Wednesday 31 July 2019

2D. My first bus route. I love you. Article# 36


Article # 36


2D ... I love you.


اسکول ، کالج کے آتے جاتے رستوں پر
میری زندگی کا پہلا بس روٹ




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

کراچی میں طبقہ اشرافیہ کے چند ایک لوگوں کو چھوڑ کر تمام اہل کراچی کسی نہ کسی وقت میں بس اور ویگن کے مسافر رہے ہیں۔ میرا دعوی ہے کہ مڈل کلاس طبقہ اشرافیہ (جی ہاں ان میں بھی کلاسز ہوتی ہیں ) کے بچے بھی دوران طالب علمی خاص طور پر 80 کی دھائی تک ان بسوں اور ویگنوں کے مسافر رہے ہیں ۔ اب تو بسیں اور ویگنیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ چنجی لے رہی ہے۔ کراچی کی بسوں ویگون کا اپنا کلچر رہا ہے جس سے اہل کراچی سے بہت لطف اندوز بھی ہوئے ۔ روز کے چھگڑے ، روز کی تفریح ۔ چلتی بس سے اترنا اور اترنا اور اس پر کنڈیکٹر کا ڈھب ڈھب کرنا ۔ مسافر کو ذرا سے بھی خطرہ ہونا تو پوری بس کا چلانا " او بھائی پائیلٹ زرا ہلکی کر لے ، کیا مارے گا"۔

کراچی بڑا شہر ہے اس لئے کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ ہر بس ویگن میں سفر کر چکا ہے۔ ہر ایک کی زندگی میں مخصوض بسیں ویگنیں رہی ہیں۔ ہماری زندگی فیڈرل بی ایریا اور گلشن اقبال میں گذری  ہے ۔ فیڈرل بی ایریا میں رہتے ہوئے ملازمت کا آغاز کیا اور دفتر سے گاڑی نل گئی ۔ بعد میں ذاتی گاڑی زندگی میں آگئی۔ اس لئے 90 کی ابتدائی دھائی کے بعد سفر کا اتفاق کم کم ہوا۔ اسکول کالج اور ملازمت کے ابتدائی سالوں میں بسیں ویگنیں میرے سفر کا ذریعہ رہیں۔ چلتے ہیں یاد رفتگاں کی طرف اور ملواتے ہیں اپنی پہلی سفری محبت  ٹو ڈی بس سے ۔ میں سارا تذکرہ 1975 سے 1984 تک کا کررہا ہوں۔

 صاحبو ! جب زندگی میں ساتھ چلنے والوں کا ذکر خیر کرتا رہتا ہوں تو اس غریب نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس بے زبان سے آنکھیں پھیر لوں ۔ میرے برے وقتوں کی دمساز رہی ہے تو کسی مرحلہ پر مجھے بھی تو اس کا دم بھرنا لازم تھا سو وہ وقت آگیا ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ اسکول کالج کی تپتی دوپہروں میں حبس زدہ ماحول میں بھانت بھانت کے پسینوں کی خوشبووں نے کئی دفعہ ہماری سانس ہی روک دیں ۔ بہرحال برے وقتوں کی اس بس کا قرض اتارنا بھی فرض سمجھتا ہوں حالانکہ ہمیشہ کرایہ دے کر ہی منزل رسید ہوا ہوں ۔

2D

بھٹو صاحب کے زمانے میں جب قومیانے کی ابتدا ہوئی تو اس کے چھینٹے کراچی کے کماو پوت بس روٹس پر بھی پڑے ۔ سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کی گئی اور بڑا میدان ناظم آباد 
  سے چلنے والا  یہ روٹ بھی بحق سرکار چلا گیا ۔  ناچار یہ بس ٹو ڈی کے روٹ پر آئیں اور روٹ نورانی مسجد گراونڈ بلاک 20 فیڈرل بی ایریا  براستہ گلبرگ ، پیپلز چورنگی ، علامہ رشید ترابی روڈ ، امام بارگاہ سجادیہ/ ضیاالدیں اسپتال ، مجاہد کالونی (پرانا روٹ پر بعد میں یہ کالونی اسٹاپ میں نہیں آتی تھی )، پیٹرول پمپ ،ناظم آباد چورنگی ، گولیمار (موجودہ گلبہار) ، گرومندر ، سولجر بازار ، صدر اور ٹاور قرار پایا ۔ پہلے یہ ایک مخصوص رنگ یعنی ڈارک گرے کی تھیں جن میں ایک ریڈ پٹی ہوتی تاکہ آپ دور سے پہچان لیں اور سوار ہونے کے لئے گمر کس لیں۔

سنا ہے کہ  ٹو ڈی بسیں ٹرانسپورٹ انجمن کے رہنما ارشاد بخاری کی تھیں جو کہ ابتدا میں بہت صاف ستھری اور آرام دہ سیٹوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں ۔ بعد میں یہ ہوا کہ جب آپ سفر سے فارغ ہوتے اور بس سے اتر کر دو چار قدم چلتے تو احساس ہوتا کہ سفری دکھ کس کس طرح جسم میں سرایت کر گیا ہے ۔ انگریز بھی کتنا عجیب ہے جہاز میں بیٹھو تو اسے Jet lag کہتا ہے (میں پہلے Jet Leg سمجھتا تھا) اسے کیا پتہ ہماری بسوں کا جیٹ لیگ کہاں کہاں تک اپنے اثر کو چھوڑ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی گورے نے ہماری بسوں میں سفر کے بعد دافع درد گولیوں کا سوچا نہیں ۔ حکیمان شہر جو دنیا کے ہر مرض کا علاج دیواروں پر کئے پھرتے ہیں وہ بھی خاموش ہیں۔  آپ نے کولہو کا بیل سنا ہوگا ۔اگر بس کا سفر لمبا ہو اور شروع میں ہی سیٹ جیسی نعمت مل جائے تو آپ کولھوں کے بیل بن جاتے ہیں۔

خیر جب یہ بسیں اس نئے روٹ پر آئیں تو طالب علموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ واحد روٹ  تھا کہ جو سیدھا ناظم آباد کے تعلیمی اداروں سے ہوتا ہوا جاتا تھا  ورنہ اس سے قبل ناظم آباد جانے کے لئے دو بسیں بدلنا پڑتیں اور صبح کے وقت یہ ایک مشکل ترین کام تھا کہ آپ دو بسیں بدل کر وقت پر اسکول کالج پہنچ جائیں ۔ صبح اور دوپہر میں ان بسوں میں خوب ہی دھکم پیل ہوتی کیونکہ ان اوقات میں یہ مکمل طور پر اسٹوڈینٹس کا روٹ تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ جتنے اسکول اور کالجز اس روٹ پر آتے اگر بندہ روز صرف ان کے پاس سے گزر جائے تو بیچلرز کر لے۔

صبح اس شہزادی کے بڑے نخرے ہوتے اور کیوں نہ ہوتے ایک سے ایک مہ وش ،نازنین اس کی مسافرہ جو ہوتی ۔ شہزادی نورانی مسجد سے چلتی تو گلبرگ آکر رک جاتی اور پیچھے آنے والی دوسری شہزادی کا انتظار کرتی۔ لڑکے بڑی دھب دھب کرتے " چلا دے بھائی اسکول کالج کو لیٹ ہورہے ہیں۔ پوری بس کچھا کھچ بھری ہے ۔اب کیا اپنے سر بٹھائے گا "۔ کبھی ڈرائیور چلا دیتا اور کبھی نہ چلاتا تو تو تتکار ہوجاتی اور گالیوں کے تبادلہ ہوجاتا ۔ یہ بس کم از کم 45 منٹ میں ہمیں ناظم آباد لا پھینکتی۔ ہمارا اسکول پہلی چورنگی ناظم آباد پر تھا ۔اسکول کے بعد جب کالج پہنچے تو پھر یہ ہماری ہمراہی تھی۔ بس یوں سمجھ لیں ہماری تعلیمی زندگی میں اس نے بڑا ساتھ دیا ہے یہ الگ بات ہے کہ بہت بہت رو رو کر ۔

نورانی مسجد کے اس آخری اسٹاپ پر ان بسوں کا ہوٹل تھا۔ پہلے یہی ہوا کرتا تھا۔ جہاں آخری اسٹاپ ہوتا وہاں چھابڑی ہوٹل لازمی تھا۔ ہم اسکول میں تھےتو ہمیں شرارت سوجھی۔ دوپہر کو جب سب بس سے اتر گئے تو ہم نے اپنا بلیک مارکر نکالا۔ پہلے بس کے اندر زگ زیگ کر کے بس کا روٹ کے مشہور اسٹاپ لکھے ہوتے ہیں ہم نے ٹاور کے بعد زگ زیگ کر کے دہلی ، آگرہ وغیرہ لکھنا شروع کردیا۔ حشمت واٹر مین نے ہمیں دیکھ لیا۔ حشمت ایک بوڑھا شخص تھا جو لنگڑا کر کے چلا کرتا تھا۔ واٹرمین کا کام یہ ہوتا کہ جب بس اسٹاپ پر آئے تو اس میں پانی ڈالے۔اب گراونڈ میں وہ ہمارے پیچھے بھاگا ۔ہم کہاں اس کے ہاتھ کہاں تھے۔ بس یہ ہوا کہ صبح کے وقت اس سے چہرہ چھپا کر کھڑے ہوتے۔

نارتھ ناظم آباد میں نیاز منزل اور ظفر منزل کے بیس بیس قدم سے دو اسٹاپ ہیں۔ نیاز منزل کے سامنے جہاں اب میڈیکل کالج ہے اس کے عقب میں لڑکیوں کا مشہور کمپری ہینسیو اسکول ہے۔ پرائیوٹ اسکول اور کالج کا  دور دورہ شروع نہ ہوا تھا۔ صبح اور دوپہر بس پر نازنینوں کا قبضہ ہوتا گو کہ اکثر لڑکے چاھتے کہ یہ قبضہ ان کے دلوں تک پہنچ جائے ۔ دوپہر کو کنڈیکٹر یہ کرتا کہ ناظم آباد کی کالج کی لڑکیوں کو مردانہ حصہ میں آخری سیٹوں پر بٹھا لیتا ۔ کچھ لڑکوں کے مزے آجاتے ۔گیٹ ہی نہ چھوڑتے کنڈیکٹر لاکھ کہے۔ جھگڑتے مگر صاحب ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ۔ گیٹ پر لہراتے رہتے اور اپنی کرتب اور جملہ بازی سے لڑکیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے۔

