اس کی حالت دیدنی ہوتی ۔ پہلے سے گلی میں موجود ہوتا ۔ انصار بھائی اگر اس کے پوچھنے سے پہلے نہیں کا اشارہ کر دیتے تو اس کا منہ اتر جاتا اور اگر ہاں کہہ دیتے تو چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا ۔ ایسے موقع پر ڈاکیا حضرات " خط کا مضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر " کے مصداق منہ میٹھا کرنے کے لئے رقم کا تقاضا کیا کرتے تھے مگر انصار بھائی نے کبھی ایسا نہ کیا ۔ اگر کچھ دے دیا تو خاموشی سے رکھ لیا مگر خود سے سے کوئی تقاضا نہ کیا ۔ برسوں سے انصار بھائی کا آنا جانا اتھا اس لئے گلی والے ایسے خطوط اور عید تہوار پر ان کا بڑا خیال کیا کرتے ۔
ڈاک سے عید کارڈ اور شادی کارڈ بھی آیا کرتے ۔ جب کسی کا بے وقت ٹیلی گرام لاتے تو انصار بھائی کے چہرے کی سنجیدگی اور بڑھ جاتی ۔ بیرنگ خطوط ( جس میں رقم کی ادائیگی جط وصول کرنے والے کو کرنا ہوتی ) کے معاملے میں انصار بھائی کا اصول بڑا پکا تھا ۔ رقم وصول کیے بنا خط نہ دیتے ۔

انصار بھائی سے متعلق ایک واقعہ پوری گلی میں مشہور تھا ۔ جب کبھی ہم اس کا تذکرہ کرتے تو مسکرا دیا کرتے ۔ بس ہم نے ان کے چہرے پر یہی ایک مسکراہٹ دیکھی تھی ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ انصار بھائی نئے نئے ہماری علاقے میں پوسٹ ہوئے ۔ ہماری پڑوسن جنہیں ہم سب خالہ کہا کرتے تھے ( یہ وہ زمانہ تھا جب محلے میں بڑوں کو خالہ خالو کہنے کا رواج تھا ۔ انکل آنٹی سے کوئی واقف نہ تھا ) کی آواز ذرا بھاری تھی ۔ انصار بھائی نے گیٹ کھٹکھٹایا اور ڈاکیہ کہا ۔ خالہ شاید دوسری طرف تھیں ۔ انصار بھائی نے دوبارہ گیٹ کھٹکھٹایا ۔ خالہ نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں پوچھا : کون ؟ ۔ انصار بھائی نے آواز سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا : خالو باہر تو آئیں ۔ خط آیا ہے ۔
انصار بھائی جو سب کو خط لا کر دیا کرتے تھے ۔ ایک دن بہت خاموشی سے ہماری زندگی سے نکل گئے ۔ ریٹائرڈ جو
ہو گئے تھے ۔ ان کی جگہ پھر ایک نوجوان ڈاکیا نے لے لی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی جگہ کوئی نہ لے پایا ۔  

(تصویر بطور ریفرنس لگائی گئی ہے)

Sunday 3 October 2021

Actor Omar Sharif ko hamesha yaad rakha jaye ga. Article 89

 Article # 89


کاغذوں پر " تھے" لیکن دلوں میں ہمیشہ  " ہیں" رہیں گے 

عمر شریف

 

تحریر : اظہر عزمی 

لیاقت آباد کراچی کی ایک چمکتی دمکتی بستی ہے ۔ یہاں کی گنجان آبادی کے افق سے گنجینہ صفت لوگ طلوع ہوئے جن کی تابناکی دنیا نے دیکھی ۔ سیاست ہو یا کھیل  ، ادب ہو یا شوبز ایک سے ایک باکمال بے مثال رہا ۔ فنون لطیفہ کی دنیا میں جنہوں نے عالمی شہرت سمیٹی ان میں صابری برادران ، معین اختر ، عمر شریف اور امحد صابری شامل ہیں ۔ گزشتہ دنوں ان پانچ باکمالوں ، بے مثالوں میں سے عمر شریف نے بھی اس عارضی دنیا سے رخصت سفر باندھ لیا ۔

موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے 
یعنی آگے چلیں گے دم لے  کر
 
عمر شریف کو میں نے بھی دیگر افراد کی طرح اسکرین پر ہی دیکھا ۔ اسٹیج ڈرامے بکرا قسطوں پر  نے عمر شریف کو بغیر کسی قسط کے یکمشت شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیا ۔ ایک ایک جملہ زبان زد عام ہوا ۔ کیسٹس پر ان کی حکمرانی تھی اور ان کے مداح رعایا تھی ۔ عمر شریف ہمہ جہت شخصیت تھے ۔ ایک ذھین لکھاری اور کامیڈین تھے ۔ یہ امتزاج دنیا میں خال خال لوگوں کو نصیب ہوتا ہے ۔
 
عمر شریف بطور لکھاری معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے ۔ طنز و مزاح میں بہت سادگی سے بڑی گہری بات کہہ جایا کرتے تھے ۔ ان کی تحریر کیونکہ حد درجہ عوامی ہوتی ۔ اس لئے اسے ادبی حلقوں میں قابل اعتنا سمجھا ہی نہیں گیا۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے کچھ جملے بڑے بڑے ادیبوں کی تحاریر پر بھاری تھے ۔ عمر شریف کو لکھنے کی جو صلاحیت ودیعت ہوئی تھی ۔ انہوں نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا ۔

بطور کامیڈین ان کی سب سے بڑی خوبی جملوں کی ادائیگی میں برجستگی اور ٹائمنگ تھی ۔ عمر شریف کو چہرے کے بھرپور تاثر کے ساتھ جملوں کی ادائیگی میں ید طولی حاصل تھا ۔ حد یہ ہے کہ وہ اگر مسکرا بھی رہے ہوں تو دیکھنے والے کو ہنسی آ جائی ۔ عمر شریف نے ہدایت کار کے طور پر بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو منوایا ۔ شاعری سے بھی شغف تھا۔ اسٹیج اداکاری سے ہدایت کاری اور کمپیئرنگ تک وہ جہاں جہاں پہنچے ۔ اپنے قدم جمانے اور فتح کا پرچم لہراتے گئے ۔ عمر شریف ان خوش نصیب فنکاروں میں ہیں جنہیں عوامی سطح پر ان کی زندگی میں بھرپور پذیرائی ملی ۔

