Monday, 6 September 2021

Aaj shab e Ashur hae. Article 84

 Article 84



آج شب عاشور ہے ۔ چراغ بجھا دیا جائے گا 

اہل مکہ کا گریز اور کربلا کے شہداء 

حسین (ع) سے چاہیئے

 یا حسین (ع)  چاہیئے ؟



تحریر : اظہر عزمی 

میں کوئی مولانا نہ عالم ، خطیب نہ ذاکر ، تاریخ داں نہ تجزیہ نگار اس لئے نواسہ رسول امام حسین ( آپ چاھیں تو علیہ السلام پڑھ لیں یا رضی اللہ تعالی عنہ ۔ بس مقام امام حسین کو سمجھیں ) کو کبھی کسی مذہب ، مسلک ،  عرب کی مخصوص قبائلی گروہ بندی و عصبیت  وغیرہ کی نظر سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی اتنی عظیم المرتبت شخصیت سے متعلق کسی خانے ، پیمانے یا میزان کی ضرورت ہے ۔ حق و باطل کے معرکے میں یہ سوال بھی اٹھا دیا جاتا ہے کہ حق پر کون تھا ؟ میری دانست میں صرف یہ دیکھ لیں کہ صبر کہاں تھا ۔ یہ صبر بر بنائے مجبوری نہ تھا ۔ بقائے دین کے لئے  صبر اختیاری تھا ۔

کربلا کا پیغام ہمہ گیر اور آفاقی ہے ۔ اس لئے اسے سمجھنے ، نتیجہ اخذ کرنے اور راہ عمل متعین کرنے کے لئے اول و آخر انسانیت کی اشد ضرورت ہے ۔ انسانیت ہر مذہب بالخصوص الہامی مذاہب کی اساس ہے ۔ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا  اسلامی تعلیمات میں انسانیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ حقوق العباد کیا ہے ؟ انسانیت ہی تو ہے ۔ تعصب کی تمام تر عینکیں لگانے کے بعد بالاخر ہر صاحب انصاف شخص یہ کہے گا یا کم از کم یہ ضرور سوچے گا کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانا اسوہ امام حسین ع  ہے ۔ لاکھ اختلافی حوالے موجود ہوں ۔ دلائل و تاویلات کے انبار لگا دیں مگر واقعہ کربلا کے ہونے سے تو انکار ممکن نہیں جو ظلم وہاں روا ہوا وہ جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔
 
یہ حقیقت ہے کہ امام عالی مقام سے یزید کی کوئی ذاتی جنگ نہیں تھی ۔ اسی لئے جب گورنر مدینہ نے امام عالی مقام سے بیعت کا کہا تو امام عالی مقام نے ارشاد فرمایا : مجھ جیسا شخص یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا ۔ یہ ایک آفاقی پیغام ہے جس کو ہم ذاتی اغراض و مقاصد  کے کسی خانے میں نہیں رکھ سکتے ۔

مولانا ابو اعلی مودوی کا یہ بیان انمٹ رہے گا ۔  ایک شخص نے مولانا مودودی سے سوال کیا : جب سب لوگوں نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو امام حسین نے کیوں نہیں کی؟
مولانا مودودی نے فرمایا : آپ کا سوال ہی درست نہیں ۔ سوال اس طرح ہونا چاہیئے کہ جب امام حسین نے یزید کی بیعت نہیں کی تو باقی لوگوں نے کیوں کی ؟  اس سوال سے دیگر سوالات بھی ذہن میں آتے ہیں ۔ جب امام عالی مقام نے بقائے دین کے لئے مدینہ چھوڑا تو باقی لوگوں نے کیوں نہ چھوڑا ۔ امام عالی مقام نے حج کو عمرے میں تبدیل کیا تو باقیوں نے ایسا کیوں نہ کیا ۔

بعض کتب میں روایت ہے کہ امام عالی مقام  نے اپنے بچپن میں ایک شخص کو بفضل خدا  7 بیٹے ہونے کی دعا دی تھی ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان 7 بیٹوں میں سے ایک بیٹا معرکہ کربلا میں امام عالی مقام کے جاں نثاروں میں شامل ہے ۔ امام عالی مقام  سب کے لئے جود و سخا ہیں ، عطا ہی عطا ہیں ۔ کہتے ہیں امام عالی مقام نے کبھی کسی کے سوال کو رد نہیں کیا ۔ بس ایک سوال بیعت فاسق تھا جس کا انکار کیا وہ بھی ذات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف بقائے دین کے لیے ۔

چلیں ! مکہ چلتے ہیں
 
امام عالی مقام نے سوال بیعت کے بعد 27 رجب کو مع اہل خانہ و دیگر افراد مدینہ سے  کوفہ کا رخ کیا ۔ راستے میں مکہ مکرمہ قیام کیا ۔ لوگوں سے ملے ۔ اہل مکہ کو ساتھ چلنے کو کہا ۔ کچھ افراد ساتھ بھی ہوئے لیکن اکثریت خاموش رہی ۔ امام عالی مقام نے اتمام حجت کیا تاکہ تاریخ کے صفحات پر  کوئی یہ عذر پیش نہ کر سکے کہ ہم تو لاعلم رہے ۔ نواسہ رسول امام عالی مقام کی قبولیت دعا سے سب واقف تھے ۔ مکہ میں کربلا جانے سے گریزاں کتنے ہی افراد نے امام عالی مقام سے اپنے لئے انفرادی دعائیں کرائیں ۔ امام عالی مقام نے سب کے لئے دست دعا کو بلند کیا اور یہ افرآد اپنی دعاوں / مرادوں کو پا گئے ۔ 

چلیں ! کربلا چلتے ہیں
 
شب عاشور ہے ۔ امام عالی مقام نے جاں نثاروں کو بلایا ۔ جانتے تھے کہ صبح کی پو پھٹتے دونوں طرف نمازیں ادا کرنے کے بعد معرکہ حق و باطل سجے گا اور عصر عاشور تک کربلا کی زمین سرخ ہو جائے گی ۔ لوگ لشکر جمع کرتے ہیں ۔ لشکریوں کو روکتے ہیں مگر امام عالی مقام نے تو کچھ اور ہی کردیا ۔ سب سے کہا کہ فوج یزید میرے خون کی پیاسی ہے ۔ جس کو جانا ہے چلا جائے ۔ یہ کہہ کر امام عالی مقام نے چراغ بجھا دیا تاکہ کسی جانے والے کو خفت یا شرمندگی کا سامنا نہ ہو ۔ چراغ دوبارہ روشن کیا تو 71 کے 71  روشن چہرے جہاں تھے وہیں موجود تھے ۔ پائے استقامت میں کوئی جنبش نہ تھی اور پھر روز عاشور ریگزار کربلا پر شہادتوں کے وہ سرخ گلاب کھلے کہ اسلام کے چمن کو  تا قیامت کے لیے گل و گلزار کر گئے ۔

میں کربلا جانے سے گریزاں اہل مکہ اور کربلا کے شہداء کو دیکھتا ہوں تو ایک یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اہل مکہ کو امام عالی مقام سے جتنا اپنا حسب استطاعت چاہیئے تھا انہوں نے لے لیا ۔ کربلا کے شہداء کو امام عالی مقام چاھیئے تھے ۔ اس لئے انہوں نے امام عالی مقام سے کچھ نہیں مانگا  بلکہ یہی کہا کہ 70 مرتبہ بھی اگر مار کر زندہ کئے جائیں تو آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے ۔ امام عالی مقام نے اہل مکہ کی حاجات کے لئے دست دعا بلند کیا س طرح  ان افراد کی تمام دعائیں مستجاب ہوئیں ۔ اب امام عالی مقام کی نظر میں ان شہداء کا مقام سوچیں ۔ کیا کیا عطا نہ کیا ہوگا ۔ 

آج  شب عاشور ہے ۔ امام عالی مقام کسی وقت چراغ بجھا دیں گے ۔ آئیں ! خود کو خیمہ امام عالی مقام میں
 محسوس کریں اور فیصلہ کریں کہ آپ امام عالی مقام کی دعوت کے باوجود کربلا نہ جانے والے اس دور کے اہل مکہ میں سے ہیں یا شہدائے کربلا کی فکر کے پیروکار ؟ 

حسین ع سے چاہیئے یا حسین ع چاہیئے ؟

Wednesday, 28 July 2021

Yousuf khan se Dilip Kumar . Shaks se shaksiat ka safar.۔ Article # 83


Article # 83

یوسف خان سے دلیپ کمار

شخص سے شخصیت کا سفر

تحریر : اظہر عزمی


اب تو فلم دیکھے ایک زمانہ ہو گیا ۔ جب لڑکپن سے نوجوانی میں قدم رکھ رہے تھے تو وہ زمانہ بلا شرکت غیر امیتابھ بچن کا تھا ۔ ان کی شخصیت کا جادو واقعتاًسر چڑھ کر بول رہا تھا جس کو دیکھو بیچ کی مانگ نکالے امیتابھ بچن بنا پھرتا ۔ بس ایک میرے چچا تھے جو ایک ہی بات کہتے کہ امیتابھ اچھا اداکار ہے مگر دلیپ کمار کو follow کرتا ہے ۔ اینگری ینگ مین کا کانسپٹ دلیپ کمار نے دیا ہے ۔ اداکاری کی ابجد سے اس وقت تو بالکل بھی واقف نہ تھے ۔ امیتابھ کے بال ، آواز ، لمبا قد اور ڈریسنگ کے ساتھ قیامت کی ڈائیلاگ

