Saturday 30 March 2019

Ep-2, Advertising mein aana kaisay hoa? (An autobiography of a Creative)





ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟

قسط دوئم

Article # 9

اشتہارات ہیں زمانہ کے 


محلہ کی عورتین اور ہم پر رحم بھری نظریں

پہلی بار کسی لڑکی نے پیار سے لیا ہمارا پورا نام



تحریر : اظہر عزمی


(ایک اشتہاری کی باتیں)

 گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔

بخاری صاحب کی اس غیر متوقع تعریف سے ہم ساتویں آسمان پر پہبچ چکے تھے ۔ مرزا صاحب نے بخاری صاحب سے کہا " نظر چاہیئے تخلیق کار ڈھونڈ نے کے لئے " ۔ اپنے لئے تخلیق کار کا لفظ سنا تو حیرت ہوئی کہ کیا یہ ہم ہیں؟ اپنی حرکتوں کے باعث یم تو تکلیف کار مشہور تھے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں پتہ کہ ہمیں کرنا کیا ہوگا ؟بخاری صاحب نے جاتے جاتے ہمیں دو تین اخباری اشتہار (پریس ایڈ) تھمائے اور کہا کہ ان اشتہاروں میں جو متن (کاپی) ہے اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا کیپشن ،باڈی کاپی اور پنچ لائن لکھکر لاو۔ انگریزی کی یہ اصطلاحات پہلی بار کانوں میں پڑی تھیں۔ مرزا صاحب اور میں ساتھ کمرے سے نکلے ۔

 میں نے جانے کے لئے ان سے ہاتھ ملایا۔دو قدم چلا ہوں گا کہ مرزا صاحب کی بھاری بھرکم آواز آئی "رکو"۔ ہم رک گئے۔مرزاصاحب اپنے ہاتھوں ہماری دریافت سے بہت خوش تھے۔ واپس پلٹے تو بولے "چلو تمھیں کیف بنارسی سے بھی ملوا دیتا ہوں۔ مجھے لے کر کیف بنارسی کے پاس پہنچے ۔ کیف بنارسی مشہور شاعر تھے اور غالبا کریٹیو ڈیپارٹمنٹ کے انچارج تھے۔

خیر مرزا صاحب نے بخاری صاحب والا پورا قصہ سنا دیا۔ کیف بنارسی صاحب بڑی شفقت سے ملے اور بولے کہ ہمیں ٹرینی کاپی رائٹرز کی ضرورت ہے۔ ایک دو ہفتے میں اخبار میں ویکینسی کا ایڈ آجائے گا۔ اب ہمیں پتہ چلا کہ جو کام ہمیں کرنے کے لئے دیا گیا ہے ۔اس کے کرنے والے کو کاپی رائٹر کہا جاتا ہے۔ شاہراہ فیصل سے U4 پکڑی اور ٹکر ٹکر چلتی ویگن میں گھر کے لئے سوار ہوگئے۔ راستہ بھر بخاری صاحب کے دیئے ایڈ دیکھتے رہے۔ ویگن تو خیر کیا چلنی تھی لیکن اب ہمارا دماغ قینچی کی طرح چل رہا تھا ( جو افراد اس شعبہ سے منسلک ہیں وہ جانتے ہیں کہ سوچتے وقت ایک ایڈیٹنگ مشین قینچی کی طرح ذہن میں چلتی رہتی ہے)

گھر پہنچے تو والدہ نے پوچھا "لگ گئی ملازمت؟" ہم  تخلیق کار کہنے پر جاب ملنے سے زیادہ خوش تھے۔اپنی ہوا میں تھے۔بولے "امی ، جاب تو ہاتھ میں رکھی ہے ۔" ہماری والدہ بھی ہماری والدہ ہیں بولیں "اچھا ذرا ابنا ہاتھ تو دکھا" ۔ پھر بولیں" زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں مگر اتنا جانتی ہوں۔جب تک لڑکی کا نکاح نہ ہو جائے اور لڑکے کو ملازمت کا رقعہ نہ مل جائے سمجھو دونوں گھر ہی میں ہیں "۔ ہم چڑ گئے اور بولے "آپ کو نہیں پتہ ، بس ایک ہفتہ کی بات ہے"۔ ماں نے یقین دیکھا تو بے روزگار کی ماں نے جھولی پھیلائی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا "آمین"۔ادھر امی نے آمین کہا اور ہم چڑھ دوڑے اپنی دو چھتی پر اور بیٹھ گئے اشتہار لکھنے ۔  بمشکل ایک گھنٹہ لگا ہوگا اور ہم نے کام تمام کردیا ۔لگا یہ تو سب سے پرلطف اور آسان ترین کام ہے۔ دل چاھا کہ پر لگیں اور بخاری صاحب کے پاس ابھی پہنچ جائیں مگر انہوں نے تو دوچار روز میں آنے کا کہا تھا۔

شام کو والد صاحب کو روداد سنائی ۔بہت خوش ہوئے۔مغرب سے پہلے صفدر مرزا کے پاس پہنچ گئے اور اپنی تعریفوں کا ایفل ٹاور کھڑا کردیا۔آج سوچتا ہوں تو ہنسی آتی ہے لیکن میں آپ کو بتاوں ایسئ موقعوں پر ایسا ہی کرنا چاہیئے۔کام کچا ہو تو ہو بندہ دھن کا پکا ہونا چاہیئے۔

اب دن کاٹے نہیں کٹ رہے تھے بلکہ اب تو کاٹنے کو دوڑ رہے تھے ۔لیجئے ہفتہ گذر گیا۔ہمت جواب دے گئئ۔ جنگ اور ڈان چھانتے رہ گئے مگر اشتہار کا دور دور تک پتہ نہیں ۔پھر پہنچ گئے صفدر مرزا کے پاس اور غصہ سے بولے "بھائی وہ اشتہار تو نہیں آیا"۔صفدر مرزا بھی تفریح کے موڈ میں تھے بولے " چلو اخبار کے دفتر چلتے ہیں۔ شاید چھپنے سے رہ گیا ہو" صفدر کا یہ روزگارانہ مذاق ایک آنکھ نہ بھایا ۔ موڈ آف دیکھکر بولا " ایسی جلدی کیا اگلے ہفتے آجائے گا "۔میں نے کہا خالو سے پوچھو تو بولا ابو کیا اہم ڈی لگے ہیں۔ کل آفس جائیں گے تو پتہ چلے گا۔

میں نے آپ سے کہا تھا کہ ابھی دلدر دور نہ ہوئے تھے۔ ٹھوکریں باقی تھیں۔ خالو سے تو روز ایک بات پوچھئ نہ جاسکتی تھی۔ صفدر مرزا کی روز شام میں جان کھاتے کہ خالو سے پوچھو۔ وہ یہی کہتا کہ ابو کہہ رہے ہیں کہ ایڈ غالبا کسی وجہ سے رک گیا ہے اور ویسے بھی عزمی کے نہ ہونے سے ایجنسی کے کام رک گئے ہیں ، صبر کریں جب بھئ ایڈ آیا انہی ہی کو رکھیں گے ۔ بات تو قابل اطمینان تھی  مگر ہم اپنے بے صبرے پن کا کیا کریں ۔ بہرحال ہم کو نشہ لگ چکا تھا ۔ اخبار/میگزین کا کوئی اشتہار ہو ہم دوبارہ اپنا کیپشن اور کاپی لکھنے بیٹھ جایا کرتے ۔ والد بھی کبھی کبھئ پوچھ لیتے " ہاں میاں مرزا صاحب کیا کہہ رہے ہیں " ۔ہم بتا دیتے ۔دوسرا ہفتہ آیا ، تیسرا آیا مگر ہماری ملازمت کا سندیسہ اب اندیشوں میں گھرتا چلا جا رہا تھا۔ دو چھتی والی کمرے میں اللہ تعالی سے گفتگو کا سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہتھا  ھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ایک دن خالو نے ہم سے براہ راست گفتگو کی اور بتایا کہ وہاں اندورنی سیاست چل رہی ہے۔ آنا کانی سے کام لیا جا رہا ہے۔ تمھاری ملازمت مشکل ہے اور یہ کہ ٹرینی کاپی رائٹر کا ایڈ بھی نہیں آئے گا۔ مرزا صاحب گفتگو بہت محتاط کیا کرتے تھے۔ 

خالو نے کہا کہ تم پریکٹس جاری رکھو۔ انہوں نے مجھے ایک اور تجربہ کار کاپی رائٹر درپن صاحب کے پاس بیھیج دیا۔ بولے میں انہیں فون کردوں گا۔تم ان سے ان کی جائے ملازمت پر ملتے رہو۔ درپن صاحب کا پورا نام سعید رضا درپن تھا۔ نہایت سادہ طبعیت  اور خاموش طبع شخص تھے۔ میرا خیال ہے بوجوہ عمر ان میں  ایک گوناں گوں اطمینان تھا ۔ ان کے پاس ہفتہ کے ہفتہ جایا کرتا تھا۔ درپن صاحب آدھا دن ایک ایجنسی میں اور آدھا دن دوسری ایجنسی میں ہوتے۔ مایوسی کے گہرے سائے پھر دل و دماغ پر چھائے جا رہے تھے۔ گھر میں جو تھوڑی سی عزت ملنا شروع ہوئی تھی۔ اس میں 
نظر یاتی کمی کے آثار  ظاہر ہونے شروع ہوگئے تھے ۔ والدہ نے روز پیسہ دیتے ہوئے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا تھا مگر ہم بھی اس ہنر میں یکتا تھے۔ روز کا سودا سلف لانا تو ہماری ذمہ داری تھی اور اس میں روزانہ بارہ آنے (75 پیسہ) یا روپیہ مارنا ہمارا لئے فرض لازم تھا۔ بات یہ تھی کہ النور اسپتال کے گیٹ سے ذرا ہٹ کر ایک چھولے والا کھڑا ہوتا تھا جو بارہ آنے کی چھولے کی پلیٹ اور اگر پاپڑی ڈلوائیں تو چار آنے اس کے۔ گویا ایک روپے کی عیاش!ی کے لئے گھر کے پیسوں سے ایک روپے کا کھانچہ تو جائز تھا۔بے روزگاری میں یہ گھریلو چوریاں سب کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ گھر کو گھر نہیں سمجھتے

اس کے بعد پیسے لینے میں ذرا مشکل ہوتی تو پریشانی کی کیا بات ہے۔ صفدر مرزا ہیں ناں ۔صفدر مرزا اودھ کے اجداد لکھنو (اودھ) سے تعلو رکھتے تھے جس کے ایک والی آصف الدولہ کے لئے مشہور تھا "جس کو نہ دے مولا ، اس کو دے آصف الدولہ " تو صاحبو ہمارے آصف الدولہ صفدر مرزا  یعنی کہ صفدر الدولہ تھے۔ روز روتے گاتے ڈانتے برا بھلا کہتے مگر کچھ نہ کھلا پلا دیتے۔ پیٹ بھرا رہتا مگر ذہن اندیشوں میں گھرا رہتا کہ اللہ جانے ملازمت کب ملے گی۔ یہ بات عقل میں آگئی تھی اگر اس شعبہ میں آئے تو چل جاوگے ۔اگر کہیں اور فٹ ہوئے تو زندگی بھر مس فٹ رہوں گے اور ہر ملازمت سے چل چلاو چلتا رہے گا ۔ ابھی ملازمت پر "چڑھے" بھی نہیں تھے مگر یہ خیال دماع پر چڑھ دوڑا تھا:
ا
کیا کروں گا جو ایڈورٹائزنگ میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

