Wednesday 24 June 2020

Article # 64 مولانا اور ڈاکٹر ۔۔۔ دو صاحبان جن کے آگے زبان ہی نہیں کھلتی ۔


Article # 64


مولانا اور ڈاکٹر ۔۔۔ دو صاحبان
جن کے آگے زباں ہی نہیں کھلتی





تحریر :اظہر عزمی 

میں نے اپنی زندگی میں (چند ایک کو چھوڑ کر) بڑے بڑے فصیح البیان ، سلطان برجستہ و بامعنی سوالات اور صدر قاطع الدلائل کو دو افراد کے سامنے ادب کے نام پر ، احترام کے نام ہر کم گو اور جان چھڑاو پایا ہے ۔ بنیادی سوالات پوچھنے کی صلاحیت کو معدوم دیکھا ہے ۔ ملاقات کے بعد کہتے ہیں ۔ ارے دیکھو میرے دماغ کو بھی کیا ہو گیا ہے؟ اتنی اہم بات پوچھنا ہی بھول گیا ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے وہ دو افراد کون ہیں ؟ تو جناب ایک تو مولانا صاحب ہیں اور دوسرے ڈاکٹر صاحب ۔

ان دونوں صاحبان کے سامنے عزت و احترام اپنی جگہ لیکن اتنے بچکانے پن سے سوال کرتے ہیں کہ پوچھنے والے کی ذہنی صلاحیت پر شبہ ہونے لگتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب سے دوا کھانے کی ترتیب و اوقات ایسے پوچھتے ہیں جیسے چھٹی کے وقت نرسری کا بچہ مس سے ہوم ورک کا پوچھتا ہے ۔ایک بڑا خوف یہ بھی رہتا ہے کہ پیٹ کی معمولی خرابی سے کہیں کسی بڑی بیماری کی بریکنگ نیوز نہ مل جائے ۔ مریض ہلکا یو تو ڈاکٹر صاحب بھی کھیل جاتے ہیں " ذرا احتیاط کیجئے گا ، آگے مسئلہ ہو سکتا ہے "۔

مولانا صاحب سے یہ ڈر رہتا کہ وہ دین سے دوری کو دوزخ آشیانی کی نوید جاں خیز قرار نہ دے دیں ۔ مولانا اگر کہیں یہ کہہ دیں کہ آج کل شریف چہروں والوں میں بھی برائیاں عام ہوتی جا رہی ہیں تو بندے کا خیال سب سے پہلے اپنے منہ مبارک پر جاتا ہے ۔ ایک لمحے کو مولانا صاحب سے نظریں بچانے لگتا یے اور پھر ایک دم کہتا ہے جی جی ۔ حالانکہ مولانا صاحب نے بھی پتہ ہی پھینکا ہوتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ زمانے بھر کے ہوشیار ان کے سامنے بچے بن جاتے ہیں ۔

یاد رکھیں ! ان میں سے ایک آپ کو دین کی راہ دکھاتا ہے جس سے آپ کی دین و دنیا کی زندگی سنورتی ہے اور ایک آپ کی زندگی بچاتا ہے اسے صحت مند رکھنے میں معاون ہوتا ہے ۔ ان دونوں صاحبان سے ترتیب و تفصیل سے بات کریں ۔ خوف اور بے یقینی کا شکار نہ ہوں ۔اس طرح بہت ساری غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے گا ۔ کچھ یا کافی عرصہ سے ذہن میں پنپنے والے مغالطے ختم ہو جائیں گے ۔
جب گھر کے لئے کوئی معمولی چیز بھی خریدیں تو قیمت سے لے کر کوالٹی تک کئی سوالات اور جب زندگی ، صحت اور آخرت کا معاملہ ہو تو چپ لگ جاتی ہے ۔ یہ احترام ہے ، بے اعتنائی ہے یا جو ہوگا دیکھا جائے گا کی بنیاد جان بوجھ کر نظر اندازی ۔۔۔۔ اللہ جانے !

Monday 22 June 2020

Article # 63 آج کے نوجوان میں کچھ نہ ہونے اکڑ نہیں جاتی ۔ بات کریں تو ساتویں آسمان پر !


Article# 63


آج کے فارغ نوجوان میں کچھ نہ ہونے کی اکڑ نہیں جاتی ۔
بات کریں تو ساتویں آسمان ہر پائیں گے ۔

اب ذرا نیچے اتریئے آدمی بن جایئے ۔  




تحریر :  اظہر عزمی

جو نوجوان  سب سے زیادہ فارغ یے وہ سب سے زیادہ جلدی میں ہے ۔ روڈ پر دیکھ لیں موٹر سائیکل پر جو سب تیز جارہا یوگا اور لگے گا کہ انتہائی ایمرجنسی میں یے ۔ وہ آپ کو کسی نہ کسی سگنل پر مل جائے گا ۔ یقین جانیں اس جلدی آدمی کو گھر جا کر صرف چائے پی کر دوبارہ دوستوں میں نکل جانا ہے ۔ جو بھی مصروف ہے ۔ اپنے وقت کا صحیح مصرف جانتا ہے وہ کبھی بھئ آپ کو  روڈ پر جلد بازی اور خطرناک طریقے سے ڈرائیونگ کرتا نظر نہیں آئے گا ۔

جو سب سے زیادہ فارغ ہے ۔ وقت پاس (Pass) نہ ہونے کا رونا رویے گا ۔ آپ اس سے کسی کام کا کہہ دیں ۔ دنیا کا مصروف ترین آدمی بن جائے گا ۔ 3 بجے دوست کے جانا ہے ۔ 5 بجے ماموں کو سب کے ساتھ ائیرپورٹ چھوڑنے جانا ہے ۔ جیسے ہی گھر آوں گا دوست کی بہن کی شادی کے لئے ہال بک کرانے جانا یے ۔ آپ نے کہا چلیں کل کر دیجئے گا ۔ جواب سنیں " انکل ساری پھٹیک تو کل ہی کی ہے ۔ صبح سے بزئ ہوں  ۔ ایک کام کریں (یہ دیکھیں گیند کیسے واپس کورٹ میں ڈاک دی ) ابھی آپ یہ کام کر لیں ۔ باقی کبھی کچھ یو تو بتائے گا ۔ اب کوئی احمق ہی یوگا جو بتا ئے گا ۔

ملازمت کا بھئ سن لیں ۔ ایک رات آپ کے گھر آئیں گے اور اپنے والد صاحب کے حوالے سے اپنی ملازمت کا کہیں گے ۔مطلب میں خود نہیں آیا ہوں یہ ٹوپی بھی ابا کے سر ہے ۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ گریجویشن سے آگے کی کہانی ہو گی مگر پتہ چلے گا صاحب نے انٹر کیا ہے ۔بات کیسے شروع کریں گے۔

آپ : ایجوکیشن کتنی ہے ؟ 

صاحب : وہ انکل B.Sc 

آپ : اچھا ۔ 

صاحب : نہیں انکل ۔وہ دراصل جس دن فزکس کا پیپر تھا ناں ۔ اس سے ایک دن پہلے میں رات کو پڑھ کر گھر آرہا تھا تو وہ میری موٹر سائیکل ہے ناں 

آپ : ہاں 

صاحب : وہ اس دن ناں ہلکی سی بارش ہوگئی ۔ پھسل گئی ۔ صبح اٹھا ۔ پیپر دینے جارہا تھا لیکن وہ تکلیف اتنی تھی کہ اٹھا ہی نہیں گیا ۔ وہ اس لئے ۔۔۔

آپ : تو یہ کتنے سال پہلے کی بات ہے 

صاحب : (پہلی بار ہلکے نظر آئے ) چار سال ہو گئے 
 (لیکن پھر اوپر سے آئے) اس سال دے دوں گا ۔ایک ہی تو  پیپر ہے ۔

آپ : مطلب انٹر ہیں ناں فی الحال تو آپ ؟

صاحب : (نظریں جھکا کر ) جی 
بس انکل کچھ دیکھ دیں میرے لئے ۔آپ نے شیری کی بھی تو جاب کرائی ہے ۔ 

آپ : اپنی CV دے بھی جانا اور مجھے mail بھی کردینا ۔

اب صاحب آپ کو نظر نہیں آئیں گے ۔ایک دن CV کی کاپی لائیں گے جو سال دو سال پہلے کرائی گئی تھی ۔ لحاف یا تکیے سے نکالی گئی ہے جو اپنی تاریح پرنٹ اور صاحب کے ہاتھوں بے اعتنائی ہر نوحہ کناں ہے ۔