ڈلیوری کے آگے ہمیں اپنے چچا کی بات سمجھ میں نہ آتی ۔
جب ذرا عمر کے سال بڑھے اور دلیپ کمار کی فلمیں بالخصوص گنگا جمنا ، دیوداس اور مغل اعظم دیکھیں تو دلیپ کمار ذہن میں آنے شروع ہو گئے ۔ اس کے بعد کرانتی اور سودا گر دیکھی ۔ امیتابھ کے مقابل تو دلیپ کمار کبھی کسی فلم میں نہ آئے تھے اس لیے ہمارا ذہن تقابل نہیں کر پارہا تھا ۔

رمیش سپی کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم شکتی میں دلیپ کمار اور امیتابھ آمنے سامنے تھے ۔ فلم بہت غور اور احتیاط سے دیکھی ۔ اداکاری کی تو خیر کیا سمجھ میں آتی لیکن انسانی نفسیات اور رشتے کی پہچان ہو چکی تھی ۔ اس فلم میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن باپ بیٹے بنے ۔ دلیپ کمار پولیس آفیسر اور امیتابھ بچن اینگری ینگ سن بنے ۔

شکتی میں دلیپ کمار اور امیتابھ کی اداکاری کا موازنہ تو ناقدین یا فن اداکاری کے ماہرین کی کر سکتے ہیں لیکن فلم کے ایک سین میں جب دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کے درمیان گھر پر ایک جذباتی سین تھا ۔ امیتابھ کے بھرپور طویل مکالمہ کے جواب میں دلیپ کمار نے اپنے ماتھے پر انگلی کو پھیر ( ایسا عموما ہم سوچتے ہوئے کرتے ہیں ) کر بطور والد چہرے کے جو جامع ترین تاثرات دیئے تھے وہ امیتابھ پر بازی لے گئے تھے ۔ اسی فلم کے لیے فلم فیئر ایوارڈ بھی دلیپ کمار کے حصے میں آیا تھا ۔

عام طور پر اداکار اسکرپٹ کے علاوہ اجھا بول نہیں پاتے ۔ چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر کا مطالعہ بہت واجبی سا ہوتا ۔ دلیپ کمار ایک وسیع المطالعہ شخص تھے ۔ ان کی گفتگو سن کر ایسا لگتا کہ آپ کسی اداکار سے نہیں بلکہ دانشور کی باتیں سن رہے ہیں ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ عموما ہیرو کا کردار کرنے والے اداکار اپنی جاذبیت اور مقبولیت قائم نہیں رکھ پاتے ۔ دلیپ کمار عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور بھی قدآور ہوتے چلے گئے ۔ امیتابھ بھارت کے دوسرے ایسے اداکار ہیں ۔

میں آج بھی امیتابھ کا مداح ہوں لیکن دلیپ کمار کی اداکاری اور شخصیت کا دیوانہ ہوں ۔ چہرے پر ایک عجیب سا اجلا پن تھا ، گفتگو کرتے تو لفظ موتی بن کر نکلتے اور شخصیت کو جگمگا دیتے ۔ شخص سے شخصیت بننے کی اگر کوئی کامیاب مثال ہے تو وہ دلیپ کمار کی ہے ۔ دلیپ کمار نے بے ہنگم اچھل کود ، غیر شائستہ مکالموں اور نازیبا حرکات و سکنات کے بجائے رموز اداکاری کو سمجھا اور اسے اعتبار و معیار بخشا ۔ اداکاری میں جو عزت و احترام دلیپ کمار نے کمایا ہے ۔ آج اور آنے والے دور کا بڑے سے بڑا اداکار اس کی آرزو کرے گا ۔

نہ جانے کیوں ، کانوں میں یہ گیت گونجنے لگا

سہانا سفر اور یہ موسم حسیں
ہمیں ڈر ہے ہم کھو نہ جائیں کہیں

Thursday, 17 June 2021

Real Story " The Fighting Train " .Article 82





سچے واقعے ہر مبنی " دی فائٹنگ ٹرین "
دو باراتیں آمنے سامنے اور میں بطور مہمان اداکار


تحریر : اظہر عزمی


دی برننگ ٹرین فلم ہمارے زمانے کی ایک مشہور فلم تھی لیکن یہ خبر نہ تھی ک دی فائٹنگ ٹرین بھی بنے گی جس میں ، ہم بھی بطور مہمان اداکار شریک ہوں گے ۔ فلم کی شوٹنگ کسی سیٹ پر نہیں بلکہ اصل ٹرین میں ایک رات میں بغیر کسی ری ٹیک کے مکمل ہو جائے گی ۔ فلم کی اسٹوری خود بخود بنے گی اور وہ وہ ٹرننگ پوائنٹ آئیں گے کہ بڑے سے بڑے اسٹوری رائٹر کا ذہن بھی ان بلندیوں ، باریکیوں اور تاریکیوں کو چھو نہ سکے گا ۔ برجستہ ڈائیلاگ اور ان کی بے ساختہ ادائیگی کسی ڈائریکٹر کی محتاج نہ ہو گی ۔ فائٹنگ سین مکمل اوریجنل

ہوں گے اور بیک گراونڈ سے ڈھشوں ڈھشوں کی آواز نہ آئے گی ۔

میں اتنی کہانیاں کیوں کر رہا ہوں ۔ سیدھے سیدھے فلم کے اسکرپٹ پر کیوں نہیں آجاتا ۔
فلم کا ایک مہمان اداکار اظہر عزمی ایک چہلم میں شرکت کے لئے رات کی ٹرین سکھر ایکسپریس سے خیرپور میرس جا رہا ہے ۔ دسمبر کی کڑکتی سردی ہے ۔ کمپارٹمنٹ کھچا کھچ بھرا ہے ۔ گیٹ کے ساتھ ایک دیگ رکھی یے ۔ کمپارٹمنٹ میں ایک بارات بھی جا رہی یے ۔ ٹرین وقت مقررہ سے آدھے گھنٹے لیٹ چلتی ہے ۔ کمپارٹمنٹ کے مسافروں کو سردی نے خاموش کردیا ہے ۔ بس بارات کے لڑکوں کی چہکتی آوازیں ٹرین میں زندگی کا احساس دلا رہی ہیں ۔ سیٹوں والے سیٹوں پر باقی ٹرین کے فرش ہر لپیٹے لپاٹے پڑے ہیں ۔

ابھی جنگ شاھی آیا تھا کہ ٹرین میں کچھ گہما گہمی محسوس ہوئی ۔ یہ سوچ کر کہ ٹرین رکنے والی ہو گی مگر نہیں ٹرین تو پٹریوں پر زناٹے کے ساتھ ہوا کا سینہ چیرتی رواں دواں یے ۔ آوازیں بڑھ رہی ہیں جن میں گالیوں کی گرماہٹ محسوس ہورہی ہے ۔ نیچے کے مسافر ایک دم ہڑبھڑا کر اٹھ بیٹھے جیسے کوئی کتا ان کے برابر آکر لیٹ گیا ہو ۔ میں ( مہمان اداکار ) بھی برتھ سے ٹرین کی ارتھ پر آگیا ۔ اندازہ ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے فائٹنگ سین ہوا ہے اور جو مار نہ پایا اب وہ گالیوں کی مار دے رہا ہے ۔ کمپارٹمنٹ میں ہر طرف سراسیمگی ہے ۔ آدھ کھلی آنکھوں کے مسافر حیران و پریشان ہیں ۔ اتنی دیر میں ایک لڑکے کی آواز آتی : چھوڑنا نہیں کسی کو ۔ جانتے نہیں ہیں کن سے پنگا لیا ہے ۔

میں نے ساتھ کھڑے ایک نامعلوم نوجوان مسافر سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ ہمارے کمپارٹمنٹ کی بارات سکھر جا رہی ہے اور دوسرے کمپارٹمنٹ کی بارات کراچی سے لڑکی وداع کر کے سکھر واپس جا رہی ہے ۔ نامعلوم نوجوان مسافر بھی سکھر کا ہے ۔ اس نے بتایا کہ اس بارات کے لڑکے ٹرین میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے ۔ برابر والے کمپارٹمنٹ سے گزرے تو برتھ پر سوئی لڑکی سے ایک دو بار کاندھا لگ گیا ۔ کمپارٹمنٹ کے لڑکوں کو یہ کاندھے بازی اچھی نہ لگی اور ہمارے کمپارٹمنٹ کی بارات کے لڑکوں کو کوٹ دیا بلکہ اچھا خاصا دھو دیا ۔