لوگ عام طور پر کامیڈین کو مسخرہ سمجھ لیتے ہیں اور ان سے عام زندگی  میں بھی یہی سب کچھ توقع کرتے ہیں ۔ عمر شریف کے انٹرویوز کے کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ایک بالکل نئے عمر شریف سے ملاقات ہو گئی ۔ سنجیدہ ، متین ، حلیم، ۔۔۔ مزاج صوفیت کی طرف راغب تھا جس کا بنیادی وصف انسانیت ہوتا ہے ۔ کسی بھی تعصب سے پرے بس انسان کو مقدم جاننا ۔ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنا ان کا مشغلہ بھی تھا اور پیشہ بھی ۔ جب آپ کا مشغلہ ہی آپ کا پیشہ بن جائے تو تھکن کیسی ۔ عمر شریف کی حس نزاح ہمیشہ ٹر و تازہ رہی ۔ کتنے ہی فنکار ان کے زیر سایہ رہ کر فنکار بن گئے ۔ واقعی وہ اپنی ذات میں واقعی ایک ادارہ تھے ۔

عمر شریف بطور لکھاری اور کامیڈین اپنے طرز سخن کے بانی تھے ۔ صرف کاغذوں پر ہم " تھے " لکھیں گے لیکن دلوں میں وہ ہمیشہ " ہیں " رہیں گے ۔ ایک دردمند دل رکھنے والے عمر شریف ڈرامے کے اسٹیج پر سب کی دلجوئی کرتے جو اس دور میں کار ثواب ہے ۔

کچھ  لوگ  زمانے  میں ایسے  بھی تو  ہوتے ہیں 
محفل میں تو ہنستے ہیں ، تنہائی میں روتے ہیں

Thursday 23 September 2021

Karachi kay aalmi mushairay , Hamara tehzibi wirsa . Article 88

Article 88

کراچی کے عالمی مشاعرے ، ہمارا تہذیبی ورثہ

ان میں شرکت زندگی کی حسین تریں یادیں ہیں



تحریر : اظہر عزمی

والد صاحب ( کوثر سلطان پوری ) شاعر تھے اس لئے شعر کہنے کا نہ سہی لیکن شعری ذوق مجھ میں شروع سے تھا ۔ عمر کے لحاظ سے شعر سمجھ میں آتے گئے اور ہمارا شعری ذوق پروان چڑھتا گیا ۔ ایک زمانے میں مجھے یہ شعر جو فی الوقت ذہن میں آ رہے ہیں ، بہت پسند تھے ۔
تم اپنے دل کا حال نہ سب سے کہا کرو


ہمدردیوں کی بھیک سی دینے لگے ہیں لوگ
یہ کون ہیں جو میری وحشتوں پہ ہنسٹے ہیں
کہاں گئے مجھے آکر سنبھالنے والے
تعوہذ کیا کروں گا کہ ان بازوں کو ہے
اژدر شکار قوت حیدر ع کی آرزو

اسکول میں تھے تو جنرل ضیاء کا مار ۔۔۔ شل ۔۔۔ لا تھا ۔ سیاسی اجتماعات پر پابندی تھی ۔ کالج میں تھے کہ

انیسو تیراسی میں انجمن سادات امروہہ نے اپنے امروہہ مرکز ، فیڈرل بی ایریا میں پہلا پاک وہند مشاعرہ کا انعقاد ہوا ۔ میں کئی دن سے خوش تھے کہ مشاعرے میں شرکت کی سعادت نصیب ہو گی ۔ ہم بھی کسی نہ کسی طرح پاس لے کر اپنے دوستوں کے ہمراہ جا پہنچے ۔ یہاں پہنچے تو دنیا ہی بدلی ہوئی پائی ۔ سب خواتین و حضرات خوش مزاجی و خوش لباسی کا منبع بنے ہوئے تھے ۔ ہم پہلی بار مشاعرے میں گئے تھے اس لئے آداب محفل کا خیال کرتے ہوئے ڈرائی کلینرز سے دھلا سفید ململ کا کرتا شلوار پہن گئے تھے ۔ کچھ سامعین تو شیروانیوں میں ملبوس تھے ۔ کچھ بالکل لکھنوی بانکے بنے ہوئے تھے ۔ لگتا تھا شاعروں کی برات اترنے والی ہے اور ہم سب براتی ۔ زندگی میں پہلی بار اتنے سارے لوگوں کو ساتھ خوش دیکھا تھا ۔ یہ ایک بدلا کراچی تھا اور ہم اس بدلے کراچی میں نووارد تھے ۔ اس لئے نہ جانے کیوں شرما بھی رہے تھے ۔ یہ ہماری شروع کی عادت لوگ زیادہ ہوں تو بغیر کسی وجہ کہ شرمائے لجائے ایک کونے میں جا لگتے ہیں ۔


سادات امروہہ کے مشاعرے کی صدارت اس وقت کے وزیر دفاع میر علی احمد خان تالپور نے کی ۔ مجھے یاد ہے کہ صہبا اختر جب پڑھنے آئے تو پی ایس ایف کے لڑکوں نے خاصی نعرے بازی کی ۔ سیاسی حبس اور گھٹن کی فضا میں یہ مشاعرہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا ۔ سادات امروہہ کے مشاعروں کے بعد 1989 میں کراچی میں عالمی مشاعروں کا دور شروع ہو گیا جس میں اکناف عالم سے شعراء آنے لگے ۔ ان تمام مرکزی پاک و ہند / عالمی مشاعروں کے بعد شہر میں دیگر مقامات پر بھی مشاعرے ہوتے ۔ ساکنان شہر قائد کے عالمی مشاعرے یوم پاکستان کی مناسبت سے ہوتے اور خاصے بڑے پیمانے پر ہوتے ۔ لگتا کہ شہر کی ساری فضا ادبی ہو گئی ہے ۔ اخبارات بھی مشاعروں کی تفصیلات پر صفحے شائع کیا کرتے ۔ ٹی وی چینلز کوریج کرتے ۔ دو ایک چینلز براہ راست بھی نشر کرتے ۔ غرض یہ مشاعرے کراچی میں سال کا بڑا ایونٹ تھے ۔ ہزاروں میں سامعین ہوتے ۔ مشاعرے کے قریب میی چائے و دیگر کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ کتابوں کے اسٹالز لگ جاتے مگر اب کچھ سالوں سے عالمی مشاعرے منعقد نہیں ہو رہے ہیں ۔

