Tuesday 30 April 2019

ریپیوٹیشن کو رکھیں جوتے کی نوک پر ، کریکٹر کو بنائیں سر کا تاج !


Article # 24



Window-reading کیا ہوتی ہے ؟




Article # 23

کیا ہوتی ہے ؟ Window Reading کیا آپ جانتے 




میرے ایک دوست نے کل بڑے طنزیہ انداز میں کہا کہ تم جو اتنے بڑے بڑے آرٹیکلز فیس بک پر لکھ کر چڑھا دیتے ہو ۔ کوئی نہیں پڑھتا ۔تمہارا دل رکھنے کے لیے Like کر دیتے ہیں۔

 میں نے جواب میں یہی کہا کہ پڑھنے والے میں اگر صبر نہ ہو تو پھر وہ قاری نہیں۔ آج کا سوشل ونڈو-ریڈنگ (یہ اصطلاح ایک دم لکھتے لکھتے میرے ذہن میں آگئی ۔اب اگر اسے کوئی اپنی تخلیق کہہ کر آگے بڑھا دے تو سوائے صبر کے کیا ہوسکتا ہے۔) سے بھرا پڑا ہےجو وقت گذاری سے زیادہ کچھ نہیں۔ سنجیدہ قاری ہر دور میں کم رہے ہیں اور کم رہیں گے ۔

Newterm coined
by Azhar Azmi

Window-reading,n.  
When somebody reads something on social media casually and moves on.

Saturday 27 April 2019

جمیل صدیقی ۔۔۔ حکیم محمد سعید سے جڑی یادوں کے ساتھ ایک آئینہ دل شخصیت



Article # 21


جمیل صدیقی
دل آئینہ ہے تو چہرہ کتاب جیسا ہے۔





تحریر:اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


کہتے ہیں کہ بانی ہمدرد پاکستان حکیم محمد سعید (شہید) ایک ہی وقت میں کئی کئی صفحے وہ بھی بہت برق رفتاری سے لکھ دیا کرتے۔ یہ 60 کی دھائئ کی بات ہے حکیم صاحب اپنے کمرے کی  مخصوص نشست پر پیٹھے تحریر میں مصروف ہیں۔ نہایت عرق ریزی سے سینہ قرطاس پر لفظوں کی مالا سجائی جارہی ہے۔ کچھ صفحات لکھ کر حکیم صاحب ملازم کو آواز دے کر بلاتے ہیں۔ ملازم صفحات اٹھا کر باہر بیٹھے ایک نوجوان کے حوالے کر کے  چلا جاتا ہے۔ کئی صفحات لکھنے کے بعد حکیم صاحب کمرے سے باہر نکلتے ہیں اور پوچھتے ہیں "لڑکے ابھی کتنے صفحے ٹائپ کر لئے"۔ نوجوان تمام صفحات کو پن لگاتے ہوئے کہتا ہے " تمام صفحات ٹائپ ہو چکے ہیں حکیم صاحب" حکیم صاحب حیرت سے نوجوان کو دیکھتے ہیں اور اتنی تیز رفتاری سے ٹائپ کرنے پر اسی وقت 25 روپے بطور انعام دیتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ نوجوان کی تنخواہ 125 روپے ماہوار ہے۔کسے پتہ تھا کہ یہ نوجوان آنے والے وقتوں میں ترقی کی منازل طے کرتے ڈائریکٹر ٹریڈ ہمدرد کے عہدے پر پہنچے گا اور  ہمدرد پاکستان میں 59 سال 6 ماہ کی طویل ترین ملازمت کا اعزاز حاصل کرے گا۔

یقینا اب آپ اس نوجوان سے ملنا بھی چاھیں گے۔یہ ہیں اس وقت کے جوان رعنا جمیل صدیقی ۔ تعلق میر کی اجڑی دلی سے ہے۔ والد حکیم محمد عثمان کے اکلوتے فرزند ،بڑے ناز و اندام سے پلے۔ لڑکپن میں ہجرت کر کے کراچی کو مسکن بنایا۔ والد کا انتقال ہوا تو غریبی نے گھر میں ڈیرے ڈال لئے۔ جمیل صاحب کو میٹرک کرنے کے فورا بعد ملازمت کرنا پڑ گئی ۔ہمدرد میں آپ کے ایک خالو ہوا کرتے تھے۔ وہ انہیں ہمدرد لے آئے اورمطب  ہمدرد (برنس روڈ) میں شعبہ تشخیص و تجویز میں بطور اردو ٹائپسٹ منسلک ہو گئے۔ حکیم صاحب جب کچھ تحریر کرتے تو آپ کو اپنی رہائش گاہ ہمدرد ہاوس واقع شکارپور کالونی بلوا لیا کرتے ۔ درج بالا واقعہ اسی ذیل میں ہے ۔ حکیم صاحب جمیل صدیقی کی ٹائپانہ صلاحیتوں کے معترف تھے جو کہ 80 الفاظ فی منٹ تھی۔ جب اردن کے شہزادے سے شائستہ اکرام اللہ کی صاحبزادی آنسہ ثروت کی شادی طے ہوئی تو جمیل صدیقی کو جہیز کی فہرست ٹائپ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔

 جمیل صدیقی کے والد کا انتقال ان کے لڑکپن میں ہوگیا تھا۔ خاندانی حسب و نسب ، خون کی تاثیر اور والد کے انتقال کے بعد والدہ کی تربیت جمیل زندگی کا اثاثہ ہے لیکن آپ کے بقول حکیم صاحب نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ۔ یہ شاید ان کی شخصیت کا اثر ہی رہا ہوگا کہ جمیل صاحب سفید شرٹ ، سفید پتلون اور سفید جوتے پہنا کرتے تھے۔ حکیم صاحب ہمیشہ سفید شیروانی، سفید پائجامہ اور سفید جوتے پہنا کرتے تھے۔ جمیل صدیقی جب بھئ حکیم محمد سعید کا تذکرہ کرتے ہیں تو واقعات کا ایک انبوہ کثیر ہوتا ہے جو اگر آپ لکھنے بیٹھیں تو پوری کتاب درکار ہو گئ۔ بلا شبہ حکیم محمد سعید کی شخصیت ہی اتنی انسان دوست تھی۔

گو ایک یہ مضمون جمیل صدیقی کے حوالے سے ہے لیکن حکیم محمد سعید کی انسان شناسی و انسان دوستی کا ایک واقعہ لکھے بغیر رہا نہیں جا رہا۔ یہ واقعہ مجھے ایک بار جمیل صاحب نے ہی سنایا تھا۔

ایک مرتبہ کافی سال پہلے ہمدرد کے پروٹوکول ڈیپارٹمنٹ کے ایک صاحب سے ہمدرد کے کسی بڑے افسر نے بدتمیزی کردی۔ حکیم صاحب کو بہت دکھ ہوا لیکن اس کا مداوا ایک منفرد اور دوسروں کے لئےبڑے سبق آموز  انداز سے کیا۔ میرا دعوی ہے کہ بڑے سے بڑا صاحب دل بھی ایسا نہیں کرسکتا۔ جمیل صاحب نے جو کچھ بتایا من وعن تحریر کررہا ہوں۔حکیم صاحب نے ایک "معافی نامہ" اس شخص کے نام لکھا اور معافی اس طرح مانگی گئی جیسے کوئی ادنئ  کسی اعلی سے مانگتا ہے۔یہ معافی نامہ ہمدرد کے نوٹس بورڈ پر تین دن آویزاں رہا تاکہ ہر کس وناکس اسے پڑھ لے۔ اس کے بعد حکیم صاحب خود اس شخص کے گھر گئے اور اسے انتہائی عزت احترام سے ہمدرد واپس لے کر آئے۔

 جمیل صدیقی کا خاندانی پیشہ مسیحائی رہا۔ باپ دادا جڑی بوٹیوں سے علاج کر کے لوگوں کو شفا یاب کرتے رہے ۔جمیل صدیقی نے یہ پیشہ تو اختیار نہ کیا مگر اپنی انسان دوستی اور صلہ رحمی سے لوگوں کی مشکلات کم کرتے رہے ۔ اپنی شگفتہ مزاجی سے لوگوں کو مسکراتے رہے، ہنساتے رہے اور ہنسی علاج غم ہے کی عملی تصویر بنے رہے اور آج بھی ہیں۔نبض شناس و جہاں دیدہ ہیں۔ دافع رنج ہیں ،بذلہ سنج ہیں ۔ شوہروں کے لیے دل میں خاص ہمدردی کا جذبہ ہر وقت موج زن رہتا ہے۔کہتے ہیں موج زن کو کبھی ایک ساتھ نہ لکھو دو لفظی لکھو تو پڑھنے میں مزہ آتا ہے۔ آپ کا ایک قول باعث  فخر شوہراں ہے  کہ جب تک آپ کی بیوی آپ پر شک کرتی رہے۔ آپ سمجھ لیں کہ آپ جوان ہیں۔اسی طرح آپ کا یہ فرمانا "یہ ہماری اخلاقی و معاشرتی ذمہ داری ہے کہ کم از کم  ایک بیوہ چھوڑ کرجائیں" جلی حروف میں لکھر قبرستان کے گیٹ پر لگا دینے کے قابل ہے تاکہ گھر جاتے زندہ شوہر یہ جان لیں کہ لیڈیز فرسٹ والی بات صرف اس وقت تک ہے جب تک آپ کی سانس چل رہی ہو۔

 یہ تو ہوگئے جمیل صاحب کے اقوال زریں جو ان کی جواں فکر سوچ کے غماز  ہیں۔ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ جب ہم ان سے براہ راست ملتے ہیں تو  شخص سے شخصیت کس پیرائے میں سامنے آتی ہے۔ خوش شکل، خوش قامت، خوش بیان ،خوش لباس، خوش مزاج ، خوش تدبیر اور خوش اوقات۔ اب آپ ہی بتائیں جب اتنی ساری خوش صفاتی ایک شخص میں مجتمع ہو جائیں تو کون ہوگا جو آپ سے مل کر خوش نہ ہوگا؟ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ جیسے ہم جمیل صاحب کے لنگوٹیا یار دوستوں میں آتے ہیں تو ایسا بالکل بھی نہیں۔ 

یہ جو ایڈورٹائزنگ کی عجیب و غریب دنیا ہے اس میں بہ شکل کلائنٹ ہرطرح کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ہم تھے تلاش کلائنٹ میں، قسمت ہمیں ہمدرد کے در تک لے گئی جہاں جمیل صاحب ، ڈائریکٹر ٹریڈ موجود تھے۔ ادبی ذوق کے حامل جمیل صآحب روایتی کلائنٹ سے یکسر مختلف نکلے اور پھر ہم ان کے حلقہ ارادت می ایسے شامل ہوئے کہ نکل ہی نہ پائے۔

 جمیل صاحب سے ہماری ملاقات 2001-2 میں ہوئی۔ جمیل صاحب گفتگو میں حفظ مراتب کا پورا خیال رکھتے ہیں لیکن اپنی بات پوری کہہ جاتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے اور سننے والے کو اپنی "ڈھب" پر لے آنا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ آپ صرف نام کے ہی جمیل نہیں صورت و سیرت میں جمیل ہیں۔ ممکن ہی نہیں کہ آپ ان سے ملیں ان کی شخصیت کے اسیرنہ ہو جائیں (اس میں تذکیر و تانیث کی کوئئ قید نہیں)۔ایک دن میں پوچھ ہی بیٹھا " سر جوانی کیسی اور کیسے گذاری؟"۔ایک قہقہہ لگایا اور ابولے "شباب ختم ہوا ایک عذاب ختم ہوا"۔ ویسے جب یہ حالات ہوں تو نارسائی کا گلہ اور پارسائئ کا دعوی کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

 جمیل صاحب معاملہ فہمی اور فراخ دلی کا حسین امتزاج ہیں۔ جمیل صاحب نے ایک دن قصہ ماضی چھیڑتے ہوئے عجیب واقعہ سنایا جو بڑی حیرانی کا باعث تھا۔ واقعہ کچھ یوں یے کہ 80 کی دھائی میں آپ ہمدرد زونل آفس ( واقع برنس روڈ) میں ہوتے تھے۔ زونل آفس جس بلڈنگ میں تھا وہاں ایک ہوسٹل بھی تھا جس میں چند ایک جرائم پیشہ افراد بھی رہا کرتے تھے۔ ایک دن ہوسٹل میں قیام پذیر، قبائلی علاقہ سے تعلق رکھنے والے دو مسلح افراد جمیل صدیقی کے پاس آدھمکے اور کہنے لگے کہ ہمیں قتل کی دیت دینے کے لئے 3 لاکھ روپے درکار ہیں۔ جمیل صاحب ان کے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آئے اور کہا کہ MD صاحب اہنے اختیارات میں رہتے ہوئے 20 ہزار روپے تک دے سکتے ہیں  پھر اپنی گاڑی کی چابی انہیں دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ گاڑی لے جائیں اور اسے فروخت کر کے اپنے پیسے پورے کر لیں۔ یہ کہنا تھا کہ وہ دونوں افراد ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ جمیل صاحب کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے؟ جس شخص کو چابی دی تھی۔اس نے چابی واپس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مختلف لوگوں سے بہانے بہانے سے رقم  لی ہے لیکن آپ جیسے شخص سے پہلی مرتبہ واسطہ پڑا ہے۔ اس دن سے وہ شخص جمیل صدیقی کا مرید ہو گیا۔ اس نے انہیں اپنے قبائلی علاقہ میں آنے کی دعوت دی مگر جمیل صاحب اس خیال سے نہیں گئے کہ قبائلی علاقوں میں مہمان جاتا تو اپنی مرضی سے ہے تو  آتا میزبان کی مرضی سے ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص کسی قبائلی کا مہمان ہوا۔ کچھ دن بعد مہمان نے اپنے قبائلی میزبان سےجانے کا کہا لیکن پھر وہ وہاں سے کبھی نہ آسکا البتہ وہاں ہر سال پیر مہمان شاہ کے نام سے اس کا عرس ہونے لگا جس میں پیر صاحب کے معتقدین اپنی دعاوں کی قبولیت کے لئے کسی مہمان  کے آنے کی دعا مانگتے۔ سنا ہے اس بات نے بہت شہرہ پایا اور پھر کسی غیر آدمی نے مہمان جانا تو دور کی بات وہاں سے گذرنے کی ہمت نہیں کی۔