کچھ لڑکیاں چلبلی سی ہوتیں کبھی کبھار کسی جملہ پر ہنس دیتیں ۔ بس اب سمجھیں لڑکوں میں بہتر سے بہتر جملہ پھینکنے کا مقابلہ شروع ہوجاتا جس میں کبھی بدتہذیبی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا۔ کچھ لڑکے تو اتنا آگے پڑھتے اور کنڈیکٹر سے کہتے کہ اس طرف لڑکی کا کرایہ مجھ سے لے لو۔ کنڈیکٹر ایسا عموما نہ کرتا ۔ کمپری ہینسیو اسکول جب آتا تو پھر تو پوری بس پر لڑکیوں کا قبضہ ہوتا ۔ لژکوں اور بڑی عمر کی مسافروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو جاتی۔ اب لڑکیوں کی کھی کھی شروع ہو جاتی ۔ ہم جیسے نظر جھکاو ایک طرف ہو جاتے۔ عاشق مزاج لڑکوں کی تو لاٹری کھل جاتی

جس طرف آنکھ اٹھاوں تیری تصویراں ہیں۔ تو صاحبو اس طرح ٹو ڈی سے ہمارے ماضی کی یادیں وابستہ ہیں۔ ہم کالج کے لئے میٹرک بورڈ آفس کے اسٹاپ پر اترا کرتے ۔ کالج کے دنوں میں بھی یہی سب چلتا رہا۔ یقین سے کہہ رہا ہوں

کسی لڑکی نے دیکھا نہ آنکھ بھر کا مجھے
گذر  گئی ہر ایک  بس  اداس کر کے مجھے

 ہماری تو خیر دیکھنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تو پھر ہمیں  کوئی کیوں دیکھتا ۔ واجبی سی شکل و صورت اس پر لڑکیوں کو دیکھ کر سمٹ جانے کی بیماری۔ اگر کوئی لڑکی دیکھ لیتی تو شاید ہم بس سے ہی اتر جاتے۔

جس طرح ہر گھر کا ایک فیملی ڈاکٹر ہوا کرتا ہے اسی طرح ہر ایک کی ایک فیملی بس ہوا کرتی تھی   ہماری پرانی رہائش گاہ بھی ٹو ڈی کی رینج میں تھی اس لئے یہ ہماری فیملی بس تھی۔ اب تو شہر میں لاکھوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں آ چکی ہیں۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے سب ہی بسوں میں سفر کیا کرتے۔ اپر مڈل کلاس بھی سینہ چوڑا کر کے بس میں بیٹھتے کوئی جاننے والا مل جاتا تو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلا لیا کرتے۔ خوش ہوتے کہ سفر اچھا کٹ جائے گا۔ محلہ ،خاندان اور گھر کے قصے چھڑ جاتے تو آس پاس موجود لوگ پوری توجہ سے سنتے ظاہر یہ کرتے کہ اس طرف دھیان ہی نہیں۔ بھائی بات یہ تھی کہ انہیں بھی تو اپنا سفر کاٹنا ہوتا۔ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے جو مل رہے ہوتے۔ پہلے کنڈیکٹر کے پاس ایک مخصوص بیگ نما چمڑے کا تھیلا ہوا کرتا جس میں مختلف ٹکٹوں کے پیسے لکھے ہوتے۔ پیسے لے کر وہ ٹکٹ کاٹ کر دیتا جو اس بات کا ثبوت ہوتا کہ آپ نے ٹکٹ لے لیا ہے۔ بعد میں یہ تمام سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب تو وہ ٹکٹ لیتا ہے اور اللہ اللہ خیر سلا ۔

ایک عرصہ ہوگیا ٹو ڈی  سڑک پر نہیں دیکھا ۔  نورانی مسجد سے روٹ آگے کر کے انٹرنیشنل اسٹوڈیو کے سامنے گراونڈ کے سروس روڈ پر منتقل کردیا گیا تھا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ روٹ اب گراونڈ ہو گیا ہو ۔مجھ جیسے کتنے لوگوں کے لئے یہ محض ایک روٹ نہ تھا بلکہ  یادوں کی ایک ایسی پگڈنڈی ہے جس پر سفر کبھی ختم نہ ہوگا ۔ پرانے یار اور پرانی بس کا روٹ بھی بھلا بھول جانے کی چیز ہے۔ گنے چنے پیسوں کے ساتھ اس بس پر سفر نے مجھے یادوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔

سڑک اور بس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوران سفر کیا ہورہا ہوتا ہے۔ اس کی نہایت خوبصورت اور سفاکانہ (بیک وقت)  حقیقت عزیز من عمران شمشاد نے اپنی نظم "سڑک " میں بیان کی ہے ۔اس کا ابتدائی کا ٹکڑا سنیں ۔

سڑک

سڑک مسافت کی عجلتوں میں
گھرے ہوئے سب مسافروں کو
بہ غور فرصت سے دیکھتی ہے
کسی کے چہرے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے
کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہےے

کسی کا ٹائر کسی کے پہیے کو کھا رہا
کسی کا جوتا کسی کی چپل چبا رہا ہے
کسی کے پیروں میں آرہا ہے کسی کا بچہ
کسی کا بچہ کسی کے شانے پہ جارہا ہے
کوئی ٹھکانے پہ کوئی کھانے پہ جارہا ہے
حبیب دستِ رقیب تھامے
غریب خانے پہ جارہا ہے

(عمران شمشاد میرے لئے آخری دو مصرعہ تبدیل کردو تو مزہ آجائے)
حبیب دست کتاب تھامے
کالج پڑھنے کو جا رہا ہے






Tuesday 30 July 2019

وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے ۔ آرٹیکل # 37

Article # 37


وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے ؟

تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)




بارش صبح سے ہورہی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بڑھتی چلی جارہی تھی۔ شام کو بابا کا فون آگیا۔

ہاں میاں ۔۔۔ ابھی تک آفس میں ہو ؟

جی بابا !

بس اب گھر آنے کی کرو۔ سارا شہر جھل تھل ہورہا ہے۔ گھٹنوں گھٹنوں پانی جمع ہے۔

جی مجھے پتہ ہے

کیا پتہ ہے ۔باہر نکل کر روڈوں کا حال دیکھا ہے۔ ابھی میں بڑی مشکلوں سے گھر پہنچا ہوں ۔ تمھارے علاوہ سب بچے گھر آچکے ہیں۔

آپ فکر نہ کریں ۔ میں کسی نہ کسی طرح آجاوں گا

کیسے آجاو گے ۔ روڈ پر بسوں ٹیکسیوں کا نام و نشان نہیں اور ایک بات تو بتاو یہ گاڑئ گھر پر سجانے کے لئے لی ہے کیا ؟ اتنے پیسے ہیں کہ رکشہ ٹیکسی میں آسکو۔

ہو جائیں گے

جیب میں ہوں گے تو ہوں گے۔ بارش کا زمانہ گھر سے زیادہ پیسے لے کر نکلا کرو۔ تمھاری یہ بے دھیانی کی عادت جائے گی نہیں ۔ 

بابا میں نے کہا ناں ہو جائیں گے۔ آفس میں کوئی موٹر سائیکل والا کہیں راستے میں اتار دے گا۔

 کہہ دیا ہے اس سے۔ کہیں وہ تمھیں چھوڑ ہی نہ آئے۔

جی جی کہہ دیا ہے

سنو تمھاری ماں نے آلو بھرے پراٹھے پکائے ہیں ۔ تم آجاو گے تو پکوڑے بھی تل لیں گے۔ بارش رک جائے تو بیوی بچوں کو لے کر آسکو تو آجاتا ۔ گھر پہنچتے ہی فون کرنا کہ گھر پہنچ گئے۔
________________________________________________

ابھی کچھ دیر ہی گذری تھی کہ ٹیلی فون آپریٹر نے کہا کہ آپ کی وائف کا فون ہے 

ارے آپ ابھی تک آفس میں ہیں ۔

بس نکلنے کی کررہا ہوں ۔بابا کا فون بھی آیا تھا۔ امی نے آلو بھرے پراٹھے اور پکوڑے پکائے ہیں۔

اچھا تو کیا سیدھے وہیں جائیں گے ؟ اور میں نے جو آلو کا کسہ اور پوریاں بنا کر رکھی ہیں۔ پہلے بتانا تھا

پہلے کیا بتاتا ۔ابھی بتایا ہے بابا نے 

بابا کا فون دو مرتبہ یہاں بھی آچکا ہے ۔ آپ کا پوچھ رہے تھے

پانچ مرتبہ افس  کال کر چکی ہوں۔اب کہیں جا کر نمبر ملا ہے۔آپ کو تو  خیال ہی نہیں آتا ۔گھر میں بیوی بچے اکیلے ہوں گے۔

ارے بس  ۔۔۔ کیا بتاوں کال کرنے کی سوچ رہا تھا 

اچھا سنیں ۔ پھر میں بچوں کو بھی تیار کرا دیتی ہوں ۔اپنی گاڑی پر ہی چلیں گے ؟

ہاں بھائی بارش میں کون سی سواری ملے گی۔

تو یہ گاڑی گھر میں کھڑی کرنے کے لئے لی ہے کیا ؟ عجیب آدمی ہیں آپ بھی ۔گھر میں گاڑی ہے اور صاحب بسوں میں آ جا رہے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں بیچ ہی دیں۔

بابا بھی یہی کہہ رہے تھے۔

اچھا بس فون رکھیں اور آنے کی کریں ۔ سنیں واپسی پر تھوڑی دیر کے لئے امی کے ہاں بھی ہو لیں گے

ہاں بھائی مکہ جائیں تو مدینہ جانا تو بنتا ہے 
________________________________________________

بارش آج بھی ہورہی ہے۔ روڈوں پر پانی بھی بہت جمع ہوگا ۔ وہ آفس میں ہے اور موبائل فون اس کے ہاتھ میں ہے۔ ایک اشارے میں کال مل سکتی ہے لیکن وہ جانتا ہے اب یہ کالز  نہیں آئیں گی ۔ زمانہ آگے  چلا گیا ہے ۔ اس کے چاھنے والے یہ لوگ ایسی جگہ جا سوئے ہیں جہاں ٹیکنالوجی تمام تر ترقی کے باوجود نہیں پہنچ سکتی ۔

ڈانٹ بھری محبت کے ساتھ ، ہلکی سی ناراضگی میں رچی محبت کے ساتھ ۔

وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا ہوئے۔
_____________________________________________

Sunday 28 July 2019

کراچی میں میرے اسکول کالج کا پہلا بس روٹ آرٹیکل # 36


Article # 36


2D ... I love you.