سادات امروہہ کے پاک و ہند مشاعرے ہمارے لئے ایک حسین تحفہ ثابت ہوئے ۔ پہلی بار نامی گرامی شعراء کو سنا ۔ زندگی میں پہلی بار شستہ و شائستہ ہوٹنگ دیکھی ۔ کیا کیا برجستہ اور پر مزاح جملے آتے کہ آپ ہنس ہنس کر آدھ موئے ہو جائیں ۔ بھارت کے شعرا ء نے کیا کیا رنگ نہ باندھے اور اس پر ترنم کی چاشنی نے کانوں میں رس ہی گھول دیا ۔ وہ عمر بھی ایسی تھی کہ طبعیت شعر سے مائل بہ رومان ہوجایا کرتی تھی ۔ اب تو طبیعت اچھے شعر کو سنتی ہے ابھی اس کے کیف و سرور میں ہوتی ہے کہ کوئی مسئلہ ذہن میں آکر کہتا ہے : میاں کہاں چلے ۔ وہ دن ہوا ۔

عالمی مشاعروں میں کس کس کو نہ سنا ۔ بیکل انسانی ، کیفی آعظمی ، علی سردار جعفری ، کمال امروہوی ، شہریار ، خمار بارہ بنکوی ، معراج فیض آبادی ، ساغر خیامی ، کرشن بہاری نور ، بشیر بدر ، وسیم بریلوی ، راحت اندوری، منظر بھوپالی ، عادل لکھنوی ، پاپولر میرٹھی وغیرہ ۔ پاکستانی شعراء کی تو ایک طویل فہرست ہے ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہمیں ہندوستانی شعراء میں ترنم سے پڑھنے والے شعراء بہت پسند تھے ۔ ان کے کلام و آواز میں ایک عجب رومانوی کشش تھی جو ہمیں عمر کے اس مخصوص حصے میں بہت بھایا کرتا تھی ۔ جیسے یہ مترنم غزل (انجم رہبر) :

ملنا تھا اتفاق ، بچھڑنا نصیب تھا
وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا
دفنا دیا گیا مجھے چاندی کی قبر میں
میں جس کو چاھتی تھی وہ لڑکا غریب تھا

اسی طرح کی یہ غزل (حنا تیموری) :
سجدہ تجھے کروں گی تو کافر کہیں گے لوگ
یہ کون سوچتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
کہتے ہیں تجھ کو لوگ مسیحا مگر یہاں
اہک شخص مر گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
سجدہ کروں کہ نقش قدم چومتی رہوں
گھر کعبہ بن گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد
ہم آ کے تیرے شہر سے واپس نہ جائیں گے
یہ فیصلہ کیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

اسی طرح یہ دل آفرین غزل (ریحانہ نواب) :
کسی سے بات کرنا بولنا اچھا نہیں لگتا
تجھے دیکھا جب سے دوسرا اچھا نہیں لگتا
تیرے بارے میں دن بھر سوچتا رہتی ہوں میں لیکن
تیرے بارے میں سب سے پوچھنا اچھا نہیں لگتا

ابھی 90 کی دھائی کے ابتدائی سال ہوں گے کہ ہماری دفتری زندگی میں خوش شکل ، خوش گفتار و خوش لباس نوجوان عباس ظفر آگئے ۔ یہ اس وقت کی مینہیٹن پاکستان میں بطور کلائنٹ سروس ایگزیکٹیو آئے تھے اور یہ غالبا ان کی پہلی ملازمت تھی ۔ اب تو خیر وہ ایک بینک میں مارکیٹنگ ہیڈ کے عہدے پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور عباس کاظمی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ یہ وی سی آر کا زمانہ تھا ۔ پتہ چلا کہ عباس ظفر کے والد غالبا سعودی عرب میں ہیں اور انتہائی اعلی درجے کا شعری ذوق رکھتے ہیں ۔ عباس ظفر نے بتایا کہ ان کے والد کے پاس انڈیا کے بڑے بڑے مشاعرے وی سی آر کے کیسٹ میں موجود ہیں اور یہ کہ کچھ کیسٹ ان کے پاس کراچی میں بھی رکھے ہیں ۔ اندھا کیا چاھے دو آنکھیں ۔

انڈیا کے شعراء کا ہمیں چسکا پڑ چکا تھا ۔ اس زمانے دبئی میں سلیم جعفری مرحوم بھی پاک و ہند مشاعرے منعقد کیا کرتے تھے جس میں ہر سال کسی مشہور شاعر کے جشن کا نام دیا جاتا ۔ خیر جناب عباس ظفر کے وجہ سے ہمارے ہاتھ تو جیسے خزانہ آ گیا ۔ عباس ظفر نے کچھ کیسٹ تو واپس لئے اور دو ایک بھول گئے جو آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں ۔

ان کیسٹوں کے ذریعے خمار بارہ بنکوں کی شاعری کا سرور ہمارے سر ایسا چڑھا کہ سالوں اس کے اثر میں رہے بلکہ اب بھی ہیں ۔ ایک مرتبہ کنور مہندی سنگھ بیدی سحر نے خمار صاحب سے کہا تھا کہ سرور چڑھتے اور خمار اترتے نشے کو کہتے ہیں ۔ آپ کی شاعری میں سرور ہے ۔ آج بھی خمار صاحب کی کئی غزلیں کئی بار سننے کے بعد بھی پہلی بار جیسا سرور دیتی ہیں ۔ خمار صاحب جگر مراد آبادی اسکول آف تھاٹ کے آخری مسلمہ شاعر تھے ۔ پہلا مصرعہ پڑھتے اور سامعین ان کی گرفت میں ہوتے ۔
سنا ہے وہ ہم کو بھلانے لگے ہیں
تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں
ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی
وہ پتھر میرے گھر میں آنے لگے ہیں
دو گناہ گار زہر کھا بیٹھے
ہم انہیں وہ ہمیں بھلا بیٹھے
ہم غریبوں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے
حشر کا دن ابھی ہے دور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے

میں نے کمال امروہوی کی مشہور غزل بہ زبان شاعر سنی جس وقت انہوں نے رات کے پچھلے پہر یہ غزل پڑھی تو ایک سماں باندھ گیا تھا ۔
کہیں ایک معصوم نازک سی لڑکی
بہت خوبصورت مگر سانولی سی
مجھے اپنے خوابوں کی باہوں میں پا کر
کبھی نیند میں مسکراتی تو ہوگی
اسی نیند میں کسمسا کسمسا کر
سرہانے سے تکیے گراتی تو ہو گی
اسی طرح احمد فراز کی مشہور زمانہ غزل بہ زبان شاعر سنی ۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

اسی طرح بیکل اتساہی کی دیہات سے جڑی شاعری کسی اور ہی کیفیت میں لے جاتی ۔ سہل ممتنع میں شاعری اور اس پر ان کا ترنم دیوانہ کئے دیتا تھا ۔
جب سے تم جوان ہو گئے
شہر بھر کی جان ہو گئے
ان دنوں وہ مدھ بھرے نیین
زہر کی دکان ہو گئے
اونچی اونچی بلڈنگیں بنیں
لوگ بے مکاں ہو گئے