اب بھائی دعائے مزمل برائے فراخی رزق چاچی کے کہنے ہر شروع ہوئی اور محلہ کی عورتیں وقت مقررہ ہر آ پہنچتیں مطلب ہماری بے روزگاری اب زبان زد عام تھی ۔ کہیں سے گذرتے تو عورتیں رحم بھری نظروں سے دیکھتیں ۔کچھ تو راہ چلتے گیٹ پر بلا لیتیں اوز اضافی وظیفہ بتانے لگ جاتیں۔ ہم سب سنتے اور آسمان کی طرف دیکھ کر رہ جاتے ۔ دو ایک تو ایسی تھے جن کے اپنے لڑکے ہم سے عمر میں بڑے تھے اور جوتیاں چٹخاتے پھر رہے تھے ۔ وہ وہ آزمودہ اور روزگار آمد چلے بتاتیں جیسے ان کے لڑکے کہیں کے ایم ڈی لگے ہوئے ہیں۔

کچھ خواتین نے تو حد ہی کردی بولی "اللہ جانے کب نوکری لگے ،کب شادی اور بچے ہوں گے؟" ذرا سوچیں ایک نوکری کی بات کس طرح گلی گلی گئی۔یہاں بے روزگاری سے چہرہ مرجھایا جا رہا تھا اور ادھر نہ صرف سہرے کے بھول بلکہ بچوں کے برتھ ڈے ہار ڈسکس ہونا شروع ہوگئے تھے۔

 بعد میں جب ہم برسرروزگار ہو گئے اور شادی کے بندھن میں باندھ دیئے گئے تو پتہ چلا کہ ہاں محلہ کی ایک خاتون یہی منصوبہ بندی کئے بیٹھی تھیں۔ ہمارے ساتھ پوری زندگی ایک قباحت رہی ۔کسی لڑکی نہ ہمیں آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا البتہ ہمارا چہرہ مہرے اور خاندانی حماقت نے ہمیں "آئیڈیل داماد" کے طور پر ہمیشہ پروموٹ کیا ۔وہ تو شادی کے بعد کھلا کہ آئیڈیل شوہر تو ثابت ہوئے مگر عورتیں جتنا احمق سمجھ رہی تھیں ایسا بالکل بھی نہیں تھا میں سمجھتا ہوں کہ گائے کےگوشت کا گلنا اور داماد کا قابو میں رہنا اپنے وقت پر ہی پتہ چلتا ہے۔ قصائی اور گھر والوں کی تعریف میں کچھ نہیں رکھا

فدرت کو ایک دن رحم آہی گیا، ابر رحمت جوش میں آہی گیا۔ ہنارے چچا بھی ہمارئ گلی میں رہتے ہیں۔ایک دن ہم گھر میں تھے کہ ہماری چھوٹی چچازاد بہن دوڑی دوڑی آئی اور بولی "ببا بھائی آپ کا فون آیا ہے"۔ (یہ وہ زمانہ تھا کہ جب  گھر میں فون لگوانا ناممکن تھا)۔ اندھا کیا چاھے دو آنکھیں ۔ہم نے بستر سے مثل ہرن چوکڑی بھری اور پہنچ گئے چچا کے ۔ ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ کال مرزا صاحب کی ایجنسی سے ہوگی ۔کریڈل اٹھایا ۔ دوسری طرف سے ایک لڑکی کی آواز تھی "اظہر حسین عزمی بات کر رہے ہیں ؟" کسی لڑکی کے منہ سے پہلی بار اتنے پیار سے اپنا نام لیتے سنا تھا۔ ہم پہلے تو اپنا نام سنکر شرما سا گئے لیکن پھر حواس درست کرتے ہوئے کہا "جی"

اب اس سے آگئے تمہارا بھی ذکر آئے گا۔ا
  
باقی آئندہ

Friday 29 March 2019

Paan hamari zindagi mein laya kon? An informative article


29 March 2019

Article # 8


خاندان تھے تو پاندان تھے
پان ہماری زندگیوں میں لایا کون؟
حصہ دوئم




تحریر :  اظہرعزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


بغیر کسی قطع و برید کے پاندان پر لکھ دیا ۔ لوگوں نے پسند کیا تو سوچا اتنے عرصے سے پان کھارہا ہوں تو کیوں نہ حق پان ادا کردوں۔پان کی تاریخ پیکوں سے بھری پڑی ہے۔پہلے پان دان کے ساتھ پیک دان لازم تھا ۔یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب پان کھانے والے Peak پر ہوا کرتے تھے۔ راجہ۔ مہاراجہ۔ نوابین۔ روساء کے ایک اشارے پر ملازم پیک دان لئے بھاگتے مبادا کہیں وہ کسی کے منہ یا اپنے لباس پر ہی نہ تھوک دیں۔
ہندوستان میں پان کی ابتدا کیسے ہوئئ تو صاحبو ۔ ہندو تاریخ بتاتی ہے کہ پان تو کرشنا جی بھی کھایا کرتے تھے لیکن پان کے اجزائے ترکیبی کیا تھے ؟ اس کا سراغ نہ مل سکا۔ کیا صرف پان کا پتہ چبایا کرتے تھے؟ تاریخ خاموش ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر جو پان ہم کھا رہے ہیں اس کی وجہ پیدائش اور کبھی نہ ختم ہونے والی لالی عمریا کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟
مغل بادشاہوں کی سرشت میں عورت اور حکومت سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک مغل بادشاہ تھے جہانگیر ۔ان کی ایک اہلیہ تھیں نورجہاں ۔ ان کے پہلے شوہر شیر افگن کو جہانگیر نے ادھر ادھر کیا اور بن بیٹھے نور جہاں کے کل جہاں۔ ہر بات پر مشورہ ۔ہر بات پر رائے۔ سمجھ لیں بادشاہ سلامت نورجہاں کے کولھے سے لگے بیٹھے رہتے۔امور حکومت میں سارے فیصلے نورجہاں کے ہاتھوں انجام پاتے۔ نورجہاں کے فیصلوں میں عقل ودانش جھلکتی اور باتوں سے پھول جھڑتے مگر ہائے قدرت کی ستم ظریفی۔ ذہین۔حسین مگر منہ سے بدبو آیا کرتی تھی۔ جہانگیر کی سمجھ میں کچھ نہ آتا ۔گھنٹوں گزارنے ہیں نور جہاں کے ساتھ ۔اب بغیر ک منہ کی عورت بھی بھلا کس کامکی۔ جتنی بھی ذھین ہو بات تو منہ سے کرے گی اور منہ سے آتی ہے بدبو۔
ایک دن بادشاہ کا سونگھنے والا پارہ جواب دے گیا۔ کہا بلائو سارے حکیموں کو تاکہ تدبیر کریں اس بد بو کی۔ بادشاہ کا حکم سر آنکھوں پر ( سر آنکھوں پر نہ ہو تو سر ہاتھوں میں نہ آجائے)۔ باشادہ نے مسئلہ بتایا اور کہا کہ حل مجھے ہر حال میں درکار ہے۔ تم نے بہت کشتے۔ خمیرے۔ دوائیں ۔آلائیں ۔بلائیں بنا لیں ۔ اب دافع بدبو بناو ورنہ دفع ہو جاو۔ حکیموں کی لگ گئیں دوڑیں ۔جنگل جنگل اور نہ جانے کہاں کہاں مارے مارے پھرے ایک حکیم نسخہ لے ہی آیا۔حکیم جو نسخہ لایا اس میں مرکزی حیثیت پان کے پتے کی تھی یعنی سب کچھ اس کے اوپر ہی رکھ دیا جاتا۔ پہلے پتے پر چونے کی تہہ لگائی جاتی پھر کتھے کی اس کے بعد کتری ہوئی چھالیہ کے چند دانے اور بھر ہوتی لونگ۔ چھوٹی الائچی۔ سونف۔ ناریل وغیرہ ۔ یہ تمام اجزائے ترکیبی بد بو دور کرنے کے ساتھ ساتھ مقوی دماغ و ہاضمہ تھے۔نسخہ کامیاب رہا اور نورجہاں سر سے منہ کو ہوتی ہوئی پوری کی پوری جہانگیر کے من میں سما گئی ۔اب اس کے مشورے اور بھی سر چڑھ کر بولنے لگے۔
اب نقلم نقلئ یہ پان اودھ اور حیدرآباد دکن جا پہنچا اور تہذیب کا حصہ بن گیا۔ نوابین اودھ اور حیدرآباد دکن نے تو اس میں چاندی کے ورق لگا کر ساتویں آسمان پر بٹھا دیا۔ خوشی کا کوئی موقع اس کے بغیر نامکمل تھا۔ رشتہ سے لیکر شادی تک دلہن دولہا کے بعد کوئی اہم ہوا ۔ حیدرآباد دکن نے تو اس سے رشتوں کی پہچان کرانی شروع کردی۔ شادی کے دوسرے روز دلہن کے سامنے پاندان رکھ دیا جاتا ۔ دلہن باری باری سب کو گھونگھٹ کاڑھ کر پان دیتی تو سسرال کے لوگوں کا تعارف اور رشتہ بتایا جاتا۔ دلہن سے جو رشتے میں چھوٹا ہوتا وہ خود دلہن کو آداب کرتا ۔نام بتاتا اور پان لے کر الٹے پیروں واپس ہوجاتا ۔رشتے اور عمر میں بڑے لوگوں کے پاس دولہا کہ بہنیں دلہن کو لے جاتیں۔ دلہن پان پیش کرتی اور تعارف حاصل کرتی۔
پان پیش کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے تھے۔ خوب صورت چمکتی نقش ونگار والی طشتری میں پان پیش کئے جاتے جس سے مہمان کے لئے عزت و احترام کا اظہار ہوتا ہے۔ مردانے میں پان بھجوانے ہوں تو کسی بچے کو سر کے بالوں سے لےکر پیر کی جوتی تک دیکھا جاتا۔ بتا دیا جاتا کہ طشتری سیدھے ہاتھ میں رکھنا۔ زیادہ تبڑ تبڑ بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب تک باوا یا دادا نہ کہیں چپکے کھڑے رہنا۔
پان کھانے کے بھی آداب ہوا کرتے تھے ۔ چھوٹے کا بڑوں کے سامنے پان کھانا بد تہذیبی مانا جاتا۔ سیدھے ہاتھ سے پان کھائیں اور الٹا ہاتھ منہ پر رکھیں۔ کھلا منہ نظر آجانا اخلاقیات کے خلاف تھا۔جن کو یہ آداب نہیں آتے لوگ تاڑ جاتے کہ آدمی خاندانی نہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے کبھی کبھی گھر کے مرد ٹچے کا لفظ بطور طنز استعمال کر لیا کرتے۔ بغیر اجازت پاندان کو ہاتھ لگانا کسی طور جائز نہ
   تھا۔
گذرے وقتوں میں پان کا پیشہ تنبولن کیا کرتی تھی۔ پھر پان نے بازار کا رخ کیا۔ جا بہ جا دکانیں کھل گئیں۔ اب کہاں کے پان اور کہاں کی تنبولن ۔ تنبولن کا لفظ اب لغت میں ہی رہ گیا ہے۔
طوائفوں نے پان کو شہرت دوام بخشی اور کوٹھے پر آنے والوں کے لئے عزت و احترام کا پیمانہ بنا دیا۔ جس کو جتنی عزت دینا مقصود ہوتی پان اتنی ہی انداز دلربائی سے نذر کیا جاتا۔

Thursday 28 March 2019

Kia Baap Zindagi Mein Phela Villian ... In Roman Urdu



Article # 7 ... Roman Urdu

KIa yeh sach hai ?


Baap zindagi mein phela Villian hota hai.




