Thursday 11 March 2021

Qalam kar Azhar Azmi se ek interview .

 

اظہر عزمی سے ایک تفصیلی انٹرویو

روما رضوی




" ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔۔
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا "

ٹی وی ، اخبار ہو یا ریڈیو اشتہارات کے بغیر ان عوامی اداروں کا چلانا آسان نہیں اشتہار کسی بھی چیز ، فرد یا ادارے کو متعارف کروانے میں ایک ذریعہ ہیں ۔

چند لمحوں میں سمٹ سمٹا کر چند سطور پر مشتمل اشتہار نہ صرف ایک مکمل پیغام پہنچا رہا ہوتا ہے بلکہ دیکھنے والے کو بھی کامیابی سے قائل کرلیتا ہے کہ یہ پروڈکٹ زندگی میں کتنی اہمیت اور راحت کا باعث بن سکتی ہے ۔ پانچ سے ساٹھ سیکنڈز کے درمیان ہر وہ بات کہہ ، دکھا اور سنا دی جاتی ہے جس سے کچھ نہیں تو ناظر ، سامع اس چیز کو دیکھ کر یا اس بات کو سن اور پڑھ کر ایک لمحہ کے لئے سہی اس طرف سوچتا ضرور ہے یا توجہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔

پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی خاص ترجیحات و مقاصد ہوتے ہیں اور اشتہار ان مقاصد کو حاصل کرنے میں معاون و مددگار کی حثیت رکھتا ہے ۔ یوں سمجھئے کہ پروڈکٹ اور صارف کے درمیان رشتے قائم کرتا ہے ۔ اشتہارات پسند کیے جاتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہی اشتہار لوگوں کی توجہ کا باعث بنتے ہیں جو معیاری طرز معاشرت کی نمائندگی کرتے ہیں یا جن میں کوئی مثبت پیغام ہو . اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ مختلف اور نت نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ۔ اس کم دورانیہ کی پیشکش کے پیچھے کتنے ذہین لوگ اور کتنے قلم کار مصروف ہوتے ہیں ایک عام ناظر اس بات کو کبھی نہیں جان سکتا ۔

آج کی نشست میں ہمارے مہمان اظہر عزمی صاحب ہیں جو عرصے سے اس شعبے سے منسلک ہیں ۔ بہت معروف اداروں میں ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور ان کے لکھے دلچسپ مضامین اردو پڑھنے والوں میں نہایت سراہے جاتے ہیں ۔
خوش آمدید اظہر صاحب ۔

سوال نمبر 1_
سب کے ذہن میں پہلا سوال یہی آتا ہے کب سے لکھ رہے ہیں؟ اور سب سے پہلے کس موضوع پر قلم اٹھایا ؟
جواب ۔ لکھنا میری سرشت میں شامل یے ۔ مجھے اپنے والد سے ودیعت ہوا یے ۔ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے پہلی بار کب لکھا ۔ جب میں ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھا تو میرے والد صاحب نے اپنی ڈائری دکھائی جس کے ایک صفحے پر میں نے پینسل سے ایک منقبت لکھی تھی ۔ اس وقت تو مجھے شاعری کا پتہ بھی نہیں تھا ۔ اس میں ردیف قافیہ کچھ بھی نہیں تھا لیکن میں نے وہ منقبت لکھی تھی ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ میں شاعر نہ بن سکا گو کہ میرے والد کوثر سلطان پوری شاعر تھے مگر مجھ میں نثر کے جراثیم آئے ۔

سوال2۔ آپ نے اپنے بچپن کی بات سے آغاز کیا کہ آپ کے زمانے میں نوجوانوں میں بیشمار سرگرمیاں جاری رہتی تھیں مگر فی الزمانہ نوجوانوں نسل میں مایوسی بوریت جیسے تاثرات زیادہ نظر آتے ہیں ایسا کیوں ہے ؟
جواب ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ حساسیت کا ہونا اچھی بات ہے لیکن ہمارے معاشرے میں آج کے نوجوان حساسیت میں ، اضطراب اور جذباتیت کا زیادہ شکار ہیں جس کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم تربیت یافتہ نہ ہونا ہے ۔ ہم تعلیم یافتہ ہو گئے مگر تربیت کے شدید فقدان کا شکار ہیں ۔ مجھے یاد ہے میرے اسکول کے زمانے میں والد صاحب مجھے لے کر بیٹھتے اور میری عمر کے لحاظ سے کسی بھی مسئلے کو ڈسکس کرتے ۔ اس کے مثبت اور منفی پہلو بتاتے ۔ تحمل ، مستقل مزاجی ، رواداری ، صلہ رحمی کا بتاتے ۔ اس وقت میں یہ الفاظ جانتا بھی نہیں تھا لیکن آج مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے جس طرح میری تربیت کی ۔ اسی طرح اسکول کے اساتذہ کا بھی اس ضمن میں اہم کردار رہا ۔

سوال نمبر 3 _
آپ کے شعبے تخلیق میں آنے کے لئے نوجوانوں کو کیا کچھ پہلے جاننا ضروری ہے ؟
جواب _ مجھ سے پوچھیں تو اس کام میں آپ اپنی صلاحیتیں کسی کو مستعار دے دیتے ہیں ۔ صلاحیت کے بعد جو سب سے اہم بات ہے وہ ہے آپ کا عوام کے ہر طبقے کی نفسیات سے واقف ہونا ۔ آپ کی قوت مشاہدہ اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت عام افراد سے کئی گنا زیادہ ہونی چاھیئے ۔ یہی معاملہ یادداشت کے حوالے سے یے ۔ آپ نے کب کون سی کام کی بات سنی تھی ۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن کلائنٹ کی جانب سے آپ کی تخلیقی کام کو رد کئے جانے ہر برداشت اور اسی کام پر نئے عزم و حوصلے سے مصروف ہوجانا ہے ۔ یہ وہ خوبی ہے جو آپ کو اس شعبے میں کامیاب بناتی ہے ۔ تخلیق ، مشاہدہ ، یاداشت ، برداشت یہ سب ان شعبے کے بنیادی عناصر ہیں ۔ آئیے ! ایڈورٹائزنگ آپ کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہے ۔

سوال 4
آپ کی تحریر و شخصیت کو کس نے زیادہ متاثر کیا ؟ اور پہلی تحریر کہاں شائع ہوئی ؟
جواب_ میرے والد کا میری زندگی ہر بہت گہرا اثر رہا ہے ۔ میری شخصیت سازی میں ان کا کردار کلیدی رہا ہے ۔ میری پہلی تحریر بچوں کے ایک رسالے " غنچہ" میں "استاد شرارت" کے نام سے شائع ہوئی ۔ والد صاحب نے بہت سراھا اور اس مرحلے پر کوئی تنقید نہ کی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ چھوٹی عمر سے لکھنے والوں کو کچھ تحریروں کے لئے آزاد چھوڑ دینا چاھیئے تاکہ ابتدا میں وہ حوصلہ شکنی کا شکار نہ ہوں ۔ جب وہ تنقید کو سمجھنے اور اس سے استفادہ کرنے کے قابل ہو جائیں تو ان سے ضرور بات کی جائے ۔

سوال 5 _
اپنی فطرت سے قریب ہوکر لکھتے ہیں یا فی الزمانہ رائج موضوعات و انداز کو اپناتے ہیں ؟
جواب _ کوئی بھی لکھنے والا اگر اپنے مزاج و فطرت کے قریب ہوکر نہیں لکھے گا تو اس کا اصل کیسے باہر آئے گا ۔ ہر لکھاری کو اپنا قاری بنانا ہوتا ہے ۔ قاری کی ذہن سازی بھی آپ ہی کا کام ہے ۔ یہ بھی بات بھی طے ہے کہ جس طرح ہر پروڈکٹ ہر صارف کے لئے نہیں ہوتی ۔ اسی طرح ہر تحریر ہر قاری کے لئے نہیں ہوتی ۔ میرا ذاتی خیال بلکہ اب تو عقیدہ ہے کہ آپ کا قاری آپ کو ڈھونڈ نکالتا ہے ۔ میں نے جب سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کیا تو ابتدا میں پچاس پڑھنے والے بھی نہ ہوں گے ۔ اب یہ تعداد ہزار تک جا پہنچی ہے ۔ ہاں اس میں ایک بات قابل دھیان ضرور ہے کہ ٹحریر کو سادہ و سلیس رکھیں ۔ اپنی قابلیت کا رعب مت جھاڑیں ۔ بس آپ کو بات کہنے کا ہنر آنا چاھیئے ۔ میں ویسے تو تمام موضوعات پر لکھتا ہوں لیکن یاد رفتگاں اور خاکہ نگاری میرا خاص موضوع ہے جس میں مزاح کا پہلو سب سے اہم ہوتا ہے ۔ اب زمانے بدل رہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب قاری زیادہ ذہنی مشقت تو تیار نہیں ہے اس لئے تحریر کو گفتگو کے انداز میں لکھیں تو وہ طویل مضمون بھی ہنسی خوشی اور اطمینان سے پڑھ لے گا ۔