اسی طرح کیفی آعظمی اور علی سردار جعفری کی ترقی پسند شاعری ۔ دیگر شعراء کا تذکرہ ابھی ذہن کے نہاں خانے میں ہے جسے سینہ قرطاس پر منتقل کرنے کو دل چاہتا ہے ۔ ممکن ہے آپ لوگ بور ہورہے ہوں یا تھگ گئے ہوں اس لئے پھر کبھی سہی ۔ 

Saas aur Sauce mein ziada farq nahin.Article 87

 ARTICLE  87

· 

Shared with Pub

ساس اور ساس (Sauce) میں زیادہ فرق نہیں
گھر میں نہ ہوں تو کھانوں اور باتوں میں مزا کہاں ؟



تحریر : اظہر عزمی

اردو میں اب زیر زبر پیش لگانے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم انگریزی الفاظ کو بھی اردو میں ہی لکھ دیتے ہیں ۔ ایسے میں کبھی بہت دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے اور ہمارا چلبلا ذہن چل پڑتا ہے ۔ گزشتہ دنوں گھر والوں نے سامان منگایا تو اردو میں چلی ساس لکھ دیا ۔ میں نے کہا کہ مرچوں والی ساس کہاں ملتی ہے ؟ جواب آیا : یہ انگریزی والا Sauce ہے لیکن اردو میں س پر پیش لگائے

بغیر پڑھیں تو اردو والی ساس بنتی ہے جس کے آگے ہر بہو کو پیش ہونا ہوتا ہے ۔
بات آئی گئی ہو جاتی اگر ہم ساس (اردو) زدہ نہ ہوتے ۔ انگریزی والے ساس میں 5 یا 6 مادر ساس ہیں اور اس کے ساتھ دنیا بھر میں 1500 سے زائد ذیلی ساس پائے جاتے ہیں لیکن اردو والی ساس کے معاملے میں ماہر نفسیات اور سائنسدان ہنوز تحقیق میں مصروف ہیں ۔ کہتے ہیں جس طرح ہر شخص کے انگوٹھے کا فنگر پرنٹ مختلف ہوتا ہے اسی طرح ہر ساس اپنی ذات میں یگانہ و جداگانہ ہوتی ہے ۔ ماہر تجلیات خیالات ، تشکیکات ، مشکلات و تحقیقات ہوتی ہے ۔ مسدودات سازشات کی ڈگری ہر ساس کو گھر کے اپنے بچے یا بچی کے نکاح نامہ کے ساتھ تفویض کردی جاتی ہے ۔

چلی ساس لکھنے پر اب ہم نے اردو اورانگریزی ساس میں مماثلت تلاش کی اور حیران کن نتائج سامنے آئے کہ عقل دنگ رہ گئی ۔ مضمون کو مختصر کرنے کے لیے پہلے یہ دیکھا کہ پاکستان میں کتنے ساس زیادہ مقبول ہیں تو اس میں ہاٹ ساس ، گارلک ساس ، جنجر ساس ، سویا ساس ، بار بی کیو ساس اور تیزی سے مقبولیت پاتے ہوئے پیزا ساس ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی لاتعداد ساس ہیں ۔

کھانے باورچی خانے میں پکاتے ہیں جسے ہر ساس کا دارالحکومت کہا جاتا ہے۔ چاھے کچھ ہو جائے ساس سب پرداشت کر لے گی لیکن دارالحکومت میں کسی بہو کی حاکمیت کو غاصبانہ قبضہ سمجھتی ہے ۔ اس کے لیے اپنی تمام ساسانہ حکمت عملی بروئے کار لاتے ہوئے کسی کو خاطر میں نہیں لاتی ۔ کھانوں میں لذت و ذائقے کے لئے ساس ڈالے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی ساس ساس سے زیادہ ذائقہ نواز اور چٹپٹا نہیں ہوتا ۔ اکثر اوقات تو آنسو نکل آتے ہیں ۔ آئیں ! ذرا انگریزی ساس کے ساتھ اردو کی ساس کا تقابل پیش کرتے ہیں ۔

ہاٹ ساس : یہ ساس زرا بڑی عمر کی آتش ہسند ہوتی ہیں ۔ باتوں میں طنز کا تیکھا مزا ۔ تجربہ کار ، دانا ، اٹھک پھٹک اور حساب کتاب میں ماہر ۔ بہو سے دوبدو ، روبرو اور کو بہ کو گفتگو پر یقین کامل رکھتی ہیں ۔ بات مائل بہ تلخی ہو جائے تو بہ تو کلام کرتی ہیں ۔ کہیں بھی کسی بھی وقت کوئی آگ لگا سکتی ہیں ۔ گھر کا کوئی فرد بطور فائر بریگیڈ ساس کے آس پاس پایا جاتا ہے۔ میں نے سرکس میں ہی منہ سے آگ کا گولہ نکالتے دیکھا لیکن اکثر بہوئیں کہتی ہیں کہ ہمارے یہ " ساس سرکس " روز لگتا ہے ۔ بہوئیں کوشش کرتی ہیں کہ انہیں خود سے دور رکھا جائے لیکن یہ دوری کو پسند نہیں کرتی ہیں اور کسی بھی سادے سے معاملے پر کھڑا قیمے جیسا مرچوں والا ہنگامہ کر کے بڑے بڑوں کے منہ سے سی سی کی آوازیں نکلوا سکتی ہیں ۔
چلی ساس : کھانوں میں ہو تو ناک سے آنسو اور اگر اردو والی سامنے بیٹھی ہوں تو آنکھ سے آنسو ۔ بات بات پر مرچیں لگانا ان کا محبوب اور مجرب مشغلہ ہے ۔ کچھ کہو تو :

لو میں تو ایک لفظ نہ بولی ۔اب اگر تم پلک موتنی بنی ہو تو کیا ہم اپنے ہونٹ سلوا لیں ۔ زندہ ہیں تو بولیں گے بھی ۔ چپکی تو نہ بیٹھوں گی ۔ لڑکے کا نکاح پڑھوایا ہے ۔ نہ بولنے کی قسم تو نہ کھائی ۔

گارلک ساس : یہ ساس کھانوں میں ہو تو ذائقے کے ساتھ بلڈپریشر کنٹرول کرتا ہے ۔ کہتے ہیں صبح اگر دو جویں بغیر پانی کے کھا لیں تو جسم سے فاسد و حاسد مادہ باہر نکل جاتا ہے لیکن اگر یہی ساس اردو میں ہو تو صبح نہار منہ ان کے دو لقمے جملے سننے کے بعد سینے میں جلن شروع ہوجاتی ہے ۔ دن بھر بلڈپریشر کنٹرول کرنا محال ہو جاتا ہے ۔