Written by: Azhar Azmi

(Aik ishtihari ki batain)




Ho sakta hai bohat se afraad ko meri yeh baat achi nah lagey lekin agar woh kuch lamhay maazi mein palat kar dekhen to shayad woh kisi hadd taq mere hum khayaal ho jayen.Ab woh takleef da baat bhi sun lijiye" zindagi mein phela Villian koi aur nahi aap ka apna baap hota hai ".Wazahat kardoon is se morad filmon wala vln nahi hai .

Jab aulaad larakpan ya baloghat ki Umar mein azaadi ki be simt,be iradah,lahasil aur waqt guzari ke liye aawara parwaaz urna chahti hai to jo shakhs aap ke run way par "naan" ka ishara liye khara hota hai woh puranay khayalat ka haamil, nai duniya se bay khabar, zalim aur jabir baap hota hai.Woh anay janey ka puchta hai.Duniya ki aounch neech samajhata hai.Parhnay ka kehta hai,zindagi mein waqt aur auqaat mein rehne ki ahmiyat samajhata hai.Gharz har woh baat karta hai jo aap ke khayaal mein outdated hoti hai.Aap ko doston ka har woh baap broadminded aur update lagta hai jo apne bachon ko chhoot day kar rakhta hai aur aap apne baap ko achhot samajhney lagtay hain .


Dost aap ke baap ke liye kehte hain" yaar tumhara baba kis zamane ki paidaiesh hai? gaon se aaya hai? maghrib ki namaz brhhkr so jata hai.Usay samgha ab zindagi maghrib ke baad shuru hoti hai. raat baara bujey to larke ghar se bahar nikaltay hain." jab aap raat gay ghar janey ka kehte hain to dost haath pakar kar bithatay hain" yaar topi kara daina.Waisay bhi woh ab so gaya hoga ".(aap un jumlon mein ikhlaqi aitbaar se ro o badal kar satke hain)




Ab onhaein yeh kon betaye ke bachon ke walidain sotay nahi hain.Bistar par hon bhi to karvatein badal rahay hotay hain. khud ko samgha rahay hotay hain. naye zamane se lartay lartay hum qadam ho rahay hotay hain. Watch inhen zeher lag rahi hoti kyunkay woh inhein waqt bta rahi hoti hai jo aulaad ki kalayi aur un ke dil o dimagh se bandhi hoti hai.Har tik tik par dil dhuk dhuk aur darwazay par dastak ka gumaan hota hai.Mobile par kitni martaba number mlitay mlitay reh jata hai. ghar aakar gussa nah ho. Apne gussa ko woh khud bhi qanotiat ka naam dainay lagta hai. apni aulaad ke liye apne aap se larta hai. is ko sahih saabit karne lagta hai magar phir andar ka dara sehma baap bahar aa nikalta hai. Ghussa mein ajata hai. kehta hai" aaj aajay saaf saaf keh dun ga. yahan yeh sab nahi chalay ga. sudhar jao warna apna thikana kahin aur karlo" aur jab woh ghar aata hai to khamoshi se gate khol deta hai.Chahta ke woh is ki khamoshi se mere saaray ghussa ko samajh le.Baita yeh nahi jaanta ke subah baap ko ghar chalanay ke liye dhalti umar main daftar jana hai. woh is shair ki amli Tafseer hai. bakol mairaaj Faiz abadi



Mujh ko thaknay nahi deta yeh zaroorat ka pahar


Mere bachay mujhe boorha nahi honay dete



Aulaad samjhti hai ke baap ko jhansa day den gay. maa se sifarish kara len gay.Samnay se khamoshi se nazar bacha kar guzar jayen. woh ahmaq hain woh nahi jantay ke ahmaq se ahmaq baap bhi aulaad ke muamlay mein ahmaq nahi hota. bas woh




nojawani ke mun zor ghoray ko jagah deta hai. aulaad ka aqli TV agar 32 inch ka hai to baap ka 72 inch ka hota. woh chehra dekh kar tumhara sach jhoot bta day .


Aulaad ko shayad yeh pata hi nahi hota ke jis Umar se woh guzar raha hai baap woh Umar guzar kar aaya hai. duniya badli hai. rishte to nahi badlay insani sarshat to nahi badli. yeh duniya mukafaat amal hai. aaj jo boya ja raha hai, kal wohi kaata jaye ga. phir yeh nah kehna ke zamana kitna badal gaya. zamana hum hi bdalty hain aur rotay hain. bilkul aisay hi jaisay kisi faqeer tabiyat shakhs ne kaha tha ke dozakh mein koi aag nahi hogi sab apne apne hissa ki le kar ayen ge .



Mein aap ko apni zindagi ka aik waqea sunataa hon. jab mein naya naya advertising mein naya to raat 12 ya 1 bajna roz ka mamool tha. mere waalid sahib mere ghar nah anay par raat gay taq gali mein teheltay rehtay hain. jab mein aata to sath andar atay. gali mein baithy larke is baat par mera mazaq uratay. mein walida se halki awwaz mein roz hi yeh kehta" jab abbu ko pata hai ke mein der se aata hon to bahar gali mein kyun teheltay hain ". waalid suna liya karte aur khamosh hi rehtay. aik din bolay : jab aap sahib aulaad hon ge to pouchon ga" .




Meri shadi hui. 2 bachay hue.School janey lagey. woh van se school aaya jaya karte. aik din mein office nahi gaya. biwi se poocha" bachay kab school se atay hain ?. Biwi ne kaha ke siwa do bujey. meri nazar gharri par thi. siwa do baj gay aur phir aik aik minute bhaari hota gaya. meri pareshani barhti chali jarahi thi. biwi ni kaha bhi ke atay hon ge magar mujh se sabr nah hoa meri rahaish third flour par thi. dhai bujey neechay utar aaya. van aayi to van walay ko bhi khoob sunaya .




Bay charah kehta reh gaya ke traffic jaam tha magar usay kya pata tha ke mera dimagh kitna jaam ho raha tha. zehan mein kya kuch tha jo nahi araha tha. jab mein bachon ko oopar le kar charh raha tha to socha kya yeh pagal pan tha to dil ne kaha nahi yeh baap pan tha jo mere waalid ko tha jo har baap ko hota hai magar aulaad usay samajh nahi paati. waqai waalid ne sahih kaha tha" jab sahib aulaad ho ge to pouchon ga ". abbu mein aap se moazrat khuwa hon. ab mein nahi jaanta ke mere baad anay wali nasal yeh moazrat kehna ya shayad sochna bhi zurori samjhay gi ke nahin.

Kia Baap Zindagi Mein Phela ولن Hota Hae?


28 March 2018
Article # 7

کیا یہ سچ ہے 

باپ زندگی میں ہہلا " ولن " ہوتا ہے ۔


تحریر :اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)



ہوسکتا ہے بہت سے افراد کو میری یہ بات اچھی نہ لگے لیکن اگر وہ کچھ لمحے ماضی میں پلٹ کر دیکھیں تو  شاید وہ کسی حد تک میرے ہم خیال ہو جائیں ۔ اب وہ تکلیف دہ بات بھی سن لیجئے "زندگی میں ہہلا ولن کوئی اور نہیں آپ کا اپنا باپ ہوتا ہے"۔وضاحت کردوں اس سے مراد فلموں والا ولن نہیں ہے۔

جب اولاد لڑکپن یا بلوغت کی عمر میں آزادی کی بے سمت، بے ارادہ ،لاحاصل اور وقت گذاری کے لئے آوارہ پرواز اڑنا چاھتی ہے تو جو شخص آپ کے رن وے پر "ناں" کا اشارہ لئے کھڑا ہوتا ہے وہ پرانے خیالات کا حامل ، نئی دنیا سے بے خبر ،ظالم اور جابر باپ ہوتا ہے۔وہ آنے جانے کا پوچھتا ہے۔ دنیا کی اونچ نیچ سمجھاتا ہے۔ پڑھنے کا کہتا ہے ،زندگی میں وقت اور اوقات میں رہنے کی اہمیت سمجھاتا ہے۔ غرض ہر وہ بات کرتا ہے جو آپ کے خیال میں Outdated ہوتی ہے۔ آپ کو دوستوں کا ہر وہ باپ Broadminded اور Update لگتا ہے جو اپنے بچوں کو چھوٹ دے کر رکھتا ہے اور آپ اپنے باپ کو اچھوت سمجھنے لگتے ہیں۔

دوست آپ کے باپ کے لئے کہتے ہیں "یار تھارا بابا کس زمانے کی پیدائش ہے ؟ گاوں سے آیا ہے ؟ مغرب کی نماز بڑھکر سوجاتا ہے۔ اسے سمجھا اب زندگی مغرب کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ رات بارہ بجے تو لڑکے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ " جب آپ رات گئے گھر جانے کا کہتے ہیں تو دوست ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہیں " یار ٹوپی کرادینا ۔ویسے بھی وہ اب سو گیا ہوگا"۔ (آپ ان جملوں میں اخلاقی اعتبار سے رو و بدل کر سکتے ہیں۔)

اب انہہں یہ کون بتائے کہ بچوں کے والدین سوتے نہیں ہیں۔ بستر پر ہوں بھی تو کروٹیں بدل رہے ہوتے ہیں۔ خود کو سمجھا رہے ہوتے ہیں۔ نئے زمانے سے لیٹے لیٹے ہم قدم ہو رہے ہوتے ہیں۔ گھڑی انہیں زہر لگ رہی ہوتی کیونکہ وہ انہہں وقت بتا رہی ہوتی ہے  جو اولاد کی کلائی اور ان کے دل و دماغ سے بندھی ہوتی ہے۔ ہر ٹک ٹک پر دل دھک دھک اور دروازے پر دستک کا گمان ہوتا ہے۔ موبائل پر کتنی مرتبہ نمبر ملتے ملتے رہ جاتا ہے۔ گھر آکر غصہ نہ ہو۔ اپنے غصہ کو وہ خود بھی قنوطیت کا نام دینے لگتا ہے۔ اپنی اولاد کے لیے اپنے آپ سے لڑتا ہے۔ اس کو صحیح ثابت کرنے لگتا ہے مگر پھر اندر کا ڈرا سہما باپ باہر آنکلتا ہے۔ غصہ میں آجاتا ہے۔کہتا ہے "آج آجائے صاف صاف کہہ دوں گا۔ یہاں یہ سب نہیں چلے گا۔ سدھر جاو ورنہ اپنا ٹھکانہ کہیں اور کرلو" اور جب وہ گھر آتا ہے تو خاموشی سے گیٹ کھول دیتا ہے۔ چاھتا کہ وہ اس کی خاموشی سے میرے سارے غصہ کو سمجھ لے۔ بیٹا یہ نہیں جانتا کہ صبح باپ کو گھر چلانے کے لئے ڈھلتی عمرمیں دفتر جانا ہے ۔ وہ اس شعر کی عملی تفسیر ہے۔ بقول معراج فیض آبادی

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا  پہاڑ 
میرے   بچے  مجھے  بوڑھا  نہیں  ہونے   دیتے

اولاد سمجھتی ہے کہ باپ کو جھانسا دے دیں گئے۔ ماں سے سفارش کرا لیں گئے۔ سامنے سے خاموشی سے نظر بچا کر گذر جائیں۔ وہ احمق ہیں وہ نہیں جانتے کہ احمق سے احمق باپ بھی اولاد کے معاملے میں احمق نہیں ہوتا ۔بس وہ 
نوجوانی کے منہ زور گھوڑے کو جگہ دیتا ہے ۔ اولاد کا عقلی ٹی وی اگر 32 انچ کا ہے تو باپ کا 72 انچ کا ہوتا۔ وہ چہرہ دیکھکر  تمہارا سچ جھوٹ بتا دے۔