سوال 6_
آپکا مخصوص شعبہ کیا رہا ؟ صرف کمرشل ہی کیئے یا اور بھی تحریریں عوام کے سامنے آتی رہیں ؟
جواب ۔ میرا تعلق ایڈورٹائزنگ کے شعبے تخلیق سے ہے ۔ دفتری مصروفیات کے باعث میں زیادہ تر کمرشل کام پر ہی متوجہ ریا ۔ 1988 سے 1994 تک ملک کے بڑے اخبارات میں سیاست و دیگر موضوعات پر لکھا ۔ اس کے بعد پی ٹی وی کے لئے ڈرامہ سیریل " آگے آگے دیکھئے " لکھا ۔ این ٹی ایم کے لئے بقرعید کا پلے " قربان جایئے " لکھا ۔ اس کے بعد ایک لمبا گیپ آگیا ۔ 2012 میں دوبارہ ٹی وی کی طرف آیا ۔ سٹ کام " بھابھی سنبھال چابی " اور دو عید پلے تحریر کئے ۔2017 سے سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کیا ۔ بس تب سے اب تک روزانہ ہی کچھ نہ کچھ لکھتا ہوں ۔ میں نے ابتدا میں وقت گزاری کے لئے لکھنا شروع کیا تھا ۔ مجھے قطعا اندازہ نہیں تھا کہ ان سالوں میں صورت حال اس حد تک حوصلہ افزا ہو گی ۔

سوال 7
کیا قارئین کے ردعمل پر لکھنے والے کو اپنا انداز تبدیل کرنا چاہیئے گو کہ یہ غیر فطری ہوگا مگر عوام کی پسند کے لئے کیا بہتر سمجھتے ہیں ؟
جواب ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ لکھنے والے کو بہادر ہونا چاھیئے ۔ لکھنا لکھانا ڈر جانے والوں کا کام نہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب جارح مزاج اور ضدی ہو جائیں ۔ چلیں پہلے بہادری کو ہی سمجھ لیں ۔ بہادری میں دلیری کے ساتھ تحمل مزاجی ، معاملہ فہمی اور ذہنی کشادگی نہ ہو تو یہ حماقت کہلاتی ہے ۔ قاری کا ردعمل بنیادی طور پر اس کی ذہنی استعداد کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ آپ اس کی تنقید سے بہ خوبی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے ۔ اگر اس کی رائے ، تبصرہ اور تنقید مثبت ہے تو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاھیئے ۔ ویسے بھی اچھی بات تو کوئی بھی کر سکتا ہے ۔ ایک اچھا لکھاری ہر وقت سیکھنے کے عمل سے گزرتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہی تحریر میں نکھار آتا ہے ۔

سوال 8_ معیاری ادب کو کس طرح شناخت کریں گے ؟
جواب _ اگر آپ کا یہ سوال قاری کے نقطہ نظر سے ہے تو وہی بہتر جواب دے سکتا ہے ۔ لیکن اتنی تحریروں کے بعد میرا خیال ہے کہ آج کا قاری بہت ہوشیار ہے ۔ وہ پہلے پیراگراف سے ہی آپ کے رنگ ڈھنگ سمجھ جاتا ہے اور آپ کو معیار کے مخصوص خانے میں بند کر دیتا ہے ۔ اچھا چلیں معیار سے پہلے ایک بات اور طے کر لیں کہ آپ اس کو اپنی راہ پر لگاتے کیسے ہیں ۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں ۔ میں کبھی کسی مضمون کی تمہید نہیں باندھتا ۔ سیدھے سیدھے کام کی بات پر آتا ہو ۔ یہ ہنر یا ٹیکنیک میں نے ایڈورٹائزنگ سے سیکھی ہے اگر آپ کسی ٹی وی کمرشل پر ویور کو 5 سکینڈ کے لئے روک لیں تو پھر وہ کہیں نہیں جاتا ۔ میں اپنے مضامین میں بھی یہی کارگر ہتھیار استعمال کرتا ہوں ۔ دوسری بات یہ کہ اگر پند و نصاح کرنا ہے تو اس کے لئے بڑی ذہانت و مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آپ بہت ساری باتیں بین السطور میں بھی کہہ سکتے ہیں ۔ آپ قاری کو بے وقوف نہ سمجھیں ۔ سمجھتا وہ سب ہے بس آپ کو سمجھانے کا طریقہ آنا چاھیئے ۔ میں نے اپنے کسی مضمون میں کبھی میاں نصیحت بننے کی کوشش نہیں کی لیکن جو پیغام دینا چاھتا ہوں وہ ضرور دیتا ہوں ۔ کچھ قاری صاحب نظر ہوتے ہیں تو وہ اپنے تبصرے میں اس کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں ۔
سوال 9_
دوستوں یا نوجوانوں کو کن کتابوں کے مطالعے کا مشورہ دیتے ہیں؟ اور خود کن موضوعات پر پڑھنا پسند کرتے ہیں ؟
جواب ۔ مطالعہ کے لئے کن کتابوں کو منتخب کرنا چاھیئے ۔ آس کا دارو مدار آپ کی میلان پر ہے ۔ مجھے آپ بیتی پڑھنا بہت پسند ہے ۔ اچھی شاعری ملٹی وٹامنز کا کام کرتی ہے ۔ اچھا شعر سن یا پڑھ لوں تو پورے پورے دن اس کے اثر میں رہتا ہوں ۔
میرے ساتھ اصل میں ایک اچھا معاملہ یہ رہا کہ بچپن سے گھر میں عالمی ، سیارہ اور اردو ڈائجسٹ دیکھے ۔ ہمارے گھر کا پورا مچان ان ڈائجسٹوں سے اٹا پڑا تھا ۔ اس لئے سیاست کے ساتھ تمام ہی ملکی اور عالمی موضوعات پر پڑھنے کا چسکا لگ گیا ۔ بہترین افسانے اور شاعری بھی پڑھنے کو اس طرح میسر آئی کہ والد صاحب یہ کتابیں لے آتے تھے ۔ کتابیں زندگی میں بہت کم خریدی ہیں ۔ کالج میں تھا تو وہاں کلاس سے زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا ۔ سب سے دلچسپ بات بتاوں ۔ مجھے آج بھی نونہال اور بچوں کے میگزین پڑھ کے زیادہ مزہ آتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے بچوں کی نفسیات سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ ہاں میں نے خواتین ڈائجسٹ اور جاسوسی ناولز کبھی نہیں پڑھے ۔

سوال 10 _ آپ نے خود کن مصنفین کی کتابیں شوق سے پڑھیں ؟ اور کون سی کتابیں اب تک آپکی دانست میں ہر دور کی نمائندگی کرتی ہیں؟
جواب _ کتابوں میں آپ بیتیوں کے علاوہ محمد حسین ہیکل ، سبط حسن ، میکسم گورکی ، کارل مارکس ، پاولو کولہو ، ڈپٹی نذیر احمد، عبداللہ حسین ، عصمت چغتائی ،فرائیڈ وغیرہ کو پڑھا ہے ۔ مثنوی مولوی معنوی کا اردو ترجمہ اس وقت پڑھا کہ جب میٹرک میں تھا ۔ شاعری میں میر تقی میر ، غالب ، میر انیس ، دبیر ، علامہ اقبال ، جوش ، قمر جلالوی ، فیض ، فراز یہ فہرست بہت طویل ہے جو جو ملتا گیا پڑھتے گئے ۔ نثر سے زیادہ شاعری پڑھنے میں لطف آتا ہے ۔ آج کے دور میں عارف امام اور توقیر تقی کی شاعری اچھی لگتی یے ۔