جنجر ساس : یہ ساس بظاہر دھیما لگتا ہے لیکن اردو ساس خنجر اثر کا اعزاز رکھتی ہے ۔ ایک جملہ بہووں کا کلیجہ چیت دیتا ہے ۔۔ ہر جملے میں دھیمی آنچ پر لگا ایسا کاٹ دارحملہ ہوتا ہے کہ سننے والا حرف شکایت زبان پر نہ لا سکے لیکن دماغ سے دھواں اٹھنے لگے اور کٹ کھنا بن جائے ۔ جب ایسا ہو تو جنجر ساس کہتی ہیں :

اے لو بھیا ، میں نے ایسا کیا کہا کہ تم کاٹ کھانے کو دوڑ رہی ہو ؟ اب زبان کو تالا تو ڈالنے سے رہے ۔

سویا ساس : یہ ساس بظاہر سویا ہوا لگتا ہے لیکن اردو میں ہو تو بہت چوکس اور چوکنا ہوتا ہے ۔ سب پر نظر ہوتی ہے ۔بہو کی حرکات و سکنات سے مبینہ ممکنات تک سب کا توڑ اور اس کے لیے گھر والوں سے جوڑ توڑ کے لیے ذہن پھرکنی کی طرح گھومتا ہے ۔

بار بی کیو ساس : اردو میں یہ ساس ویسے تو بہو پر صدقے واری ہوتی ہے لیکن اکیلے میں بس نہیں چلتا کہ بہو کو کسی پر صدقے واری کر کے جان چھڑا لیں ۔ یہ ساس ذرا ماڈرن اور نئے زمانے کے چال چلن سے واقف ہوتی ہے ۔ بوڑھی ساسوں سے قدرے جوان اور فیشن ایبل ۔ کپڑے اور میک اپ میں بہو سے برابر کا مقابلہ کرتی ہیں ۔

پیزا ساس : یہ ساس کی سب سے نئی قسم ہے ۔ اس ساس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں کئی فلیورز آگئے ہیں ۔ کالج ، یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ۔ کسی اچھے کالج ، یونیورسٹی میں پڑھانے والی یا پھر کسی اچھی کمپنی میں اچھی پوسٹ پر ۔ اتنی اچھائیوں کے بعد وہ کتنی اچھی ہیں ۔ یہ صرف بہو ہی بتا سکتی ہے ۔ یہ war میں کوئی وار ہلکا نہیں کرتی ہیں ۔ شستہ ، شائستہ اور برجستہ جملہ پھینکنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔

ماں لیں کھانوں میں انگریزی اور گھروں میں اردو کی ساس سے زندگی میں مزا ہے ۔ گھر کی ساری رونق ساس سے ہے ۔دو دن گھر میں نہ ہوں تو گھر سونا سونا لگتا ہے ۔ گھر کاٹ " " کھانے " کو دوڑتا ہے ۔ میری مانیں تو ( بہوئیں) انہیں اپنا استاد مان لیں کیونکہ کل آپ نے بھی ساس بننا ہے ۔ ساس سے تعلقات کو خشک گوار رکھنے کی بجائے خوش گوار رکھیں ۔

Monday 6 September 2021

Karachi ki chowrangian aur nukar. Article 86

 

Article 86


کراچی کی چورنگیاں ، چوک اور نکڑ 
کہیں کھو گئے ، ہم بڑے یو گئے 

تحریر : اظہر عزمی 



کوئی مانے نہ مانے مگر میرا بچپن یہ کہتا یے کہ کراچی چورنگیوں کا شہر تھا ۔ کتنے بس اسٹاپ ان سے منسوب تھے ۔ ہر دو تین کلو میٹر کے فاصلے ہر سرسبز ، ماحول دوست چورنگیاں کراچی والوں کے لئے شام کو پارک ہوا کرتی تھیں ۔ والد صاحب یر دوسرے تیسرے روز ہمیں سر شام ناظم آباد پہلی چورنگی لے جایا کرتے جہاں ہم گھنٹوں کھیلتے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ٹریفک کے بے لگام گھوڑے نے ان چورنگیوں کو روندھ ڈالا ۔ پہلے چورنگیاں چھوٹی ہوئیں اور پھر چورنگی کراچی کی زندگی سے نکل گئیں ۔ اب جو چورنگیاں بچی ہیں وہاں کراچی والوں کے لئے ماضی کی یادیں رہ گئی ہیں ۔

چورنگی کے علاوہ بازاروں اور محلوں میں جہاں دو سڑکیں ایک دوسرے کو کراس کریں یا چار راستے آکر ملیں اسے چوک کہا جاتا ہے ۔ چوک ہر چھوٹا سا چبوترا بنا یو تو محلے کے بے فکرے یہاں بیٹھ جاتے ہیں ۔ گلی کے کونے کو نکڑ کہا جاتا ہے ۔  کچھ نکڑوں ہر دکان بھی ہوتی جہاں شام کو محلے کے بزرگ  بھی آکر کھڑے ہوجایا کرتے  ۔ دکان والا اپنی دو ایک کرسیاں باہر ڈال دیا کرتا جس میں ایک کرسی کے چوتھے پائے کو کیلیں  ٹھونک کر قابل بیٹھ بنایا جاتا جو بھی بیٹھتا اپنا وزن محفوظ حصے پر ڈالے رکھتا ۔ دوسری کرسی کی حالت بھی نا گفتہ با ہوتی   ایک نہ ایک کیل بیٹھنے والے کو احساس دلاتی رہتی کہ ذرا ادھر ادھر ہوئے تو ایسے چبھوں گی کہ کسی کو بتا بھی نہ پاو گے ۔ اب حالت و واقعات پر گفتگو بگھاری جاتی ۔
 پہلے کونے والے گھر پر ذرا سنجیدہ طبع اور لئے دیئے رہنے والے نکڑ ہر کرسیاں بچھا کر بھی بیٹھا کرتے تھے ۔ نکڑ تو آج بھی ہیں لیکن کچھ حالات اور کچھ اسٹیٹس کے باعث یہ نکڑ چند ایک علاقوں میں رہ گئے ہیں ۔ ان تمام نکڑوں کے کردار بھی بہت دلچسپ یوتے تھے 
ّّّّ__________________________________________________________________________
اگر آگے پڑھنا چاھیں تو ۔۔۔۔

