Thursday, 11 March 2021
Qalam kar Azhar Azmi se ek interview .
Shadi kar lejo oar sabzi gosht na lae oo.Article 77
شادی کر لیجو مگر سبزی گوشت نہ لائیو
دادا کی پوتے کو نصحیت مگر ہوا وہی !
Monday, 8 March 2021
Social pages ko shehr ki diwarein na banaein.Article 76
سوشل پیجز کی والز کو شہر کی دیواریں نہ بننے دیں
تحریر : اظہر عزمی
(میں کچھ عرصے سے مختلف سوشل پیجز پر اپنے مضامین بھیج رہا ہوں ۔ وجہ بہت سیدھی سچی سی ہے کہ زیادہ لوگ پڑھیں اور ان کی رائے، تبصرے اور تنقید سے تحریر میں بہتری کی صورت نکلے) ۔
میری ذہنی استعداد ، تعلیمی قابلیت اور مطالعہ اتنا نہیں کہ دقیق موضوعات ہر مضامین سپرد قلم کر سکوں ۔ اس لئے بہت عام سے موضوعات کا انتخاب کرتا ہوں ۔ کبھی کبھی وہ اتنے عام اور غیر اہم نظر آتے ہیں کہ اکثر لکھنے والے یہ سوچ کر کہ یہ بھی کوئی موضوع ہے قلم ہی نہیں اٹھاتے ۔ یہ گر میں نے ایڈورٹائزنگ سے سیکھا کہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھو بقول میر تقی میر " پر مجھے گفتگو عوام سے ہے " ۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف موضوعات پر ان گنت تراجم کئے ہیں لیکن اس طرف میرا دل لگا نہیں ورنہ ایک دقیق اور اختلافی موضوع پر دو چار مضامین کے تراجم سے ایک مضمون تیار کرنا آسان ترین اور بارعب کام ہے ۔ نیٹ پر سب دستاب ہے لیکن رونا آج بھی سارا Content کا ہی ہے جو کہ کمیاب ہے ۔
میں نے کتابوں سے زیادہ زندگی کو پڑھنے کی کوشش کی ہے ۔ بہت قریب سے زندگی کے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں ۔ لوگوں کے رویوں میں اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کیا ہے ۔ دنیاداری میں لتھڑے یوئے لوگ دیکھے ہیں ۔ عبادت گزاروں کو مشغول دعا پایا ہے ۔ دولت کے غرور کی پگڑیاں پہنے اکڑی گردنوں والے سر دیکھے ہیں ۔ غربت کا ان دیکھا تاج پہنے خود داروں سے ملا ہوں ۔ حقوق العباد سے دلوں کو آباد رکھنے والے لوگوں کو قریب سے دیکھا اور جانا ہے ۔
میری تمام تحریریں انتہائی سادہ اور آسان ہوتی ہیں ۔ یاد رفتگاں ایک ایسا موضوع ہے جس میں ہر ایک کہیں نہ کہیں خود کو موجود پاتا ہے ۔ میں گفتگو کے انداز میں لکھتا ہوں کبھی کوئی گنجلک جملہ کسی بڑے فلسفی یا دانشور کا حوالہ نہیں دیتا ۔ جو دیکھا ( اور پرکھا ) بس اسی کو تحریر کر دیتا ہوں ۔ خاکہ نگاری سے ایک خاص شغف ہے ۔ اس کے لئے ان بڑے لوگوں کا انتخاب کرتا ہوں جو مشہور نہیں ۔ میں جانتا ہوں آج کا پڑھنے والے کسی ذہنی مشقت کے لئے تیار نہیں ۔ نصیحت میاں اسے پسند نہیں ۔ تحریر کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ پہلے سمجھیں پھر سمجھائیں ۔ خود سمجھنے سے پہلے پڑھنے والے کو سمجھائیں گے تو وہ سمجھ جائے گا ۔