اولاد کو شاید یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جس عمر سے وہ گزر رہا ہے باپ وہ عمر گذار کر آیا ہے۔ دنیا بدلی ہے۔ رشتے تو نہیں بدلے انسانی سرشت تو نہیں بدلی۔یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ آج جو بویا جا رہا ہے ،کل وہی کاٹا جائے گا ۔ پھر یہ نہ کہنا کہ زمانہ کتنا بدل گیا۔زمانہ ہم ہی بدلتے ہیں اور روتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی فقیر طبعیت شخص نے کہا تھا کہ دوزخ میں کوئی آگ نہیں ہوگی سب اپنے اپنے حصہ کی لے کر آئیں گے۔

میں آپ کو اپنی زندگی کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ جب میں نیا نیا ایڈورٹائزنگ میں نیا تو رات 12 یا 1 بجنا روز کا معمول تھا۔ میرے والد صاحب میرے گھر نہ آنے پر رات گئے تک گلی میں ٹہلتے رہتے ہیں۔ جب میں آتا تو ساتھ اندر آتے۔ گلی میں بیٹھے لڑکے اس بات پر میرا مذاق اڑاتے۔ میں والدہ سے ہلکی اواز میں روز ہی یہ کہتا "جب ابو کو پتہ ہے کہ میں دیر سے آتا ہوں تو باہر گلی میں کیوں ٹہلتے ہیں "۔ والد سنا لیا کرتے اور خاموش ہی رہتے ۔ایک دن بولے: جب آپ صاحب اولاد ہوں گے  تو پوچھوں گا"۔

میری شاری ہوئی۔ دو بچے ہوئے ۔ اسکول جانے لگے۔ وہ وین سے اسکول آیا جایا کرتے۔ایک دن میں آفس نہیں گیا۔ بیوی سے پوچھا " بچے کب آسکول سے آتے ہیں؟ ۔ بیوی نے کہا کہ سوا  دو بجے۔ میری نظر گھڑی پر تھی۔ سوا دو بج گئے اور پھر ایک ایک منٹ بھاری ہوتا گیا۔ میری پریشانی بڑھتی چلی جارہی تھی ۔ بیوی نی کہا بھی کہ آتے ہوں گے مگر مجھ سے صبر نہ ہوا  میری رہائش تھرڈ فلور پر تھی۔  ڈھائی بجے نیچے اتر آیا ۔ وین آئی تو وین والے کو بھی خوب سنایا ۔

 بے چارہ کہتا رہ گیا کہ ٹریفک جام تھا مگر اسے کیا پتہ تھا کہ میرا دماغ کتنا جام ہورہا تھا۔ ذہن میں کیا کچھ تھا جو نہیں آرہا تھا۔ جب میں بچوں کو اوپر لے کر چڑھ رہا تھا تو سوچا کیا یہ پاگل پن تھا تو دل نے کہا نہیں یہ باپ پن تھا جو میرے والد کو تھا جو ہر باپ کو ہوتا ہے مگر اولاد اسے سمجھ نہیں پاتی ۔ واقعی والد نے صحیح کہا تھا "جب صاحب اولاد ہو گے تو پوچھوں گا "۔ابو میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ اب میں نہیں جانتا کہ میرے بعد آنے والی نسل یہ معذرت کہنا یا شاید سوچنا بھی ضروری سمجھے گی کہ نہیں

Wednesday 27 March 2019

Khandaan thay tou Paandaan they.Written and read by Azhar Azmi

Baap ghar mein darakht ... in Roman urdu


Article # 6 ... Roman Urdu

Un ke saaye mein bikhat hotay hain

Baap ghar mein darakht hotay hain




Written by : Azhar Azmi 

(Aik ishtihari ki batain )




1988 mein aik choti si advertising agency mein pehli mulazmat mili woh bhi Defence Punjab Colony mein. Salary lagi 1000 rupay.Waalid sahib ney do pants aik sath silva den.Walida ka shuru din se yeh farmaan raha ke tum kapron ki izzat karo ge to kapray tumhari izzat karen ge.Takeed ki wajah yeh thi ke hum ney jab bhi kapray utaarey, ultay hi utaarey jinhein walida seedha kartin .


Kher wapas chaltay hain apni jaye mulazmat par.Kahan hum lower middle class aur kahan Defence area ka hazaar gaz ka bangla.Jo shakhs zindagi mein kabhi adhay ghantay se ziyada AC mein nah betha ho,Woh 8 ghantay aik hi kursi par betha rahay to sochen is ke jism ka kon sa hissa dard zada nah hoga.Lagta tha thand hadion mein baithi nahi balkay late gyy hai .

Kaam vam hamein kya aata tha. trainee ( usay aap rail wali train ka dabba samajh len jisay engine ghsitta hai ) copywriter lagey they.Bas aik martaba tjs ( Tanveer jamsheed. Drees designer) ki meeting mein ginti poori karne ke liye betha diye gaye.Puri meeting mein sehmay sehmay rahay.Kuch samajh mein hi nahi araha tha .


Sab kuch theek chal raha tha.Hum khush they.Muhallay mein hamari mulazmat ki baat phail chuki thi.Dost yaar apne liye aur muhallay ki aurtain apne bachon ke liye modelling ki darkhwast kar chuki theen ke aik bhayanak khawab ki terhah aik hafta baad hamein 250 rupay day kar ba yak junbish qalam farigh kardiya gaya aur" ilzaam" yeh lagaya gaya ke yeh kaam aap ke bas ka nahi.Hamari to duniya andher ho gi.Kher aik darwaaza band ho to kayi aur Dur khultay hain. hum ney apni Creative Director Miss Yasmeen se barkhwastgi ki wajah punchi to bolein ke MD ka dimagh kharab hogaya hai.Tumhen aeye abhi aik hafta hi hoa hai.Kaam anay ya nah anay ka kya sawal? barri dabangg khatoon theen.Nah janey ab kahan hain lekin mere liye woh farishta theen.Kehnay lagen ghabranay ki koyI zaroorat nahi tum Nadeem Farooq Paracha ( mashhoor likhari ) se kal ja kar mil lau. woh is waqt korngi road اگفا laboratory ke peechay waqay aik agency mein Creartive department mein they. Mein aglay roz wahan pouncha to bolay yahan to koyI jagah khaali nahi. tum aisa karo mere waalid Farooq paracha se mil lau.Un ke paas vacancy hai. Farooq Paracha sahib is waqt Laal kothi par waqay aik agency mein they.Mein wahan pouncha.Allah ney un ke dil mein reham dala aur mulazmat mil gayi .


Farooq Paracha sahib pakkay PPPite aur bohat dilchasp, saada tabiyat aur khush guftaar they.Aik zamane mein un ka Bhutto sahib ke haan aana jana tha. Farooq Paracha sahib Urdu Daily Jang mein siyasi article likha karte they jo adarti safha mein shaya hota tha.Hum un ke under mein they.Jab kabhi inhen mazmoon likhna hota to lunch par hamein le kar baith jatay woh boltay aur hum likhte jatay aur do aik roz mein woh article jung mein choup jata.Aik din article lkhwa rahay they.Ekhtataam baqi tha.Nah janey dil mein kya aaya bolay baqi tum likh do. hum ney baqi shayad aik paragraph hi hoga,likh diya aur kuch roz baad woh article hamaray paragraph ke sath shaya ho gaya hum hairan ke yeh kya ho gaya? ( mein taa zindagi Farooq paracha sahib ka mamnon rahon ga ke unhon ney meri likhnay ki salahiyat aur siyasi soojh boojh ko" Taar " liya tha. )



Ab hamara hosla barh gaya.Do aik mah baad hamari is agency se faraghat hogi aur hum poanch gaye Nadeem Farooq paracha ke paas.Is agency mein kaam ziyada nah tha.Din bhar Nadeem aur mein idhar idhar ki hanktay rehtay.Agency mein jitne bhy newspaper atay chaat laita. Samjhain yahan aakar lotry khil gae thi .



Zehan mein aik baat to baith chuki thi ke ab hamein khud likhna hai. is zamane mein ( 1988 ) Campuchia ka masla bara zoroan par tha. hum ney lafzon ki poori kaari giri karte hue aik article" aakhir Campuchia ka masla kab hal hoga ?" likh dala aur himmat kar ke Jang akhbar ke daftar poanch gaye. koyi jaan pehchan nahi.Gate par hi chokidaar ney rok liya. kya kaam hai. kis se milna hai? ab koyI jan-nay wala ho to bitayen.Bas yahi kaha bhai aik mazmoon likha hai chhapwane ke liye dainay aaya hon.Go ke samnay mazmoon daalnay ka box rakha tha lekin chokidaar ney wahan taq nah janey diya.Mere haath se liya aur khud hi box mein daal diya. hum chalay aeye. socha raddi ki tokri mein hi jaye ga.Hamein kon jaanta hai.Jang mein mazmoon chhapna koyi khail nahin hai woh bhi hum jaisay naye likhnay walay ka.Article day aeye aur kisi ko bataya bhi nahi .




Do chaar din baad mein subah office janey ke liye kapron par istri kar raha tha.Waalid sahib akhbar parh rahay they. aik dam kamray se un ki aawaz aae." Azmi idhar ao." mein ney kaha" abbu istri kar raha hon" bolay' istri chhorro pehlay yahan ao". Mein kamray mein gaya to waalid sahib ke chehray par khusi ke tasrat they.jang akhbar ka adarti safha mujhe detay hue bolay" dekho tumhara mazmoon Jang ke adarti safha par aaya hai. Mein ney dekha to waqai Raees Amrohvi ke qatay ki neechay aur Javed Jabbar ke column ke sath Campuchia wala article mere naam Azhar Hussain Azmi ke sath shaya hochuka tha. mein to kher khush tha hi lekin mere waalid sahib ki khusi deedni thi. kehnay lagey" tumhen andaza hai ke jung mein mazmoon ka woh bhi adarti safhay par shaya hona kitni barri baat hai" .




Mujhe article shaya ki be intahaa khusi thi magar is se ziyada khusi is baat ki thi ke aaj mere waalid sahib meri wajah se bohat khush they. shayad inhen apne kisi khawab ki tabeer milnay ke assaar nazar aeye they. Yahan mein aik baat batata chaloon ke mere waalid sahib khandan ke pehlay shayar they. takhallus Kausar Sultan Puri tha. baad az rozgaar aap ka ziyada tar waqt kutub beeni mein guzarta yahi wajah hai ke mein ney Matric taq atay atay bohat kuch parh liya tha .




Article kya chhapa. Waalid sahib ney apne tamam ahbaab ko bta diya. khandan ke log jo mujhe nakara samajte un ke liye bais e fakhr ho gaya kyunkay mein pehla fard tha jo ab Jang mein chapnay laga tha. 80 ke ashray ke log jantay hain ke is zamane mein Jang mein mazmoon ke ajany se woh izzat o shohrat millti thi jo shayad aaj TV channels par anay se bhi nahin milti.Baat ho rahi thi waalid sahib ki. .. . aaj bhi sochta hon ke yeh walidain bhi kitney ajeeb hotay hain inhen aulaad ke pesey se koyI gharz nahi hoti.Bas yeh to apne liye apni aulaad se honay walay fakhr ke lamhay talaash karte hain. khaas tor par is waqt jab un ki kamar Khamida ho jaye aur aap un ka sir fakhr se buland kar dein .




Mein baad mein siyasat aur deegar mozuaat par mukhtalif akhbarat mein musalsal articles likhta raha aur waalid sahib sab ko batatay rahay. Un ka koyi dost milta to usay mere har article ka pata hota aur mein sir jhukae articles par un ke tabsaray santa rehta. Meri khusi article mein nahi thi meri asal khusi yeh thi ke mein apne waalid ke khowaboon ko tabeer day raha tha. Salary meri dodhai hazaar hogi magar waalid sahib ko lakhoon ki khusi mil rahi thi shayad woh khusi jinhein noton mein gina bhi nah ja sakta ho .