نکڑ والے خالو اور منوں بھائی کی درخواست
 
یہ ہمارے بچپن کے دن تھے ۔ سکون کا زمانہ تھا لوگوں کو ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا جنون نہ تھا نہ یی ایک دوسرے سے حسد اور کینہ تھا ۔ سب اپنے اپنے حال میں خوش تھے اور کھا کما رہے تھے ۔ آپا دھاپی  نہ تھی ۔ پرانے محلے میں جب ھوش سنبھالا تو گلی کے ایک نکڑ کو سر شام آباد دیکھا ۔ پہلے گلی گلی سڑکیں نہ تھیں ۔ گلیاں کچی ہوا کرتی تھیں ۔ شام کو پہلے نکڑ پر ہلکی سی جھاڑو دینے کے بعد پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تو ایک سوندھی خوشبو فضا کو مہکا دیتی ۔

اس کے بعد لکڑی کی کھٹ کھٹ کر کے بند ہونے والی تین کرسیاں آتیں اور پھر ایک مخصوص وقت پر نکڑ والے خالو ہاتھ منہ دھو کر ، بیچ کی مانگ نکالے کرتے پائجامے میں آکر بیٹھتے اور کچھ دیر بعد گلی کے مصور میاں اور شکور پھوپھا ان دو کرسیوں پر براجمان ہوجاتے ۔ لیجئے ! نکڑ والے خالو ایک تین کرسی والا  دربار سج گیا ۔ دروازے ہر خس کی ٹٹی پڑی ہوتی جس پر ایک مخصوص وقت پر ٹرے میں سجے چائے کے تین کپ آجاتے ۔

نکڑ والے خالو کی ملازمت اس وقت ایک باہر کی کمپنی میں تھی ۔ کلرک سے اوپر کی ہوسٹ تھی ۔ آمدن نسبتا اچھی تھی ۔ گھر والے بتاتے ہیں ایک زمانے میں ٹائی کوٹ آور ہیٹ لگا کر سائیکل پر دفتر جایا کرتے تھے ۔ سائیکل کا ہونا اس وقت آج کی مہنگی گاڑی جیسا تھا ۔ پڑھے لکھے نفیس آدمی تھے لیکن تھے سیدھے اور اس پر غصے کے تیز ۔ انگریزی اس وقت تک صرف ان ہی کو آتی تھی ۔ کوئی تار آجائے تو نکڑ والے خالو کے آنے کا انتظار ۔۔۔ اور اس وقت تک جس گھر میں تار آیا ہوتا وہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوئے جاتے ، اللہ جانے کیا لکھا ہے ؟ سو سو طرح کے وسوسے آتے ۔ خاندان کے تمام بوڑھے بوڑھیوں کو بند آنکھوں کے ساتھ  کہیں جاتے دیکھا جاتا ۔ نکڑ والے خالو کے انتظار میں اس گھر کا ایک فرد پہلے ہی نکڑ پر کھڑا ہوتا ۔ ابھی خالو گھر میں بھی نہ گھستے  کہ تار سے خوشیوں کی جلترنگ یا غم کی شہنائی بجتی اٹھتی ۔

ہم بڑے ہوتے گئے اور خالو جوانی سے ادھیڑ عمری میں قدم رکھتے گئے ۔ خالو نکڑ والے سیاست کے رسیا تھے اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے ۔ اس زمانے میں ڈان اخبار پڑھا کرتے تھے ۔ روزانہ کی بنیاد ہر عالمی حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد خالو کی سرکردگی میں قائم تین رکنی بہت دور رس فیصلے کرتی جس میں فیصلہ سازی کے لیے فیصلہ کن کردار خالو کا ہوتا ۔ اگر مصور میاں اور شکور پھوپھا کہیں اپنا پلڑا بھاری کرنا چاھتے تو خالو ڈان کی مار مارتے اور دوران گفتگو ایک دو لائنیں انگریزی کی بول کر بات کی ختم کر دیا کرتے ۔

سب سے دلچسپ مرحلہ اس وقت آتا جب محلے کا کوئی شخص ان سے انگریزی میں درخواست لکھوانے آتا ۔ جب کوئی درخواست لکھوانے آتا تو خالو کے چہرے پر تفاخر کا ایک ہی الگ ہی رنگ آتا ۔ پہلے  کسی بڑے وکیل کی طرح آنکھیں بند کر کے کیس سنتے پھر اس کے بھید جاننے کے لیے اعتراضات کے نکات اٹھاتے ۔ جب مکمل تسلی و تشفی ہو جاتی تو قلم چل پڑتا ۔ 

روشنائی (Ink) والے اپنے مخصوص پین سے درخواست لکھتے ۔ اس وقت ایسا سناٹا یوتا جیسے جج صاحب کسی قتل کے ملزم کا فیصلہ لکھ رہے ہوں ۔ سب کی نظریں پیپر پر ہوتیں ۔ خالو جب ان کی طرف دیکھتے تو سب پیچھے ہو جاتے ۔ خالو کو جب اردو کا مدعا انگریزی  میں لکھتے ہوئے صحیح الفاظ کے چناو میں دقت ( میرا خیال ہے ) پیش آتی تو وہ پین کو جھٹکتے جس کے چھینٹے دائیں جانب  بیٹھے درخواست گزار کے کپڑوں ہر آتے مگر اس وقت کس میں بولنے کی تاب تھی ۔
 
 خالو بڑی عرق ریزی سے پیپر ہرانگریزی اور درخواست گزار کے کپڑوں پرانک ریزی کے دریا بہا دیتے ۔ کوئی بھی زخص
 شخص کپڑوں ہر چھینٹے دیکھ کر با آسانی بتا سکتا تھا کہ درخواست کس قدر مشکل تھی جسے خالو نے لفظوں کے قالب میں ڈھال دیا ۔ جس طرح آج ڈاکٹر مہنگی لکھ دے تو مریض کو یقین آجاتا ہے اب علاج یقینی ہے ۔ اسی طرح لوگ کپڑوں پر چھینٹے دیکھ کر درخواست کی قبولیت کا اندازہ لگا لیا کرتے ۔ اگر درخواست گزار کے کپڑوں پر چھینٹے کم ہوتے تو لوگ کہتے تھے کہ خالو انگلیاں قلم کر کے لکھتے ہیں ۔ درخواست میں جھوٹ کا کھوٹ ہے بھائی ۔ دیکھ لینا اب اس کے چھینٹے بعد میں پڑیں گے ۔ یوں سمجھ لیں وہ درخواست نہ ہوتی درخواست گزار کا کریکٹر سرٹیفیکٹ ہوتا ۔