واقعے کی گرمی نے سردی کو موٹا لحاف آوڑھا دیا تھا ۔ شدت کم ہوگئی تھی ابھی جھگڑا تھما نہیں تھا ۔ میں دوسرے کمپارٹمنٹ گیا تو عجب تماشا دیکھا ۔ ایک بزرگ ایک نوجوان لڑکے کو دھبا دھب مار رہے تھے اور اسے مارتے مارتے ہمارے کمپارٹمنٹ میں لے آئے ۔ پتہ چلا کہ یہ ہمارے کمپارٹمنٹ کا دولھا ہے ۔ " دولھگی " کے جوش میں لڑنے گیا تھا ابھی لڑکوں نے سلامی دینا شروع کی تھی کہ باپ نے وہاں آکر دھنائی کر دی ۔ لڑکے پیچھے ہٹ گئے کہ جب گھر کا آدمی یہ کام کر رہا ہے تو ہم اپنے ہاتھ کیوں گندے کریں ۔ ویسے بھی اس سے قبل دوسرے کمپارٹمنٹ والے ہمارے لڑکوں کی توقع سے زیادہ منہ تک خاطر و مدارت کر چکے تھے ۔ اس لئے ہمارے لڑکوں کے سینوں میں انتقام کے شعلے دھک رہے تھے ۔ دولھا کا سوکھا سڑا بھائی آپے سے باھر ہورہا تھا ۔ بلیوں اچھل رہا تھا ۔ جب بھی چھوڑو تو سیدھا کھڑا ہو جاتا ۔ میں نے دولھا کی حالت دیکھی تو کہا :
سہرا باندھے بنا سالوں سے سلامی لینا اچھا شگون نہیں ۔ جو منہ کی حالت ہے آر سی مصحف ہوا تو بیوی نے چیخ مار کر اٹھ جانا یے ۔

تازہ تازہ پٹے دولھا کی چوٹوں کا درد ابھی ٹھاٹے مار رہا تھا۔ اس لئے میری بات کو چھوٹی سی لہر سمجھ کر محسوس ہی نہ کر پایا ۔

اسی دوران میرا نامعلوم نوجوان مسافر میرے پاس آیا اور بولا : ابھی دیکھو اتنی رات ہو گئی ۔ سارے غریب مسافر جاگ گئے ہیں ۔ ان کو بھوک لگی ہوگی ۔ یہ سب لوگ پھڈے میں لگے ہیں ۔ اتنی مار کھانے کے بعد کھانا کیا کھائیں گے ۔ آپ کو بولو تو یہ بریانی مسافروں میں بانٹ دوں ۔ میں نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا : تو کیا مجھے دولھا کا چاچا سمجھ رہا ہے ۔ بول : آپ سمجھدار لگ رہے یو ۔ اس لئے پوچھ لیا ۔ میں نے کہا : تیری مرضی ۔ بڑا ہوشیار تھا ، بولا: اصل میں مجھے دیگ چاھیئے ۔ خالی ہو گی تو اٹھانے میں آسانی ہو گی ۔ میں اسے دیکھتا رہ گیا ۔ ہنسا ، کہنے لگا : یہ فائٹ سکھر تک جائے گی اور میں دیگ لے کر فلائٹ ہو جاوں گا ۔
سکھر والی بارات اس لئے بھی بھاری تھی کہ وہ اپنے شہر جا رہی تھی ۔ دوسرا یہ کہ ان کے بقول بدتمیزی کا قرض مع سود اتارنا لازم تھا ۔ بزرگ ان کے ساتھ نہیں تھے ۔ اس لیے انہیں اوپن گراونڈ ملا ہوا تھا ۔ انہوں نے اپنا حساب تو چکتا کر دیا تھا لیکن پھر بھی دل بھرا نہیں تھا ۔ ہمارے کمپارٹمنٹ والے تو خوردہ ریٹ پر زخم خوردہ تھے ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ٹرین میں ریسلنگ کی جگہ بالکل بھی نہ تھی اور اکثر لاتیں گھونسے ان کو پڑے جو کسی بارات میں شامل ہی نہیں تھے ۔ بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانے تو سنا تھا مگر بیگانے کی لڑائی میں عبد اللہ مار کھائے پہلی بار دیکھا تھا ۔ لوگ ٹکٹ لے کر تماشا دیکھتے ہیں مگر انہوں نے تو ٹکٹ دے کر مار کھائی تھی ۔
جانے کا جرم کی کھائی ہیں لاتیں یاد نہیں

اب صورت حال یہ بنی کہ جب رات کی خاموشی کو توڑتی سیٹی بجاتی ٹرین کسی اسٹیشن پر رکتی تو دونوں گروپ نیچے اترتے تاکہ باقاعدہ لڑائی کا آغاز ہو سکے ۔ ابھی گریبانوں تک ہاتھ پہنچے ہوتے کہ سیٹی بج جاتی اور متحارب گروپ سوار ہو جاتے ۔ ہم اپنے کمپارٹمنٹ تھے لیکن برابر والے کمپارٹمنٹ کی طرف بھی آ جا رہے تھے ( ہمیں تو اپنی رات گزارنی تھی ) ۔ غیر جانبدار مسافروں نے حالات کی سنگینی اور لڑائی کے بعد ہونے والی رنگینی کو دیکھتے ہوئے دونوں گروپس کو یہ صائب مشورہ دیا کہ لڑائی آپ کا پیدائشی حق ہے مگر ٹرین کی کم وسعتی اس کار خیر کو انجام دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے فی الوقت کوئی بیچ کی راہ نکل لی جائے ۔
دونوں گروپوں سے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی مصالحتی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ہم بھی شامل تھے ۔ دونوں طرف سے نمائندہ افراد کو طلب کیا گیا لیکن یہاں بھی کشیدگی برقرار رہی ۔ بارہا ایسا لگا کہ مذکرات کا ڈول ڈالا نہ جا سکے گا ۔ الزامات اور جوابی الزامات لگائے جاتے رہے ۔ کچھ گفتگو آپ بھی سن لیں ۔
سکھر : ایک باری کاندھا مارا ۔ برداشت کر لیا ۔ ناں اشٹاپ تو نہیں چلتا ناں ۔
کراچی: ہاں تو اس کے پیر برتھ سے باہر کیوں جا رہے تھے
سکھر : ابے تو کیا تیری بہن کی بارات جا رہی تھی جو تم لوگ بار بار چکر کاٹ رہے تھے ۔۔۔ ہیں
کراچی : اوئے بہن تک نہ پہنچیو ۔ یہیں گاڑ دوں گا ۔
سکھر : تو گاڑے گا ۔۔۔ تو ۔۔۔ شکل دیکھ آئینے ۔ دیکھ تیرا حلیہ کیسے ٹائٹ کر دیا ہے ۔ سکھر پہنچ پھر تیری مرہم بٹی کا خرچہ اور بڑھاتا ہوں ۔
مصالحتی کمیٹی کے ایک صاحب نے دوسرے گروپ سے کہا :
بھائی یہ آپ کے شہر مہمان ہو کر جارہے ہیں ۔ آپ کے شہر کی لڑکی ان کی بہو بنے گی ۔ کیا اچھا لگے کہ آپ مہمانوں کے ساتھ یہ برتاو کریں ۔ گفتگو اثر کر گئی لیکن ایک لڑکا آگ ٹھنڈی کرنے کے موڈ میں نہیں تھا :
چچا کیا ایسے لوگوں کو منہ لگا لیں ۔ ہم تو اپنے شہر کی لڑکی ایسوں کو تو مر کر نہ دیں ۔ چھچھورے ہیں سارے کے سارے
دولھا کا سوکھا سڑا بھائی اکڑ گیا : چھچھورا ہو گا تو
وہ لڑکا بھی اکڑ کر کھڑا ہو گیا ، بولا : ویسے تو سب چھچھورے ہیں لیکن تو چھیچھڑا ہے ۔
دوسرا بولا : یہ تو چھیچھڑے کا بھی چھیچھڑا ہےب۔ اسے تو کوئی بلی بھی منہ نہ لگائے ۔

سب زیر لب مسکرا دیئے ۔ دونوں گروپ پھر منہ ڈر منہ آگئے ۔ بات پھر بگڑ رہی تھی ۔ صاف لگا کہ دونوں پارٹیاں صلح کے موڈ میں نہیں ۔ بہرحال اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ مقابلہ سکھر میں ہو گا ۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کے کمپارٹمنٹ میں نہ آئیں گے ۔

جب وقتی سیز فائر ہوا تو کمپارٹمنٹ کے باراتیوں کو بھوک لگی ۔ اب جو دیگ کھولی تو آدھی دیگ خالی تھی اور ایک بھی بوٹی نہ تھی ۔ ایک آواز آئی : ابا آدھی بریانی گئی ۔
میں چپ چاپ بیٹھا رہا ۔ نامعلوم نوجوان سافر مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ سکھر پر پوری دیگ بھی غائب ہو سکتی ہے ۔ میں تو صبح سات بجے خیر سے خیرپور میرس اتر گیا ۔ اب پتہ نہیں سکھر کس طرح باراتیں اتری ہوں گی اور کس کس کے کاندھے اترے ہوں گے ۔

( یہ تصویر بطور ریفرنس لگائی ہے ) 