 جمیل صاحب ادب و آداب کے آدمی ہیں۔ کتب بینی خاص الخاص شوق ہے۔ ایک زمانے میں جنگ اخبار میں ہفتہ وار فکاہیہ کالم لکھتے رہے ہیں۔ یقینا دلی والوں کی اردو دانی سے کس کو انکار ہے ۔بقول ظہیر حسن دہلوی: دلی والوں کا اس حد تک زبان پر ناز کرنا درست ہے کہ ان کا تعلق زبان کے منبع و مخرج سے ہے۔ دلی سے تعلق اور حکماء کے خاندان سے ہونا تحریر کی خو بو تو آنی ہی تھی۔ اس پر صحبت بھی شعراء و ادبا میں رہی۔ ایک زمانے میں ہمدرد میں آپ اور قمر ہاشمی ایک میز کے فاصلے سے ساتھ ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ قمر ہاشمی آپ سے عمر میں بڑے تھے اور خاصا بڑا حلقہ احباب رکھتے تھے۔ ان کے پاس شاعر لکھنوی،ابراہیم جلیس، سحر انصاری وغیرہ کا آنا جانا تھا۔ مشہور شاعر دلاور فگار تو ناظم آباد میں آپ کے ہم محلہ تھے۔  ادبی شوق کو اور ہوا ملی اور آپ تحریر کی طرف آنکلے۔ لکھا وہی جو طبیعت تھی۔ مطالعہ وسیع ہے لیکن کتب بینی کا رعب مار کر تعریف و توصیف کا مطالبہ نہیں کرتے۔ محفل ہسند ہیں مگر مخصوص لوگوں میں۔ خلوت و جلوت دونوں میں پر بہار اور زندگی آثار شخصیت کے مالک ہیں۔ سادگی سے گہری بات کرنا اور وہ بھی غیر اہم انداز سے ۔ یہ وصف اور ظرف کم لوگوں میں یوتا ہے ورنہ یہاں تو لوگ سنی سنائی باتیں ایسے بتاتے ہیں جیسے ذاتی  سوچ کا سرمایہ ہیں اور تمام جملہ حقوق بحق سرکار محفوظ ہیں۔

 جمیل صاحب بالکل بھی خوشامد پسند نہیں اگر کوئی ملنے آجائے تو بڑے خوش آمدی ہیں۔دو ایک ملاقاتوں کو چھوڑ کر میری ساری ملاقاتیں جمیل صاحب سے ہمدرد میں ہی ہوئی ہیں ۔یہ وہ زمانہ ہے جب ہمدرد لیبارٹریز کے ایم ڈی ڈاکٹر نوید الظفر ہوا کرتے تھے۔ فیض اللہ جواد ڈپٹی ڈائریکٹر مارکیٹنگ ہوا کرتے تھے۔ اب فیض اللہ جواد ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ  ٹریڈ ہوچکے ہیں۔

جمیل صاحب زندگی کی 80 بہاریں تو دیکھ چکے ہوں گے۔ میں نے کبھی ان سے ان کی عمر کا پوچھا نہیں۔ میرا خیال ہے عورت سے کسی بھی عمر میں اور مرد سے اس کے بڑھاپے میں عمر پوچھنا ذہنی پسماندگی کے زمرے میں آتا ہے۔ میں بھی 50 سے اوپر کا ہوں ۔اگر کوئی انکل یا چاچا کہہ دے تو دل کرتا ہے اس سے کہوں "جا۔۔۔جا"تو بھائی عمر کے معاملے میں جیسا اپنے لئے سوچو ویسا ہی دوسروں کے لئے۔ تم لوگوں کو عزت دو۔ ہروردگار تمہاری عزت رکھے گا۔جمیل صاحب لوگوں کی عزت رکھنے کا ہنر جانتے ہیں چاھے وہ اخلاقی ہو یا سماجی یا پھر معاشی۔ اللہ خوش رکھے جمیل صاحب کو ! اس مادہ پرست معاشرے میں ایسے لوگ بطور تبرک رہ  گئے ہیں۔ اس اعزاز پر میں جمیل صاحب کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔

(مناسب سمجھیں تو یہ اور میرے دیگر آرٹیکلز شیئر کریں۔ Azhar Hussain Azmi facebook page وزٹ کریں۔)

Thursday 18 April 2019

Let's meet Phalwan Sahib !

Article # 19


آیئے ملتے ہیں پہلوان صاحب سے

سادگی میں چھپا ہے کیا اعلی ظرف انسان ۔




تحریر : اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)



اہم ہونے کا وہم ہر کس و ناکس کو ہے لیکن مرتے مرتے وہ اس عارضہ میں مبتلا نہیں ہوئے۔ وہ تو عام سے بھی عام تھے۔ پیدائش میر کی دلی میں ہوئی۔ تعلیم لے نہ پائے۔ لڑکپن میں اکھاڑے میں جا پہنچے اور پھر حکیم اجمل کے شاگرد ہو گئے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ شاگرد نہ ہوئے ہوں گے بلکہ ادویات کی تیاری کے شعبہ سے منسلک ہوں گے لیکن پہلوان صاحب کا دعوی شاگردی کا ہی رہا۔ اب بتائیے پہلوان صاحب کے کہے کا کون انکاری ہو۔

جب والد صاحب نے 1976 میں نئے علاقہ میں اپنا مکان بنوایا تو پہلوان صاحب کو اپنے سامنے والے مکان میں موجود پایا۔ پہلوان صاحب اس وقت بھی 55-60 کے ہوں گے ۔روز صبح اپنی اہلیہ کے ہاتھ کا سلا کپڑے کا تھیلا لے کر شہر جانے کے لئے نکلتے (ایک بات کی وضاحت کردوں کہ ہمارے بچپن اور لڑکپن میں شہر سے مراد صدر ٹاور اور اس کے آس پاس کا علاقہ شہر کہلاتا تھا۔)

پہلوان صاحب تنومند تھے مگر جسم جھولنا شروع ہوگیا تھا۔ چلتے تو ایک پیر میں ہلکا سا لنگ یا ٹیڑھا پن محسوس ہوتا۔ پہلوان صاحب کو ہم نے ہمیشہ لنگی اور شلوکہ/بنیان میں دیکھا ۔شہر جاتے تو اوپر سے ایک کرتا ڈال لیتے۔ پیٹ خاصا باہر تھا جسے بنیان تو بالکل بھی چھپا نہ پاتی ۔ بنیان پیٹ سے اوپر ہوجاتی اور گواہی دیتی کہ یہ چھپنے کا نہیں۔ پہلوان صاحب کے سر پر کونے کونے بال رہ گئے تھے مگر پہلوان صاحب نے بالوں کی اس غربت کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ قد درمیانہ سے زرا ذیادہ ،رنگت گندمی ۔ چہرے پر صاف دلی لکھا تھا۔ناک بہت موٹی تھی۔ ناک اور اوپری لب کے بیچ خاصا فاصلہ تھا۔ اس لئے پہلوان صاحب نے اس جگہ کو کم کرنے کے لئے ایک لکیر کی طرح مونچھ رکھ لی تھی جیسے کہ لکھتے ہوئے کسی اہم بات کو انڈر لائن کر لیا جاتا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے پہلوان صاحب کا قصہ میں بھلا کیوں لے کر بیٹھ گیا۔ ایسے تو کتنے لوگ بسوں اور بازاروں میں مل جاتے ہیں جن پر کوئی نظر ڈالنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا اور میں ہوں کہ ان پر مضمون لکھنے بیٹھ گیا ہوں ۔ شاید میرے پاس لکھنے کے لئے شخصیات کم پڑ گئی ہیں۔ ایک بات بتاوں اگر میں نے اپنی زندگی میں کسی کے مرنے پر آرٹیکلز لکھے ہیں تو وہ صرف دو شخصیات ہیں۔ ایک جواں سال شاعر صغیر ملال کے انتقال پر جنگ کے ادبی صفحہ پر شائع ہوا اور دوسرا آرٹیکل میری دھرتی،میرے لوگ کے عنوان سے پہلوان صاحب کی رحلت پر ایک میگزین کو مضموں دیا ۔اب آپ سوچ لہں کہ پہلوان صاحب میں تھی وہ خاص بات جو کسی اور پہلوان میں کہاں۔

پہلوان صاحب کی گفتگو شاید ان کی شخصیت کی انفرادیت کا احاطہ نہ کرپائے مگر جو ان کے شخصی اوصاف تھے میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ پہلوان صاحب بالکل بھی پڑھے لکھے نہ تھے ،گفتگو میں کبھی لفظی لغزش ہوجاتی جو یقینا قابل توجہ نہ تھی مگر انہیں انسانوں کی پرکھ تھی۔ محلہ داری کیسے نبھانی ہے ؟ کس سے کس طرح بات کرنی ہے ؟ بچوں سے گفتگو میں کس حد تک جانا ہے ؟ حفظ مراتب کا پورا خیال رکھتے۔

پہلوان صاحب کے دو لڑکے اور ایک لڑکی تھی اور تینوں شادی شدہ تھے۔ کبھئ پہلوان صاحب کے گھر سے اونچی آواز سنائی نہ دی۔ بیٹی کی شادی ہوئی تو دوپہر میں براتیوں کو کھانا کھلانے کے لئے ہمارا بڑا کمرہ مانگا ۔ دو تین گھنٹے کے لئے کمرہ لینا تھا اور جس طرح پہلوان صاحب نے والد سے یہ بات کہی ہے ۔میں آپ کو یقین دلا رہا ہوں کہ بڑے سے بڑا صاحب اخلاق اس عجز و انکساری کا مظاہرہ نہیں کر سکتا ۔ لفظ ساتھ نہیں دے رہے تھے لیکن چہرے کے تاثراے بھرپور گواہی دے رہے تھے کہ پہلوان صاحب کو یہ معمولی سی بات کہنے میں کتنی دقت ہو رہی ہے۔ ایک تو پہلوان صاحب کمرہ مانگنے والے اور دوسرے ہمارے والد صاحب کمرہ دینے والے ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مہینہ بھر کے لئے پورا گھر پہلوان صاحب کو دے کر کرائے کے گھر میں شفٹ ہو جائیں۔

پہلوان صاحب جگت کے پہلوان صاحب تھے۔ مجھے کیا پورے محلہ کو ان کا نام معلوم نہ تھا ۔مجھ میں ایک بیماری ہے اگر نام پتہ نہ ہو تو خود ہی نام رکھ دیتا ہوں ۔ اس لئے میں ان کا نام رکھوں تو محمد نصیر الدین رکھوں گا۔

پہلوان صاحب کے مالی حالات بہت مستحکم نہیں تھے۔ گھر کر بیرونی حصہ پر ایک عرصہ تک پلستر نہ ہوا تھا۔ میں گیٹ بھی نہ تھا بلکہ ترچھا کر کے ایک بڑا تخت بطور گیٹ استعمال ہوتا۔ پہلوان صاحب کے دونوں صاحبزادے بھی زیادہ آمدن نہ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ پہلوان صاحب کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ بس کے کرائے میں محض 5 پیسے بچانے کے لئے دو اسٹاپ پیدل جانے کے بعد بس پکڑتے ہیں۔

پہلوان صاحب سیاست کی معلومات سے لیس رہنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھتے۔ پہلوان صاحب مکمل طور پر غیر سیاسی آدمی تھے لیکن سیاست پر دل و جان سے فدا تھے۔ سیاست پر بات کرنے والےکو پان کی طرح چبا جایا کرتے تھے۔ ایک زمانہ میں جب بس میں آنے جانے کی سکت نہ رہی تو گلی کے کونے پر نیم کے درخت کے نیچے بچوں کی ٹافی اور سپاری وغیرہ کا ٹھیلا لگا لیا۔ ٹھیلا کیا چلنا تھا۔ گلی کے فارغ لڑکوں کو ہر وقت نیم کی ٹھنڈی ہوا کھانے کا بہانہ اور پہلوان صاحب کی بھولی بسری باتیں جو کہ زیادہ تر کشتیوں اور کشتوں سے متعلق ہوتیں میسر آنے لگیں۔ یہ 80 کی دھائی کے ابتدائی دو تین سال تھے۔ شہر فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار تھا۔ لیاقت آباد زیادہ متاثر تھا۔ شام میں ہر آفس سے آتے کو روک لیتے اور ہنگاموں کی خبر لیتے اور پھر جو آتا مرچ مصالحہ لگا کر بتاتے۔کوئی تردید کرتا تو کہتے "بھائی میاں ، ہمیں کیا خبر تم جیسے ایک بابو صاحب آئے تھے ، بتا گئے۔تم تو جانو ہو اخبار پڑھنا تو ہمیں آوئے نہیں ہے"۔ اگر کسی کے ہاتھ میں اخبار دیکھ لیتے تو سمجھیں مصیبت آگئی۔بضد رہتے کہ پڑھ کر سناو ۔نہ سناو تو بہت برا مناتے۔