 ایک صفحے کی رٹی رٹائی cut and paste کی درخواست وہ بھی بغیر تعلیمی اسناد کے دے دی جائے گی ۔ اب اس کا پوچھیں ۔

صاحب : ہاں تو انکل میں نے لکھ تو دیا ۔ ڈاکیومینٹس تو انٹرویو کے وقت لے جاوں گا ۔ 

اب اسے کون بتائے کہ اس درخواست پر تو انٹرویو کا وقت ہی نہیں آئے گا ۔ کچھ دن بعد آپ کسی کے منہ سے سنیں گے ۔ انکل وہ آپ نے جنید کی درخواست لی تھی ۔ کچھ ہوا اس کا ۔ آپ حیران کہ یہ پیغامبر  کہاں سے آٹپکا ۔ پھر کہانی کھلے گی کہ موصوف نے دس لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ بھائی آج کل کوئی کسی کے کام نہیں آتا ۔ اتنے دن سے انکل کو جاب کی ایپلیکیشن دی ہوئی ہے ۔ بس لے کر بیٹھ گئے ہیں (اس میں نازیبا الفاظ کو حذف سمجھیں)

سب سے اہم بات اگر کسی سے لڑائی ہوجائے تو آپ بھرم دیکھیں ۔ وہ ریفرنس دیں گے کہ منہ above the surface رکھنا مشکل ہوگا ۔اگر کسی سے جھگڑا ۔۔۔ ارے یہ تو میں بڑی بات کہہ رہا ہوں ۔موٹر سائیکل بھئ ٹچ یو جائے  تو پھر بات کرنے کی tone and tune دیکھیں ۔ لگے گا ان سے بڑا پھنے خان علاقے میں کوئی نہیں ۔ ناک ہر مکھی نہیں بیٹھنے دینا ۔ چاھے حالات کی وجہ سے خود پورے کے پورے بیٹھ جائیں ۔ 

کوئی ان کے point of view سے ہلکی سی بھی ٹیڑھی بات کرنے پھر دیکھیں ۔ کیسے اچھل اچھل کر آتے ہیں ۔ چٹکی بجا کر کیسے کہتے ہیں "اب تو نکل لے ورنہ تو جانتا نہیں یے مجھے ۔۔۔ یہ بھرم ورم (آگے سنسر کی پالیسی کا اطلاق ہوتا ہے ) ۔ جیب میں روپیہ نہ یو مگر باتیں سنیں تو لگے گا والد صاحب نے بینک کھولا ہوا ہے ۔

 کچھ نہ ہونے اور ناکامی کی اکڑ بہت خطرناک ہوتی ہے ۔ اس کا صرف ایک علاج ہے ۔۔۔ خود کو دھوکے میں مت رکھیں ۔

Saturday 20 June 2020

Article # 62 مجھے بچپن میں اپنے والد میں خدا نظر آتا تھا ۔ فاردز ذر پر ایک غیر روایتی تحرئر




Article # 62


مجھےبچپن میں 
اپنے والد میں خدا نظر آتا تھا !

(فادرز ڈے کے موقع پر ایک غیر روایتی تحریر)



تحریر: اظہر عزمی

جب میں بہت چھوٹا اتنا چھوٹا کہ بس خدا کا نام سنا تھا ۔ میری معصوم سوچوں کو نہ جانے کیوں اس وقت اپنے والد (سید شہزاد حسین المتخلص کوثر سلطان پوری) میں خدا نظر آتا تھا ۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ سوچنا کیسا ہے ؟ جیسے جیسے بچپن سے لڑکپن کی طرف آیا ۔ والد صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے گئے۔ 

میں یہ سب کہہ کیوں رہا ہوں ؟

 کبھی کوئی غلطی کرتا تو لگتا کہ آج خیر نہیں ۔ جب تک وہ نہ آجاتے ڈرا سہما رہتا ۔ غلطی بڑی ہے سزا بھی بڑی ملے گئ ۔امی بھئ یہ کہتیں کہ تمھارے ابو آج بہت غصے ہوں گے لیکن سب الٹا ہو جاتا ۔ پوری بات سنتے اور اچھا برا سمجھاتے ۔ میں سوچتا یہ کیا ہوا ؟

کبھی کبھی کوئی بہت چھوٹی سی غلطی جس پر میرے خیال سے دھیان کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی ۔ انتہائی اہمیت دیتے ۔ امی کہتیں بھی کہ بچہ ہے ایسا کیا کردیا ۔ وہ کہتے کہ یہ بڑی بات ہے اگر ابھی نہیں سمجھایا تو کرتا رہے گا ۔ یہاں روک ٹوک لازمی ہے ۔ 

کبھی کبھی کسی غلطی یا کوتاہی ہر بہت سرزنش کرتے ۔ میں سوچتا اب بات نہیں کریں گے لیکن یہ کیا کچھ دیر یا بہت سے بہت ایک دن بعد پھر وہی محبت و عنایات ۔ سب کے سامنے ڈانٹنے یہاں تک ٹوکنے سے بھی حتی الامکان گریز کرتے ۔ اگر والدہ کبھی ایسا کرتیں تو منع کرتے ۔ کہتے سمجھانا ضروری ہے مگر عزت نفس کو مجروح مت کریں ۔ اکیلے میں سمجھائیں تاکہ آئندہ ایسا کرے تو آپ کا چہرہ سامنے آجائے جس میں آپ کے عزت و احترام کا خیال ہو ، خوف نہیں ۔

میں کوئی ضد کرتا تو کبھی فورا پوری کر دیتے ۔ کبھی تو کسی چیز ہر میری طلب بھری نگاہوں کو پہچان لیتے اور وہ چیز لے آتے ۔ کبھی کہنے ہر بھی سال یا اس سے بھی زیادہ لگا دیتے ۔ میں نے دو پہیوں والی سائیکل کی ضد کی ۔ بڑا رویا دھویا ۔ امی نے بھئ کہا دلا دیں مگر وہ خاموشی ہی اختیار کرتے رہے ۔ پھر جب میں نے ذرا قد نکالا  تو کیا دیکھتا ہوں گھر میں نئی چمچماتی سائیکل کھڑی ہے ۔ میں تو اپنی ضد کبھی کی بھول چکا تھا ۔ میں  نے امی سے پوچھا کہ یہ ابو کا کس کے لئے لائے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تمھارے ابو اندر بیٹھے ہیں ۔ خود جا کر پوچھا لو ۔ میں نے کمرے میں جا کر پوچھا کہ یہ سائیکل آپ کس کے لئے لائے ہیں ؟ تو بولے تمھارے لئے ۔ میں ہکا بکا کھڑا تھا ۔ خوشی ایسی کہ چھپائے نہ چھپے ۔ کمرے سے باہر آئے ، کہا سائیکل پر بیٹھو ۔ میں بیٹھا تو سب سے پہلے یہ چیک کیا کہ میرے پیر پیڈل تک با آسانی پہنچ رہے ہیں کہ نہیں  ۔ بولے بس میں اسی کا انتظار کر رہا تھا کہ تم اتنے بڑے ہو جاو۔ سائیکل صرف شام میں چلاو گے اور بڑے روڈ پر نہیں جاو گے۔  

راستے میں اگر کوئی فقیر مل جاتا تو پیسے جیب سے نکال کر مجھے دیتے اور کہتے کہ تم اپنے ہاتھ سے دو ۔ دینے کی عادت ڈالو ۔ پروردگار بہت دے گا ۔

عید آتی تو دو یتیم بچے ہمارے ہاں ضرور آتے ۔ ہماری مالی حالت بھی مستحکم نہ تھی مگر ان کے لئے عید کے کپڑوں اور پیسوں کا انتظام ضرور کرتے ۔ مجھے ساتھ بٹھاتے ( میں شرمندہ ہوں کہ میں اس طرح نہ کر سکا) ۔