اسکول ، کالج کے آتے جاتے رستوں پر
میری زندگی کا پہلا بس روٹ




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

کراچی میں طبقہ اشرافیہ کے چند ایک لوگوں کو چھوڑ کر تمام اہل کراچی کسی نہ کسی وقت میں بس اور ویگن کے مسافر رہے ہیں۔ میرا دعوی ہے کہ مڈل کلاس طبقہ اشرافیہ (جی ہاں ان میں بھی کلاسز ہوتی ہیں ) کے بچے بھی دوران طالب علمی خاص طور پر 80 کی دھائی تک ان بسوں اور ویگنوں کے مسافر رہے ہیں ۔ اب تو بسیں اور ویگنیں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور ان کی جگہ چنجی لے رہی ہے۔ کراچی کی بسوں ویگون کا اپنا کلچر رہا ہے جس سے اہل کراچی سے بہت لطف اندوز بھی ہوئے ۔ روز کے چھگڑے ، روز کی تفریح ۔ چلتی بس سے اترنا اور اترنا اور اس پر کنڈیکٹر کا ڈھب ڈھب کرنا ۔ مسافر کو ذرا سے بھی خطرہ ہونا تو پوری بس کا چلانا " او بھائی پائیلٹ زرا ہلکی کر لے ، کیا مارے گا"۔

کراچی بڑا شہر ہے اس لئے کوئی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ ہر بس ویگن میں سفر کر چکا ہے۔ ہر ایک کی زندگی میں مخصوض بسیں ویگنیں رہی ہیں۔ ہماری زندگی فیڈرل بی ایریا اور گلشن اقبال میں گذری  ہے ۔ فیڈرل بی ایریا میں رہتے ہوئے ملازمت کا آغاز کیا اور دفتر سے گاڑی نل گئی ۔ بعد میں ذاتی گاڑی زندگی میں آگئی۔ اس لئے 90 کی ابتدائی دھائی کے بعد سفر کا اتفاق کم کم ہوا۔ اسکول کالج اور ملازمت کے ابتدائی سالوں میں بسیں ویگنیں میرے سفر کا ذریعہ رہیں۔ چلتے ہیں یاد رفتگاں کی طرف اور ملواتے ہیں اپنی پہلی سفری محبت  ٹو ڈی بس سے ۔ میں سارا تذکرہ 1975 سے 1984 تک کا کررہا ہوں۔

 صاحبو ! جب زندگی میں ساتھ چلنے والوں کا ذکر خیر کرتا رہتا ہوں تو اس غریب نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس بے زبان سے آنکھیں پھیر لوں ۔ میرے برے وقتوں کی دمساز رہی ہے تو کسی مرحلہ پر مجھے بھی تو اس کا دم بھرنا لازم تھا سو وہ وقت آگیا ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ اسکول کالج کی تپتی دوپہروں میں حبس زدہ ماحول میں بھانت بھانت کے پسینوں کی خوشبووں نے کئی دفعہ ہماری سانس ہی روک دیں ۔ بہرحال برے وقتوں کی اس بس کا قرض اتارنا بھی فرض سمجھتا ہوں حالانکہ ہمیشہ کرایہ دے کر ہی منزل رسید ہوا ہوں ۔

2D

بھٹو صاحب کے زمانے میں جب قومیانے کی ابتدا ہوئی تو اس کے چھینٹے کراچی کے کماو پوت بس روٹس پر بھی پڑے ۔ سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم کی گئی اور بڑا میدان ناظم آباد 
  سے چلنے والا  یہ روٹ بھی بحق سرکار چلا گیا ۔  ناچار یہ بس ٹو ڈی کے روٹ پر آئیں اور روٹ نورانی مسجد گراونڈ بلاک 20 فیڈرل بی ایریا  براستہ گلبرگ ، پیپلز چورنگی ، علامہ رشید ترابی روڈ ، امام بارگاہ سجادیہ/ ضیاالدیں اسپتال ، مجاہد کالونی (پرانا روٹ پر بعد میں یہ کالونی اسٹاپ میں نہیں آتی تھی )، پیٹرول پمپ ،ناظم آباد چورنگی ، گولیمار (موجودہ گلبہار) ، گرومندر ، سولجر بازار ، صدر اور ٹاور قرار پایا ۔ پہلے یہ ایک مخصوص رنگ یعنی ڈارک گرے کی تھیں جن میں ایک ریڈ پٹی ہوتی تاکہ آپ دور سے پہچان لیں اور سوار ہونے کے لئے گمر کس لیں۔

سنا ہے کہ  ٹو ڈی بسیں ٹرانسپورٹ انجمن کے رہنما ارشاد بخاری کی تھیں جو کہ ابتدا میں بہت صاف ستھری اور آرام دہ سیٹوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں ۔ بعد میں یہ ہوا کہ جب آپ سفر سے فارغ ہوتے اور بس سے اتر کر دو چار قدم چلتے تو احساس ہوتا کہ سفری دکھ کس کس طرح جسم میں سرایت کر گیا ہے ۔ انگریز بھی کتنا عجیب ہے جہاز میں بیٹھو تو اسے Jet lag کہتا ہے (میں پہلے Jet Leg سمجھتا تھا) اسے کیا پتہ ہماری بسوں کا جیٹ لیگ کہاں کہاں تک اپنے اثر کو چھوڑ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی گورے نے ہماری بسوں میں سفر کے بعد دافع درد گولیوں کا سوچا نہیں ۔ حکیمان شہر جو دنیا کے ہر مرض کا علاج دیواروں پر کئے پھرتے ہیں وہ بھی خاموش ہیں۔  آپ نے کولہو کا بیل سنا ہوگا ۔اگر بس کا سفر لمبا ہو اور شروع میں ہی سیٹ جیسی نعمت مل جائے تو آپ کولھوں کے بیل بن جاتے ہیں۔

خیر جب یہ بسیں اس نئے روٹ پر آئیں تو طالب علموں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ واحد روٹ  تھا کہ جو سیدھا ناظم آباد کے تعلیمی اداروں سے ہوتا ہوا جاتا تھا  ورنہ اس سے قبل ناظم آباد جانے کے لئے دو بسیں بدلنا پڑتیں اور صبح کے وقت یہ ایک مشکل ترین کام تھا کہ آپ دو بسیں بدل کر وقت پر اسکول کالج پہنچ جائیں ۔ صبح اور دوپہر میں ان بسوں میں خوب ہی دھکم پیل ہوتی کیونکہ ان اوقات میں یہ مکمل طور پر اسٹوڈینٹس کا روٹ تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ جتنے اسکول اور کالجز اس روٹ پر آتے اگر بندہ روز صرف ان کے پاس سے گزر جائے تو بیچلرز کر لے۔

صبح اس شہزادی کے بڑے نخرے ہوتے اور کیوں نہ ہوتے ایک سے ایک مہ وش ،نازنین اس کی مسافرہ جو ہوتی ۔ شہزادی نورانی مسجد سے چلتی تو گلبرگ آکر رک جاتی اور پیچھے آنے والی دوسری شہزادی کا انتظار کرتی۔ لڑکے بڑی دھب دھب کرتے " چلا دے بھائی اسکول کالج کو لیٹ ہورہے ہیں۔ پوری بس کچھا کھچ بھری ہے ۔اب کیا اپنے سر بٹھائے گا "۔ کبھی ڈرائیور چلا دیتا اور کبھی نہ چلاتا تو تو تتکار ہوجاتی اور گالیوں کے تبادلہ ہوجاتا ۔ یہ بس کم از کم 45 منٹ میں ہمیں ناظم آباد لا پھینکتی۔ ہمارا اسکول پہلی چورنگی ناظم آباد پر تھا ۔اسکول کے بعد جب کالج پہنچے تو پھر یہ ہماری ہمراہی تھی۔ بس یوں سمجھ لیں ہماری تعلیمی زندگی میں اس نے بڑا ساتھ دیا ہے یہ الگ بات ہے کہ بہت بہت رو رو کر ۔

نورانی مسجد کے اس آخری اسٹاپ پر ان بسوں کا ہوٹل تھا۔ پہلے یہی ہوا کرتا تھا۔ جہاں آخری اسٹاپ ہوتا وہاں چھابڑی ہوٹل لازمی تھا۔ ہم اسکول میں تھےتو ہمیں شرارت سوجھی۔ دوپہر کو جب سب بس سے اتر گئے تو ہم نے اپنا بلیک مارکر نکالا۔ پہلے بس کے اندر زگ زیگ کر کے بس کا روٹ کے مشہور اسٹاپ لکھے ہوتے ہیں ہم نے ٹاور کے بعد زگ زیگ کر کے دہلی ، آگرہ وغیرہ لکھنا شروع کردیا۔ حشمت واٹر مین نے ہمیں دیکھ لیا۔ حشمت ایک بوڑھا شخص تھا جو لنگڑا کر کے چلا کرتا تھا۔ واٹرمین کا کام یہ ہوتا کہ جب بس اسٹاپ پر آئے تو اس میں پانی ڈالے۔اب گراونڈ میں وہ ہمارے پیچھے بھاگا ۔ہم کہاں اس کے ہاتھ کہاں تھے۔ بس یہ ہوا کہ صبح کے وقت اس سے چہرہ چھپا کر کھڑے ہوتے۔

نارتھ ناظم آباد میں نیاز منزل اور ظفر منزل کے بیس بیس قدم سے دو اسٹاپ ہیں۔ نیاز منزل کے سامنے جہاں اب میڈیکل کالج ہے اس کے عقب میں لڑکیوں کا مشہور کمپری ہینسیو اسکول ہے۔ پرائیوٹ اسکول اور کالج کا  دور دورہ شروع نہ ہوا تھا۔ صبح اور دوپہر بس پر نازنینوں کا قبضہ ہوتا گو کہ اکثر لڑکے چاھتے کہ یہ قبضہ ان کے دلوں تک پہنچ جائے ۔ دوپہر کو کنڈیکٹر یہ کرتا کہ ناظم آباد کی کالج کی لڑکیوں کو مردانہ حصہ میں آخری سیٹوں پر بٹھا لیتا ۔ کچھ لڑکوں کے مزے آجاتے ۔گیٹ ہی نہ چھوڑتے کنڈیکٹر لاکھ کہے۔ جھگڑتے مگر صاحب ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ۔ گیٹ پر لہراتے رہتے اور اپنی کرتب اور جملہ بازی سے لڑکیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے۔

کچھ لڑکیاں چلبلی سی ہوتیں کبھی کبھار کسی جملہ پر ہنس دیتیں ۔ بس اب سمجھیں لڑکوں میں بہتر سے بہتر جملہ پھینکنے کا مقابلہ شروع ہوجاتا جس میں کبھی بدتہذیبی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا۔ کچھ لڑکے تو اتنا آگے پڑھتے اور کنڈیکٹر سے کہتے کہ اس طرف لڑکی کا کرایہ مجھ سے لے لو۔ کنڈیکٹر ایسا عموما نہ کرتا ۔ کمپری ہینسیو اسکول جب آتا تو پھر تو پوری بس پر لڑکیوں کا قبضہ ہوتا ۔ لژکوں اور بڑی عمر کی مسافروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہو جاتی۔ اب لڑکیوں کی کھی کھی شروع ہو جاتی ۔ ہم جیسے نظر جھکاو ایک طرف ہو جاتے۔ عاشق مزاج لڑکوں کی تو لاٹری کھل جاتی

جس طرف آنکھ اٹھاوں تیری تصویراں ہیں۔ تو صاحبو اس طرح ٹو ڈی سے ہمارے ماضی کی یادیں وابستہ ہیں۔ ہم کالج کے لئے میٹرک بورڈ آفس کے اسٹاپ پر اترا کرتے ۔ کالج کے دنوں میں بھی یہی سب چلتا رہا۔ یقین سے کہہ رہا ہوں