Parwardigar mareez ko khwaten se bacha .Article 81



پروردگار مریض کو خواتین سے بچا

تحریر :اظہر عزمی

بیماری دکھی زندگی کے ساتھ یے ۔ بس دعا کریں کہ مریض کی کہانی عورتوں کے ہاتھ نہ لگے ۔ بہتر ہے کہ مریض غسال اور گورکن کے ہاتھ لگ جائے ۔ ایک بار کا غسل و کفن ہی تو ہوگا ۔ جہاں کہانی عورتوں کے ہاتھ لگی سمجھیں گھر ، خاندان یا آس پڑوس کی کوئی نہ کوئی طبیبہ علاج کے نام پر وہ قبر کشاں قصے اور عدم صحت یابی کے نقصے ( نسخے ) تجویز کرتی ہیں کہ مریض کہہ اٹھے ۔
جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا
ہمارے ایک جوان رشتے دار کو پیٹ کے معمولی درد اور اینٹھن نے آلیا ۔ صبح آفس جانے کی ہمت نہ ہوئی چھٹی کر لی ۔ بیوی اور ماں نے دوپہر بھر میں یہ بات آگ کی طرح پھیلا دی ۔ ماں نے پڑوسن خالہ کو بتا دیا :
رات بھر میرا ارشد مچھلی کی طرح تڑپا ہے ۔ بیوی کو تو رتی برابر خیال نہیں ۔ سکون سے پڑی سوتی رہیں ۔
بیوی نے حسب عادت میکے فون کیا اور بپتا سنا دی : امی ارشد کی طبیعت رات کو بہت خراب رہی ۔ رات ان کی امی نے چھولے کا سالن بنایا تھا ۔ وہ کھایا اور پھر رات بھر وہ ڈکاریں آئی ہیں ۔ گیس اتنی تھی کہ پوچھیں ناں ۔
ماں نے بھی جل کر کہا : تمھاری ساس کو کھانا پکانا ہی کہاں آتا ہے ۔ بیگار ٹالتی ہیں تب ہی تو بیمار ڈالتی ہیں ۔
میں آ جاتی مگر رات سے طبعیت اچھی نہیں ۔ میں ممانی جان کو بھیجتی ہوں طبیعت کا پوچھنے کے لئے ۔ ڈاکٹر کو تو دکھا دیا ہے ناں ؟
بیوی : نہیں اب طبیعت پہلے سے بہتر ہے ۔ شام کو دکھا دیں گے ۔ لیجئے صاحب مریض کی موت آثار طبیبائیں آیا چاھتی ہیں ۔سب سے پہلے برابر والی خالہ آئیں ۔ ان خالہ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان کی پوٹلی میں ہر بیماری سے مرنے والوں کے وہ تازہ تازہ کفن سوز و دفن خراش واقعات ہوتے ہیں کہ مریض " موت کے بعد کا منظر " جیسی کتاب پڑھ کر سانسیں گننے بیٹھ جائے اور گھر کی گھنٹی بجنے کو بھی موت کی دستک سمجھے ۔ خالہ نے آتے ہی ارشد کے رونگھٹے کھڑے کر دیئے : جیسے تم بتا رہے ہو ناں کہ پیٹ میں ہلکا سا درد اور اینٹھن ہوئی ۔ بس ہمارے ماموں صغیر کے داماد کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا ۔ ( دونوں ہاتھ پھیلا کر ) کیا کڑیل جوان تھا ۔ رات بیوی سے بولا کہ پیٹ میں درد ہے ۔ اس نے اسپغول گھول کر پلا دیا ۔ کچھ دیر کے بعد جو طبیعت بگڑی پھر تو وہ ہاتھوں سے نکلا جائے ۔ اسپتال لئے گئے ۔ اللہ جانے کہاں کا انجیکشن کہاں گھونپا ۔ ایسا لیٹا کہ پھر اٹھ نہ پایا ۔ راشد کے تو پسینے چھوٹ گئے گھبرا کر کہا : خالہ بھلا چھولوں سے بھی کہیں ایسا ممکن ہے ۔ خالہ : نہیں تو ماموں صغیر کے داماد نے کوئی بم۔کا گولا کھا یا تھا ۔ گھر کا پکا ہی کچھ کھایا ہو گا ۔۔۔ اور یہ بھی بتا دوں یہ چھولے اولے تو موت کا بہانہ ہیں ۔ جس کی آئی ہے ، آئی ہے ۔ ماں سے بھی برداشت نہ ہوا : اے خالہ تم عیادت کو آئی ہو ۔ میرے منہ خاک کیا تعزیت کرنے کو ۔ خالہ نے برقع سر پر رکھتے ہوئے کہا : ہم تو سمجھانے آئے تھے ۔ سنا ہے قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جوان زیادہ مریں گے ۔ خالہ تو چلی گئیں مگر ارشد کو لگا کہ پیٹ کا درد گلے تک لہنچا ہے ۔ عیادت رسم دنیا تھی " نہیں آتے تو کیا جاتا "
تمھارے پوچھ لینے سے نہ جی جاتے نہ مر جاتے شام سے پہلے ممانی جان بھی آدھمکیں ۔۔ لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ ان کو کسی کی بیماری کی بھنک نہ پڑے مگر ان کا بیمار تلاش ریڈار نہ جانے کتنا جدید و شدید ہے کہ مریض نکال لاتا ہے مگر آج تو یہ باضابطہ دعوت پر آئیں تھیں ۔ یہ طبیبہ ہونے کے ساتھ ساتھ وکیلانہ مزاج بھی رکھتی ہیں ۔ مرض کی تشخیص کو جرم کے خانے میں رکھ کر تفتیش بہ انداز تشویش و تشکیک پر یقین کامل رکھتی ہیں اور کسی طور مریض کو شک کا فائدہ دے کر صحت یاب ہونے کی کوئی آس نہیں دلاتیں ۔ مریض سے وہ جرح کرتی ہیں کہ مریض جراعت کو زیادہ آبرومندانہ سمجھے ۔ سوالات در سوالات سے مریض کو اپنے مرض سے زیادہ اپنے کردار پر شک ہونے لگتا ہے ۔ ان طبیبہ کی ایک افضلیت یہ بھی ہے کہ ان کے مرحوم سسر دیواری حکیم تھے جو امراض خبیثہ کے ناکام علاج کے کامیاب معالج تسلیم کئے جاتے تھے ۔ جب وہ دیکھتی ہیں کہ مریض کسی طرح ان کے ہاتھ نہیں آرہا تو ہاتھ پکڑ کر نبض پر ہاتھ رکھ دیتی ہیں : نبض تو مریل گھوڑے کی لنگڑی چال چل رہی ہے ۔ راشد : ممانی جان نبض میں گھوڑا کہاں سے آگیا ؟ توبیبہ : ( طنزیہ مسکراہٹ سے ) نبض کا نو مرتبہ چلنا دیکھا جاتا ہے ۔ پہلی تین سر سے سینے تک ، دوسری تیں پیٹ تک اور آخری تین نیچے کی ۔۔۔ کچھ سمجھے کہ نہیں ۔ تمھاری بیچ کی تین چالیں ٹھیک نہیں ۔ راشد شرمندہ سا ہو گیا : کیا ہو گیا ممانی جان ؟ نبضوں کا بھی چال چلن ہوتا ہے ۔ ممانی جان : حکمت کے یہی تو راز ہیں جو ڈاکٹری بھی نہیں سمجھ سکتی ۔ تم تبخیر معدہ کا شکار ہو ۔ ہمارے سسر کہا کرتے تھے تخیر معدہ ہو تو تسخیر مرض میں تاخیر تقصیر سے کم نہیں ۔ دوا اکسیر تب یی یے جب وقت پر دی جائے ۔ لاکھ دوا پھانکے جاو تاثیر میں تدبیر کی کوئی صورت نکلتی نہیں ۔ پیٹ کے مرض کو تو ویسے بھی ام الامراض کہا جاتا ہے ۔ راشد کی ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا : یہ کیا آپ اول فول بک رہی ہیں ؟ ممانی جان : اول فول بکنے میری جوتی ۔ تم دیکھ لینا اس کو ہرنیا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ جگر میں سوزش نے بھی آلیا ہو ۔ تین چار امراض کا یک دم ورد جسم سنکر ارشد کے پیٹ میں گڑ گڑ شروع ہوگئی ۔ لاکھ کوشش کے بعد وہ گڑ گڑ باہر آگئی اور فضا میں ایک بو پھیل گئی ۔ ممانی جان نے جو ناک کے نتھنے پھیلا پھیلا کر بو سونگھی تو پورے یقین سے کہا : رات جو چھولے کھلائے وہ کچے اور تین چار فصل ہرانے تھے ۔ بو بتا رہی ہے کہ اس کے جگر میں سوزش کے ساتھ ساتھ گردے میں پتھری بھی ہے ۔ ایک آنت میں پھپوند بھی لگ گئی ہے ۔ ممانی جان ۔۔۔ پہلی عالمی ریاح شناس طبیبہ ممانی جان کے یہ انکشافات سننے کے بعد مغرب کے بڑے بڑے تحقیقی اداروں کی ناکوں میں نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ ایک ٹن تنہا عورت جس نے کبھی کسی میڈیکل کالج کا منہ نہ دیکھا ہو ۔ ریاح شناسی کے ذریعے کھایا پیا بتانا اور امراض کی تشخیص کرنا ممانی جان کی ایک ایسی خوبی ہے جس پر ہم پاکستانی جتنے بھی اپنے نتھنے پھلائیں وہ کم ہے ۔ بس عزت داروں کے لئے ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ ممانی جان کے سامنے رہا خارج نہ کی جائے ورنہ ان کی جانب سے سب کچھ کھول دینا خارج از امکان نہیں ۔
ماحول میں امراض کے امکانات بڑھتے دیکھکر بیوی نے ممانی جان کو چلتا کیا ۔ ارشد نے ماں اور بیوی کی طرف دیکھ کر کہا : اب میں مر بھی جاؤں تو خالہ اور ممانی جان کو نہ بلانا ۔ اب ارشد صاحب کو کون بتائے کہ مرنے کے بعد جنازے پر پٹس ڈالنے والی خواتین بالکل الگ ہوتی ہے ۔ وہ رونا پیٹنا مچاتی ہیں کہ گھر والے خود کہہ اٹھیں : اب رہنے بھی دو ۔ 
ماحول میں امراض کے امکانات بڑھتے دیکھکر بیوی نے ممانی جان کو چلتا کیا ۔ ارشد نے ماں اور بیوی کی طرف دیکھ کر کہا : اب میں مر بھی جاؤں تو خالہ اور ممانی جان کو نہ بلانا ۔ اب ارشد صاحب کو کون بتائے کہ مرنے کے بعد جنازے پر پٹس ڈالنے والی خواتین بالکل الگ ہوتی ہے ۔ وہ رونا پیٹنا مچاتی ہیں کہ گھر والے خود کہہ اٹھیں : اب رہنے بھی دو ۔ 
#AzharHAzmi 