Meri bas aik guzarish hai ke waalid ko zindagi mein kam ahem nah jaanen. Woh zindagi bhar aap ke liye ATM card bana rehta hai. aap is ke liye inbisaat o fakhr ka ATM card ban jayen. Buzurgi aur ehtram ke naam par is se daur nah bhagain. is ke paas bathain, is ki tanhai daur karen. Is ney aap ko ungli pakar kar chalna sikhaya. kya aap is ke paas baith bhi nahi satke. jawan hotay bachon ke waalid is baat ko ziyada behtar samajh aur mehsoos kar satke hain. Baap martay nahi hain kisi nah kisi andaaz mein aap ya aap ki aulaad mein zindah rehtay hain. Kabhi pota (Grandson) muskuraye ya haath hila hila kar baat kere to aap khush ho kar kehte hain" dekho bilkul papa ki terhan kar raha hai ". koshish karen ke aap jab yeh baat kar rahay hon to baap aap ke sath hi betha ho warna yeh aawaz is ke kaanon mein agar pohanchi to woh shehar khamoshan (Graveyard) ki aik andheri qabar mein num aankhon ke sath muskura raha hoga .



Tumhari qabar par js ney tumahray naam ka kutba lagaya hai woh jhoota hai



Tumhari qabar mein, mein dafan hon tum mujh mein zindah ho




(Nida Fazli)

Tuesday 26 March 2019

Baap ghar mein darakht hotay hain ... A thought awakening article


Article # 6

ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں

باپ گھر  میں  درخت ہوتے  ہیں

تحریر: اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)




1988 میں ایک چھوٹی سی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں پہلی ملازمت ملی وہ بھی ڈیفنس پنجاب کالونی میں۔ تنخواہ مبلغ ایک ہزار روپے ۔ والد صاحب نے دو پینٹیں ایک ساتھ سلوا دیں۔ والدہ کا شروع دن سے یہ فرمان رہا کہ تم کپڑوں کی عزت کرو گے تو کپڑے تمہاری عزت کریں گے۔ تاکید کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے جب بھی کپڑے اتارے ، الٹے ہی اتارے جنہیں والدہ سیدھا کرتیں۔

خیر واپس چلتے ہیں اپنی جائے ملازمت پر ۔ کہاں ہم لوئر مڈل کلاسیے اور کہاں ڈیفنس کا ہزار گز کا بنگلہ ۔جو شخص زندگی میں کبھی آدھے گھنٹے سے زیادہ AC میں نہ بیٹھا ہو ، وہ 8 گھنٹے ایک ہی کرسی پر بیٹھا رہے تو  سوچیں اس کے جسم کا کون سا حصہ ہوگا درد زدہ نہ ہوگا ۔ لگتا تھا ٹھنڈ ہڈیوں میں بیٹھی نہیں بلکہ لیٹ گئئ ہے۔
کام وام ہمیں کیا آتا تھا۔ ٹرینی ( اسے آپ ریل والی ٹرین کا ڈبہ سمجھ لیں جسے انجن گھسیٹتا ہے) کاپئئ رائٹر لگے تھے۔ بس ایک مرتبہ TJs (تنویر جمشید ۔ ڈریس ڈیزائنر ) کی میٹنگ میں گنتی پوری کرنے کے لئے بیٹھا دیئے گئے۔ پوری میٹنگ میں سہمے سہمے رہے ۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔ہم خوش تھے ۔ محلے میں ہماری ملازمت کی بات پھیل چکی تھی ۔دوست یار اپنے لئےاور محلے کی عورتیں اپنے بچوں کے لئے ماڈلنگ کی درخواست کر چکی تھیں کہ ایک بھیانک خواب کی طرح ایک ہفتہ بعد ہمیں 250 روپے دیکر بہ یک جنبش قلم فارغ کردیا گیا اور "الزام" یہ لگایا گیا کہ یہ کام آپ کے بس کا نہیں ۔ہماری تو دنیا اندھیر ہو گی۔ خیر ایک دروازہ بند ہو تو کئی اور در کھلتے ہیں۔ ہم نے اپنی کریٹیو ڈائریکٹر مس یاسمین سے برخواستگی کی وجہ پوچھی تو بولیں کہ MD کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ تمھیں آئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے۔ کام آنے یا نہ آنے کا کیا سوال؟ بڑی دبنگ خاتون تھیں ۔ نہ جانے اب کہاں ہیں لیکن میرے لئے وہ فرشتہ تھیں۔ کہنے لگیں گھبرانے کی کوئئ ضرورت نہیں تم ندیم فاروق پراچہ( مشہور لکھاری) سے کل جا کر مل لو۔ وہ اس وقت کورنگی روڈ اگفا لیبارٹری کے پیچھے واقع ایک ایجنسی میں کریٹیو ڈیپارٹمنٹ میں تھے۔ میں اگلے روز وہاں پہنچا تو بولے یہاں تو کوئئ جگہ خالی نہیں ۔تم ایسا کرو میرے والد فاروق پراچہ سے مل لو۔ ان کے پاس ویکینسی ہے۔فاروق پراچہ صاحب اس وقت لال کوٹھی پر واقع ایک ایجنسی میں تھے۔ میں وہاں پہنچا ۔اللہ نے ان کے دل میں رحم ڈالا اور ملازمت مل گئی۔

فاروق پراچہ صاحب پکے پیپلے (پی پی پی) اور بہت دلچسپ، سادہ طبیعت اور خوش گفتار تھے۔ ایک زمانے میں ان کا بھٹو صاحب کے ہاں آنا جانا تھا۔فاروق پراچہ صاحب جنگ اخبار میں سیاسی آرٹیکل لکھا کرتے تھے جو ادارتی صفحہ میں شائع ہوتا تھا ۔ ہم ان کے under میں تھے۔ جب کبھی انہیں مضمون لکھنا ہوتا تو لنچ پر ہمیں لے کر بیٹھ جاتے وہ بولتے اور ہم لکھتے جاتے اور دو ایک روز میں وہ آرٹیکل جنگ میں چھپ جاتا۔ ایک دن آرٹیکل لکھوا رہے تھے۔ اختتام باقی تھا۔ نہ جانے دل میں کیا آیا بولے باقی تم لکھ دو۔ ہم نے باقی شاید ایک ہیراگراف ہی ہوگا ، لکھ دیا اور کچھ روز بعد وہ آرٹیکل ہمارے پیراگراف کے ساتھ شائع ہو گیا  ہم حیران کہ یہ کیا ہو گیا ؟ ( میں تا زندگی فاروق پراچہ صاحب کا ممنون رہوں گا کہ انہوں نے میری لکھنے کی صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کو "تاڑ" لیا تھا۔)
اب ہمارا حوصلہ بڑھ گیا ۔دو ایک ماہ ہماری اس ایجنسی سے فراغت ہوگی اور ہم پہنچ گئے ندیم فاروق پراچہ کے پاس۔ اس ایجنسی میں کام زیادہ نہ تھا۔ دن بھر ندیم اور میں ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے۔ ایجنسی میں جتنے بھئ اخبارات آتے چاٹ لیتا ، سمجھیں یہاں آکر لاٹری کھل گئئ تھی۔

ذہن میں ایک بات تو بیٹھ چکی تھی کہ اب ہمیں خود لکھنا ہے۔ اس زمانے میں (1988) کیمپوچیا کا مسئلہ بڑا زوروں پر تھا۔ ہم نے لفظوں کی پوری کاری گری کرتے ہوئے ایک آرٹیکل " آخر کیمپوچیا کا مسئلہ کب حل ہوگا؟ " لکھ ڈالا اور ہمت کر کے جنگ اخبار کے دفتر پہنچ گئے۔ کوئئ جان پہچان نہیں ۔ گیٹ پر ہی چوکیدار نے روک لیا۔ کیا کام ہے ۔کس سے ملنا ہے؟ اب کوئئ جاننے والا ہو تو بتائیں۔بس یہی کہا بھائئ ایک مضمون لکھا ہے چھپوانے کے لئے دینے آیا ہوں۔ گو کہ سامنے مضمون ڈالنے کا بکس رکھا تھا لیکن چوکیدار نے  وہاں تک نہ جانے دیا۔ میرے ہاتھ سے لیا اور خود ہی بکس میں ڈال دیا۔ ہم چلے آئے۔سوچا ردی کی ٹوکری میں ہی جائے گا۔ ہمیں کون جانتا ہے۔ جنگ میں مضمون چھپنا کوئئ کھیل ہے وہ بھی ہم جیسے نئے لکھنے والے کا۔ آرٹیکل دے آئے اور کسی کو بتایا بھی نہیں ۔

دو چار دن بعد میں صبح آفس جانے کے لئے کپڑوں پر استری کر رہا تھا۔ والد صاحب اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایک دم کمرے سے ان کی آواز آئئ۔ "عزمی ادھر آو ۔" میں نے کہا "ابو استری کر رہا ہوں " بولے 'استری چھوڑو پہلے یہاں آو۔ " میں کمرے میں گیا تو والد صاحب کے چہرے پر خوشی کے تاثرات تھے۔ جنگ اخبار کا ادارتی صفحہ مجھے دیتے ہوئے بولے " دیکھو تمہارا مضمون جنگ کے ادارتی صفحہ پر آیا ہے۔ میں نے دیکھا تو واقعی ریئس امروہوی کے قطعے کی نیچے اور جاوید جبار کے کالم کے ساتھ کیمپوچیا والا آرٹیکل میرے نام آظہر حسین عزمی کے ساتھ شائع ہوچکا تھا۔ میں تو خیر خوش تھا ہی لیکن میرے والد صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ کہنے لگے" تمھیں اندازہ ہے کہ جنگ میں مضمون کا وہ بھی ادارتی ضفحہ پر شائع ہونا کتنی بڑی بات ہے "۔

مجھے آرٹیکل شائع کی بے انتہا خوشی تھی مگر اس سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ آج میرے والد صاحب میری وجہ سے  بہت خوش تھے ۔ شاید انہیں اپنے کسی خواب کی تعبیر ملنے کے آثار نظر آئے تھے۔ یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ میرے والد صاحب خاندان کے پہلے شاعر تھے ۔تخلص کوثر سلطان پوری تھا۔ بعد از روزگار آپ کا زیادہ تر وقت کتب بینی میں گذرتا یہی وجہ ہے کہ میں نے میٹرک تک آتے آتے بہت کچھ پڑھ لیا تھا۔

آرٹیکل کیا چھپا ۔ والد صاحب نے اپنے تمام احباب کو بتا دیا۔  خاندان کے لوگ جو مجھے ناکارہ سمجھتے ان کے لئے باعث فخر ہو گیا کیونکہ میں پہلا فرد تھا جو اب جنگ میں چھپنے لگا تھا۔ 80 کے عشرے کے لوگوں کو جانتے ہیں کہ اس زمانے میں جنگ میں مضمون کے آجانے سے وہ عزت و شہرت ملتی تھی جو شاید آج ٹی وی چینلز پر آنے سے بھی ملتئ ۔ بات ہو رہی تھی والد صاحب کی  ۔۔۔۔ آج بھی سوچتا ہوں کہ یہ والدین بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں انہیں اولاد کے پیسے سے کوئئ غرض نہیں ہوتی۔ بس یہ تو اپنے لئے اپنی اولاد سے ہونے والے فخر کے لمحے تلاش کرتے ہیں۔خاص طور پر اس وقت جب ان کی کمر خمیدہ ہو جائے اور آپ ان کا سر فخر سے بلند کردیں۔