آج کل سوشل میڈیا ہر آن لائن لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی بات ذرا سی دیر میں ہر جگہ پہنچ جاتی ہے ۔ جس طرح تھیٹر کو اداکار فوری رسپونس کا ذریعہ کہتے ہیں اسی طرح یہ سوشل میڈیا لکھاریوں نے کے لئے ہے ۔ ممکن ہے ابھی بڑے لکھنے والے اس طرف توجہ نہ دے رہے ہوں لیکن مستقبل میں سب کو اس پر اپنی تخلیقات آپ کوڈ کرنا ہوں گی ۔
میں نے 2-2001 میں یہی غلطی کی تھی ۔ ٹی وی چینلز آئے تو مجھے ایک دو بار ٹی وی چینل پر بلایا گیا ( ایک بار تو فائنل کر کے بھی نہ بلایا ) لیکن میں نے یہ جان کر کہ ایڈورٹائزنگ کی دنیا کا ان سے کیا مقابلہ ، موقع گنوادیا لیکن اب مجھے اندازہ ہے کہ لکھنے والوں کو اسی جانب آنا ہوگا ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ابھی یہ ابتدائی دور ہے ۔ کچھ مسائل ہیں ۔ کبھی کبھی لکھنے والوں کو بے جا اور بے مقصد تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ۔ جی جلتا ہے لیکن بہت جلد اس کی بھی از خود حد بندی ہو جائے گی ۔ سوشل میڈیا ابھی ایک بھیڑ چال کا شکار ہے کسی کو خبر نہیں کہاں جانا ہے ؟ کیا پڑھنا ہے ؟ تبصرے ،تنقید اور رائے کا اظہار کیسے کرنا ہے ؟ راستہ یہیں سے نکلے گا ۔ میں کتاب اور رسائل کا انکاری نہیں مگر سوشل میڈیا کی اہمیت کا ہوری طرح اقراری ہوں ۔
لکھنے والوں میں بھی اچھے برے کی تمیز وقت کے ساتھ ساتھ ہوگی ۔ اچھا لکھا سب کو ہر دور میں اچھا لگتا ہے ۔ اچھی تخلیق کو کسی سیلز مین شپ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد لکھاریوں پر بندر کے ہاتھ میں ناریل کی مثال صادق آتی ہے ۔ یہ لوگ شہرت طلبی کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ مواد ان کے پاس نام کو نہیں ۔ میرا اپنا تجربہ یہی رہا ہے کہ اگر آپ کی تحریر کو 100 لوگ پسند کر رہے ہیں تو بمشکل تمام 5 ہی لائک پر کلک کریں گے اور ان میں چار یا پورے پانچ وہ ہوں گے جو آپ کے جاننے والے ہوں گے ۔ آپ کی وال پر یہی صورت حال ہوتی ہے ۔ آپ اگر سوشل پیجز پر اپنی کوئی تحریر دیتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ جس مضمون کو پڑھنے کا دورانیہ 3 سے 4 منٹ ہے اس پر پہلے منٹ پر لائکس آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ یہ پڑھنے والوں کی کون سی قسم ہے اور ایسا کیوں کرتی ہے ۔ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے ۔ کمنٹس کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں کبھی صورتحال بہت خوش کن اور کبھی ناگوار ہو جاتی ہے اور یہی لکھنے والے کا امتحان ہوتا ہے ۔ میرا تجربہ ہے کہ بے مقصد تنقید کرنے والے بہت جلد اپنی راہ لیتے ہیں ۔
سب سے دلچسپ اور خوشگوار صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب کوئی راہ چلتا آپ کا جاننے والے کچھ فاصلے سے ہاتھ ہلا کر کہتا ہے " فکر نہ کریں ۔ ایک ایک مضمون پڑھ رہا ہوں آپ کا ۔۔۔ زبردست " ۔
میرا خیال ہے اگر سوشل میڈیا پر اچھے لکھنے والے سامنے نہیں آئیں گے تو پھر سوشل میڈیا کی والز شہر کی ان دیواروں کی طرح ہوں گی جو عامیانہ اشتہاروں سے بھری ہوتی ہیں جن میں عامل باباوں اور دیرینہ امراض کے معالج حکیموں کی بہتات ہوتی ہے ۔