سوال 11 اچھی نثر بھی پابند قافیہ اور ردیف لگتی ہے کیا اسے نثری شاعری کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے؟
جواب ۔ جو میں لکھتا ہوں اسے آپ کسی حد تک نثری شاعری کے خانے میں رکھ سکتے ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ تعلق ایڈورٹائزنگ سے ہے تو وہاں کمرشل کام میں رائمنگ زیادہ پسند کی جاتی ہے اس لئے ایسا لکھنا مزاج بنتا گیا ۔ متعدد ٹی وی جنگلز لکھے جو زبان زد عام ہوئے لیکن بہر حال اسے آپ باقاعدہ شاعری نہیں کہہ سکتے ۔ اس کی ضروریات شاعری کی بحر اوزان وغیرہ کی پروا نہیں کرتی ہیں ۔

سوال 12_
نوجوان نسل تعلیم یافتہ ہے مگر پیشہ منتخب کرنے میں پریشانی کا شکار نظر آتی ہے شاید اسی لئے ان کا منفی ردعمل سامنے زیادہ آتا ہے اور بزگوں کو ان سے شکایت پیدا ہوتی ہے اس سلسلے میں آپ کیا کہیں گے ؟
جواب ۔ آج کی ترقی کے عمل نے ہم سب کو مادہ پرستی کی طرف راغب کر دیا ہے ۔ اسٹیٹس کے شکار معاشرے علمی اور فکری طور پر اسٹیٹس کو کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ تعلیم برائے روزگار نے ہم سے زندگی کی حقیقی اقدار چھین لی ہیں ۔ پہلے "تعلیم و تربیت" کہا جاتا تھا ۔ اس لئے ہم معاشرے کو انسان دوست اور ایک دوسرے کا دکھ بانٹنے والے افراد دے رہے تھے ۔ اب "تعلیم و روزگار " نے گھر ، گاڑی اور دیگر تعیشات کو حاصل زندگی قرار دے دیا ۔ یہ معاملہ ذات کی حد تک محدود ہوا تو انسانی رشتے ناطے انتہائی غیر اہم ہو گئے ۔ دولت کی بنیاد پر خانہ بندی نے اجتماعی طور پر یاسیت کو فروغ دیا ۔ جس نے صلاحیتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حسب خواہش نہ پایا اس کو یاسیت نے آگھیرا جس کا سب سے زیادہ شکار آج کے نوجوان ہیں کیونکہ معاشی کامیابیاں ان کی سرخروئی کی " زندہ دلیل " گردانی جاتی ہیں ۔ دیکھیئے آپ تعلیم یافتہ نہ ہو کر بھی اگر تربیت و تہذیب یافتہ ہیں تو معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ میں آپ کو تربیت کے حوالے سے ایک بہت اہم بات بتاتا ہوں ۔ میرے والد صاحب نے مجھے بچپن سے یہی بتایا کہ پڑھا لکھا شخص ہی امیر ہوتا ہے ۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا ۔ ہمیشہ پڑھے لکھے شخص کی عزت کی چاھے وہ معاشی طور پر کتنا ہی نا آسودہ حال کیوں نہ ہو ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ دولت والوں سے متاثر ہونے اور انہیں دیکھ کر کبھی احساس کمتری نہ ہوئی ۔

سوال 13_ کیا لکھنے سے آپ سمجھتے ہیں معاشرتی مسائل کے سدھار میں مدد مل سکتی ہے ؟
جواب_ لکھنے سے معاشرے میں بالکل سدھار آ سکتا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اب کون لکھ رہا ہے ۔ کیا لکھ رہا ہے اور کیوں لکھ رہا ہے ؟ لکھنا لکھانا تخلیقی معاملہ ہے اس میں خواہش نہیں بلکہ خداداد صلاحیت ہی بنیاد ہوتی ہے جسے آپ وقت کے ساتھ نکھارتے رہتے ہیں ۔ آج وہ لوگ لکھ رہے ہیں جنہیں زبان ہی نہیں آتی ہے ۔ فکر و خیال تو بعد کی بات ہے ۔ پہلے ادیب ، شعراء اپنی نشست و برخاست اور قول و عمل سے لے کر اپنی تخلیق کو سینہ قرطاس تک منتقل کرتے اور اس کے بیان تک ادیب و شاعر ہی ہوتے تھے ۔ اب تو حال یہ ہے کہ آپ ان سے گفتگو کریں تو لگتا ہے کہ آپ کسی لکھاری سے زیادہ کسی ترکھان یا بیوپاری سے بات کر رہے ہیں ۔ ان کی تحریر پڑھیں تو اپنا سر پیٹنے سے زیادہ ان کا سر دیوار پر مارنے کو چاھتا ہے ۔اب لابنگ سسٹم کا دور دورہ ہے ۔ ہر ایک شہرت طلبی کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہے ۔ ایسے لکھنے والوں سے آپ معاشرے میں سدھار کی کیا توقع کر سکتے ہیں ۔

سوال 14 ۔ آپ کے دلچسپ مضامین کا تذکرہ ہوا پھر آپ نے کچھ ٹی وی ڈراموں کا نام لیا جن میں مزاح کا عنصر غالب تھا یعنی قارئین آپ کو بطور مزاح نگار جانتے ہیں آپ کا یہ تجربہ کیسا رہا ؟
جواب _پہلے تو میں ایک بات عرض کردوں کہ میں صرف مزاح نگار نہیں ۔ میں نے سنجیدہ موضوعات پر بھی لکھا ہے ۔ میں خاص طور پر اپنے دو مضامین "وہ بارشوں میں فون کرنے والے کیا یوئے " اور " مگر ایک ماں نہیں مانتی " پڑھیں تو میرے کہے کی تصدیق ہو جائے گی ۔ جہاں تک بات مزاح نگار کی بات رہی تو اس ضمن یہ عرض ہے کہ طنز و مزاح لکھنا ایک مشکل ترین کام ہے ۔ ہمارے ہاں نامور لکھنے والے کسی نہ کسی مقام پر ولگر ہوجاتے ہیں ۔ یہی وہ مقام ہوتا یے کہ جب لکھنے والے کو اپنی بات بھی پوری کہنی ہوتی ہے اور یہیں اس کی استادی نظر آتی ہے ۔ میرا اپنا ایک بڑا واضح اصول رہا ہے کہ جو میرے اہل خانہ پڑ سکتے ہیں میں وہی لکھتا ہوں ۔ اخلاقیات سے کبھی نیچے نہیں آتا ۔ بات سب کہتا ہوں مگر اس پیرائے میں کہ قاری سمجھ بھی جائے اور نا شائستگی سے دامن بھی بچا رہے ۔ ایک اہم بات یہ کہ لوگ طنز و مزاح لکھنے والے کو کامیڈین سمجھ لیتے ہیں ۔ میری چند ایک اپنے پڑھنے والوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے عامیانہ قسم کا طنز و مزاح شروع کردیا ۔ جب میں نے ان کی بات کا جواب نہ دیا تو انہوں نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ کسی اور سے لکھوانا ہوں ۔ مجھ جیسے لوگ تو ویسے بھی گوشہ نشین قسم کے افراد ہوتے ہیں ۔ گفتگو میں احتیاط پسندی نمایاں ہوتی ہے ۔ مجھ سے گفتگو میں ذو معنی جملوں اور پھکڑ پن کی توقع فضول ہے ۔
سوال 15_ ۔کیا آپ کی تحریر محض مطالعہ کے زور پر ہوتی ہے یا تجربات بھی متن کا حصہ بن جاتے ہیں؟
جواب _ میں اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر لکھتا ہوں ۔ انگریزی و دیگر زبانوں سے کٹ اینڈ پیسٹ کا عادی نہیں ۔ میں نے پریم چند ، رتن ناتھ سرشار ، مشتاق احمد یوسفی ، شفیق الرحمن ، محمد خالد اختر ، سید محمد جعفری ، فرحت اللہ بیگ ، کرنل محمد خان ، پطرس بخاری ، ابن انشاء و دیگر کو پڑھا ہے لیکن اثر کسی کا قبول نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ تازہ اسٹاک قاری کے سپرد کرتا ہوں ۔ خاکہ نگاری میں ، میں نے اپنا ایک الگ اسلوب رکھا ۔ کبھی کسی مشہور شخص کا خاکہ نہیں لکھا ۔ ایسے لوگوں کو سامنے لایا ہوں جن سے پڑھنے والے واقف ہی نہیں تھے ۔