میں بعد میں سیاست اور دیگر موضوعات پر مختلف اخبارات میں مسلسل آرٹیکلز لکھتا رہا اور والد صاحب سب کو بتاتے رہے۔ ان کا کوئئ دوست ملتا تو اسے میرے ہر آرٹیکل کا پتہ ہوتا اور میں سر جھکائے آرٹیکلز پر ان کے تبصرے سنتا رہتا ۔ میری خوشی آرٹیکل میں نہیں تھی میری اصل خوشی یہ تھی کہ میں اپنے والد کے خوابوں کو تعبیر دے دہا تھا۔ تنخواہ میری دو ڈھائئ ہزار ہوگی مگر والد صاحب کو لاکھوں کی خوشی مل رہئ تھی شاید وہ خوشی جنہیں نوٹوں میں گنا بھی نہ جا سکتا ہو ۔

میری بس ایک گزارش ہے کہ والد کو زندگی میں کم اہم  نہ جانیں۔ وہ زندگی بھر آپ کے لئے ATM کارڈ بنا رہتا ہے ۔ آپ اس کے لئے انبساط و فخر کا ATM کارڈ بن جائیں۔ بزرگی اور احترام کے نام پر اس سے دور نہ بھاگیں ۔ اس کے پاس بیٹھیں ۔اس کی تنہائی دور کریں۔ اس نے آپ کو انگلی پکڑ کرچلنا سکھایا ۔کیا آپ اس کے پاس بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ جوان ہوتے بچوں کے والد اس بات کو زیادہ بہتر سمجھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔باپ مرتے نہیں ہیں کسی نہ کسی انداز میں آپ یا آپ کی اولاد میں زندہ رہتے ہیں۔ کبھی پوتا مسکرائے یا ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرے تو آپ خوش ہو کر کہتے ہیں  "دیکھو بالکل پاپا کی طرح کر رہا ہے"۔کوشش کریں کہ آپ جب یہ بات کر رہے ہوں تو باپ آپ کے ساتھ ہی بیٹھا ہو ورنہ یہ آواز اس کے کانوں میں اگر پہنچی تو وہ شہر خاموشاں کی ایک اندھیری قبر میں نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا رہا ہوگا ۔

تمہاری قبر پرجس نے تمہارے نام کا کتبہ لگایا ہے وہ جھوٹا ہے 
تمہاری  قبر  میں ، میں دفن  ہوں  تم مجھ  میں زندہ  ہو

(ندا فاضلی)

Monday 25 March 2019

Hamara Indian Filmon ka "Marhoom" shoq ... In Roman Hindi / Urdu


Article # 5 ... Roman Urdu

Hamara indian filmon ka" marhoom" shoq
A nostalgia



Written by : Azhar Azmi
( Aik ishtihari ki baatein )

Yeh 80 ki dehai ke ibtidai saal they. VCR kisnemat ka naam hai. sirf suna tha. kabhi ziyarat ka sharf haasil nahi hoa tha. yeh woh zamana tha ke agar muhallay ya college mein aap indian filmon se nawaqif hain. aap ney agar koyi indian film nahi dekhi hai to aap se bara ujad, ganwaar, jaahil aur out dated
koyi bhi nahi. film dekhna is zamana mein zindah o Javed honay ki alalamat thi. aap ki shakhsiyat mein romance ki chaashni is waqt mehsoos hoti jab aap kisi larki ko dekh kar koyy naya navaila indian gana gatay. aawaz achi ho to sonay par suhaga (waisay kuch bay suray magar mohabbat bhara dil rakhnay walay jab apni bhondi aur tapar daar aawaz ka zeher gholte to nah sirf larki muskarati hoyi chali jati balkay kaafi der taq doston mein chhe chhe hoti rehti ) is zamane mein bohat se ishhq is liye parwan charrhey ke larke ki aawaz achhi hai. achay ganay walay larke muhallay aur khandano ki shadion mein aksar bulaye jatay .

Dekhye! indian filmon par anay se pehlay gano ney mujhe ghair liya aur baat kahan ki kahan nikal gae. 1977 ki Bhuto mukhalif tehreek mein jab poooray malik mein pahiyah jaam hota. Curfew lagta to un tamam namsaaid halaat ke bawajood raat mein rozana Ranchore line mein indian filme chala karten aur un filmon ke aashiq sar par kafan to nahi lekin faujion se bachte bachatey chappal hathon mein le kar film dekhnay jatay .

Hamaray sab se chhootey chacha marhoom Dilip Kumar., Mohammad Rafi aur Lata mangeshkar ka Encyclopedia they. Mohammad Rafi se un ki mohabbat ka yeh aalam tha ke un ke yum wafaat par zarde par Fatiha dilatey. jis zamane mein tape record hi sab kuch tha. aik martaba aik faqeer Mohammad Rafi ka koyi religiuos kalaam parhta hoa un ki gali mein agaya. aap ney usay ghar bulaya. Tape record khoola aur jo kuch Rafi ka gaaya hoa yaad tha, record kar liya. baad mein chaltay waqt paisay diye .

hamaray chacha apne doston ke sath un curfew ke dinon mein raat ko indian film dekhnay Ranchore line jatay aur phir subah paidal ghar atay. yeh allag baat phir aik film hamaray waalid sahib chalatay jis ko dekhnay aur sun-nay walay akailey hamaray chacha hotay magar wohi baat hai ke shoq ka koyi mol nahi. chacha se is zamane mein hum ney film Kati Patang ki tareef suni jis ke hero Rajesh khanna they jo is zamane ke super star hoa karte they. chacha ke paas un tamam indian risalon ka record mojood tha jis mein Dilip kumar ka zikar hota .

Iss se hamein yeh faida hoa ke hum no umari mein is zamane ki indian filmi nagri se waaqif hogaye. Shama risala Dehli se print hota. hamari shama se alik sleek chacha ke zariye hoyy. chacha ka khayaal tha ke shama risala Dilip Kumar ke mukhalif camp ka hai .

shama ke phir hum rasiya ho gaye. College aur is ke baad ke dinon mein raddi paper walon aur purani kitabon ke thailon par Shama par nazar rakhtay ke yeh din mein kahan jal raha hai. shama mein musafir ki diary aaya karti jo is ke malik Idrees Dehlvi likhte jis mein set par mojood filmon ka haal ahwaal aur filmi sitaron se guftagu hoti. Iis ke ilawa bhi sitaron ke interviews hotay. anay wali filmon ke ishtihar hotay. jo baat hamaray liye izafi tor par faida mand rahi woh yeh ke is mein mashhoor adeebon ke afsaanay aur kahaniyan bhi hoten. chacha ke baqol shama Dilip Kumar mukhalif tha lekin aik mukammal risala tha. Indian film industry se waqfiyat ke liye shama ka kirdaar hamaray liye rahnma ka darja rakhta hai. aaj jo hum maazi ke filmi sitaron ki pol patti kholtey hain to yaqeen jaanen yeh sab shama ki kiranen hain jin se hum aisi tamam mehafilon mein aaj bhi jagmaga rahay hotay hain. Bas aik masla yeh aata hai ke log hamein 1945 ke aas paas ki paidaiesh samajte hain .

Baatein itni kar len magar yaqeen jaanen pehli indian film / filme is waqt dekhen jab hum inter ka tution parhnay bock 17 Federal b Area jaya karte they. bas hamari kuch naikian hamaray kaam agaien jo yeh sawab semathnay ki Saadat naseeb hoyy. Allah ka karna aisa hoa ke hum jahan inter mein tution parhnay jatay they.Iis gali ka aik larka Khurram bhi sath tuition parhta tha. phir yeh ke jin se tution parhte they un ka cosuin bhi sath hota tha. aik din unhon ney bataya ke hum do indian filme chala rahay hain. larkoon ka intizam karo. fi film ( agar sahih yaad hai ) 5 Rupees ka rate muqarrar hoa yani aik larka 10 rupees. Hum ney bhi larkoon ka intizam kya aur un ko 2 rupay –apne 12 rupay rakhkar betaye. Khurram se saaf saaf keh diya ke mein filme free mein daikhon ga. pehlay to woh maana nahi. mein ney kaha phir mere bande bhi nahi ayen ge. bil-aakhir woh raazi ho hi gaya. ab sahib jab 120 gaz ke makaan ke kamray mein dopehar ko mein larke le lay kar phuncha to room khacha khach bhara hoa tha. Bethna kia saans lainay ore ki baat saans laina mushkil tha. jin larkoon ko mein le gaya tha aur kaha tha ke baray aaraam se tangein phela kar film dekhen ge, un mein se aik larka hathe se akhar gaya.Raqam pehlay li jachki thi.Iis ney paison ki wapsi ka taqaza kardiya. mein khud heran tha ke bathain ge kahan? lekin phir wohi baat ke dil mein jagah honi chahiye. ghis ghisa kar peeth gay magar 6 ghantay baad jis jagah jaisay peethe they waisay hi utthay .

jitna hum filme dekh kar nahi akray they is se kahin ziyada tangen akarr chuki theen. Pehli film jo dekhi woh do aur do paanch thi. Amitabh bachchan. shIshi Kapoor . Hema Malini. Parveen babi is ke setaaray they. doosri film Rashi Kapoor aur Hiritik roshan ke father rakesh ki thi. dono film ke hero they. yeh film dekh kar jab bahar niklay to raat ho chuki thi magar hamari zindagi mein indian filmon ka ujala phail chuka tha aur khud ko society ka ba izzat fard samajh chuke they. Amitabh ki sehar angaiz shakhsiyat ney poori aur buri terha jakar liya tha. ab apni filmon se" imaan" poori terhan uth chuka tha. Amitabh ke agay peechay kuch dekhai nah deta tha. hamari chacha se khoob hi guftagu hoti. chacha dilip ke aur hum Amitabh ke deewany they. chacha kehte Amitabh dilip ke agay kuch bhi nahi aur waqai jab kuch barhay hue aur dilip kumar ki adakari dekhi to andaza hoa ke dilip kumar dilip kumar hai. chacha bhi Amitabh ko adakar mantay they magar dilip kumar ke baad. jab film shakti mein dilip kumar aur Amitabh ko aamnay samnay dekha to haqeeqat aur bhy ayaan ho gae .

baad mein kaafi films dekhen magar ab arsa hoa ke yeh sab khatam ho chuka hai. aakhri film jo poori dil, dimagh aur chasham jamee se dekhi woh Lagaan thi. yun samajh len ke hum ney indian filmein dekhnay ka yeh aakhri lagaan ada kya tha. baad mein ikka daka filme dekhen. achi bhi lagein magar dekhnay mein inhimak baraye naam hi tha. bas yeh tha ke jaldi khatam hon. yeh bhi aik haqeeqat hai ke Dilip Kumar aur Amitabh ke baad ya to koi dil ko jacha nahi ya phir hamara shoq hi marhoom ho gaya .