میں امتحان میں پاس ہوتا تو کہتے تعلیم اگر انسان سازی نہ کر سکے تو پھر یہ نمبروں کا کھیل ہے ۔ نمبروں کی دوڑ انسان کو تھکا مارتی ہے ۔ میں آپ کو دلچسپ بات بتاوں ۔ میں بڑے بڑے گھر اور لمبی لمبی گاڑیاں دیکھ کر گھبرا جاتا ہوں ۔ سوچتا ہوں کہ کیا ان کو جانا نہیں ہے ۔ یہ بھی میرے والد کی تربیت کا اثر ہے ۔ مجھے میرے والد نے یہی سکھایا کہ پڑھے لکھوں کی صحبت میں رہو کیونکہ یہی امیر لوگ ہیں ۔ان کے پاس علم کی دولت ہے ۔ آج بھی یہ صورت حال  ہے کہ پیسے والوں سے مل کر خوشی نہیں ہوتی ۔ چاھتا ہوں کہ جلد ملاقات ختم ہو ۔ وہ گفتگو میں کہیں نہ کہیں اپنے دام  میں پھنسانے لگ جاتے ہیں اور مجھ جیسوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دام  میں پھنسے نہیں اور کسی دام بکتے نہیں ۔

کبھی کمرے میں اکیلے کے کر بیٹھ جاتے اور اپنے بچپن کے قصے ، قیام پاکستان کے بعد ملازمت کی تگ و دو کا بتاتے ۔ کہنے لگے جب میں پہلی ملازمت کے انٹرویو کے لئے گیا تو میری قمیض کاندھے سے پھٹی ہوئی تھی ۔ میں نے اس ہر رومال رکھا ۔ خیال تھا کہ نوکری نہیں ملے گی مگر سامنے والا صاحب نظر تھا ملازمت دے دی ۔ کہنے لگے انسان کو لباس سے کبھی مت پرکھنا اس میں دھوکا ہی دھوکا ہے ۔ 

کبھی گھر میں کسی کی بات ہوتی اور اس کی غیبت کا کوئی پہلو نکلتا تو فورا ٹوک دیتے ۔ چھوڑو " میاں کوئی اور بات کرو "۔ جب کوئی کہتا کہ نہیں یہ جھوٹ نہیں ۔ تو کہتے کہ ہہی تو غیبت ہے ۔ اگر اس سے کوئی غلط یا جھوٹی بات منسوب کرو گے تو وہ تو بہتان ہو جائے گا ۔ 

میں نے کبھی کسی کی برائی کرتے ہوئے نہیں سنا ۔  راسخ العقیدہ تھے لیکن متعصب بالکل بھی نہیں ۔ مزاج صلح کل تھا ۔ کہتے تھے میاں اس کے بندوں کی پردہ پوشی کرو ، وہ تمھاری پردہ پوشی کرے گا ۔

لڑائی جھگڑے سے کوسوں دور رہتے یہاں تک اپنا حق بھی چھوڑ دیتے۔ کوئی کچھ کہتا تو کہتے  " پروردگار  بہتری کی کوئی اور سبیل نکالے گا ۔ وہ مسبب الاسباب ہے " ۔ گفتگو بہت مختصر کرتے ۔ اس میں بھی احتیاط کے پہلو کو مد نظر رکھتے کہ مبادا کہیں کوئی دل آزادی کا پہلو نہ نکل آئے ۔ اگر میں ان کے لیے کسی کام میں کبھی تاخیر کردیتا تو غصے کے اظہار کے لئے صرف اتنا کہتے " میاں آپ بہت منتشر الخیال قسم کے آدمی ہیں ۔ آپ کو اتنی سی بات یاد نہیں رہتی "  ۔  اب بتائیں کون ہے جو مجھے اس طرح مخاطب کرے گا ؟

آپ صرف ایک واقعہ سے ان کی شرافت اور کورٹ کچہری سے دوری دیکھئے ۔ ایک مرتبہ کسی کلائنٹ کا بطور پارٹ ٹائم اکاؤنٹنٹ کام کیا ۔ ایک مشہور وکیل نے آپ کو وہاں بھیجا تھا ۔ دو سال تک بغیر معاوضے کے کام کیا ۔ کلائنٹ پیسوں میں بہانے بازی کرتا رہا ۔ ایک دن  وکیل صاحب کو پتہ چلا تو کہا اب آپ وہاں نہیں جائیں گے ۔ آپ میرے حوالے سے گئے تھے پیسے دلوانا میری ذمہ داری ہے ۔ وکیل صاحب نے کیس کردیا ۔ والد صاحب انتہائی پریشان ہو گئے ۔ والدہ نے مجھے بتایا ۔ میں نے والد سے پوچھا کہ آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ۔ کلائنٹ نے آپ کے پیسے کھائے ہیں اور آپ نے کون سا کیس کیا ہے ۔ پیسے کھائے ہیں اس نے آپ کے ۔ بولے " میرے لئے یہی پریشانی بہت ہے کہ کورٹ میں پیشی کے لئے میرا نام پکارا جائے " ۔

یہ تذکرہ میرے والد کا نہیں ۔ ہم  میں سے ہر ایک کے والد کا ہے  ۔ پڑھتے پڑھتے آپ کو اپنے والد ضرور یاد آئے ہوں گے ۔

Article # 61 عزت نفس سے بڑ ھکر کچھ نہیں ۔ ہمدردی کی بھیک مت لیجئے !

Article # 61

عزت نفس سے بڑھ کر کچھ نہیں !




تحریر : اظہر عزمی
(ایک اشتہاری کی باتیں)


میں جسمانی طور ہر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک پر سکون گھر میں رہتا ہوں اور روحانی طور یقین کی چھت کے تلے عزت نفس کی محفوظ چار دیواری میں مطمئن اور آسودہ حال و خیال ہوں ۔ عزت نفس میرا سب سے بڑا اثاثہ و راز حیات ہے ۔ اس کی چار دیواری کی ایک ایک اینٹ میں نے اپنی سرشت اور تربیت کی بنیاد پر طے کردہ اصولوں اور ضابطوں ہر رکھی ہے ۔ میں یہاں مقید ( قید تو انا کی ہوتی ہے ) نہیں مقیم ہوں ۔ اسی لئے میں نے اس میں خود شناسی اور خود احتسابی کے روشن دان لگائے ہیں تاکہ خود پسندی کا حبس نہ ہو اور افکار و خیالات کی تازہ ہوا آتی رہے ۔ خود اعتمادی اور خود انحصاری کے دروازے پر تزکیہ نفس کے پاک و پاکیزہ خود دار دربان بٹھا رکھے ہیں ۔اس ہر طرہ یہ کہ ہر وقت میری سوچیں پہرہ زن رہتی ہیں اس لئے کسی کے نقب زن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ 

عزت نفس ۔۔۔ سب سے بڑی طاقت ، سب سے بڑی کمزوری

میں جانتا ہوں کہ میری عزت نفس کو باہر سے کوئی بمشکل ہی نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ یہ اندر سے بہت مضبوط ہے ۔ میں یہ بھی جانتا یوں کہ انسان کی طاقت ہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے ۔ یہ کمزوری اسی وقت آتی یے جب کوئئ اندر سے شکستہ ہوں ۔ حوصلہ ہار گیا ہو ۔

خود پر ترس کھانا ۔۔۔ عزت نفس کی سب سے  ذلت آمیز شکست 

یوں تو عزت نفس کی شکست کے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں لیکن جو سبب سب سے عام ہے ۔ میرے مشاہدے کے مطابق وہ خود پر ترس  کھانا (خود ترسی ) یے ۔ یہ بظاہر بہت ہی ضرر سی چیز معلوم دیتی ہے لیکن یہ عزت نفس کئ بنیادیں ہلا دیتی ہے ۔ لوگ اس کی طرف کم کم توجہ دیتے ہیں ۔

خود پر ترس کھانا عزت نفس کی سب سے ذلت آمیز شکست ہے کیونکہ اس میں کوئی دوسرا مد مقابل نہیں ہوتا ۔ خود سے خود ہی کی جنگ ہوتی ہے جس میں کسی صورت ہار سے نہیں بچا جا سکتا ۔

ہے کوئی جو مجھے ہمدردی کی بھیک دے !