کسی لڑکی نے دیکھا نہ آنکھ بھر کا مجھے
گذر  گئی ہر ایک  بس  اداس کر کے مجھے

 ہماری تو خیر دیکھنے کی ہمت ہی نہ ہوتی تو پھر ہمیں  کوئی کیوں دیکھتا ۔ واجبی سی شکل و صورت اس پر لڑکیوں کو دیکھ کر سمٹ جانے کی بیماری۔ اگر کوئی لڑکی دیکھ لیتی تو شاید ہم بس سے ہی اتر جاتے۔

جس طرح ہر گھر کا ایک فیملی ڈاکٹر ہوا کرتا ہے اسی طرح ہر ایک کی ایک فیملی بس ہوا کرتی تھی   ہماری پرانی رہائش گاہ بھی ٹو ڈی کی رینج میں تھی اس لئے یہ ہماری فیملی بس تھی۔ اب تو شہر میں لاکھوں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں آ چکی ہیں۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے سب ہی بسوں میں سفر کیا کرتے۔ اپر مڈل کلاس بھی سینہ چوڑا کر کے بس میں بیٹھتے کوئی جاننے والا مل جاتا تو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلا لیا کرتے۔ خوش ہوتے کہ سفر اچھا کٹ جائے گا۔ محلہ ،خاندان اور گھر کے قصے چھڑ جاتے تو آس پاس موجود لوگ پوری توجہ سے سنتے ظاہر یہ کرتے کہ اس طرف دھیان ہی نہیں۔ بھائی بات یہ تھی کہ انہیں بھی تو اپنا سفر کاٹنا ہوتا۔ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے جو مل رہے ہوتے۔ پہلے کنڈیکٹر کے پاس ایک مخصوص بیگ نما چمڑے کا تھیلا ہوا کرتا جس میں مختلف ٹکٹوں کے پیسے لکھے ہوتے۔ پیسے لے کر وہ ٹکٹ کاٹ کر دیتا جو اس بات کا ثبوت ہوتا کہ آپ نے ٹکٹ لے لیا ہے۔ بعد میں یہ تمام سلسلہ ختم ہوگیا۔ اب تو وہ ٹکٹ لیتا ہے اور اللہ اللہ خیر سلا ۔

ایک عرصہ ہوگیا ٹو ڈی  سڑک پر نہیں دیکھا ۔  نورانی مسجد سے روٹ آگے کر کے انٹرنیشنل اسٹوڈیو کے سامنے گراونڈ کے سروس روڈ پر منتقل کردیا گیا تھا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ روٹ اب گراونڈ ہو گیا ہو ۔مجھ جیسے کتنے لوگوں کے لئے یہ محض ایک روٹ نہ تھا بلکہ  یادوں کی ایک ایسی پگڈنڈی ہے جس پر سفر کبھی ختم نہ ہوگا ۔ پرانے یار اور پرانی بس کا روٹ بھی بھلا بھول جانے کی چیز ہے۔ گنے چنے پیسوں کے ساتھ اس بس پر سفر نے مجھے یادوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔

سڑک اور بس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوران سفر کیا ہورہا ہوتا ہے۔ اس کی نہایت خوبصورت اور سفاکانہ (بیک وقت)  حقیقت عزیز من عمران شمشاد نے اپنی نظم "سڑک " میں بیان کی ہے ۔اس کا ابتدائی کا ٹکڑا سنیں ۔

سڑک

سڑک مسافت کی عجلتوں میں
گھرے ہوئے سب مسافروں کو
بہ غور فرصت سے دیکھتی ہے
کسی کے چہرے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے
کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہے
کسی کی آنکھیں ہری بھری ہیں
کبیر حد سے ابھر رہا ہے
صغیر قد سے گزر رہا ہے
کسی کا ٹائر کسی کے پہیے کو کھا رہا ہے
کسی کا جوتا کسی کی چپل چبا رہا ہے
کسی کے پیروں میں آرہا ہے کسی کا بچہ
کسی کا بچہ کسی کے شانے پہ جارہا ہے
کوئی ٹھکانے پہ کوئی کھانے پہ جارہا ہے
حبیب دستِ رقیب تھامے
غریب خانے پہ جارہا ہے

(عمران شمشاد میرے لئے آخری دو مصرعہ تبدیل کردو تو مزہ آجائے)
حبیب دست کتاب تھامے
کالج پڑھنے کو جا رہا ہے

Saturday 27 July 2019

میں اداکارہ عظمی گیلانی کو آپ کی طرح نہیں جانتا ۔ آرٹیکل # 35


آرٹیکل # 35


میں اداکارہ عظمی گیلانی کو آپ کیطرح نہیں جانتا





تحریر : اظہر عزمی
ایک اشتہاری کی باتیں

"وارث" میں مستقبل کی وراثت دار قرار پائیں۔ "دہلیز" پر قدم رکھا تو ہر دل میں گھر کرتی گئیں  ۔ "پناہ" سے بے پناہ عزت و احترام حاصل کیا ۔ فن کا "سمندر" ان میں موجزن  ہوا تو "نشمین" کا ایک ایک تنکا جوڑتی چلی گئیں۔

میرا اندازہ ہے کہ چند ایک لوگ اس تعارف نامہ کو پہچان گئے ہوں گئے۔ یہ مختصر تعارف نامہ ایک بڑی فنکارہ کا ہے کہ جنھوں نے اب تک 100 سے زائد ڈراموں میں  ہر کردار کو جزئیات کے ساتھ ادا کرکے اداکاری کو اعتبار بخشا  ہے۔ 1971 سے شعبہ اداکاری سے وابستہ یہ فنکارہ حکومتی سطح پر 1982 میں پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والی پہلی خاتون اداکارہ ہیں۔نام بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ عظمی گیلانی کے علاوہ کون ہوسکتا ہے۔

عظمی گیلانی کا ددھیالی تعلق دلی سے ہے جبکہ ننھیال میرٹھ کی ہے جہاں آپ کی پیدائش ہوئی ۔ ڈپٹی نذیر احمد آپ کے ننھیال سے تعلق رکھتے تھے ۔ پاکستان میں پہلے قیام بہاول پور میں رہا پھر شادی کے بعد  لاہور منتقل ہوئیں اور اب آسٹریلیا ان کا مستقر قرار پایا ہے گو کہ اداکاری کے سلسلہ میں آپ کا پاکستان میں بھی قیام رہتا ہے۔ مسز گیلانی جب ساتویں جماعت میں تھیں تو ایک اخبار میں عظمی ظہیر الدین کے نام سے کہانیاں لکھا کرتی تھیں ۔ تحریر کی یہ خداداد صلاحیت  یقینا ان کے ننھیال سے ودیعت ہوئی ہوگی۔

ان عظمی گیلانی کو میں بھی 1991 تک جانتا تھا اور ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا ایک زمانہ کی طرح معترف تھا ۔ وہ تو یوں کہیئے کہ ایڈورٹائزنگ میں آنا ہوا اور 1991 میں جن عظمی گیلانی سے ملا ۔ وہ اداکارہ نہیں بلکہ ایک ایڈورٹائزر تھیں اور بلیزون کے تین پارٹنرز میں سے ایک تھیں۔ کراچی میں بلیزون آصف صاحب (آصف رضا میر) اور حبیب ہاشمانی دیکھا کرتے تھے جبکہ بلیزون لاہور مسز گیلانی (آفس میں عظمی گیلانی کوئی نہ کہتا تھا) ۔ مسز گیلانی کا کراچی آنا جانا رہا کرتا تھا ۔ جب کراچی میں ہوتیں تو کلائنٹ سے میٹنگ میں مکمل پیشہ ورانہ انداز میں شریک ہوتیں اور دور دور تک اداکارہ عظمی گیلانی کا شائبہ نہ ہوتا۔

بلیزون میں ملازمت ملنے کی بھی بہت مختصر سی داستان ہے۔ جب یہ ایجنسی شروع ہوئی تو ونگز کمیونیکیشنز سے مشہور اسکیچ آرٹسٹ منو بھائی ( منو پی باڑیا) وہاں چلے گئے۔ آصف صاحب اور مسز گیلانی پہلے میڈاس کراچی میں ہوا کرتے تھے۔ میڈاس غلام اکبر صاحب نے قائم کی تھی اور غالبا انہوں نے ہی ٹی وی آرٹسٹوں کو اس شعبہ میں ملازمت کی راہ دکھائی تھی۔  میڈاس کے بعد آصف صاحب،مسز گیلانی اور حبیب ہاشمانی صاحب نے مل کر بلیزون قائم کی۔ ابتدا میں ہی یہ ایجنسی ترقی کی منازل طے کرتی گئی۔ اس ایجنسی کی خاص بات اس وقت یہ تھی کہ یہ جوان خون مطلب نوجوان ملازمین پر مشتمل تھی۔

 ہم نے بھی 1998 -90 میں منو بھائی ( منو پی باڑیا ) کے ذریعے ملازمت کی کوشش کی مگر بلیزون میں انٹرویو تک کے لئے نہ پہنچ پائے۔  ونگز کمیونیکیشنز سے ہوتے ہوئے میکسم ایڈورٹائزنگ پہنچے تو ایک دن بلیزون کے کریٹیو مینجر زیب ڈیل کی کال آگئی ۔ اندھا کیا چاھے دو آنکھیں ۔  پہنچ گئے ۔ پتہ چلا کہ کام دیکھنے کے لئے ایک دو کام کر کے دکھانے ہوں گئے۔ یہ مرحلہ باآسانی پار کیا اور ملازمت پر چڑھ دوڑے۔ چند روز بعد مسز گیلانی کراچی تشریف لائیں ۔ تعارف کرایا گیا (تعارف کیا جناب سیدھا سیدھا نام بتا دیا گیا ۔ ہم نے ایڈورٹائزنگ میں ایسے کون سے تیر چلا دیئے تھے کہ کامیابیوں کا طومار پیش کیا جاتا )۔ مسز گیلانی اپنے ہنس مکھ چہرے کے ساتھ ملیں اور اپنی کتاب " ع سے عورت ،م سے مرد" دستخط کے ساتھ دی ۔جہاں تک مجھےیاد پڑ رہا ہے اس کا فلیپ محترم احمد ندیم قاسمی نے لکھا تھا جو یقینا کتاب کی اہمیت اور مسز گیلانی کی علمی شخصیت کا اعتراف تھا۔

دوران ملازمت مسز گیلانی سے گاھے گاھے ملاقات رہی اور ان کی پر اثر شخصیت کے پرت کھلتے چلے گئے۔ کلائنٹ کے ساتھ میٹنگز میں آپ کی شرکت بہت کارگر ثابت ہوتی ۔ ایک مرتبہ آصف صاحب ، مسز گیلانی اور میں سائٹ ایریا ایک  کلائنٹ سے میٹنگ کے لئے جارہے تھے۔ ناظم آباد پہلی چورنگی کے علاقہ سے گذر رہے تھے کہ مسز گیلانی کو کسی وجہ سے کار کا شیشہ نیچے کرنا پڑ گیا۔ روڈ پر ٹریفک کا رش تھا۔ لوگوں نے دیکھ لیا ۔