Hamara Indian Filmon ka" Marhoom" Shoq. An interesting Nostalgia





Article # 5

ہمارا انڈین فلموں کا "مرحوم" شوق



تحریر: اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

یہ 80 کی دھائئ کے ابتدائئ سال تھے۔ VCR کس نعمت کا نام ہے۔ صرف سنا تھا۔ کبھی زیارت کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ اگر محلے یا کالج میں آپ انڈین فلموں سے ناواقف ہیں۔ آپ نے اگر کوئئ انڈین فلم نہیں دیکھی یے تو آپ سے بڑ اجڈ، گنوار ،جاہل اور out dated
کوئئ بھی نہیں۔ فلم دیکھنا اس زمانہ میں زندہ و جاوید ہونے کی علامت تھی۔ آپ کی شخصیت میں رومانس کی چاشنی  وقت محسوس ہوتی جب آپ کسی لڑکی کو دیکھکر کوئئ نیا نویلا انڈین گانا گاتے۔ آواز اچھی ہو تو سونے پر سہاگہ ( ویسے کچھ بے سرے مگر محبت بھرا دل رکھنے والے جب اپنی بھونڈی اور تپڑ دار آواز کا زہر گھولتے تو نہ صرف لڑکی مسکراتی ہوئئ چلی جاتی بلکہ کافی دیر تک دوستوں میں چھی چھی ہوتی رہتی ) اس زمانے میں بہت سے عشق اس لئے پروان چڑھے کہ لڑکے کی آواز اچھی ہے۔ اچھے گانے والے لڑکے محلے اور خاندا ن کی شادیوں میں اکثر بلائے جاتے۔
دیکھئے ! انڈین فلموں پر آنے سے پہلے گانوں نے مجھے گھیر لیا اور بات کہاں کی کہاں نکل گئئ۔1977 کی بھٹو مخالف تحریک میں جب پورے ملک میں پہیہ جام ہوتا ۔ کرفیو لگتا تو ان تمام نامساعد حالات کے باوجود رات میں روزانہ رنچھوڑ لائن میں انڈین فلمیں چلا کرتیں اور ان فلموں کے عاشق سر پر کفن تو نہیں لیکن فوجیوں سے بچتے بچاتے چپل ہاتھوں میں لے کر فلم دیکھنے جاتے ۔
ہمارے سب سے چھوٹے چچا مرحوم دلیپ کمار۔، محمد رفیع اور لتا منگیشکر کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ محمد رفیع سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ان کے یوم وفات پر زردے پر فاتحہ دلاتے۔ جس زمانے میں ٹیپ ریکارڈ ہی سب کچھ تھا۔ ایک مرتبہ ایک فقیر محمد رفیع کا کوئئ مذہیی کلام پڑھتا ہوا ان کی گلی میں آگیا۔ آپ نے اسے گھر بلایا ۔ ٹیپ ریکارڈ کھولا اور جو کچھ رفیع کا گایا ہوا یاد تھا، ریکارڈ کر لیا۔ بعد میں چلتے وقت پیسے دیئے۔
ہمارے چاچا اپنے دوستوں کے ساتھ ان کرفیو کے دنوں میں رات کو انڈین فلم دیکھنے رنچھوڑ لائن جاتے اور پھر صبح پیدل گھر آتے۔ یہ الگ بات پھر ایک فلم ہمارے والد صاحب چلاتے جس کو دیکھنے اور سننے والے اکیلے ہمارے چاچا ہوتے مگر وہی بات ہے کہ شوق کا کوئئ مول نہیں۔ چاچا سے اس زمانے میں ہم نے فلم کٹی پتنگ کی تعریف سنی جس کے ہیرو راجیش کھنہ تھے جو اس زمانے کے سپر اسٹار ہوا کرتے تھے۔ چاچا کے پاس ان تمام انڈین رسالوں کا ڈخیرہ موجود تھا جس میں دلیپ کمار کا ذکر ہوتا۔
اس سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم نوعمری میں اس زمانے کی انڈین فلمی نگری سے واقف ہوگئے ۔ شمع رسالہ دہلی سے شائع ہوتا ۔ ہماری شمع سے علیک سلیک چاچا کے ذریعے ہوئئ۔ چاچا کا خیال تھا کہ شمع رسالہ دلیپ کمار کے مخالف کیمپ کا ہے۔
شمع کے پھر ہم رسیا یوگئے۔ کالج اور اس کے بعد کے دنوں میں ردی پیپر والوں اور پرانی کتابوں کے ٹھیلوں پر شمع پر نظر رکھتے کہ یہ دن میں کہاں جل رہا ہے۔ شمع میں مسافر کی ڈائری آیا کرتی جو اس کے مالک ادریس دہلوی لکھتے جس میں سیٹ پر موجود فلموں کا حال احوال اور فلمی ستاروں سے گفتگو ہوتی۔ اس کے علاوہ بھی ستاروں کے انٹرویوز ہوتے۔ آنے والی فلموں کے اشتہار ہوتے۔ جو بات ہمارے لئے اضافی طور پر فائدہ مند رہی وہ یہ کہ اس میں مشہور ادیبوں کے افسانے اور کہانیاں بھی ہوتیں۔ چاچا کے بقول شمع دلیپ کمار مخالف تھا لیکن ایک مکمل رسالہ تھا۔ انڈین فلم انڈسٹری سے واقفیت کے لئے شمع کا کردار ہمارے لئے راہنما کا درجہ رکھتا ہے۔ آج جو ہم ماضی کے فلمی ستاروں کی پول پٹی کھولتے ہیں تو یقین جانیں یہ سب شمع کی کرنیں ہیں جن سے ہم ایسی تمام محفلوں میں آج بھی جگمگا رہے ہوتے ہیں۔بس ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ لوگ ہمیں 1945 کے آس پاس کی پیدائش سمجھتے ہیں۔
باتیں اتنی کر لیں مگر یقین جانیں پہلی انڈین فلم / فلمیں اس وقت دیکھیں جب ہم انٹر کا ٹیوشن پڑھنے بلاک 17 فیڈرل بی ایریا جایا کرتے تھے۔ بس ہماری کچھ نیکیاں ہمارے کام آگئیں جو یہ ثواب سمیٹنے کی سعادت نصیب ہوئئ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم جہاں انٹر میں ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے۔ اس گلی کا ایک لڑکا خرم بھی ساتھ ٹیوشن پڑھتا تھا۔ پھر یہ کہ جن سے ٹیوشن پڑھتے تھے ان کا کزن بھی ساتھ ہوتا تھا۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ ہم دو انڈین فلمیں چلا رہے ہیں ۔لڑکوں کا انتظام کرو۔ فی فلم (اگر صحیح یاد ہے) 5 روپے کا ریٹ مقرر ہوا یعنی ایک لڑکا 10 روپے۔ ہم نے بھی لڑکوں کا انتظام کیا اور ان کو 2 روپے اپنے رکھکر 12 روپےبتائے۔ خرم سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں فلمیں فری میں دیکھوں گا۔ پہلے تو وہ مانا نہیں۔میں نے کہا پھر میرے بندے بھی نہیں آئیں گے۔بالاخر وہ راضی ہو ہی گیا۔ اب صاحب جب 120 گز کے مکان کے کمرے میں دوپہر کو میں لڑکے لے کرپہنچا تو کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بیٹھنے کیا سانس لینے کو ہوا ملنا مشکل تھی۔ جن لڑکوں کو میں لے گیا تھا اور کہا تھا کہ بڑے آرام سے ٹانگیں پھیلا کر فلم دیکھیں گے، ان میں سے ایک لڑکا ہتھے سے اکھڑ گیا۔ رقم پہلے لی جاچکی تھی۔ اس نے پیسوں کی واپسی کا تقاضا کردیا۔ میں خود حیران تھا کہ بیٹھیں گے کہاں ؟ لیکن پھر وہی بات کے دل میں جگہ ہونی چاہیئے۔ گھس گھسا کر پیٹھ گئے مگر 6 گھنٹے بعد جس جگہ جیسے پیٹھے تھے ویسے ہی اٹھے۔
جتنا ہم فلمیں دیکھ کر نہیں اکڑے تھے اس سے کہیں زیادہ ٹانگیں اکڑ چکی تھیں۔ پہلی فلم جو دیکھی وہ دو اور دو پانچ تھی۔ امیتابھ بچن۔ ششی کپور۔ ہیما مالنی۔ پروین بابی اس کے ستارے تھے۔ دوسری فلم رشی کپور اور ریتک روشن کے راکیش کی تھی۔ دونوں فلم کے ہیرو تھے۔یہ فلم دیکھ کر جب باہر نکلے تو رات ہو چکی تھی مگر یماری زندگی میں انڈین فلموں کا اجالا پھیل چکا تھا اور خود کو معاشرے کا باعزت فرد سمجھ چکے تھے۔ امیتابھ کی سحر انگیز شخصیت نے پوری اور بری طرح جکڑ لیا تھا ۔ اب اپنی فلموں سے "ایمان" پوری طرح اٹھ چکا تھا۔ امیتابھ کے آگے پیچھے کچھ دکھائئ نہ دیتا تھا۔ ہماری چاچا سے خوب ہی گفتگو ہوتی ۔چاچا دلیپ کے اور ہم امیتابھ کے دیوانے تھے۔ چاچا کہتے امیتابھ دلیپ کے آگے کچھ بھی نہیں اور واقعی جب کچھ بڑھے ہوئے اور دلیپ کمار کی اداکاری دیکھی تو اندازہ ہوا کہ دلیپ کمار دلیپ کمار ہے۔ چاچا بھی امیتابھ کو اداکار مانتے تھے مگر دلیپ کمار کے بعد ۔ جب فلم شکتی میں دلیپ کمار اور امیتابھ کو آمنے سامنے دیکھا تو حقیقت اور بھئ عیاں ہوگئئ۔
بعد میں کافی فلمیں دیکھیں مگر اب عرصہ ہوا کہ یہ سب ختم ہوچکا ہے۔ آخری فلم جو پوری دل ،دماغ اور چشم جمعی سے دیکھی وہ لگان تھی۔یوں سمجھ لیں کہ ہم نے انڈین فلمیں دیکھنے کا یہ آخری لگان ادا کیا تھا۔ بعد میں اکا دکا فلمیں دیکھیں ۔اچھی بھی لگیں مگر دیکھنے میں انہماک برائے نام ہی تھا۔ بس یہ تھا کہ جلدی ختم ہوں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دلیپ کمار اور امیتابھ کے بعد یا تو کوئی دل کو جچا نہیں یا پھر ہمارا شوق ہی مرحوم ہو گیا۔

Upcoming Attraction Hamara Indian Filmon ka "Marhoom" Shoq .



Hamara Indian Filmon ka "Marhoom" Shoq ... Upcoming Attraction




ہمارا انڈین فلموں کا " مرحوم " شوق
تحریر: اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)


Upcoming Attraction




یہ 80 کی دھائئ کے ابتدائئ سال تھے۔   .............

  ہمارے سب سے چھوٹے چچا مرحوم دلیپ کمار۔، محمد رفیع اور لتا منگیشکر کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔   .............

 چاچا کے پاس ان تمام انڈین رسالوں کا ڈخیرہ موجود تھا جس میں دلیپ کمار کا ذکر ہوتا۔   .............

 یقین جانیں پہلی انڈین فلم / فلمیں اس وقت دیکھیں جب ہم انٹر کا ٹیوشن پڑھنے بلاک 17 فیڈرل بی ایریا جایا کرتے تھے۔   .............

    پہلی فلم جو دیکھی وہ دو اور دو پانچ تھی۔ امیتابھ بچن۔ ششی کپور۔ ہیما مالنی۔ پروین بابی اس کے ستارے تھے   ..............

 دیکھ کر نہیں اکڑے تھے اس سے کہیں زیادہ ٹانگیں اکڑ چکی تھیں film  ..............

Highlights

..... Yeh 80 ki dehaai kay ibtidai saal they
..... Hamaray sab se chhotay chacha Marhoom, Dilip Kumar, Mohummad Rafi ka encyclopedia they
..... Chacha kay pas un tamam risalon ka zakhera mojood tha jis mrin Dilip Kumar ka zikr hota
...... Yaqeen janeay pheli Indian film/ filmein uss waqt dekhein jab hum tuition parhnay bloc 17 jaya           kartay they
....... Pheli film jo dekhi woh do aur do panch the.Amitabh Bachan, Sishi Kapoor, Hema Malni,                  Perven Bobby uss kay sitaray they
....... Itna film dekh kar itna nahin akray they uss se kahein ziada tangein akar chuki thein

Sunday 24 March 2019

"Advertising mein aana kaisa hoa? EP 1" Now avaiable in Roman Hindi / Urdu !!