عزت نفس کی اس ذلت آمیز شکست میں جو ہتھیار سب سے کارگر ہے اسے ہمدردی کہا جاتا ہے ۔ ہمدردی کے نام ہر عزت نفس کی مضبوط ترین عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ یہ ہتھیار ہم خود لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں اور چاھتے ہیں کہ اس کو ہم ہر آزمایا جاتا رہے  ۔ عزت نفس کئ زمیں بوس عمارت سے  نکلے شخص کی مثال اس فقیر کی سی ہے جو بازار کے کسی کونے میں ( اپنے طور ہر ) قناعت (فرار) کی چھوٹی سی چادر بچھائے سر جھکائے بیٹھا ہوتا ہے ۔ جب حسب ضرورت بھیک نہ ملے تو پھر یہ کشکول اٹھائے گھر گھر صدا لگاتا ہے ۔ ہے کوئی جو مجھے ہمدردی کی بھیک دے ۔

( جو لوگ اپنی عزت نفس کا سودا کرتے ہیں ۔ وہ یہاں مقصود بیان نہیں )

Saturday 13 June 2020

Article # 60 سب سے ملتے ہیں ، خود سے کیوں نہیں ملتے !



Article # 60


سب سے ملتے ہیں ، خود سے کیوں نہیں ملتے ! 

تحریر :اظہر عزمی




ہاں ! مجھے اعتراف ہے 

میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اتنا مصروف اور مطمئن رہا کہ تعلق داری کے فن سے ہی نا آشنا رہا ۔ کام اور کام سے گھر ۔ اب جب سے سوشل میڈیا آیا ہے تو تھوڑی بہت سلام دعا ہو بھی گئی یے ورنہ پہلے یہ بھی نہ تھی ۔ پبلک ریلیشننگ کا خانہ زندگی کا کمزور ترین خانہ رہا اس ہر افتاد یہ  رہی کہ گفتگو کا اتنا چور کہ سامنے والا احساس کمتری میں مبتلا سمجھے ۔۔ بس جتنا چاھیں  لکھوا لیں ، نئے نئے آئئڈیاز  پر لمبی لمبی لاحاصل میٹنگز نہ کروائیں ۔ کام کروائیں۔ تقریر اور دلائل سے سیلز مین شپ کبھی نہ آئی ۔ وہ تو اوپر والے کا کرم رہا ، مال بکتا رہا ، ملازمت چلتی رہی اور الحمد للہ  آج بھی عزت سے چل رہی ہے ۔

میرا مسئلہ کیا ہے ؟ 

میں سیدھی سادی بات بہت گنجلک اور انٹلیکچوئل طریقے سے نہیں کر سکتا ۔ بات بہ بات موٹے موٹے ناموں اور کتابوں کے حوالے نہیں دے سکتا ۔ گفتگو میں فلسفے کے انڈے نہیں پھینٹ سکتا ۔ گفتگو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ زندگی کو جتنی سادگی سے گذارا ہے اتنی ہی سادگی سے بیان کرنا چاھتا ہوں ۔ مشکل پسندی مزاج کا حصہ کبھی نہیں رہی ۔ ہاں کھرا پن جسے کچھ لوگ بدتمیزی بھی کہہ سکتے ہیں ۔وہ ضرور ہے ۔ انسان ہوں جب دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں سے تعلقات ہیں ۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے تو کبھی کبھی خود پر غصہ آتا ہے ، کڑ جاتا یوں ۔ اب تو رہا سہا حلقہ احباب بھی نہیں رہا ۔ جب تھا تب بھی بہت محدود افراد پر مشتمل ۔ ان میں سے کچھ اللہ کو ، کچھ دیار غیر کو اور کچھ بیویوں کو پیارے ہو گئے ہیں۔

یہ سب لکھ کیوں رہا ہوں ؟

یہ سب میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ایک صاحب نام شخصیت نے مجھ سے کہا کہ تمھیں جانتا کون ہے ؟ میں نے بہت سادگی سے کہا کہ میرے لئے یہی کافی ہے میں خود کو جانتا ہوں یا جاننے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں ۔ پوری دنیا آپ کو جاننے کا دعوی کرے لیکن اگر آپ خود کو نہیں جانتے تو سب بیکار ہے بلکہ یہ تو آپ کے ہونے پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ اگر تم خود کو ہی نہیں جانتے تو کسی اور کو کیا جانو گے۔ خود کو نہیں جانو گے تو اپنے خالق کو کیسے جان پائو گے۔  خود شناسی خدا شناسی ہے ۔

میں تنہا یا اکیلا نہیں !

 یہ مت سمجھ لیجیئے گا کہ میں تنہا یا اکیلا ہوں ۔جو خود سے مل لیتا ہے وہ تنہا یا اکیلا نہیں ہوتا ۔ ہم اپنی زندگیوں میں اتنے نام نہاد مصروف ہوگئے ہیں کہ خود سے ہی نہیں مل پاتے ۔ ہفتہ میں ایک بار سہی خود سے ملیں تو آپ اپنے بہترین دوست سے ملیں گے 

سب سے ملتے ہیں ، خود سے کیوں نہیں ملتے؟

کتنے افسوس کی بات ہے ہم سب سے ملتے ہیں اور جو سب سے قریب ہے اس سے دور بھاگتے ہیں ۔ رات کی تنہائی میں کبھی خود سے باتیں کریں ، کبھی اپنا درد اسے بتائیں ۔ اپنی خوشیاں اس سے شیئر کریں ۔ کبھی اپنی حوصلہ افزائی خود بھی تو کیا کریں ۔ یہ کیا کہ کسی نے تعریف کردی ، سراھا دیا اور آپ خوش ہو گئے ۔  اپنے آپ کو خوش رکھنا سیکھیں کیونکہ آپ کو آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور وہ جو آپ کا خالق ہے ۔

Wednesday 10 June 2020

Article# 59 موت کے گھر سے دو گھر چھوڑ کر ۔۔۔ آج کی تہذیب کا نوحہ




 موت کے گھر سے دو گھر چھوڑ کر ۔۔۔ 





تحریر :اظہر عزمی



 صبح کا وقت .... ساڑھے سات بجے
ابھی صبح کے کوئی ساڑھے سات بجے ہوں گے۔ زیب النسا اپنے پوپلے منہ کے ساتھ پھلکے اور رات کے شوربہ سے ناشتہ کر رہی تھیں کہ مسجد کے لائوڈ اسپیکر کی ہلکی سی گرگراہٹ ہوئی۔ مسجد کا مائیک اگر نماز کے علاوہ بول اٹھے تو سمجھیں کہ کسی کے مرنے کی خبر ہے یا کسی کا بچہ کھو گیا ہے یا کسی دوسرے محلے کا کھویا بچہ محلے میں آگیا ہے۔ گڑگڑاہٹ سنتے ہی زیب النسا کے منہ کا نوالہ حلق میں جہاں تھا وہیں رُکا رہ گیا، اعلان ہوا: 

ایک اعلان سماعت فرمائیں۔ قدیر احمد کی والدہ کا بہ رضائے الہی انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ نماز جنازہ مغرب پر ہوگی۔
یہ سننا تھا کہ زیب النسا نے بمشکل تمام نوالہ حلق میں اتارتے ہوئے، اپنا برقع لیا اور بھرائی ہوئی آواز میں گھر کے گیٹ کی طرف جاتے ہوئے بولیں: اے لو بھیا، نَسو گذر گئی۔
بہو بھی اس دوران کچن سے نکل آئی : اماں رکیں تو، میں ساتھ چلتی ہوں۔
زیب النسا کو قرار کہاں تھا۔ جاتے جاتے بولیں: اے بی بی تمھارا انتجار کیا تو نَسو کا چہرہ بھی نہ دیکھ پائوں گی۔ میں اتنی احدی نہیں۔ وہ گئی تو کیا پیچھو ہٹ جائوں۔ آنکھیں ہوئیں اوٹ، دل میں آیاکھوٹ، میں وِن میں سے نہیں۔
بہو کا جواب سنے بناء وہ چل دیں۔ پوتا اور پوتی بھی کمرے سے باہر نکل آئے۔ پوتا کالج اور پوتی اسکول جانے کے لئے تیار تھے۔ زیب النس اکے اکلوتے بیٹے قدرت اللہ ابھی سو رہے تھے۔ پوتے نے ماں سے پوچھا: دادی ماں تو رکی نہیں ہوںگی۔ اب تو سوئم کر کے ہی آئیں گی۔
بہو نے کہا : ہاں دیکھو میں روکتی رہ گی، پر وہ نہ رکیں۔ اب ایسی بھی کیا جلدی تھی۔ دو چار منٹ صبر کر لیتیں۔ جن کو مرنا تھا وہ تو مر گئیں۔ اب اماں کے جانے سے وہ اٹھ کر تو بیٹھنے سے رہیں۔