اب دیکھئے۔ بہت سادگی اور ایمان داری سے سچی سچی باتیں ہو گئیں۔ اب کچھ دلچسپ واقعات کا ذکر ہوجائے۔ پہلوان صاحب کے گھر کے گیٹ والے پورشن میں نہایت اعلی قسم کے آم کے دو درخت لگے تھے سمجھ لیں ۔یہ وہ دو طوطے تھے جن میں پہلوان صاحب کی جان تھی۔ اور ہماری جان اس میں تھی کیری کی اسٹیج پر ہی انہیں carry کر لیا جائے۔ پہلوان صاحب کا گھر ہمارے گھر کے سامنے اور انہی کی row میں ان کے گھر سے تیسرا گھر ہمارے چچا کا۔ شدید گرمیوں میں دوپہر کو چچا کے گھر کے باہر لگی ڈمڈم میں کوئی 50 پتھر جمع کر لئے جاتے۔میں اور میرا چھوٹا چچا زاد بھائی ایک نعرہ مار کر ایک ساتھ کیریاں توڑنے کے لئے آم کے درختوں پر پتھراو شروع کردیتے۔ ایک طرف ہم اور دوسری طرف پہلوان صاحب اپنے کمرے سے مادر زاد گالیاں بک رہے ہوتے۔ پتھروں کی وجہ سے باہر تو نکل نہ سکتے تھے۔ اسی دوران چند لمحوں کے لئے وقفہ دے کر کیریاں بھی جمع کرتے ۔پہلوان صاحب جیسے ہی وقفہ دیکھکر باہر نکلنے کی کوشش کرتے ۔میں بھائی کس اشارہ کرتا کہ کارروائی دوبارہ شروع کرو اور پھر وہی گالیوں کا رن

بس اسی شوق میں پھینکے ہیں ہزاروں پتھر
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

مزے کی بات یہ ہوتی کہ پہلوان صاحب ہمیں دیکھ نہ پاتے اس لئے بس اتنا کہتے "بس سالے ایک بار نظر آجائیں۔ بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ایک دن کسی نے نام لے ہی دیا۔ اب خاموش کارروائیوں کا دن دھاڑے آغاز ہوگیا اور وہ بھی ایسا کہ پہلوان صاحب کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ ہم نے بہت بڑا بانس لیا ۔اس کی ایک سرے پر پر بلیڈ لگایا اور ساتھ ہی نیچے ٹوکری لگا دی۔ دوپہر میں بانس درخت تک جاتا ، کیری بلیڈ سے کٹتی اور ہماری ٹوکری می آگرتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اتنی کیریوں کا کرتے کیا۔ گھر والے یہی پوچھتے کہ یہ روز اتنی کیریاں کہاں سے آرہی ہیں تو بھائی یہ کیریاں ایک سبزی والے کو 14آنے فی کلو کے حساب سے بیچ دی جاتیں۔

رمضان میں سحری کے بعد ہم فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ پہلوان صاحب سحری کے بعد گلی کے کونے پر نیم کے درخت کی نیچے آکر سو جاتے۔ لباس وہی شلوکہ / بنیان اور لنگی۔ ایک دن ہم فٹ بال کھیل رہے تھے کہ پہلوان صاحب کو تقریبا عالم نیند میں چھوٹی رفع حاجت کے لئے گراونڈ کے ساتھ بنی دیوار کی طرف جاتے دیکھا۔ سب آنکھیں پھاڑے پہلوان صاحب کو جاتا دیکھ رہے تھے۔

.کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں حالانکہ کرنے پہلوان صاحب جا رہے تھے ۔ پہلوان صاحب نیم خوابیدہ حالے میں دیوار تک پہنچے اب چاھا کہ دھوتی کو ادھر ادھر کر کے جھوٹی رفع حاجت کریں مگر یہ کیا ؟ پہلوان صاحب لنگی تو پلنگ پر ہی چھوڑ آئے تھے۔ سادگی دیکھیئے اپنی جگہ سے نہیں ہل رہے اور لنگی کی شان میں مغلظات بک رہے ہیں۔

1977 میں پی این اے کی تحریک کے دوران کراچی میں کرفیو لگا تھا۔ ہمارے علاقہ کیونکہ ہنگاموں سے متاثر نہیں تھا اس لئے سختی زیادہ نہ تھی۔ علاقہ مین روڈ سے دور بھی تھا۔ شام کو جب کرفیو کا وقفہ ختم ہوتا تو دس پندرہ منٹ تک لڑکے گراونڈ میں پتنگ وغیرہ اڑا رہے ہوتے۔ ایک دن کرفیو ختم ہوئے دو تین منٹ ہی ہوئے تھے کہ فوجی ٹرک آگیا۔ ابھی محلے کے بڑی عمر کے افراد گلی کے کونے پر تھے۔ سب تیز تیز چلتے ہوئے گھروں میں گھس گئے۔ پہلوان صاحب وزن اور پیر میں ہلکے لنگ کے باعث گھر تک تو پہنچ گئے مگر گھبراہٹ میں گیٹ کی جگہ رکھے تخت سے ترچھا گھسنے کے بجائے سیدھے گھسے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ پیٹ رستے میں حائل ہو گیا۔ فوجی ٹرک ان کے سامنے سے گذرا تو پہلوان صاحب نے جس بے چارگی اور خوف سے اس ٹرک کو دیکھا وہ منظر ہم نے اپنے گیٹ سے دیکھا۔ ٹرک گذر گیا مگر پھر ایک زمانہ تک یہی ہوتا رہا

کیا وہ ٹرک گذر گیا
ہاں وہ ٹرک گذر گیا

میرے لحاظ سےسب سے دلچسپ واقعہ ہہ ہوا کہ ایک مرتبہ انہوں نے اپنے گھر کے نمبر کے لئے بنگلہ نمبر لکھ دیا ۔ ہمیں شرارت سوجھی اور ہم نے بنگلہ کے بعد دیش کا اضافہ کردیا۔ اب وہ بن گیا بنگلہ دیش نمبر۔ بہت غصہ ہوئے اور مزے کی بات یہ کہ ساری بھڑاس میرے سامنے نکالی ۔میں نے بھی یہی کہا کہ جس نے بھی یہ حرکت کی ، بہت اوچھی کی ہے۔ بولے "مل جائے تو پھر دیکھنا کیسے پٹخی دیتا ہوں سالے کو چاروں خانے چت کردوں گا" میں نے جواب میں کہا کہ پہلوان صاحب چھٹی کا دودھ یاد دلا دیجے گا۔ میری طرف کچھ دیر دیکھکر بولے " بھائی میاں ہم ہیں پہلوان ۔ یہ دودھ دہی والی مار ہمارا کام نہیں"۔ یہ پہلوان صاحب کی سادہ مزاجی ہی تو تھی جس پر جتنا مسکرایئے کم ہے۔

ان چند مزاحیہ واقعات میں زیادہ تر دخل ان کی سادہ مزاجی کا ہوتا اور جو کچھ ہم کرتے اس میں تفریح کا۔ پہلوان صاحب نے آخری عمر تک محنت کی۔کبھی اپنی اولاد کا احسان نہ لیا ۔حد تو یہ ہے کہ تدفین کی زحمت بھی نہ دی۔ ایک دن صبح کسی کام سے شہر گئے۔ رستے میں دل کا دورہ پڑا۔ ایدھی والے اپنے مردہ خانے لے گئے۔ گھر والے یہ سمجھتے رہے کہ شام تک آجائیں گے۔ (اس زمانہ میں موبائل تو ہوتا نہیں تھا) جب رات گئے تک نہ آئے تو ڈھونڈ مچی ۔ اسپتال چھان مارے۔ بالاخر ایدھی مردہ خانہ گئے تو وہاں ان کی کفن میں لپٹی تصویر لگی تھی۔ ایدھی والوں نے رات تک انتظار کیا اور پھر دفنا دیا۔ پہلوان صاحب کو میں نے زندہ ہی دیکھا تھا۔ آج بھی میرے پاس ان کی کوئی تصویر نہیں لیکن ایک بات میں مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ سادگی اور شرافت کی مجسم تصویر تھے۔
بس چلتے چلتے حکیم محمد اجمل خان شیدا کا یہ شعر سن لیجئے۔

درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی

Tuesday 16 April 2019

Khalid Naseem ... The guilty of simplicity in hypocrites society


Article # 18


خالد نسیم

ریا کار معاشرے میں سادگی کا مجرم



تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


یہ غالبا 2001-2 کی بات ہے۔ کراچی میں انتھریکس نامی خطرناک کیمیکل مختلف لوگوں کو بذریعہ پارسل موصول ہورہا تھا۔ کہتے تھے جو اس کو چھو لے اس کی زندگی کے لئے خطرہ ہے۔ اللہ جانے اس میں کتنی صداقت تھی۔ ایک دن  آفس میں بیٹھے پیون کو آواز دی اور کہا کہ سفید لفافہ اور نمک لے آو۔ وہ لایا تو پہلے اس پر آفس کے ایک صاحب کا نام اور آفس ایڈریس لکھکر اس بند کیا اور پیون سے کہا کہ اس کو لے جاو۔ جب وہ صاحب میرے پاس بیٹھے ہوں تو یہ لفافہ ان صاحب کو دینا اور کہنا کہ کوریئر سے کوئی نام دے گیا ہے۔ میں نے ان صاحب کو بلایا ،وہ آئے،کچھ دیر پیون لفافہ دے کر چلا گیا۔ ان صاحب نے لفافہ کھولا۔ کاغذ نہ نکلا تو اس کو الٹا کر کے جھاڑا۔ نمک نکلا جو ان کے انگھوٹھے پر لگ گیا۔ میں نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ تو انتھریکس لگ رہا ہے۔ بس پھر کیا تھا پورے آفس میں شور مچ گیا ۔ دوڑو بھاگو کی آوازیں لگ گئیں۔ ان صاحب نے اپنا انگھوٹا پکڑا اور چہرہ سفید پڑ گیا۔

آرٹ ڈائریکٹر ایاز سے کہا گاڑی نکالو ۔اسی وقت اسپتال چلتے ہیں۔ایاز نے گاڑی نکالی ۔ میں اور ایاز متاثرہ شخص کو لے کر چلے۔ انگھوٹا ان کے ایک ہاتھ میں ہے۔ پریشانی چہرے پر ایسی کہ اب گئے ۔ گاڑی اسٹارٹ کی تو اس میں گانا چل رہا تھا۔ کچھ دور گئے تو مجھے اس کا احساس ہوا ۔میں نے ایاز کو ڈانٹ کر کہا ۔یہ وقت تو سورہ یاسین کا ہے اور تم نے یہ کیا لگا دیا۔ یہ کہکر میں ہنسنے لگا اور کہا کہ گاڑی آفس کی طرف موڑ لو۔ وہ صاحب نہ مانے ۔جب میں نے کہا کہ مذاق کیا ہے تو پھر ان کا غصہ دیکھنے والا تھا۔ آفس آکر بھی آگ بگولا ۔کسی طرح قابو میں ہی نہیں آرہے تھے۔ بولے "اب دیکھئے میں کیا کرتا ہوں آپ کے ساتھ۔ " میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی مگر کیونکہ ان کی گھبراہٹ پر کافی مذاق بن رہا تھا اس لئے کوئی معافی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ میں بیکری گیا، کیک لیا، اس پر Sorry Khalid Naseem لکھوا کر لایا تب کہیں جا کر غصہ ٹھنڈا ہوا۔

یہ ہیں میرے مجسم شرافت ، رواداری کی علامت، سادگی کا پیکر ، امن و آشتی کے خوگر خالد نسیم ۔ خوش نصیب ہوں کہ ایسا یار بے بدل ملا۔ میں اپنی پروفیشنل لائف میں بہت لوگوں سے ملا ہوں۔ نامی گرامیوں سے بھی اور کم نامیوں سے بھی ۔ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ایڈورٹائزنگ میں Stretegy  کے حوالے سے اتنا جینوئن آدمی نہیں دیکھا۔ ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں کسی بھی Campaign کی ابتدا Strategy Department سے ہوتی ہے جس کی بنیاد پر Creativity "تخلیق " کا عمل شروع ہوتا ہے۔ گویا یہ  ڈیپارٹمنٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور خالد نسیم اس ڈیپارٹمنٹ  کے سرخیل ہیں۔شعبہ بھی Stretegy کا چنا ہے اور اپنے کیریئر اور زندگی میں Straightegy  پر ہقین رکھتے ہیں۔

خالد نسیم کا تعلق پنجاب کے علاقہ کچھا کھوہ کے ایک گاوں سے ہے۔ نہایت ہی شریف النفس والدین کی اولاد ہیں جن کی تربیت کا مکمل اظہار خالد نسیم کی ذات میں ہوتا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کیا ۔ ملازمت کے لئے وارد کراچی ہوئے پھر کراچی کے ہی ہو لئے۔ کراچی میں جہاں میری رہائش ہے ۔وہیں ایک اپارٹمنٹ لیا۔ بعد ازاں بغرض ملازمت مع اہل خانہ قطر چلے گئے۔ اب کراچی واپس آگئے ہیں۔