Aaj kay dour mein do bachaey aur chohttay rishtay.Article 75
آج کے دور میں دو بچے
رشتوں سے چھوٹتے جا رہے ہیں
تحریر : اظہر عزمی
سالوں پہلے کی بات ہے ۔ آفس میں کم بچے ، خوشحال گھرانا کی بحٹ شروع ہوگئی ۔ مخالفت و موافقت میں دلائل آنے لگے ۔ ایک نوجوان جو دو بچوں کے حق میں زور شور سے دلائل دے رہا تھا ، مخالفین کو کافی زچ کر رہا تھا ۔ مخالفین میں سے ایک نے اس سے پوچھا : تمھارا نمبر کون سا یے ؟ ۔ اس نے کہا : تیسرا ۔ مخالف نے برجستہ کہا : پھر آپ تو چپ ہی ہوجائیں ۔ بحث تو خیر تمام یو گئی لیکن میں نے اپنے خاندان میں ارد گرد دیکھا تو اندازہ ہوا کہ بچے دو ہی اچھے کا سلوگن کام کر رہا یے ۔
گزشتہ دنوں ایک صاحب سے خاندان اور رشتوں کی بات چلی تو انہوں نے ایک عجیب بات کردی جس ہر میرا ذہن کبھی گیا ہی نہیں تھا ۔ کہنے لگے : خاندان رشتوں سے استوار یوتے ہیں ۔ آپ کی زندگی ماں باپ کے ساتھ بہن ، بھائی ، چاچا ، پھوپھی، ماموں اور خالہ کے قریبی رشتوں کی سے سجی ہوتی یے ۔ یہ گلدستہ نامکمل یو تو زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں ۔ کہنے لگے : دو بچوں سے یہ گلدستہ کہیں کہیں نامکمل سا رہ جاتا ہے ۔ میرے دو لڑکے ہیں ۔ ان کی کوئی بہن نہیں ۔ اب یہ کیا جانیں ۔ بہن کا پیار ۔ میرے گھر کا سارا ماحول مردانہ یے ۔ بیوی نے شروع شروع میں تو چوڑیاں ، میک آپ کا سامان رکھا لیکن جیسے جیسے بچے بڑے ہوئے ۔ انہوں نے ماں سے سب چھڑوا دیا اور بیوی نے بھی بچوں کی خوشی کو اپنا جانا ۔ بڑے بیٹے کا حال یہ ہے کہ ماں ہاتھوں میں مہندی لگا لے تو کہتا ہے مجھے مہندی سے گھن آتی ہے ۔
مزید بتانے لگے : بیوی کے ہاتھ میں ایک چوڑی نہیں ہوتی ۔ عید ہر میرے کہنے پر ایک آدھ درجن چوڑی لے آتی ہے ۔ گھر میں بمشکل تمام ایک لپ اسٹک ہوتی ہے ۔ تہوار یا شادی ہر کہیں آنا جانا ہو تو وہی ایک لپ اسٹک لگا لیتی ہے ۔ لپ اسٹک اتنی کم استعمال ہوتی ہے کہ سوکھ جاتی ہے پھر وہ سوئی سے لپ اسٹک نکال کر بمشکل تمام لگاتی ہے ۔ اس پر چھوٹا بیٹا کہتا ہے : آپ یہ سب کیوں کرتی ہیں ۔ آپ تو بس میری مماں ہیں اور یہ کہہ کر ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیتا ہے ۔
میں نے کہا : اس میں ایسی کون سے بات ہے ۔ بہن نہ سہی تو نہ سہی ۔ گھر میں خوشی اور اطمینان تو ہے ۔ بولے : جن گھروں میں بہنیں نہیں ہوتیں وہاں سناٹا ہوتا ہے ۔ ہمارے گھر میں کیا ہے ؟ لڑکے اکثر گھر میں نہیں ہوتے ۔ ہوتے ہیں تو موبائل پر ہوتے ہیں ۔ گھر میں زندگی تو بیٹی سے ہوتی ہے ۔ لڑکوں کا کیا ہے آپ گھر میں کچھ لائیں یا نہ لائیں ، ان کو پروا ہی نہیں ۔ جیسے زندگی گزر رہی ہے ، گزر رہی ہے ۔ بس کھانے میں ایک سے ایک دیئے جاو ۔