بیٹی نے بیگ کاندھے پر ڈالتے ہوئے کہا: بس امی ان آپ نہ جائیں۔ دادی ماں چلی گئیں۔ بہت ہے۔
بیٹا مسکرا کر بولا: بیسٹ فرینڈ تھیں دادی ماں کی۔ اکیلے کیسے رہیں گی اب؟
بیٹی نے بھی ہاں میں ہاں ملائی: پرانی فائلیں کلوز بھی تو ہونی ہیں۔
ماں نے ڈانٹتے ہوئے کہا: چپ ہو جاؤ۔ جو منہ میں آتا ہے بکے چلے جاتے ہو۔ ابو نے سن لیا تو کھال ادھیڑ دیں گے۔
لڑکا چڑ گیا: کوئی ان کے سامنے تھوڑی کہہ رہے ہیں امی۔
بیٹا بیٹی دونوں ساتھ نکل گئے۔ ماں نے بھی واپس کچن کی راہ لی۔ ساتھ ساتھ کہتی جاتی: نماز جنازہ تو مغرب پر ہے۔ ابھی گھر کے کئی کام پڑے ہیں۔ ان کے ابو کو بھی تو آفس جانا ہے۔
زیب النسا کوئی 70سے اوپر کی ہوں گی مگر لگتی نہیں ہیں۔ اوپر تلے چار بچے ہوئے مگر خدا کی قدرت دیکھئے صرف قدرت اللہ ہی بچے۔ ناز و نخرے سے پلے تھے۔ اس لئے بس خود میں ہی مگن رہے۔ زیب النسا اُدھار کسی کا نہیں رکھتی ہیں۔ اگر بات بری لگ جائے تو تڑاخ سے جواب منہ پر دے مارتی ہیں۔ یہ سب کچھ صحیح پر رکھ رکھائو بہت ہے۔ رشتے داری، محلے داری کیسے نبھائی جاتی ہے۔ سب طور طریقے جانتی ہیں۔ لہجہ ضرور سخت ہے لیکن دل کی بہت نرم ہیں مگر بہو کے بقول دل چیر کر کون دیکھتا ہے۔ ایک جملے سے کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ عام طور پر ہلکے رنگ کی آدھی آستین کی ڈھیلی قمیض اور سفید غرارہ پہنتی ہیں۔ سفید دوپٹہ ہمیشہ سر پر ہوتا ہے۔ سر کا ایک بال بال سفید ہے۔ رنگ گورا ہے اور شکل صورت کی بھی اچھی ہیں۔ اس لئے دیکھنے میں بارعب اور پُر وقار لگتی ہیں۔
موتیا کی خوشبو بہت پسند ہے۔ موتیا کا موسم آئے تو اس کے پھول کانوں میں بطور بندہ پہنتی ہیں۔ ایک دن پرانے ہو جائیں توپاندان میں رکھ لیتی ہیں۔ پہلے بالوں اور ہاتھوں پر گہری مہندی لگا لیا کرتی تھیں۔ پوتا پوتی نے کہا کہ اماں یہ کیا پرانے زمانے کی ہیروئن بن جاتی ہیں تو پھر یہ شوق ختم ہوگیا۔ پہلے تو خوب ہی پوتا پوتی سے لڑیں کہ تم کون ہووئے ہو مہندی سے روکنے والے۔ ارے ہمیں تو کبھی ہمارے شوہر نے نہ روکا۔ بس ایک پاندان پر زیب النسا نے کسی کی نہ مانی۔ ہر ہفتے پورا پاندان دھلتاہے۔ ایک ایک شکوری صاف ہوتی ہے لیکن کسی کی مجال نہیں کہ پاندان کو ہاتھ بھی لگا لے۔ پوتا کبھی کبھی چھپ کر تھوڑی سی تمباکو پھانک لیتا ہے۔ پان کھاتی ہیں تو پان کی ہلکی ہلکی سی لالی ان کے ہونٹوں پر آجاتی ہے۔ چھالیہ کی کٹر کٹر کے ساتھ بات کرتی ہیں تو جملہ اور کٹیلا ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی اکیلے میں ہلکا سا گنگنا بھی لیتی ہیں۔
پان کھائے سیاں ہمارو، سانولی صورتیا ہونٹ لال لال 
ہئے ہئے ململ کا کرتا، ململ کے کرتے پہ چھینٹ لا ل لال
دوپہر کا وقت ۔۔۔ تین بجے
دادی ماں نے برقع اتار کر اپنے نماز والے تخت پر رکھا ہی تھا کہ بہو آگئی: اماں کیا ہوا۔ آ کیسے گئیں؟
دادی ماں نے دوپٹے کو ہاتھ کا پنکھا بناتے ہوئے جھلنا شروع کیا اور بولیں: میں کاں آنے کو تھی۔ نسو کی بیٹی نے کہا۔ جرا کمر ٹِکا کے آجائیں۔ ایک گلاس ٹھنڈا پانی تو لادے بہو۔
بہو ٹھنڈا پانی اور ساتھ میں گولیاں لے آئی۔ تین گھونٹ میں پانی پی کر بولیں: بڑی جوروں کی پیاس تھی۔ حلک کھوشک ہوئے جاریا تھا۔
بہو نے گولیاں آگے بڑھائیں تو ہاتھ کے اشارے سے منع کردیں۔ بہو نے صرف ا تنا کہا کہ تین دن سے کوئی گولی نہیں کھائی ہے۔ زیب النسا نے سنی ان سنی کردی۔
پوتا پوتی بھی کمرے سے نکل آئے۔ پوتا پوتی کو دیکھا تو بیٹے کا خیال آیا: جے قدرت اللہ نہ گیا واں۔ کتی بری بات ہے؟
بہو کو پتہ تھا کہ آگے سے کیا جواب آنا تھا، جھجھک کر بولی: وہ اماں انہیں ضروری کام تھا آفس میں۔
زیب النساکو تو جیسے آگ لگ گئی: وِس سے کہہ دینا میرے زنازے والے روز بھی دفتر چلا زاوئے۔ مرنا تو آئے دن کا ہے۔ جروری کام تو موا یہ دفتر کا جانا ہے۔ وہ میرے وہ زنازے میں بھی نہیں آئے گا۔
بہو خاموشی سے سب سنتی رہی۔ زیب النسا کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر پھٹ پڑیں: اے بی بی چلو تمھارے میاں تو گئے دفتر، پر تم کو کاہے کی مزبوری تھی۔ کچھ دیر کو آزاتیں۔ اب کیا میت کے بھی دعوت نامے دیئے جاویں گے؟
بہو نے بات بناتے ہوئے کہا: وہ بچے دو بجے تک جو آجاتے ہیں۔ بس ان کو کھانا کھلا کر آرہی تھی۔
زیبالنسا پھر غصے میں آگئیں: ارے توبہ تلا کرو۔ جوان جہاں لڑکی ہے۔ کیا کھانا بھی نہ نکالا سکے ہے۔ ویسے اُدماد کرتی پھرے ہے۔
بہو اب پوتے کی طرف جا نکلیں: اور تو بتا۔ نسو کا لمڈا تو تیرا دوست ہے تو نے منہ بھی دکھایا وِس کی طرف۔ ارے شرم کر شرم
پوتے نے بڑے یقین سے کہا: ہاں تو دادی ماں مغرب پر ہے ناں نماز۔ مسجد چلا جائوں گا۔
زیب النسابولیں: شادی نہ ہو گئی موئی بارات ہو گئی۔ وکت کے وکت چلے جاویں گے۔ مرنا زینا سب کے ساتھ ہے۔
اچانچک سے بلاوا آجاوئے ہے۔ اب بتا نسو کا پتہ تھا کسی کو۔ رات کو وِس نے کھانا کھایا۔ اچھی بھلی تھی۔ سُبھے بہو اٹھانے گئی پر نسو نہ اٹھی۔
یہ ہے زندگی۔
پوتی بول پڑی: دادی ماں۔ کچھ نیاتھوڑی ہے۔ سب ایسے ہی جاتے ہیں۔ انوی ٹیشن کس کو آتا ہے؟
زیب النسا انوی ٹیشن کا مطلب نہ سمجھ پائیں۔ اشارے سے پوتے سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ دعوت نامہ کہہ رہی ہے۔ زیب النسا نے بہو کی طرف دیکھ کر کہا: اپنے حدادہ کھو دیا ہے اس نے، ذرا سمجھا کے رکھ۔
بہو نے ایک نظر بیٹی کو غصے سے دیکھا اور بات کا رُخ موڑنے کی کوشش کی: اماں یہ بتائیں۔ اتنی دیر سے کیوں دفنا رہے ہیں۔ انتقال تو صبح ہوا تھا۔
زیب النسانے پاندان سے پان کی ٹکڑی پر کھتا چونا لگا کر اس پر ہرن چھاپ تمباکو رکھتے ہوئے کہا: نسو کا چھوٹا بیٹا دوبی میں رہوئے ہے۔ وِس کا انتجار ہے۔ شام میں آریا ہے لیکن وہ قدیر احمدلاہور سے نہیں آریا ہے۔ کہہ ریا ہے ٹکٹ نہیں مل ریا، دفنا دو۔ لگے ہے خون کے رشتے دفنائے جا رہے ہیں۔
بہو نے مزید دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا: یہ تو بہت بری بات ہے لیکن اماں گھر میں کہرام ہوگا؟بہو بیٹیوں کا توبرا حال ہوگا؟
زیب النساء کچھ لمحے بہو کو دیکھتی رہیں، پھرہاتھ کو جھٹکا دیتے ہوئے گویا ہوئیں:دونوں بہوئیں دیدہ پھٹی کھڑی تھیں۔ میکے سے کوئی فون آجاوے کسی دور پرے کی غمی کا پھر دیکھو کیسے پلک موتنی بنتی ہیں۔ بس نسوکی بیٹیاں ہی رو رو کر ہلکان ہو جا ری تھیں۔ بہوئیں تو بس ایک طرف کو کھڑی تھیں۔ چھوٹی بیٹی تو ایک باری بے حوش بھی ہوگئی۔ اللہ قسم، پیچھو پکڑنے وِسے کوئی بھی نہ آیا۔ مجھ بڈھی نے نے بڑھ کر سنبھالا دیا۔ جس کا مرے ہے بس وہی رو رو مرے ہے۔ باقی تو بس دنیا داری ہے۔ ارے اب تو وہ دنیا داری بھی نہ رہی ہے۔
بہو پر براہِ راست حملہ تھا۔ منہ سے تو کچھ نہ بولیں اور کچن کو چلتی بنیں۔ اب زیب النسا رہ گئیں اور پوتا۔ زیب النساء اپنے تخت پر ہی لیٹتے ہوئے خود سے بولیں اے بھیا کچھ دیر کمر کو ٹِکالوں پھر جاتی ہوں۔ پوتا جانے لگا توروک لیا: کہاں چلا؟
ـ پوتا دادی ماں کی باتوں سے بری طرح بور ہوچکا تھا : کیا ہے دادی اماں جب سے آئی ہیں، ایک ہی بات کئے جا رہی ہو، وہیں بیٹھی رہتیں۔
لگتا ہے جیسے یہاں کچھ ہوگیا ہے۔
زیب النساجواب میں اپنی اپنی موت کو لے آئیں : ارے تو نہ آنا ہمارے زنازے پر۔ تجھ سے تو مجھے ایک فاتحہ کی امید نئی ہے
اب لڑکے کو ذرا تفریح سوجھ گئی: اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔ قرآن شریف تو آپ ہی نے پڑھایا ہے
زیب النسا تو جیسے تیار بٹیھی تھیں: تیرا تو شین قاف درست نا ہے۔ زیر زبر تو کھا جاوئے۔ نماز صحیح پڑھ لے تو بہت ہے
بہو نے کچن میں یہ سنا تو ہلکے سے بولی: ـ خود کو تو ولا الضالین صحیح طرح کہنا آتا نہیں۔ بچے کو کہہ رہی ہیں زیر زبر تو کھا جاوئے
زیب النسانے پوتے کو پیار سے اپنے پاس بلایااور بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑی چاہ سے کہا۔ صاف لگ رہاتھا کہ ان کے لہجے میں التجا ہے: تیرا باوا نہ جاوئے تو تو چلا آئیو۔ دو گھر چھوڑ کر تو نسو کا گھر ہے۔ محلہ بھی گھر جیسا ہووئے ہے۔ کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔ گھر سے دادی کے سوا کوئی نہ آیا۔ قبرستان بھلے نہ جائیو پر نماز تو پڑھ لیجو، میری قسم۔ دیکھ ابھی نسو کے شوہر کی چھ ماہی بھی نہ ہوئی اور اب نسو بھی چل بسی۔ لگے ہے موت کے فرشتے نے گھرویکھ لیا ہے۔
پوتے کو اس تقریر سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اپنے بالوں سے دادی ماں کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا: دادی ماںاب موت کا فرشتہ گھر نہیں پورا محلہ دیکھتا ہے۔
رات کا وقت ۔۔۔ دس بجے
زیب النسا گھر میں داخل ہوئیں تو سب گھر میں کھانا کھا رہے تھے۔ بیٹا اور بہو سہم گئے کہ اب ڈانٹ پھٹکار ہوگی۔ قدرت اللہ پلیٹ میں پڑی آخری بوٹی کو روٹی تلے دبانے میں لگ گئے۔ بہو بہانے سے سالن کا ڈونگا اٹھائے کچن کی طرف چل دی۔ پوتا پوتی نے تو دادی ماں کی طرف پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ گلی کی موت تھی جنازے میں کوئی نہیں گیا تھا۔ زیب النسا ایک لفظ نہ پٹکیں، خاموشی سے برقع اتارا۔ وضو کیا اور نماز پڑھنے بیٹھ گئیں۔ بہو نے کھانے کا پوچھا تو اشارے سے منع کردیا۔ اللہ جانے کب تک نماز پڑھتی رہیں۔ کچھ دیر تو بہو جاگتی رہی کہ نماز ختم ہو تو کھانا دوں مگر آج تولگتا تھا زینب النسا ساری نمازیں پڑھ لیں گی۔
صبح پھر مسجد کا لاوڈ اسپیکر گڑگڑاہٹ سے کھلا اور ایک مختصر سا اعلان کر کے چُپ ہوگیا: ایک اعلان سماعت فرمائیں۔ قدرت اللہ کی والدہ کا کل رات بہ رضائے الہی انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نماز جنازہ ظہر پر ہوگی۔