اب صورت حال یہ کہ ایک طرف لوگ بس کے شیشے سے جھانک رہے ہیں اور مسز گیلانی کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ۔کچھ حیرت سے دیکھے چلے جارہے  ۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ساتھ ہی ایک گدھے گاڑی والا جا رہا تھا۔ اس نے جو مسز گیلانی اور ذرا جھانک کر دیکھا تو ڈرائیونگ سیٹ پر آصف صاحب کو بیٹھے دیکھا تو گدھا گاڑی کو مارے خوشی کے بیچ روڈ پر ہی لگا کر  دونوں کو دیکھنے لگا۔  ہارن پر ہارن بجنا شروع ہوگئے۔ باہر ٹریفک جام ہوچکا تھا اور میں اندر صورت حال سے محظوظ ہورہا تھا۔  مسز گیلانی کا آرٹسٹ جاگ چکا تھا ۔ وہ دور سے ہاتھ ہلانے والے ہر ایک شخص کو مسکرا مسکرا دیکھ رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے آصف صاحب نے گاڑی نکالی اور ہم کلائنٹ کے پاس پہنچے ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کیبل کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا اور ہمارے آرٹسٹ پرستاروں  کے دلوں میں بستے تھے اور ہمارے آرٹسٹ بھی اپنے پرستاروں سے اسی قدر والہانہ محبت کیا کرتے تھے۔ منہ بسوڑ کر چہرہ دوسری طرف نہ کر لیا کرتے تھے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بلیزون لاہور کا کام بھی کرنا پڑ جاتا ۔ ایک دن مسز گیلانی کا فون آیا کہ مجھے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ایک تقریب میں تقریر کرنی ہے۔ایک مختصر مگر جامع تقریر لکھ دو۔ ہم نے قلم اٹھایا اور چلا دیا ۔پہلے تو دو بچے ہی اچھے کے لئے دلائل دیئے اور پھر آگئے اپنی ڈھب پر اور تقریر کا اختتام اس شعر پر کردیا ۔

ایک بیوی ہے چار بچے ہیں
عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں

مسز گیلانی کی کچھ دیر بعد کال آئی ، مسکرا کر بولیں " یہ تم اپنی چلبلی طبیعت سے باز نہیں آو گئے۔ آخری شعر کی کیا ضرورت تھی"۔ میں نے کہا کہ مسز گیلانی یہ جملہ لائٹر ٹون میں ہے۔ لوگ محظوظ ہوں گئے۔ مان گیئں اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے یہ شعر اپنی تقریر میں پڑھ دیا ہوگا۔

میری شادی ہوئی تو نہ صرف خاص طور پر لاہور سے بارات میں شرکت کے لئے آئیں بلکہ بلیزون لاہور کی طرف سے تحفہ بھی ساتھ لائیں ۔ یہ اس زمانہ میں بلیزون کا کلچر ہوا کرتا تھا کہ سالگرہ، شادی وغیرہ میں پورا بلیزون کسی نہ کسی طرح شریک ہوتا ۔  شادی کے بعد جب میں اہلیہ کے  گھومنے گیا تو اصرار کیا کہ تم میرے ہاں ہی رکنا ۔ میں وہاں نہ رکا اور شام کو سیدھا ہوٹل چلا گیا ۔ والد صاحب نے لاہور مسز گیلانی کے ہاں فون کردیا کہ میں وہاں پہنچا کہ نہیں۔ رات ہوٹل سے مسز گیلانی سے بات ہوئی تو والد صاحب کے فون کا بتایا اور نہ آنے پر خفگی کا اظہار کیا۔ کہنے لگیں کہ میں صبح گاڑی بھیج دوں گی۔ آپ یہاں تشریف لے آئیں ۔ یہ مسز گیلانی کی محبت اور اپنائیت تھی جو وہ ہر ایک کے ساتھ روا رکھتی تھیں۔

مسز گیلانی نے اپنی سوانح عمری " جو ہم پہ گذری " لکھی ۔  یہ نام مشہور مزاح نگار انور مقصود نے تجویز کیا ۔ مسز گیلانی سادہ طبیعت ہیں ۔ آپ ان سے ملیں تو ان کے رویہ سے قطعا احساس نہ ہوگا کہ آپ اپنی ذات میں ادارہ کا درجہ رکھنے والی اداکارہ سے مل رہے ہیں۔

مسز گیلانی کیسی اداکارہ ہیں ؟ رموز اداکاری سے کتنا واقف ہیں ؟ تو جناب میں کس گنتی میں آتا ہوں کہ لب کشائی کروں ۔ اداکاری سے متعلق میرا ذاتی خیال اور تجزیہ یہی ہے کہ منجھا ہوا اداکار وہ ہوتا ہے کہ جس میں اسے دیا گیا کردار بولے ، اداکار نہ بولے ۔ آجکل ڈارمہ دیکھ کر لگتا ہے کہ کردار کوئی بھی ہو اداکار بول رہا ہوتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی آپ ہوٹل چلے جائیں تو ہر کھانے کا مزہ ایک سا ہی ہوتا ہے۔۔ عظمی گیلانی (یہاں مسز گیلانی نہیں لکھوں گا ) کا کوئی ڈرامہ دیکھ لیں اس میں کردار بول رہا ہوتا ہے۔

 میرا رابطہ تو مسز گیلانی سے بطور پروفیشنل شخصیت  رہا ہے ۔ اتنا جانتا ہوں کہ وہ  ایڈورٹائزنگ میں آئیں تو سنجیدگی اور متانت کے ساتھ ایک گہرا اثر چھوڑ گئیں۔ سادہ سی ساڑھی میں ملبوس ، میک اپ سے بے نیاز مسز گیلانی ہر انداز میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا ہنر جانتی ہیں۔ یہ وصف خدا ہر ایک کو نہیں دیتا۔

مسز گیلانی درحقیقت اداکاری میں سربلند ہونے کے ساتھ ساتھ کینسر جیسے مرض کو شکست دے کر ہمت و حوصلہ مندی کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی ہیں۔ مسز گیلانی سے ملے مجھے سالوں بیت گئے ہیں مگر اب جب لکھنے بیٹھا ہوں تو لگتا ہے کہ کچھ دیر پہلے ہی میٹنگ سے آکر اپنی کرسی پر بیٹھا یہ سب لکھ رہا ہوں ۔ ذہن کے پردے پر سب کچھ تازہ بہ تازہ ہے بالکل  مسز گیلانی کی دلاویز مسکراہٹ کی طرح ۔

Monday 22 July 2019

سردار فضل عباس انقلابی ۔ ایسے انقلابی روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔ آرٹیکل # 34


Article # 34


اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی


سردار فضل عباس انقلابی


ایسے انقلابی روز روز پیدا نہیں ہوتے ۔


تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)



نام سنکر پہلی بات یہی ذہن میں آتی ہے کہ وطن عزیز میں یہ کون سا سردار ہے جو انقلابی ہے۔ چلیں بالفرض محال سردار کو ایک طرف رکھدیں تو لگے گا کہ یہ کوئی بہت بڑے سوشلسٹ یا کمیونسٹ رہنما ہیں  جنہوں نے اپنے اصولوں کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں ۔ ممکن ہے کسی پارٹی کے صوبائی رہنما کا تاثر ملے ۔ چلیں یہ تو لگے گا ہی کہ نئی نسل میں سوشلزم اور کمیونزم کے حوالے سے آپ کی فکری نشستیں کتنے نوجوانوں کی زندگیاں بدل چکی ہوں گی ۔ صبح و شام میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب رہا ہو گا ۔

شخصیت کا تعارف خاصا مشکل مرحلہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مضمون کہاں سے باندھوں کہ ان کے شایان شان ہوسکے۔ چلیں ، غیر منقسم ہندوستان کے شہر علی گڑھ  کے قصبہ جلالی چلتے ہیں کہ جہاں آپ کے دادا سید اعجاز محمد تھانیدار ہوا کرتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جہاں وہ نہ پہنچ پاتے وہاں ان کا بید لے جایا جاتا اور کام بن جاتا ۔ اس طرح آپ کو سردار فضل عباس انقلابی کے خاندانی جاہ و حشم کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا اور اس طرح آپ کو استبدادی نظام کے خلاف ان کی شخصیت کی جامعیت کا ادراک ہو سکے گا۔ جلالی کے حوالے سے تو اردو ادب میں استاد قمر جلالوی اور شکیب جلالی سے کون واقف نہ ہوگا۔ افتاد زمانہ کہہ لیں کہ سردار شہرت کے اس منصب پر فائز نہ ہوسکے۔

قیام پاکستان کے بعد سردار کے والد ۔ایک چچا اور پھوپھی سندھ کے شہر خیرپور میرس کے ایک قصبہ بنگلہ میں قیام پذیر ہوئے۔ کچھ عرصہ قیام کے بعد یہ خاندان خیرپور میرس آگیا۔ یہیں سردار کی ولادت باسعادت ہوئی۔ یہ 60 کے عشرے کے ابتدائی سال ہونگے ۔ والد نے فضل عباس نام رکھا۔  ہماری خوش نصیبی کہ ہم ان کے پھوپھی زاد بھائی کے اعزاز سے سرفراز ہوئے اور ہم عصر کہلائے۔

 ضمنا عرض کردوں کہ بچپن میں ہر سال جون جولائی میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ساحل پر آباد شہر کراچی سے آگ برساتے خیرپور روتے دھوتے جاتے اور جب تک وہاں رہتے یہی حال رہتا ۔ ماموں بہت خیال رکھتے ۔ہر خواہش جھوٹے منہ بھی کہہ دیتے تو پوری ہوجاتی ۔ فضل عباس بھی ہمارے دل بہلانے میں لگے رہتے ۔ شہر میں دو سینما تالپور ٹاکیز اور جاوید ٹاکیز تھے۔ جہاں روئے سینما ہال بٹھا دیئے گئے ۔ میں ان فلموں کو فلمیں دیکھنا نہیں کہتا ۔ بس سمجھ لیں رونے کا وقفہ کہہ سکتا ہوں ۔ دو فلموں کے نام ذہن میں رہ گئے ہیں ۔ خیبر میل ( اسلم پرویز) اور پتر پنج دریا واں دا (لالہ سدھیر) ۔

فضل عباس کا پیار کا نام دنی ہے (د پر پیش لگا کر پڑھیں)۔ پروردگار چھوٹے شہروں کی مہمان نوازی سے بچائے۔ مہمان اپنے میزبان کی مرضی کے بغیر کہیں جانا تو دور کی بات میزبان کی مرضی کے بغیر بات بھی نہیں کرسکتا ۔ یہی حال فضل عباس کا تھا ۔ بہت چھوٹے تھے مگر چھوٹے شہر کے بڑے مہمان نواز تھے۔ ویسے بھی ہمارے ننھیال کا غصہ اور ازخود روٹھ جانا مشہور ہے۔ آپ وجہ ہی تلاش کرتے رہ جائیں کہ وجہ کیا ہے۔ سو ننھیال کی یہ خوبی ان میں بھی بدرجہ اتم موجود تھی۔