بیٹی ہو تو گھر کے لئے کچھ نہ کچھ لانے کا کہتی رہتی ہے ۔ کچھ نہ ہو تو گھر کی سیٹنگ ہی ادھر ادھر کرتی رہتی ہے ۔ صفائی ستھرائی کا خیال رکھتی ہے ۔ گھر گھر لگتا ہے ۔ ہمارے پڑوس کے گھر میں تین بیٹیاں ہیں ۔ جاو تو طبیعت خوش ہو جاتی ہے ۔ اگر گھر میں بہن ہوتی تو ان دونوں کی ایک نہ چلنے دیتی اور یہ دونوں اجڈ گنوار بھی ذرا انسان بن جاتے ۔ آپ کو اندازہ نہیں آج کل لڑکے پلانا گھوڑے پالنے جیسا ہے ۔ باگیں بظاہر ضرور آپ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں یا آپ یہ سمجھتے ہیں لیکن آپ کو اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے ذہن میں کیا چل رہا یے ۔
مجھے لگا کہ انہیں بیٹی کی کمی کا شدت سے احساس ہے مگر اب کچھ ہونے کی گنجائش نہ تھی ۔ کہنے لگے : تم نے کبھی غور کیا ہے ان دونوں کی کوئی بہن نہیں ہے تو پھر ان کو بھانجے کا پتہ ہو گا نہ بھانجی اور نہ ہی یہ کسی کے ماموں ہوں گے ۔ جب ان دو لڑکوں کے بچے ہوں گے تو انہیں کیا معلوم کہ پھوپھی جیسا محبت کرنے والا رشتہ کیا ہوتا ۔ زندگی تو رشتوں سے سجی یے اور ان کی خوشبو سے مہک رہی ہے ۔ یہ زندگی میں کتنے اہم رشتوں سے واقف ہی نہ ہوں گے ۔
میں نے کہا کہ جن کے دونوں لڑکیاں ہوں گی تو پھر وہ چچاوں کو ، چچازاد بہن بھائیوں کو کیا جانیں گی ۔ بولے : ہاں ایسا یی یے ۔ مسائل ان کے بھی کم و بیش ایسے ہی ہوں گے ۔ میرے کاندھے ہر ہاتھ رکھ کر بولے : بھائی میں تو بس ایک بات جانتا ہوں ۔ بچے بہت نہ سہی مگر اتنے تو ہوں کہ قریبی رشتوں کو پہچانیں ۔ بچے دو ہی اچھے سے سب کچھ اچھا نہیں ہورہا ۔ ہم قریبی رشتوں سے چھوٹتے جارہے ہیں ۔
یہ کہہ کر وہ تو چلے گئے اور میرا ذہن اس طرف چل پڑا اور سوچنے لگا کہ دو سے زیادہ بچوں کے لئے بڑی تاویلیں دی جاتی ہیں ۔ اشتہاروں میں میاں بیوی اور ایک لڑکا لڑکی دکھائے جاتے ہیں ( مگر ایک لڑکے اور ایک لڑکی کا ہونا یقینی تو نہیں ) ۔ بچوں کی پرورش ، تعلیم ، وسائل کی کمی نہ جانے کون کون سے نکتے نکال لئے جاتے ہیں مگر جن کی زندگی کے لئے ہم یہ سب کرتے ہیں انہیں زندگی میں کچھ رشتوں سے یکسر محروم بھی تو کر رہے ہیں ۔
Maan baap bhi kitnay dilshasp hotay hain.Article 74
ماں باپ بھی کتنے دلچسپ ہوتے ہیں
بات بات ہر تکرار مگر اسی میں سارا پیار
تحریر : اظہر عزمی
والدین اولاد کے لئے ہوتے ہیں لیکن خود تو میاں بیوی ہوتے ہیں ۔ دنیا کا پہلا رشتہ جس کے بعد ہر رشتہ بنا ۔ جب اولاد جوان ہوجائے اور یہ ادھیڑ عمر یا بڑھاپے میں قدم رکھنے لگیں تو دیکھیں یہ بات بہ بات گزرے دنوں میں کیسے چپکے سے داخل ہو کر نہ جانے یادوں کی کس کس پگڈنڈی پر محو سفر ہوجاتے ہیں ۔ کہیں خوشیوں کی برکھارت تو کہیں چھوٹے موٹے اختلافات کی محبت آمیز دھوپ ، کہیں بچوں کی پیدائش کے حسین لمحات یا پھر اپنا گھر بنانے کی مشکلات ۔ کسی نہ کسی بہانے نوک جھونک شروع کر دیتے ہیں اور اسی میں چہکار ، مہکار ، انکار ، اقرار سب ہوتا ہے ۔ بہت معصوم لگتے ہیں چھوٹے بچوں کی طرح ۔ جانتے یہ بھی ہیں جتنی بھی تکرار کر لیں جو گزر گیا سو گزر گیا