Article #1- Roman Urdu

Advertising mein aana kaisay hoa ?
Ishtiharaat hain zamanay ke !
Ep-1
Written by : Azhar Azmi
( Aik ishtihari ki baatein )


Likhnay ka marz bachpan mein lag gaya tha.Panchwin ya chhatti class mein they to is ki alamaat zahir ho gayeen. waalid sahib Kausar Sultan poori, Rehman Brothers mein deegar idaron ki tarha accounts ke mamlaat dekha karte they.Un ke yahan se bachon ka mahnama risala Ghuncha nikla karta hai.Waalid sahib ko baghair betaye –apne cousin Ather Najmi ( jo ab aasooda khaak hain ) ki shararaton par aik mazmoon" ustaad shararat" likha.Waalid ko dekhaya aur woh print ho gaya.Aik do aur mazmoon likhay to tabiyat mein afaqa hoa.Aur is marz se waqti nijaat mili.Yeh likha ka marz bhi ajab hai.Mere sath to yeh hai ke likh lau to tabiyat sambhal jati hai .

Waqtan foqtan jahan jis ne mauqa diya haath saaf karte rahay.Kisi ne koi kitabcha likhwa liya kuch nahi to kisi ki saalgirah par chand lakerain khech den.Kisi ka intqaal hoa to sogwaraan ke kehnay par marhoom ki rawaangi ko saneha azeem qarar day diya.Hamari akhbaari likhat aur khabrain tarjuma karne aur likhnay ki ibtida Molana Jawad Ul Aghar ki zair idart niklnay walay haft roza" Irshad" se hoi jo 80 ke awail mein khadim Hussain ke zair e intizam nikla karta tha baad azan yeh zimma daari un ke damaad Jaffer imam ne sambhaal li. aik martaba aik siyasi poster likhnay ka mauqa bhi mila lekin jab woh poster dewaron par chaspan sun-hwa to dar gaye.Hamaray chhootey bhai Wajahat Abbas ( Bazmi ) ke aik dost Asad Naqvi zia mukhalif jamaat yaqeenan peoples party hi thi, mein they.Un ke aik siyasi rehnuma paband salasil they hum se un ki rihayi ke liye poster likhnay ko kaha. hamara khayaal tha ke chupna wapna hai nahi likh diye.Is mein likhay do ashaar aaj bhi zehan mein hain. Allah janey kis ke hain ?

Jazbaat ke izhaar pay pehray nah bithao
Khamosh raho ge to ghutan aur barhay gi
Go manzil maqsood abhi daur hai lekin
Ruk jaye musafir to thakan aur barhay gi

Ab atay hain ke yeh passion hamara profession kaisay bana? 1988 ke shuru ke mahenay hain.Mohalla mein aik koonay ke ghar mein Ishaq sahib ki dukaan thi.Is ke sath peepal ke darakht ke neechay be rozgaar people baithtay hain. jin ka kaam siyasi soorat e haal par be raag tjziye karna,thathol baazi karna (shaistagi ke dairay mein ) aur yeh khabar rakhna ke kon sa larka chhutti ke waqt kis larki se 20-25 qadam daur – apne hisaar mein le kar usay baghair betaye ghar taq bah hifazat chore kar aata hai.Yeh" hamaray zamane ke" sharefana ishhq hoa karte they jis mein pehla fareeza sheree ki ghar taq bah hifazat supurdagi Shewa Aashqaan thi .

Hamari zindagi 1982 se sarhh satti ka shikaar thi.Yeh hum nahi hamaray aik dost hamari haalat dekh kar kaha karte they. hamein khud bohat baad mein pata chala ke yeh kya bulaa hai.Samajh len taleem ho rozgaar sab darwazay mqfl aur hum aeye din do chhate walay kamray mein ja kar Allah taala se apni qismat ke shikway kya karte.Aksar yeh shair parhte :

Mujh ko shikwah to nahi katib taqdeer magar
Ro parre to bhi agar mera muqaddar dekhe

Soorat e haal Mirza Ghalib ke is misra taq poanch chuki thi

Maqdoor ho to sath rakhon noha gir ko mein

Daant phatkaar aur nakaargi ke taanay suntay suntay 1988 agaya.Mulk mein General Zia Al Haq ka marshal law aur hamara astrological marshal law jari tha.1977 ki bhuto mukhalif tehreek mein jab hum school mein parha karte they lekin siyasi ba khabri ki latt paros mein rehne walay husn bhai se lag chuki thi.Is zamane mein ilaqai satah par filmi andaaz ke Peoples Party ke leadrs ke ishtihar ki photo copy kar ke chupka diye jatay jo bilkul aik naya idea tha .

Yeh baat 1988 taq hamaray zehan mein thi hamaray paros mein aik sahib PQR ( Pakistan qaumi razakaar ) mein sun-hwa karte they. un se hamara hansi mazaq chalta rehta tha.Aik din kisi bahanay se un ki aur aik do aur larkoon ki passport size taswerain len.Daily Jang ke filmi safha se adakar aur adakaron ki tasweer len.Un ke sir katay ( tasweer se ) aur joor jaar kar aik mazahiy filmi ishtihar bana diya. is ka aik jumla mujhe abhi bhi yaad hai : yeh is waqt ki kahani hai jab pyaaz mehngi aur khoon sasta tha.Lijiye janab ishtihar tayyar hogaya. photo copy hui aur mohalla ki sab se chalti hui Ishaq sahib ki dukaan par laga diya.Ishtihar ka wahid maqsad tafreeh aur jin ki taswerain is ishtihar mein hain un se nehari kha kar original ishtihar phaar dena hona tha. ishtihar dopehar mein laga aur hamari taqdeer ka faisla honay mein chand ghantay reh gaye .

Ishaq sahib ki dukaan ke bilkul samnay hamaray Aziz tareen dost Safdar Mirza raha karte they.Un ke waalid jinhein hum khalu kaha karte they (hamaray zamana mein kisi se bhi aunti uncle wali rishta daari ka rivaaj qaim nah hoa tha.Nanhyali rishta daari baais tazeem thi) Chughtai art ke musawir they aur kisi jagah mulazmat kya karte they.Is se ziyada hamein kisi maloomat ki zaroorat bhi nahi thi. jab kabhi Safdar Mirza ko bulatay aur agar woh nikal atay to Salam ke baad kehte" khalu Safdar ko bhaij den. Safdar Mirza ke waalid ka naam dilawer Mirza tha. Mirza Sahib ka yeh tha ke shaam ko daftar se aakar –apne barray betay ke bachon yani grand sons ke liye biscuits waghera lainay atay. is din bhi aeye lekin tareekh batati hai ke woh hamein lainay aeye they. dukaan par aeye aik nazar hamaray ishtihar ko dekha aur Ishaq sahib se poocha ke yeh kis ne banaya hai. Ishaq sahib hamari is harkat par khush nah they lekin mohalla ki dkandari ki wajah se khamosh they, bolay" arrey Mirza sahib yeh wohi Azmi hai. aisi harkatein is ke ilawa kon karta hai ". Mirza sahib ne jatay jatay kaha ke woh aeye to mere paas behjna .

Hum dukaan par puhanche to Ishaq sahib ne barray tanz bharay lehja mein kaha" Jao" Mirza sahib bulaa rahay hain ".Unhon ne ishtihar ka zikar nahi kya. hum samjhay ke hamari koi shikayat hogi. hum Safdar Mirza ke paas gaye aur poocha" o. .. bhai khalu ne bulaya hai mein ne to kuch bhi nahi kya ". Safdar Mirza ne kaha ke abbu to andar baithy chaye pi rahay hain mujh se to unhi ne tumhara koi zikar nahi kya. hum baatein hi kar rahay they ke khalu khud bahar aagaye. hum dar gaye. Salam kya aur socha ke ab kuch hoa. khalu ne dukaan par lagey ishtihar ki taraf ishara kar ke poocha" yeh tum ne banaya hai? ". mein ne drtay drtay haan mein sir hilaya. bolay" kal subah theek saarhay aath bujey mere sath mere office chalna ". hum ne jana ke mulazmat ke assaar Huwaida hue .

Yeh baat snkr ghar doray gaye to ghar mein khusi ki lehar daud gayi. subah ki tayari raat ko hi shuru ho gayi. eid par saly paint aur shirt nikaali gayi. istri hui. ammi ne das bujey hi yeh keh kar hawala bistar kardiya ke tum to shuru ke nesti maaray ho kahin subah sotay hi nah reh jana. waalid sahib ne kaha" sahibzaday aap ghoray beech kar sotay hain. jaldi so jayen "

Aglay din 7 bujey uth gaye. nahaye dhuain. likhte likhte wasif Ali wasif ka yeh shair yaad araha hai .

Nah janey kon si manzil hai wasif
Jahan Nehla ke blwaya gaya hon

Dilchasp baat yeh hai ke ja to rahay hain magar yeh khabar nahi ke kaam kya karna parre ga. bhai itni museebatein gilaay par jki theen ke kuch bhi karne ko tayyar they. bakol shkhse kisi mozi marz ka shikaar bukhaar ko sahet yabi samjhta hai. qissa ul taweel khalu waqt muqarara par ghar se bar aamad hue to hum un ke gate ke bahar mojood they. un ki Vespa motorcycle par baithy aur shahrah Faisal par mojooda mehdi towers ke sath petrol pump ke peechay aik bngle mein Vespa park kar di gayi. maloom sun-hwa ke yeh aik advertising agency hai aur khalu ( yahan Mirza sahib ) art director hain .

Mirza sahib ke sath sath chaltay chaltay aik kamray mein puhanche jahan koi bukhari sahib mojood they Mirza sahib ne un se khasi be takalufi se baat karte hue kaha" bukhari sahib is bachay se milo, dil khush ho jaye ga. bohat creative hai ". Allah jaanta hai mujhe creative lafz ka is mauqa par istemaal bilkul pallay nah para. Mirza chalay gaye ab hum aur bukhari sahib. kuch ghar avrtalim ka poocha aur phir table se aik pan utha kar haath mein day di aur bolay" is pan ke ultay seedhay tumahray zehan mein jo bhi istemaal ayen woh likh do. hamaray to dimagh mein pan chubh gayi ke yeh kahan aagaye. kya yeh log panno ka kaarobar kar rahay hain aur uski farokht badhaane ke liye hamein mulazim rakh rahay hain. hamari khamoshi dekh kar bukhari sahib bolay" miyan likh lau gaye. Mirza sahib to barri tareef kar gaye hain ". Mirza sahib par harf atay dekha to phir hum ne ao dekha nah tao. woh woh istemaal likhay ke chand aik to yahan likhnay ke qabil bhi nahi. bukhari sahib ko bohat mukhtasir waqt mein aik taweel fehrist thama di gayi. bukhari sahib ne fehrist parhi aur muskuraye. Mirza sahib ko bulaya, haath milaya aur kaha" Mirza sahib yeh chalay ga nahi doray ga ghoray ki terhan" hamein aik dam raat wali waalid sahib ki baat yaad aayi" sahibzaday aap ghoray beech kar sotay hain" magar hamein to ab dornay wala ghora qarar diya ja chuka tha .


nokari pir bhi nahi mili. abhi thokrain baqi theen .

baqi aindah

Next Episode

Mohallay ki Aurten humein dekhti thein rahm bhari nazron se

Ek larki ny pheli baar liye pyaar se hamara pura naam.

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...