Har pata batanay wala . Naseer Chameea.Article 80


 

ہر پتہ بتانے والے ۔۔۔۔ نصیر جھمیا
ایسا پتہ بتایا کہ سب کو پتہ چل گیا

تحریر : اظہر عزمی

آج کل ایک اشتہار کی ٹیگ لائن ہے " ہر پتہ ہمیں پتہ ہے " ۔ میں جب بھی یہ دیکھتا ہوں تو بے ساختہ نصیر جھمیا کا چہرہ نظروں کے سامنے آکر رونے لگتا ہے ۔ پہلے تو یہ بتا دوں کہ جھمیا ان کی عرفیت تھی جو ان کی چڑ بھی تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے طور ہر تو چ بولتے تھے لیکن آپ جتنا کان ، دماغ لگا کر سن لیں ۔ سننے میں ج ہی آتا تھا ۔ تھوڑا سا لہرا کر چلتے تھے اس لئے ان کے ہم عمر دوستوں نے ان کا نام چھمیا رکھ دیا لیکن ایک دوست کے کہنے پر چ کا حرف ادا نہ ہونے پر نصیر جھمیا کہلائے ۔ نصیر جھمیا بڑے بڑبتو تھے ۔

نصیر جھمیا ہم سے عمر میں بڑے تھے ۔ دبلے پتلے ، لجلجے اور اس پر عجیب رنگوں کی شرٹ پہن لیا کرتے ۔ اس پر شخصیت اور سہ آتشہ ہو جاتی ۔ ہم آٹھویں میں تھے اور وہ نئے نئے کالج گئے تھے ۔ نصیر جمھیا کا اپنے دوستوں میں بہت مذاق اڑتا تھا ۔ اس لئے وہ ہمارے گروپ میں بیٹھتے اور کالج اور اس کے سامنے گرلز کالج کے ہوشربا قصے سناتے جس سے یہ محسوس ہوتا کہ گرلز کالج کی ہر لڑکی نے کالج میں داخلہ صرف دیدار نصیر کے لئے لیا ہے ۔
قصہ ہوشربا ہونے کے ساتھ دلربا بھی ہو تو دائیں آنکھ بند کر لیتے اور ہونٹوں پر ہلکی زبان پھیرتے جاتے ۔ ہمارے لئے بھی اس زمانے میں کالج ایک خواب ہی تھا اور نصیر جھمیا ہم دوستوں کو روزانہ پری نگری کی فری سیر کرا دیتے ۔ نصیر جھمیا کی شخصیت اتنی متنوع اور دلچسپ تھی کہ ہوری کتاب سپرد قلم کی جا سکتی ہے ۔ ہہاں صرف ان کا ایک وصف بیان کرنا مقصود ہے جو اب مفقود ہوتا جارہا ہے اور وہ ہے پتہ بتانے کا شوق ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ راستے بھر باتیں کرنے کا موقع جو مل جاتا ۔

سہ پہر کا وقت ہے ہم چار پانچ لڑکے بھائی مختار کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں ۔ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر کے صاحب اپنی برقع پوش اہلیہ کے ساتھ ہمارے پاس آکر رکتے ہیں : کیا آپ سے ایک پتہ پوچھ سکتا ہوں ؟ نصیر جھمیا نے ہم میں اپنی طویل العمری اور قلیل العقلی کے ناطے پوچھا : بوجھیں خالو ؟ ( ہمارے زمانے میں ماں باپ کی عمر کے سب لوگ خالہ خالو ہوا کرتے تھے ) وہ صاحب پوچھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے بوجھیں ۔ میں نے ان صاحب کہا : نصیر بھائی کہہ رہے ہیں پوچھیں ۔ ( نصیر جھمیا کو ان کی موجودگی میں ہمیشہ نصیر بھائی کہا ) ۔

نصیر بھائی سیڑھی سے اٹھے ، جینز کی پینٹ جھاڑی ۔ اس کا مطلب ہے کہ پتہ کوئی بھی ہو وہ بوجھ نکالیں گے : خالو دو مشتاق صاحب رہتے ہیں ۔ صاحب نصیر جھمیا کی پوچھ کو بوجھ چکے تھے ۔ ایک نظر ااپنی برقع ہوش اہلیہ کو دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کہ کون سے والے مشتاق ؟ انہوں نے برقعے میں ہونے کے باوجود انتہائی جھلائے ہوئے انداز میں سر ہلا کر کہا : میں کیا شجرے ساتھ لے کر پھرے ہوں ؟ ایسا زناٹے دار جواب تھا کہ ہم سناٹے میں آگئے ۔

نصیر جھمیا نے کیس کو مکمل ہاتھ میں لے لیا : تو اس میں کیا مسئلہ ہے دونوں مشتاقوں کے ہاں لئے جلتا ہوں باری باری ۔ یہ کہہ کر ایک قدم چلے اور مجھ سے بولے : تو بھی آ جا ۔ میں نہ چاھتے ہوئے بھی ساتھ ہو لیا ۔ میں جانتا تھا کہ اب صرف نصیر جھمیا بولیں گے ۔
ہم ساتھ ہو لئے ۔ نصیر جھمیا نے سلسلہ کلام جاری رکھا ۔ چلیں پہلے چلتے ہیں بھائی مشتاق کے ہاں ۔
خالو : جہاں پہلے لے چلو ۔ ہم تو پہلی بار آئے ہیں ۔
نصیر : پہلی بار آئے ہیں ۔ شکل دیکھی ہے ان کی ؟
خالو نے نفی میں سر ہلا دیا ۔
نصیر : وہ تو خیر میں بتا ہی دوں گا ۔ بس آپ ایک باری ان کا حلیہ بتا دو ۔
خالہ : ( جھلا کر ) تجھے سمجھ نہیں آتی ۔ ملے نہیں تو حلیہ کیسے بتا دیں ۔ کوئی خوابوں میں آئے تھے کیا ؟
میں نے نصیر جھمیا کا ہاتھ دبایا کہ ذرا ہلکا ہو جائیں مگر وہ کہاں ماننے والا تھا ۔
اب نصیر جھمیا نے دونوں مشتاقوں کی کہانیاں کھولنا شروع کیں : منے میاں مشتاق پہلے بالکل فٹ فاٹ تھے مگر جب سے شوگر ہوئی ہے ڈھیلے پڑ گئے ہیں ۔ ہاں ۔۔۔ تو جب پرہیز نہیں کرینگے تو یہی ہوگا ۔ نکڑ پر رئیس حلوائی کی دکان سے یہ شیرہ بھرے رس گلے کھاتے ہیں ۔ اتنا سمجھایا مگر ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔

خالو : دوسرے والے کون سے ہیں ؟
نصیر : بھائی مشتاق ۔۔۔ وہ ایک دم سیٹ ہیں لیکن ان کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی ۔ شروع میں انہوں نے بھی بڑی زیادتی کی ۔ بیوی کو میکے ہی نہیں جانے دیتے تھے مگر زیادتی تو زیادتی ہوتی ہے ۔ ( کچھ لمحے خالہ کی طرف دیکھ کر دونوں کانوں کو ہاتھ لگایا اور ہلکے سے خالو کے کان میں) بیوی کا انتقام بڑا زوروں کا ہوتا ہے خالو ۔ ہورے گھر سے جھٹوادیا ہے ۔ آپ کو تو اندازہ ہوگا ۔ خالو نے اشارے سے نصیر جھمیا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا کہیں برقع ہوش اہلیہ نہ سن لیں ۔ نصیر جھمیا اپنے جملے کے نشے سے اور لہرا گئے ۔

چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد پھر بولے : خالو بتایا نہیں آنا کیسے ہوا ؟
اب خالہ سے برداشت نہ ہوا : تیرا ریڈوا بند ہو تو ہم بھی کچھ بولیں ۔ چپکا نہیں چل سکتا ذرا دیری ۔
خالو نے برقع کے اندر خالہ کا ہاتھ دبایا ۔ خالہ نے ہاتھ رکھتے ہی شوہر کو جھڑک دیا : ارے ہٹو بھی ۔ کیا ہاتھ کی چوڑیاں توڑ ڈالو گے ۔ نصیر جھمیا اور مجھے خالہ کی آتش سخنی کا بجوبی اندازہ ہو چلا تھا
اب سب خاموشی سے چل رہے تھے ۔ چلتے چلتے خالہ نے نصیر جھمیا سے پوچھا : کیا حیدر آباد لے جائے گا ؟
نصیر : مذاق کر رہی ہو خالہ ۔ آئے ہیں تو گھر کے دروازے تک تو جھوڑ کر آئیں ۔
خالہ ہوشیار تھیں ۔ نصیر جھمیا ان پر منکشف ہو چکے تھے ۔ اب خالہ نصیر جھمیا کی ہر نو بال پر جملوں کے ہرفیکٹ شاٹس کھیل رہی تھیں مگر نصیر جھمیا کا بڑ بتو پن رک نہیں رہا تھا ۔

خالہ : پہلے تو اپنا ج چ تو صحیح کر لے ۔ بڑا آیا چھوڑنے والا ۔
نصیر جھمیا نے یہ بات سنی ان سنی کردی : ابھی آگے مرزا خالو کی گلی آئے گی وہاں سے الٹے ہاتھ کو مڑیں گے تو حاجی سائیکل والا بیٹھا یوگا ۔
خالہ : تو کیا وہاں سے سائیکل پر جائیں گے ؟
نصیر : اب اتنی دور بھی نہیں ۔ وہاں سے ڈاکٹر صابر کا کلینک آئے گا بس اس سے ذرا آگے بھائی مشتاق کا گھر ہے ۔ (خالو سے) ایک بات کہوں اگر وہی مشتاق نکلیں تو ان کو کہنا رشید بھائی سے جو پھڈا ہوا اس کو بھول جائیں ۔ محلے داری میں کوئی اتنی ناراضگی تھوڑی جلتی ہے ۔
خالہ : تیری زبان بڑی قینچی کی طرح چلے ہے ۔ ہم ان سے ملنے آئے کہ صلح صفائی کرانے آئے ہیں ۔ بس یہیں سے پتہ بتا دے ۔ پوچھتے پاچھتے چلے ہی جائیں گے ۔
نصیر : ایسے کیسے بوجھتے باجھتے جلے جائیں گے ۔ ہمارے محلے آئے ہو ۔ گھر تک جھوڑنا تو ہمارا فرض بنتا ہے ۔
خالو : ابھی کتنی دور چلنا ہے ؟
نصیر : خالو ابھی سے تھک گئے ۔ کہو تو حاجی کی سائیکل لے آوں ۔ ہینڈل پر بیٹھ جانا ۔
خالہ : ( غصہ آگیا ) اپنی اور ان کی عمر دیکھ ۔ ہینڈل ہر بٹھائے گا ؟ ہینڈل کے بدلے سینڈل آئے گی ۔۔۔ سمجھا ۔
نصیر : (کھسیانے ہو گئے) میں تو خالو کی آسانی کے لئے کہہ رہا تھا ۔ ویسے اب گھر زیادہ دور نہیں ۔ اجھا ۔۔۔ ہاں خالو میں کہہ رہا تھا رشید بھائی والی بات ضرور کر لینا ۔ اب اگر ان کی لڑکی کو سعید پسند ہے تو ہونے دو ۔ کہیں تو اس کی شادی ہونی ہے ۔ اجھی بات ہے محلے کی لڑکی محلے میں رہے ۔
خالہ : اچھا کیا نام ہے ان کی لڑکی کا ؟
نصیر : ثریا ۔۔۔ پورے محلے کو پتہ ہے اس چکر کا
میں نے نصیر جھمیا کا ہاتھ دبایا چاھا تو غصے ہوگئے : ابے تو کیا میرا ہاتھ دبانے کے لئے آیا ہے ؟
خالہ نے ہلکے سے خالو کے کان میں کہا : یہ وہی بھائی مشتاق ہیں جہاں ہمیں جانا ۔

نصیر جھمیا چوڑے ہو گئے : کہا تھا ناں ۔ ہمیں ہر پتہ پتہ ہے گھر تک چھوڑ کر آتے ہیں ۔ اس دوران بھائی مشتاق کا گھر آگیا اور نصیر جھمیا نے ان کی بیل بجا دی ۔ مشتاق بھائی مشتاقانہ باہر نکلے اور خالو سے سوالیہ انداز میں لہک کر کہا : آپ دلشاد بھائی ؟ خالہ خالو اندر چلے گئے اور ہم دوبارہ بھائی مختار کی سیڑھیوں پر آکر بیٹھ گئے ۔
شام کی چائے کا وقت ہوا تو میں گھر چلا گیا ۔ باہر سے شور کی آواز آئی ۔ باہر آیا تو عجب تماشا دیکھا ۔ مشتاق بھائی کے لڑکے کے ہاتھ میں نصیر جھمیا کا گریبان اور پٹاخ پٹاخ کی بارش ۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ نصیر جھمیا تو ان کے مہمانوں کو گھر تک چھوڑ کر آئے اور اس کا صلہ چانٹوں سے ۔ نصیر جھمیا نے عجب امدادنہ نظروں سے مجھے دیکھا ۔ میں آگے بڑھنے والا تھا کہ ایک دوست نے روک دیا : تم بیچ میں نہ پڑو ۔ وہ خالہ خالو مشتاق بھائی کی لڑکی کے رشتے کے لئے آئے تھے ۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا اور پھر نصیر جھمیا کی وہ Olala ہوئی کہ بہت کچھ لال یو گیا ۔

Thursday, 15 April 2021

Gano kay intekhab nay ruswa kiya mujhay. ۔Article # 79


Article # 79


" گانوں کے انتخاب نے رسوا کیا کسے "
عام افراد کے لئے گانا رومانس نہیں یاد رفتگاں ہوتا ہے

تحریر : اظہر عزمی

سوشل میڈیا پر کافی عرصے سے ایک پوسٹ دیکھ رہا ہوں ۔ ایک ادھیڑ ( جوانی اور بڑھاپے کے بیچ ) عمر شوہر ذی وقار پرانے گانے سن رہے تھے ۔ ادھیڑ ( ٹانکے کا توڑنا یا سلائی کا نکالنا ) مزاج بیوی قریب ہی کام کاج میں مصروف تھیں ۔ ( میں اردو کی اس سادہ مزاجی کے صدقے جاوں کہ ایک ہی لفظ کو کس طرح برتا یے ) شوہر سے تنک کر بولیں : کیا بات ہے آج بڑی جوانی یاد آرہی ہے ۔ کچھ دن بعد وہ نئے گانے سن رہے تھے کہ بیوی پھر بڑے طنز سے گویا ہوئیں : کیا بات ہے آج بڑی جوانی سوجھ رہی ہے ۔ کسی نے صحیح کہا ہے " جو لوگ شادی کے بعد گانا گاتے یا سنتے ہیں وہ اپنے کانوں میں رس نہیں گھولتے بلکہ اپنے بھید کھول کر زوجیت میں آئی جبری سماعت کا زیر گھولتے ہیں " ۔ مرزا غالب کے زمانے میں فلمیں تو تھیں نہیں ۔ اس لئے وہ کہہ گئے ۔۔


شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
آگر ہمارے زمانے میں یوتے تو کہتے ۔
گانوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے


یہ تمہید آغاز مضمون کے لئے باندھی گئی ہے وگرنہ اصل معاملہ تو بھولے بسرے گانوں کو یاد کرکے ماضی کی پگڈنڈیوں ہر نکلنے کا ہے ۔
آدمی مسافر ہے آتا ہے اور جاتا ہے
آتے جاتے رستوں پہ یادیں چھوڑ جاتا ہے

انسان کی پسند و نا پسند وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل رہتی ہے ۔ آج جو پسند ہے کل وہ کسی گنٹی میں نہیں ۔ پسند کا تعلق عمر ، مزاج ، حالات و واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی کیفیات سے یوتا ہے ۔ کبھی آپ کو کوئی رنگ ، کوئی کھانا ، کوئی لباس ہوتا ہے تو کبھی کوئی فلم یا کوئی گانا ۔ اگر عام فرد کوئی گانا سنے تو عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ رومینٹک ہورہا ہے اور اس کے ذہن میں کوئی محبوب ہے جب کہ ایسا ہونا ضروری نہیں ۔ کوئی بھی خوشگوار یا ناخوشگوار بات ، موسم یا حالات آپ کو گانا سننے یا گنگنائے پر آمادہ کر سکتے ہیں ۔ ماضی کی یادیں گانوں سے جڑی ہوتی ہیں ۔ آپ اپنی عمر کے مختلف حصوں کو گانوں سے یاد کرتے ہیں ۔ کبھی موسیقی دل کو لبھاتی یے تو کبھی اس کے بول ہر دل کھنچا چلا جاتا ہے ۔
میں جب بہت چھوٹا تھا تو پہلی مرتبہ جو گانا میں نے سنا وہ آج بھی اسی طرح مقبول ہے ۔ اس وقت شاعری تو خیر کیا سمجھ میں آتی ۔ بس اس کی دھن اچھی لگی تھی ۔ گانا اچھا لگنے کی وجہ موسیقی اور میاں بیوی کی تکرار تھی ۔