سوال 16_
:گذشتہ دنوں آپ کی کچھ ویڈیوز بھی دیکھیں۔
کیا براہ راست بھی سامعین کے درمیان مضامین پڑھتے رہے ہیں؟ اور لائیو سنانے کا تجربہ کیسا لگا ؟
جواب : ایڈورٹائزنگ میں آنے کے بعد ٹی وی کمرشلز کے لئے وائس اوور کی ریکارڈنگ میں آپ کو لفظوں کی ادائیگی کے بارے میں وائس اوور آرٹسٹ کو بتانا پڑتا ہے ۔ دو ایک بار بہ امر مجبوری مجھے اپنی وائس میں ریکارڈنگ کرانی پڑی ۔ جب میں نے اپنا آرٹیکل " خاندان تھے تو پاندان تھے " لکھا تو مجھے ایک فورم سے یہ پڑھنے کی دعوت دی گئی ۔ یہ تجربہ خوشگوار رہا اور پھر وقفے وقفے یہ سلسلہ جاری ہے ۔
" خاندان تھے تو پاندان تھے " سوشل میڈیا پر میری پہچان بنا ۔ حیرت اس وقت ہوئی جب بیرون ملک سے یہ آرٹیکل مجھے بھیجا گیا لیکن اس میں میرا نام نہیں تھا ۔

سوال 17_ آپ کے شعبے میں اگر نوجوان دلچسپی رکھتے ہوں تو ان کو کیا خاص باتیں بتانا چاہیں گے؟
جواب _نوجوان ضرور اس شعبے میں آئیں ۔ یہ شعبہ نئی توانا سوچ رکھنے والوں کے لئے بہترین جگہ ہے ۔ میرا تعلق شعبہ تخلیق سے ہے اس لئے یہی کہوں گا کہ بظاہر دور سے سب کچھ بہت glamourized نظر آتا ہے ۔ در حقیقت ایسا نہیں ہے ۔ جو نوجوان بالخصوص اس شعبے کی طرف آنا چاھیں تو یہ جان لیں کہ تخلیقی صلاحیتیں آپ کی ہوں گی لیکن کام کسی بریف کے تحت کرنا ہوگا ۔ مجھ سے پوچھیں تو اس کام میں آپ اپنی صلاحیتیں کسی کو مستعار دے دیتے ہیں ۔ صلاحیت کے بعد جو سب سے اہم بات ہے وہ ہے آپ کا عوام کے ہر طبقے کی نفسیات سے واقف ہونا ۔ آپ کی قوت مشاہدہ اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت عام افراد سے کئی گنا زیادہ ہونی چاھیئے ۔ یہی معاملہ یادداشت کے حوالے سے یے ۔ آپ نے کب کون سی کام کی بات سنی تھی ۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن کلائنٹ کی جانب سے خلیقی کام کو رد کئے جانے پر برداشت اور اسی کام پر نئے عزم و حوصلے سے مصروف ہوجانا یے ۔ یہ وہ خوبی ہے جو آپ کو اس شعبے میں کامیاب بناتی ہے ۔ تخلیق ، مشاہدہ ، یاداشت ، برداشت یہ سب ان شعبے کے بنیادی عناصر ہیں ۔ آئیے ! ایڈورٹائزنگ آپ کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہے۔
سوال 18 _ اس ادارے سے وابستہ اس طویل عرصے میں کن لوگوں سے متعارف ہوئے اور اب تک کن معروف ہستیوں کے رابطے میں ہیں ؟
جواب _انگریزی میں کہا جاتا ہے Colleagues are never freinds. واقعتا ایڈورٹائزنگ میں بھی ایسا ہے ۔ جب تک جس جگہ ملازمت میں رہے ، تعلق برقرار رہا ۔اس کے بعد کبھی کبھی کہیں مل لیئے تو مل لیئے ۔ کچھ لوگ پیشہ وارانہ زندگی میں ایسے بھی رہے کہ جن سے تعلق ہمیشہ برقرار رہا ۔ اس کی بنیادی وجہ تو بچپن میں والد کا یہ بتانا تھا کہ پڑھے لکھے اور ذھین لوگ ہی دولت مند اور خوبصورت ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی طرف میں خود کھنچا چلا جاتا ہوں ۔
یہ میری خوش نصیبی رہی کہ شعبہ تخلیق میں جتنے بھی میرے گروپ ہیڈز آئے ، انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی ، سکھایا ۔ پھر میں نے بھی یہی کیا ، نئے آنے والوں کو سکھایا ، سراہا ۔ کبھی ان کے کام کو اپنے نام سے پیش نہیں کیا ۔ یہ بنیادی طور پر اپنے اوپر اعتماد کی بہترین مثال ہے جو ایڈورٹائزنگ میں ، میں نے اپنے بڑوں سے سیکھی ۔ کچھ کریٹیو گروپ ہیڈز نے میرے لکھے پر تصحیح کی اور رہنمائی فرمائی ۔ ان میں فاروق پراچہ مرحوم ، اعظم شیخ ، مجاہدہ حسن منٹو ، فریڈرک بی۔ نزرتھ ، قیصر عالم اور شعیب میر مرحوم شامل ہیں ۔
عمومی طور ہر شخصیت جانچنے کا جہاں تک معاملہ ہے تو میں اتنا جانتا ہوں کہ اگر آپ سچے اور کھرے آدمی ہیں تو دو نمبر آدمی آپ کے پاس بھی نہیں بھٹکے گا ۔ ویسے میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاوں ۔ دوست احباب کا یہی کہنا ہے کہ تمھارا چہرہ تمھارے نام اظہر کا غماز ہے ۔ لوگ تم سے خود سنبھل کر ملتے ہیں اس لئے ایسا ویسا تم سے رسم و راہ رکھتا ہی نہیں ۔
سوال19 _آپ نے اپنے مضامین یا تحریروں کو کتابی شکل میں شائع کروایا یا ایسے ہی مطمئن ہیں ؟
جواب _ابھی انہیں کوئی کتابی شکل نہیں دی ہے ۔ کچھ پبلشرز سے بات ہوئی ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ آپ پیسے دیں اور اپنی کتاب چھپوا لیں ۔ میں نے کیونکہ زندگی بھر لکھنے سے اپنا رزق کمایا ہے ۔ اس لئے اہنے پلے سے رقم لگا کر کتاب چھاپنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ اگر کبھی شہرت اس مقام پر پہنچی کہ بغیر رقم لگائے کتاب چھپی تو سو بسم اللہ ۔
" آخر میں پڑھنے والوں کو کیا پیغام دیں گے _
پیغام یہی ہے کہ
" وقت ہی سب سے بڑا استاد یے ۔ اس کی قدر کیجئے"
اظہر عزمی صاحب الیکٹرانک میڈیا کا ایک معروف نام ہیں انہوں نے قیمتی وقت مرحمت فرمایا اور ہمیں عزت بخشی ۔ ان کے قیمتی کلمات کی اور سیر حاصل گفتگو کے لیئے عالمی اخبار کی جانب سے تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔ مستقبل میں مزید کامیابیوں کے لئے
نیک خواہشات
قبول کیجئے ۔
@Azhar Hussain Azmi

Shadi kar lejo oar sabzi gosht na lae oo.Article 77

 

شادی کر لیجو مگر سبزی گوشت نہ لائیو
دادا کی پوتے کو نصحیت مگر ہوا وہی !