ہم نے اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد خالو کو ایک درخواست لکھتے دیکھا ۔ پہلے درخواست گزار منوں بھائی کی ہوری بپتا سنی ۔ اس میں چند قابل پکڑ باتیں پکڑیں ۔اس کے بعد درخواست لکھنا شروع کر دیا ۔ خالو نے درخواست لکھنے اور منوں بھائی کے کپڑوں پر پڑے چھینٹے دیکھنے کے بعد منوں بھائی سے نیچے دستخط کرنے کو کہا ۔ منوں بھائی ذرا حجتی قسم کے آدمی تھے ۔ آنکھیں پھاڑ کر ہونقوں کی طرح ہوچھ بیٹھے : کیا لکھا ہے ؟ ۔خالو نے بڑے اطمینان سے کہا : ریاض شاہد کی فلم زرقا دیکھی ہے ؟ منوں بھائی نے ناں میں سر ہلایا ۔ خالو بولے : وہ لکھی ہے ۔ منوں بھائی نے حیرت سے دیکھا ۔ خالو نے تنک کر کہا : میاں کیا ہو گیا ہے جو تم نے کہا وہی لکھدیا ہے ۔

منوں بھائی نے سکھ کا سانس لیا ، اصرار کیا : پھر بھی کچھ تو بتا دیں ۔ خالو نے لحاظ میں گنگنائے کے انداز میں ہوں ہوں کرتے انگریزی پڑھی اور پھر بتا دیا ۔ منوں بھائی نے کہا : میں نے یہ کب کہا تھا ؟ اب گویا آپ نے خالو چھیڑ دیا : نہیں اپنے گھر سے لایا یوں ۔ میرے دماغ میں کیڑا کلبلا رہا تھا ۔ اسے کاغذ پر منتقل کردیا ہے ۔ کہنے اور لکھنے میں فرق ہوتا ہے ۔ 
منوں بھائی چٹے ان پڑھ اور کوڑے مغز تھے : یہ تو کوئی نہ بات ہوئی ؟  خالو نے درخواست منوں بھائی کو تھمائی : یہ لو اور اب میرے پاس درخواست لکھوانے نہ آنا ۔
 
منوں بھائی نے درخواست لی اور چل دیئے ۔ ابھی دو قدم گئے تھے کہ خالو نے آواز دی : سنو ۔ ہم سمجھے کہ خالو درخواست میں تبدیلی کے لئے تیار ہو گئے ہیں ۔ منوں بھائی آئے تو ہین ان کی طرف بڑھایا : یہ ہیں اپنے ساتھ لے جاو  جب دماغ نام کرنے لگے تو اسی پیج ہر جہاں میں نے بتایا ہے وہاں دستخط کردینا ۔ کسی اور رنگ کے پین  سے دستخط کئے تو یہ اصول کے خلاف بات ہے ۔ منوں بھائی نے ہین لیا ۔ خیال تھا کہ وہ چلے جائیں گے لیکن نہ جانے ان کی عقل میں کیا آئی کہ انہوں نے وھیں دستخط کئے اور ہین واپس کر کے چل دیئے ۔ خالو سے ہاتھ ملاتے ہوئے منوں بھائی کی آنکھوں میں لکھی معذرت اور شکریہ دونوں صاف پڑھے جا رہے تھے ۔

Maan ko awal rakhein .Article 85

 

Article 85


ماں کو اول رکھیں ورنہ آپ نامکمل ہیں
" میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے "

تحریر : اظہر عزمی 



حج بیت اللہ اور عمرے میں سعی کا ذکر آئے تو مسلمانوں کے ذہنوں میں فورا دو چھوٹی پہاڑیوں "صفا" اور "مروہ" کا نام آتا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سیّدہ ہاجرہ اور ننھے اسماعیل کو کھانے پینے کی کچھ چیزوں کے ساتھ مکہ مکرمہ کے ریگستان میں چھوڑ دیا تھا ۔

کچھ وقت کے بعد ماں بیٹے کے پاس موجود اشیاء ختم ہو گئیں ۔ ننھے اسماعیل کو بلا کی پیاس تھی ۔ اس پر سیدہ حاجرہ صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئیں کہ شاید اپنے اور اپنے بیٹے کو بھوک اور پیاس سے بچانے کے لیے کچھ مل جائے ۔ سیدہ ہاجرہ وہاں سے اُتریں اور پھر مروہ کی پہاڑی پر چڑھ دوڑیں ۔ اسی طرح سات مرتبہ کیا ۔ یہ ماں کی مامتا تھی جو پرودگار عالم کو اتنی پسند آئی کہ اسے حج اور عمرے کا رکن بنا دیا ۔۔   __________________________________________________________________________________
ماں تو اول و آخر ماں یے ۔ اولاد کے لیے سعی ( کوشش ) اس کی سرشت میں ہے ۔ ماں جیسا کوئی ہے نہ ہو سکتا ہے ۔ پروردگار عالم نے اپنے کتنے ہی اوصاف ماں کو عطا کر دیئے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ مخلوق سے اپنی محبت کا پیمانہ بھی ماں کو بنایا ہے ۔ پروردگار عالم ستر ماوں سے زیادہ ہم سے پیار کرتے ہیں ۔
 
انسان کے تمام اعمال کے نتیجے میں ملنے والے صلے " جنت " کو ماں کے پیروں تلے رکھ دیا ۔ وہ چاھتا تو پیروں کے اوہر رکھ دیتا ۔ ہاتھ یا ماتھے پر رکھ دیتا ۔  پرودگار نے اولاد کو ماں کا مقام بتا دیا ۔ وہ جنت جس کے لئے تم لاکھ جتن کرتے ہو ۔ وہ ماں کے پیروں کے نیچے ہے ۔ جنت حاصل کرنا کتنا مشکل تھا اگر ماں نہ ہوتی ۔

ماں پر بہت لکھا گیا ہے اور جتنا لکھا گیا ہے اتنا ہی کم لکھا گیا ہے ۔ ماں پر بڑھاپا آجائے تو اس کا مزاج بچوں جیسا ہو جاتا ہے ۔ ایک ایک بات کو بار بار دھرانا ۔ کسی ایک بات ہر بتائے بغیر خفا ہوجانا ۔ ہر بات میں جلدی کرنا ۔ بیٹھے بیٹھے اداس یا خوش ہوجانا ، اپنی کہی بات کہہ کر بھول جانا اور اس ہر یہ کہنا کہ میں بھولتی کچھ نہیں ، ہزار بار کے سنائے قصے سنانا ۔ خاندان اور محلے میں کسی کا انتقال یو جائے تو اس غمگین کیفیت کے ساتھ بتانا جیسے اللہ نہ کرے گھر میں کچھ ہو گیا ہو ۔ بڑھاپا جسم و دماغ پر آتا مگر یہ بھی کتنی عجیب ہے اس کی محبت کا جذبہ کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے ۔
کبھی کہیں نہ جانے پر اصرار اور کبھی ایسا کہ کسی کے ہاں جانا ہو تو وقت سے پہلے تیار ۔ ایک دن ماں کے پاس نہ بیٹھو اور اگر دور رہتے ہو اور ان سے ملنے نہ جاو تو رقت آمیز گلے شکوے ۔