جھوٹ بولے کوا کاٹے ، کالے کوے سے ڈریو
میں میکے چلی جاوں گی تم دیکھتے رہیو
اسکول میں عید ہر سالانہ فنکشن ہوا تو میرے جماعت جمال جس کی آواز خاصی بھاری تھی تو اس نے میری گانائی معلومات کے لحاظ سے بالکل ایک نئے انداز کا گانا گایا ، بہت اچھا لگا ۔
تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی نظارے ہمیں کیا دیں گے
ابھی اسکول میں تھا تو فلم کٹی پتنگ کا ایک گانا بہت پسند آیا ۔


نہ کوئی امنگ ہے ، نہ کوئی ترنگ ہے
میری زندگی ہے کیا ، ایک کٹی پتنگ ہے
(لتا منگیشکر)


لتا منگیشکر سے ایک متعلق ایک جملہ آج تک میرے ذہن میں چپکا ہوا ہے ۔ سالوں پہلے میں ایک دکان والے سے سامان لیا کرتا تھا ۔ بلا کا حاضر جواب تھا ۔ میں بھی جملے بازی کے لئے اسے جان بوجھ کر چھیڑتا تھا ۔ کہیں کہیں وہ جملے میں حدود پار کر جایا کرتا تھا لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ ایک دن وہ لتا منگیشکر کا گانا گنگنا رہا تھا ۔ میں نے کہا : تمھیں لٹا بہت پسند ہے ۔ اس کے بعد جو اس نے جملہ کہا وہ حیران ہی کر گیا ۔ اتنی مکمل تعریف اتنے مختصر جملے میں کبھی لتا نے بھی نہ سنی ہوگی ۔ کہنے لگا :
لتا لتا ہے ۔ باقی سب خطا ہے
زمانے کا تعین مشکل ہورہا ہے لیکن مجھے یہ پاکستانی گانے بھی بہت پسند تھے ۔

چلے ہیں دل والے روڈ ٹو سوات
کیا ہے جو پیار تو نبھانا پڑے گا
میرے جوڑے میں گیندے کا پھول میں تجھے کیسے دیکھوں
یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو

ممکن ہے میری یادداشت میں زیادہ تر گانے انڈین ہی نکلیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1977 سے وی سی آر اور لیڈ سسٹم ( ہر ویک اینڈ پر رات سے صبح تین فلمیں ) اپنے پنجے گاڑھ چکا تھا ۔ ہماری کالج لائف میں درج ذیل گانا اس وقت کے تمام لڑکوں کو ضرور یاد ہوتا ہے ۔ اس گانے کو سنکر بڑے بڑے محبت گریز رومینٹک ہوجایا کرتے تھے تو ہم ایسے کون سے آسمان سے اترے تھے ۔


آنکھیوں کے جھروکے میں تجھے دیکھا جو جھانک کے
مجھے تم نظر آئے بڑی دور نظر آئے


کالج لائف میں تھے تو جگجیت چترا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔
سنا تھا کہ وہ آئیں گے انجمن میں
سنا تھا کہ ان سے ملاقات یو گی
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی ، وہ بارش کا پانی


1976 میں شعلے ریلیز یوئی مگر گھر والوں کی طرف سے ہرمیشن نہ تھی ۔ والد صاحب کو فلموں کا شوق نہ تھا ۔ شعلے کے گانے البتہ سن لئے تھے ۔ اس وقت سب ہی ہٹ تھے ۔

یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے
چھوڑیں گے ہم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے
کوئی حسینہ جب روٹھ جاتی یے
تو اور بھی حسین یو جاتی ہے


آپ سوچ رہے ہوں گے جب گانے اس طرح یاد ہیں تو گائے بھی ہوں گے ۔ ایک واقعہ سن لیجئے تاکہ آپ کو ہماری آواز کی اثر و سرپذیری کا علم یو جائے ۔ ایک مرتبہ کالج کی کینٹین میں لڑکے گانے گا رہے تھے ۔ ہمارا نمبر آیا ۔ ہم نے ایک طربیہ گانے کے ابھی دو لفظ ہی ادا کئے یوں گے کہ واہ واہ کے ڈونگرے برسنے اور ہمارے رونگھٹے کھڑے ہونا شروع یو گئے ۔ کینٹین کے سارے لڑکے ہماری طرف متوجہ ہو گئے ۔ ہمارا ایک دوست بلا کا جملے باز تھا ، کہنے لگا : رونے دھونے والے گانے سنکر دل بھر آتا ہے ۔ درد محسوس ہوتا ہے مگر آج اظہر صاحب کی آواز سنکر یقین ہوگیا کہ سر درد بھی ایسے ہی گانوں سے ہوتا ہے ۔ ہم آٹھ کر جانے لگے تو پیچھے تالیاں سنائی دے رہی تھیں ۔ اس دن آگے اور پیچھے سے تالیاں بجنے کا فرق محسوس ہوا ۔ واقعی گلا گلے پڑ گیا تھا ۔


محمد علی شہکی ، نازیہ حسن ، عالمگیر ، وائٹل سائنز کو بھلا کون بھول سکتا ہے ۔ شہکی اور عالمگیر ہاکستان میں پاپ میوزک کے سرخیل تھے ۔ الن فقیر اور شہکی کا گانا " اللہ اللہ کر بھیا " کس کو یاد نہ یوگا ۔ عالمگیر کا گیت " میں نے تمھاری گاگر سے کبھی پانی پیا تھا " کتنے جوانوں کے دلوں میں جا گزیں تھا ۔ نازیہ نے انڈین فلم قربانی میں " آپ جیسا کوئی میری زندگی آئے " گایا اور پھر بالخصوص نوجوانوں کے دل میں آتی چلی گئیں ۔
ایک زمانے میں مسرت نذیر سالوں بعد کینیڈا سے واپس آئیں تو انہوں نے پی ٹی وی سے پنجابی فوک گیٹ گائے جن میں شادی بیاہ کے گیٹ بھی شامل تھے ۔ اب اللہ جانے یہ مسرت نذیر کی خوش شکلی تھی یا خوش گلوئی یا پھر ہماری خوش سماعتی تھے کہ طبیعت مائل بہ مسرت ہوگئی لیکن یہ اثر زیادہ دن برقرار نہ رہا ۔


ایک زمانے میں سلمی آغا کے گانے " دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے " نے بھی سماعتوں کو اپنی طرف بہائے رکھا ۔ عطا اللہ عیسی خیلوی نے " ادھر زندگی کا جنازہ اٹھے گا " کیا گایا کہ کتنے لوگ ملک بھر میں گھر سے باہر اپنے ہاتھوں اور کاندھوں پر ٹیپ ریکارڈر اٹھائے نظر آئے ۔


اب تو پتہ نہیں کیا چل رہا ہے ۔ نہ میوزک سمجھ میں آتا ہے نہ شاعری ۔ کہتے ہیں روح کی غذا ہے لیکن میں جب گانے والوں کو گاتے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے یہ منہ کی غذا ہے ۔ کبھی پیزا تو کبھی بروسٹ ، کبھی کٹاکٹ تو کبھی برگر ، کبھی بریانی تو کڑاھی کا احساس ہوتا ہے جسے سنکر ہی میرا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے اور بقول شخصے آپ ذہنی قبض کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ گانا گاتے ہوئے جو ان کے چہرے کے تاثرات ہوتے ہیں ۔ دل چاھتا ہے صاف صاف کہہ دوں :

تم مجھے یوں رلا نہ پاو گے
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مضمون کے بعد کون کون اپنے بھولے بسرے گانوں کی پٹاری کھولتا ہے ۔ ماضی کو یاد کرنے میں ذرا سا میوزک آجائے تو آج کل کی ٹینشن والی میوزیکل چیئر سے وقتی افاقہ ہو سکتا ہے ۔ مجھے تو ہوا آپ بھی آزما لیں ۔




.Ek ishiqya khat ki roudad jo hamara na tha. Article 78

 Article # 78

ایک عشقیہ خط کی روداد

جو ہمارا نہ تھا

تحریر : اظہر عزمی

کہتے ہیں اصل دوست اسکول کالج کے زمانے کے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ قصہ 80 کی دھائی کا ہے جب ہمارے کالج کے ایک دوست کچھ عرصے کے لئے بطور کرائے دار ہمارے ہم محلہ بھی رہے ۔ دل نواز اور عاشق مزاج تھے ۔ ایک دن کہنے لگے : تجھے پتہ ہے میں لڑکیوں کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوں ۔ میں نے کہا : آپ گوشہ نہیں ہورا ایک
گوشوارہ رکھتے ہیں جس کا حتمی آڈٹ آپ کی اہلیہ ہی کریں گی ۔

ہمارے یہ دوست "میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے " کے لئے کہاں کہاں نہیں پہنچے ۔ ایک دن گلی میں اکیلے مل گئے ، بولے : تیرے بھائی کو محبت ہو گئی ہے ۔ میں نے کہا : کتنے دن کے لئے ؟ بولے : یہ آخری ہے بس وہ مان جائے ۔ یہی میرا ارمان ہے ۔ ہم نے موقع کی مناسبت سے شعر داغ دیا ۔