عمر کا پہیہ گھومتا رہا۔ اسکول سے کالج آئے۔ فضل عباس کا داخلہ خیرپور کے پولی ٹیکنک میں ہوگیا ۔ طبیعت سیلانی، خیرپور کا مخصوص ماحول اور کراچی میں پڑھنے کی چاہ انہیں کراچی کھینچ لائی اور ہمارے گھر قیام پذیر ہوئے۔  یہاں ان کی شخصیت کے پرت اور ہماری تفریح کی عادت نے تاریخی واقعات کو رقم کیا ۔ ہماری تین افراد کی تکون تھی ۔ فضل عباس ، نجمی مرحوم اور میں ۔ کوئی نہ کوئی تفریح لازمی تھی ۔

 کوئی دن جاتا کہ کوئی واقعہ نہ ہوتا ۔ جیب میں نہیں دھیلا ، دیکھنے چلے ہیں میلہ ۔ ایک مرتبہ بابرہ شریف کی فلم مس ٹینا عرشی سینما میں لگی ۔ ایک نیا آئیڈیا آیا۔ کتابوں کی دکان سے ایک روپے کی چندے کی چھوٹی رسید لی اور نکل پڑے ۔سب سے پہلے پہنچے راجہ طاہر کے پیٹرول پمپ اور کہا کہ صابری برادران کی قوالی کا پر وگرام میدان میں رکھا ہے ۔چندہ برائے فلم شروع ہوگیا۔ ایک جگہ پھنس گئے۔ چندہ دینے والے نے پروگرام میں شرکت کا اظہار کیا ۔ وہ اصل صابری برادران سمجھ رہا تھا ۔ ہم نے صابری برادران کورنگی والے کہہ کر جان چھڑائی۔ پیسے جمع ہوئے اور سکون سے فل ریفریشمنٹ کے ساتھ فلم دیکھ کر آئے ۔ دنی کی اس وقت کی صحت کے بارے میں  بالامبالغہ یہ کہا کہا جا سکتا ہے کہ مزید دبلا ہونے کی گنجائش نہ تھی اس پر طرہ یہ کہ چست قمیض شلوار کے ساتھ پہنا کرتے تھے۔

چست قمیض پر یاد آیا ۔ ہمارے کالج کے دنوں میں کیری پیکر نے دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ میچوں کا آغاز کیا ۔ ہم نے بھی محلے میں ایک ٹورنامنٹ  شروع کردیا ۔ اتفاق سے ٹیمیں بھی آگئیں اور ٹورنامنٹ جم گیا۔ ٹورنامنٹ کا فائنل ہورہا تھا اور مقامی کیری پیکر (دنی) انتظامات کے سلسلہ میں مصروف تھے کہ ان کے لباس کو دیکھکر ایک لڑکے نے اونچی آواز میں کہہ دیا " سنا ہے کمریہ نہیں ہوتی ان کے ، نہ جانے پاجمیہ (پائجامہ) کدھر باندھتے ہیں" بس بھائی آگئے جلال میں بولے ابھی لاتا ہوں کلھاڑی۔ میں نے کہا کہ یہ میچ کھلاڑیوں کا کلھاڑیوں کا نہیں ۔
فائنل کے بعد جو ٹرافی دی گئی وہ پرانی قلعی کرائی گئی تھی اور قلعی بھی اتنی خراب تھی کہ فائنل والے دن ہی اتر گئی جس ٹیم نے میچ جیتا وہ فٹبال کی طرح کک لگا کر ٹرافی لے گئی اور پاجمیہ پاجمیہ کے نعرے فضا میں گونجتے رہے لیکن اب دنی صاحب پودینے کا پانی پیئےگھر میں بیٹھے تھے۔ اصل میں جو رقم بچی تھی اسے نہاری وغیرہ کھا کر خرچ کرنا تھی۔

فضل عباس خیرپوریئے ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی سے وابستہ نہیں رہے۔ فضل عباس کا سیاسی فلاسفہ تعلقات کے اردگرد گھومتا تھا ۔ یہ جنرل ضیا الحق کا زمانہ تھا۔ خیرپور میرس سے تعلق رکھنے والے غوث علی شاہ وزیر اعلی سندھ تھے۔ اس لئے ان کی سیاسی قربت  وہیں نکلتی تھی۔ فضل عباس کے سیاسی تجزئیے آج بھی گزرے دنوں کی طرح بے راگ ہیں ۔ ایک زمانے میں ان کا سیاست سے اخباری تعلق بھی رہا ۔ ہم نے اخبارات میں نام چھپانے کی غرض سے ایک کاغذی تنظیم بنا ڈالی ۔ یاد رہے کہ زمانہ جنرل ضیا کا تھا ۔ جنرل سیکریٹری کے لئے آپ کا نام نامی ذہن میں آیا ۔ نام میں کوئی سیاسی تپش نہ تھی اور بغاوت کی بو نہیں آرہی تھی اس لئے فضل عباس انقلابی نام تجویز کیا گیا اور یوں آپ انقلابی کہلائے۔ سردار کب لگا یہ بھی بتا دیا جائے گا تاکہ نام مکمل ہوسکے۔

ایک دن امن اخبار ایک بیان لے کر گئے۔ وہاں موجود ایک صاحب نے بیان لیا اور اچٹتی ہوئی نظر ڈال کر کہا کہ آپ میں سے انقلابی کون ہے؟ ہم نے فضل عباس کی طرف اشارہ کردیا ۔فضل عباس کا ڈیل ڈول دیکھکر ان صاحب نے بڑا تاریخی جملہ کہا " اگر آپ انقلابی ہیں تو جنرل ضیا کو یقین ہوجانا چاھیئے کہ اس ملک میں دس سال تک کوئی انقلاب نہیں آسکتا "۔

طالب علمی کے زمانے میں جب آپ کا قیام ہمارے گھر تھا تو کالج کے بعد  زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزرتا ۔اس زمانے میں ایک لڑکئ آتے جاتے محلہ کے لڑکوں سے تفریح لیا کرتی۔ اب سوچیں اگر لڑکی چلبلی مزاج کی ہو تو اس کی کہی ہر بات آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ فضل عباس  کی صحت ظالمہ کو دیکھتے ہوئے اس لڑکی نے ان کا نام موریناگا رکھدیا ۔ یہ اپنے وقتوں کے شیر خوار بچوں کا مقبول ترین دودھ تھا۔ اس لڑکی نے نام رکھا تو رکھا مگر مشتہر کرنے کا ایک نیا طریقہ بھی وضع کرلیا ۔ اس زمانے میں پی ٹی وی آیا کرتا تھا جس کے لئے چھت پر لمبا بانس لے کر اینٹینا لگا دیا جاتا ۔لڑکئ نے اینٹینے کے ساتھ ہی موریناگا کا ڈبہ لٹکا دیا ۔ اب دنی صاحب کی شہرت گلی گلی پھیل گئی ۔ بظاہر لاتعلقی  کا اظہار کرتے لیکن بات وہی تھی کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔

اگر راہ چلتے کوئی اتفاق سے 5 سکینڈ بھی دیکھ لے تو ہاتھ سے لعنت دکھا کر پوچھتے " بھیڑاں دیکھتا کیا ہے ؟ "۔ کبھی کبھی معاملہ دب جاتا اور کبھی دب دبا دب ہوجاتی ۔ بس ساتھ چلتے ہوئے یہ پتہ نہ ہوتا کہ کون کتنا سلامت باقی آتا ہے۔ سینما ہال جب بھی گئے فلم کا ٹکٹ لیتے ہوئے یہی دعا رہی کہ ٹکٹ بہ حفاظت کٹ جائیں ۔ ایک دفعہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ لائن لگنے پر اکڑ گئے۔ اس زمانے میں ہمارے لمبے تڑنگے شیدی بھائی سینما میں مالکان کی جانب سے امن و امان قائم رکھنے کے لئے رکھے جاتے۔ان کی شخصیت اور انداز گفتگو ایسا ہوتا ہے کہ آپ میں شرافت کی آخری رمق تک جاگ اٹھتی۔ ایک دن ہماری خاطر تواضع کردی گئی مگر سردار کے خراش تک نہ آئی ان کا حصہ بھی ہمارے حصہ میں آیا۔

فضل عباس انقلابی کا ایک اور نام جو ہم نے رکھا وہ سردار تھا۔ انقلابی نام کی لو کچھ کم ہوئی تو یہ نام ضو دینے لگا۔ اب پرانے جاننے والے انہیں سردار ہی کہتے ہیں۔ فضل عباس ڈپلومہ کے دوران ہی کراچی سے واپس خیرپور منتقل ہوگئے جہاں سے انہوں نے تعلیم مکمل کی اور واپڈا خیرپور میں ملازم ہوگئے یہاں  سے ان کے شاندار مالیاتی دور کا آغاز ہوا۔ کراچی آتے تو ٹیکسی سے کم بات نہ کرتے۔ صدر کوآپریٹیو مارکیٹ کی دکانوں سے ایک ساتھ دس دس کھدر کے سوٹ خرید لیتے ۔ہم ساتھ ساتھ ہوتے۔ باہر کھانا کھاتے۔ اس وقت کے وزیر اعلی سید غوث علی شاہ سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ کبھی کبھی وزیر اعلی ہاوس جانا ہوتا ۔ایک دو بار ہم نے بھی سائیں (فضل عباس یہی کہا کرتے تھے) سے ملاقات کی۔

ایک مرتبہ ایک عزیزہ کا انتقال ہوا تو بولے کہ دیکھو بھائی تدفین  اور سوئم تک تو میں نے سب سیٹ کرادیا ہے ۔ سیاسی لوگ آئے، وزراء آئے، پولیس کے اعلی افسران آئے۔ نیچے کے معاملات تو میں نے دیکھ لئے ۔ اب اوپر (عالم بالا) کے معاملات مرحومہ کو خود دیکھنے ہوں گے ۔میرے تعلقات کی پہنچ وہاں تک نہیں ۔