اولاد ان کی باتیں سنکر اکثر بور یو جاتی یے لیکن وہ نہیں جانتی کہ یہی قصے اور باتیں ہی تو ان کی زندگی کا حسین ترین سرمایہ ہیں ۔ کسی گزرے قصے پر آپ کو لگے گا کہ شاید صورت حال کشیدگی کی طرف بڑھ جائے گی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں تھکتے نہیں ۔ بچے اگر بیچ میں صلح صفائی کے لئے بول پڑیں تو یہ بھی انہیں قبول نہیں کیونکہ گفتگو کا مزا جاتا رہتا ہے بلکہ الٹا ڈانٹ دیتے ہیں ۔ میاں آپ کون ہوتے ہیں ہمارے بیچ بولنے والے ۔ بہتر یہی ہوتا ہے جب یہ دونوں ماضی کے قصے لے کر بیٹھ جائیں تو آپ وہاں سے اٹھ ہی جائیں
رات کو نماز عشاء کے بعد ابو ڈائننگ ٹیبل ہر اکیلے کھانا کھا رہے ہیں ۔ امی ساتھ والی کرسی ہر بیٹھی ہیں ۔ کچھ بھی ہوجائے ابو جب تک کھانا نہ کھا لیں ۔ امی نہیں اٹھیں گی ۔ رات کے کھانے پر روز نہیں تو ہر تیسرے چوتھے روز کوئی نہ کوئی ایسی بات نکل آتی ہے جو یاد رفتگاں کی کسی پگڈنڈی پر لے جاتی ہے
ابو : ( پہلا نوالہ لیتے ہی ) اتنا عرصہ ہو گیا تمھیں کھانا پکانا نہ آیا ۔ بس کھانا تو ہماری اماں پکایا کرتی تھیں ۔ ایک سے دو روٹی زیادہ ہی کھا لیا کرتا تھا
امی : تب ہی تو شادی پر اتنے موٹے تھے ۔ شیروانی کے بٹن ٹوٹے جا رہے تھے ۔ ویسے برا مت منائیے گا بالکل بابا ( سسر ) کی طرح بات کرنے لگے ہیں ۔ کچھ بھی پکا لو فی نکالے بنا تو آپ کا کھانا ہضم ہی نہیں ہوتا
ابو : فی نکالنے کی کیا بات ہے ۔ تم خود چکھ لو
امی : (چڑ کر ) مجھے کوئی ضرورت نہیں چکھنے وکھنے کی
ابو : 30 سال ہونے کو آئے مگر تمھاری تنک کر بات کرنے کی عادت گئی نہیں
امی ؛ تو آپ کون سا لفظوں میں شہد گھولنے لگے ہیں
ابو : ہاں تو یہ بات تو شادی سے پہلے دیکھنی تھی ناں
امی : (ہلکا سا پلو سر پر لیتے ہوئے ) اللہ نہ کرے جو میں شادی سے پہلے آپ سے بات کرتی
ابو : ہاں تو 2 سال منگنی رہی ۔ تمھاری اماں اور بہنا تو ہر ہفتے آ ٹپکتی تھیں ۔ آنہوں نے نہیں بتایا
امی : کوئی نہیں ۔ ایسے گرے پڑے بھی نہیں تھے ۔ کوئی مرے نہیں جا رہے تھے ۔ دو رشتے اس وقت بھی آئے ہوئے تھے میرے ۔ آپ کی امی ہی پہلی دفعہ آئیں تھیں کالی چادر اوڑھے ہمارے ہاں
ابو : ہاں تو پھر سب سے اچھے تو ہم تھے ناں
امی : بس ٹھیک ہی تھے ۔ اب ایسے کوئی کوہ قاف کے شہزادے بھی نہ تھے
ابو : تو شہزادی تو تم بھی نہ تھیں
امی : میں نے ایسا کب کہا ۔ بیکار کی باتیں مت کریں ۔ لڑنے کا ویسے ہی دل چاہ رہا ہے تو بتادیں
ابو : لڑنے والے ہوتے تھے تو تمھارے ساتھ 30 سال نہ گزار لیتے خاموشی سے
امی : خوف خدا کریں ۔ خاموش رہنے والے ایسے ہوتے ہیں
ابو : ہماری اماں تو یہی کہتے کہتے دنیا سے گزر گئیں بارات والے دن جو ارشد نے رومال منہ ہر رکھا پھر بولتے ہوئے نہ دیکھا
امی : بس میرا منہ نہ کھلوائیں ۔ میرے سامنے تو کبھی نہ کہا
ابو : ابھی ذرا کھانا کھا لوں پھر تمھیں بارات والی تصویر دکھاتا ہوں رومال والی
امی : اپنی عمر دیکھیں اور شادی کی تصویریں ۔۔۔ اونہہ
ابو : شادی تھوڑی کر رہے ہیں ۔ شادی کی تصویریں ہی تو دیکھ رہے ہیں ۔ بچے بھی دیکھ لیں گے کہ باپ کتنا اسمارٹ تھا