خالد نسیم مرنجان مرنج قسم کے انسان ہیں۔ میری ملاقات ان سے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ہوئی (ظاہر ہے کسی ایجنسی میں ہی ہونی تھی) لیکن بہت دلگداز ہوئی ۔ہوا یہ کہ میں جہاں بیٹھتا تھا مجھے وہاں سے اٹھا کر انہیں بیٹھا دیا گیا۔ وہ ایک کمرہ تھا۔ نئی جگہ ایک کیوبیکل تھا۔ یہ بہت شرمندہ حالانکہ اس میں ان کا کیا قصور تھا۔ یہاں ان کے اوصاف حمیدہ مجھ پر ہویدا ہوئے۔ اس زمانے میں خالد صاحب دست شناسی اور متعلقہ علوم کی طرف دسترس رکھتے تھے۔ میرا بھی ہاتھ دیکھا اور کہا کہ آپ کے ہاتھ کی ایک لکیر ہلکی سی کٹی پٹی ہے جس دن یہ مل گئی ،آپ شہرت یافتہ ہو جائیں گے۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہم منتظر ہیں کہ کب یہ ملے مگر اب خالد صاحب اس طرف سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ ہاتھ دکھانے کی کوشش کرتا ہوں تو منہ پھیر لیتے ہیں۔

خالد صاحب کے القابات ہر زمانے میں مختلف رہے ہیں۔ میں انہیں پیار سے خالی صاحب ، ظالم الظالمین اور ظللام ( یہاں زیر، زبر ، پیش اور تشدید لگانے کی سہولت نہیں ) کہتا ہوں۔ خالد صاحب زمانے کی تمام ہوشیاریاں اور چیرہ دستیاں سمجھتے ہیں مگر بنیادی طور پر لحاظ کے آدمی ہیں۔ برائی کے جواب میں برائی کرنے کے بجائے وہ راستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جگہ ملازمت کی تو دو نمبر لوگوں نے بہت جلد ان کے خلاف محاذ بنا لیا اور آپ کو رخت سفر باندھنا پڑا ۔جدید ایڈورٹائزنگ کی جتنی سمجھ اور آگہی خالد صاحب کو ہے۔ ان کے مقابلے میں آج کے بڑے جغادری ان سے بہت پیچھے ہیں لیکن  بات وہی ہے کہ خالد صاحب خوشامد اور  ہاں میں ہاں ملانے کو جرم سمجھتے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں کئی بار نوکری ختم کرا چکے ہیں۔اب تو خیر وہ عادی مجرم ہوچکے ہیں۔

خالد صاحب اور میں نے متعدد پریزینٹیشنز ساتھ دی ہیں۔آپ اسٹریٹیجی والا پارٹ کرتے اور میں کریٹیو والا حصہ ۔ خالد صاحب کا ابتدا میں مجھ سے یہ جھگڑا (مبارک ہو) ہوتا کہ آپ میری اسٹریٹیجی پر Campaign کیوں نہیں بناتے ۔میں یہ کہتا کہ جو Campaign کر رہا ہوں، آپ اس پر اپنی اسٹریٹیجی بنا لیں یعنی الٹا کام کرلیں۔ یہ میری کاہلی اور اپنی مرضی چلانے کی وجہ سے تھا۔ خالد صاحب بہت لحاظ کرتے تھے لیکن کہیں کہیں چڑ جاتے ۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ بالکل غلط بات (اکثر کرییٹیوز یہی کرتے ہیں) ہے۔ بعد میں نے ان کی بنائی ہوئی اسٹریٹیجی پر کام کیا تو واقعی کام بہت بہتر ہوا۔اب یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ممدوح ہیں اور ہم نے انجمن ستائش باہمی کھول لی ہے جسے آپ انگریزی میں Mutual  Appreciation Council  بھی کہہ سکتے ہیں۔

ایڈورٹائزنگ انڈسٹرئ کے لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں ڈسکشن کے نام پر کراس کاشننگ بہت ہوتی ہے جس میں بسااوقات کام سے زیادہ بندے میں فی نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کلائنٹ سے میٹنگ ہو تو کلائنٹ تو کوئی بھی بے مقصد سوال پوچھنے کا لائسنس یافتہ ہوتا ہے۔ خالد صاحب اس صورت حال کے لئے بالکل بھی موزوں نہیں ہیں۔ یہاں  پروفیشنل ازم سے زیادہ مزید بے مقصد جواب دینے کی ضرورت ہوتی ہے جو یقینا خالد صاحب کے تجربہ، تعلیم اور مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔بس یہی ایک ہنر ہے جو خالد صاحب کو نہ آتا ہے نہ آئے گا۔

خالد صاحب دراصل اس معاشرے میں مس فٹ ہیں۔ قطر سے واپس آئے تو بولے" بھائی ۔ باہر بھی سب کچھ یہی چل رہا ہے۔وہی دو نمبری وہی ایک نمبر کے خلاف Unsaid Alliance." میں نے کہا" وہی تلوار پھر چل گئی" بولے "بسمل وہی تھا بس قاتل بدلے تھے۔" خالد صاحب کا تعلق تو پنجاب سے ہے لیکن چہرے مہرے سے بالکل بھی نہیں لگتے بلکہ کہیں دور سے چائنیز ٹچ آتا ہے۔ قد اتنا کہہ لیں کہ چھوٹے قد سے بال بال بچے ہیں۔

بہت دیر سے صبر کررہا ہوں مگر اب نہیں ہورہا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کیسا صبر ؟ وہ صبر ہے خالد صاحب کے منبع تبسم واقعات جن کا سننا اور سنانا ہر ذی مزاح پر فرض ہے۔

ایک دفعہ ہمیں چار روز کے لئے ایک ورکشاپ میں اسلام آباد جانا تھا۔ فلائٹ شام کی تھی۔ دوپہر میں خالد صاحب کے گیٹ کے سامنے سے دن دھاڑے آفس کی کار چرالی گئی۔  خالد صاحب نے مجھے کال کر کے بتایا کہ چلیں تھانہ میں رپورٹ درج کر آئیں۔تھانہ گئے ۔ گاڑی چوری کا بتایا پھر مکان نمبر بتایا تو محرر ہنسے جائے ۔ہم حیران کیا ماجرا ہے ؟ اس نے بتایا کہ آج تو کمال ہی ہوگیا جو گاڑی چوری کی دفعہ ہے وہی مکان کا نمبر ہے۔ یہ کہہ کر وہ پھر ہنسا اور باقی رپورٹ لکھی۔

لانڈہی انڈسٹریل میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کر رہے تھے۔ شام کو مغرب کے بعد نکلے ۔کار کی لائٹ خراب تھی۔ سارجنٹ نے روکا اور مک مکا کر لیا۔ دوسرے دن سورج غروب ہونے پہلے نکلے پھر سارجنٹ نے روک لیا۔ خالد صاحب نے کہا "اب کیا ہوا ؟ " سارجنٹ نے کہا کہ لائٹس چیک کرائیں۔ خالد صاحب نے کہا ابھی اندھیرا کہاں ہوا ہے ؟ سارجنٹ نے کہا ابھی نہیں ، آگے تو ہو جائے گا۔اس لئے ابھی لائٹس چیک کرائیں۔ خالد صاحب نے لائٹس ٹھیک نہیں کرائیں تھیں پھر مک مکا کرنا پڑا۔

خالد صاحب اس ریا کار معاشرے میں سادگی کی زندہ مثال ہیں۔ میں ان سے اکثر کہتا ہوں " آپ دنیا میں دیر سے آئے ، مغلوں کے زمانے میں انگرکھا اور تنگ موری کا پائجامہ پہنتے تو چل جاتے " تو ہنستے ہیں ۔ شادی ہوئی ، اہلیہ کو پہلی مرتبہ لے کر نکل رہے تھے۔ گاڑی گھر سے باہر نکال رہے تھے کہ گلی میں آتی ایک گاڑی سے ٹکر ہوگئی ۔ جن کی گاڑی لگی ۔ انہوں نے رولا پا دیا ۔ بڑا سمجھایا وہ نہ مانے ، لگے بحث مباحثہ کرنے۔ غلطی خالد صاحب کی تھی۔ اسے کونے میں لے گئے۔ بتایا کہ ابھی شادی ہوئی ۔آج ہی پہلی بار اہلیہ کے ساتھ نکلا ہو۔ بعد میں معاملہ رفع دفع کرلیں گے ،سمجھ رہے ہیں ۔ وہ صاحب قہقہہ مار کر ہنسے اور بولے "جائیں "۔

ایک میٹنگ گوروں کے ساتھ  تھی۔ لنچ پر خالد صاحب میرے ساتھ کمرے میں آئے ، کتاب کھولی ،پورا پیراگراف پڑھا تاکہ لنچ کے بعد میٹنگ میں سنا سکیں لیکن یہ کیا ہوا ؟ ان سے پہلے وہ سب میں نے سنا دیا ۔تالیاں بج گئیں۔خالد صاحب غصہ اور حیرت میں مجھے دیکھتے رہے۔ ایک مرتبہ جب ایک سیاسی جماعت ہماری کلائنٹ تھی۔ ان کے تمام سرکردہ لوگ آئے ہوئے تھے۔ میں پریزیٹینشن  دے رہا تھا۔ میں نے ایک لائن اپنی مخصوص و پر سوز آواز  میں پڑھی "وہ دیکھ ہو گئی سحر" اور کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ سب کھڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔ ہم دونوں ساتھ واپس آرہے تھے۔کہنے لگے " کیا آپ یہ سب کچھ دل سے پڑھتے ہیں ؟"۔ میں نے مسکرا کر کہا "چھوڑیں خالد صاحب"۔ میری طرف دیکھنے لگے۔اسی دوران ایک گدھا گاڑی والا سامنے آگیا۔ میں نے گھبرا کر اور کسی قدر اونچی آواز میں کہا " خالد صاحب ، ذرا دیکھ کر "۔خالد صاحب چڑ گئے۔انہیں لگا کہ مجھے ان کی ڈرائیونگ پر اعتبار نہیں ،بولے "کیا آپ مجھے احمق سمجھتے ہیں "۔ میں نے بھی عجب ذو معنی انداز سے کہا " کبھی کہا ؟ "۔ بے ساختہ مسکرا کر رہ گئے۔ اب یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ صرف میں ہی میں ہوں۔ کبھی کبھی وہ میری ایسی  لوجیکل کلاس لیتے ہیں کہ میرے چودہ طبق روشن کردیتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ میں ان کی ایسی تمام کلاسیں بہت مودب اسٹوڈینٹ کی طرح اٹینڈ کرتا ہوں اور کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔آدمی ذھین ہیں بس ہیں بہت سادہ ، یہ ان کا جرم ہے اور یہ معاشرہ کسی طور ان کا یہ جرم معاف کرنے کو تیار نہیں۔

خالد نسیم کو ایک عجیب سا وہم ہے کہ وہ بے ہوش ہو جائیں گے اور لوگ انہیں سپرد زمین کردیں گے۔ مجھ سے اپنے اس وہم کا ذکر کیا تو میں نے آسان حل بتا دیا۔ ہم آپ کے منہ میں ایک پائپ لگا دیں گے تاکہ آپ کو سانس آتی رہے ۔دوسرے ایک موبائل فون ساتھ رکھ دیں گے ۔ ہوش میں آئیں تو کال کرلیں۔ خالد نسیم ہر لحاظ سے پسندیدہ شخصیت ہیں حتی کہ ڈاکووں کی بھی۔ ایک دفعہ رات کے وقت مین یونیورسٹی روڈ پر ایک سناٹے کی جگہ پر لوٹے گئے۔ کچھ دن بعد پھر اسی جگہ یہی واقعہ ہوا مگر اس بار اہل خانہ ساتھ تھے۔ لوٹنے والا بھی اکیلا  70 سی سی موٹر سائیکل پر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق دیکھیں جب دو بار لوٹنے کی روداد سنا رہے تھے تو سامنے سے وہی شخص اپنی موٹر سائیکل پر گذرا۔ بولے "ارے دیکھیں یہ تو وہی شخص ہے "۔میں نے کہا "دن کا وقت ہے۔ گاڑی تیز چلائیں ، دیکھوں تو کون ہے۔" میرا یہ کہنا تھا گاڑی slow کردی۔ بولے "نہیں یار وہ مجھے پہچان لے گا "۔ یہ ہیں میرے خالد نسیم ۔کوئی دوسرا ہو تو لائیں۔ زمانہ سے ایک ہی بات کہتے ہیں۔

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آجاتے ہیں

(مناسب سمجھیں تو یہ اور میرے دیگر آرٹیکلز شیئر کریں۔ Azhar Hussain Azmi facebook page وزٹ کریں۔)

Monday 15 April 2019

یہ بھی پڑھ لیں ۔۔۔ اعتراف کے ساتھ !

Article # 17



یہ بھی پڑھ لیں ۔۔۔ اعتراف کے ساتھ !

اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)

میں نے ایک لفظ پر عمل کر کے اپنے آپ کو جانا اور دوسروں کو سمجھا۔ اس لفظ نے میری زندگی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مجھے زندگی میں سب سے زیادہ خوشی اس لفظ کو ادا کرتے ہوئے ہوتی ہے کیونکہ یہ لفظ میری انا اور غرور کو کچل دیتا ہے ۔ میں نے خود کو بڑا سمجھنے والوں کو اس لفظ سے کوسوں دور بھاگتے دیکھا  ہے۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اخلاقیات ،انسانیت ، قربانی ، رواداری وغیرہ کی ابتدا اس ایک لفظ پر عمل کر کے ہوتی ہے۔اس پر عمل کرکے آپ بہت بڑے انسان بن سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پر تقریروں سے کچھ حاصل نہیں ۔بس یہ ایک عمل ہے جو آپ کی شخصیت کا سب سے بڑا عکاس ہے۔ آپ کا تعارف ہے۔ آپ کی قدر و منزلت بڑھاتا ہے۔ میں نے اس پر عمل کرنے والوں کو کبھی چھوٹا ہوتے نہیں دیکھا البتہ جس کسی نے اس ایک لفظ سے اجتناب برتا ۔اس کا احتساب ہر جگہ ہوا  ۔۔۔۔ یہ لفظ آپ کا اپنی ذات پر اعتماد بڑھاتا ہے۔ ذہن کشادہ اور سوچ سادہ ہو جاتی ہے ۔

 اور وہ ایک لفظ ہے ( اپنی غلطی کا  کھلے دل سے) اعتراف !

Sunday 14 April 2019

Frederick Nazareth "Oh ... really!". A great personality


Article # 16

Frederick Nazareth
"Oh ... really!

تنگ مگر سیدھے راستہ کا مسافر


تحریر : اظہر عزمی


ایک رات فون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے کہا گیا کہ آپ سے صدر پاکستان بات کرنا چاھیں گے؟ انہوں نے قدرے حیرانی سے کہا "کون؟" اب جو دوسری آواز آئی وہ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی تھی۔ یہ کال ان صاحب کو ان کی والدہ کے انتقال پر کی گئی تھی۔صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ مجھے انتقال کے کافی دنوں بعد  آج ہی انتقال کی خبر ملی ہے۔ بہت افسوس ہوا۔  جن صاحبہ کے انتقال پر تعزیت کی گئی وہ سینٹ پیٹس اسکول کے سائنس ٹیچر Oswald B. Nazareth کی اہلیہ تھیں اور تعزیت وصول کرنے والے تھے ان کے بڑے صاحبزادے فریڈرک نزرتھ۔ جنرل پرویز مشرف O.B.Nazareth کے شاگرد تھے۔ ۔یہ واقعہ فریڈرک صاحب نے ایک دن روانی میں سنا دیا ۔ فریڈرک صاحب کے والد کے شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے جس میں سابق وزراء اعظم خان محمد جونیجو اور شوکت عزیز کے علاوہ متعدد وزراء،سفراء،جج صاحبان اور نہ جانے کون کون شامل ہے ۔ اپنے لڑکپن کے زمانے میں ایک دن فریڈرک نزرتھ نے اپنے والد سے کہا تھا کہ آپ ٹیچر کیوں بنے جبکہ خاندان کے لوگ دیگر شعبوں میں ملازمت کر کے پر آسائش زندگی گذار رہے ہیں۔ بیٹے کے اس سوال پر باپ نے بہت تحمل و پیار سے کہا تھا کہ میری ترجیح پیسے کمانا نہیں ۔ میری ترجیح انسانوں کی بہتری ہے۔ تم جس  شعبہ کا چاھو انتخاب کرو ۔بس ایمانداری کے تنگ مگر سیدھے راستہ پر چلتے رہنا کہ یہی سب سے بہترین راستہ ہے ۔ بیٹے نے باپ کی یہ بات ہمیشہ کے لئے ذہن میں بٹھا لی اور اسی تنگ مگر سیدھے راستے کا مسافر ہے۔

فریڈرک صاحب نے یہ باتیں ایک دن مجھے بتائیں تو میں سوچنے لگا کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ فریڈرک صاحب کا  حلقہ احباب بھی اتنا وسیع اور متنوع ہے کہ اگر وہ صرف گنوانے بیٹھ جائیں تو سامنے والا مرعوب ہی ہوتا چلا جائے۔میں نے ایک مرتبہ ان سے کہا تھا کہ سر آپ کا دوستی کا سرکل لندن سے لانڈہی تک پھیلا ہوا ہے تو اپنی بھاری بھرکم آواز میں قہقہ لگا کر رہ گئے۔

 میری پیشہ ور زندگی میں فریڈرک نزرتھ ان چند منتخب لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی حق گوئی اور اصول پسندی کا میں ہمیشہ معترف رہا ہوں۔90 کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں فریڈرک صاحب، غفور شہزاد اور میں ایک ہی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے ایک  کمرے میں بیٹھا کرتے تھے۔ کام کے ساتھ ساتھ باتیں اور ہنسی مذاق چلتا رہتا ۔میں تجربے اور عمر میں فریڈرک صاحب سے چھوٹا تھا مگر یہ ان کی بڑائی تھی کہ انہوں نے کبھی مجھے چھوٹا نہ جانا بلکہ ہمیشہ کام میں حوصلہ افزائی کے لئے برابری کا درجہ دیا۔ یہ ان کی اعلی ظرفی اور خاندانی تربیت تھی ورنہ میرا ان سے کوئی تقابل نہیں تھا۔ فریڈرک صاحب کو چھوٹے بڑے سب فریڈی کہتے ہیں مگر میں انہیں کبھی بھی فریڈی کہنے کی جرات نہ کرسکا کیونکہ میرے دل میں ان کے لئے جو عزت واحترام ہے وہاں صاحب کہنا لازمی امر ہے۔

 فریڈرک صاحب کے والد کا تعلق منگلور جبکہ والدہ کا تعلق کراچی سے تھا .O.B.Nazareth  صرف 3 سال کی عمر میں کراچی آگئے تھے۔ فریڈرک صاحب قیام پاکستان سے دو ایک سال پہلے کراچی میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں سابق بندر روڈ (اب ایم اے جناح روڈ) پر جہاں سے ریگل کے لئے بسیں مڑتی ہیں اور جس کے کونے پر مڈوئے نامی اسپتال کی کئی منزلہ بلڈنگ ہے اس گھر میں بچپن گذرا۔ بتاتے ہیں کہ گھر بہت بڑا تھا۔ ریکیوزیشن کے تحت گھر کے تیسرے حصہ میں ان کی فیملی جبکہ  بقیہ دو حصوں میں سے ایک میں سرتاج عزیز (سابق وفاقی وزیر) رہا کرتے تھے جو اس وقت سرکاری ملازم تھے اور جوائنٹ سکریٹری کے عہدے پر تھے جنہیں فریڈرک صاحب تاجی انکل کہا کرتے تھے۔ اسی طرح ان کی بہن مشہور ادیبہ محترمہ نثار عزیز بٹ کو سارو آنٹی کہا کرتے تھے۔ فریڈرک صاحب نے بتایا کہ ایک زمانے میں سابق کمشنر کراچی اے ٹی نقوی (ابو طالب نقوی)  بھی یہاں رہ چکے ہیں۔

 فریڈرک صاحب سے میری پہلی نظری ملاقات ایک جنازے میں ہوئئ۔جس ایڈورٹائزنگ ایجنسی (1992-3) میں ملازمت کر رہا تھا۔ وہاں کے اکاونٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک صاحب کے انتقال پر میں بھی آفس اسٹاف کے ساتھ وہاں گیا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آفس کے لوگ بہت عزت و احترام کے ساتھ ان سے مل رہے ہیں۔پتہ چلا کہ یہ فریڈرک ہیں جنہیں چھوٹے بڑے سب فریڈی کہہ رہے ہیں ۔ فریڈرک صاحب سے میری سمعی ملاقات 1988 میں بذریعہ ٹیلی فون ہو چکی تھی جو ان کو یقینا یاد بھی نہیں ہوگی ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں جس ایجنسی میں فاروق پراچہ صاجب کے ساتھ کام کیا کرتا تھا وہاں سے اس وقت کا ایک بڑا کلائنٹ جا چکا تھا۔ کام نہ دارد ، میرے کوچ کا سامان یوں کیا گیا کہ بھری گرمیوں میں جب ریسیپشنسٹ نہ آتی تو سیمنٹ کی شیٹوں کی چھت والے اس ریسیپشن پر مجھے بٹھا دیا جاتا (کبھی تفصیل سے بتاوں گا کہ اس بیٹھنے نے میری زندگی پر کیا اثرات مرتب کئے)۔صورت حال بہت تکلیف دہ تھی۔ میں ایسے موقع کو غنیمت جانتا اورٹیلی فون ڈائریکٹری سے ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کے کریٹیو ڈائریکٹرز کو بلا کھٹکے فون ملا دیا کرتا اور ملازمت کا پوچھتا۔فریڈرک صاحب اس زمانے میں ایک بڑی ایجنسی میں کریٹیو ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ یوں میری ان سے پہلے گفتگو ہوئی۔ 

دوبارہ چلتے ہیں اسی ایجنسی میں جہاں ہم ملازمت کر رہے ہیں۔ یہ وہی ایجنسی ہے جہاں فریڈرک صاحب سے پہلی بار ٹیلی فون پر میری بات ہوئی تھی۔کچھ دنوں بعد سنا کہ فریڈرک صاحب اب اس ایجنسی میں واپس آرہے ہیں۔ اب فریڈرک صاحب،غفور شہزاد اور میں ایک ساتھ تھے۔ انعام الرحیم کی بھی یہاں پہلی ملازمت تھی۔

دیکھئے اتنی باتیں ہو گئیں ۔یہ نہیں بتایا کہ فریڈرک دیکھنے میں کیسے ہیں ؟ قد لمبا ہے۔رنگ انگریزوں والا گورا ، جسم متناسب۔عمر کا پوچھیں گے تو جتنی وہ بتاتے ہیں اس سے 10 سال کم از کم چھوٹے لگتے ہیں۔ لوگ بدن چور ہوتے ہیں۔ فریڈرک صاحب عمر کے معاملے میں خاصے چور واقع ہوئے ہیں۔فریڈرک صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا ۔ مختلف اداروں میں ملازمت کرنے کےبعد 1978 میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں ڈائریکٹ " کریٹیو ڈائریکٹر " کے طور پر ملازمت اختیار کی جو آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کا ابتدا میں ہی اعتراف تھا۔ فریڈرک صاحب کے بقول کچھ افراد کو اعتراض بھی تھا۔

 فریڈرک صاحب جب صبح آفس آتے تو ہاتھ میں کوئی کتاب لازمی ہوتی۔لنچ بکس جس میں دو سینڈوچز ہوتے ہمراہ ہوتے۔ دوپہر کو ہمیں بھی کھانے کا کہتے مگر میں اور شعیب روزانہ کیفے لبرٹی( طارق روڈ) کے پیچھے کیفے رحمن میں کھانا کھانے جایا کرتے تھے۔  فریڈرک صاحب کھانے اور کھلانے دونوں کے شوقین ہیں۔

فریڈرک صاحب میری طرح لیفٹ ہینڈر ہیں۔ کمپیوٹر اس وقت نہیں آیا تھا۔ اس زمانے کی خاص بات یہ تھی کہ بیشتر کریٹیوز پینسل سے لکھا کرتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اپنا لکھا خود سے بہتر کرنے یا بفرمائش کلائنٹ تبدیل کرنا پڑتا تھا۔ فریڈرک صاحب  اپنا الٹا ہاتھ اس طرح گھما کر لکھتے ہیں ، لگتا ہے کہ کوئی ان کے سامنے بیٹھ کر لکھ رہا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کے بارے میں، میری رائے کی کیا اہمیت ہے لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر کلائنٹ کی بریف نہیں بدلی ہے تو پھر فریڈرک صاحب کی کاپی کو چھیڑنے سے بہتر ہے کہ کسی شیر کے منہ سے نوالہ چھین لیا جائے۔ فریڈرک صاحب کو خاض طور پر اپنے تخلیقی کاموں کی خود نمائی بالکل پسند نہیں اس لئے جو ادھر ادھر سے پتہ چل گیا یا جو کبھی انہوں نے کسی قصہ کہانی کے ذیل میں بتا دیا بس اتنا ہی معلوم ہے ۔ اپنے وقتوں کی بڑی بڑی Campagins فریڈرک صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہیں۔ کمرشلز لکھے بھی اور ڈائریکٹ بھی کئے۔ اس ضمن میں بیرون ملک جانا بھی ہوا۔

 جیسا کہ پہلے تحریر کیا کہ دوست، احباب بہت ہیں۔ آرٹ، ادب کے دلداہ ہیں۔اس لئے اپنا ایک مخصوص سرکل ہے جس کا ان کی پروفیشنل لائف سے میرے خیال میں کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ شخصیت اس وقت تک بہت سادہ اور آسان ہے جب تک انہیں سامنے والے کی ریا کاری اور منافقت کا پتہ نہ چل جائے۔ ذرا سی دیر میں حساب کتاب برابر کر دیتے ہیں وہ بھی اتنی شائستگی کے ساتھ کہ متاثرہ شخص کو گھر جا کر احساس ہو۔لگی لپٹی رکھتے نہیں،پیٹھ پیچھے برائی کرتے نہیں تو اب ایسے لوگ تو بدتمیز اور منہ پھٹ ہی کہلائیں گے مگر فریڈرک صاحب ان باتوں کی پروا کہاں کرتے ہیں۔ مزاج میں سادگی اور انکساری ہے اس لئے ہر ملنے والا یہ سمجھتا ہے کہ فریڈرک صاحب صرف ان کے قریبی دوست ہیں۔ 