Monday 8 June 2020

Article # 58 آدھی رات کا تیل جلانا ۔۔۔۔ پھر آنا ۔ کلائنٹ کے قصے ، مزے مزے کے(5)

Article # 58

کلائنٹس کے قصے ۔۔۔ مزے مزے کے (5)

آدھی رات کا تیل جلانا ۔۔۔۔ پھر آنا !


تحریر : اظہر عزمی 
(ایک اشتہاری کی باتیں)

 پوری زندگی کلائنٹ کلائنٹ کھیلتے کھیلتے گذری ہے ۔ مختلف الخیال و کھال لوگ ملے ۔ کچھ بالغ النظر ہوتے ہیں تو کچھ غالب المزاج ۔ کچھ ایڈورٹائزنگ کو سمجھتے ہیں اور کچھ آپ کو سمجھا دیتے ہیں ۔ایڈورٹائزنگ میں آگر آپ کا تعلق شعبہ تخلیق سے ہے تو یہ سوچ کر آئیں کہ یہ پھولوں کئ سیج نہیں ۔ تعمیل ارشاد میں آپ کو وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جس کی فرمائش کی جا رہی ہو ۔ 

میٹنگ میں اگر تخلیق کار مراد کاپی رائٹر / کانسپٹ رائٹر خود بریف لے رہا ہے تو میں اسے فرسٹ ہینڈ بریف کہتا ہوں  اور یہ بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچا لیتی ہے ۔ وجہ بہت سادہ سی ہے ۔ بریف میں الفاظ کے ساتھ ساتھ کلائنٹ کا بتانا اور مخصوص انداز سے کسی بات پر زور دینا ہمارے لئے بڑا معاون ہوتا ہے ۔ چہرے کے تاثرات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ دوران گفتگو کلائنٹ اپنی سوچ بھی بتا دیتا ہے ۔ کچھ تو آپ کو بنیادی کانسپٹ بھی بتا دیتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے کہا کہ کچھ غالب المزاج بھی ہوتے ہیں ۔ اگر تخلیق کار اس وقت پوری طرح تازہ ذہن کے ساتھ ہو تو دوران بریف ہی کانسپٹس کا ابتدائی خاکہ بننا شروع ہوجاتا ہے ۔ 