تحریر : اظہر عزمی




"ایک بات بتائیں یہ آپ کے سارے بھائی اتنے چالاک اور ذھین ہیں ۔ آپ اتنے بے وقوف کیوں ہیں " ۔ یہ وہ جملہ بلکہ حملہ ہے جو بیوی کبھی نہ کبھی براہ راست شوہر کے دل و دماغ پر کرتی ہے ۔ ایک نکتے کے فرق سے بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے اور مجھے اسٹوڈنٹ لائف میں بسوں میں لکھا یہ شعر یاد آنے لگتا ہے ۔

ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کردیا
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
میں انسانی ذھانت کو چار خانوں میں تقسیم کرتا ہوں ۔ پیشہ ورانہ ذھانت ، دفتری ذھانت ( اس کا پیشہ ورانہ ذھانت سے دور پڑے کا واسطہ نہیں ) ، معاشرتی ذھانت ( معاشرے میں لوگوں سے ملنا ملانا ) اور گھریلو ذھانت ۔ میں نے بڑے سے بڑے ذھین مرد کو گھریلو ذھانت میں بدھو پایا ہے ۔
ہمارے ایک آفس کولیگ ہیں ۔ پیشہ ورانہ ذھانت ان پر ختم ہے لیکن گھر جا کر وہ ختم ہیں ۔ بیوی ان کی شاید انٹر پاس ہیں لیکن صاحب کے گھر میں انٹر ہوتے ہی صاحب کی ہر ڈگری فیل ہے ۔ آفس میں سب ان کی بات بڑے غور سے سنی جاتی ہے لیکن گھر میں وہ صرف سنتے ہیں ۔ اگر کبھی بولنے کی کوشش کریں تو ایک ہی جواب آتا ہے : آپ تو بس چپ ہی رہیں ۔ یہ سب باتیں مجھے کبھی پتہ نہ چلتیں اگر ایک دن ان کے گھر نہ چلا جاتا ۔ ابھی ان کے گھر جاکر بیٹھا ہی تھا کہ صاحب کی بیوی کی آواز آئی : سنیں ! مارکیٹ سے سبزی گوشت ہی لے آئیں ورنہ رات کے لئے پکنے کو کچھ نہیں ۔

صاحب اور میں پہلے سبزی والے کی دکان پر گئے ۔ پہلے صاحب نے ایک کلو آلو کا کہا اور ایک ایک آلو چیک کر کے ترازو میں ڈالتے گئے ۔ ایک ایک ٹماٹر کو اس طرح دبا کر دیکھا جیسے تھائی لینڈ کا مساج کر رہے ہوں ۔ پیاز کو دیکھا تو سبزی والے سے جل کر بولے : یہ تم پھر دو منہ کی پیاز اٹھا لائے ۔ سبزی والا نے کہا : سارا زور دو منہ کی پیاز پر چلتا ہے صاحب ۔ جس کو دیکھو دو چہرے لئے پھر رہا ہے ۔ ان سے کچھ نہیں کہتے ۔ لہسن ، ادرک ، ہری مرچ پر یہی چھان پھٹک رہی لیکن سب سے زیادہ دھیان ہرے دھنیے کی گڈی پر رہا ۔ اس طرح چیک کی جیسے 22 قیراط کی سونے کی چین خرید رہے ہوں ۔ میں واقعی بڑا حیران تھا کہ صاحب سبزیاں خریدنے میں جتنی عرق ریزی کرتے ہیں اتنا تو کسان انہیں اگانے میں نہ کرتا ہوگا ۔ میں نے ان کے اس سبزیانہ عشق کو عقل پر پرکھنے کی بڑی کوشش کی مگر کدو بھی نہ سمجھ پایا ۔

گوشت کی دکان پر پہنچے تو گائے کی ننگی ٹانگ پر بے دریغانہ ہاتھ رکھ دیا ۔ میری طرف دیکھ کر بولے : اگر گوشت پر ہاتھ لگانے پر اس میں چپک نہ ہو تو سمجھ لو گوشت پریشر کا ہے ۔ ایک کلو لیا تو تین پاو ہی پاو ہوگا ۔ مرغی لی تو ارشاد فرمایا کہ دو کلو سے زیادہ مرغی کٹوائی تو پھر گوشت میں کوئی ذائقہ نہیں ہوگا ۔ سمجھو ربڑ کھا رہے ہو ۔ صاحب مجھے متاثر کئے جارہے تھے ۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ پہلا شخص جو دفتر اور گھر دونوں جگہ کام کا ہے ۔
راستے میں ، میں نے صاحب سے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ سبزی خریدنے میں ایک ایک دانے پر اتنی گہری نظر ۔ آپ تو بڑے دانا شخص ہیں ۔ مسکرائے اور بولے : سبزی گوشت خریدنے میں ساری دانائی نکل جاتی ہے ۔ میں نے کہا : نکل جانے سے کیا مراد ہے ۔ بولے : گھر چل کر خود دیکھ لینا ۔
گھر پہنچے صاحب مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا گئے اور خود اندر چلے گئے ۔ گو کہ اندر سے آوازیں بہت ہلکی آرہی تھیں لیکن اگر بندہ ایمانداری سے کان لگا کر سنے تو سب سمجھ میں آجاتا ہے ۔

بیوی : یہ آلو کچرے سے اٹھا لائے کیا ؟
صاحب : ارے نہیں ۔ میں نے خود ایک ایک آلو چھانٹا ہے ۔
بیوی : یہ بتائیں آج کسی جلسے میں جانے کا پروگرام یے کیا؟
صاحب : میں بھلا وہاں کیوں جانے لگا ؟
بیوی : یہ ٹماٹر تو وھیں کام آئیں گے ۔ گھر میں تو کسی کام کے نہیں
صاحب : سبزی والے نے خود بتایا ہے تازہ ہیں ۔ صبح ہی لایا یے
بیوی : اس نے کہا اور آپ نے مانا ۔ چراغ سحری ہیں سارے ٹماٹر ۔ ٹمٹما رہے ہیں ۔ ہاتھ بھی لگایا تو پچکاری مار دیں گے
مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ باری باری جو سبزی برآمد ہورہی ہے اسی طرح بھابھی کے لائیو کمنٹس آتے جا رہے ہیں ۔ آواز آئی : اب آپ پھر سنگاپورین اٹھا لائے ۔ کسی کام کی نہیں یہ ۔ میں چونک گیا ہے یہ کب اور کیسے ہوا ؟ ۔ بھابھی نے لمحہ بھر میں میرا شک ہی دور کردیا : یہ دھلی دھلائی پھولی پھولی ہلکے زردی مائل رنگ کی ادرک بے مزا ہے ۔ پاکستانی ادرک ذرا سیاہی مائل اور سوکھی سوکھی سی ہوتی ہے ۔ مجھے سمجھ میں آگیا کہ صاحب کو ادرک کا بھی زیادہ ادراک نہیں ۔
بھابھی : یہ چھیچھڑے بلی کے لئے لائے ہیں کیا ؟
صاحب : کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔ چانپ کا گوشت ہے اچار گوشت کے لئے
بھابھی : چانپ سے زیادہ کانپ کا لگ رہا یے ۔اس سے ناں ، لاچار گوشت ہی بن سکتا ہے

بھابھی کے آخری جملے نے ڈرا دیا : اب اس سے تو غسل میت ہی ہوگا ۔

میں نے سوچا کیا صاحب کافور وغیرہ بھی خرید لائے ہیں ۔ اسی شش و پنج میں تھا کہ صاحب ڈرائنگ روم میں تشریف لے آئے ۔ چہرہ عرق ندامت سے تر بتر تھا ۔ میں نے آتے ہی پوچھا : یہ غسل میت کے لئے آپ کیا لے آئے ۔ بولے : مرغی
میں نے کہا کہ یہ کون سا غسل میت ہے جو مرغی سے ہوتا ہے ۔ کچھ لمحے مجھے دیکھتے رہے ، بولے : اصل میں بیگم مرغی کے سوپ کو غسل میت کہتی ہیں ۔

میں نے سوچا کہ اب گھر کی راہ لے لی جائے ۔ میں جانے لگا تو بولے : میرے دادا نے مرتے مرتے ایک ہی بات کہی تھی ۔ میں نے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا کہ کیا ۔ کہنے لگے : کہتے تھے شادی کر لیجو پر سبزی گوشت نہ لائیو ۔ ایک ہرے دھنیے کی گڈی بڑے سے بڑے بندے کو ذلیل کرادیتی ہے ۔

Monday 8 March 2021

Social pages ko shehr ki diwarein na banaein.Article 76

 سوشل پیجز کی والز کو شہر کی دیواریں نہ بننے دیں 

تحریر : اظہر عزمی 

(میں کچھ عرصے سے مختلف سوشل پیجز پر اپنے مضامین  بھیج رہا ہوں ۔ وجہ بہت سیدھی سچی سی ہے کہ زیادہ لوگ پڑھیں اور ان کی رائے،  تبصرے اور تنقید سے تحریر میں بہتری کی صورت نکلے) ۔