امی : کئی بار دیکھ چکے ہیں وہ اور معاف کیجئے گا آپ کے لئے تو بچوں نے کبھی تعریف کا ایک لفظ بھی نہیں کہا
ابو : ارے وہ تمھارے لحاظ میں خاموش رہتے ہیں ۔ یاد نہیں مسعود بچپن میں مجھ سے کیا کہا کرتا تھا " ابو آپ نے امی سے ہی شادی کیوں کر لی ؟
امی : ہاں تو آپ نے تو بچوں کو کبھی ہاتھ لگایا نہیں ۔ جو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرے گا بچے تو اسی کے گن گائیں گے
ابو : گن تو ایک زمانے میں سب ہی گایا کرتے تھے ۔ پرانے محلے کی برابر والی تو اپنی بھانجی کا کہتی رہ گئیں میرے لئے مگر ہماری اماں نہ مانیں ورنہ تم نہ ہوتیں ۔
امی : تو کس نے روکا تھا کر لیتے
ابو : (چھیڑتے ہوئے) کیسے کر لیتے ؟ غریبوں کی دعائیں بھی تو لینی تھیں
امی : اوہو ! ذرا امیروں کو تو دیکھیں ۔ یہ بتائیں یہ آپ کی چچی نے تو ہمارا رشتہ توڑنے کی ہر ترکیب آزما لی تھی ۔ وہ تو ہماری اماں نے کہا جب ہاں کہہ دی تو کہہ دی ۔ اب آگے لڑکی کا نصیب ۔
ابو : منع ہی کردیتیں تو اچھا تھا ۔ کم ازکم یہ سیٹھا سیٹھا بد مزا کھانا تو نہ ملتا
امی : اتنی عمر ہو گئی ہے چھوڑ دیں یہ شکرا پن ۔ کل کلاں کو بہو ، داماد آئیں گے تو کیا ان کے سامنے بھی یہ دکھڑا روئیں گے ؟ اور ایک بات بتائیں دنیا جہان کی باتیں کر لیں گے مگر تان کھانے ہر ہی آکر ٹوٹتی ہے
ابو : ( پلیٹ کا سالن ختم ہوچکا ۔ پلیٹ آگے بڑھاتے ہوئے)
تھوڑا سالن ذرا اور لا دو ۔
امی : ( ہنستے ہوئے ) اچھا سیٹھے سالن پر یہ حال ہے
ابو : سنو تھوڑا نمک بھی ڈالتی لانا
امی : کوئی نہیں ۔ پھر رات بھر وہم کرتے پھریں گے کہ بلڈ پریشر ہو گیا ۔ بچوں کو سوتے سے جاگنا مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا
ابو : (پیار سے دوبارہ نمک ہر اصرار کرتے ہیں )
بس ۔۔ بہت تھوڑا سا
امی : کوئی نہیں ، ایک ذرہ بھی نہیں ۔۔۔ دوا کھائیں گے نہیں ۔ نمک بھر بھر کر دیئے جاو ۔ اسی لئے تو کھانے پر ساتھ بیٹھتی ہوں اور اتنا سنتی ہوں
انہیں ان کی یادوں میں جینے دیں ۔ گزرے دن ہی تو ان کا سرمایہ ہیں ۔ اب یہ دن لوٹ کر نہ آئیں گے لیکن ان کو یاد کر خوشی سے سرشار تو ہوا جا سکتا ہے
ماں باپ کی یہ باتیں شاید ابھی اچھی نہ لگیں لیکن بعد میں بہت یاد آئیں گی جب آپ ان کی عمروں کو پہنچ جائیں گے ۔
عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91
Article # 91 رنج و مزاح عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...
-
Article #1 ایڈورٹائزنگ میں آنا کیسے ہوا ؟ اشتہارات ہیں زمانہ کے ! قسط اول تحریر :اظہر عزمی لکھنے کا مرض بچپ...
-
Article # 28 کلائنٹ کے قصے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے (قسط نمبر 5) کلائنٹ کے بیٹے کی شادی سہرا کسی کا ، نام کسی ! تحریر : اظ...
-
Article # 5 ... Roman Urdu Hamara indian filmon ka" marhoom" shoq A nostalgia Written by : Azhar Azmi ( Aik...