بقول محسن صدیقی:
حسن  ظن میں ہو  مبتلا   محسن
وہ تو ہنس کر سب ہی سے ملتا ہے

آپ کا مسئلہ  بھی عجیب ہے۔ بڑوں (مالی طور پر) کی چھوٹی سی چھوٹی بات پکڑ لیتے ہیں اور چھوٹوں کی بڑی سے بڑی بات پر صرف نظر کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے تو ان سے بے دھڑک بات کرتے ہیں جبکہ بڑوں کا دل دھک دھک کرتا رہتا ہے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر پڑھے لکھے نہ ہوتے تو لیبر لیڈر ہوتے اور اپنی بے باکانہ طبیعت اور باغیانہ خیالات  کے باعث نہ جانے کتنی مرتبہ ملازمت سے ہاتھ پیر سب دھو چکے ہوتے۔

 جس معاشرے میں احمق سے احمق بھی انگریزی بولے تو اپنے آپ کو برتر سجھنے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ عمل وہ زیادہ دھڑلے سے اس وقت کرتا جب سامنے انگریزی سے عدم واقفیت والا موجود ہو تاکہ جو چاھے سو بولے مگر پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ فریڈرک صاحب ایسے کسی خبط میں مبتلا نہیں ۔ انسان سے اس زبان میں بات کرتے ہیں جس میں دونوں کو سہولت ہو ۔ میں نے اکثر انگریزی کا بھرم مارنے والوں کو فریڈرک صاحب سے اردو میں بات کرتے دیکھا ہے۔

 فریڈرک صاحب کسی قسم کی احساس کمتری کا شکار نہیں۔ اس لئے کبھی جھوٹ بول کر  کسی کو شکار کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلا کم و کاست ہر بات بتا دیتے ہیں۔ ایک دفعہ سردیوں کے دن بہت اچھا کوٹ پہن کر آئے ۔میں نے اس خیال سے کہ باہر جاتے رہتے ہیں ،خرید لیا ہوگا۔ بولے Used خریدا ہے۔ ساتھ قیمت بھی بتادی۔میں نےکہا"مذاق کر رہے ہیں" بولے "ایسا بالکل بھی نہیں ۔جس نے پوچھا اس کو یہی بتایا۔"

فریڈرک صاحب اردو بولنے کے دلداہ ہیں۔ بہت بہتر اور روانی سے بولتے ہیں اور پڑھ بھی لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ لطف اس وقت آتا ہے جب آپ غصے میں ہوں اور اردو بول رہے ہوں۔ان کے مخصوص جملے ہیں۔قسم خدا پاک کی، میرا تو ماتھا گھوم گیا، مجھے تو غصہ چڑھ گیا۔ فریڈرک صاحب کا حس مزاح قیامت کا ہے۔ خاص طور پر جب گفتگو اردو میں ہو رہی ہو۔ ایسے ایسے جملے اور استعارے استعمال کرتے ہیں کہ اہل زبان گھوم کر رہ جائیں۔ ناموں کو شخصیت کے لحاظ سے تبدیل کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔ ایک صاحب ہوا کرتے تھے گل فراز۔ فریڈرک صاحب جس کام کا کہتے اس کے کرنے میں دیر سویر ہو جاتی تو بہانہ بازی کرتے۔ فریڈرک صاحب نے ان کا نام رکھا "فل فراڈ"

 فریڈرک صاحب ہر سال سیاحت پربیرون ملک جاتے ہیں اور بطور ثبوت تصویریں فیس بک پر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔ اسٹیج پر انگریزی ڈراموں میں اداکاری کر چکے ہیں۔ فوٹوگرافی کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں۔اچھے فوٹو گرافر ہیں۔ آواز کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی ٹی وی ڈرامہ میں جواہر لال نہرو کے لئے آپ کی آواز لی گئی۔ آج بھی مصروف ہیں۔ ڈاکیومینٹریز بناتے ہیں۔ فریڈرک صاحب سب کے کام آنا چاھتے ہیں لیکن کسی سے اپنے کام کے لئے کہنا ان کی سرشت میں نہیں۔  چند سال پہلے آپ کو آنکھ کا آپریشن کرانا پڑ گیا ۔مجھے کال کرکے کہا " عزمی ۔۔۔ کیا آپ مجھے ایک favour دے سکتے ہیں؟"  میں نے کہا " سر  favour کیا ہوتا ہے ؟ آپ حکم کریں۔" بولے "مجھے آپ کو گھر سے آہریشن کے لئے اسپتال لے جانا ہوگا" میں نے اسے اپنا اعزاز جانا ۔شاید اپنے طور پر یہ واحد favour انہوں نے لیا ہوگا اور نہ جانے کتنا سوچنے کے بعد میرا نام فائنل ہوا ہو گا۔

26 -27 سال کا تعلق ہے ۔بہت کچھ ہے لکھنے کو ۔  بس یہی کہوں گا کہ کچھ لوگ پہلی ملاقات میں دل میں اتر جاتے ہیں اور کچھ پہلی ملاقات میں  ہی دل سے اتر جاتے ہیں۔فریڈرک صاحب دل میں اتر جانے والی شخصیت ہیں۔اگر کبھی آپ کی ملاقات ہوجائے تو آپ کا دل میری اس بات کی گواہی دے گا۔

میں جب انہیں بتاوں گا کہ آپ پر آرٹیکل لکھا ہے تو پہلے ایک زوردار قہقہہ لگائیں گے اور پھر کہیں گے ۔۔۔
                                                                Oh ... really


Wednesday 10 April 2019

پہلے ٹی وی والےگھر میں فلم دیکھنے کون کون آتا تھا؟ 70 کی دھائی کی باتیں


Article # 15
چند ایک پاکستانی فلمیں جو ہم نے دیکھیں

ٹی وی والے گھر میں فلم دیکھنے کون کون آتا ؟



تحریر: اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)


کوئی بہت ہی بڑا عابد و زاہد ہی ہوگا جو یہ کہہ دے کہ اس نے بچپن میں کوئی فلم ہی نہیں دیکھی۔ پہلے پی ٹی وی پر اتوار
 کو دوپہر میں پاکستانی فلم آتی تھی جس کے لئے پہلے سے تیاریاں مکمل کر لی جاتیں۔ فوتگی کے علاوہ ہر پروگرام بعد کے لئے رکھ لیا جاتا ۔ اکثر گھروں میں دوپہر کا کھانا پہلے ہی پکا لیا جاتا۔ گھر گھر ٹی وی نہیں تھا ۔ اس لئے جس جس گھر میں ٹی وی ہوتا ہے۔ اس گھر کی عورتیں گھر کی اوپری صفائی پر دھیان دیتیں اور آنے والیوں کی اندورنی نظروں پر نظر رکھتیں۔ 

فلمیں دیکھنے کی شوقین لڑکیاں اور عورتیں جس عورت  کے گھر ٹی وی ہوتا اس سے دوستی گانٹھ لیتیں۔ چھوٹے موٹے سلائی کڑھائی کے کام بھی کردیا کرتیں اور ساتھ ساتھ سنا بھی دیتیں "ارے اس گھر کو تو ہم اپنا ہی گھر سمجھتے ہیں"۔ یہ تو چھوڑیں خاندان کے وہ رشتہ دار جو مہینوں سالوں میں منہ دکھاتے وہ بھی اتوار کو نہ صرف اپنا منہ لے آتے بلکہ دوپہر کا کھانا منہ تک بھر کے تناول کرتے

جہاں ٹی وی رکھا ہوتا اس کی اتوار کے لئے وی آئی پی صفائی ہوتی۔گھر والی صفائی کرتے ہوئے بڑبڑاتی جاتی" ایک تو شیطان کی آنت ٹی وی کیا گھر میں آیا ہے ۔روز روز کوئی نہ کوئی بہانے بہانے سے ڈرامہ دیکھنے چلا آتا ہے۔ گھر نہ ہوگیا سینما گھر ہوگیا"۔بات صحیح تھی شام سے رات تک کوئی نہ کوئی ٹی وی والے گھر میں آدھمکتا۔یہ میں آپ سے 70 کی دھائی کی باتیں کر رہا ہوں۔

ٹی وی والے گھر کی عورت صفائی ستھرائی کرتی تو دوسری طرف فلم دیکھنے کے لئے آنے والی بچیاں ٹافیاں،سپاریاں اور دیگر چیزیں رات یا پھر صبح صبح خرید کر رکھ لیتیں کہ فلم دیکھتے ہوئے چپکے چپکے کھائیں گے۔ سہلیاں کوشش کرتیں کہ ساتھ ساتھ بیٹھیں اور جہاں موقع ملے کھی کھی کرتی رہیں ، ڈانٹ کھاتی رہیں۔ بچے اور جوانوں کے لئے نیچے سفید یا کسی اور رنگ کی چادر بچھا دی جاتی۔ بڑی عمر کے مرد و خواتین کرسیوں اور صوفہ پر براجمان ہوتے۔  ٹی وی کی گھر والی فلم سے زیادہ یہ دیکھتی کہ آنے والی عورتوں (جن میں سے دو ایک آگ لگاوا ہوتیں) میں سے کس کی نظر گھر کے کس حصہ پر ہے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ فلم کے بعد اس کے گھر کی ایک فلم چلنی ہے جس میں اس کے پھوڑپن کو فلم کی بڑی اسکرین کی طرح بڑھا چڑھا پیش کیا جائے گا۔ 

فلم دیکھنے بھی بڑے ڈرامے ہوتے۔ ہیروئن پر کوئی ظلم ہو رہا ہوتا تو ہیروئن سے زیادہ دیکھنے والیوں کا حال پروین شاکر کے اس مصرعہ جیسا ہوتا

اور ہم نے روتے روتے ڈوپٹہ بھگو لئے

اسی طرح قہقہہ بھی خوب نکلتے۔ ایسے میں چھوٹی لڑکیوں کو عورتیں چٹکیاں مارتیں۔اگر وہ تب بھی نہ مانتیں تو کوئی بڑی عمر کی عورت ڈانٹتے ہوئے کہتی "بڑی بے کہنے کی ہوتی جارہی ہیں یہ لڑکیاں۔اب اگر  کوئی ہنسی تو ساری بتیسی نکال  کر رکھ دوں گی"۔ فلم  میں اگر اس وقت کے حساب سے کوئی ایسا ویسا منظر آجاتا تو بزرگ پہلو بدلنے لگتے یا پھر کھنکھارنے لگتے۔ اب تو خیر زمانہ ہی بدل گیا جو کچھ فلموں میں اب دکھایا جا رہا ہے،اس وقت کے بزرگ ہوتے تو ٹی وی ہی توڑ دیتے۔ میں نے تو اب یہ دیکھا کہ فلم میں کوئی ایسا ویسا منظر اجائے تو بڑی عمر کے لوگ وہاں سے اٹھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ باقی تو کوئی اٹھنے کا سوچتا بھی نہیں۔ فلموں کو چھوڑیں پہلے ہم انڈیا ڈراموں کی بے حیائئ کا رونا روتے تھے۔اپنے ڈرامے دیکھکر آپ بلاتامل کہہ سکتے ہیں ۔۔۔ ہم کسی سے کم نہیں۔

یہ امتحان ہر ہفتہ ہوتا ۔کہیں نہ کہیں گھر کی صفائی ستھرائی میں کوئی کمی رہ ہی جاتی اور ٹی وی والی کو کوئی نہ کوئی کسی کا تبصرہ سنا ہی دیتی۔ بیوی شوہر سے کہتی کہ میں اتوار کے اتوار اس شو سے تنگ آگئی ہوں ۔ شوہر سمجھاتا "ارے دو ڈھائی کی تو بات ہے ۔کیا لیتے ہیں۔ فلم دیکھتے اور چلے جاتے ہیں۔" بیوی کا تو پارہ چڑھ جاتا "کیا لیتے ہیں ، کیامطلب ؟ ارے میری جان لے لیتے ہیں۔ وہ منہ بسورتی روتی گاتی ہیروئن سے زیادہ تو میری جان عذاب میں ہوتی ہے۔ صفائی ستھرائی کرو اور پھر کسی نہ کسی کو پانی پلاتی رہو۔ اور وہ جو آپ کی چچی امی ہیں ناں۔ چائے پیئے بغیر تو جیسے فلم دیکھنا گناہ ہے۔ ان کے گھر جاو تو بھوٹے منہ پانی کا نہیں پوچھتیں ۔۔۔ اور وہ منیر خالو ۔۔۔۔ارے شوگر کے مریض ہیں تو گھر میں بیٹھیں۔گھڑی گھڑی پانی اور پھر واش روم ۔پانی بھی صحیح طرح نہیں بھاتے۔ کبھی واش روم میں بو جا کر سونگھیں۔ (برا سا منہ بنا کر ڈوپٹہ کا کونہ ناک پر رکھ لیتیں)۔

دیکھیں بات شروع کی تھی فلم دیکھنے سے اور لے کے بیٹھ گیا گھروں میں فلم دیکھنے کی کہانیاں۔ ماضی کا یہی تو مسئلہ ہے بات شروع کرنا اور پھر اس کو ایک ڈگر پر رکھنا خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔

زندگی میں پہلی فلم جو ہم نے نایاب سینما ناظم آباد میں اپنے والد اور چھوٹے بھائی بزمی کے ساتھ دیکھی وہ تھی روڈ ٹو سوات ۔  یہ فلم پورے محلہ میں مشہور تھی جس میں موٹر سائیکل کے کمالات  بچوں میں بڑے مقبول تھے۔ فلم اس وقت تو بہت ہلکی سی یاد ہے۔ بعد میں جب بڑے ہوئے تو ایک بار پوری فلم دیکھی کہ بچپن کا سرمایہ تھی۔ اتنا یاد ہے کہ ہم دونوں بھائی والد کے ہاتھ پکڑے جارہے ہیں۔

روڈ ٹو سوات کے اداکاروں میں کمال ، نسیمہ خان ،مقصود ملک (موٹر سائیکلسٹ) ،ماہ پارہ، لہری اور حنیف شامل تھے۔ اس فلم کا دو گانے مجھے آج بھی یاد ہیں۔ 1۔ چلے ہیں دل والے روڈ ٹو سوات 2۔ یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا دھیرے دھیرے پیار کا بہانہ بن گیا۔ یہ فلم غالبا 1970 میں ریلیز ہوئی تھی۔

یہ سینما ہال کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد طویل تریں وقفہ یا بندش ہی کہہ لیں۔ میٹرک کے بعد عرشی سینما (اب ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ نیچے دکانیں اور اوپر فلیٹ بن چکے ہیں) عائشہ منزل میں فلم بندش دیکھ کر یہ بندش ختم ہوئی جب والد صاحب نے کہا کہ تم اب اپنے چچا زاد ( اطہر نجمی ) اور ماموں زاد بھائی (فضل عباس عرف دنی )کے ساتھ فلم دیکھنے جا سکتے ہو۔ فلم بندش (ریلیز 1980)  واقعی بہت اچھی ،صاف ستھری فلم تھی جس کے ستارے  ندیم شبنم ، غیر ملکی اداکارہ ڈائینا کرسٹینا ، طالش ،علاوالدین اور طلعت حسین  تھے۔ ڈائریکٹر نذر الاسلام تھے۔اس فلم کے بھی دو گانے پہت مشور ہوئے۔ موسئقار روبن گھوش تھے۔
اچھا اچھا لاگو رے (نیرہ نور ،اے نیر)
سونا نہ چاندی نہ کوئی محل ( اخلاق احمد)
یہ فلم لگاتار دو دن دیکھی۔

اب آتے پہلی ہندوستانی فلم جو جناب ہم نے وی سی آر پر نہیں بلکہ سینما کی سلور اسکرین پر دیکھی۔ ہندوستان کے ایک اداکار شیخ مختار تھے انہوں نے ایک وہاں ایک فلم بنائی نورجہاں ، شیخ صاحب اس کے فلم کے پروڈیوسر بھی تھے وہ پاکستان آئے ۔یہاں حکومت سے بات کی اور ہندوستانی فلموں پر پابندی کے باوجود اس فلم کی خصوصی طور پر اجازت دے دی گئی۔ سلور اسکرین پر ہمارے ہوش میں پہلی ہندوستانی فلم تھی ۔ مجمع ٹوٹ پڑا اور ہم بھی ۔ فلم واقعی بہت شاندار تھی کیوں نہ ہوتی اس میں مینا کماری (نورجہاں) جو تھیں۔ ان کے مقابل تھے پردیپ کمار (شہزادہ جہانگیر)۔ شیر افگن کا کردار لحیم شحیم شیخ مختار نے ادا کیا تھا۔ ہندوستان میں یہ فلم 1967 میں ریلیز ہوئی۔ یہاں سالوں بعد سینما کی زینت بنی اور خوب چلی۔ 

اس کے بعد اطہر نجمی اور فضل عباس دنی کے ساتھ عرشی سینما ہی میں ٹینا (محمد علی،بابرہ شریف، فیصل،وسیم عباس وغیرہ) اور ہانگ کانگ کے شعلے (جاوید شیخ ،بابرہ شریف ، مصطفی قریشی، رنگیلا  اور ادیب)۔لیجئے جناب ! اپنے وقتوں کی کامیاب تریں فلم آئینہ کا ذکر نہ کروں تو گناہ کے زمرے میں آجاوں گا۔ مجھے بھی یہ فلم دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ آئینہ شاید پاکستان کی  فلمی تاریخ میں کسی بھی ایک سینما (اسکالا)  پر سب سے زیادہ عرصہ  لگی رہنے والی فلم کا اعزاز رکھتی ہے۔

یقین جانیئے بس پوری زندگی یہی چند ایک فلمیں یا ایک دو انگریزی فلمیں سینما ھال میں دیکھی ہیں جو میرا خیال ہے بہت زیادہ "قابل تعریف" ریکارڈ نہیں۔ یہ میرا" اثاثہ کمتری " ہے ۔بس جو کچھ دیکھا ہے وہ سب  انگلیوں پر یاد ہے ۔ ہمارے زمانہ میں فلم دیکھنا ایک ایونٹ ہوا کرتا تھا۔ سینما ہال فیش شو کا منظر پیش کیا کرتے تھے۔  کچھ لڑکے اور لڑکیاں تو ہیرو ہیروئن سے زیادہ سج دھج کر آتے ۔ کچھ لوگ جو فیملی کے ساتھ آتے پہلے سے بکنگ کرا لیتے ۔ چھڑے چھانٹ یا لڑکوں کا گروپ فلم شروع ہونے سے پہلے آتا اور لائن میں لگ کر یا دھکم پیل سے ٹکٹ خریدتا ۔ ٹکٹیں بلیک میں فروخت بھی کی جاتیں۔ ھال میں ٹکٹیں خریدنے والی لائن کو سیدھا رکھنے کے لئے اکثر سینما گھروں میں مکرانی بھائی موجود ہوتے ۔کبھی کبھی ناخوشگوار صورت حال بھی پیش آجاتی ۔  80 کی دھائی میں ملک بھر میں انڈین فلموں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ ایسے میں پاکستانی فلمیں کو دیکھتا۔ شاید پاکستانی سینما کسی حد تک مقابلہ کر جاتا مگر رہی سہی کسر جنرل ضیا کے زمانے کہ سخت پالیسیوں نے کردی۔

اب کراچی کا پرانا سینما کلچر ختم ہوگیا ہے۔ نئے نئے سینما ھالز بن گئے ہیں مگر ابھی تک ان سینما ھالز میں فلم دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ دیکھیں کب نصیب یاوری کرے اور کوئی پاس مل جائے ۔اپنے پلے سے تو فلم دیکھنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ ویسے بھی اب دو ڈھائی گھنٹے کی فلم دیکھنے کی ہمت بھی نہیں رہی ہے۔

Monday 8 April 2019

Hamari hazir jawabi aur mulazmat ki hathon hath paishkash


Article # 14


ہماری حاضر جوابی اور ملازمت کی ہاتھوں ہاتھ پیشکش

تحریر:  اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)



والد مرحوم کوثر سلطان پوری بتاتے تھے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان بھارت میں ہی رہا لیکن گاندھی کے قتل کے بعد ہمارے خاندان کو ان کے آبائئ قصبہ میں جائے اماں نہ ملی۔ سو رات کے اندھیرے میں ایک ہندو ڈاکٹر نے اپنے گھر کے تہہ خانے میں پناہ دی اور علی الصبح اسٹیشن پہنچ کر عازم پاکستان ہوئے۔ کراچی میں لائنز ایریا پہلا مسکن ٹھہرا کیونکہ مہاجرین کی اکثریت پہلے یہیں آیا کرتی تھی۔ اس کے بعد پھر کہیں اور منتقل ہوتی۔
کراچی آئے تو بے سر و سامانی کا عالم تھا۔ گھرکے افراد نے ملازمت کی نہیں تھی لیکن اب خانداں غلاماں (یعنی ملازمت کرنے والے) میں شامل ہو چکے تھے۔
یہ تو ہوا ابتدائیہ ۔ خانداں غلاماں میں شامل ہو چکے تھے اس لئے سب لگ گئے چھوٹی موٹی ملازمتوں پر گو کہ بعد میں خانداں کے لوگوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی بھی کی۔ ملازمت کے حصول کے لئے ہمارا قصہ بڑا دلچسپ اور تلخ رہا۔ B.Sc کرنے کے بعد صبح شام والد اور چھوٹے چاچا کی جانب سے ہماری کلاس کا اہتمام ہوتا اور یہی کہا جاتا کہ ان کی عمر کے سب لڑکے ملازمت کر رہے ہیں اور صاحبزادے ہیں کہ گھر میں بیٹھے ہیں۔ ہمارا یہ تھا کہ کلرکی کرنی نہیں تھی اور معقول ملازمت مل نہیں رہی تھی۔
کسی نے کہا گھر میں عورتوں کو بلا کر سورہ مزمل پڑھو ۔ غیب سے ملازمت کا انتظام ہو جائے گا۔ امی ہماری روز روز کی کلاس سے تنگ آگئیں تھیں۔ سو بھیا انہوں نے محلے کی عورتوں کو بلا کرفوری طور پر سورہ مزمل شروع کردی۔ ہم بھی عجیب اذیت میں تھے۔ دو چھتی پر جا کر روز ہی اللہ سے گلے شکوے ہوتے۔ اس زمانے میں ہم نے بڑا تاریخی جملہ کہا تھا " جوان لڑکی کا رشتہ نہ آنا اور جوان لڑکے کو ملازمت نہ ملنا برابر کے دکھ ہیں "۔
قصہ مختصر ہمیں ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں جاب مل گئئ مگر طبیعت شروع سے سیلانی رہی ہے اس لئے اس ایجنسی سے دل جلد ہی بھر گیا ۔سوچا بڑی ایجنسی میں جائیں گے تو نام بھی ہوگا اور دام بھی اچھے ملیں گے۔ بڑی تگ و دو کے بعد ایک ریفرینس نکال کر ایک بڑی ایجنسی میں انٹرویو کے لئے صبح 9 بجے بلا ہی لیا گیا۔ ہماری ظاہری صورت حال یہ کہ 6 فٹ سے نکلتا قد اور جسم پر گوشت کی قلیل مقدار اور اس پر چہرے پر 120 گز میں رہنے والوں کی چھاپ۔ شیو کرنے کے ہم شروع سے چور ۔اب آپ خود سمجھ لیں ۔ہم کیسے لگتے ہوں گے؟ (ویسے صورت حال آج بھی بہت زیادہ مختلف نہیں)۔ اب یہ بھی مت سمجھ لیجے گا کہ ہم باکل ہی ناکارہ تھے۔ اس زمانے میں ہم حاضری جواب بلکہ صحیح بتاوں مسخرے زیادہ تھے۔
صبح سویرے سب سے اچھی پینٹ شرٹ نکالی۔ ایک دو دن کا شیو تھا ۔ پہنچ گئے انٹرویو دینے ٹھیک 9 بجے۔ اوقات ہی کیا تھی ؟ کاپی رائٹر ۔۔۔۔ تجربہ ، چند ماہ وہ بھی چھوٹی سی ایجنسی کا۔ صبح 9 بجے کے بیٹھے بیٹھے دوپہر ایک بجے کہا گیا کہ اپ آپ MD کے پاس انٹرویو کے لئے چلے جائیں۔ ہم عجیب گھبراہٹ اور پیٹ میں ہلکی ہلکی گڑ گڑ کے ساتھ MD صاحب کے کمرے کے باہر پہنچے۔ دروازہ Knock کیا۔ ?May I come sir کا روایتی جملہ بولا ۔اللہ جانے آواز اندر گئئ یا گلے میں ہی پھنسی رہ گئئ۔ جواب میں اندر سے بھاری بھرکم آواز آئئ۔ Come in. ہم نے دروازہ کھولا تو کمرہ AC کی وجہ سے یخ بستہ تھا۔ہم پہلے سے ٹھنڈے تھے کہ پتہ نہیں کیا سوال جواب ہو جائیں۔
کمرہ کیا تھا ؟ 60 گز کا گھر تھا بڑے بڑے ہردے۔ بڑی سے میز کہ سامنے والے سے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بھی نہ پہنچے۔ MD صاحب نے نہ تو ہم سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی بیٹھنے کو کہا۔ ایک نظر اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پوچھا "آپ انٹرویو کے لئے آئے ہیں؟" میں نے کہا "جی"۔MD صاحب نے ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائئ اور گویا ہوئے " انٹرویو کے لئے آئے ہیں بغیر شیو کئے۔"پتہ نہیں حاضری جوابی کی صلاحیت اس حالت میں کہاں سے عود کر بلکہ میرا خیال ہے کودکر آ گئ۔ میں نے بغیر کسی وقفہ کے جواب دیا "سر صبح 9 بجے میں شیو کر کے ہی آیا تھا"۔یہ جملہ سننا تھا کہ MD صاحب نے زور کا قہقہہ مارا۔انہیں معلوم تھا کہ میں 9 بجے سے انٹرویو کے لئے موجود تھا۔ اب سارا منظر نامہ تبدیل ہوچکا تھا۔ ہاتھ ملایا۔ کرسی پر بٹھایا۔ لہجہ قریب قریب دوستانہ تھا۔ بولے میں نے بہت انٹرویو کئے ہیں مگر اتنا برجستہ جواب وہ بھی تم جیسے New Comer سے نہیں سنا۔ Creative افراد کو ایسا ہی ہونا چاہیئے۔
وہ بھی ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پوچھنے لگے کہاں کے رہنے والے ہو ۔ میں نے کہا والد آگرہ کے پاس ایک قصبہ کے ہیں۔ پھر انہوں نے اپنا بتایا کہ وہ کہاں کے ہیں۔
اپنے سکریٹری کو انٹرکام کر کے بلایا اور میں بغیر کسی ڈگری اور Experience Certificate طلب کئے۔ آدھے گھنٹے میں کریٹیو ڈیپارٹمنٹ کی ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ ملازمت کا انتظام ایک جملہ پر ہو چکا تھا۔ یہ الگ بات کہ میں نے اس وقت یہ ملازمت نہیں کی اور ایک دو گھنٹے بعد وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ یہ قصہ پھر کبھی اور سہی۔