ماں : بیٹا تم تو ہمیں بھول ہی گئے ۔ کب سے شکل نہیں دکھائی ۔ میں نے عدیل ( چھوٹا بیٹا ) سے کہا تھا ذرا فون تو کرو ۔ وہ
نہیں آتے نہ آئیں مگر ہم تو پوچھ لیں ۔۔۔ کیسے ہیں ؟ 

آپ  : امی پرسوں رات ہی تو آیا تھا ۔ 

ماں : ہاں تم گئے ہو اور رات ایسی طبیعت خراب ہوئی ہے کہ پوچھو مت ۔ وہی ٹانگوں کا درد ۔ جب سے بستر پر پڑی ہوں اور اٹھی نہیں ۔

آپ : دوا تو کھا رہی ہیں آپ ؟

ماں : ارے یہ دوا شوا اب کسی کام کی نہیں ۔ بس تم آجایا کرو ۔ میں سمجھوں گی دوا کھا لی ۔

آپ : وہ اصل میں کل آجاتا ۔ شاہ زیب کو رات سے بہت تیز بخار ہے ۔ دفتر سے آٹے ہی اسے ڈاکٹر کے لے گیا تھا ۔ 

ماں : میرے شزو کو بخار یے اور مجھے پتہ ہی نہیں ۔ بہو نے بھی فون نہ کیا ۔ ذرا میری بات کراو ۔
آپ کال ملا کر دیتے ہیں ۔

ماں : ہللو ۔۔۔ میں بات کر رہی ہوں ۔ ہاں وہ شزو کیسا ہے ؟ بخار آ گیا ہے ۔ تم نے بتایا ہی نہیں ۔

بہو : وہ امی ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ بس گلا ٹھسا ہوا یے ۔ ہورے سینے میں جکڑن ہے اسی لیے بخار آگیا ۔ ڈاکٹر کو دکھا دیا ہے ۔

ماں : اچھا ذرا میری اس سے بات تو کراو ۔

ماں : ہللو ۔۔۔ میرے شزو کو بخار آگیا ۔
 
ہوتا : دددا ۔۔۔ امی مجھے ناں ۔ کھانا نہیں دے رہی ہیں ۔ آپ آجائیں ۔

ماں : بخار میں کھانا نہیں کھاتے ۔ جب بخار اترے گا تو جو کہے گا کھا لینا ۔ میں تجھے خود بنا کر دوں گی ۔

پوتا : نہیں ناں ۔ مجھے ابھی کھانا ہے ۔۔۔ زنگر برگر

ماں : یہ نگوڑ مارا زنگر ٹنگر نہ نکلے تیرے دماغ سے
 
پوتا : دددا آپ آجائیں ناں ۔
 
ماں : بس سمجھ میں ابھی آئی پر زنگر ٹنگر نہ دینے کی 

موبائل بیٹے کو دیتے ہی دوسری بہو کو آواز دی جاتی ہے : ارے  شہناز ذرا میری چادر تو لے آئے ۔

آپ : ( حیرت سے ) چادر کیوں ؟
 
ماں : تیرے ساتھ تیرے گھر جو چل رہی ہوں ۔

آپ : کیا ہو گیا ہے ؟ چلا آپ سے جا نہیں رہا ۔ دوسری منزل تک سیڑھیاں کیسے چڑھیں گی ۔

شہناز چادر لے آتی ہے ۔ بیٹھے بیٹھے چادر اوڑھتی ہیں ۔ شہناز بھی حیران ہے اور جیٹھ سے پوچھتی ہے  : بھائی امی کہاں جارہی ہیں ۔ ان سے تو واش روم جانا دوبھر ہے ۔

آپ : ارے میں نے کب کہا ۔ بس انہوں نے شاہ زیب سے بات کی ہے ۔ ہلکا سا بخار ہے ۔ گھر جانے کا کہہ رہی ہیں ۔

ماں کا رعب سامنے آ گیا : ارے تیرے کہنے سے کیا ہوتا ہے ۔ اب تو مجھے بتائے گا کہ مجھے شزو کے پاس جانا ہے کہ نہیں ۔

آپ : امی ۔۔۔ وہ ۔۔۔ آپ ۔۔۔ سمجھ نہیں رہی ہیں ۔

ماں : سب سمجھ رہی ہوں ۔ چڑھ جاوں گی تیری سیڑھیاں ۔ کیا پہلے نہیں چڑھی ۔۔۔ چل!
اور کسی ایک نہ چلی ۔ ماں چل دی ۔

ماں یونہی تو ماں نہیں ہوتی ۔ وہ اس عمر میں پوتے کی ایک آواز پر جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ کوئی معمولی سا کام پڑ جائے تو سوچتے ہیں ماں سے کل مل لیں گے ۔ آپ کو پتہ ہی نہیں کہ وہ آپ کے آنے کے وقت سے بہت پہلے آپ کا انتظار شروع کر دیتی ہے ۔ آپ نہیں آتے تو اس پر کیا گزرتی ہے ۔ ماں کو اول رکھیں کیونکہ اس کے بغیر آپ نہ مکمل ہیں ۔ 

چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی یے 
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی یے   ( منور رانا)

اور جب ماں دنیا میں نہیں ہوتی یے تو آپ سب کے ہوتے ہوئے بھی اکیلے ہوتے ہیں ۔ ایک ایسا اکیلا پن جس کو رات کی تنہا سسکیاں اور آنکھوں میں نوحہ کناں نمی محسوس کرتی ہے ۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے نظروں سے صدقے اتارتی اور زیر لب دعائیں کرتی ماں کا حصار نہ جانے دن بھر آپ کو کتنی مصیبتوں اور پریشانیوں سے بچاتا ہے ۔

ماں  تیرے  بعد  بتا ، کون  لبوں  سے  اپنے 
وقت رخصت میرے ماتھے پہ دعا لکھے گا

حضرت موسی علیہ السلام کلیم اللہ تھے ۔ کوہ طور پر خدائے بزرگ و برتر سے ہم کلام یوتے تھے ۔ جب آپ والدہ کی رحلت کے بعد کوہ طور گئے تو غیب سے آواز آئی : اے موسی ( علیہ السلام ) ذرا سنبھل کر اب تمھارے لیے دعا کرنے والے لب خاموش ہوچکے ہیں ۔

" ماں سے ملیں کیونکہ ماں دوبارہ نہیں ملے گی "

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...