کئی سال پہلے خیرپور میرس سے مستقل کراچی منتقل ہوئے۔ واپڈا سے ملازمت چھوٹی تو بینک میں ملازم ہو گئے۔ میں نے کہا کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئے ۔ایک دن کال کی تو بولے کہ اسکردو میں ہوں ۔ میں بڑا حیران ہوا کہ وہاں کیسے پہنچ گئے۔بولے مجھے خود پتہ نہیں چلا کہ کیسے پہنچ گیا ۔ میں حیران کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص اسکردو پہنچ جائے اور وہ کہے کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا ۔اب ذرا سنیں انہوں نے تفصیلات کیسے بتائیں ۔ ممکن ہے کچھ الفاظ آگئے پیچھے ہوں مگر یہ سب انہی کی زبانی معلوم ہوا۔ بولے صبح اٹھے ۔بینک سے فون آیا کہ گاڑی لینے آرہی ہے اور یہ کہ جو کام آپ کو دیا گیا ہے۔اس کے کاغذات ساتھ ہی رکھ لیں ۔میں نے کاغذات لئے۔کام بہت ارجنٹ تھا۔ کسی طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ائیر پورٹ آگیا ۔ میں نے کہا چلو ائیرپورٹ تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ بورڈنگ کارڈ تو لیا ہوگا۔ بولے وہ ہمارا اسٹاف پہلے ہی لے چکا تھا ۔ میں نے کہا کہ ائیرپورٹ کی بلڈنگ اور آفس بلڈنگ کا فرق بھی آڑے نہ آیا ۔ بولے بھائی سر کھجانے  کی فرصت نہ تھی ۔ دو تین لوگ ساتھ بیٹھے تھے۔ باتیں کرتے کرتے میں جہاز کی سیٹ پر جا بیٹھا اور سمجھا کہ آفس سیٹ پر ہوں۔

میں اس تجاہل عارفانہ پر فدا ہوئے جارہا تھا مگر چاہ رہا تھا کہ اسکردو چھوڑ ہی آوں۔ میں نے کہا چلیں مان لیا لیکن اسلام آباد پر تو جہاز سے اترے ہوں گے۔ گویا ہوئے کہ بھائی کب جہاز سے اترے کب دوسرے میں بیٹھے کاموں نے اس کا موقع ہی نہ دیا ۔ وہ تو جب ہم اسکردو اترے اور ٹھنڈ لگی تو احساس ہوا کہ یہ کراچی تو نہیں ۔ تب پتہ چلا کہ ہم اسکردو میں ہیں۔ اب آپ مجھے خدا لگتی بٹائیں کہ کیا کسی میں اتنا جگرہ ہے کہ کراچی سے بہ ہوش و حواس اسکردو چلا جائے اور پتہ نہ چلے ۔ یہ سردار فضل عباس انقلابی کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ اس سے بہتر کوئی انقلاب برپا کر سکتا ہو تو بتائیں۔ کیا اپ اپنے نام کی عملی تفسیر نہیں۔

فضل عباس کو تعلقات بنانے کا ہنر آتا ہے۔ محفل پسند آدمی ہیں۔ ذرا سی دیر اپنی باتوں سے محفل کو اپنی جانب  کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ جس محفل میں وہ ہوں وہاں ان کے دلچسپ واقعات ہوتے ہیں اور ہر کوئی ہمہ تن گوش ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں ہنگامہ کوئی بھی ہو گولی ان کے کان کو چھو کر گزرتی ہے۔ قصوں سے مزاح کی پھجڑیاں چھوٹتی رہتی ہیں۔ اب ماشاءاللہ پنجہ وقتہ نمازی ہوگئے ہیں مگر زیب داستاں  کے لئے اب بھی مجمع دیکھکر پرانی ڈھب پر آجاتے ہیں۔

 مزاج میں کسی قدر تعویز پسندی کا غلبہ ہوتا جارہا ہے۔ سندھ کی ایک بڑی درگاہ کے سجادہ نشین سے علیک سلیک ہوچلی ہے۔ ہر سال کی کئی جنتریاں گھر میں موجود ہیں جس سے وہ اپنے ہاں آنے والوں کو نیک و بد بتائے دیتے ہیں۔ ستاروں کی چال سے بندے کا حال بتا دیتے ہیں۔ واٹس اپ کے ڈریعے دعائیہ کلمات اور اقوال بیھجنا معمولات میں شامل ہو چکا ہے۔علم جعفر سے بھی رغبت  ہوچکی ہے ۔ میری دعا ہے سردار فضل عباس انقلابی جب پرانے یاروں میں بیٹھیں تو پرانے والے سردار فضل عباس انقلابی رہیں ۔ دنیا بدل گئی ہے بس تم نہ بدلو۔

Monday 8 July 2019

آصف رضا میر نے دی ڈاکیومینٹری اور ہم نے چلادی قینچی ۔ آرٹیکل # 33


Article # 33


آصف رضا میر نے دی ایک ڈاکیومینٹری
اور ہم نے چلا دی آڈیو پر قینچی



تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

کچھ لوگ اس انداز سے بات کرتے ہیں کہ سامنے والا ان سے مرعوب یا متاثر ہوجاتا ہے ۔ ہمارے اپنے ساتھ ایک بڑی برائی یہ رہی کہ ذرا سی بھی معلومات اگر بغیر کسی اضافت کے بھی بتائیں تو یہ تاثر آنے لگتا ہے کہ ہم آگے کی چیز ہیں ۔  لوگ چاھتے ہیں کہ یہ خوبی ان میں آجائے مگر ہم تو یہ ساتھ لے کر دنیا  میں آئے ہیں۔ اپنی اس خوبی یا خامی کو آپ جو بھی کہہ لیں ۔ کبھی کبھی بڑے برے پھنستے بھی ہیں اور کبھی کبھی تعریفوں کے پل بھی باندھے جاتے ہیں  اورکبھی بڑے بڑے جاں گسل پلوں سے بھی گذرنا پڑتا ہے ۔ اگر گر جائیں تو کوئی اٹھانے بھی نہیں آتا ۔ واقعہ میں سنا دیتا ہوں ، فیصلہ آپ سنا دیجئے گا۔

1991-2 کی بات ہے ۔ ایجنسی بلیزون ایڈورٹائزنگ ہے اور علاقہ ڈیفنس فیز II ایکسٹینشن ہے ۔  دوپہر کا وقت ہے ۔ میں کسی کام ( کھانے کے بعد پان ہی لینے گیا تھا) سے گراونڈ فلور پر ہی تھا کہ ریسیپشنسٹ شہناز محمد علی کی آواز آئی " اے تجھ سے آصف صاحب بات کریں گے" اور یہ کہہ کر کریڈل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔  وہ وہاں سے گویا ہوئے "آپ کو معلوم تو ہوگا کہ کل کلائنٹ کی نئی گاڑی کی لانچنگ سیریمنی ہے "۔ میں کہا کہ جی معلوم ہے۔ بولے " ایمرجنسی ہوگئی ہے ۔کل کی تقریب میں ایک ڈاکیومینٹری بھی دکھائی جانی ہے   وہ ہے تو انگلش میں مگر اب اس کی آڈیو اردو میں ہوگی" ۔ میں نے سوچا کہ اتنے کم وقت میں اردو ترجمہ ، آڈیو ریکارڈنگ اور پھر اس ڈاکیومینٹری پر اس کو بٹھانے (ایڈیٹنگ) میں تو بہت وقت لگ جائے گا۔ میں کہا کہ آصف صاحب وقت کم ہے تو بولے تقریب تو وقت پر ہوگی اور اسے دکھایا جانا بھی ہے۔ اب آپ دیکھ لیں ۔ لہجہ بتا رہا تھا کہ دا گنجائش نشتہ۔اگر آپ نے نہیں دیکھا تو پھر ہم آپ کو دیکھ لیں گے ۔ دوسری بات یہ کہ یہ جاب اکیلے آپ کو ہی کرنی ہے۔ کوئی اس میں شریک نہیں ہوگا ( اور شریک ہو کر بھی کیا کرے گا ۔آصف صاحب سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ کام ہمارے بائیں ہاتھ کا ہے )۔ مطلب بہت واضح تھا کہ فورا نوکری بچاو  تحریک کے رکن بن جائیں ۔

 ہمارا مسئلہ یہ آرہا تھا کہ ڈاکیومینٹری پر ہم نے بھی پہلے کام نہیں کیا تھا ۔ ٹی وی کمرشل کی ایڈنٹنگ پر ضرور بیٹھے تھے مگر ڈائریکٹر کی ناک میں دم کرنے کے لئے۔ حالات کسی طرح بھی سازگار نہ تھے ۔ سب سے پہلے تو مشہور وائس اوور آرٹست حسن شہید مرزا مرحوم سے بات کی ۔ یہ اپنے وقتوں میں ریڈیو پاکستان اور ٹی وی اشتہارات کی سب سے جانی پہچانی آواز تھی۔ ان ہی کا اپنا ریکارڈنگ اسٹوڈیو بھی تھا۔ 

سب سے پہلے مرحلہ تھا انگلش اسکرپٹ کا اردو ترجمہ کرنے کا ۔ تو صاحب ہم اس کام میں  جت گئے ۔ 4 بجے تک کام مکمل کیا ۔ رکشہ پکڑی اور  طارق روڈ لبرٹی چوک کے قریب واقع ڈوپٹہ گلی میں پہلے الٹے ہاتھ پر مڑ کر رکشہ کو رکوایا اور پہلی یا دوسری منزل پر حسن شہید مرزا مرحوم کے اسٹوڈیو جا پہنچے۔ حسن صاحب اپنے کام کے ماہر تھے۔ اسکرپٹ میں ایک دو لفظوں کی تصحیح کی اور ساونڈ پروف کمرے میں جا پہنچے۔ ہیلو ہیلو کر کے بولے " ہاں اظہر ، آدیو کا ٹیمپو اور موڈ کیا رکھنا ہے ۔ پہلا پل آگیا تھا۔ بھائی ، ہم بالکل صفر تھے وجہ یہ تھی کہ ہم نے تو ڈاکیومینٹری دیکھی ہی نہیں تھی ۔ ٹیمپو اور موڈ کیا بتاتے ۔۔ خاک ؟ ابھی ہم اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ وہ خود ہی بولے "میں اسکرپٹ کو دیکھتے ہوئے آڈیو کردیتا ہوں ۔ ہم نے ہاں میں ہی سر ہلانا تھا ۔ ایک گھنٹے میں وہاں سے فارغ ہوئے اور بلیزون جا پہنچے ۔ خیال تھا کہ اب آیڈیٹنگ شروع کردیں گے۔ پتہ چلا کہ ایڈیٹر پی ٹی وی کے کوئی شان حیدر جنہیں پیار سے شانے کہا جاتا ہے ۔ وہ ایڈیٹنگ کریں گے۔

رات کا کہہ تو دیا تھا مگر یہ پتہ نہیں تھا کہ کتنے بجے ؟ آفس میں کل کے میگا ایونٹ کی تیاریوں کی وجہ سے بڑی گہما گہمی تھی ۔ ہمارا دل بھی لگا ہوا تھا کہ چلو وقت تو پاس ہو رہا ہے ۔ آصف صاحب سے پوچھا کہ شان حیدر کب آئیں گے تو جواب آیا رات بارہ بجے تک ۔ مطلب رات بہر صورت کالی ہونی تھی اور ہاں یہ بھی بتا دیا گیا کہ اڈیٹنگ مشین کلفٹن میں ہے ۔ یہ کام وہاں ہوگا ۔شانے سیدھا وہاں پہنچے گا ۔ آفس ڈرائیور آپ کو فلیٹ رسید کر آئے گا۔ اللہ اللہ کر کے بارہ بجے ہم اس وسیع اور سجے سنورے فلیٹ پہنچے تو آنکھیں خیرہ ہو گئیں ۔ شانے یار دوست قسم کا انسان  نکلا ۔ یہ الگ بات ہے  کہ جب کچھ عرصہ بعد میں  نارتھ ناظم آباد بلاک ایل شفٹ ہوا تو سامنے والا گھر شانے کا تھا ۔