میری ذہنی استعداد ، تعلیمی قابلیت اور مطالعہ اتنا نہیں کہ دقیق موضوعات ہر مضامین سپرد قلم کر سکوں ۔ اس لئے بہت عام سے موضوعات کا انتخاب کرتا ہوں ۔ کبھی کبھی وہ اتنے عام اور غیر اہم نظر آتے ہیں کہ اکثر لکھنے والے یہ سوچ کر کہ یہ بھی کوئی موضوع ہے قلم ہی نہیں اٹھاتے ۔ یہ گر میں نے ایڈورٹائزنگ سے سیکھا کہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھو بقول میر تقی میر " پر مجھے گفتگو عوام سے ہے " ۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف موضوعات پر ان گنت تراجم کئے ہیں لیکن اس طرف میرا دل لگا نہیں ورنہ ایک دقیق اور اختلافی موضوع پر دو چار مضامین کے تراجم سے ایک مضمون تیار کرنا آسان ترین اور بارعب کام ہے ۔ نیٹ پر سب دستاب ہے لیکن رونا آج بھی سارا Content کا ہی ہے جو کہ کمیاب ہے ۔ 

میں نے کتابوں سے زیادہ زندگی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے ۔ بہت قریب سے زندگی  کے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں ۔ لوگوں کے رویوں میں اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کیا ہے ۔ دنیاداری میں لتھڑے یوئے لوگ دیکھے ہیں ۔ عبادت گزاروں کو مشغول دعا پایا ہے ۔ دولت کے غرور کی پگڑیاں پہنے اکڑی گردنوں والے سر دیکھے ہیں ۔ غربت کا ان دیکھا تاج پہنے خود داروں سے ملا ہوں ۔ حقوق العباد سے دلوں کو آباد رکھنے والے لوگوں کو  قریب سے دیکھا اور جانا ہے ۔ 

میری تمام تحریریں انتہائی سادہ اور آسان ہوتی ہیں ۔ یاد رفتگاں ایک ایسا موضوع ہے جس میں ہر ایک کہیں نہ کہیں خود کو موجود پاتا ہے ۔ میں گفتگو کے انداز میں لکھتا ہوں  کبھی کوئی گنجلک جملہ کسی بڑے فلسفی یا دانشور کا حوالہ نہیں دیتا ۔ جو دیکھا ( اور پرکھا ) بس اسی کو تحریر کر دیتا ہوں ۔ خاکہ نگاری سے ایک خاص شغف ہے ۔ اس کے لئے ان بڑے لوگوں کا انتخاب کرتا ہوں جو مشہور نہیں ۔ میں جانتا ہوں آج کا پڑھنے والے کسی ذہنی مشقت کے لئے تیار نہیں ۔ نصیحت میاں اسے پسند نہیں ۔ تحریر کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ پہلے سمجھیں پھر سمجھائیں ۔ خود سمجھنے سے پہلے پڑھنے والے کو سمجھائیں گے تو وہ سمجھ جائے گا ۔

آج کل سوشل میڈیا ہر آن لائن لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی بات ذرا سی دیر میں ہر جگہ پہنچ جاتی ہے ۔ جس طرح تھیٹر کو اداکار فوری رسپونس کا ذریعہ کہتے ہیں اسی طرح یہ سوشل میڈیا لکھاریوں نے کے لئے ہے ۔ ممکن ہے ابھی بڑے لکھنے والے اس طرف توجہ نہ دے رہے ہوں لیکن مستقبل میں سب کو اس پر اپنی تخلیقات آپ کوڈ کرنا ہوں گی ۔ 

میں نے 2-2001 میں یہی غلطی کی تھی ۔ ٹی وی چینلز آئے تو مجھے ایک دو بار ٹی وی چینل پر بلایا گیا ( ایک بار تو فائنل کر کے بھی نہ بلایا ) لیکن میں نے یہ جان کر کہ ایڈورٹائزنگ کی دنیا کا ان سے کیا مقابلہ ، موقع گنوادیا  لیکن اب مجھے اندازہ ہے کہ لکھنے والوں کو اسی جانب آنا ہوگا ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ابھی یہ ابتدائی دور ہے ۔ کچھ مسائل ہیں ۔ کبھی کبھی لکھنے والوں کو بے جا اور بے مقصد تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ۔ جی جلتا ہے لیکن بہت جلد اس کی بھی از خود حد بندی ہو جائے گی ۔ سوشل میڈیا ابھی ایک بھیڑ چال کا شکار ہے کسی کو خبر نہیں کہاں جانا ہے ؟ کیا پڑھنا ہے ؟ تبصرے ،تنقید اور رائے کا اظہار کیسے کرنا ہے ؟ راستہ یہیں سے نکلے گا ۔ میں کتاب اور رسائل کا انکاری نہیں مگر سوشل میڈیا کی اہمیت کا ہوری طرح اقراری ہوں ۔ 

لکھنے والوں میں بھی اچھے برے کی تمیز وقت کے ساتھ ساتھ ہوگی ۔ اچھا لکھا سب کو ہر دور میں اچھا  لگتا ہے ۔ اچھی تخلیق کو کسی سیلز مین شپ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد لکھاریوں پر بندر کے ہاتھ میں ناریل کی مثال صادق آتی ہے ۔ یہ لوگ شہرت طلبی کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ مواد ان کے پاس نام کو نہیں ۔ میرا اپنا تجربہ یہی رہا ہے کہ اگر آپ کی تحریر کو 100 لوگ پسند کر رہے ہیں تو بمشکل تمام 5 ہی لائک پر کلک کریں گے اور ان میں چار یا پورے پانچ وہ ہوں گے جو آپ کے جاننے والے ہوں گے ۔ آپ کی وال پر یہی صورت حال ہوتی ہے ۔ آپ اگر سوشل پیجز پر اپنی کوئی تحریر دیتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ جس مضمون کو پڑھنے کا دورانیہ 3 سے 4 منٹ ہے اس پر پہلے منٹ پر لائکس آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ یہ پڑھنے والوں کی کون سی قسم ہے اور ایسا کیوں کرتی ہے ۔ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ کمنٹس کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کبھی صورتحال بہت خوش کن اور کبھی ناگوار ہو جاتی ہے اور یہی لکھنے والے کا امتحان ہوتا ہے ۔ میرا تجربہ ہے کہ بے مقصد تنقید کرنے والے بہت جلد اپنی راہ لیتے ہیں ۔

سب سے دلچسپ اور خوشگوار صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب کوئی راہ چلتا آپ کا جاننے والے کچھ فاصلے سے ہاتھ ہلا کر کہتا ہے " فکر نہ کریں ۔ ایک ایک مضمون پڑھ رہا ہوں آپ کا ۔۔۔ زبردست " ۔ 

میرا خیال ہے اگر سوشل میڈیا پر اچھے لکھنے والے سامنے نہیں آئیں گے تو پھر سوشل میڈیا کی والز شہر کی ان دیواروں کی طرح ہوں گی جو عامیانہ اشتہاروں سے بھری ہوتی ہیں جن میں عامل باباوں اور دیرینہ امراض کے معالج  حکیموں کی بہتات ہوتی ہے ۔

Aaj kay dour mein do bachaey aur chohttay rishtay.Article 75

 آج کے دور میں دو بچے 
رشتوں سے چھوٹتے جا رہے ہیں 

تحریر : اظہر عزمی 

سالوں پہلے کی بات ہے ۔ آفس میں کم بچے ، خوشحال گھرانا کی بحٹ شروع ہوگئی ۔ مخالفت و موافقت میں دلائل آنے لگے ۔ ایک نوجوان جو دو بچوں کے حق میں زور شور سے دلائل دے رہا تھا ، مخالفین کو کافی زچ کر رہا تھا ۔ مخالفین میں سے ایک نے اس سے پوچھا : تمھارا نمبر کون سا یے ؟ ۔ اس نے کہا : تیسرا ۔ مخالف نے برجستہ کہا : پھر آپ تو چپ ہی ہوجائیں ۔ بحث تو خیر تمام یو گئی لیکن میں نے اپنے خاندان میں ارد گرد دیکھا تو اندازہ ہوا کہ بچے دو ہی اچھے کا سلوگن کام کر رہا یے ۔