Sunday 7 April 2019

ماں ۔۔۔ منفی سے مثبت کھوجنے والی


Article # 13



ماں ۔۔۔۔ منفی سے مثبت کھوجنے والی



تحریر :اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)


ماں کی اس سے بڑی عظمت اور کیا ہوسکتی ہے کہ رب العزت نے خود کو 70 ماوں سے زیادہ محبت کرنے والا کہا ۔ بے غرضی ،بے نیازی اور ایثار جیسی صفات کی حامل ماں دنیا کی کوئی ڈگری نہ رکھتی ہو لیکن وہ ایک ایسی درسگاہ ہے ، وہ ایک ایسی معلمہ ہے جو اپنی اولاد کو زندگی  کی حقیقتوں کا ، سچائی کا ہر سبق یاد کراتی ہے۔ وہ کمسنی میں اولاد کی منفی باتوں سے مثبت کھوج لیتی ہے ۔ وہ ہر بات کا جواب دیتی ہے جو کسی کورس کا حصہ نہیں ہوتی۔ جو کہیں نہیں پڑھائی جاتی۔

ایک بچے نے رات کے پچھلے پہر ماں سے پوچھا :

ماں جب دیئےمیں تیل ختم ہوجائے گا تو کیا اندھیرا ہوگا ؟

ماں نے ایک لمحے کا توقف کئے بغیر بڑی سادگی سے بیٹے کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
بیٹا جب دیئے میں تیل ختم ہوجائے گا تو سویرا ہو گا ۔  


Thursday 4 April 2019

Safdar Mirza ... My dearest n nearest


Article # 12

صفدر مرزا

جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے



تحریر: اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)



80 کی پورئ دھائی اور 90 کے ابتدائی سالوں میں ، میں اس کے کونے کے مکان کی پتلی گلی کے لوھے کے گیٹ کے پاس جا کر اونچی آواز میں کہتا "صفدر"۔کچھ لمحوں میں جواب آتا "آرہا ہوں"۔ کچھ دیر میں وہ آجاتا اور پھر وھیں گھنٹے گھنٹے کھڑے ہو کر دنیا جہان کی باتیں ہوتیں۔زیادہ میں ہی بولتا وہ اچھا سامع تھا اور ہے۔

یہ گفتگو اس وقت ڈرامائی رخ اختیار کر لیتی جب ہم ان سے رات کیفے گلستان (جو اب للی میرج بیبکوئٹ بن گیا ہے) واٹرپمپ جا کر نہاری کھلانے کی فرمائش کرتے ۔ پہلے تو صاف انکار پھر ہماری غربت کا طعنہ حالانکہ وہ جانتے تھا کہ یہ طعنہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کافی دیر ہم بھی ملتجیانہ اور کبھی دوستانہ انداز میں اصرار کرتے رہتے۔ اکثر اوقات صفدر  مان جاتا۔  مئی یا جون 1988 تک ہماری بے روزگاری کا زمانہ تھا جبکہ صفدر مرزا میکینیکل میں ڈبلومہ کرنے کے بعد شپ یارڈ میں سرکاری ملازمت کر رہے تھے۔ بعد ازاں آپ نے بی ٹیک بھی کر لیا۔

صفدر سے ہماری دوستی کب ہوئی یہ تو یاد نہیں لیکن کب ختم ہوگی ؟ یہ تو زندگی کے خاتمے پر ہی ممکن ہے۔ صفدر کا لغوی مطلب ہے صف میں در آنے والا۔ صفوں کی صفیں الٹ دینے والا۔ بہادر۔ جری۔نڈر ۔دلیر۔ جھوٹ نہیں بولوں گا میں نے صفدر کو بظاہر صف الٹتے نہیں دیکھا البتہ نماز کی صف میں رکوع و سجود میں دیکھا۔ نماز کی باقاعد
گی سے ادائیگی آپ کے معمولات میں شروع سے شامل ہے۔

صفدر مرزا کے خد و خال کچھ یوں ہیں۔ درمیانہ قد۔ متناسب جسم۔ گندمی رنگت۔ گول چہرہ۔ ہلکی داڑھی اور نظر کے چشمے کی پیچھے جھانکتی  زندگی سے بھرپور آنکھیں۔ گفتگو کرتے ہوئے لفظوں کی ادائیگی  میں اٹکن  یہ سب مل کر بنتی ہے صفدر مرزا کی لکھنوی شخصیت۔ بچپن میں صفدر مرزا کرتا پاجامہ پہنتے ہوں گے تو لکھنو کے بانکے ہی لگتے ہوں گے۔

صفدر مرزا ذات کے مغل ہیں۔ ان کے ابا و اجداد کب وارد ہندوستان ہوئے؟ تاریخ کے اوراق کچھ بتائیں تو بتائیں صفدر مرزا نے اس موضوع پر لب کشائی نہیں کی۔میں اتنا تو ضرور کہہ سکتا ہوں کہ صفدر مرزا کھانے میں گائے،بکرے اور مرغی کی چیر پھاڑ کے عادی ہوں تو ہوں لیکن اپنے جد اعلی چنگیز خان کی طرح فتح پرستی میں انسانوں کے ساتھ اس عمل کے سخت مخالف ہیں۔

صفدر مرزا خود شہرت یافتہ نہیں ہیں مگر ان کے والد صاحب دلاور مرزا مرحوم چغتائی آرٹ کے مسلمہ مصور تھے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں آپ کے فن پاروں کی نمائش ہوئی۔ میر ،غالب اور اقبال کے اشعار پر آپ کی پینٹنگز یگانہ رہیں۔ دلاور مرزا اورینٹ ایڈورٹائزنگ میں سالوں آرٹ ڈائریکٹر رہے۔ میری زندگی پر تو ان کا بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ہی مجھے ایڈورٹائزنگ میں لانے کی وجہ بنے۔

صفدر مرزا سے جب ہماری دوستی بڑھی تو ان کی مذھب کی طرف طبیعت پوری طرح سکہ بند مسلمان ہو چکی تھی۔ ہمارا یہ تھا کہ ہم سقہ بند(مطلب جتنا عام مسلمان ہونے کے لئے  علم کی پیاس ضروری ہے بس وہی کافی ہے) مسلمان تھے اور رہے۔ چھٹی کے دن (ہفتہ) ہم دونوں اردو بازار اور صدر کتابیں خریدنے جاتے۔ پتہ نہیں کون کون سی مذہبی یا مذھب سے قریب تر کتابیں تلاش کرتے پھرتے۔ ہم اس کوشش میں مصروف رہتے کہ مذھب سے ہٹ کر کوئئ ادبی کتاب مل جائے جسے ہم پڑھ سکیں۔ پیسے تو ہمارے پاس ہوتے نہ تھے۔ بڑی بڑی مشکل سے صفدر مرزا کو اپنے مطلب کی کتاب کے لئے گھیرتے اور یہ ثابت کرنے کی سعی حاصل کرتے کہ اس کتاب میں مذھب موجود ہے۔ صفدر مرزا سب جانتے ۔خوب سنانے کے بعد ایک کتاب ہماری مرضی کی لے لیتے مگر ایک شرط کے ساتھ کہ جو کتابیں میں لے رہا ہوں تم کو پڑھنی ہوں گی۔ ہم فورا راضی ہو جاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ ہمیں چھوڑ دیتے کتاب پڑھنے کو دی جاتی۔ہم بھی خاص خاص حصے پرھتے اور  اظہار خیال کرتے۔صفدر مرزا کو اندازہ تھا کہ ہم کرتے کیا ہیں پھر انہوں نے کتاب کے خاص خاص حصوں پر  لائنیں لگا کر دینی شروع کردیں کہ کسی طرح ہم کتابوں میں ان کے ہم مزاج ہو جائیں۔

صفدر مرزا یہاں بھی ناکام رہے ہم نے ان لائنوں کے باوجود ان کی لائن نہ پکڑی۔ صفدر مرزا ابتدا سے روایتی مولویوں اور ذکروں سے کبیدہ خاطر رہے۔ اب ان کی حالیہ پوسٹیں دیکھ کر لگتا ہے بات کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ شروع شروع میں تو ہم نے کمنٹس کئے لیکن بعد میں خود پر نو کمنٹس کا بورڈ لگا دیا۔ صفدر مرزا سمجھ رہے ہوں گے کہ ادھیڑ عمری میں ہم ان کے ہم رکاب ہو جائیں گے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا۔

ایک مرتبہ ہم نے گلی والوں کے ساتھ ہاکس بے پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا۔ والد والدہ خیرپور گئے ہوئے تھے۔ شام ہو گئئ۔ صبح پکنک پر جانا ہے۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ پہنچ گئے صفدر مرزا کے پاس ۔نکالو ہماری پکنک کے پیسے۔ بے نقاط سنائیں۔ کیا کیا نہیں کہا۔ ہم بھی ڈھیٹ بنے سنتے رہے اور پیسے لے کر ہی گئے۔کبھی سوچنے بیٹھتا ہوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ کتنا یقین اور مان تھا صفدر پر کہ وہ مایوس نہیں کرے گا۔

ایک وقت وہ بھی گذرا کہ صفدر ہماری تفریح بازی سے نالاں ہوئے اور ہمیں سب کے سامنے سنا دیں۔ ہم بھی اکڑ گئے۔ بات چیت بند۔ لوگ حیران کہ روز گھنٹوں بات کرنے والوں کو کیا ہوا۔ ہماری جاب لگ گئی تھی۔ ہمارے بھی پر لگ گئے تھے۔ ایک ماہ یا اس سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا۔ ایک دن دونوں شام کو آفس سے واپسی پر سہراب گوٹھ کے اسٹاپ پر ساتھ اترے۔ ریل کی پٹری کی طرح ساتھ چل رہے تھے مگر دونوں ہی خاموش یہاں صفدر مرزا پھر مجھ سے بازی لے گیا اور خود ہی آواز دے کر بات شروع کردی ۔ ناراضی کیا تھی محبت کا لاڈ تھا۔اس نے مجھے منا لیآ اور میں من گیا۔

صفدر مرزا باشرع ہیں۔ عزاداری کے بارے میں اپنا مخصوص نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ مذہبی احتجاج میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ ایسے موقعوں پر آپ خاص طور پر جاگرز پہن کر شریک مظاہرہ ہوتے مبادا کہیں مظاہرہ شکن قوتوں کے شکنجے میں نہ آجائیں۔ ایسے موقعوں پر آپ کا گھر سے نکلنا اور پھر دوستوں کی جملہ بازی خوب ہی مزہ دیتی لیکن صفدر مرزا مسکرا کر ہر جملے کو سہہ جاتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر پکڑے گئے تو مار نہیں سہہ پائیں گے۔

صفدر مرزا کی آبائئ انجمن ظفر الایمان ہے جو کبھی کبھی مجھے ان کے مذہبی خیالات سے کمپرومائز کرتی دکھائئ نہیں دیتی مگر تمام تر باتوں کے باوجود ان کے اندر کا انجمن باز زندہ تھا۔ کیا کیا جائے۔لاکھ عالم فاضل بن جایئے بچپن کی خو بو تھوڑی جاتی ہے۔ صفدر مرزا کے خاندان میں نوحہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے بچوں کا کھانا کھانا۔ والد،بھائئ چچیرے بھائئ سب اس فن میں طاق ہیں۔ انجمن نوحہ خوانی کر رہی ہو اور شبہ ہو کہ طرز ٹوٹ رہی ہے یا پڑھنے والے کی آواز میں دم ہلکا پڑ رہا ہے تو خاندان کا کوئئ بھی فرد کہیں بھی کھڑا ہو آواز میں آواز ملا دیتا تھا۔ صفدر مرزا  بھی خاندان کی اس روایت کے امین رہے ہیں۔اب قیام چونکہ کینیڈا میں ہے اس لئے اس امانت داری سے متعلق حتمی رائے دینے سے مکمل طور پر انکاری ہوں۔ صفدر مرزا کی آواز اس وقت تک بہت اچھی ہوتی کہ جب تک وہ ساتھ پڑھ رہے ہوں اور یہ پتہ نہ چلے کہ اس میں سے صفدر مرزا کی آواز کون سی ہے۔

صفدر مرزا بچپن میں خاصے گول مٹول رہے ہوں گے لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ ان پر بچپن آیا بھی تھا کہ نہیں ۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ وہ اس عمر کیا باتیں کیا کرتے ہوں گے؟ کس قسم کے بچکانہ مذاق کیا کرتے ہوں گے۔ ان باتوں سے یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ ان میں میں حس مزاح ہی نہیں۔ ہے اور بہت ہے مگر اوندھا سیدھا مذاق ان کا مزاج نہیں۔

صفدر مرزا کے لئے کہنے کو اور اس کے بعد ان سے سنے کو بہت کچھ ہے۔ بس اتنا کہہ دوں کہ فی زمانہ شرافت ان پر ختم ہے۔

بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن 
جو  میرا  دوست  ہے مجھ سے  بڑا  ہے

                                     (اطہر نفیس)

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...