 کام کا آغاز ہوا پہلے انگلش آڈیو والی ڈاکیومینٹری  دیکھی پھر اردو آڈیو سنی تو شانے نے کہا کہ باس آڈیو بالکل ٹیمپو اور موڈ پر کرائی ہے ۔ ہم کو اطمینان ہوا۔ اسی دوران فلیٹ کا بنگالی خانساماں کھانا لے آیا جو دیکھا تو بینگن پکا لایا ۔ جان جل کر رہ گئی کہ کیا ان گھروں میں بھی یہ سرتاج  بینگن پکتے ہیں  مگر جناب جب گرم گرم روٹی کے ساتھ پہلا نوالہ لیا تو یقین جانیں اتنے لذیذ بینگن زندگی میں پھر کبھی نہیں کھایے۔

بیگن کھا کر پان منہ میں رکھا اور ٹائم لائن پر اردو آڈیو بٹھانے بیٹھ گئے۔ ایک دو جملے تو بالکل صحیح بیٹھے مگر یہ کیا ابھی ایک سین کی اردو آڈیو مکمل بھی نہ ہوتی کہ دوسرا سین آجاتا  اور پرانے سین کی اردو نئے سین پر چڑھ دوڑتی ۔ جو لوگ انگلش سے اردو میں ترجمہ کرتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ اگر لفظوں اور دورانیہ کی بات کی جائے تو وہ انگلش سے اردو کرنے پر بڑھ جاتے ہیں ۔ جانتے تو یہ بات ہم بھی تھے مگر کام کی جلدی بہت تھی اور ترجمہ کرتے وقت  انگلش ڈاکیومینٹری کا صرف اسکرپٹ ہمارے پاس تھا ۔ اب ذر اگھبراہٹ نے دل میں ڈیرے ڈالے۔ شانے نے کہا کہ باس اس آڈیو کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بات سنکر ہمارے لئے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔ کس سے پوچھیں کہ اردو آڈیو سے کیا نکالیں ؟ بتانے والا کوئی نہ تھا ۔ ہم ہی سولی تھے اور ہم  ہی رام ۔ پہلے سوچا کہ جیسا ہے ویسا چھوڑ کر گھر کی راہ لیتے ہیں ۔پھر سوچا کہ اگر صبح یہ ڈاکیومینٹری نہ دی تو صبح جو ہمارے ساتھ ہوگا وہ اللہ ہی جانتا ہے۔

کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے پھر یہ فیصلہ کیا کہ کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔ اب سین کی مناسبت سے جہاں سے چاھیں آڈیو پر قینچی چلا دیں ۔ وجہ بہت سادہ سی تھی کہ اگر کام ادھورا چھوڑتے ہیں تو بھی نکالے جائیں گے  اور اگر کام کر لیا اور آصف صاحب کی سمجھ میں نہیں آیا تو نکالے تو پھر بھی جائیں گے مگر کم از کم یہ تو ہوگا کہ اپنی پوری سی کوشش کی۔ اب ہم نے خدا کا نام لیا اور شانے سے کہا کہ اب جو میں کہوں کرتا جا ۔ شانے نے کہا کہ میں ذمہ دار نہ ہوں گا ۔ میں نے کہا کہ بھائی تو فری لانسر ہے تیرا کیا ہونا ہے ؟ جب قینچی ہم چلا رہے ہیں  تو چھری بھی ہماری گردن پر چلے گی۔ 

اب جناب ہم نے ملازمت چلے جانے کا خوف دل سے نکالا اور جہاں تک عقل و تجربہ نے کام کیا ایڈیٹنگ کراتے چلے گئے۔ شانے بھی خوش تھا کہ کام جلدی ختم ہو جائے گا۔ ساتھ ساتھ ہماری تعریفیں بھی کرتا جاتا ۔ فجر تک ڈاکیومینٹری نمٹائی جاچکی تھی۔ کیسٹ لیا ۔ شانے کی اپنی گاڑی تھی۔ آفس آئے ۔ پیون کو کیسٹ دی کہ صبح ہوتے ہی یہ آصف صاحب کے حوالے کر دینا۔گھر آئے اور یہ سوچ کر ملازمت گئی ، سو گئے۔ تقریب میں شریک نہ ہوئے۔ سہ پہر میں آفس پہنچے تو خیال تھا کہ کسی وقت بھی بے عزتی کا بگل بج جائے گا مگر ہم نے دیکھا کہ کوئی ہماری طرف دیکھ ہی نہیں رہا ۔ ہم نے سوچا معاملہ خاصا گھمبیر ہو چکا ہے ۔اس لئے حتمی گفتگو آصف صاحب ہی فرمائیں گے۔

کچھ دیر بعد آصف صاحب طلوع ہوئے اور ہم نے جانا کہ ہمارے غروب ہونے کا وقت آگیا۔ پاس آئے، کچھ لمحے دیکھتے رہے اور بولے " جواب نہیں ۔ بہت زبردست آڈیو بٹھائی ۔لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ پہلے انگلش میں لکھی گئی تھی ۔ ہم نے سکون کا سانس لیا۔ جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔
اچھا اب آپ کو میں سب سے مزے کی بات بتاوں ۔میں بیکار میں گھبرا رہا تھا ۔جب کسی کو انگلش آڈیو کا پتہ ہی نہیں تو مجھے پکڑتا کون ؟ مگر یہ بات اس وقت ذہن میں آئی جب مسئلہ ہی حل ہوچکا تھا۔

Thursday 4 July 2019

روح تو گیٹ سے اندر نہیں آتی مگر ایک ماں نہیں مانتی۔آرٹیکل # 32


Article # 32



جنازے گیٹ سے نکلتے ہیں
روح تو گیٹ سے اندر نہیں آتی
 مگر ایک ماں نہیں مانتی


مختصر مختصر

تحریر :اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں) 





یہ وقت بھی عجیب ہے ۔ کہیں خوشیوں کے میلوں میں کھنکھناتی ہنسی ہوتی تو کہیں غموں کی صف ماتم میں نوحہ کناں چیخیں اور  دل چیر دینے والی سسکیاں روح تک کو جھنجوڑ دیتی ہیں ۔ وقت وہ کچھ کر گذرتا ہے کہ ہم سوچیں تو سانس رکی کی رکی رہ جائے مگر جب گذرتی ہے تو سانس چلتی رہتی ہے۔ یہی کارخانہ قدرت کی حکمت ہے۔

میری ایک عزیزہ ہیں ۔ بیوہ ہیں ۔ پہلے جوان بیٹا دو بیٹے چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سویا ہے اور دو تین سال میں باپ نے اسی قبرستان کی ایک قبر کو آباد کردیا۔ 

جب بیٹے کا انتقال ہوا تو  ہماری یہ عزیزہ ہر جمعرات مغرب کے وقت گھر کے بڑے گیٹ کا چھوٹا پٹ ہلکا سا کھول کے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ ممکن ہے اب ابھی ایسا کرتی ہوں۔ ایک دن  میں اسی وقت ان کے پاس بیٹھا تھا۔ میں نے بے پردگی کے خیال  سے گیٹ کا پٹ بھیڑنا چاھا تو بولیں "نہ بیٹا یہ بند نہ کر وہ آتا ہوگا"۔ میں نے کہا آئے گا تو دروازہ کھٹ کھٹا لے گا " بولیں "اب دروازہ کہاں کھٹ کھٹاتا ہے" میرا خیال تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کی بات کر رہی ہوں گی جس کے آفس سے آنے کا وقت ہو چلا تھا ۔چند لمحے خاموش رہ کر بولیں "آج جمعرات ہے۔ دیکھ میں نے بیڈ والا کمرہ بھی صاف ستھرا کردیا ہے "۔

میں نے کہا کس کی بات کر رہی ہیں۔ چھوٹا بیٹا تو اوپر رہتا ہے"۔ بولیں "آج جمعرات ہے۔ اس (بڑے بیٹے) کی روح آئے گی۔ میں ہر جمعرات کو اسی طرح گیٹ کا پٹ کھلا رکھتی ہوں ۔ دروازہ بند دیکھ کر کہیں چلی نہ جائے اور دیکھ اس کا بیڈ روم بھی صاف ستھرا کر کے رکھدیا ہے۔ آئے تو کچھ دیر آرام کر لے"۔میں نے کہا کہ آپ اندر ہی بیٹھ جایا کریں۔بولیں "نہیں میں چاھتی ہوں کہ جب وہ گیٹ سے اندر آئے تو سب سے پہلے مجھے دیکھے"۔ میں نے کہا کہ چلیں وہ دیکھ لیتا ہوگا مگر آپ کیسے دیکھتی ہوں گی ۔ بڑے یقین سے کہنے لگیں " وہ جیسے ہی آتا ہے مجھے پتہ چل جاتا ۔ ماں ہوں ، خوشبو آجاتی ہے ۔ چہرہ تو ہر وقت میری نگاہوں میں رہتا ہے ۔ آخری بار وہ اسی گیٹ سے تو باہر گیا تھا ۔ اب بتا میرے پاس نہیں آئے گا تو کہاں جائے گا "۔

 اب میں ان کو کیا بتاتا کہ جنازے گیٹ سے جایا کرتے ہیں ۔ روح کو کسی گیٹ / دروازے کئ کہاں ضرورت ہوتی ہے لیکن میں ایک ماں کی محبت گیٹ ہر روکنا نہیں چاھتا تھا۔ میرا صبر جواب دے رہا تھا ۔ اس لئے خاموشی سے اٹھ کر آگیا۔ جاتے جاتے بولیں " ارے رک ! کہاں جا رہا ہے۔ وہ آتا ہوگا ۔ تجھے بھی دیکھے گا تو بہت خوش ہوگا" ۔ انہوں نے اتنے پیار سے کہا کہ کچھ کہے بنا جانا بری بات تھی۔ میں نے بہانہ کیا کہ مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا۔ بولیں " دیکھ اب یہ جمعرات جائے گی تو اگلی جمعرات کی آس میں دن گنوں گی "۔

 میں چاھتے ہوئے بھی نہ رک سکا اور نم آنکھوں کے ساتھ گلی میں آ کھڑا ہوا اور سوچنے لگا کہ جن کے بیٹے ان کی آنکھوں کے سامنے ابدی رخت سفر باندھ لیں وہ زندہ کیسے رہتی ہیں ؟سانس کیسے لیتی ہیں ؟ جواب خود ہی آگیا ان کی یادوں کے سہارے جیتی اور سانس لیتی ہیں۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...