گزشتہ دنوں ایک صاحب سے خاندان اور رشتوں کی بات چلی تو انہوں نے ایک عجیب بات کردی جس ہر میرا ذہن کبھی گیا ہی نہیں تھا ۔ کہنے لگے : خاندان رشتوں سے استوار یوتے ہیں ۔ آپ کی زندگی ماں باپ کے ساتھ بہن ، بھائی ، چاچا ، پھوپھی،  ماموں اور خالہ کے قریبی رشتوں کی سے سجی ہوتی یے ۔ یہ گلدستہ نامکمل یو تو زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔ کہنے لگے : دو بچوں سے یہ گلدستہ کہیں کہیں نامکمل سا رہ جاتا ہے ۔ میرے دو لڑکے ہیں ۔ ان کی کوئی بہن نہیں ۔ اب یہ کیا جانیں ۔ بہن کا پیار ۔  میرے گھر کا سارا ماحول مردانہ یے ۔ بیوی نے شروع شروع میں تو چوڑیاں ، میک آپ کا سامان رکھا لیکن جیسے جیسے بچے بڑے ہوئے ۔ انہوں نے ماں سے سب چھڑوا دیا اور بیوی نے بھی بچوں کی خوشی کو اپنا جانا ۔ بڑے بیٹے کا حال یہ ہے کہ ماں ہاتھوں میں مہندی لگا لے تو کہتا ہے مجھے مہندی سے گھن آتی ہے ۔

مزید بتانے لگے : بیوی کے ہاتھ میں ایک چوڑی نہیں ہوتی ۔ عید ہر میرے کہنے پر ایک آدھ درجن چوڑی لے آتی ہے ۔ گھر میں بمشکل تمام ایک لپ اسٹک  ہوتی ہے ۔ تہوار یا شادی ہر کہیں آنا جانا ہو تو وہی ایک لپ اسٹک لگا لیتی ہے ۔ لپ اسٹک اتنی کم استعمال ہوتی ہے کہ سوکھ جاتی ہے پھر وہ سوئی سے لپ اسٹک نکال کر بمشکل تمام لگاتی  ہے ۔ اس پر چھوٹا بیٹا کہتا ہے : آپ یہ سب کیوں کرتی ہیں ۔ آپ تو بس میری مماں ہیں اور یہ کہہ کر ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیتا ہے ۔

میں نے کہا : اس میں ایسی کون سے بات ہے ۔ بہن نہ سہی تو نہ سہی ۔ گھر میں خوشی اور اطمینان تو ہے ۔ بولے : جن گھروں میں بہنیں نہیں ہوتیں وہاں سناٹا ہوتا ہے ۔ ہمارے گھر میں کیا ہے ؟ لڑکے اکثر گھر میں نہیں ہوتے ۔ ہوتے ہیں تو موبائل پر ہوتے ہیں ۔ گھر میں زندگی تو بیٹی سے ہوتی ہے ۔ لڑکوں کا کیا ہے آپ گھر میں کچھ لائیں یا نہ لائیں ، ان کو پروا ہی نہیں ۔ جیسے زندگی گزر رہی ہے ، گزر رہی ہے ۔ بس کھانے میں ایک سے ایک دیئے جاو ۔

 بیٹی ہو تو گھر کے لئے کچھ نہ کچھ لانے کا کہتی رہتی ہے ۔ کچھ نہ ہو تو گھر کی سیٹنگ ہی ادھر ادھر کرتی رہتی ہے ۔  صفائی ستھرائی کا خیال رکھتی ہے ۔ گھر گھر لگتا ہے ۔ ہمارے پڑوس کے گھر میں تین بیٹیاں ہیں ۔ جاو تو طبیعت خوش ہو جاتی ہے ۔ اگر گھر میں بہن ہوتی تو ان دونوں کی ایک نہ چلنے دیتی اور یہ دونوں اجڈ گنوار بھی ذرا انسان بن جاتے ۔ آپ کو اندازہ نہیں آج کل لڑکے پلانا گھوڑے پالنے جیسا ہے ۔ باگیں بظاہر ضرور آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں یا آپ یہ سمجھتے ہیں لیکن آپ کو اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ذہن میں کیا چل رہا یے ۔

 مجھے لگا کہ انہیں بیٹی کی کمی کا شدت سے احساس ہے مگر اب کچھ ہونے کی گنجائش نہ تھی ۔ کہنے لگے : تم نے کبھی غور کیا ہے ان دونوں کی کوئی بہن نہیں ہے تو پھر ان کو بھانجے کا پتہ ہو گا نہ بھانجی اور نہ ہی یہ کسی کے ماموں ہوں گے ۔ جب ان دو لڑکوں  کے بچے ہوں گے تو انہیں کیا معلوم کہ پھوپھی جیسا محبت کرنے والا رشتہ کیا ہوتا ۔ زندگی تو رشتوں سے سجی یے اور ان کی خوشبو سے مہک رہی ہے ۔ یہ زندگی میں کتنے اہم  رشتوں سے واقف ہی نہ ہوں گے ۔

میں نے کہا کہ جن کے دونوں لڑکیاں ہوں گی تو پھر وہ چچاوں کو ، چچازاد بہن بھائیوں کو کیا جانیں گی ۔ بولے : ہاں ایسا یی یے ۔ مسائل ان کے بھی کم و بیش ایسے ہی ہوں گے ۔ میرے کاندھے ہر ہاتھ رکھ کر بولے : بھائی میں تو بس ایک بات جانتا ہوں ۔ بچے  بہت نہ سہی مگر اتنے تو ہوں کہ قریبی رشتوں کو پہچانیں ۔ بچے دو ہی اچھے سے سب کچھ اچھا نہیں ہورہا ۔ ہم قریبی رشتوں سے چھوٹتے جارہے ہیں ۔ 

یہ کہہ کر وہ تو چلے گئے اور میرا ذہن اس طرف چل پڑا اور سوچنے لگا کہ دو سے زیادہ بچوں کے لئے بڑی تاویلیں دی جاتی ہیں ۔ اشتہاروں میں میاں بیوی اور ایک لڑکا لڑکی دکھائے جاتے ہیں ( مگر ایک لڑکے اور ایک لڑکی کا ہونا یقینی تو نہیں ) ۔ بچوں کی پرورش ، تعلیم ، وسائل کی کمی نہ جانے کون کون سے نکتے نکال لئے جاتے ہیں مگر جن کی زندگی کے لئے ہم یہ سب کرتے ہیں انہیں زندگی میں کچھ رشتوں سے یکسر محروم بھی تو کر رہے ہیں ۔

Maan baap bhi kitnay dilshasp hotay hain.Article 74

 ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں 

بات بات ہر تکرار مگر اسی میں سارا پیار

تحریر : اظہر عزمی 

والدین اولاد کے لئے ہوتے ہیں لیکن خود تو میاں بیوی ہوتے ہیں ۔ دنیا کا پہلا رشتہ جس کے بعد ہر رشتہ بنا ۔ جب اولاد جوان ہوجائے اور یہ ادھیڑ عمر یا بڑھاپے میں قدم رکھنے لگیں تو دیکھیں یہ بات بہ بات گزرے دنوں میں کیسے چپکے سے داخل ہو کر نہ جانے یادوں کی کس کس پگڈنڈی پر محو سفر ہوجاتے ہیں ۔ کہیں خوشیوں کی برکھارت تو کہیں چھوٹے موٹے اختلافات کی محبت آمیز دھوپ  ، کہیں بچوں کی پیدائش کے حسین لمحات یا پھر اپنا گھر بنانے کی مشکلات ۔ کسی نہ کسی بہانے نوک جھونک شروع کر دیتے ہیں اور اسی میں چہکار ، مہکار  ، انکار ، اقرار سب ہوتا ہے ۔ بہت معصوم لگتے ہیں چھوٹے بچوں کی طرح  ۔ جانتے یہ بھی ہیں جتنی بھی تکرار کر لیں جو گزر گیا سو گزر گیا 