جو دل کی دل میں رہ جائے تمنا اس کو کہتے ہیں
جو مر کر بھی نہ ہورا ہوتا ہو اسے ارمان کہتے ہیں

جھلا کر رہ گئے اور لگے شاعروں کو سنانے ۔ کہنے لگے بھائی یہ سارے شاعر واعر ناکام عاشق تھے ۔ میں نے کہا تو آپ نے کون سا عاشق کا ماونٹ ایورسٹ سر کر لیا ہے ۔ محبت کے سارے فلاپ شوز کے ہیرو آپ ہی رہے ہیں ۔ بحث کے موڈ میں نہیں تھے ، خاموش ہوگئے ۔ ہمارے دوست کا فلسفہ محبت بہت مختلف تھا ۔ کہتے تھے جس سے محبت کی جائے ، اس سے شادی کی جائے جبکہ میں کہتا تھا کہ جس سے شادی ہوجائے ، اس سے محبت کی جائے ۔ خیر انہوں نے بتایا کہ محبت کا سلسلہ تیسری گلی کے کونے والے مکان ہر جا کر رک گیا ہے ۔ لڑکی کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے اس لئے گلی کے نکڑ پر کھڑے ہو کر محبت کے تار چھیڑ نے سے کچھ حاصل نہ ہوگا ۔ خط کو حال دل کہنے کا ذریعہ بنانا ہوگا ۔ میں سمجھ گیا کہ محبت کی یہ منشی گیری مجھے کرنی ہوگی ۔

خط لکھنے بیٹھے ۔ میں نے آغاز تحریر کیا ۔
جان سے پیاری حسینہ ( فرضی نام )
بولے : اسٹارٹنگ میں یہ زیادہ نہیں ہو جائے گا ؟
میں نے کہا کہ شروع میں ہی بتا دو کہ میں تمھارے لئے ابھی سے جان دے سکتا ہوں ۔ راضی یو گئے ۔

اب خط آگے بڑھا ۔
جب سے تمھیں غور سے دیکھا ہے دل مرغ بسمل اور ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا ہے ۔ بے قراری سی بے قراری ہے ۔ جان جانے کی تیاری ہے ۔

قلم پر ہاتھ رکھ دیا : یہ تو مجھے ابھی سے مرغا بنا رہا ہے اور یہ جان وان میں بالکل بھی دینے کا نہیں ۔
میں نے کہا : آپ نے کہا لڑکی کا تعلق ادبی گھرانے سے ہے تو پھر محبت کو با ادب ہی رہنے دیں ۔ محبت میں بے ادبیاں قاتلانہ ہوتی ہیں ۔ یہ تراکیب عاشقانہ و جان نثارانہ بڑی بار آور ثابت ہوں گی ، دیکھ لینا ۔
مزید رقم طراز ہوا : تمھاری ناگن جیسی سیاہ ذلفیں ، بلوری آنکھیں ، پنکھڑیوں جیسے تراشیدہ ہونٹ ، صراحی دار گردن ۔۔۔ اس سے آگے لکھنے والا تھا کہ چلا کر بولے : اب اس سے نیچے نہ آنا ۔ میں چونک گیا ۔ بولے : اس سے خراب اردو میں نے آج تک نہیں پڑھی ۔ بھائی کوئی انسانوں والی بات بھی لکھ دو ۔
میں نے کہا : سیدھا سیدھا آئی لو یو لکھ دوں ۔ محبت نامہ تو ایسے ہی لکھا جاتا ہے ۔ بولے : سمجھ جائے گی ۔ میں نے کہا : خط پڑھتے ہی دیوانہ وار تمھارا انتظار کرے گی اور خط ہاتھ میں کے کر گائے گی ۔

میرے محبوب کا آیا ہے محبت نامہ
وہ خوشی دل کو ملی ہے کہ بتا بھی سکوں

اور اس دوران گھر کا سفید پردہ اڑ اڑ کر اس کے چہرے اور زلفوں سے اٹھکیلیاں کر رہا ہوگا ۔ بتا دوں یہ خط شرطیہ نئی کاپی ہے ۔ خوش ہو گئے ، بولے اب کوئی ملنے ملانے کی بات بھی تو کرو ۔ میں نے کہا : یہ لو ۔۔۔ حسینہ یہ دوری اب میرے لئے سوھان روح بن گئی ہے ۔ کیا ملاقات کی کوئی صورت تمھاری صورت دکھا سکتی ہے ۔ جلد مطلع کرنا کہیں میرے دل میں تم سے ملنے کی آس ہی نہ ٹوٹ جائے ۔ شام غم شب فرقت کی نوید نہ بن جائے اور نوید مسرت کے کارڈ دھرے کے دھرے نہ رہ جائیں ۔
تمھارے عشق کا مارا
سرفراز شکیل تمھارا

اس کے ساتھ ہی میں نے کاغذ ہر دل بنا کر اس میں ایک تیر گھونپ دیا اور جب وہ تیر دل کی دوسری جانب نکالا تو اس کی نوک ہر خون کے بہتے قطرے دکھا دیئے ۔ چاروں طرف چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے دل اور تارے بنا دیئے ۔ بہت خوش ہوئے ۔ میں نے کہا کہ دن میں تارے بنانا آسان نہیں ۔ میں تو خط دے کر چلا آیا اور بات آئی گئی ہوگی ۔
ایک دن شام میں گلی کے کونے پر بھیڑ لگی دیکھی ۔ تھوڑا دور سے قریب گیا تو کیا دیکھتا ہوں ؟ سرفراز کے گرد ایک جھمگٹا لگا ہے اور سرفراز بے سہرا ، سر جھکائے دولھا بنے بیچ میں بیٹھے ہیں ۔ ان کے گرد حلقہ کئے لوگ انہیں سلامی دے رہے ہیں ۔ حسینہ کے بھائی کا سلامی دینے سے دل ہی نہیں بھر رہا تھا ۔ میرے ہاتھ کا لکھا خط اس کے ہاتھ میں تھا : یہ بتا یہ خط لکھنے کی تیری ہمت کیسے ہوئی ؟ ۔ سرفراز نے روہانسی آواز میں کہا : ایمان سے میں نے نہیں لکھا ۔ میں نے جو یہ سنا تو لگا " اب اسے سے آگے ہمارا بھی نام آئے گا " اور چپکے سے گھر کی راہ لی ۔ بس کانوں میں سرفراز کی محبت خراش چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔

گھر کے باہر خاموشی سے آکر بیٹھ گیا ۔ تھوڑی دیر بعد سرفراز گرد آلود ، خراش زدہ چہرے اور لنگڑاتی محبت کے ساتھ گلی میں داخل ہوئے ۔ میں نے اپنی بھونڈی آواز ( اس وقت اتنی درد انگیز آواز میری ہی ہو سکتی تھی ) گنگنائے لگا ۔

کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا
کبھی سوچا نہیں تھا ہم نے یوں مار کھانے کا
واقعی حسینہ کے بھائی نے " حق بھائیگی " ادا کردیا تھا ۔ ادائیگی کی تمام مہریں سرفراز کے چہرے پر ثبت کردیں تھیں جو وفور جذبات میں جسم کے دیگر حصوں تک بھی جا پہنچا تھیں ۔ سرفراز کراہ رہا تھا ، کہنے لگا : یار بہت للٹا للٹا کر مارا ہے ۔ میں نے حیرت سے کہا : بھائی یہ کون سی اردو ہے للٹا للٹا کر ۔ لٹا کر ہوتا ہے ۔ کہنے لگا : مار تو نے کھائی ہے یا میں نے ۔ اگر ایک بار مار مار کر لٹائیں تو لٹا کر ہوتا اور اس طرح بار بار لٹائیں تو للٹا للٹا کر ہوتا ہے ۔ میں نے کہا : زبردست یار تیری تو اردو مار کھا کر بالکل ہی جدید ہوگئی ہے ۔ اس عاجزانہ مرمت کے چرچے

جب گلی گلی ہوئے اور بات گھر والوں تک پہنچی تو علاقے سے ہجرت برائے ترک محبت کر لی گئی ۔
خیر سے سرفراز بھائی کی ایک جگہ ارینجڈ میرج ہوئی مگر زندگی بھر ان کو اس بات کا قلق رہا کہ شادی سے پہلے محبت کی بیل مونڈھے نہ چڑھ سکی البتہ کم از کم ایک کیس میں تو وہ لڑکی کے بھائی کے ہتھے چڑھ گئے ۔ بیٹے کی شادی میں مدعو کیا ۔ نکاح کے بعد مبارکباد دینے گیا تو بڑے گھک کر ملے ۔ کچھ دیر میرے ساتھ بیٹھا رہے ۔ میں نے ازراہ مذاق پوچھا : کیا ارادے ہیں ۔ طبیعت میں محبت کا تنبو ابھی تک لگا ہے یا اکھاڑ پھینکا ؟ بولے : تجھے پتہ ہے چھٹتی نہیں ہے منہ سے کافر لگی ہوئی ہے ۔ میں نے کہا : چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جانے ۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر دور کھڑی بیوی کی طرف اشارہ کر کے کہا : یار تھانیدار بہت سخت ملا ہے ۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...