سالوں پہلے ایک کلائنٹ  سے براہ راست بریف لیتے ہوئے ذہن میں خیال / خیالات  آدھمکے۔ آفس آئے تو انہیں سینہ قرطاس پر منتقل کر دیا ۔ دو فون بعد کلائنٹ کے پاس پہنچے ۔خیال تھا کہ وہ مسرور و شاداں ہوں گے ۔ مگر جناب ان کا تو موڈ ہی آف ہوگیا ۔ بولے آپ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ میں نے آپ کو اپنے فلیگ شپ برانڈ کی بریف دی ہے اور آپ اسے روٹین کا کام سمجھ رہے ہیں ۔ جائیے ! دس بارہ دن دماغ لڑائیے پھر آئیے ۔ اگلی میٹنگ کے لئے دن اور وقت کا تعین ہوا اور ہم  نے واپسی کی راہ لی ۔ آفس آتے ہی رائٹنگ پیڈ ایک کونے پر رکھا اور دوسروں کاموں میں لگ گئے ۔ وہ دن بھی آگیا ۔ پوچھا گیا کچھ کیا ۔ہم نے کہا ہاں سوچ رہے ہیں ۔ ہوتے ہوتے دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا ۔ 3 بجے کی میٹنگ تھی ۔ میں اور کلائنٹ سروس مینجر ساتھ نکلے ۔ اس نے پھر کہا کہ بھائئ کچھ لکھ لیا ہے ۔ ہم نے کہا تم گاڑی چلاو ۔ میں دماغ چلاتا ہوں ۔ راستہ کوئی 15 سے 20 منٹ کا ہوگا ۔

راستے میں کانسپٹس  لکھنا شروع کئے ۔ آپ کو تو پتہ ہے دوپہر کے کھانے کے بعد طبیعت سستی کی طرف مائل ہوتی ہے ۔ ایک کانسپٹ راستے میں لکھ مارا ۔ اس دوران کلائنٹ کا دفتر آگیا ۔ میں نے کلائنٹ سروس مینجر سے کہا کہ تم کلائنٹ کے دفتر پہنچو  ۔ میں اس دوران گاڑی میں بیٹھ کر ہی دوسرا کانسپٹ لکھ لیتا ہوں ۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا ۔ میں نے کہا ہاں کلائنٹ وقت کا پابند ہے اور ہم وعدے کے ۔ میں نے کہا گاڑی کی چابی مجھے دو ، بس میں ابھی آیا ۔ کہنے لگا کلائنٹ گیا تو تم وجہ ہو گے۔ میں نے ایک اور کانسپٹ جیسے تیسے لکھا اور وقت مقررہ پر اوپر پہنچ گیا ۔ پہلے تو کلائنٹ سے ایک تقریر دلپذیر کی اور اس بات کی تائید کی کہ مستند تھا آپ کا فرمایا ہوا ۔ اس کے بعد دونوں کانسپٹس سنا دیئے ۔ اب کلائنٹ کے رسپانس کا انتظار تھا ۔

 یہ وقت بڑا جاں کنی کا ہوتا  ہے ۔ سمجھیں میٹرک کا رزلٹ آگیا ہے اور آپ اپنا نمبر ڈھونڈ رہے ہیں ۔ کچھ کلائنٹ تو کانسپٹ سناتے ہی رائے زن ہو جاتے ہیں ۔کچھ ذرا تحمل مزاجی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ نتیجے کا انتظار تھا ۔ کلائنٹ سروس مینجر مجھے ٹانگ مارے کہ اب دیکھو کیا ہوتا ہے ۔ پھر کچھ ایسا ہوا جو کم کم ہی ہوتا ہے ۔ کلائنٹ اٹھا ، لگا کہ کمرے سے گیٹ آوٹ کا مژدہ سنائے گا لیکن یہ کیا ؟ اس نے تالی بجانا شروع کردی ۔ تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ کہنے لگا  دیکھیں انہیں کہتے ہیں کانسپٹس ، اس دن تو بس آپ خانہ پری کر لائے تھے ۔ اب انہیں کیا بتاتے کہ آج کھانا پری کر کے آئے ۔

 بہت خوش تھے ۔انگریزی میں گویا ہوئے :

You had to burn midnight night for creating such out of the box concepts and you did it.

اب انہیں کون بتاتا کہ آپ آدھی رات  کے تیل جلانے کی بات کر رہے ہیں ۔ اس بار تو تلوں میں تیل تھا ہی نہیں ۔ جو تھا وہ پہلے ہی گوش گذار کر دیا تھا ۔

Thursday 4 June 2020

Article # 57 ہی- فون زندگی میں آگر یہ نہ ہو تو سب بیکار ہے

Article # 57



P-Phone

کیا یہ آپ کے پاس ہے ۔ ممکن ہے ہو 



  تحریر : اظہر عزمی

(ایک اشتہاری کی باتیں)