اولاد ان کی باتیں سنکر اکثر بور یو جاتی یے لیکن وہ نہیں جانتی کہ یہی قصے اور باتیں ہی تو ان کی زندگی کا حسین ترین  سرمایہ ہیں ۔ کسی گزرے قصے پر آپ کو لگے گا کہ شاید صورت حال کشیدگی کی طرف بڑھ جائے گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں تھکتے نہیں ۔ بچے اگر بیچ میں صلح صفائی کے لئے بول پڑیں تو یہ بھی انہیں قبول نہیں کیونکہ گفتگو کا مزا جاتا رہتا ہے بلکہ الٹا ڈانٹ دیتے ہیں ۔ میاں آپ کون ہوتے ہیں ہمارے بیچ بولنے والے ۔ بہتر یہی ہوتا ہے جب یہ دونوں ماضی کے قصے  لے کر بیٹھ جائیں تو آپ وہاں سے اٹھ ہی جائیں 

رات کو نماز عشاء کے بعد ابو ڈائننگ ٹیبل ہر اکیلے کھانا کھا رہے ہیں ۔ امی ساتھ والی کرسی ہر بیٹھی ہیں ۔ کچھ بھی ہوجائے ابو جب تک کھانا نہ کھا لیں ۔ امی نہیں اٹھیں گی ۔ رات کے کھانے پر روز نہیں تو ہر تیسرے چوتھے روز کوئی نہ کوئی ایسی بات نکل آتی ہے جو یاد رفتگاں کی کسی پگڈنڈی پر لے جاتی ہے 

ابو :  ( پہلا نوالہ لیتے ہی ) اتنا عرصہ ہو گیا تمھیں کھانا پکانا نہ آیا ۔ بس کھانا تو ہماری اماں پکایا کرتی تھیں ۔ ایک سے دو روٹی زیادہ ہی کھا لیا کرتا تھا 

امی : تب ہی تو شادی پر اتنے موٹے تھے ۔ شیروانی کے بٹن ٹوٹے جا رہے تھے ۔  ویسے برا مت منائیے گا بالکل بابا ( سسر ) کی طرح بات کرنے لگے ہیں ۔ کچھ بھی پکا لو فی نکالے بنا تو آپ کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا 

ابو : فی نکالنے کی کیا بات ہے ۔ تم خود چکھ لو 

امی : (چڑ کر ) مجھے کوئی ضرورت نہیں چکھنے وکھنے کی 

ابو : 30 سال ہونے کو آئے مگر تمھاری تنک کر بات کرنے کی عادت گئی نہیں 

امی ؛ تو آپ کون سا لفظوں میں شہد گھولنے لگے ہیں 

ابو : ہاں تو یہ بات تو شادی سے پہلے دیکھنی تھی ناں 

امی : (ہلکا سا پلو سر پر لیتے ہوئے ) اللہ نہ کرے جو میں شادی سے پہلے آپ سے بات کرتی 

ابو : ہاں تو 2 سال منگنی رہی ۔ تمھاری اماں اور بہنا تو ہر  ہفتے آ ٹپکتی تھیں ۔ آنہوں نے نہیں بتایا 

امی  : کوئی نہیں ۔ ایسے گرے پڑے بھی نہیں تھے ۔ کوئی مرے نہیں جا رہے تھے ۔ دو رشتے اس وقت بھی آئے ہوئے تھے میرے ۔ آپ کی امی ہی پہلی دفعہ آئیں تھیں کالی چادر اوڑھے ہمارے ہاں 

ابو : ہاں تو پھر سب سے اچھے تو ہم تھے ناں 

امی  : بس ٹھیک ہی تھے ۔ اب ایسے کوئی کوہ  قاف کے شہزادے بھی نہ تھے  

ابو : تو شہزادی تو تم بھی نہ تھیں 

امی : میں نے ایسا کب کہا ۔ بیکار کی باتیں مت کریں ۔ لڑنے کا ویسے ہی دل چاہ رہا ہے تو بتادیں

ابو : لڑنے والے ہوتے تھے تو تمھارے ساتھ 30 سال نہ گزار لیتے خاموشی سے 

امی : خوف خدا کریں ۔ خاموش رہنے والے ایسے ہوتے ہیں 

ابو : ہماری اماں تو یہی کہتے کہتے دنیا سے گزر گئیں بارات والے دن جو ارشد نے رومال منہ ہر رکھا پھر بولتے ہوئے نہ دیکھا  

امی : بس میرا منہ نہ کھلوائیں ۔ میرے سامنے تو کبھی نہ کہا

ابو : ابھی ذرا کھانا کھا لوں پھر تمھیں بارات والی تصویر دکھاتا ہوں رومال والی 

امی : اپنی عمر دیکھیں اور شادی کی تصویریں ۔۔۔ اونہہ 

ابو : شادی تھوڑی کر رہے ہیں ۔ شادی کی تصویریں ہی تو دیکھ رہے ہیں ۔ بچے بھی دیکھ لیں گے کہ باپ کتنا اسمارٹ تھا 

امی : کئی بار دیکھ چکے ہیں وہ اور معاف کیجئے گا آپ کے لئے تو بچوں نے کبھی تعریف کا ایک لفظ بھی نہیں کہا   

ابو : ارے وہ تمھارے لحاظ میں خاموش رہتے ہیں ۔ یاد نہیں مسعود بچپن میں مجھ سے کیا کہا کرتا تھا " ابو آپ نے امی سے ہی شادی کیوں کر لی ؟

امی : ہاں تو آپ نے تو بچوں کو کبھی ہاتھ لگایا نہیں ۔ جو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرے گا بچے تو اسی کے گن گائیں گے 

ابو : گن تو ایک زمانے میں سب ہی گایا کرتے تھے ۔ پرانے محلے کی برابر والی تو اپنی بھانجی کا کہتی رہ گئیں میرے لئے مگر ہماری اماں نہ مانیں ورنہ تم نہ ہوتیں ۔ 

امی :  تو کس نے روکا تھا کر لیتے 

ابو : (چھیڑتے ہوئے) کیسے کر لیتے ؟ غریبوں کی دعائیں بھی تو لینی تھیں 

امی : اوہو ! ذرا امیروں کو تو دیکھیں ۔ یہ بتائیں یہ آپ کی چچی نے تو ہمارا رشتہ توڑنے کی ہر ترکیب آزما لی تھی ۔ وہ تو ہماری اماں نے کہا  جب ہاں کہہ دی تو کہہ دی ۔ اب آگے لڑکی کا نصیب ۔

ابو : منع ہی کردیتیں تو اچھا تھا ۔ کم ازکم یہ سیٹھا سیٹھا بد مزا  کھانا تو نہ ملتا 

امی : اتنی عمر ہو گئی ہے چھوڑ دیں یہ شکرا پن ۔ کل کلاں کو بہو ، داماد آئیں گے تو کیا ان کے سامنے بھی یہ دکھڑا روئیں گے ؟ اور ایک بات بتائیں دنیا جہان کی باتیں کر لیں گے مگر تان کھانے ہر ہی آکر ٹوٹتی ہے  

ابو : ( پلیٹ کا سالن ختم ہوچکا ۔ پلیٹ آگے بڑھاتے ہوئے) 

تھوڑا سالن ذرا اور لا دو ۔

امی : ( ہنستے ہوئے ) اچھا سیٹھے سالن پر یہ حال ہے

ابو  : سنو تھوڑا  نمک بھی ڈالتی لانا 

امی : کوئی نہیں ۔ پھر رات بھر وہم کرتے پھریں گے کہ بلڈ پریشر ہو گیا ۔ بچوں کو سوتے سے جاگنا مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا 

ابو : (پیار سے دوبارہ نمک ہر اصرار کرتے ہیں ) 

بس  ۔۔ بہت تھوڑا سا

امی : کوئی نہیں ، ایک ذرہ بھی نہیں ۔۔۔ دوا کھائیں گے نہیں ۔ نمک بھر بھر کر دیئے جاو ۔ اسی لئے تو کھانے پر ساتھ بیٹھتی ہوں اور اتنا سنتی ہوں 

انہیں ان کی یادوں میں جینے دیں ۔ گزرے دن ہی تو ان کا سرمایہ ہیں ۔ اب یہ دن لوٹ کر نہ آئیں گے لیکن ان کو یاد کر  خوشی سے سرشار تو ہوا جا سکتا ہے 

ماں باپ کی یہ باتیں شاید ابھی اچھی نہ لگیں لیکن بعد میں بہت یاد آئیں گی جب آپ ان کی عمروں کو پہنچ جائیں گے ۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...