کل میری بیرونِ ملک مقیم ایک دوست سے بات ہوئی تو اس نے پی۔ فون کی خبر سنائی۔ میں نے کہا کہ آئی فون کا تو سنا ہے اور بھی موبائل فونز ہیں پریہ پی۔ فون کب آیا؟ بولا یہ بتائو تم اس کے بارے میں جاننا چاھوں گے ؟میں نے کہا کہ کیوں نہیں۔ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد کہنے لگا تم ایڈورٹائزنگ کے آدمی ہو۔ کبھی کی اصطلاح ورٹیکلی انٹریگیٹڈ کمپنی کی اصطلاح تو سنی ہوگی؟ میں نے کہا کہ ہاں وہ کمپنی جو نج سے تج سارے کا سارا کام خود ہی کرتی ہے مطلب اگر کوئی کمپنی اپنی پروڈکٹ بنا رہی ہے تو اس کی تیاری سے لے کر صارف تک پہنچانا اسی کی ذمہ داری ہے۔کہنے لگا کہ پی۔ فون آرٹیکل ابٹریگیٹڈ کمپنی  کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ کمپنی کازیادہ تر وقت اسی میں صرف ہو جاتا ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز نے کہا ہمارے ساتھ اشتراک میں کچھ اور بھی بنا لیں۔ جواب ہمیشہ نفی میں آیا۔ پی۔ فون کےایکسکلیوسو رائٹس صرف اسی کمپنی کے پاس ہیں۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا آئی ٹی اسپیشلسٹیں بھئ ان کی یہ پروڈکٹ کاپی نہیں کر سکتا بلکہ سسٹم میں گھس ہی نہیں سکتا۔
میں نے چاھا کہ اس دوران  پر گوگل بھی سرچ کر لوں۔ نہ جانے اس کیسے خبر ہو گئی ـ۔ بولا تم کوئی بھی سرچ انجن تلاش لو۔ دور دور تک کوئی لنک نہیں ملے گا۔ میں نے کہا پھر تو یہ کوئی کہانی لگتی ہے۔ ایڈورٹائزنگ کے بغیر تو آج کل مٹی نہیں بکتی۔ دوست کسی بات کو خاطر میں نہیں لا رہاتھا۔ میں نے کہا کہ جب پروڈکٹ میں جان ہو تو کسی ایڈ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پی۔ فون ملنے کی ایک مخصوص اہلیت ہے۔ اگر آپ میں وہ نہیں تو آپ سر پٹخ لیں۔ کچھ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا سب صحیح لیکن اس کی خاص بات کیا ہے؟ اس نے مجھ سے کہا پوچھو؟ میں نے کہا کہ آج کی ٹیکنالوجی صبح کچھ ہوتی ہے تو شام کچھ۔ آئے دن نئے فیچرز، نئے ماڈلز آتے رہتے ہیں۔ اس نے کہا کہ تم صبح، شام کی بات کر رہے ہو اس کا بلٹ ان میکنزم لمحاتی تبدیلوں تک پر پورا اترتا ہے۔ اس کا ماڈل اور فیچرز آنے والے ہر زمانے سے مطابقت بنا لیتے ہیں۔
پی۔ فون تو مجھے حیران کئے جا رہا تھا۔ میں نے سوچا بیٹری کی لائف اور چارجنگ تو سب ہی کا مسئلہ ہے۔ کہنے لگا اس کی بیٹری لائف ٹائم ہے۔ اسے کسی چارجر کی ضرورت نہیں۔ پی۔ فون ہاتھ کے لمس سے چارج ہوجاتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ پی۔ فون کس کے نام پر ایکٹیویٹ ہوا ہے۔ دوست کے پاس ہر بات کا جواب تھالیکن میں بھی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ میں نے کہا کہ سِم کیسے ملتی ہے؟ مسکرایا اور بولا کہ سِم اس میں پہلے سے موجود ہے جس کا پی۔ فون ہے۔ سِم خود بہ خود اس کے نام پر ہوجاتی ہے۔ کسی تھمب ایمپریشن  کی ضرورت نہیں پڑتی۔ میں جانتا ہوں تمھارا اگلا سوال پاس ورڈ کا ہوگا۔ اس کے پاس ورڈ کا اگر پوری دنیا کو بھی پتہ چل جائے تو تب بھی پی۔ فون صرف وہی کھول سکتا ہے جس کے نام پر یہ ایکٹیویٹ  ہواہے۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کس قسم کے موبائل فون کی باتیں کر رہا ہے۔ دوست کو کہا کہ تم جتنی تعریفیں کر لو۔ سگنل کا پرابلم تو رہتا ہی ہے۔ دوست نے کہا کہ پرابلم کس بات کی۔ اس کے سگنل کیچ کرنے کی صلاحیت کئی کلو میٹرز تک پھیلی ہوئی ہے۔ بہت معمولی سے سگنل بھی ہو تو باقی کمی خود پوری کر لیتاہے۔ تھک ہار کر میں نے کہا کہ میموری تو ہر حال میں کبھی نہ کبھی کم پڑ ہی جاتی ہے۔ دوست نے پھر حیران کردیا۔ کہنے لگا۔  جی بی والا سلسلہ اس میں ہے ہی نہیں۔  کبھی نہ ختم ہونے میموری جیسی حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔ دوست نے کہا جب میں تمھیں اس کی سروسز کے بارے میں بتائوں گا تو تمھاری حیرانگی آسمان کو چھوئے گی۔ پی۔ فون کابِل آپ کو ادا نہیں کرنا ہوتا جنہیںآپ کال کرتے ہیں۔ وہ ادا کرتے ہیں۔ یہ لائف ٹائم پیکیج ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ آئے دن ڈسکائونٹس دیتا رہتا ہے۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔ کوئی پاگل ہی ہوگا کہ کال میں کروں اور ادا وہ کرے۔ وہ کال کرنا تو دور کی بات میری کال ہی کاٹ دے گا۔
دوست نے بتایاکہ پی۔ فون کی خاص بات یہ ہے کہ آپ جس کو کال کریں گے وہ ہر صورت آپ کو جواب دے گا کیونکہ جس کا نمبر پی۔ فون کا ہوگا وہ سب سے اہم ہوگا۔ بس پی۔ فون میں ایک خرابی ہے۔ میں نے سوچا اب دوست کہے گا کہ یہ ہے ہی نہیں۔ کہنے لگا اس میں مخصوص نمبرز محفوظ وہ بھی کم تعداد میں  ہو سکتے ہیں جس کا فیصلہ پی۔ فون خود کرتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ
ایک مرتبہ  محفوظ کر لے تو پھر کبھی ڈیلیٹ ،   ہائیڈ یا بلاک نہیں کرتا۔ مجھے موقع مل گیاہاں تو بھائی پھر فائدہ کیا ایسے فون کا کہ ہم اپنے نمبرز بھی ایڈ نہ کر سکیں۔ دوست نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیااور بولا اس میں بھی آپ کا ہی فائدہ ہے۔ اچھا سنو! ان خوبیوں کا تو تم عام موبائل فونز سے شاید مقابلہ کر سکتے ہو لیکن اب جو کچھ میں تمھیں بتانے جا رہا ہوں وہ ذرا مختلف ہے۔ بلڈ پریشر، شوگر، دل کی دھڑکن تو موبائل فونز بتا دیتے ہیں لیکن پی۔ فون آپ کے احساسات اور جذبات سیکنڈوں میں جان لیتا ہے۔ آپ غصے، پریشانی، گھبراہٹ جس کیفیت میں بھی ہوں جانچ لیتا ہے اور پھر آپ کو مطمئن رکھنے اور اس صورتِ حال سے نکلنے کے لئے ایس ایم ایس کرتا رہتا ہے۔ خوش ہوں تو تہینیتی پیغامات بھیج کر مبارکباد دیتاہے۔ نیٹ ورک کے اور نمبروں کو بتاتا ہے۔ گر آپ اپنی راہ سے ہٹ کر چلیں تو مطلع کرتا ہے کہ یہ آپ کا راستہ نہیں۔ نہ مانیں تو بار بار مطلع کرتا ہے۔ اگر آپ دل ہی دل میں صبح اٹھنے، کہیں جانے کا سوچ لیں تو سمجھیں اب یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ یہ حقیقت میں آپ کے دل و دماغ سے منسلک ہوتا ہے۔
جب دوست نے اتنا کچھ کہہ دیا تو میں نے پوچھا بھائی یہ تو بہت مہنگا ہوگا اورخطرناک بھی۔ ہم تو پتہ نہیں کیا سوچتے رہتے ہیں۔ دوست نے کہا کہ مہنگا ترین ہے لیکن سستا ہے اور جہاں تک بات خطرناک ہونے کی ہے تو یہ رازدار ہے۔ سمجھاتا ہے بہکاتا نہیں۔ میں نے کہا کہ سائنس کی ترقی نے دنیا کیا سے کیا کردی ہے۔ دوست نے بتایا کہ سائنس کا اس ٹیکنالوجی سے کوئی تعلق نہیں۔ پی۔ فون دنیا کی سب سے پرانی ٹیکنالوجی سے بنا ہے۔ اس وقت ہماری سائنس غار کے اندھیروں میں، میں، پہاڑوں کی سختیوں میں، سمندروں کی گہرائیوں میں اورفضا کی بلندیوں میں کہیں سو رہی تھی۔ میں چونک گیا۔ وہ بولتا چلا گیا۔ اگر ہم اسے اپنی دنیا میں ٹیکنالوجی کہتے ہو تویہ اس وقت سے ہے جب سے انسان زمین پر آیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی والدین کے دل و دماغ میں ڈالی گئی ہے جسے شفقت ِ والدین کہتے ہیں۔ ایک ایسی شفقت جو بے لوث، بے خوف اور کسی لالچ، صلے، ستائش اور انعام کے بغیر ہے۔ آ ج کل کیونکہ انگریزی کا زور ہے اس لئے اسے پیرنٹس فون کی وجہ سے پی۔ فون کہہ رہا ہوں۔ ورنہ یہ پی۔ فون تو اسی وقت وجود میں آگیا تھا جب اشرف المخلوقات نے پہلے بچے کو جنم دیا تھا۔ فیچرز روز ِاوّل سے ایک جیسے ہیں۔ آپ اسے ٹیکنالوجی کہتے ہیں ورنہ زندگی تو اسے شفقتِ والدین کہتی ہے چاھے اولاد عمر کے کسی بھی حصے میں ہو۔ یہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا بے تار مگر لگا تار نیٹ ورک ہے جسے قدرت نے والدین کے دل و دماغ میں قائم کیا ہے اور قیامت تک رہے گا۔ والدین دنیا میں نہ بھی ہوں توان کی طرف سے کسی نہ کسی طور کنکشن برقرار رہتا ہے۔ چاھے آپ والدین کو یاد رکھیں نہ رکھیں، وہ نہیں بھولتے۔
میں نے اس سے آخری سوال کر ڈالا کہ تمھیں پی۔ فون کا کب پتہ چلا۔ اداس ہوگیا، بولا کہ جب والدین دنیا میں نہ رہے ۔
اکثر لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ اب اس کی سسکیوں کی آواز آرہی تھی۔ پھر ایک دم لگا کہ وہ کسی سے کہہ رہا ہے ـ”اچھا، نہیں روتا”۔ مجھے لگا کہ اس کا کنکشن ہوگیا ہے۔

عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں . Article 91

Article # 91 رنج و مزاح  عمر بڑھ جائے تو ایک محترمہ سے بچ کر رہیں  تحریر : اظہر عزمی ہمارے ایک دوست بہت دلچسپ ہیں ۔ گفتگو میں آخر تک تجسس و ...